امونیم کارب AMMONIUM CARB(Carbonate of Ammonia)

امونیم کارب بہت گہری اور خون کے نظام پر اثر انداز ہونے والی دوا ہے۔ اس کا اثر سانپ کے زہروں سے ملتا ہے۔ سندھ میں بعض قابل ہومیوپیتھک ڈاکٹر امونیم کارب کو سانپ کاٹنے کے تریاق کے طو رپر بہت کامیابی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کالے رنگ کا پتلا خون بہتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اندرونی جھلیاں جواب دے گئی ہیں۔ اگر جھلیاں جواب دے جائیں تو یہ اکثر بیماری کے آخری خطرناک مرحلے کی علامت ہوتی ہے۔ ناک، منہ، گلے، معدے اور انتڑیوں وغیرہ سے خون رسنے لگتا ہے۔ اگر یہ سیاہ رنگ کا ہو اور کچھ پتلا ہو تو امونیم کارب اس کی بہترین دوا ہے کیونکہ سانپ کے کاٹے سے بھی پتلے یا گاڑھے سیاہ خون کا جریان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امونیم کارب ہومیوپیتھی میں اس کے توڑ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بعض بیماریوں میں اندرونی جھلیاں سرخ خون کے خلیوں کو روکنے کے قابل نہیں رہتیں۔ اس مرض کے لئے دوسری دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن کا کتاب میں اپنی اپنی جگہ ذکر موجود ہے۔ سیاہ خون کا اخراج اکثر ایسی بیماریوں میں ہوتا ہے جو موت پر منتج ہوتی ہیں او ر اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو مریض کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق رہتا ہے۔ بعض اور دوائوں میں بھی سیاہ خون کے بہائو کا ذکر ملتا ہے لیکن ان کے باہم فرق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ محض اس علامت کا کسی دوا میں پایا جانا کام نہیں دے گا۔ بواسیر میں سیاہی مائل نیلے خون کا جریان ہو تو یہ اندرونی ں کے نظام کی خرابی نہیں بلکہ پورٹل سسٹم (Portal System) کا درہم برہم ہونا ہے۔ ہومیوپیتھک اصطلاح میں پورٹل سسٹم جگر اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی وریدوں کے نظام کو کہا جاتا ہے جن میں گندہ خون ہوتا ہے۔ اگر اس نظام میں خرابی ہو اور سیاہ خون کا جریان ہو تو سلفر، ہیمامیلس (Hamamelis) اور اس قسم کی اور دوائیں بھی حسب علامت کام آ سکتی ہیں۔ لیکن اگر انتڑیوں اور گردے وغیرہ جواب دے جائیں اور جہاں جہاں اندرونی جھلیاں ہیں وہاں سے سیاہ رنگ کا زہریلا خون جاری ہو جائے تو یہ مختلف چیزہے۔ یہاں امونیم کارب کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ ایسے نازک اور تشویش ناک مرحلہ میں یہ سب سے اچھی دوا ثابت ہوتی ہے۔
سانپوں کے کاٹے میں یہ عجیب بات پائی جاتی ہے کہ اس میں خون جمنے اور بہنے دونوں باتوں کا رجحان ہوتا ہے۔ Orifices سے خون بہتا ہے یعنی ہر اس جگہ سے جہاں جلد اور اندرونی جھلیوں کا جوڑ ہے مثلاً ناخن اور جلد کا جوڑ، ہونٹوں کے باہر کی جلد کے ساتھ اندر کی جلد کا جوڑ وغیرہ۔ جلد اور ں کے جوڑ ایک طرح سے سلائی والی لکیر کے مشابہ ہوتے ہیں جہاں دو کنارے آپس میں ملتے ہیں۔ پس جہاں کہیں بھی جلد اور ںکا جوڑ ہو وہاں سے خون رسنے کا رجحان سانپوں کے زہروں میں نمایاں طور پر ملتا ہے اور یہی رجحان امونیم کارب میں بھی ہے۔
امونیا کارب کی مریض عورتوں میں ہسٹیریائی علامت نمایاں ہوتی ہے اور لیکیسس کی طرح سونے سے ان کی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پرسوتی بخار اور بعض ایسے بخار جو زہریلے مادے پیدا کرکے دماغ پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں مریض کو عجیب و غریب ڈروائونے خواب نظر آنے لگتے ہیں ، ان خوابوں سے بھی مرض کی پہچان ممکن ہے۔ اگر خواب میں سانپ زیادہ نظر آئیں تو بیماری کا نیٹرم میور سے تعلق ہوتا ہے۔ سانپ کا زہر تو لیکیسس ہوتا ہے نہ کہ نیٹرم میور۔ سلیشیا میں بے چین کر دینے والے جو خواب آتے ہیں ان کی خاص علامت یہ ہے کہ مریض نیند کی حالت میں چلنے لگتا ہے اور بعض دفعہ لمبا عرصہ چلنے کے بعد واپس اپنے بستر پر پہنچ کر سو جاتا ہے۔ ایک دفعہ سلیشیا کی ایک مریضہ سوتے میں اپنا بستر لپیٹ کر اٹھائے ہوئے دوسرے گھر پہنچی اور دروازہ بند پا کر بستر وہیں پھینکا اور واپس اپنے گھر پہنچ کر خالی چارپائی پر دراز ہو گئی اور اگلے دن اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔
نیند کی حالت میں بے چینی اور نیند کی کمی کا احساس سونے سے دور نہ ہو تو اس کی وجوہات معلوم کرنی چاہئیں کہ نیند کیوں بے چین کرتی ہے اور تکلیف کو کیوں بڑھا دیتی ہے۔ اگر معین وجہ معلوم ہو جائے تو اس سے تعلق رکھنے والی دوا اس کی ساری بیماری پر اثر انداز ہوگی بشرطیکہ اس میں دیگر اہم علامتیں بھی پائی جاتی ہوں۔
کانوں سے بدبودار مواد رسنے لگے تو امونیم کارب ضرور ذہن میں آنی چاہئے۔ کانوں کی مزمن بیماریوں میں یہ بہت مفید دوا ہے۔ اس کی بو میں مردہ چیز کی عفونت پائی جاتی ہے کیونکہ اس کی بیماریوں میں نظام حیات درہم برہم ہو جاتا ہے اور اعضا کے مائوف حصے تیزی سے مرنے لگتے ہیں۔ کان کے اندر بھی اسی وجہ سے بدبودار پیپ بن کر ںکو کھانے لگتی ہے۔ موت کے ساتھ عفونت وابستہ ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی بو ہوتی ہے جو دوسری عام بدبوئوں سے بہت ہی مختلف ہوتی ہے۔ کان کے ایسے مریضوں میں مستقل علاج کے لئے امونیم کارب کام آئے گی۔
اگر اچانک شدید درد شرو ع ہو جائے اور مریض سخت بے چین ہو تو پلسٹیلا اﷲ کے فضل سے فوری فائدہ پہنچاتی ہے بشرطیکہ اس کے مزاج میں نرمی پائی جاتی ہو اور رونے کی طرف رجحان ہو۔ اگر کان کے درد کے ساتھ مزاج سخت برہم ہو جائے تو کیمومیلا کو اولیت حاصل ہے اور اگر نزلہ کان کی طرف منتقل ہونے سے درد کا تعلق ہو تو ایلیم سیپا چوٹی کی دوا ہے۔ خون کا د بائو زیادہ نمایاں ہو اور درد کے ساتھ سرخی اور تمتماہٹ بھی ہو تو پلسٹیلا کے ساتھ بیلاڈ ونا 30بھی ملا لینی چاہئے۔
امونیم کارب غدودوں اور سلی امراض میں بھی بہت مفید ہے۔ بعض اوقات گردن کے غدود سوج کر سخت ہو جاتے ہیں اور گلٹیاں بن جاتی ہیں۔ دائمی سوزش امونیم کارب کی خاص علامت ہے۔ اس لئے یہ کینسر کی گلٹیوں میں بھی مفید ہے۔ اگر جلدی بیماریاں علاج سے دبا دی جائیں اور وہ غدودوں میں پناہ لے لیں اور لمبے عرصہ تک ان کی طرف توجہ نہ دی جائے تو اس کے نتیجہ میں غدودوں میں کینسر پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ امونیم کارب بھی گٹھلیوں کے کینسر میں کام آنے والی د وا ہے۔ اس میں گلینڈز اس وقت پھولتے ہیں جب بیماریاں بیرونی سطحوں سے اندر کی طرف منتقل ہو کر غدودوں کی ںمیں گھر بنا لیں۔

دافع اثر دوائیں : آرنیکا۔ کیمفر
طاقت : 30یا حسب ضرورت اونچی

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.