ایکونائٹ نیپیلس ACONITUM NAPELLUS

ہومیوپیتھی کو اگر آپ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر عبور حاصل کر لیں تو روزمرہ کی بیماریاں اکثر آغاز ہی میں قابو آ جائیں گی اور مزید پیچیدگی پیدا نہیں ہو گی۔ بیماریوں کے آغاز میں ایکونائٹ کا نمبر پہلا ہے جس کا پورا نام Aconitum Napellusہے۔ ار،دو میں اسے ’’میٹھا تیلیا‘‘ کہا جاتا ہے مگر عام طور پر یہ ایکونائٹ کے نام سے ہی مشہور ہے۔
یہ ایک زہر ہے جس کا انسانی جسم کے مختلف حصوں پر اثر پڑتا ہے۔ کچھ تو طب کی کتابوں میں روایتی طور پر دوسرے زہروں کی طرح اس کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن زیادہ تر تفصیلی اور باریک اثرات کا علم ڈاکٹر ہانیمن اور ہومیوپیتھی کا تجربہ کرنے والے دوسرے ڈاکٹروں نے اپنی اپنی ذات پر آزمائش (Proving) کے ذریعے حاصل کیا۔
آزمائش کا طریقہ یہ نہیں کہ ایکونائٹ یا کسی اور زہر کو خالص حالت میں استعمال کر لیا جائے بلکہ جو بنیادی اصول ہانیمن نے پیش کیا اور ایکونائٹ کے حوالے سے اسے ثابت کیا وہ یہ تھا کہ اگر کسی زہر کو ہلکا کرکے کالعدم کر دیں کہ وہ بالکل خفیف اور زہریلے اثر کے لحاظ سے غیر مؤثر ہو چکا ہو۔ یہ اگر کسی صحت مند انسان کو بار بار دیا جائے تو جسم اس کی مسلسل چوٹ سے مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف ردعمل دکھانے کی بجائے ایسی علامتیں ظاہر کرتا ہے جو اصل زہر میں تھیں لیکن یہ علامتیں اتنی خطرناک نہیں ہوتیں کہ مستقل نقصان پہنچائیں یا زندگی کے لئے خطرہ بن جائیں بلکہ خفیف اور عارضی ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ اصل زہر کا مزاج نہایت باریکی اور تفصیل سے سمجھا جا سکتا ہے۔ زہروں یا دوائوں کی گہری پہچان کے لئے یہ طریق جسے پروونگ (Proving) کہا جاتا ہے ،
نہایت مؤثر ہے۔ اس طریق آزمائش سے ایکونائٹ کی جو خصوصیات سامنے آئیں ان میں انتہائی خوف، بیماری کی شدت اور اچانک پن نمایاں ہیں۔ بیماری اچانک حملہ کرتی ہے اور مریض خیال کرتا ہے کہ وہ اس بیماری سے بچ نہ سکے گا۔
ایکونائٹ عموماً خشک اور ٹھنڈے موسم کی دوا کہلاتی ہے کیونکہ اس کی بیماریاں زیادہ تر خشک سرد موسم میں لگتی ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ ایکونائٹ صرف سرد خشک موسم کی بیماریوں میں ہی استعمال ہو۔ ہر قسم کی بیماریاں ہر موسم میں اگر اچانک اور تیزی سے شروع ہوں اور شدید خوف دامن گیر ہو تو بلا تردد ایکونائٹ کا استعمال کرنا چاہئے۔
ایکونائٹ کو اگر رسٹاکس سے ملا کر دیا جائے تو یہ نسخہ بیماریوں کے آغاز میں اور بھی زیادہ مؤثر اور وسیع الاثر ثابت ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہ اسپرین (Asprin) کا بہترین بدل ہے۔ ہر ایسی بیماری کے آغاز میں جس میں بے چینی اور بخار کی کیفیت ہو اور محسوس ہوتا ہو کہ کچھ ہونے والا ہے ایکونائٹ اور رسٹاکس کی 200طاقت میں دو تین خوراکیں بیماری کو آغاز ہی میں ختم کر دیتی ہیں۔ ایک دفعہ میرے موجودہ سیکورٹی آفیسر (ریٹائرڈ میجر محمود احمد صاحب) ہمارے ساتھ سائیکلنگ پر گئے۔ سخت بارش ہو رہی تھی اور سردی بھی بہت تھی۔ ہم سب بھیگ گئے۔ صبح انہیں بخار ہو گیا اور جسم میں شدید درد تھا۔ انہیں ایکونائٹ (Acconite) +200 رسٹاکس (Rhustox) 200ملا کر اور آرنیکا (Arnica) +200 برائیونیا (Bryonia) 200ملا کر نصف نصف گھنٹے کے وقفہ سے باری باری کھانے کی ہدایت دی گئی تو چند گھنٹوں میں بیماری کا نام و نشان باقی نہ رہا اور وہ پوری صحت کے ساتھ ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے۔ سردی اور بھیگنے کے نتیجہ میں محض ایکونائٹ اور رسٹاکس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے بلکہ آرنیکا اور برائیونیا کو بھی ملا کر باری باری دینا چاہئے۔
یہ نسخہ میں نے لمبے تجربہ کے بعد اخذ کیا ہے۔ اس کا انتڑیوں، پھیپھڑوں اور میعادی بخار سے بھی تعلق ہے اس کے علاوہ ملیریا اور پیچش پر بھی فوری اثر کرتا ہے۔ بسااوقات بیماری کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ان دوائوں کے بس میں نہیں ہوتی اور
بالمثل صحیح دوا کے استعمال کے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بعض دفعہ انفلوئنزا کے آغاز میں یہ نسخہ ناکام ہو جاتا ہے سوائے اس کے کہ بالکل شروع میں دیا جائے۔ اگر ذرا دیر ہو جائے تو پھر انفلوئنزا کی دوسری بالمثل دوائیں دینی پڑیں گی۔
عرصے کے لحاظ سے بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک حاد (Acute) یعنی آناً فاناً شدت سے حملہ آور ہونے والی جو ٹھیک بھی جلد ہو جاتی ہیں۔ دوسری مزمن (Chronic) بیماریاں جو آہستہ آہستہ جسم میں نفوذ کرتی ہیں۔ لمبی بیماریوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ تھوڑا عرصہ رہنے والی ہیں جیسے ٹائیفائیڈ وغیرہ اور کچھ لمبا عرصہ جسم سے چمٹ جانے والی ہیں۔ مثلاً تپ دق، دمہ یا پھر غدودوں کا آہستہ آہستہ پھول کر کینسر میں تبدیل ہو جانا۔ ایکونائٹ کو حاد بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی دوائوں میں سرفہرست رکھا جاتا ہے۔
گردے کے درد شروع ہونے پر ایکونائٹ (Aconite) 1000کو بیلاڈونا (Belladonna) 1000کے ساتھ ملا کر پندرہ منٹ کے وقفہ سے دو خوراکیں دی جائیں تو متعدد مریضوں کو فوری فائدہ ہوتا ہے۔ ہاں اگر گردے کے تشنجی درد کو گرمی سے آرام آتا ہو تو یہ نسخہ کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ یہ صرف ان مریضوں میں کام کرے گا جن کو گرم ٹکور نقصان پہنچاتی ہے۔ جہاں گردے کی تکلیف میں گرمی سے افاقہ ہوتا ہو وہاں بعض دفعہ کولوسنتھ CM کی ایک ہی خوراک فوری فائدہ پہنچائے گی یا پھر میگ فاس 6xکو گرم پانی میں گھول کر گھونٹ گھونٹ پلایا جائے تو تشنج دور ہو جائے گا اور جہاں سردی سے آرام محسوس ہو وہاں ایکونائٹ اور بیلاڈونا کام کرے گی۔
اگر اچانک پیچش کے ساتھ خوف کا عنصر نمایاں ہو تو ایکونائٹ اس پیچش میں بھی فوری فائدہ دیتی ہے۔ خشک گرمی کی پیچش میں تو یہ لاجوا ب ہے۔ دل کی بیماریوں میں بھی ایکونائٹ بہت کام آتی ہے۔ میرے والد مرحوم جو خود بھی ایک بہت اچھے ہومیوپیتھ تھے وہ اکثر دل کی تکلیف میں ایکونائٹ اور کریٹیگس (Crataegus) Q ملا کر دیا کرتے تھے۔ ایکونائٹ کو مدرٹنکچر کی صورت میں ہی کریٹیگس مدرٹنکچر سے ملا کر ٹانک بنایا جاتا
ہے۔ آٹھ دس قطرے کرٹییگس Qکے اور صرف ایک دو قطرے ایکونائٹ Q کے پانی میں ملا کر دیں تو اﷲ کے فضل سے بہت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایکونائٹ کی زیادہ مقدار خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس لئے احتیاط کرنی چاہئے۔
ایسا مریض جس کے دل کے دھڑکنے کی رفتار معمول سے زیادہ ہو اس کے لئے ایکونائٹ بہت مفید ہے۔ بعض دفعہ معدے میں ہوا پیدا ہونے سے یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ نیند بھی نہیں آتی۔ اگر کسی چیز کا خوف ہو، کوئی بری خبر سنی ہو یا امتحان دینے کے لئے جانا ہو یا کوئی ابتلاء درپیش ہو تو ہیجان سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ ایکونائٹ 30یا 200میں دینے سے دھڑکن معمول پر آ جاتی ہے اور طبیعت پر سکون ہو جاتی ہے۔
ایکونائٹ بعض ذہنی امراض میں بھی مفید ہے۔ صدمے یا مایوسی سے دماغ پر اچانک اثر ہو جائے اور ہر چیز سے بے جا خوف آنے لگے تو بیماری کی ابتداء میں ہی ایکونائٹ استعمال کرنے سے نمایاں فرق پڑتا ہے لیکن اگر بیماری لمبی ہو جائے تو پھر دوسری دوائیں استعمال کروانا چاہئیں جن میں سلفر نمایاں ہے۔ سلفر کو ایکونائٹ کی مزمن دوا کہا جاتا ہے۔ سلفر کی جو علامات مستقل لمبی بیماریوں میں ملتی ہیں وہ عارضی طور پر ایکونائٹ میں پائی جاتی ہیں۔
روزمرہ کی زندگی میں ایسی بیماری جو جراثیم کے حملہ کی وجہ سے ہو مثلاً باسی غذا کھا لی جائے جس میں تعفن پیدا ہو چکا ہو اور اس سے اسہال شروع ہو جائیں یا اچانک پیچش لگ جائے، اسی طرح برسات کے موسم میں خونی پیچش جس سے مریض ڈر جائے۔ ان سب بیماریوں میں ایکونائٹ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
بعض بیماریوں میں مریض خوف سے چیخیں مارتا ہے اور چکر بھی آنے لگتے ہیں۔ مثلاً اگر راستہ چلتے ہوئے اچانک کتا جھپٹے تو انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے اور اس کا سر گھومنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں ایکونائٹ فوری فائدہ دیتا ہے۔
اگر آنکھوں میں اچانک سوزش ہو جائے تو بھی ایکونائٹ اور بیلاڈونا بیک وقت
ذہن میں آتے ہیں۔ مزید علامات ظاہر ہونے کا انتظار کئے بغیر دونوں کو اکٹھا استعمال کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک دوسرے کی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ہاں اگر کسی ایک دوا کی علامتیں بہت واضح ہوں تو دوسری دینے کی ضرورت نہیں۔ مثلاً اگر بیلاڈونا کی علامات بالکل واضح ہوں تو ایکونائٹ ساتھ ملانے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اکیلی ہی بیماری پر غلبہ پا لیتی ہے اور لمبے عرصہ تک کام کرتی ہے۔
سردی لگنے کی وجہ سے اچانک کان میں شدید درد شروع ہو جائے تو بھی یہ دوا فوری اثر دکھاتی ہے۔ ایکونائٹ میں ہر درد کے مقام پر دھڑکن کا احساس ہوتا ہے، مریض شور اور موسیقی وغیرہ بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔
ایکونائٹ کی ایک خاصیت پلسٹیلا سے بھی مشابہ ہے۔ بخار یا تکلیف کا اثر چہرے کے ایک طرف زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ ایک گال سرخ ہو جاتا ہے اور ایک زرد۔ عام طور پر بچوں میں یہ علامت نمایاں ہوتی ہے۔ شروع میں ہی ایکونائٹ دے دی جائے تو بیماری فوراً ختم ہو جائے گی۔ اگر دیر ہو جائے تو پلسٹیلا، لائیکوپوڈیم یا نیٹرم میور میں سے شاید کوئی کام آئے۔
دانتوں میں سردی کی وجہ سے درد ہو یا گلے میں تکلیف ہو تو بھی ایکونائٹ کی ضرورت ہو گی۔ اگر جسم کے کسی حصہ میں خون کا دبائو زیادہ ہوجائے تو اندرونی یا بیرونی جریان خون شروع ہو جاتا ہے مثلاً انٹریوں سے خون بہنے لگے گا۔ کوئی بھی وجہ ہو اگر ایسا اچانک ہوا ہو اور خوف بھی ساتھ ہو تو بلاخوف ایکونائٹ استعمال کریں۔
اگر کسی صدمہ کے نتیجہ میں پیشاب بند ہو جائے تو فوری طور پر پہلے ایکونائٹ دیں۔ کسی عزیز کی اچانک وفات سے یا اچانک کوئی مالی صدمہ پہنچا ہو تو ایکونائٹ کا فوری استعمال جسم کو اس کے بداثر سے بچا لیتا ہے۔
بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ایکونائٹ عورتوں کی بیماریوں میں مردوں کی نسبت زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کی اندرونی تکالیف اور رحم کی سوزش وغیرہ کے آغاز میں ایکونائٹ دے دیں تو اﷲ کے فضل سے بیماریاں آگے نہیں بڑھیں گی۔
ایکونائٹ کی تکلیفیں کھلی ہوا میں کم ہو جاتی ہیں۔ رات کو گرم کمرے میں یا خشک اور ٹھنڈی ہوا سے بڑھ جاتی ہیں۔

مددگار دوائیں : سلفر۔ کافیا۔ آرنیکا۔ بیلاڈونا۔ برائیونا۔ فاسفورس۔ سپانجیا
دافع اثر دوائیں : نکس وامیکا۔ سلفر
طاقت : مدرٹنکچر یا بالعموم 30، 200، 1000یاCM
حسب حالات معالج کو خود فیصلہ کرنا ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.