بد دیانتی کا نتیجہ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍ستمبر1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں جب کشمیر گیا تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بُننے کے لیے کہا گیااور قیمت پیشگی دے دی۔غالیچہ کا طول و عرض سب اس کو بتا دیا گیا ۔ہم آگے چلے گئے جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لپیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دے دیے اور کہنے لگا کہ اسی طرح بندکے بندہی لے جاؤ ،کھولو نہیں۔ لیکن اس کے بار بار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جاؤاس لیے کھول کر دیکھنے چاہییں۔جب کھولے اور ناپے تو معلوم ہوا ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے ۔ہم نے اسے کہا یہ تم نے کیا کیا؟وہ کہنے لگا جی ہم مسلمان ہوتے ہیں ۔میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا ناجائز ہے پھر تم نے مسلمان ہو کرکیوں ایسا کیا ؟اس کا وہ یہی جواب دیتا رہا کہ میں مسلمان ہوں۔اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا ۔تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکہ، فریب، دغاکرنے کی عادت ہی ہو گئی جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی استعمال کرنے لگ گئے۔ اس طرح ان کانہ آپس میں اعتبار بھروسہ اور اطمینان رہا اور نہ دوسروں کے نزدیک اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اس قدر ذلت اور رُسوائی کو پہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہو گئی ہے ۔میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتے تھے ۔جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہوا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا اور جب مال نہ بِکا تو بنانے والوں نے بھی اس کام کو چھوڑ کر اور کام اختیار کر لیے اور اس طرح تجارت کو زوال آگیا۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ268)

سود کا نفع

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ25؍اگست1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے اپنے لیے یہ بات خاص کر چھوڑی ہے کہ جب بندہ اس سے لین دین کرتا ہے تو نفع ہی نفع حاصل کرتا ہے ۔چونکہ سود بھی ایک قسم کا نفع ہے جس میں نفع ہی نفع ہوتا ہے،نقصان نہیں ہوتا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس فعل کو اپنے لیے خالص کرنے کے لیے بندوں کو منع کر دیا ہے کہ وہ سود نہ لیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی ہی صفت ہے کہ وہ نفع ہی نفع دیتا ہے ۔پس جب خدا کو اتنی غیرت ہے کہ اس نے بندوں کو اس قسم کے لین دین سے بھی منع کر دیا ہے تاکہ یہ صرف خدا ہی کی خصوصیت رہے ،حالانکہ بندوں کا فعل خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر اور لا شے ہے اور اکثر دفعہ سود کی بجائے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے،تاہم خدا تعالیٰ نے اس کو پسند نہیں کیا ۔پس وہ جو اس کی رضاء کے لیے کچھ خرچ کرتا ہے کبھی نقصان نہیں اُٹھاتا۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ234)

الٰہی بیع میں کوئی نقصان نہیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ17؍جولائی1914ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’دنیا میں قسم قسم کی بیعیں ہوتی ہیں اور بڑا بیوپاراور تجارت ہو رہی ہے۔ یورپ کا سار ازور تجارت پر ہے۔ اس زمانہ میں تجارت کا اتنا زور ہے کہ اس کی وجہ سے بعض مفید اور نیک باتیں دنیا سے مفقود ہیں مثلاً مہمان نوازی یہ ایک اعلیٰ وصف تھا لیکن یورپ میں کوئی کیسا عزیز دوست کیوں نہ ہو اسے ہوٹل میں اُترنا پڑتاہے اور کھانے پینے کا بل اس کے سامنے پیش کر کے پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں اور اس زمانہ میں ہر ایک ذلیل سے ذلیل چیز کی بھی بیع ہو رہی ہے ۔حیرت کا مقام ہے شہروں میں اب پاخانہ بھی فروخت کیا جاتاہے اور اس کے علاوہ کوئی ذرا بھر نفع دینے والی چیز ہو اسے جھٹ فروخت کر دیا جائے گا تم یہاں سے چلو گے تو یہیں سے تم بیع میں لگ جاؤ گے۔یکہ والے سے بیع ،ریل میں پھر سٹیشنوں پر جا کر مختلف قسم کی بیعیں ہوں گی۔برف ،مٹھائی،مختلف قسم کے میوے اور مختلف قسم کی اور چیزیں ہوں گی جن کی تم بیع کرو گے لیکن یہ وقتی بیعیں ہوں گی۔ یہ سب چیزیں جو تم لو گے کچھ تو گھر پہنچتے پہنچتے تمہارا جزو بدن بن چکی ہوں گی کچھ فضلہ بن کر تم سے الگ ہوں گی۔ پھر جو چیزیں تم گھروں میں لے جاؤ گے وہ تم اپنے بھائیوں اور عزیزوں کو دو گے۔ بچوں کو دو گے وہ بھی انہیں کھا کر ختم کریں گے لوگ بھاگے بھاگے اِدھر سے اُدھر،اُدھر سے اِدھر پھرتے ہوں گے ان کی غرض یہ ہے کہ ان کی چیزیں بک جائیں اور وہ اس کے بدلے میں روپے پیسے لیں۔وہ چیزیں بھی تمہارے پاس نہ رہیں گی بلکہ تمہاراجزوِ بدن بن جائیں گی۔یہ تو وقتی بیعیں ہیں جو فنا ہونے والی اور محدود ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک بیع بتلاتاہے اور وہ یہ ہے

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُم(التوبۃ:111)

خدا فرماتاہے ہم تم سے ایک بیع کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ تم ہمارے پاس اپنے نفس اور اموال بیچ دو اور تمہیں اس کے بدلے میں ہم ایک کبھی نہ ختم ہونے والی چیز دیتے ہیں وہ کبھی ختم نہ ہو گی اور اس کے بدلے میں آرام اور سُکھ تم کو ملے گا۔ دنیا میں تو جو چیز دے کر دوسرے کے پاس سے اس کی محنت لیتاہے۔ بیچنے والا ایک چیز اپنی محنت کے ذریعہ پیدا کرتاہے پھر اسے بیچتاہے لیکن اﷲ تعالیٰ انسان کو بغیر اس کی محنت اور مشقت کے ایک چیز دیتاہے پھر کہتاہے اچھا یہ چیز ہمارے پاس بیچ دو ہم تمہیں اس کے بدلے میں ایک غیر فانی چیز دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو خود ناک، کان، ہاتھ، پاؤں،سر،منہ غرض تمام اعضاء عنایت کیے اور مال بھی اپنے پاس سے دیا لیکن پھر وہ انسان کو کہتاہے یہ چیز بیچ دو اس کے بدلہ میں مَیں تم کو ایک اعلیٰ چیز دوں گا کیا تم بتلا سکتے ہو کہ اس بیع میں کوئی نقصان ہے ؟نادان ہے وہ شخص جو اس بیع کے کرنے میں ہچکچائے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ132،133)

انصاف اور معاہدات کی پابندی

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ یکم مئی1914ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’بہت لوگ دنیا میں اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ انصاف سے کام نہیں کرتے جہاں کہیں ان کا معاملہ کسی سے پڑتاہے ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز ہم لے لیں یہ لوگ معاہدات کی پابندی نہیں کرتے حالانکہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جب ایک بات پر معاہدہ ہو جائے تو اس سے یہ اُمید رکھی جاوے کہ اس کو زید تو پورا کرے اور میں نہ کروں اور کسی کا نقصان ہو توہو لیکن مجھے ضرور ہی فائدہ پہنچ جاوے۔
تاجرلوگ چاہتے ہیں کہ ہر ایک چیز کی قیمت تو پوری لیں لیکن چیز گندی اور خراب دیں۔ادھر خریداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم قیمت تو تھوڑی دیں لیکن مال اچھالیں۔خواہ تاجر گھر سے ڈال کردے۔ نوکر چاہتاہے کہ میں محنت کم کروں لیکن تنخواہ زیادہ پاؤں اور آقاچاہتاہے کہ کام پورا لوں لیکن تنخواہ بہت کم دوں۔ غرضیکہ ہر ایک آدمی اپنے معاملہ میں دوسرے کا نقصان ہی کرنا چاہتا ہے لیکن یہ نہیں چاہتا کہ کسی اور کو بھی کوئی فائدہ پہنچ سکے۔بعض دفعہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہوئے خود نقصان اٹھا لیتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے سنا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک بزاز سے کپڑا خریدا۔جب وہ خرید کر گھر چلا گیا تو فروخت کرنے والے شخص کو معلوم ہوا کہ اس کپڑے میں تو نقص تھا۔ کیڑے نے اس کو ناکارہ کر دیا ہوا تھا۔اس کو خوف خدا آیا کہ میں نے مسافر سے دھوکا کیا ہے وہ ایک قافلے کا آدمی تھا،قافلہ چلا گیا۔تاجر اس کے پیچھے گیا اور دو تین منزلوں پر جا کر اس سے ملا اور کہا کہ میرا دل گھبرا گیا کیونکہ میں نے تم کو دھوکا دیا ۔تم اپنا روپیہ واپس لے لو اور مجھے کپڑا دے دو۔اس نے کہا کہ تو نے ہی دھوکا نہیں دیا میں نے بھی کیا ہے جتنے روپے میں نے تم کو دیے تھے وہ سب کھوٹے تھے مجھے تو نفع ہی رہا تھا۔
لوگوں سے تو دھوکا کیا ہی جاتاہے لیکن آدمی اﷲ کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں۔آدمی دھوکا کھا جاتاہے لیکن تعجب اور حیرت اس بات پر ہے کہ انسان خدا کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں اور پھر عجیب در عجیب فریب کرتے ہیں۔خدا کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کو تو پورا نہیں کرتے لیکن یہ امید رکھتے ہیں کہ خدا ہم سے اپنے عہد کو پورا کرے۔یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چونکہ مسلمان کہلالیا پس خدا ہم کو مسلمان سمجھ لے گا۔خواہ ہم میں کتنا ہی بغض،کینہ،دشمنی اور برائیاں کیوں نہ ہوں اور خدا ہم سے مسلمانوں والا سلوک کرے گا اور دھوکا کھا جائے گا۔لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ عالم الغیب ہے۔انسان دھوکا کھا سکتاہے ،دکاندار خریدا ر کو دھوکا دے سکتاہے،نوکر آقا کو دھوکا دے سکتاہے اور آقا نوکر کے ساتھ دغا بازی کر سکتاہے لیکن خدا دھوکا نہیں کھا سکتا کیونکہ وہ تو انسان کی ہر ایک کمزوری کو خوب جانتا ہے اور پوشیدہ بھیدوں اور ارادوں سے بھی خوب واقف ہے بہت دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان عبادت کرتا ہے لیکن خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔روزے رکھتا ہے لیکن خدا کے حضور قبول نہیں کیے جاتے۔بیسیوں نیکی کے کام کرتا ہے لیکن رد کیے جاتے ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ خدا انسان کی نیتوں اور اندرونی رازوں کو جانتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان باتوں سے کام نہیں بن سکتا میں اسی وقت اپنے وعدے پورے کروں گا جبکہ تم بھی اپنے وعدے پورے کروگے۔جب تم راستباز بن جاؤ گے،گناہوں کو چھوڑ دو گے،فسق و فجور سے قطع تعلق کر لو گے،بغض وکینہ سے اپنے سینوں کو صاف کر لو گے اور اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو جا ؤ گے تب تم سچے مسلمان بنو گے اور پھر تم سے وعدے پورے کیے جائیں گے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ81تا83)

تجارت اور سود

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ9؍جنوری1914ء کے خطبہ جمعہ میں سو د اور تجارت کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’سود کا نظارہ دیکھ لو اﷲ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم سود سے باز نہیں آتے تو

فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ(البقرۃ:280)

یہ تو اﷲ تعالیٰ سے لڑائی کرنا ہے ۔تو تم پھر اﷲ سے لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود میں کچھ حرج نہیں ہے اور اس کے بغیر دنیا تباہ ہوتی ہے اور اس کے سوا کام نہیں چل سکتا ۔لیکن قرآن شریف میں تو یہ آیا ہے کہ

لَا رَیْبَ فِیْہِ

یعنی اس کتاب میں ہلاکت کی تعلیم نہیں ہے تو گویا یہ کہنے والے کہ سود کے بغیر کام نہیں چل سکتا اور دنیا ہلاک ہوتی ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کوجھوٹا قرار دیتے ہیں اور ان کو قرآن کریم پر ایمان نہیں ہے ۔لوگ تجارت اور سود کو برابر بتلاتے ہیں

وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو(البقرۃ:276)

حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے تجارت کوحلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حرمت ِسود و حلّتِ بیع پر دلیل نہیں دی۔ حالانکہ جب ڈاکٹر ایک چیز سے منع کرتاہے تو وہ ضرور مضر ہوگی اور اگر وہ کسی چیز کو جائز قرار دیتاہے تو وہ ضرو ر فائدہ مند ہو گی۔پس اﷲ جس چیز کو حرام قرار دیتاہے وہ ضرور ہی ضرر رساں ہو گی۔ پس یہی دلیل ہے۔
بنکوں کے معاملے کو دیکھ لواور ان کے دیوالیے نکلنے سے معلوم کر لو۔ اس سے بخوبی ثابت ہو جائے گا کہ تجارت اور سود ایک چیز نہیں کیونکہ ایک بنک کے ٹوٹنے سے دوسرے کئی بنک اس وجہ سے ٹوٹ گئے کہ ان کا آپس میں سودی لین دین تھا دوسرے بے اعتباری ہونے پر امانتداروں نے اپنا روپیہ واپس لینا شروع کر دیا اگر کسی تجارتی کوٹھی کو نقصان پہنچتا تو اس کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا بلکہ ایک دکان جاتی رہنے سے بہت سی دکانیں فروغ پاجاتی ہیں کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ20)

تجارت میں 19حصے منافع ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ جولائی1911ء میں سفرملتان سے واپسی پر لاہور میں حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اﷲ عنہ کی درخواست پر ان کی دکان ’’عزیز ہاؤس‘‘ میں تشریف لے گئے۔ اس موقع پر آپؓ نے فرمایا:
’’دکان چلانے کے واسطے ہمت استقلال،دیانت،ہوشیاری،عاقبت اندیشی اور امانت کی ضرورت ہے ۔‘‘نیز فرمایا:’’لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک ہزار حرفہ سکھایا تھا۔یورپ میں بہت ترقی ہے مگر ہنوز ہزار تک نوبت نہیں پہنچی۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ تجارت میں 19 حصہ منافع ہے باقی ایک حصہ دیگر حرفوں میں ہے۔حدیث میں یہ بھی لکھا ہے کہ تجارت کے واسطے مغربی ممالک میں جاؤ۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ323)

تجارت دین سے غافل کرنے والی نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ النور آیت38

رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’تصوف کی تعریف میں فرمایا

التَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِ وَالْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ

صوفی موت کی تیاری کرتا ہے قبل اس کے موت نازل ہو۔ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ رہتا ہے یہاں تک کہ تجارت وسیع اس کو اﷲ تعالیٰ سے غافل نہیں کرتی

رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اصحابِ صُفَّہ

انہی لوگوں میں سے تھے۔یہ لوگ دن بھر محنت ومشقت کرتے۔اس سے اپنا گزارہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو کھلاتے اور پھر رات بھر وہ تھے اور قرآن کریم کا مشغلہ۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان13؍جون1912ء)(حقائق الفرقان جلد3صفحہ219)

اﷲ تعالیٰ ہی بہتر رزق دینے والا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ الجمعہ آیت12

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَا نِانْفَضُّوْااِلَیْھَا

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور جب تجارت کے سامان مل جاتے ہیں یا کھیل تماشہ کا وقت پاتے ہیں۔وہ تجھے چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ان کو کہہ دو کہ اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں اور کھیل تماشوں سے بہترہے اور اﷲ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے۔
یہ حالت انسان کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا تعالیٰ پرسچا اور کامل یقین نہیں رکھتااور اس کو رازق نہیں سمجھتا۔ یوں ماننے سے کیا ہوتاہے ۔جب کامل ایمان ہوتا ہے تو اس پر اﷲ تعالیٰ کے لیے سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتاہے۔
بعض لڑکوں سے میں نے پوچھا ہے کہ تم جو گھر جاتے ہو کیوں ؟ کیا لھو کے واسطے؟اگر یہ غرض ہے تو پھر یہ خدا کے ارشاد کے نیچے ہے۔لَھْوًا اور تِجَارَۃً کو گویا خدا تعالیٰ پر مقدم کرتاہے۔اس سے بچنا چاہیے۔
اﷲ کو

خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ

یقین کرو اور مت خیال کروکہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہو گا کبھی ایسی جرأت کرنے کی کوشش نہ کروکہ اپنی ذاتی اغراض کو مقدم کر لو۔خدا کے لیے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اُس سے کہیں بڑھ کر پالیتاہے ۔تم جانتے ہوابوبکررضی اﷲ عنہ نے کیا چھوڑا تھااور پھر کیا پایا۔صحابہ رضی اﷲ عنھم نے کیا چھوڑا ہو گا۔اس کے بدلہ میں کتنے گُنے زیادہ خدا نے ان کو دیا ۔خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے جو نہیں ہے؟

لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

تجارتوں میں خسارہ کا ہو جانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہوجانا قرین قیاس ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی بھی انسان خسارہ نہیں اٹھاسکتا۔

(الحکم28؍فروری1903ء صفحہ7)

غرض اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں سے بہتر ہے۔وہ خیرالرازقین ہے۔ میں نے بہت سے ایسے بے باک دیکھے ہیں جو کہا کرتے ہیں

اے خیانت بر تو رحمت از تو گنجے یافتم
اے دیانت بر تو لعنت از تو رنجے یافتم

ایسے شوخ دیدہ خود ملعون ہیں جو دیانت پر لعنت بھیجتے ہیں۔پس خدا کے لیے ان ذریعوں اور راستوں کو چھوڑو جو بظاہر کیسے ہی آرام دہ نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر خدا کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔میں نے بسااوقات نصیحت کی ہے کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبۃ:120) پر عمل کرنے کے واسطے ضروری ہے یہاں آکر رہو۔بعض نے جواب دیا ہے کہ تجارت یا ملازمت کے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی۔لیکن میں ان کو آج یہ سناتاہوں کہ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ تمام تجارتوں کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ!وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟کیا ہم کُنبہ قبیلہ والے نہیں؟کیا ہماری ضروریات اور ہمارے اخراجات نہیں ہیں؟کیا ہم کو دنیوی عزت یا وجاہت بُری لگتی ہے؟پھر وہ کیا چیز ہے جو ہم کو کھینچ کر یہاں لے آئی؟میں شیخی کے لیے نہیں کہتا بلکہتحدیث بالنعمۃ کے طورپر کہتاہوں کہ میں اگر شہر میں رہوں تو بہت روپیہ کما سکوں لیکن میں کیوں ان ساری آمدنیوں پر قادیان کے رہنے کو ترجیح دیتاہوں؟اس کا مختصر جواب میں یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے۔ جس کو چورا ور قزاق نہیں لے جا سکتا۔مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لیے مارا مارا پھروں؟میں سچ کہتاہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھناچاہے میں نہیں رہ سکتا۔ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں۔پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔پس میری دولت، میرا مال،میری ضرورتیں اسی امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتاہوں۔

مہاجرین میں خلافت کا انعام ملنے کا سبب

میرے دل میں بارہایہ سوال پیدا ہوا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنھم کو جو مہاجر تھے کیوں خلافت ملی اور مدینہ والے صحابہ رضی اﷲ عنھم کو جو انصار تھے اس سے حصہ نہیں ملا۔بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ انصا ر کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی جب آپؐ مکہ سے تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچے۔مگر اس میں بھید یہی ہے کہ انصارنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے چھوڑا نہیں۔اس کی نصر ت کے لیے خدا نے ان کو بہت کچھ دیا۔مگر مہاجر جنہوں نے اﷲ کے لیے ہاں محض اﷲ ہی کے لیے اپنے گھر بار بیوی بچے اور رشتہ داروں تک چھوڑ دیے تھے اور اپنے منافع اور تجارتوں پر پانی پھیر دیا تھاوہ خلافت کی مسند پر بیٹھے۔ میں سقیفہ کی بحث پڑھتا تھا اور

مِنْکُمْ اَمِیْرٌ وَّ مِنَّا اَمِیْرٌ

پر میں نے غور کی ہے۔مجھے خدا نے اس مسئلہ خلافت میں یہی سمجھایا ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اپنے گھر بار تعلقات چھوڑے تھے ان کو ہی اس مسند پر اول جگہ ملنی ضرور تھی۔اﷲ تعالیٰ کے لیے جب کوئی کام کرتاہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا۔پس ایسے عذر بے فائدہ اور بیہودہ ہیں۔اس وقت دنیا خطرناک ابتلا میں پھنسی ہوئی ہے۔پہلی بلا جہالت کی ہے۔تدبر سے کتاب اﷲ کو نہیں پڑھتے اور نہیں سوچتے جب تدبر ہی نہ ہو، تلاوت ہی نہ ہو تو اس پر عمل کی تحریک کیسے پیدا ہو۔کتاب اﷲ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی جگہ بہت بڑا وقت قصوں کہانیوں اور لغویات میں بسر کیا جاتاہے۔‘‘

(الحکم10؍مارچ1903ء صفحہ2،3)(حقائق الفرقان جلد چہارم،صفحہ130تا132)

دینی امور پر تجارت کو فوقیت نہ دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ الجمعہ آیت10

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللَّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود محبوب اور مطاع نہ ہو گا اور کوئی غرض و مقصد اﷲ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہوگی۔ اس امام ؑ نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘۔اب اس اقرار کو مدنظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو کہ کیا اﷲ تعالیٰ کے احکام اوامرونواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض و مطالب؟ ……غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم نماز کے لیے جمعہ کے دن بلائے جاؤ تو بیع کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ۔
عام جمعوں میں چھوٹی چھوٹی بیع ہے لیکن مسیح موعود علیہ السلام کا وقت چونکہ عظیم الشان جمعہ ہے اس لیے اس وقت دجال کا فتنہ بہت بڑی بیع ہے اس لیے فرمایا کہ اس کو چھوڑو اور ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ۔ نتیجہ اس کا کیا ہے؟

ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

اگر تم کو کچھ علم ہے تو یاد رکھو یہ تمہارے لیے مفید ہے۔ اس میں خیر وبرکت ہے۔ تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ جس امر کو خیر وبرکت کا موجب قرار دیتا ہے اس کو ظنی یا وہمی خیال کرنا کفر ہے۔انسان چونکہ عواقب الامور اور نتائج کا علم نہیں رکھتا اس لیے وہ بعض اوقات اپنی کمزوریٔ علم اور کمیٔ معرفت کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مأمور کی صحبت میں رہنا یا اس کے پاس جانا اخراجات کو چاہتا ہے یا بعض تجارتی کاموں میں اس سے حرج واقع ہو گا۔دکان بند کرنی پڑے گی یا کیا کیا عذرات تراشتا ہے لیکن خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی حاضر ہو جانا خیر وبرکت کا موجب ہے۔ اس میں کوئی خسارا اور نقصان نہیں مگر تم کو اس کا علم ہونا چاہیے۔پس اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

دست بکار دل بیار

ہاں

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(الجمعۃ:11)

جب نماز ادا کرچکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کے فضل کو لو۔اس کا اصل اور گُر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو بہت یاد کرو۔نتیجہ یہ ہو گا کہ تم مظفر اور منصور ہو جاؤ گے۔خد ا کی یاد ساری کامیابیوں کا راز اور ساری نصرتوں اور فتوحات کی کلید ہے۔ اسلام انسان کو بے دست وپا بنانا یا دوسروں کے لیے بوجھ بنانا نہیں چاہتا۔عبادت کے لیے اوقات رکھے ہیں جب ان سے فارغ ہو جاوے پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہو۔ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کاروبار میں مصروف ہو کر بھی یادِ الٰہی کو نہ چھوڑے بلکہ دست بکار دل بیارہو اور اس کا طریق یہ ہے کہ ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے اور دیکھ لے کہ آیا خلافِ مرضیٔ مولیٰ تو نہیں کر رہا۔ جب یہ بات ہو تو اس کا ہر فعل خواہ وہ تجارت کا ہو یا معاشرت کا، ملازمت کا ہو یا حکومت کا۔ غرض کوئی بھی حالت ہو عبادت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ کھانا پینا بھی اگر امرِ الٰہی کے نیچے ہو تو عبادت ہے۔
یہ اصل ہے جو ساری فتح مندیوں کی کلید ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اصل کو چھوڑ دیا جب تک اس پر عملدرآمد رہا اس وقت تک وہ ایک قوم فتح مند قوم کی حالت میں رہی۔ لیکن جب اس پر سے عمل جاتا رہا تو نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قوم ہر طرح کی پستیوں میں گر گئی۔‘‘

(الحکم28؍فروری1903ء صفحہ3تا6)(حقائق الفرقان جلد4صفحہ126تا128)

ماپ تول میں خیانت کی ایک سزا

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ المطففین آیت3

اَلَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اکثر اوقات ماپ تول برضا و رغبت جھکتی ڈنڈی سے لیا جاتا ہے اور دینے والا بھی جھکتی تول خوشی سے دیتا ہے۔ممنوع لینا جھکتی تول وہ ہے جو ضرر کے لیے ہو کہ بلا رضامندی دینے والے کے جھکتی تول لی جاوے۔حدیث شریف میں ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں تو خداوندکریم بارشوں کو روک لیتا ہے۔قحط شدید پڑتا ہے۔حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت یہ مرض خصوصیت سے ہو گا۔مگر اس وقت تو بات حدسے بڑھ گئی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد4صفحہ342)

لین دین کے ہرمعاملہ کو لکھ لیا کرو

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’او ایمان والو!ہر ایک معاملہ کو لکھ لیا کرو جس کے لیے کوئی میعادی معاہدہ ہوا اور ہر ایک کو نہ چاہیے کہ معاہدوں کو لکھا کرے بلکہ چاہیے کہ معاہدہ کو وہ شخص لکھے جو ایسے معاہدوں کا لکھنے والا ہو اور معاہدہ کو اس انصاف کے ساتھ لکھے جس میں ضرورت کے وقت تمسک میں نقص نہ نکلے اور تمسک نویس کو تمسک کے لکھنے میں کبھی انکار نہ ہوا کرے کیونکہ کاتب کو اﷲ تعالیٰ نے فضل سے ایساکام سکھایا۔پس چاہیے کہ تمسکات کو لکھے اور لکھاوے۔وہ جس نے دینا ہو اور ضرور ہے کہ لکھاتے ہوئے لکھانے والا اﷲ سے ڈرتا رہے اور ذرہ بھی اس میں کمی و نقص نہ کرے اور اگر لکھانے والا کم عقل اور بچہ اور لکھانے کے قابل نہیں تو اس کا سربراہ انصاف و عدل کے ساتھ لکھاوے اور اپنے معاملات پر دو مرد گواہ بنا لیا کرو۔اگر دو مرد گواہ نہ مل سکیں تو ایک مرداور دو عورتیں۔دو کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک ان میں سے کچھ بھول گئی تو دوسری اُسے یاددلائے گی اور گواہ بلانے پر انکارنہ کریں اور ایسے سُست نہ بنیو کہ تھوڑا یا بہتا میعادی معاملہ لکھنے میں چھوڑ دو۔اﷲ تعالیٰ کے یہاں پر انصاف کی باتیں ہیں اور جہاں گواہی کی ضرورت پڑے گی وہاں یہ باتیں بڑی مفید پڑیں گی اور ایسی تدبیروں سے باہمی بد گمانیاں جاتی رہیں گی۔ہاں دستی لین دین اور نقدی کی تجارت میں تحریر نہ ہونے سے گناہ بھی نہیں ۔مگر ہر ایک سودے میں گواہوں کا پاس ہونا تو ضرور چاہیے(اگر اس پر عمل ہوتا تو چوری کی چیزیں لینے میں پولیس کی گرفتاری سے بہت کچھ امن ہو جاتا)اور یاد رہے کہ کاتب اور گواہ کو ان کا ہرجانہ دو اگر نہ دو گے تو بدکار بنو گے۔ خدا کا ڈر رکھو۔اﷲ تعالیٰ تمہیں آرام کی باتیں سکھاتاہے اور اﷲ تعالیٰ ہر شے کو جانتا ہے۔‘‘

(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ266تا268)

’’یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِذَاتَدَایَنْتُمْ(البقرۃ:283)

جہاد میں ضرورت ہے روپیہ کی اور روپیہ کاحصول بعض کے نزدیک سود پر منحصر ہے۔فرمایا کہ جو سود لیتا ہے وہ اﷲ سے جنگ کرتاہے۔ہاں لین دین کے معاملے میں کافی احتیاط ضروری ہے۔

کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ

یعنی کاتب کی تحریر عدالت سے وابستہ ہو اور قانون سلطنت کے ٹھیک مطابق ہو۔ ہم نے ایک دفعہ پانچ سو روپیہ دیا اور جائیداد کی رجسٹری نہ کرائی۔چانچہ وہ روپیہ بھی واپس نہ ملا۔حضرت صاحبؑ نے فرمایا نورالدین نے دو گناہ کیے۔ایک تو یہ کہ اﷲ کے حکم کے مطابق وہ رجسٹری داخل خارج نہ کرائی۔ دوم اپنے تساہل سے دوسرے کو گناہ کرنے کا موقع دیا۔انہیں شاید500روپیہ کی فکر ہے اور مجھے اس بات کی کہ یہی500روپیہ گناہ کا کفارہ ہو جائے۔ کسی اور شامت میں مبتلا نہ ہوں۔
کئی لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ وہ لکھوانے میں اور قانون سلطنت کے مطابق رجسٹری وغیرہ کرانے میں تساہل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اجی یہ ہمارے اپنے ہیں یا بڑے بزرگ ہیں ان کی نسبت کیا خطرہ ہے ۔مگر آخر اس حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُٹھاتے ہیں۔

عَلَّمَہُ اللّٰہُ

صحیح فرمایا۔ کیونکہ اﷲ ہی نے دماغ دیا اسی نے فہم دیا۔اسی نے آنکھیں دیں۔کوئی کاتب کتابت نہیں کر سکتا مگر اﷲ کے فضل سے ۔اس لیے اپنی طرف منسوب فرمایا۔

اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰ ھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی

لاہور میں ایک شخص نے میری تقریر سن کر مجھ سے کہا کیا یہ باتیں آپ کی مجھے لفظ بلفظ یاد رہیں گی۔میں نے سادگی سے کہا۔ نہیں۔ اس پر وہ بولا۔تب یہ حدیثیں وغیرہ سب نامعتبر ہیں کیونکہ جب دس منٹ کے بعد کوئی کلام لفظ بلفظ یاد نہیں رہ سکتا تو پھر دو سو سال کے بعد وہ باتیں کیسے یاد رہ سکتی ہیں۔حدیثیں تو تمام دو سو سال کے بعد مرتب ہوئی ہیں۔میں نے اسے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک بھول جائے تو دوسرا یاد کرائے۔اس اصول کے مطابق ہم حدیثوں کے قدر مشترک کو لے لیتے ہیں۔

فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْھَا

تم پر گناہ نہیں جو نہ لکھوا سکو۔اس سے معلوم ہوا کہ لکھنا بہر حال بہتر ہے۔یہ اس کلمہ سے خوب ملتاہے

فَلَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا(البقرہ: 159)

اس میں طواف واجب ہے۔

وَاَشْھِدُوْااِذَاتَبَایَعْتُمْشافعی

دکاندار معمولی سودوں میں بھی آس پاس کے دکانوں کے لوگوں کو گواہ کر لیتے ہیں یا کم از کم علیٰ مذہب ابی حنیفہ کہہ کر اعلان کر دیتے ہیں۔
لا یضارکاتب کو حق کتابت ضرور دینا چاہیے۔گواہوں کو بھی حرجانہ حسب حیثیت ان کو دینا چاہیے۔

وَاتَّقُوااللّٰہَ

اﷲ کو سِپر بناؤ۔اس کا تقویٰ اختیار کرو۔اﷲ علم دے گا۔یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ تقویٰ کا نتیجہ سچے علوم کا ملنا ہے۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان20؍مئی1909ء)(حقائق الفرقان جلد نمبر1صفحہ نمبر433تا435)

سود کے بد نتائج

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:

’’اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا(البقرۃ:276)

کمانے کی صورتوں میں سے ایک صورت کمانے کی جہاد کی بہت بھاری دشمن ہے اور وہ سود ہے۔رِبٰوا کے بہت ہی خطرناک نتائج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔سود خواروں کے اخلاق ایسے خراب ہوتے ہیں کہ ایک سود خوار کے آگے میں نے ایک فقیر کے لیے سفارش کی تو وہ کہنے لگے کہ پانچ روپے میں دے تو دوں گا مگر میرے پاس رہتے تو سو برس میں سود در سود سے سوالاکھ ہوجاتا۔
لکھنؤ میں ایک سلطنت تھی وہ بھی محض سود سے تباہ ہوئی۔پہلے ان کے مبلغات پر و میسری نوٹوں کے بدلے میں گئے پھر وہ جنگ کرنے کے قابل نہ رہے اور آخر وہ وقت آیاکہ یہ سلطنت تباہ ہو گئی۔میں نے چند مصنفین کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ربٰوا کے معنے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر بھی نہ کھلے۔تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہاں تک تو فرما دیا کہ

فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ(البقرۃ:280)

اور یہ نہ کھولا کہ رِبٰواکیا ہے پھر ساہوکار جاہل سے جاہل زمیندار سب جانتے ہیں کہ سود کیا ہے۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان20؍مئی1909ء)(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 430)

محنت کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملتا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہے بلکہ اس نے صاف فرمایا ہے لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی(النجم:40)اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ جدو جہد سے کام کرے لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنالو دین کو مقصودبالذات ٹھیراؤاور دنیا اس کے لیے بطور خادم اور مَرکَب کے ہو۔‘‘

(الحکم مؤرخہ16اگست1900صفحہ4)

……’’قرآن کریم کو بہت پڑھنا چاہیے اور پڑھنے کی توفیق خدا تعالیٰ سے طلب کرنی چاہیے کیونکہ محنت کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملتا۔کسان کو دیکھوکہ جب وہ زمین میں ہل چلاتاہے اور قِسم قِسم کی محنت اُٹھاتاہے تب پھل حاصل کرتاہے مگر محنت کے لیے زمین کا اچھا ہونا شرط ہے۔اسی طرح انسان کا دل بھی اچھا ہو سامان بھی عمدہ ہو سب کچھ کر بھی سکے تب جا کر فائدہ پاوے گا۔

لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی

دل کا تعلق اﷲ تعالیٰ سے مضبوط باندھنا چاہیے۔جب یہ ہو گا تو دل خود خدا سے ڈرتا رہے گااور جب دل ڈرتا رہتاہے تو خدا تعالیٰ کو اپنے بندے پر خود رحم آجاتاہے اور پھر تمام بَلاؤں سے اُسے بچاتا ہے۔‘‘

(البدرمؤرخہ24اپریل1903صفحہ109)

……’’قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے

لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی

یعنی کوئی انسان بغیر سعی کے کمال حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ قانون ہے پھر اس کے خلاف اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے اور اسے آزماتا ہے اس لیے محروم رہے گا ۔دنیا کے عام کاروبار میں بھی تو یہ سلسلہ نہیں ہے کہ پھونک مار کر کچھ حاصل ہو جائے یا بدوں سعی اور مجاہدہ کے کوئی کامیابی مل سکے۔ دیکھو آپ شہر سے چلے تو سٹیشن پر پہنچے اگر شہر سے ہی نہ چلتے تو کیونکر پہنچتے؟پاؤں کو حرکت دینی پڑی ہے یا نہیں؟اسی طرح سے جس قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔جب وہ ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے فرمایا

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70)

پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے۔‘‘

(الحکم مؤرخہ10تا17؍نومبر1904صفحہ3)

……’’اگرچہ جو کچھ ہوتاہے وہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتاہے مگر کوشش کرنا انسان کا فرض ہے جیسا کہ قرآن شریف نے صراحت سے حکم دیا ہے کہ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی یعنی انسان جتنی جتنی کوشش کرے گا اسی کے مطابق فیوض سے مستفیض ہو سکے گا۔‘‘

(الحکم مؤرخہ14مئی1908ء صفحہ1) (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد4صفحہ269تا272)

دست با کار دل با یار

’’وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یاد الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہو سکتیں۔‘‘

( براہین احمدیہ صفحہ517 حاشیہ درحاشیہ)

’’یہ ایک ہی آیت صحابہ رضی اﷲ عنھم کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں کہ ان کی کہیں نظیر ملنا مشکل ہے۔ بادیہ نشین لوگ اور اتنی بہادری اور جرأت ،تعجب آتا ہے۔ ‘‘

(الحکم مؤرخہ24؍ اپریل1903ء صفحہ6)

’’یاد رکھوکہ کامل بند ے اﷲ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے

لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ(النور:38)

جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتاہی نہیں ۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کادل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے۔ ‘‘

( الحکم مؤرخہ24 جون1904صفحہ21 )

’’دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے سوائے س حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے اور ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا ایک ولی اﷲ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین…… روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے

لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ

کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹوکس کام کا ہے جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے وہ قابل تعریف نہیں ۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کردو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہیے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے۔
اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خداتعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزارسکتا ہے۔

( بدر مؤرخہ14 ؍مارچ1907ء صفحہ6)

’’ہمار ے ایسے بندے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارخانۂ تجارت میں ایک دم کے لیے بھی ہمیں نہیں بھولتے۔ خدا سے تعلق رکھنے والا دنیا دارنہیں کہلاتا۔‘‘

(بدر مؤرخہ9؍ جنوری1908 ء صفحہ10)

’’ ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو،ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں

لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ

والا معاملہ ہو۔دسست با کا ردِل بایا روالی بات ہو۔تاجر اپنے کاروبار ِ تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر۔غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامرونواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے۔اﷲ سے ڈرا ور سب کچھ کر۔
اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتاہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لُولوں کی طرح نکمے بیٹھ رہو اور بجائے اس کے کہ اَوروں کی خدمت کرو خود دوسروں پر بوجھ بنو۔نہیں بلکہ سُست ہونا گناہ ہے ۔بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اس کے دین کی کیا خدمت کرسکے گا۔عیال و اطفال جو خدا نے اس کے ذمے لگائے ہیں ان کو کہاں سے کھلائے گا۔
پس یاد رکھو کہ خدا کا یہ ہر گز منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:10)

تجارت کرو،زراعت کرو،ملازمت کرو اور حرفت کرو۔جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں۔پھر جو تمہاری دُنیا ہے وہ بھی دین کے حکم میں آجاوے گی۔
انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا۔دل پاک ہو اور ہر وقت یہ لَو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دُنیا بھی اس کے واسطے حلال ہے

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔‘‘

(الحکم مؤرخہ26،30؍ اگست1908ء صفحہ3،4) (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد3صفحہ455تا457)

خدا تعالیٰ متقی کے لیے راہ نکال دیتا ہے

’’جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتاہے خدا اس کا کوئی سبب پردہ غیب سے بنا دیتاہے ۔افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لیے خدا تعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بناتا کہ وہ سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ یاد رکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاًزنا،چوری ایسے ہی یہ سوددینا اورلینا ہے ۔کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا۔معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضے لینے پر مجبورہو ۔ مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا ۔بعد اذاں ولیمہ سنت ہے ۔سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے۔انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لیے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے۔ دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے ۔چنانچہ فرماتاہے

فَمَنِ اضْطُرَّغَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

یعنی جو شخص باغی نہ ہو اورنہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔اﷲ غفوررحیم ہے مگر سود کے لیے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لیے تو ارشاد ہے

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَoفَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْافَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ(البقرۃ:280)

اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے۔ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خداتعالیٰ پر توکل کرتاہے اُسے حاجت ہی نہیں پڑتی۔مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے ۔ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں ۔مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں۔

خَسِرَ الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃِ

کے مصداق ۔پس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں۔
انسان کو چاہیے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعار ی مد نظر رکھے تاکہ سودی قرضہ اُٹھانے کی نوبت نہ آئے۔جس سے سود اصل سے بڑھ جاتاہے ۔ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں ابھی پانچ چھ سو باقی ہیں پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ۔جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنی ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے۔پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طورپر اُسے فروغ دیتے تاکہ کسی بھائی کو سود پر قرضہ لینے کی حاجت نہ ہوتی۔بلکہ اسی مجلس سے ہر صاحب ضرورت اپنی حاجت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس دے دیتا۔‘‘

’’دیکھو جو حرام پر جلدی نہیں دوڑتا بلکہ اس سے بچتاہے تو خدا تعالیٰ اس کے لیے حلال کا ذریعہ نکال دیتاہے ۔‘‘

مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا(الطلاق:3)

جو سود دینے اور ایسے حرام کاموں سے بچے خدا تعالیٰ اس کے لیے کوئی سبیل بنا دے گا ۔ایک کی نیکی اور نیک خیال کا اثر دوسرے پر بھی پڑتاہے۔کوئی اپنی جگہ پر استقلال رکھے تو سود خوار بھی مفت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں۔‘‘

(بدر مؤرخہ6؍فروری1908ء صفحہ 6) (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ766تا772)

اﷲ تعالیٰ کے پیدا کردہ تجارت کے طریق اپناؤ

ایک شخص نے ایک لمباخط لکھا کہ سیونگ بنک کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوؤں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے حرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں مسلمان کو چاہیے کہ ان کو اختیار کرے اور اس سے پرہیز رکھے۔ ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اﷲ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے مثلاً اگر دنیا میں سؤر کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے۔ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے تب

ہمفَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍٍ(البقرۃ:174)

کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے۔‘‘

الحکم مؤرخہ 10مئی؍1902ء صفحہ11

بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرے

عَنْ جَابِر قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُم ْخَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَ ھْلِیْ (ترمذی)

ترجمہ : ۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔ اور میں اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
تشریح :۔.8 اس حدیث میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے وہ ظاہر و عیاں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیوی کے ساتھ خاوند کے حسن سلوک کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کو تو مان لیا۔ اور ایمان کی نعمت سے بھی متمتع ہوگئے۔ لیکن حقوق العباد کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو بھی دیکھے گا۔ جو تم خدا کے بندوں کے ساتھ سلوک کرنے میں بجا لاتے ہو۔ اور ان اعمال میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو اسلام میں بہت نمایاں درجہ حاصل ہے حتیٰ کہ تم میں سے خدا کی نظر میں بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔ لیکن چونکہ ہر شخص اپنے سلوک کو بزعم خود اچھا قرار دے سکتا ہے اس لئے اس امکانی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اچھے سلوک کا معیار تمہارا کوئی خود تر اشیدہ قانون نہیں ہوگا بلکہ اس معاملہ میں میرے نمونہ کو دیکھا جائے گا۔ کیونکہ خدا کی دی ہوئی توفیق سے میں اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان عورتوں کے ازدواجی حقوق کو اتنے اعلیٰ معیار پر قائم فرما دیا ہے کہ وقتی رنجشوں کو چھوڑ کر جو بعض اوقات اچھے سے اچھے گھر میں بھی ہو جاتی ہیں۔ کوئی شریف بیوی کسی نیک مسلمان کے گھر میں دکھ کی زندگی میں مبتلا نہیں ہوسکتی۔ اور حق یہ ہے کہ اگر عورت کو خاوند کی طرف سے سکھ حاصل ہو تو وہ دنیا کی ہر دوسری تکلیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور اس سکھ کے مقابلہ میں کسی شریف عورت کے نزدیک دنیا کی کوئی اور نعمت کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر ایک عورت کے ساتھ اس کے خاوند کا سلوک اچھا نہیں تو خاوند کی دولت بھی اس کیلئے لعنت ہے اور خاوند کی عزت بھی اس کیلئے لعنت ہے اور خاوند کی صحت بھی اس کیلئے لعنت ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر صرف خاوند کی محبت اور گھر کی سکینت کے میدان میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ پس اس بات میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد گھروں کی چار دیواری کو جنت بنا دینے کیلئے کافی ہے۔ بشرطیکہ عورت بھی خاوند کی فرمانبردار اس کی محبت کی قدر دان ہو۔ اور پھر خاوند بیوی کے اس اتحادکا اثر لازماً ان کی اولاد پر بھی پڑتا ہے ۔ اور اس طرح آج کی برکت گویا ایک دائمی برکت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس ملک میں اور اس قوم کے درمیان رہتے ہوئے دیا جس میں عورت عموماً ایک جانور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی اور پھر اس حکم کو دو ایسی باتوں کے ساتھ مربوط کردیا۔ جن کے بلند معیار تک آج کی بظاہر ترقی یافتہ اقوام بھی نہیں پہنچ سکیں اور نہ کبھی پہنچ سکیں گی۔ کیونکہ ان دو باتوں کے ساتھ مل کر عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اس ارفع مقام کو حاصل کر لیتاہے جس کے اوپر اس میدان میں کوئی اور بلندی نہیں۔ یہ دو باتیں ہمارے آقا کے الفاظ

خیرکم خیرکم لا ھلہ وانا خیر کم لا ھلی

کے مطابق یہ ہیں کہ :۔
(اوّل) عورت کے ساتھ خاوند کا حسن سلوک صرف ضروری ہی نہیں ہے بلکہ دراصل حقوق العباد کے میدان میں مرد کا یہی وصف خدا کی نظر میں مرد کے درجہ اور مقام کا حقیقی پیمانہ ہے جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ سلوک میں بہتر ہے وہی خدا کی نظر میں بہتر ہے۔
(دوم) اس حسن سلوک کا معیار کسی شخص کی ذاتی رائے پر مبنی نہیں ہے (کیونکہ اپنے منہ سے توہر شخص اپنے آپ کو اچھا کہہ سکتا ہے ) بلکہ اس کا معیار رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اسوہ ہے ۔ پس صرف وہی سلوک اچھا سمجھا جائے گا۔ جو اس پاک اسوہ کے مطابق ٹھیک اترے گا۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 78

بیوی کے انتخاب میں دینی پہلو کو مقدم کرو

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنَکَحُ الْمَرْأَۃُ لَاِرَبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفرْ بِذَاتِ الدیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری)

ترجمہ:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بیوی کے انتخاب میں عموماً چار باتیں مدنظر رکھی جاتی ہیں ۔ بعض لوگ تو کسی عورت کے مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے خاندان اور حسب و نسب کی وجہ سے شادی کے خواہاں ہوتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے حسن و جمال پر اپنے انتخاب کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اور بعض لوگ عورت کے دین اور اخلاق کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کرتے ہیں سواے مرد مسلم ! تو دین دار اور بااخلاق رفیقہ ٔ حیات چن کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے۔
تشریح : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتانے کے بعد کہ دنیا میں عام طور پر بیوی کا انتخاب کن اصولوں پر کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے انتخاب میں دین اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھا کریں آپ فرماتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی اہلی زندگی کامیاب اور بابرکت رہے گی۔ ورنہ خواہ وہ وسطی اور عارضی خوشی حاصل کرلیں انہیں کبھی بھی حقیقی اور دائمی راحت نصیب نہیں ہوسکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نہایت گہری حکمت پر مبنی ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مسلمانوں کی اھلی زندگی کو بہترین بنیاد پر قائم کرنے کا رستہ کھولا گیا ہے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی حفاظت اور ترقی کا سامان بھی مہیا کیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ دوسری اقوام توالگ رہیں خود مسلمانوں میں بھی آج کل کثیر حصہ ان لوگوں کا ہے جو بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے یا تو دین اور اخلاق کے پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں اور یا دین اور اخلاق کی نسبت دوسری باتوں کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں کوئی شخص تو عورت کے حسن پر فریفتہ ہوکر باقی باتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کوئی اس کے حسب و نسب کا دلدادہ بن کر دوسری باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ اور کوئی اس کی دولت کے لالچ میں آکر اس کے ہاتھ پر بک جانا چاہتا ہے حالانکہ اصل چیز جو اہلی زندگی کی دائمی خوشی کی بنیاد بن سکتی ہے ۔ وہ عورت کا دین اور اس کے اخلاق ہیں دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ایک شخص نے کسی عورت کو محض اس کی شکل و صورت کی بناء پر انتخاب کیا ۔ لیکن کچھ عرصہ گذرنے پر جب اس کے حسن و جمال میں تنزل کے آثار پیدا ہوگئے کیونکہ جسمانی حسن ایک فانی چیز ہے یا اس کی نسبت کسی زیادہ حسین عورت کو دیکھنے کی وجہ سے بے اصول خاوند کی توجہ اس کی طرف سے ہٹ گئی ۔ یا بیوی کے ساتھ شب و روز کا واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں اس کے عادات کے بعض ناگوار پہلو خاوندکی آنکھوں کے سامنے آگئے تو ایسی صورت میں زندگی کی خوشی تو درکنار خاوند کے لئے اس کا گھر حقیقۃ ایک دوزخ بن جاتا ہے اور یہی حال حسب و نسب اور دولت کا ہے کیونکہ حسب و نسب کی وجہ سے تو بسا اوقات بیوی کے دل میں خاوند کے مقابلہ میں بڑائی اور تفاخر کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جو خانگی خوشی کے لئے مہلک ہے اور دولت ایک آنی جانی چیز ہے جو آج ہے اور کل کو ختم ہوسکتی ہے اور پھر بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بیوی کی دولت خاوند کے لئے مصیبت ہو جاتی ہے اور راحت کا سامان نہیں بنتی۔ پس جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے گھریلو اتحاد اور گھریلو خوشی کی حقیقی بنیاد عورت کے دین اور اس کے اخلاق پر قائم ہوتی ہے۔ اور بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو ٹھوس اور صاف کو چھوڑ کر وقتی کھلونوں یا طمع سازی کی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔
پھر ایک نیک اورخوش اخلاق بیوی کا جو گہرا اثر اولاد پر پڑتا ہے وہ تو ایک ایسی دائمی نعمت ہے جس کی طرف سے کوئی دانا شخص جسے اپنی ذاتی راحت کے علاوہ نسلی ترقی کا بھی احساس ہو آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ بچپن میںاولاد کی اصل تربیت ماں کے سپرد ہوتی ہے کیونکہ ایک تو بپچن میں بچہ کو طبعاً ماں کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے اور وہ اسی سے زیادہ بے تکلف ہوتا ہے اور اس کے پاس اپنا زیادہ وقت گزارتا ہے اور دوسرے باپ اپنے دیگر فرائض کی وجہ سے اولاد کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دے سکتا ۔ پس اولاد کی ابتدائی تربیت کی بڑی ذمہ داری بہرحال ماں پر پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر ماں نیک اور با اخلاق ہو تو وہ اپنے بچوں کے اخلاق کو شروع سے ہی اچھی بنیاد پر قائم کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے مقابل پر ایک ایسی عورت جو دین اور اخلاق کے ذیور سے عاری ہے وہ کبھی بھی بچوں میں نیک اخلاق اور نیک عادات پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی عورت بسا اوقات دین کی اہمیت اور نیک اخلاق کی ضرورت کو سمجھتی ہی نہیں ۔ پس نہ صرف خانگی خوشی کے لحاظ سے بلکہ آئندہ نسل کی حفاظت اور ترقی کے لحاظ سے بھی نیک اور با اخلاق بیوی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔ خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ ’’ یعنی نیک بیوی دنیا کی بہترین نعمت ہے‘‘
مگر حدیث زیر نظر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بیوی کے انتخاب میں دوسری تمام باتوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دینا چاہئے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نیکی اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھنا چاہئے۔ ورنہ بعض دوسرے موقعوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دوسری باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ وہ بھی ایک حد تک انسانی فطرت کے تقاضے ہیں ۔ مثلاً پردہ کے احکام کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے کہ شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ لیا کرو تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں شکل و صورت کی وجہ سے تمہارے دل میں انقباض پیدا ہو اور ایک دوسرے موقعہ پر جب ایک عورت اپنی شادی کے متعلق آپ سے مشورہ لینے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تو آپ نے فرمایا میں تمہیں فلاں شخص سے شادی کا مشورہ نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ مفلس اور تنگ دست ہے اور تمہارے اخراجات برداشت نہیں کرسکے گا۔ اور نہ میں فلاں شخص کے متعلق مشورہ دے سکتا ہوں۔ کیونکہ اس کے ہاتھ کا ڈنڈا ہر وقت ہی اٹھا رہتا ہے۔ ہاں فلاں شخص کے ساتھ شادی کرلو وہ تمہارے مناسب حال ہے اور ایک تیسرے موقعہ پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ قبیلہ قریش کی عورتیں خاوند کی وفاداری اور اولادپر شفقت کے حق میں اچھی ہوتی ہیں اور ایک چوتھے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ حتیٰ الوسع زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں کے ساتھ شادی کرو تاکہ میں قیامت کے دن اپنی امّت کی کثرت پر فخر کرسکوں۔ الغرض آپ نے اپنے اپنے موقعہ پر اور اپنی اپنی حدود کے اندر بعض دوسری باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ لیکن جس بات پر آپ نے خاص زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ ترجیح بہرحال دین اور اخلاق کے پہلو کو ہونی چاہئے ۔ورنہ تم اپنے ہاتھوں کو خاک آلود کرنے کے خود ذمہ دار ہوگے۔ یہ وہ زریں تعلیم ہے جس پر عمل کرکے مسلمانوں کے گھر برکت و راحت کا گہوارہ بن سکتے ہیں ۔ کاش وہ اسے سمجھیں!۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 73

اولاد کا بھی اکرام کرو اور انہیں بہترین تربیت دو

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ یُحدِّثُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ قَالَ اَکرِمُوْا اَوْلادَکُمْ وَاَحْسِنُوا اَدَبَھُمْ (ابن ماجہ)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اپنی اولاد کی بھی عزت کیا کرو اور ان کی تربیت کو بہترین قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرو۔
تشریح : اسلام نے جہان والدین کا حق اولاد پر تسلیم کیا ہے اور اولاد کو ماں باپ کی عزت اور خدمت کی انتہائی تاکید فرمائی ہے۔ وہاں والدین کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی اپنی اولاد کا واجبی اکرام کریں اور ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں ۔ جس سے ان کے اندر وقار اور عزت نفس کا جذبہ پیدا ہو اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی خاص توجہ دیں تاکہ وہ بڑے ہوکر حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بہترین صورت میں ادا کرسکیں اور ترقی کا موجب ہوں۔
حق یہ ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ بلکہ کوئی قوم تنزل سے بچ نہیں سکتی جب تک کہ اس کے افراد اپنی اولاد کو اپنے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر نہ جائیں۔ اگر ہر باپ اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ اپنی اولاد کو علم و عمل دونوں میں اپنے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائے گا تو یقینا قوم کا ہر اگلا قدم ہر پچھلے قدم سے اونچا اُٹھے گا اور ایسی قوم خدا کے فضل سے تنزل کے خطرات سے محفوظ رہے گی۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر والدین اس زریں اصول کو مدنظر نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے کئی بچے ماں باپ سے بہتر ہونا تو درکنار ایسی حالت میں پرورش پاتے ہیں کہ گویا ایک زندہ انسان کے گھر میں مردہ بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایسے ماں باپ بچوں کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا تو خیال رکھتے ہیں اور کسی حد تک ان کی تعلیم کا بھی خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ان کی اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے مگر ان کی تربیت کی طرف سے عموماً ایسی غفلت برتتے ہیں کہ گویا یہ کوئی قابل توجہ چیز ہی نہیں۔ حالانکہ تربیت کا سوال تعلیم کی نسبت بہت زیادہ بلند ہے۔ ایک کم تعلیم یافتہ مگر اچھے اخلاق کا انسان جس میں محنت او ر صداقت اور دیانت اور قربانی اور خوشی خلقی کے اوصاف پائے جائیں اس اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان سے یقینا بہتر ہے جس کے سر پر گدھے کی طرح علم کا بوجھ تو لدا ہوا ہے مگر وہ اعلیٰ اخلاق سے عادی ہے او رقرآن شریف نے جو

لا تقتلو اولادکم

(یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو) کے الفاظ فرمائے ہیں۔ ان میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم اپنے بچوں کی عمدہ تربیت اور اچھی تعلیم کا خیال نہیں رکھوگے تو تم گویا انہیں قتل کرنے والے ٹھہروگے۔
باقی رہا اس حدیث کا دوسرا حصہ یعنی اولاد کا اکرام کرنا۔ سو یہ بات وہ ہے جس میں اسلام کے سوا کسی دوسری شریعت نے توجہ ہی نہیںدی کیونکہ دنیا کے کسی اور مذہب نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ اولاد کے واجبی اکرام کے بغیر بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں کئے جاسکتے بعض نادان والدین بچوں کی محبت کے باوجود ان کے ساتھ بظاہر ایسا پست اور عامیانہ سلوک کرتے اور گالی گلوچ سے کام لیتے ہیں کہ ان کے اندر وقار اور خودداری اور عزت نفس کا جذبہ ٹھٹھر کر ختم ہو جاتا ہے ۔ پس ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی یہ تعلیم درحقیقت سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی واجبی اکرام سے پیش آنا چاہئے۔ تا ان کے اندر باوقار انداز اور اعلیٰ اخلاق پیدا ہو سکیں ۔ کاش ہم لوگ اس حکیمانہ تعلیم کی قدر پہچانیں۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 70

شرک اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹ سب سے بڑے گناہ ہیں

عَنْ اَبْی بَکْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبرِا لْکَبَائِرِ ثَلَاثًا قَالُوْا بَلیٰ یَاَرسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ الْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعَقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ اَلَا وَقَوْلُ الزُّوْر فَمَا زَالَ یُکرِّرُھَا حَتّٰی قُلْنَا لَیْتَہٗ سَکَتَ (بخاری)

ترجمہ : ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں پر مطلع نہ کروں؟ (اور صحابہ کو متوجہ کرنے کیلئے) آپ نے یہ الفاظ تین دفعہ دہرائے۔ صحابہ نے عرض کیا ۔ ہاں رسول اللہ آپ ضرور ہمیں مطلع فرمائیں۔ آپ نے فرمایا۔ تو پھر سنو کہ سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ کا شرک ہے۔ اور پھر دوسرے نمبر پر سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی اور ان کی خدمت کی طرف سے غفلت برتنا ہے اور پھر ۔۔۔ اور یہ بات کہتے ہوئے آپ تکئے کا سہارا چھوڑ کرجوش کے ساتھ بیٹھ گئے اور پھر فرمایا۔۔۔۔ اچھی طرح سن لو کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے اورآپ نے اپنے ان آخری الفاظ کو اتنی دفعہ دہرہایا کہ ہم نے آپ کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے دل میں کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جائیں۔ اور اتنی تکلیف نہ اُٹھائیں۔
تشریح: اس زوردار حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑے گناہوں کا ذکر فرماتے ہوئے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جوروحانیات اور اخلاقیات کے تین مختلف میدانوں کی بنیادی باتیں ہیں یہ تین میدان (۱) حقوق اللہ اور (۲) حقوق العباد اور (۳) اصلاح نفس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں سب سے بڑا گناہ شرک ہے یعنی خدا کے مقابل پر جو ہمارا خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے۔ کسی ایسی ہستی کو کھڑا کرنا جو نہ تو ہمارا خالق ہے اور نہ مالک ۔ اس لئے شرک کا گناہ دراصل غداری اور بغاوت دونوں کا مجموعہ ہے۔ یہ انتہا درجہ کی غداری ہے۔ کہ جس ہستی نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری دینی اور دنیوی ترقی کے اسباب مہیا کئے اس کے مقابل پر ایسی ہستیوں کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے جن کا نہ تو ہماری پیدائش کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہماری بقا کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ ہے اور پھر یہ انتہا درجہ کی بغاوت بھی ہے کہ دنیا کے حقیقی مالک اور حقیقی حکمران کی حکومت سے سرتابی کرکے ایسی ہستیوں کے سامنے سرجھکایا جائے جنہیں ہم پر کسی نوع کا ذاتی تصرف حاصل نہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کل کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جن کا دامن ان کی بظاہر اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تہذیب کے باوجود شرک کی نجاست سے پاک نہیں ۔ چنانچہ عیسائی اقوام حضرت مسیح ناصری کو (جن میں دوسرے نبیوں سے ہرگز کوئی زائد بات نہیں تھی) خدا مان کر اب تک شرک کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں اور ہندوئوں کے ہزاروں دیوتا تو ایک کھلی ہوئی کہانی کا حصہ ہیں جسے بچہ بچہ جانتا ہے۔
دوسرا بڑا گناہ اس حدیث میں عقوق الوالدین بیان کیا گیا ہے عقوق کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو کاٹنے کے ہیں اور اصلاحی طور پر اس کے معنی ماں باپ کی نافرمانی کرنا ان کا واجبی ادب ملحوظ رکھنا ان کے ساتھ شفقت سے پیش نہ آنا اور ان کی خدمت سے غفلت برتنا ہے۔ والدین کی اطاعت اور خدمت کا فریضہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دنیا کے حقوق میں غالباً سب سے زیادہ مقدس حق قرار دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ماں باپ کی خوشی میں خدا کی خوشی ہے اور ماں باپ کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے اور ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے والدین کے بڑھاپے کا زمانہ پایا اور پھر اس نے ان کی خدمت کے ذریعہ اپنے واسطے جنت کا رستہ نہیں کھولا۔ وہ بڑا ہی بدقسمت انسان ہے اور آپ کا ذاتی اسوہ اس معاملہ میں یہ ہے کہ جب ایک دفعہ آپ کچھ مال تقسیم فرمانے میں مصروف تھے تو آپ کی رضائی والدہ آپ کے ملنے کیلئے آئیں (آپ کی حقیقی والدہ آپ کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں) آپ انہیں دیکھتے ہی میری ماں میری ماں کہتے ہوئے ان کی طرف لپکے۔ ان کے لئے اپنی چادر بچھاکر انہیں بڑی محبت اور عزت کے ساتھ بٹھایا الغرض اسلام نے والدین کی اطاعت اور خدمت کے متعلق انتہائی تاکید فرمائی ہے حتیٰ کہ قرآن شریف فرماتا ہے

وَاخْفِضْ لَھُمَا جنَاحَ الذُّلِّ منَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً ’’

یعنی تم اپنے ماں باپ کے سامنے عاجزی اور انکساری کے بازؤں کو محبت اور رحمت کے ساتھ جھکائے رکھو اور ان کے لئے ہمیشہ خدا سے دعامانگتے رہو کہ خدایا جس طرح میرے والدین نے مجھے بچپن میں جب کہ میں بالکل بے سہارا تھا۔ محبت اور شفقت کے ساتھ پالا۔ اسی طرح اب تو ان کے بڑھاپے میں ان پر شفقت و رحم کی نظر رکھ‘‘۔
تیسرا بڑا گناہ اس حدیث میں جھوٹ بولنا بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کے متعلق اسلام کا نظریہ اس حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ جب آپ جھوٹ کا ذکر فرمانے لگے تو جوش کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئے اور ان الفاظ کو بار بار دہرایا کہ

الا وقول الزور الا وقول الزور ’’

یعنی کان کھول کر سن لو ۔ ہاں پھر کان کھول کر سن لو کہ شرک اور عقوق والدین کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولناہے‘‘۔ حق یہ ہے کہ اگر باقی باتیں اس بیج کا حکم رکھتی ہیں جن سے گناہ کا درخت پیدا ہوتا ہے ۔ تو جھوٹ اس بیج کے واسطے پانی کے طور پر ہے جس کی وجہ سے یہ درخت پنپتا اور ترقی کرتا ہے ۔ یہ جھوٹ ہی ہے جس کی وجہ سے گناہ پر دلیری پیدا ہوتی اور انسان گناہ کی دل دل میں پھنسے رہنے کا ایک بہانہ حاصل کر لیتا ہے کیونکہ جھوٹ کے ذریعہ گناہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور پھر اس پردہ کی اوٹ میں گناہ بڑھتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ پس جھوٹ صرف اپنی ذات میں ہی گناہ نہیں ہے بلکہ دوسرے گناہوں کے واسطے ایک بدترین قسم کا سہارا بھی ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو شرک اور عقوق والدین کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان نے آپ سے عرض کیا یارسول اللہ میرا نفس کمزور ہے اور میں بہت سی کمزوریوں میں مبتلا ہوں۔ اور میں سارے گناہوں کو یک دم چھوڑنے کی ہمت نہیں پاتا ۔ آپ مجھے ہدایت فرمائیں کہ میں سب سے پہلے کس گناہ کو چھوڑوں ؟ آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا چھوڑدو‘‘ اس نے اس کا وعدہ کیا۔ اور گھر واپس آگیا ۔ پھر جب وہ اپنی عادت کے مطابق بعض دوسرے گناہوں کا ارتکاب کرنے لگا تو اسے خیال آیا کہ اب اگر رسول اللہ تک میری یہ بات پہنچی اور آپ نے مجھ سے پوچھا۔ تو جھوٹ تو بہرحال میں نے بولنا نہیں میں آپ کو کیا جواب دوں گا؟ یا اگر کسی مسلمان کو میری کسی کمزوری کا علم ہوا تو اس کے سامنے میں اپنے اس گناہ پر کس طرح پردہ ڈالوں گا؟ آخر اسی میں اس نے سوچتے سوچتے فیصلہ کیا کہ جب چھوڑ دیا ہے تو اب یہی بہتر ہے کہ سارے گناہوں سے ہی اجتناب کیا جائے۔ چنانچہ وہ جھوٹ چھوڑنے کی برکت سے سب گناہوں سے نجات پاگیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے جھوٹ کے گناہ کو شرک اور عقوق والدین کے گناہوں کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دے کر مسلمانوں کی اصلاح کا ایک ایسا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا ہے جس کے ذریعہ وہ بہت جلد اپنے گناہوں پر غلبہ پاسکتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ جھوٹ ایک بدترین اور ذلیل ترین قسم کا گناہ ہے اور ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ اخلاقی گناہوں میں سب سے پہلے جھوٹ پر غلبہ پانے کی کوشش کرے۔
لیکن ضمناً یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ہرحال میں سچی بات بلا ضرورت بیان کردی جائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ جو بات بیان کی جائے وہ بہرحال سچی اور جھوٹ کی آمیزش سے پاک ہونی چاہئے۔ ورنہ بسا اوقات قومی یا خاندانی یا ذاتی مصالح بعض باتوں میں رازداری کے متقاضی ہوتے ہیں اور رازداری ہرگز راست گفتاری کے خلاف نہیں۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 64

چھوٹوں پر رحم کرو اور بڑوں پر حق کو پہچانو

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عَمْر وَعَن الَّنبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَّمَ یَرْحَمْ صَغِیْرَ نَا وَلَمْ یَعْرِفْ حَقَّ کبِیْرِنا فَلَیْسَ مِنَّا (ابودائود)

ترجمہ: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص ہم میں سے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہم میں سے بڑوں کا حق نہیں پہچانتا۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
تشریح: اس حدیث میں باہمی تعلقات کا ایک لطیف گر بیان کیا گیا ہے۔ دنیا میں اکثر فسادات اور جھگڑے اس لئے ہوتے ہیں کہ بڑے لوگ چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور رحم کا سلوک نہیں کرتے اور چھوٹے لوگ بڑوں کے واجبی احترام سے غافل رہتے ہیں اور اس طرح ایک ناگوار طبقاتی کش مکش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف تو سرکاری عہدوں اور دولت پیدا کرنے کے ذرایع کے حصول میں سب کے واسطے برابر کے حقوق تسلیم کئے اور دوسری طرف سوسائیٹی کے مختلف طبقات میں ایک طرف سے شفقت ورحمت اور دوسری طرف سے ادب و احترام کا مضبوط پل باندھ کر سب کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ جن لوگوں کو زندگی کی جدوجہد میں دوسروں سے آگے نکلنے کا موقعہ میسر آجاتا ہے ان کیلئے حکم ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں کے ساتھ جب تک کہ وہ پیچھے ہیں شفقت و رحم کا سلوک کریں۔ اور جو لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ آگے نکل جانے والوں کے ساتھ جب تک کہ وہ آگے ہیں واجبی ادب و احترام سے پیش آئیں۔ اس زریں ہدایت کے ذریعہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کے مختلف طبقات کے درمیان ناواجب کش مکش کی جڑھ کاٹ کر رکھ دی ہے مگر افسوس ہے کہ ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے کوئی طاقت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ تکبر میں مبتلا ہوکر اپنے سے نیچے کے لوگوں کو کچل دینے کا متمنی ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص زندگی کی دوڑ میں کسی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہے تو وہ حسد میں جل کر آگے نکل جانے والوں کو نیچے گرانے اور تباہ کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اسلام کی منصفانہ تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔
اسلام یقینا طبقات پیدا نہیں کرتا مگر جو وقطی امتیاز افراد کے دماغی قو یٰ یا ذاتی جدوجہد کے فرق کی وجہ سے خود بخود طبعی رنگ میں پیدا ہو جاتا یہ وہ جب تک اسی قسم کے طبعی طریق پر دور نہ ہو اسلام اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے حقائق کو نظر انداز بھی نہیں کرتا۔ بلکہ اسے اپنے نوٹس میں لاکر اس کے ناگوار نتائج کو روکنے کیلئے مناسب تدابیر اختیار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد انہی تدابیر کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام اس بات پر بھی زور دیتا چلا جاتا ہے کہ اس قسم کے امتیازات محض عارضی ہوا کرتے ہیں اور آج جو طبقہ نیچے ہے کل کو ہ ترقی کرکے اوپر آسکتاہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے لا یسخرقوم من قوم عسٰی اَنْ یکونوا خَیْراً منھم ’’ یعنی سوسائٹی کے کسی طبقہ کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے طبقہ کو ادنیٰ خیال کرکے اُسے تحقیر کی نظر سے دیکھے ۔ کیونکہ جو طبقہ نیچے ہے کل کو وہی طبقہ اوپر آکر تحقیر کرنے والوں سے بہتر بن سکتا ہے‘‘۔
.6یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس حدیث میں جو صغیر اور کبیر کا لفظ آتا ہے اس سے عربی محاورہ کے مطابق ہر قسم کے چھوٹے بڑے مراد ہیں۔ خواہ یہ فرق اثر و رسوخ کے لحاظ سے ہو یاافسری ماتحتی کے لحاظ سے ہو یا دولت کے لحاظ سے یا رشتہ کے لحاظ سے ہو یا عمر کے لحاظ سے ہو ۔ بہرحال جس جہت سے بھی فرق ہوگا۔ہر بڑے کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے چھوٹے کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کرے۔ اور ہر چھوٹے کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سے بڑے کے ساتھ واجبی ادب و احترام سے پیش آئے۔ اور جو شخص ایسا نہیں کرتا اس کے متعلق ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لیس منا ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 13

ظالم حکمران کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے

عَنْ طَارِقِ بْنِ شَھَابٍ اَنَّ رَجُلاً سَألَ النبِیَّ صَلّٰی اللہ علیہ وسلم وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَہٗ فِیْ الْغَرْزِاَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ قَالَ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (نسائی)

ترجمہ: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایسے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ جب آپ ایک سفر پر جاتے ہوئے اپنی رکاب میں پائوں ڈال رہے تھے۔ اس نے پوچھا یارسول اللہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ انصاف کے رستہ سے بھٹکتے ہوئے بادشاہ کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا‘‘۔
تشریح : اگر ایک طرف اسلام نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے امیر یا حاکم کی اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں ۔ اور اس کے احکام کو توجہ سے سنیں اور شرح صدر سے بجا لائیں۔ تو دوسری طرف اس نے ماتحتوں کا بھی یہ فرض مقرر کیا ہے کہ اگر ان کا بادشاہ یا امیر یا حاکم (کیونکہ اس جگہ سلطان کے مفہوم میں یہ سب لوگ شامل ہیں) انصاف کے رستہ سے بھٹکنے لگے ۔ اور ظلم کا طریق اختیار کرے تو وہ اخلاقی جرأت سے کام لے کر اسے نیک مشورہ دیں۔ اور حاکم کے رویہ میں اصلاح کی کوشش کرے ملک میں عدل و انصاف کو قائم کرنے میں مدد دیں۔ اور چونکہ جائر اور غصہ میں آئے ہوئے حاکم کو نیکی کا مشورہ دینا غیر معمولی جرأت چاہتا ہے ۔ اور بعض اوقات خطرہ سے بھی خالی نہیں ہوتا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوشش کو افضل جہا د کے نام سے موسوم کیا ہے۔
حق یہ ہے کہ اسلام نے حاکم اور محکوم اور راعی اور رعیت کے حقوق میں ایسا لطیف توازن قائم کیا ہے کہ اس معاملہ میں اس سے بڑھ کر کوئی او رتعلیم خیال میں نہیں آسکتی۔ سب سے اول نمبر پر اسلام نے بلا امتیاز قوم و ملت یہ ہدایت دی ہے کہ حکومت کے تمام عہدے (جس میں حاکم اعلیٰ سے لیکر سب سے نیچے کا افسر بھی شامل ہے) صرف اہلیت کی بناء پر تقسیم ہونے چاہئیں چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَ مَانَاتِ الیٰ اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ اَنْ تَحکُمُوْا بِالْعَدْلِ

’’یعنی حکومت کے تمام عہدے ایک مقدس امانت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا یہ کہ یہ امانت صرف اہلیت رکھنے والے لوگوں کے سپرد کیا کرو۔ اور پھر جو لوگ حاکم مقرر ہوں ان کا فرض ہے کہ کامل عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں‘‘ اس کے بعد دوسرے نمبر پر اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگوں کا فرض ہے کہ اپنے حاکموں کی پوری پوری اطاعت کریں اور ان کے احکام کو توجہ کے ساتھ سنیں اور شوق کے ساتھ بجا لائیں اور پھر تیسرے نمبر پر اسلام یہ ہدایت فرماتا ہے کہ اگر کوئی حاکم انصاف کے رستہ سے ہٹنے لگے تو ماتحتوں کا فرض ہے کہ بروقت نیک مشورہ دے کر اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ کیونکہ امن کے لحاظ سے یہ مشورہ ایک اعلیٰ قسم کے جہاد سے کم نہیں ۔ لیکن چونکہ بعض ماتحت لوگ اس معاملہ میں خوداری یا جلد بازی یا ناواجب رقابت یا ذاتی رنجش کے طریق پر غلط قدم اٹھا سکتے ہیں ۔ اس لئے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرعون کے معاملہ میں حضرت موسیٰ کو

قَوْلَا لَہٗ قَوْلَا لَیِّنًا

(یعنی فرعون کے ساتھ نرم انداز میں بات کرنا) کے الفاظ میں ہدایت فرماتا ہے۔ اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ایسے امور میں کوئی خلافِ آداب طریق یا گستاخی کا انداز یا بغاوت کا رنگ اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں صراحت آئی ہے اگر بعض مظالم برداشت کرکے بھی صبر سے کام لیا جاسکے تو وہ بہتر ہے تاکہ ملک کا امن اور قوم کا اتحاد خطرہ میں نہ پڑے اور یہی وہ وسطی تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد بن سکتی ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ حاکموں کو نیک مشورہ دینے اور انہیں عدل و انصاف کے مقام پر قائم رکھنے کی بجائے آج کل اکثر لوگ افسروں کو بگاڑنے کا طریق اختیار کرتے ہیں اور ایک طرف جھوٹی خوشامد کے ذریعہ اور دوسری طرف رشوت کے ناپاک وسیلہ سے حاکموں کے اخلاق اور ان کے جذبہ ٔ انصاف کو تباہ کرنے کے درپے رہتے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے اور ایک دوسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار ’’یعنی رشوت دینے والا شخص اور رشوت لینے والا شخص دونوں آگ کا ایندھن ہیں‘‘ کاش اسلامی ممالک تو اس لعنت سے آزاد ہوسکیں۔

اسلام میں اطاعت کا بلند معیار

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ عَلیَ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ اسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ فِیْمَا اَحَبَّ وَلَوْکَرِہَ اِلَّا اَنْ یُّؤمَرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِنْ اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ (بخاری)

ترجمہ:۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر مسلمان پر اپنے افسروں کی ہر بات سننا اور ماننا فرض ہے خواہ اسے ان کا کوئی حکم اچھا لگے یا برا لگے۔ سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم دیں۔ جس میں خدا اور رسول کے کسی حکم کی (یا کسی بالا افسر کے حکم کی )نافرمانی لازم آتی ہو۔ اگر وہ ایسی نافرمانی کا حکم دیں تو پھر اس میں ان کی اطاعت فرض نہیں۔
تشریح :۔ یہ حدیث اسلامی معیار اطاعت کا بنیادی اصول پیش کرتی ہے اسلام ایک انتہا درجہ کا نظم و ضبط والا مذہب ہے ۔ وہ کسی شخص کو اپنے حلقہ میں جبراً داخل کرنے کا موید نہیں اور صاف اعلان کرتا ہے کہ لَا اِکْرَاہ فِی الدِّینِ (یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں) لیکن جب کوئی شخص خوشی اور شرح صدر کے ساتھ اسلام قبول کرتا ہے تو پھر اسلام اس سے اس نظم و ضبط کی توقع رکھتا ہے جو ایک منظم قوم کے شایانِ شان ہے وہ اپنے ہر فرد کو کامل اطاعت کانمونہ بنانا چاہتا ہے۔ اور افسروں کے حکموں پر حیل و حجت کی اجازت نہیں دیتا کہ جو حکم پسند ہوا وہ مان لیا او رجو ناپسند ہوا اس کا انکار کردیا ’’ سنو اور مانو‘‘ اسلام کا ازلی نعرہ رہا ہے مسلمان کے اس ضابطہ ٔ اطاعت میں صرف ایک ہی استثناء ہے اور وہ یہ کہ اسے کسی ایسی بات کا حکم دیا جائے جو صریح طور پر خدا اور اس کے رسول یا کسی بالا افسر کے حکم کے خلاف ہو۔ اس کے علاوہ ہر حکم میں خواہ وہ کچھ ہو اور کیسے ہی حالات میں دیا جائے’’ سنو اور مانو‘‘ کا اٹل قانون چلتا ہے۔
اور یہ جو اس حدیث میں الطاعۃ (یعنی مانو) کے لفظ کے ساتھ السمع (یعنی سنو) کے لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس میں اس لطیف حکمت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ایک مسلمان کا کام صرف منفی قسم کی اطاعت نہیں ہے کہ جو حکم اسے پہنچ جائے وہ اسے مان لے اور بس بلکہ اسے مثبت قسم کی شوق امیز اطاعت کا نمونہ دکھانا چاہئے اور گویا اپنے افسروں کی طرف کان لگائے رکھنا چاہئے کہ کب ان کے منہ سے کوئی بات نکلے اور کب میں اسے مانوں۔ ورنہ محض اطاعت کیلئے اطاعۃ (یعنی مانو) کا لفظ بولنا کافی تھا۔ اور السمع (یعنی سنو) کا لفظ زیادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس لفظ کا زیادہ کرنا یقینا اسی غرض سے ہے کہ تارِسمی اطاعت کی بجائے شوق آمیز اطاعت کا معیار قائم کیا جائے ۔ پس اسلامی ضابطہ ٔ اطاعت کا خلاصہ یہ ہے کہ :

بھائی خواہ ظالم ہو یا مظلوم اُس کی مدد کرو

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِمًا اَوْمَظْلُوْمًا قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا نَنْصُرُہٗ مَظْلُوْماً فَکَیْفَ نَنْصُرُہٗ ظَالِمًا قَالَ تَاْخُذ فَوْقَ یَدَیْہِ (بخاری)

ترجمہ:۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی بہرحال امداد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم بھائی کی مدد کا مطلب تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم بھائی کی مدد کس طرح کی جائے؟ آپ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر کرو۔
تشریح :۔ یہ لطیف حدیث فلسفہ اخوت اور فلسفہ ٔ اخلاق کا ایک نہایت گراں قدر مجموعہ ہے۔ فلسفہ ٔ اخوت کا پہلو تو یہ ہے کہ ایک مسلمان بھائی کی مدد ہر حال میں ہونی چاہئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو اخوت وہ چیز نہیں جسے کسی حالت میں بھی فراموش یا نظرانداز کیا جائے جو شخص ہمارا بھائی ہے وہ ہر صورت میں ہماری مدد کا مستحق ہے اور اس کا ظالم یا مظلوم ہونا اس کے اس حق پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابل پر اس حدیث کے فلسفہ ٔ اخلاق کا پہلو یہ ہے کہ خواہ ہمارا واسطہ غیر کے ساتھ ہو یا کہ بھائی کے ساتھ ہمارا ہرحال میں فرض ہے کہ دنیا سے ظلم اور بدی کو مٹائیں اور نیکی اور انصاف کو قائم کریں کسی کے غیر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس پر ظلم کریں اور کسی کے بھائی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ہم ایک ظلم میں بھی اس کے معین و مددگار ہوں۔
اب غور کرو۔ کہ بظاہر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے کس قدر مخالف اور کتنی متضاد نظر آتی ہیں۔ اگر ظالم بھائی کی مدد نہ کی جائے تو اخوت کی تاریں ٹوٹتی ہیں۔ اور اگر ظالم بھائی کی مدد کی جائے تو انصاف ہاتھ سے دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے آقا (فداہ نفسی) نے ان متوازی نہروں کو جو بظاہر ہمیشہ ایک دوسرے سے جدا رہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حکمت و دانش مندی کی ایک درمیانی نہر کے ذریعہ اس طرح ملا دیا ہے کہ وہ گریا ایک جان ہوکر بہنے لگ گئی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اخوت ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو کسی حالت میں ٹوٹنا نہیں چاہئے۔ میرا بھائی خواہ اچھا ہے یا برا نیک ہے یا بد۔ ظالم ہے یا مظلوم ۔ بہرحال وہ میرا بھائی ہے۔ اور اس کی اخوت کی تاریں کسی حالت میں کاٹی نہیں جاسکتیں۔ لیکن خدائے اسلام ظلم کی بھی اجازت نہیں دیتا اور دشمن تک سے انصاف کا حکم فرماتا ہے ۔ اس لئے ان دو باتوں کو اس طرح ملائو کہ بھائی کی تو بہرحال مدد کرو لیکن اس کے ظالم ہونے کی حالت میں اپنی مدد کی صورت کو بدل دو اگر وہ مظلوم ہے تو اس کے ساتھ ہوکر ظالم کا مقابلہ کرو۔ اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ساتھ لپٹ کر اس کے ظلم کے ہاتھ کو مضبوطی کے ساتھ روکو۔ اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس سے عرض کرو کہ بھائی ہر حال میں میں تمہارے ساتھ ہوں مگر اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا اس لئے میں تمہارے ہاتھ کو ظلم کی طرف بڑھنے نہیں دوں گا۔ یہ وہ مقدس اصول ہے جو اس لطیف حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا ہے۔
یہ خیال کرنا جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض زور دینے کی خاطر خاص قسم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ورنہ مقصد یہی ہے کہ اگر تمہارا بھائی مظلوم ہے تو اس کی مدد کرو۔ اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کے خلاف کھڑے ہو جائو۔ بالکل غلط اور حدیث کے حکیمانہ الفاظ کے ساتھ گویا کھیلنے کے مترادف ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی منشا ہوتا تو آپ بڑی آسانی کے ساتھ فرما سکتے تھے کہ تم بہرحال ظلم کا مقابلہ کرو خواہ وہ تمہارے دشمن کی طرف سے ہو یا تمہارے بھائی کی طرف سے لیکن آپ نے ہرگز ایسا نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے اس فرمان میں بظاہر دو متضاد باتوں کو ملاکر ایک نہایت لطیف اور اچھوتا نظریہ قائم فرمایا ہے جو یہ ہے کہ :۔

یہ وہ مرکب نظریہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پیشترعرب کے صحرا سے اٹھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ لیکن آج تک یورپ اور امریکہ کی کوئی ترقی یافتہ قوم بھی اس نظریہ کی بلندی کو نہیں پہنچ سکی۔ انہوں نے اگر کسی قوم کے ساتھ اخوت کا عہد باندھا تو اس اخوت کے اکرام میں بے پناہ ظلم کا دروازہ کھول دیا اور اگر بزعمِ خود کسی ظلم کے انسداد کے لئے اُٹھے تو اخوت کے عہد کی دھجیاں اڑادیں۔

جو بات اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کیلئے پسند کرو

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ نَـفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَ خِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَـفْسِہٖ (بخاری)

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سچا مومن نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
تشریح :۔ یہ حدیث اسلامی اخوت کا حقیقی معیار پیش کرتی ہے سب سے پہلے قرآن شریف نے تمام مسلمانوں کو انما المومنون اخوۃ (یعنی تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں) کہہ کر بھائی بھائی بنایا اور اس کے بعد ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ فرماکر جو اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اس اخوت کے بلند معیار کی وضاحت فرمائی آپ فرماتے ہیں اور کس شان کے ساتھ خدا کی قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ مومنوں کی اخوت کا حقیقی معیار یہ ہے کہ جو بات ایک مسلمان اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرے ان مختصر الفاظ کے ذریعہ آپ نے گویا مسلمانوں میں ہر قسم کی دُوئی اور غیریت کی جڑھ کاٹ کر انہیں بالکل ایک جان کردیا ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر لوگ نفسانفسی کی مرض میں مبتلا ہوکر اپنے واسطے ہر خیر کو جمع کرنے اور دوسروں کو ہر خیر سے محروم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ

وَیْلُ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا کَالُوْ ھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُم یُخْسِرُوْنَ اَلَا یَظُنُّ اُوْلٰئِکَ اَنَّھُمْ مَبْعُوْثُوْنَ

’’یعنی دوسروں کا حق مارنے والے لوگوں پر افسوس ہے کہ جب وہ دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے ہیں تو خوب بڑھا چڑھا کر لیتے ہیں لیکن جب خود دوسروں کا حق دینے لگتے ہیں تو اپنا ناپ کم کر دیتے ہیں کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیںکہ وہ خدا کے سامنے کبھی پیش نہیں کئے جائیں گے‘‘؟ اسلام اس نفسا نفسی کی مرض کو جڑھ سے کاٹ کر حکم دیتا ہے کہ سچے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کریں۔
مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جو خاص حقوق شریعت نے قریبی رشتہ داروں کیلئے مقرر کر دیئے ہیں انہیں ترک کردیا جائے مثلا باپ کا فرض ہے کہ چھوٹی عمر کی اولاد کے اخراجات کاکفیل ہو خاوند کا فرض ہے کہ بیوی کے اخراجات کو برداشت کرے۔ بچوں کا فرض ہے کہ بوڑھے یا بے سہارا والدین کا بوجھ اُٹھائیں۔ اسی طرح شریعت نے ایک شخص کے مرنے پر اس کے ورثاء کے حصے بھی مقرر کر دیئے ہیں کہ بیوی کو اتنا حصہ ملے اور اولاد کو اتنا حصہ ملے۔ اور ماں باپ کو اتنا حصہ ملے وغیرہ وغیرہ اور دوسرے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں کاخاص خیال رکھنے کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ پس یہ مقرر حقوق تو بہرحال مقدم رہیں گے لیکن انہیں چھوڑ کر عام تعلقات اور معاملات میں اسلام ہر مسلمان سے توقع رکھتا اور اسے تاکیدی ہدایت دیتا ہے کہ جو بات وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند کرے اور یہ نہ ہو کہ اپنے لئے تو اس کا پیمانہ اور ہو اور دوسروں کے لئے اور ہو ۔ ایک دوسری حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں ایک انسانی جسم کے اعضا کا رنگ رکھتے ہیں جس طرح جسم کے ایک عضو کے دُکھنے سے سارا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان کے دُکھ سے ساری قوم میں بے کلی اور بے چینی پیدا ہو جانی چاہئے۔ یہ وہ اخوت کا بلند معیار ہے جس پر خدا کا رسول (فداہ نفسی) ہمیں لے جانا چاہتا ہے کاش ہم اس تعلیم کی قدر کریں۔

ہر ناپسندیدہ بات دیکھ کر اصلاح کی کوشش کرو

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَن رَأیَ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغیِرّہٗ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔ (مسلم)

ترجمہ:۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم میں سے جو شخص کوئی خلافِ اخلاق یا خلافِ دین بات دیکھے تو اُسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے لیکن اگر اسے یہ طاقت حاصل نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کے متعلق اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اسے یہ طاقت بھی نہ ہو تو کم از کم اپنے دل میں اسے برا سمجھ کر (دعا کے ذریعہ) بہتری کی کوشش کرے اور آپ فرماتے تھے کہ یہ سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے۔
تشریح : جہاں اوپر والی حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ کی تحریک کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہر سچے مومن کو اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ ہر وقت جہاد میں لگے رہنا چاہئے۔ وہاں اس حدیث میں جہاد کے بہت سے میدانوں میں سے ایک میدان کے متعلق جہاد کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ یہ میدان قومی اور خاندانی اور انفرادی اصلاح سے تعلق رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہت سی دینی اور اخلاقی بدیاں اس لئے پھیلتی ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کیلئے کوئی قولی یا عملی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اس طرح نہ صرف بدی کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے کیونکہ ایک شخص کے برے نمونہ سے بیسیوں مزید آدمی خراب ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں سے بدی کا رعب بھی کم ہونے لگتا ہے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ قانونی طریق کے علاوہ سوسائٹی میں سے بدی کو مٹانے کے دو ہی بڑے ذریعہ ہیں۔ ایک ذریعہ بزرگوں اور نیک لوگوں کی نگرانی اور نصیحت سے جو بے شمار کمزور طبیعتوں کو سنبھالنے کا موجب ہو جاتی ہے اور دوسرا ذریعہ بدی کا وہ رعب اور ڈر ہے جو سوسائٹی کی رائے عامہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لا تعداد لوگوں کو بدی کے ارتکاب سے روک دیتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ بدصحبت میں مبتلا ہوکر خراب ہونے لگتا ہے۔ مگر اس کے والد یا والدہ یا کسی اور نیک بزرگ کی بروقت نگرانی اور نصیحت اسے گرتے گرتے سنبھال لیتی ہے یا ایک شخص اپنے اندر ایک خاص قسم کی بدی کی طرف میلان پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ مگر اسے سوسائٹی کا رعب اور بدنامی کا ڈر اس میلان سے روک کر پھیلنے سے بچا لیتا ہے۔ اسی طرح اگر عملی نگرانی یا قولی نصیحت نہ بھی ہو تو نیک لوگوں کی خاموش دعائیں بھی خاندانوں اور قوموں کی اصلاح میں بڑا کام کرتی ہیں پس اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں قسموں کے موجبات اصلاح کو حرکت میں لاکر مسلمانوں میں بدی کا رستہ بند کرنا اور نیکی کا رستہ کھولنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں اکثر لوگ ایسے سست اور غافل اور بے پرواہ ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا کوئی عزیز یا دوست یا ہمسایہ برملا طور پر ایک خلافِ اخلاق یا خلافِ دین حرکت کرتا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور یہ خیال کرکے کہ ہم کسی عزیز یا دوست کا دل میلا کیوں کریں یا ہم کسی سے جھگڑا مول کیوں لیں یا ہمیں دوسروں کے ذاتی اخلاق سے کیا سروکار ہے۔ بالکل بے حرکت بیٹھے رہتیہیں ۔ اور بدی ان کی آنکھوں کے سامنے جڑ پکڑتی اور پودے سے پیڑ سے درخت بنتی چلی جاتی ہے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ جو آگ آج ان کے ہمسایہ کے گھر میں لگی ہے کل کو وہی وسیع ہوکر ان کے اپنے گھر کو بھی تباہ کر دے گی۔
الغرض ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت اور دُور اندیشی سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنے ارد گرد بدی اور گناہ کی آگ دیکھ کر تماشہ بین بن کر نہ بیٹھے رہو بلکہ اولاً اپنے ہمسایہ کے گھر کواور پھر خود اپنے گھر کو بھی اس آگ کی تباہی سے بچائو اور آپ نے اس تبلیغی اور تربیتی جدوجہد کو تین درجوں میں منقسم فرمایا ہے اوّل یہ کہ انسان کو اگر طاقت ہو تو بدی کو اپنے ہاتھ سے روک دے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعہ نصیحت کرکے روکنے کی کوشش کرے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر دل کے ذریعہ سے روکے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ ہاتھ سے روکنے سے غیر اور لاتعلق لوگوں کے خلاف تلوار چلانا یا جبر کرنا مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس پوزیشن میںہو کہ وہ کسی بدی کو اپنے ہاتھ سے زور سے بدل سکے تو اس کا فرض ہے کہ ایسا کرے مثلاً اگر ایک باپ اپنے بچے کو کسی غلط رستہ پر پڑتا دیکھے یا ایک افسر اپنے ماتحت کو یاآقا اپنے نوکر کو بدی کے رستہ پر گامزن پائے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے جائز اقتدار کے ذریعہ اس بدی کا سدباب کرے اور زبان سے روکنے سے نصیحت کرنا یا حسب ضرورت مناسب تنبیہہ کے ذریعہ روکنا مراد ہے اور دل کے ذریعہ اصلاح کرنے سے محض خاموش رہ کر دل میں برا ماننا مراد نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دل کے ذریعہ بدلنے یا روکنے ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور یہ غرض ہرگز محض دل میں براماننے کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی ۔ پس دل کے ذریعہ روکنے سے مراد دل کی دُعا ہے جو اصلاح کا ایک تجربہ شدہ ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامنشاء یہ ہے کہ اگر ایک انسان کسی بدی کو نہ تو ہاتھ سے روک سکے اور نہ ہی زبان سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ کم از کم دل کی دعا کے ذریعہ ہی اصلاح کی کوشش کرے اور یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل کے ذریعہ روکنے کی کوشش کرنا سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے ۔ اس سے یہ مراد ہے کہ محض دل کی دعا پر اکتفا کرنا بہت کمزور قسم کی چیز ہے اصل مجاہد انسان وہی سمجھا جاسکتا ہے جو دل کی دعا کے ساتھ ساتھ خدا کی پیدا کردہ ظاہری تدابیر بھی اختیار کرتا ہے جو شخص محض دُعا پر اکتفا کرتا ہے اور بدی کو روکنے کیلئے کوئی ظاہری تدبیر عمل میں نہیں لاتا۔ وہ دراصل اصلاحِ نفس کے فلسفہ کو بہت کم سمجھا ہے۔ دُعا میں بے شک بڑی طاقت ہے لیکن زیادہ موثر دُعا وہ ہے جس کے ساتھ ظاہری تدبیر بھی شامل ہوتا کہ انسان نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل کے ذریعہ بھی خدا کے فضل کا جاذب بن سکے۔
پس تمام سچے مسلمانوں کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد پر عمل کریں۔ یعنی اگر ان کے سامنے کوئی ایسا شخص بدی کا مرتکب ہو جو ان کا کوئی عزیز یا دوست یا ماتحت ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دیں اور اگر کوئی ایسا شخص بدی کا مرتکب ہونے لگے جسے ہاتھ سے روکنا ان کے اختیار میں نہیں۔ بلکہ ہاتھ کے ذریعہ روکنا فتنہ کا موجب ہوسکتا ہے تو اُسے زبان کی نصیحت سے روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر اپنی کمزوری یا فتنہ کے خوف کی وجہ سے انہیں ان دونوں باتوں کی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم اس بدی کے استیصال کیلئے دل میں ہی سچی تڑپ کے ساتھ دعا کریں افراد اور خاندانوں اور قوموں کی اصلاح کیلئے یہ تدبیر اتنی مفید اور اتنی مؤثر اور اتنی بابرکت ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو ایک بہت قلیل عرصہ میں ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے لیکن بدی کے نظاروں کو تماشے کے رنگ میں دیکھنے والا انسان ہرگز سچا مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا۔

مجاہد اور قاعد مسلمان میں درجہ کا فرق

عَنْ اَبیِ ھُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلوٰۃ وَصَامَ رَمْضَانَ کَانَ حَقّاً عَلیٰ اللّٰہِ اِنْ یُّدْخِلَہُ الْجنّۃَ جَاھَدَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ اَوْجَلَسَ فِیْ رَوْضَۃِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا۔ قَالُوْ اَفَلَا نُبَشِّرُ الَناسَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلمُجَاھِدِیْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالاَرْضِ فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْئَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَانَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلیٰ الْجَنَّۃِ وَفَوْقَھَا عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْھَا یَتَفَجَّرُ انْھٰرُ الْجَنَّۃِ(بخاری)

ترجمہ :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اور نماز قائم کرتا اور رمضان کے روزے رکھتا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ پر گویا یہ حق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ ایسا انسان خدا کے رستہ میں جہاد کرے یا کہ اپنے پیدائشی گھرکے باغیچہ میں ہی قاعدبن کر بیٹھا رہے۔ صحابہ نے عرض کیا تو کیا یا رسول اللہ ہم یہ بشارت لوگوں تک نہ پہنچائیں؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک سودرجے ایسے ہیں جنہیں خدا نے اپنے مجاہد بندوں کے لئے تیار کر رکھا ہے اور ہر درجہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس اے مسلمانو! جب تم خدا سے جنت کی خواہش کرو تو فردوس والے درجہ کی خواہش کیا کرو۔ جو جنت کاسب سے وسطی اور سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اس سے اوپرخدا نے ذوالجلال کا عرش ہے اور اسی میں سے جنت کی تمام نہریں پھوٹتی ہیں۔
تشریح :۔ میں نے اپنے عام اصولِ انتخاب کے خلاف یہ لمبی حدیث اس لئے درج کی ہے کہ اس حدیث سے ہمیں کئی اہم اور مفید اور اصولی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ باتیں یہ ہیں:۔
(۱) یہ کہ جنت میں صرف ایک ہی درجہ نہیں ہے بلکہ بہت سے درجے ہیں۔ جن میں سب سے اعلیٰ درجہ فردوس ہے جو گویا جنت کی نہروں کا منبع ہے۔
(۲) یہ کہ جنت میں مجاہد مسلمانوں کے کم سے کم درجہ اور قاعد مسلمانوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ میں بھی اتنا ہی فرق ہوگا۔ جتنا کہ زمین اور آسمان میں فرق ہے۔
(۳) یہ کہ مسلمانوں کو نہ صرف مجاہدوں والا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ مجاہدوں والے درجوں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ یعنی فردوس کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔
(۴) یہ کہ جنت کے مختلف درجے خدا تعالیٰ کے قرب کے لحاظ سے مقرر کئے گئے ہیں۔ اسی لئے جنت کے اعلیٰ ترین درجہ کو عرشِ الٰہی کے قریب تر رکھا گیا ہے۔
(۵) یہ کہ جنت کی نعمتیں مادی نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں۔ کیونکہ ان کا معیار خدا کا قرب مقرر کیا گیا ہے۔ اور گو ان نعمتوں میں روح کے ساتھ جسم کا بھی حصہ ہوگا۔ جیسا کہ اعمال میںبھی اس کا حصہ ہوتا ہے مگر جنت میں انسان کا جسم بھی روحانی رنگ کا ہوگا۔ اس لئے وہاں کی جسمانی نعمتیں بھی دراصل روحانی معیار کے مطابق بالکل پاک و صاف ہوں گی۔
یہ وہ لطیف علم ہے جو ہمیں اس حدیث سے حاصل ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ تا مسلمانوں کے مقصد اور آئیڈیل کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے بے شک ایک مسلمان جو نماز اور روزہ کے احکام وغیرہ کو تو خلوص نیت سے پورا کرتا ہے( اس حدیث میں حج اور زکوٰۃ کے ذکر کو اس لئے ترک کیا گیا ہے کہ وہ ہر مسلمان پر واجب نہیں۔ بلکہ صرف مستطیع اور مالدار لوگوں پر واجب ہیں)مگر اپنے گھر میں قاعدین کو بیٹھا رہتا ہے وہ خدا کی گرفت سے بچ کر نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر وہ ان اعلیٰ انعاموں کو نہیںپاسکتا جو انسان کو خدا تعالیٰ کے قرب خاص کا حق دار بناتے ہیں ۔ پس ترقی کی خواہش رکھنے والے مومنوں کا فرض ہے کہ وہ قاعدانہ زندگی ترک کرکے مجاہدانہ زندگی اختیار کریں۔ اور خدا کے دین اور اس کے رسول کی امت کی خدمت میں دن رات کوشاں رہیں۔ حق یہ ہے کہ ایک قاعد مسلمان جس کے دین کا اثر اور اس کے دین کا فائدہ صرف اس کی ذات تک محدود ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ نعمتوں سے ہی محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے ہر وقت کا خطرہ بھی مول لیتا ہے کیونکہ بوجہ اس کے کہ وہ بالکل کنارے پر کھڑا ہے اس کی ذرا سی لغزش اسے نجات کے مقام سے نیچے گر اکر عذاب کا نشانہ بنا سکتی ہے مگر ایک مجاہد مسلمان اس مقام سے نیچے گراکر عذاب کا نشانہ بناسکتی ہے مگر ایک مجاہد مسلمان اس امکانی خطرہ سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ خدا کی راہ میں مجاہد بننے کا کیا طریق ہے سوگو جہاد فی سبیل اللہ کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ مگر قرآن شریف نے دو شاخوں کو زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ فرماتا ہے

فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلیٰ الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً ۔

’’یعنی خدا تعالیٰ نے دین کے رستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والے لوگوں کو گھروں میں بیٹھ کر نیک اعمال بجا لانے والوں پر بڑی فضیلت دی ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا بڑا ذریعہ مال اور جان ہے ۔ مال کا جہاد یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترقی اور اسلام کی مضبوطی کے لئے بڑھ چڑھ کر روپیہ خرچ کیا جائے اور جان کا جہاد یہ ہے کہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت (یعنی تبلیغ اور تربیت وغیرہ) میں لگایا جائے۔ اور موقعہ پیش آنے پر جان کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ جو شخص ان دو قسموں کے جہادوں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ان اعلیٰ انعاموں کا حق دار قرار پاتا ہے جو ایک مجاہد کیلئے مقدر ہیں ۔ مگر گھر میں بیٹھ کر نماز روزہ کرنے والا مسلمان ایک قاعد والی بخشش سے زیادہ امید نہیں رکھ سکتا۔
اب دیکھو کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم پر کس درجہ شفقت ہے کہ ایک انتہائی طور پر رحیم باپ کی طرح فرماتے ہیں کہ بیشک تم نماز روزہ کے ذریعہ نجات تو پالو گے اور عذاب سے بچ جائوگے۔ مگر اپنے تخیل کو بلند کرکے ان انعاموں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو ایک مجاہد فی سبیل اللہ کیلئے مقدر کئے گئے ہیں کیونکہ اس کے بغیر قومی زندگی کا قدم کبھی بھی ترقی کی بلندیوں کی طرف نہیں اٹھ سکتا بلکہ ایسی قوم کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ اس تعلق میں سب سے مقدم فرض ماں باپ کا اور ان سے اُتر کر سکولوں کے اساتذہ اور کالج کے پروفیسروں کا ہے۔ کہ وہ بچپن کی عمر سے ہی بچوں میں مجاہدانہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں قاعدانہ زندگی پر ہرگز قانع نہ ہونے دیں۔

خدا کی نظر دلوں پر ہے

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلیٰ قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ۔ (مسلم)

ترجمہ: ابو ہریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کی طرف دیکھتا ہے۔
تشریح : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کی نعمت ہونے کے باوجود بعض اوقات عورتوں اور مردوں میں بھاری فتنہ کا موجب بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جسمانی حسن و جمال ہے جوعموماً عورتوں کیلئے فتنہ کی بنیاد بنتا ہے اور دوسرے مال و دولت ہے جو بالعموم مردوں کو فتنہ میں مبتلا کرتا ہے۔ ان دو باتوں کو مثال کے طور پر سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بیشک یہ دونوں چیزیں خدا کی پیدا کی ہوئی نعمتیں ہیں۔ مگر مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ کسی انسان کی قدروقیمت کو پرکھنے کیلئے خدا تعالیٰ عورتوں کے حسن او رمردوں کے مال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ ان دونوں کے دلوں اور دماغ کی طرف دیکھتا ہے جو انسانی خیالات اور جذبات کا مبدا و منبع ہیںاور پھر وہ ان کے اعمال کی طرف دیکھتا ہے جو ان خیالات او رجذبات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
اس حدیث میں جو قلب کا لفظ بیان ہوا ہے اس سے دل اور دماغ دونوں مراد ہیںجنہیں انگریزی میں ہارٹ Heartاور مائنڈMindکہتے ہیں کیونکہ قلب کے لفظی معنی کسی نظام کے مرکزی نقطہ کے ہیں اور دل اور دماغ دونوں اپنے اپنے دائرہ میںجسمانی نظام کامرکز ہیں دماغ ظاہری احساسات کا مرکز ہے اور دل روحانی جذبات کا مرکز ہے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قلوب اور اعمال کا لفظ استعمال کرکے اشارہ فرمایا ہے کہ بیشک جسمانی حسن اور ظاہری مال و دولت بھی خدا کی نعمتیں ہیں اور انسان کو ان کی قدر کرنی چاہئے لیکن وہ چیز جس کی طرف خدا کی نظر ہے انسان کا قلب اور اس کے اعمال ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جمال و مال اور دنیا کی دوسری نعمتوں پر فخرکرنے کی بجائے اپنے دل و دماغ کی اصلاح اور اپنے اعمال کی درستی کی فکر کرے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے قلب اور اس کے اعمال کی طرف دیکھتا ہے اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ قیامت والے حساب کتاب میں انہی چیزوں کووزن حاصل ہوگا۔ بلکہ ان الفاظ میں یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اس دنیا میں بھی حقیقی وزن دل کے جذبات اور دماغ کے احساسات اور جوارح کے اعمال کو حاصل ہوتا ہے حق یہ ہے کہ جس قوم کے افرا د کو یہ نعمت حاصل ہوجائے یعنی ان کا دل اور ان کا دماغ اور ان کے ہاتھ پاؤں ٹھیک رستہ پر چل دیں اس کی ترقی اور اس کے لئے نعمتوں کے حصول کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔

اعمال کا اجر نیّت کے مطابق ملتا ہے

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعَتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّمَا الْاَاعْمَالُ بِالِنّیَّاتِ وَاِ نَّمَا لِکُلِّ امْرِیٔ مَّانَوٰی (بخاری)

ترجمہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پاتا ہے۔
تشریح : یہ لطیف حدیث انسانی اعمال کے فلسلفہ پر ایک اصولی روشنی ڈالتی ہے ظاہر ہے کہ بظاہر نیک نظر پنے والے اعمال بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں بعض کام محض عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں اور بعض کام دوسروں کی نقل میں کئے جاتے ہیں اور بعض کام ریا اور دکھاوے کے طور پر کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب کام خدائے اسلام کے ترازو میں بالکل بے وزن اور بے سود ہیں اور صحیح عمل وہی ہے جو دل کے سچے ارادہ اور نیت کے خلوص کے ساتھ کیا جائے۔ اور یہی وہ عمل ہے جو خدا کی طرف سے حقیقی جزا پانے کا مستحق ہوتا ہے ۔ حق یہ ہے کہ جب تک انسان کا دل اور اس کی زبان اور اس کے جوارح یعنی ہاتھ پائوں وغیرہ کسی عمل کے بجالانے میں برابر کے شریک نہ ہوں وہ عمل کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ دل میں سچی نیت ہو۔ زبان سے اس نیت کی تصدیق ہو اور ہاتھ پائوں اس نیت کے عملی گواہ ہوں۔ تو تب جاکر ایک عمل قبولیت کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں سچی نیت نہیں تو وہ منافق ہے۔ اگر اس کی زبان پر اس کی نیت کی تصدیق نہیں توہ وہ بزدل ہے۔ اور اگر اس کے ہاتھ پائوں اس کی بیان کردہ نیت کے مطابق نہیں تو وہ بدعمل ہے پس سچاعمل وہی ہے جس کے ساتھ سچی نیت شامل ہو۔ پاک نیت سے انسان اپنے بظاہر دنیوی اعمال کو بھی اعلیٰ درجہ کے دینی اعمال بنا سکتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک خاوند اس نیت سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے کہ میرے خدا کا یہ منشاء ہے کہ میں اپنی بیوی کا خرچ مہیا کروں اور اس کے آرام کا خیال رکھوں تو اس کا یہ فعل بھی خدا کے حضور ایک نیکی شمار ہوگا مگر افسوس ہے کہ دنیا میں لاکھوں انسان صرف اس لئے نماز پڑھتے ہیں کہ انہیں بچپن سے نماز کی عادت پڑچکی ہے اور لاکھوں انسان صرف اس لئے روزہ رکھتے ہیں کہ ان کے ارد گرد کے لوگ روزہ دار ہوتے ہیں اور لاکھوں انسان صرف اس لئے حج کرتے ہیں کہ تا لوگوں میں ان کام حاجی مشہور ہو اور وہ نیک سجھے جائیں اور ان کے کاروبار میں ترقی ہو۔ ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی یہ حدیث ایسے تمام اعمال کو باطل قرار دیتی ہے اور ایک باطل عمل خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی نیک نظرآئے خدا کے حضور کوئی اجر نہیں پاسکتا۔ لاریب سچا عمل وہی ہے جس کے ساتھ سچی نیت ہو۔ اور عمل کا اجر بھی نیت کے مطابق ہی ملتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے نبی ہیں

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ قَالَ رَسُْولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنّیِ اٰخِرُالْاَ نْبِیَآئِ وَاِنَّ مَسْجِدِیْ ھٰذَا اٰخِرُالْمَسَاجِدِ (مسلم)

ترجمہ:۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں آخری نبی ہوں اور میری یہ (مدینہ کی) مسجد آخری مسجد ہے ۔
تشریح : اس لطیف حدیث میں ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی ایسا مصلح نہیں آسکتا جو میری نبوت کے دور کومنسوخ کرکے اور میرے مقابل پر کھڑا ہوکر ایک نیا دور شروع کر دے بلکہ اگر کوئی آئے گا تو وہ لازماً میراتابع اور میرا شاگرد اور میری شریعت کا خادم ہونے کی وجہ سے میری نبوت کے دور کے اندر ہوگا نہ کہ اس سے باہر۔ اسلطیف مضمون کو واضح فرمانے کیلئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ زیادہ فرمائے ہیں کہ مسجدی ھذا اٰخر المساجد ’’ یعنی میری یہ (مدینہ والی)مسجد آخری مسجد ہے ‘‘ اب ظاہر ہے کہ ان الفاظ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی واقعات اس کی تائید کرتے ہیں کہ آئندہ دنیا میں کوئی اور مسجد بنے گی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آئندہ کوئی مسجد میری مسجد کے مقابل پر نہیں بنے گی بلکہ جو مسجد بھیبنیگی وہ میری اس مسجد کے تابع اور اس کی نقل اور ظل ہوگی۔
اسی طرح انیِ اٰخرالا نبیآء (میں آخری نبی ہوں) کے بھی یہی معنی ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری غلامی سے آزاد ہوکر میری نبوت کے مقابل پرکھڑا ہو اور میرے دین کو چھوڑ کر کوئی نیا دین لائے بلکہ اگر کوئی آئے گا تو میرا خادم اور میرا شاگرد اور میرا تابع اور میرا ظل اور گویا میرے وجود کا حصہ ہوکر آئے گا۔ اور یہی وہ گہرا فلسفہ ہے جو ایک قرآنی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین (نبیوں کی مہر) رکھ کر بیان کیا گیا ہے خوب غور کرو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ والی مسجد کے بعد اسلامی ممالک میں کروڑوں مسجدوں کی تعمیر کے باوجود مسجد ھذا اٰخر المساجد (یعنی میری یہ مسجد آخری مسجد ہے) کا مفہوم قائم رہتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ کے کسی خادم اور شاگرد اور تابع کا آپ کی اتباع اور غلامی میں نبوت کا انعام پانا کس طرح ختم نبوت یا انی اخر الانبیاء (یعنی میں آخری نبی ہوں) کے منشاء کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے ؟ پس یقینا اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ میں خدا کا آخری صاحب شریعت نبی ہوں ۔ جس کے بعد کوئی نبی میری غلامی کے جوئے سے آزاد ہوکر اور میرے دین کو چھوڑ کر نہیں آسکتا اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے جس کے بعد کوئی اور مسجد میری مسجد کے مقابل پر نہیں بن سکتی۔ اور اگر غور کیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان بھی اس بات میں نہیں ہے کہ آپ کو گذشتہ جاری شدہ نعمتوں کا بند کرنے والا قرار دیا جائے بلکہ آپ کی شان اس بات میں ہے کہ الگ الگ نہروں کو بند کرکے آئندہ تمام نہریں آپ کے وسیع دریا سے نکالی جائیں۔
یہی وہ لطیف تشریح ہے جو اسلام کے چوٹی کے علماء اور بڑے بڑے مجدد ہر زمانہ میں کرتے آئے ہیں چنانچہ صوفیاء کے سردار اور امام حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (ولادت ۵۶۰ھ؁ وفات ۶۳۸ھ؁) فرماتے ہیں:۔
النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع۔ (فتوحات مکیہّ جلد ۲ صفحہ ۳)
’’ یعنی وہ نبوت جس کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے بند ہوگیا ہے وہ صرف شریعت والی نبوت ہے‘‘۔
حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (وفات ۹۷۶ھ؁ ) جو ایک بڑے امام مانے گئے ہیں فرماتے ہیں:۔ ان مطلق النبوۃ لم ترتفع وانما ارتفعت نبوۃ التشریع
(الیواقیت الجواہر جلد اوّل صفحہ ۲۴)
’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مطلق نبوت ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ صرف شریعت والی نبوت بند ہوئی ہے‘‘۔
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی (وفات ۱۰۳۴ھ؁ ) جو اسلام کے مجددین میں نہایت ممتاز حیثیت کے مالک ہیں فرماتے ہیں:۔
حصولِ کمالات نبوت مرتابعاں رابطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثتِ خاتم الرسل منافی ختمیت اونیست فلاتکن من الممترین
(مکتوبات احمد جلد ۔۱ ۔ مکتوب صفحہ ۲۷۱)
’’ یعنی آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے متبعین کیلئے آپ کی پیروی اور ورثہ میں نبوت کے کمالات کا حصول آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی نہیں ہے پس تو اس بات میں شک کرنے والوں میں سے مت بن‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجددو صدی دوازدہم (ولادت ۱۱۱۴ھ؁ وفات ۱۱۷۶ھ؁ ) جن کے علم و فضل اور علومرتبت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔
ختم بہ النبیون ای یوجد بعدہ من یامرہ اللہ سبحانہ بالتشریع علی الناس۔ (تفہیمات الہیہ تفہیم صفحہ ۵۳)
’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں آسکتا جسے خدا تعالیٰ کوئی نئی شریعت دے کر مبعوث کرے‘‘۔
حضرت مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند (ولادت ۱۲۴۸؁ھ وفات ۱۲۹۷ھ؁ ) جو قریب کے زمانہ میں ہی بہت بڑے عالم گذرے ہیں اور ان کا مدرسہ علومِ مشرقیہ کی تعلیم کیلئے برعظیم ہندو پاکستان میں بہت بڑی شہرت کا مالک ہے فرماتے ہیں:۔
’’ عوام الناس کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بائیں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئیگا۔ (تخدیر الناس صفحہ ۳و ۲۸)
پس لاریب یہی نظریہ درست اور صحیح ہے کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود با جود میں نبوت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے اور دائمی شریعت کا نزول پورا ہوچکا ہے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جو آپ کا خوشیہ چین بن کر آپ کی غلامی میں آپ کی مہر تصدیق کے ساتھ نبوت کے انعام کا وارث بنتا ہے ۔ کاش لوگ اس لطیف نکتہ کو سمجھیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ خصوصیات

عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُعْطِیْتُ خَمْسًالَّمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ قَبْلِیْ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَّجُعِلَتْ لِیَ اْلَارْضُ مَسْجِدًا وَّطَھُوْرا۔۔۔ وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِاَ حْدٍ قَبْلِیْ وَاُعْطیْتُ الشَّفَاعَۃَ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَاصَۃً وَّبُعِثْتُ اِلیَ النَّاسِ عَامَّۃً (بخاری)

ترجمہ:۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے خدا کی طرف سے پانچ ایسی باتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی اور نبی کو عطا نہیں ہوئیں اوّلؔ مجھے ایک مہینے کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا داد رعب عطا کیا گیا ہے۔ دوسرے میرے لئے ساری زمین مسجد او ر طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی ہے تیسرے میرے لئے جنگوں میں حاصل شدہ مال ِ غنیمت جائز قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے جائز نہیں تھا۔ چوتھے مجھے خدا کے حضور شفاعت کا مقام عطا کیا گیا ہے اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی صرف اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا۔ لیکن میں ساری دنیا اور سب قوموں کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
تشریح : اس حدیث میں ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی پانچ ممتاز خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن سے آپ کی ارفع شان اور آپ پر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی شفقت کا ثبوت ملتا ہے ۔

پہلی خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ آپ کو ایک مہینہ کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا داد رعب عطا کیا گیا ۔ چنانچہ تاریخِ اسلام اس بات کی زبردست شہادت پیش کرتی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بظاہر کمزوری اور فقر کی حالت کے باوجود ہر دشمن آپ کے خداداد رعب سے کانپتا تھا۔ حتیٰ کہ بسا اوقات ایسا ہوا کہ دشمن نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک قلیل جماعت لیکر اس کے مقابلے کے واسطے نکلے تو وہ آپ کی آمد کی خبر سنتے ہی بھاگ گیا ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے سب سے بڑے بادشاہ قیصر ِ روم کو ایک تبلیغی خط لکھا تو اس نے آپ کے حالات سن کر کہا کہ اگر میں اس نبی کے پاس پہنچ سکوں تو آپ کے پائوں دھونے میں اپنی سعادت سمجھوں ۔

دوسری خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ آپ کیلئے ساری زمین مسجد بنادی گئی جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان جہاں بھی اُسے نماز کا وقت آجائے اپنی نماز ادا کرسکتا ہے اور دوسری قوموں کی طرح اسے کسی خاص جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یہ اس لئے ضروری تھا تاکہ مسلمانوں کے وسیع مجاہدانہ پروگرام میں سہولت پیدا کی جائے اسی طرح آپ کے لئے زمین طہارت کا ذریعہ بھی بنادی گئی جس کا ادنیٰ پہلو یہ ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو ایک مسلمان وضو کی جگہ پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرکے نماز ادا کرسکتا ہے اور یہ پانی اور مٹی کا جوڑ حضرت آدم کی خلقِت کے پیش نظر رکھا گیا ہے جنہیں قرآنی محاورہ کے مطابق گیلی مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔

تیسری خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ بخلاف سابقہ شریعتوں کے جن میں غنیمت کے مال کو جلا دینے کا حکم تھا۔ آپ کے واسطے جنگوں میں ہاتھ آنے والا مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے۔ جس میں یہ حکمت ہے کہ ایک تو قوموں کے اموال یونہی ضائع نہ ہوں اور دوسرے ظالم لوگوں کو یہ سبق دیا جائے کہ اگر تم دوسروں پر دست درازی کروگے تو تمہارے اموال تم سے چھین کر مظلوموں کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں گے اور تیسرے یہ کہ اسلامی غزوات میں کمزور مسلمانوں کیلئے مضبوطی کا سامان پیدا کیا جائے۔

چوتھی خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ آپ کو شفاعت کا ارفع مقام عطا کیا گیا ہے۔ شفاعت کے لفظی معنی جوڑ کے ہیں اور اصطلاحی طور پر اس سے مراد عام دعا نہیں ہے بلکہ وہ مخصوص مقام مراد ہے جس میں ایک مقرب انسان اپنے دہرے تعلق کی بنا پر (یعنی ایک طرف خدا کا تعلق اور دوسری طرف بندوں کا تعلق) خدا کے حضور سفارش کرنے کا حق حاصل کرتا ہے اور اس سفارش کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! میں ایک طرف تیرے ساتھ اپنے خاص تعلق کا واسطہ دے کر اور دوسری طرف تیری مخلوق کے لئے (یا فلاں مخصوص فرد کیلئے) اپنی قلبی درد کو تیرے سامنے پیش کرکے تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ اپنے ان کمزور بندوں پر رحم فرما اور انہیں بخش دے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دن لوگوں میں انتہائی گھبراہٹ اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگی تو اس وقت وہ تمام دوسری طرفوں سے مایوس ہوکر میرے پاس آئیں گے اور پھر میں خدا کے حضور ان کی شفاعت کروںگا۔ اور میری شفاعت قبول کی جائے گی۔

پانچویں خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ جہاں گذشتہ نبی صرف خاص خاص قوموں کی طرف اور خاص خاص زمانوں کیلئے آئے تھے وہاں آپ ساری قوموں اور سارے زمانوں کے واسطے مبعوث کئے گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی خصوصیت اور بہت بڑا امتیاز ہے جس کے نتیجہ میں آپ کا خدا داد مشن ہر قوم اورہر ملک اور ہر زمانہ کے لئے وسیع ہوگیا اور آپ خدا کے کامل اور مکمل مظہر قرار دیئے گئے ہیں یعنی جس طرح ساری دنیا کا خدا ایک ہے۔ اسی طرح آپ کی بعثت سے ساری دنیا کا نبی بھی ایک ہوگیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ۔

پانچ ارکانِ اِسلام

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُنَِی اْلِاسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ شَھَادَۃُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامُ الصَّلوٰۃِ وَاِیتَائُ الَّزکٰوٰۃِ وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانََ (بخاری)

ترجمہ:۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پررکھی گئی ہے (۱) اس بات کی دل اور زبان سے گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی قابل پرستش نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ ادا کرنا (۴) بیت اللہ کا حج بجا لانا اور (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔
تشریح : یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں اوپر والی حدیث (یعنی پہلی حدیث) میں ایمان کی تشریح بیان کی گئی تھی۔ وہاں موجودہ حدیث میں اسلام کی تشریح بیان کی گئی ہے اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایمان عقیدہ کا نام ہے اور اسلام عمل کا نام ہے اور دین کی تکمیل کے لئے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں اور یہ جو ان دونوں حدیثوں میں خدا اور رسول پر ایمان لانے کو مشترک رکھا گیا ہے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ پہلی حدیث میں تو ایمان باللہ اور ایمان باالرسول کو صرف دل کے عقیدہ اور زبان کی تصدیق کے اظہار کے لئے شامل کیا گیا ہے مگر دوسری حدیث میں وہ عمل کی بنیاد بننے کی حیثیت میں داخل کیا گیا ہے بہرحال موجودہ حدیث کی رُو سے اسلام کی تعریف مبں سب سے اوّل نمبر پر یہ بات رکھی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لایا جائے تاکہ ایک مسلمان کا ہر عمل اسی مقدس عقیدہ کی بنیاد پر قائم ہو کہ خدا ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے آخری شریعت لانے والے نبی ہیں اس کے بعد چار عملی عبادتیں گنائی گئی ہیں جو یہ ہیں:۔
(۱) پہلی عبادت صلوٰۃ یعنی نماز ہے جس کے معنی عربی زبان میں دُعا اور تسبیح و تحمید کے ہیں ۔ نماز دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازوں کی صورت میں فرض کی گئی ہے اور جسمانی طہارت یعنی مسنون وضو کے بعد مقررہ طریق پر ادا کی جاتی ہے۔ ان پانچ نمازوں میں سے ایک صبح کی نماز ہے جو صبح صادق کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ دوسرے ظہر کی نماز ہے جو سورج کے ڈھلنے یعنی دوپہر کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ تیسرے عصر کی نماز ہے جو سورج کے کافی نیچا ہو جانے کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ چوتھے مغرب کی نماز ہے جو سورج کے غروب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور پانچویں عشاء کی نماز ہے جو شفق کے غائب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے اس طرح نہ صرف دن کے مختلف اوقات کو بلکہ رات کے ہر دو کناروں کو بھی خدا کے ذکر اور خدا کی عبادت اور خدا سے اپنی دعائوں کی طلب میں خرچ کیا جاتا ہے۔ نماز کی غرض و غایت خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرنا اور اس کی یاد کو اپنے دل میں تازہ رکھنا ۔ اور اس کے ذریعہ اپنے نفس کو فحشاء اور منکرات سے پاک کرنا اور خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرنا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق کامل نماز وہ ہے جس میں نماز پڑھنے والا اس وجدان سے معمور ہوکہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں۔ یا کم از کم یہ کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز کے اوقات میں انسانی زندگی کے مختلف حصوں کی طرف لطیف اشارہ رکھا گیا ہے اور اسی لئے دن کے آخری حصہ میں جب رات کی تاریکی قریب آرہی ہوتی ہے نمازوں کے درمیانی وقفہ کو کم کردیا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ عالمِ آخرت کی تیاری عمر کی زیادتی کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جانی چاہئے ۔ نماز کی عبادت حقیقۃً روحانیت کی جان ہے اور اسی لئے اسے مومن کا معراج قرار دیا گیا ہے اور نماز کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی شغف اور ذاتی سرورکا یہ عالم تھا کہ آپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے ’’ جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلوٰۃ‘‘۔ یعنی نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
(۲) دوسری عملی عبادت اسلام میں زکوٰۃ ہے جس کے معنی کسی چیز کو پاک کرنے اور بڑھانے کے ہیں۔ زکوٰۃ کی بڑی غرض یہ ہے کہ ایک طرف امیروں کے مال میں سے غریبوں کا حق نکال کر اسے پاک کیا جائے اور دوسری طرف غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کا سامان مہیا کرکے قوم کے مقام کو بلند کیا جائے اور اس کے افراد کو اوپر اٹھایا جائے۔ زکوٰۃ کا ٹیکس مال کا ضروری اور اقل حصہ چھوڑ کر زائد مال پر جسے شرعی اصطلاح میں نصاب کہتے ہیں لگایا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس چاندی سونے اور چاندی سونے کے زیورات اور چاندی سونے کے سکوں (جن میں کرنسی نوٹ بھی شامل ہیں) اڑھائی فی صدی سالانہ کے حساب سے مقرر ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ سونے کا علیحدہ نصاب مقرر نہیں ہے۔ بلکہ چاندی کے نصاب کی قیمت کی بنیاد پرہی سونے کے نصاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو لازماً ان دو ۲ دھاتوں کی نسبتی قیمت کے لحاظ سے بڑھتا گھٹتا رہے گا۔تجارتی مال پر بھی اڑھائی فی صدی سالانہ کی شرح مقرر کی گئی ہے۔ زرعی زمینوں اور باغات کی فصل پر بارانی فصل کی صورت میں دسواں حصہ اور مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بیسواں حصہ زکوٰۃ مقرر ہے بھیڑ بکریوں کی صورت میں قطع نظر تفصیلات کے ہر چالیس بکریوں سے لیکر ایک سو بیس بکریوں تک پر ایک بکری اور گائے بھینسوں کی صورت میں تیس جانوروں پر ایک بچھڑا اور اونٹوں کی صورت میں ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری اور پچیس اونٹوں پر ایک جوان اونٹنی مقرر ہے اور زمین کی کانوں اور دفینوں اور بند خزانوں پر بیس فیصدی یک مشت کی شرح سے زکوٰۃ لگتی ہے اور پھر زکوٰۃ کی یہ سب آمدنی فقراء اور مساکین کے علاوہ مقروضوں اور مسافروں اور غلاموں اور مولفۃ القلوب لوگوں اور دینی مہموں میں حصہ لینے والوں اورزکوٰۃ کا انتظام کرنے والے عملہ پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح زکوٰۃ قومی دولت کو سمونے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔
(۳) تیسری عملی عبادت حج ہے۔ حج کے معنی کسی مقدس مقام کی طرف سے سفر اختیار کرنے کے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد مکرمہ میں جاکر خانہ کعبہ اور صفا و مروہ کی پہاڑیوں کا طواف کرنا اور پھر مکہ سے نو میل پر عرفات کے تاریخی میدان میں وقوف کرکے دعائیں کرنا اور پھر واپسی پر مزولفہ میں قیام کرکے عبادت بجا لانا اور بالآخر مکہ سے تین میل پر منیٰ کے مقام میں قربانی دینا ہے۔ حج جو ماہ ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں اور دسویں تاریخوں میں ہوتا ہے صرف ایک مقدس ترین جگہ کی زیارت ہی نہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانی اور پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی قربانی کی مقدس روایات وابستہ ہیں بلکہ حج مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے مسلمانوں کو آپس میں ملنے اور تعارف پیدا کرنے اور ایک دوسرے سے ملی معاملات میں مشورہ کرنے کا بے نظیر موقعہ بھی مہیا کرتا ہے حج ساری عمر میں صرف ایک دفعہ بجا لانا فرض ہے او جیسا کہ دوسری حدیث میں صراحت آئی ہے اس کے لئے صحت او ر واجبی خرچ اور راستہ میں امن کا ہونا ضروری شرط ہے۔
(۴) چوتھی عملی عبادت رمضان کے روز ے ہیں یہ روزے ہر ایسے مسلمان پر جو بلوغ کی عمر کو پہنچ چکا ہو اور بیمار یا مسافر نہ ہو۔ فرض کئے گئے ہیں ۔ بیمار یا مسافر کو دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنی پڑتی ہے روزہ کے لئے عربی میں صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی اپنے نفس کو روکنے کے ہیں ۔ یہ عبادت رمضان کے مہینہ میں جو قمری حساب کے مطابق سال کے مختلف موسموں میں چکر لگاتا ہے ۔ ادا کی جاتی ہے۔ اور صبح صادق سے قبل سحری کا کھانا کھاکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ اختلاط کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے گویا روزوں میں مسلمانوں کی طرف سے زبان حال سے اپنی ذات اور اپنی نسل کی قربانی کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے روزے نفس کو پاک کرنے اور مشقت کا عادی بنانے کے علاوہ غریبوں کی غربت کا احساس پیدا کرانے اور مومنوں میں قربانی کی روح کو ترقی دینے کیلئے مقرر کئے گئے ہیں۔ حقیقۃً روزہ ایک بہت ہی بابرکت عبادت ہے۔

چھ شرائط ِ ایمان

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلاِیْمَانُ اَنْ تُؤمِنَ بِاللّٰہِ َومَلَٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ اْلاٰخِرِ وَتُوْمِنَ بِاْلقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ (مسلم)

ترجمہ :۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور یوم آخر یعنی جز ا سزا کے دن پر ایمان لائے اور اس کے علاوہ تو خدا کی تقدیر خیر و شر پر بھی ایمان لائے‘‘۔
تشریح : اس حدیث میں اسلام کی تعلیم کے مطابق ایمان کی تشریح بیان کی گئی ہے جو چھ بنیادی باتوں پر مشتمل ہے۔
(اوّل) اللہ پر ایمان لانا جو دنیا کا واحد خالق و مالک خدا ہونے کی وجہ سے ایمانیات کا مرکزی نقطہ ہے۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ عربی زبان میں اللہ کا لفظ خدائے واحد کے سوا کسی اور کے متعلق استعمال نہیں کیا جاتا اور اس سے مراد ایسی ہستی ہے جو تمام عیوب سے پاک اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور تمام علوم کی حامل اور تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔
(دوم) فرشتوں پر ایمان لانا جو خدا کی ایک نہ نظر آنے والی مگر نہایت اہم مخلوق ہے۔ فرشتے خدا کے حکم کے ماتحت اس کارخانہ ٔ عالم کو چلانے والے اور خدا کی طرف سے پیدا کئے ہوئے اسباب کے نگران ہیں اور فرشتے خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان پیغام رسانی کا واسطہ بھی بنتے ہیں۔
(سوم) خدا کی طرف سے نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان لانا جن کے ذریعہ دنیا کو خدا تعالیٰ کے منشاء کا علم حاصل ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں سے آخری اور دائمی کتاب قرآن شریف ہے ۔ جس نے پہلی تمام شریعتوں کوجو وقتی اورقومی نوعیت کی تھیں منسوخ کردیا ہے اور اب قیامت تک قرآن کے سوا کوئی اور شریعت نہیں۔
(چہارم) خدا کے رسولوں پر ایمان لانا ۔ جن پر وقتاً فوقتاً الہامی کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں اور جو اپنے عملی نمونہ سے خدا کے منشاء کو دنیا پر ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے آخری صاحب شریعت بنی اور خاتم النبیین ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو سید ولد آدم اور فخرِ انبیاء اور افضل الرسل ہیں۔
(پنجم) یومِ آخر پر ایمان لانا جو موت کے بعد آنے والا ہے او رجس میں انسان نئی زندگی حاصل کرکے اپنے ان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پائے گا جو اس نے دنیا میں کیے ہوں گے۔
(ششم ) تقدیر خیر و شر پر ایمان لانا جو خدا کی طرف سے دنیا میں جاری شدہ قانون کی صورت میں قائم ہے۔ یعنی اس بات پر یقین رکھنا کہ دنیا کا قانون قدرت اور قانونِ شریعت ہر دو خدا کے بنائے ہوئے قانون ہیں۔ اور خدا ہی اس سارے مادی اور روحانی نظام کا بانی اور نگران ہے خدا نے ہر کام کے متعلق خواہ وہ روحانی ہے یا مادی یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر یوں کروگے تو اس کا اس اس طرح اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اور اگر یوں کروگے تواس کا اس اس طرح خراب نتیجہ نکلے گا اور پھر خدا اپنے قانون کا مالک بھی ہے اور ایسے امور میں جو اس کی کسی بیان کردہ سنت یا وعدہ یا صفت اور پھر خدا کے خلاف نہ ہوں۔ وہ اس قانون میں اپنے رسولوں اور نیک بندوں کی خاطر خاص حالات میں استثنائی طور پر تبدیلی بھی کرسکتا ہے چنانچہ معجزات کا سلسلہ عموماً اسی استثنائی قانون سے تعلق رکھتا ہے۔