’’وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یاد الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہو سکتیں۔‘‘
( براہین احمدیہ صفحہ517 حاشیہ درحاشیہ)
’’یہ ایک ہی آیت صحابہ رضی اﷲ عنھم کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں کہ ان کی کہیں نظیر ملنا مشکل ہے۔ بادیہ نشین لوگ اور اتنی بہادری اور جرأت ،تعجب آتا ہے۔ ‘‘
(الحکم مؤرخہ24؍ اپریل1903ء صفحہ6)
’’یاد رکھوکہ کامل بند ے اﷲ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے
لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ(النور:38)
جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتاہی نہیں ۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کادل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے۔ ‘‘
( الحکم مؤرخہ24 جون1904صفحہ21 )
’’دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے سوائے س حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے اور ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا ایک ولی اﷲ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین…… روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے
لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ
کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹوکس کام کا ہے جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے وہ قابل تعریف نہیں ۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کردو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہیے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے۔
اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خداتعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزارسکتا ہے۔
( بدر مؤرخہ14 ؍مارچ1907ء صفحہ6)
’’ہمار ے ایسے بندے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارخانۂ تجارت میں ایک دم کے لیے بھی ہمیں نہیں بھولتے۔ خدا سے تعلق رکھنے والا دنیا دارنہیں کہلاتا۔‘‘
(بدر مؤرخہ9؍ جنوری1908 ء صفحہ10)
’’ ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو،ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں
لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ
والا معاملہ ہو۔دسست با کا ردِل بایا روالی بات ہو۔تاجر اپنے کاروبار ِ تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر۔غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامرونواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے۔اﷲ سے ڈرا ور سب کچھ کر۔
اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتاہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لُولوں کی طرح نکمے بیٹھ رہو اور بجائے اس کے کہ اَوروں کی خدمت کرو خود دوسروں پر بوجھ بنو۔نہیں بلکہ سُست ہونا گناہ ہے ۔بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اس کے دین کی کیا خدمت کرسکے گا۔عیال و اطفال جو خدا نے اس کے ذمے لگائے ہیں ان کو کہاں سے کھلائے گا۔
پس یاد رکھو کہ خدا کا یہ ہر گز منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:10)
تجارت کرو،زراعت کرو،ملازمت کرو اور حرفت کرو۔جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں۔پھر جو تمہاری دُنیا ہے وہ بھی دین کے حکم میں آجاوے گی۔
انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا۔دل پاک ہو اور ہر وقت یہ لَو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دُنیا بھی اس کے واسطے حلال ہے
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔‘‘
(الحکم مؤرخہ26،30؍ اگست1908ء صفحہ3،4) (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد3صفحہ455تا457)