تجارت دین سے غافل کرنے والی نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ النور آیت38

رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’تصوف کی تعریف میں فرمایا

التَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِ وَالْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ

صوفی موت کی تیاری کرتا ہے قبل اس کے موت نازل ہو۔ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ رہتا ہے یہاں تک کہ تجارت وسیع اس کو اﷲ تعالیٰ سے غافل نہیں کرتی

رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اصحابِ صُفَّہ

انہی لوگوں میں سے تھے۔یہ لوگ دن بھر محنت ومشقت کرتے۔اس سے اپنا گزارہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو کھلاتے اور پھر رات بھر وہ تھے اور قرآن کریم کا مشغلہ۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان13؍جون1912ء)(حقائق الفرقان جلد3صفحہ219)

اﷲ تعالیٰ ہی بہتر رزق دینے والا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ الجمعہ آیت12

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَا نِانْفَضُّوْااِلَیْھَا

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور جب تجارت کے سامان مل جاتے ہیں یا کھیل تماشہ کا وقت پاتے ہیں۔وہ تجھے چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ان کو کہہ دو کہ اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں اور کھیل تماشوں سے بہترہے اور اﷲ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے۔
یہ حالت انسان کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا تعالیٰ پرسچا اور کامل یقین نہیں رکھتااور اس کو رازق نہیں سمجھتا۔ یوں ماننے سے کیا ہوتاہے ۔جب کامل ایمان ہوتا ہے تو اس پر اﷲ تعالیٰ کے لیے سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتاہے۔
بعض لڑکوں سے میں نے پوچھا ہے کہ تم جو گھر جاتے ہو کیوں ؟ کیا لھو کے واسطے؟اگر یہ غرض ہے تو پھر یہ خدا کے ارشاد کے نیچے ہے۔لَھْوًا اور تِجَارَۃً کو گویا خدا تعالیٰ پر مقدم کرتاہے۔اس سے بچنا چاہیے۔
اﷲ کو

خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ

یقین کرو اور مت خیال کروکہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہو گا کبھی ایسی جرأت کرنے کی کوشش نہ کروکہ اپنی ذاتی اغراض کو مقدم کر لو۔خدا کے لیے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اُس سے کہیں بڑھ کر پالیتاہے ۔تم جانتے ہوابوبکررضی اﷲ عنہ نے کیا چھوڑا تھااور پھر کیا پایا۔صحابہ رضی اﷲ عنھم نے کیا چھوڑا ہو گا۔اس کے بدلہ میں کتنے گُنے زیادہ خدا نے ان کو دیا ۔خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے جو نہیں ہے؟

لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

تجارتوں میں خسارہ کا ہو جانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہوجانا قرین قیاس ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی بھی انسان خسارہ نہیں اٹھاسکتا۔

(الحکم28؍فروری1903ء صفحہ7)

غرض اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں سے بہتر ہے۔وہ خیرالرازقین ہے۔ میں نے بہت سے ایسے بے باک دیکھے ہیں جو کہا کرتے ہیں

اے خیانت بر تو رحمت از تو گنجے یافتم
اے دیانت بر تو لعنت از تو رنجے یافتم

ایسے شوخ دیدہ خود ملعون ہیں جو دیانت پر لعنت بھیجتے ہیں۔پس خدا کے لیے ان ذریعوں اور راستوں کو چھوڑو جو بظاہر کیسے ہی آرام دہ نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر خدا کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔میں نے بسااوقات نصیحت کی ہے کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبۃ:120) پر عمل کرنے کے واسطے ضروری ہے یہاں آکر رہو۔بعض نے جواب دیا ہے کہ تجارت یا ملازمت کے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی۔لیکن میں ان کو آج یہ سناتاہوں کہ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ تمام تجارتوں کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ!وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟کیا ہم کُنبہ قبیلہ والے نہیں؟کیا ہماری ضروریات اور ہمارے اخراجات نہیں ہیں؟کیا ہم کو دنیوی عزت یا وجاہت بُری لگتی ہے؟پھر وہ کیا چیز ہے جو ہم کو کھینچ کر یہاں لے آئی؟میں شیخی کے لیے نہیں کہتا بلکہتحدیث بالنعمۃ کے طورپر کہتاہوں کہ میں اگر شہر میں رہوں تو بہت روپیہ کما سکوں لیکن میں کیوں ان ساری آمدنیوں پر قادیان کے رہنے کو ترجیح دیتاہوں؟اس کا مختصر جواب میں یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے۔ جس کو چورا ور قزاق نہیں لے جا سکتا۔مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لیے مارا مارا پھروں؟میں سچ کہتاہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھناچاہے میں نہیں رہ سکتا۔ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں۔پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔پس میری دولت، میرا مال،میری ضرورتیں اسی امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتاہوں۔

مہاجرین میں خلافت کا انعام ملنے کا سبب

میرے دل میں بارہایہ سوال پیدا ہوا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنھم کو جو مہاجر تھے کیوں خلافت ملی اور مدینہ والے صحابہ رضی اﷲ عنھم کو جو انصار تھے اس سے حصہ نہیں ملا۔بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ انصا ر کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی جب آپؐ مکہ سے تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچے۔مگر اس میں بھید یہی ہے کہ انصارنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے چھوڑا نہیں۔اس کی نصر ت کے لیے خدا نے ان کو بہت کچھ دیا۔مگر مہاجر جنہوں نے اﷲ کے لیے ہاں محض اﷲ ہی کے لیے اپنے گھر بار بیوی بچے اور رشتہ داروں تک چھوڑ دیے تھے اور اپنے منافع اور تجارتوں پر پانی پھیر دیا تھاوہ خلافت کی مسند پر بیٹھے۔ میں سقیفہ کی بحث پڑھتا تھا اور

مِنْکُمْ اَمِیْرٌ وَّ مِنَّا اَمِیْرٌ

پر میں نے غور کی ہے۔مجھے خدا نے اس مسئلہ خلافت میں یہی سمجھایا ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اپنے گھر بار تعلقات چھوڑے تھے ان کو ہی اس مسند پر اول جگہ ملنی ضرور تھی۔اﷲ تعالیٰ کے لیے جب کوئی کام کرتاہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا۔پس ایسے عذر بے فائدہ اور بیہودہ ہیں۔اس وقت دنیا خطرناک ابتلا میں پھنسی ہوئی ہے۔پہلی بلا جہالت کی ہے۔تدبر سے کتاب اﷲ کو نہیں پڑھتے اور نہیں سوچتے جب تدبر ہی نہ ہو، تلاوت ہی نہ ہو تو اس پر عمل کی تحریک کیسے پیدا ہو۔کتاب اﷲ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی جگہ بہت بڑا وقت قصوں کہانیوں اور لغویات میں بسر کیا جاتاہے۔‘‘

(الحکم10؍مارچ1903ء صفحہ2،3)(حقائق الفرقان جلد چہارم،صفحہ130تا132)

دینی امور پر تجارت کو فوقیت نہ دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ الجمعہ آیت10

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللَّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود محبوب اور مطاع نہ ہو گا اور کوئی غرض و مقصد اﷲ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہوگی۔ اس امام ؑ نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘۔اب اس اقرار کو مدنظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو کہ کیا اﷲ تعالیٰ کے احکام اوامرونواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض و مطالب؟ ……غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم نماز کے لیے جمعہ کے دن بلائے جاؤ تو بیع کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ۔
عام جمعوں میں چھوٹی چھوٹی بیع ہے لیکن مسیح موعود علیہ السلام کا وقت چونکہ عظیم الشان جمعہ ہے اس لیے اس وقت دجال کا فتنہ بہت بڑی بیع ہے اس لیے فرمایا کہ اس کو چھوڑو اور ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ۔ نتیجہ اس کا کیا ہے؟

ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

اگر تم کو کچھ علم ہے تو یاد رکھو یہ تمہارے لیے مفید ہے۔ اس میں خیر وبرکت ہے۔ تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ جس امر کو خیر وبرکت کا موجب قرار دیتا ہے اس کو ظنی یا وہمی خیال کرنا کفر ہے۔انسان چونکہ عواقب الامور اور نتائج کا علم نہیں رکھتا اس لیے وہ بعض اوقات اپنی کمزوریٔ علم اور کمیٔ معرفت کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مأمور کی صحبت میں رہنا یا اس کے پاس جانا اخراجات کو چاہتا ہے یا بعض تجارتی کاموں میں اس سے حرج واقع ہو گا۔دکان بند کرنی پڑے گی یا کیا کیا عذرات تراشتا ہے لیکن خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی حاضر ہو جانا خیر وبرکت کا موجب ہے۔ اس میں کوئی خسارا اور نقصان نہیں مگر تم کو اس کا علم ہونا چاہیے۔پس اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

دست بکار دل بیار

ہاں

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(الجمعۃ:11)

جب نماز ادا کرچکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کے فضل کو لو۔اس کا اصل اور گُر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو بہت یاد کرو۔نتیجہ یہ ہو گا کہ تم مظفر اور منصور ہو جاؤ گے۔خد ا کی یاد ساری کامیابیوں کا راز اور ساری نصرتوں اور فتوحات کی کلید ہے۔ اسلام انسان کو بے دست وپا بنانا یا دوسروں کے لیے بوجھ بنانا نہیں چاہتا۔عبادت کے لیے اوقات رکھے ہیں جب ان سے فارغ ہو جاوے پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہو۔ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کاروبار میں مصروف ہو کر بھی یادِ الٰہی کو نہ چھوڑے بلکہ دست بکار دل بیارہو اور اس کا طریق یہ ہے کہ ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے اور دیکھ لے کہ آیا خلافِ مرضیٔ مولیٰ تو نہیں کر رہا۔ جب یہ بات ہو تو اس کا ہر فعل خواہ وہ تجارت کا ہو یا معاشرت کا، ملازمت کا ہو یا حکومت کا۔ غرض کوئی بھی حالت ہو عبادت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ کھانا پینا بھی اگر امرِ الٰہی کے نیچے ہو تو عبادت ہے۔
یہ اصل ہے جو ساری فتح مندیوں کی کلید ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اصل کو چھوڑ دیا جب تک اس پر عملدرآمد رہا اس وقت تک وہ ایک قوم فتح مند قوم کی حالت میں رہی۔ لیکن جب اس پر سے عمل جاتا رہا تو نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قوم ہر طرح کی پستیوں میں گر گئی۔‘‘

(الحکم28؍فروری1903ء صفحہ3تا6)(حقائق الفرقان جلد4صفحہ126تا128)

ماپ تول میں خیانت کی ایک سزا

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ المطففین آیت3

اَلَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اکثر اوقات ماپ تول برضا و رغبت جھکتی ڈنڈی سے لیا جاتا ہے اور دینے والا بھی جھکتی تول خوشی سے دیتا ہے۔ممنوع لینا جھکتی تول وہ ہے جو ضرر کے لیے ہو کہ بلا رضامندی دینے والے کے جھکتی تول لی جاوے۔حدیث شریف میں ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں تو خداوندکریم بارشوں کو روک لیتا ہے۔قحط شدید پڑتا ہے۔حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت یہ مرض خصوصیت سے ہو گا۔مگر اس وقت تو بات حدسے بڑھ گئی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد4صفحہ342)

لین دین کے ہرمعاملہ کو لکھ لیا کرو

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’او ایمان والو!ہر ایک معاملہ کو لکھ لیا کرو جس کے لیے کوئی میعادی معاہدہ ہوا اور ہر ایک کو نہ چاہیے کہ معاہدوں کو لکھا کرے بلکہ چاہیے کہ معاہدہ کو وہ شخص لکھے جو ایسے معاہدوں کا لکھنے والا ہو اور معاہدہ کو اس انصاف کے ساتھ لکھے جس میں ضرورت کے وقت تمسک میں نقص نہ نکلے اور تمسک نویس کو تمسک کے لکھنے میں کبھی انکار نہ ہوا کرے کیونکہ کاتب کو اﷲ تعالیٰ نے فضل سے ایساکام سکھایا۔پس چاہیے کہ تمسکات کو لکھے اور لکھاوے۔وہ جس نے دینا ہو اور ضرور ہے کہ لکھاتے ہوئے لکھانے والا اﷲ سے ڈرتا رہے اور ذرہ بھی اس میں کمی و نقص نہ کرے اور اگر لکھانے والا کم عقل اور بچہ اور لکھانے کے قابل نہیں تو اس کا سربراہ انصاف و عدل کے ساتھ لکھاوے اور اپنے معاملات پر دو مرد گواہ بنا لیا کرو۔اگر دو مرد گواہ نہ مل سکیں تو ایک مرداور دو عورتیں۔دو کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک ان میں سے کچھ بھول گئی تو دوسری اُسے یاددلائے گی اور گواہ بلانے پر انکارنہ کریں اور ایسے سُست نہ بنیو کہ تھوڑا یا بہتا میعادی معاملہ لکھنے میں چھوڑ دو۔اﷲ تعالیٰ کے یہاں پر انصاف کی باتیں ہیں اور جہاں گواہی کی ضرورت پڑے گی وہاں یہ باتیں بڑی مفید پڑیں گی اور ایسی تدبیروں سے باہمی بد گمانیاں جاتی رہیں گی۔ہاں دستی لین دین اور نقدی کی تجارت میں تحریر نہ ہونے سے گناہ بھی نہیں ۔مگر ہر ایک سودے میں گواہوں کا پاس ہونا تو ضرور چاہیے(اگر اس پر عمل ہوتا تو چوری کی چیزیں لینے میں پولیس کی گرفتاری سے بہت کچھ امن ہو جاتا)اور یاد رہے کہ کاتب اور گواہ کو ان کا ہرجانہ دو اگر نہ دو گے تو بدکار بنو گے۔ خدا کا ڈر رکھو۔اﷲ تعالیٰ تمہیں آرام کی باتیں سکھاتاہے اور اﷲ تعالیٰ ہر شے کو جانتا ہے۔‘‘

(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ266تا268)

’’یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِذَاتَدَایَنْتُمْ(البقرۃ:283)

جہاد میں ضرورت ہے روپیہ کی اور روپیہ کاحصول بعض کے نزدیک سود پر منحصر ہے۔فرمایا کہ جو سود لیتا ہے وہ اﷲ سے جنگ کرتاہے۔ہاں لین دین کے معاملے میں کافی احتیاط ضروری ہے۔

کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ

یعنی کاتب کی تحریر عدالت سے وابستہ ہو اور قانون سلطنت کے ٹھیک مطابق ہو۔ ہم نے ایک دفعہ پانچ سو روپیہ دیا اور جائیداد کی رجسٹری نہ کرائی۔چانچہ وہ روپیہ بھی واپس نہ ملا۔حضرت صاحبؑ نے فرمایا نورالدین نے دو گناہ کیے۔ایک تو یہ کہ اﷲ کے حکم کے مطابق وہ رجسٹری داخل خارج نہ کرائی۔ دوم اپنے تساہل سے دوسرے کو گناہ کرنے کا موقع دیا۔انہیں شاید500روپیہ کی فکر ہے اور مجھے اس بات کی کہ یہی500روپیہ گناہ کا کفارہ ہو جائے۔ کسی اور شامت میں مبتلا نہ ہوں۔
کئی لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ وہ لکھوانے میں اور قانون سلطنت کے مطابق رجسٹری وغیرہ کرانے میں تساہل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اجی یہ ہمارے اپنے ہیں یا بڑے بزرگ ہیں ان کی نسبت کیا خطرہ ہے ۔مگر آخر اس حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُٹھاتے ہیں۔

عَلَّمَہُ اللّٰہُ

صحیح فرمایا۔ کیونکہ اﷲ ہی نے دماغ دیا اسی نے فہم دیا۔اسی نے آنکھیں دیں۔کوئی کاتب کتابت نہیں کر سکتا مگر اﷲ کے فضل سے ۔اس لیے اپنی طرف منسوب فرمایا۔

اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰ ھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی

لاہور میں ایک شخص نے میری تقریر سن کر مجھ سے کہا کیا یہ باتیں آپ کی مجھے لفظ بلفظ یاد رہیں گی۔میں نے سادگی سے کہا۔ نہیں۔ اس پر وہ بولا۔تب یہ حدیثیں وغیرہ سب نامعتبر ہیں کیونکہ جب دس منٹ کے بعد کوئی کلام لفظ بلفظ یاد نہیں رہ سکتا تو پھر دو سو سال کے بعد وہ باتیں کیسے یاد رہ سکتی ہیں۔حدیثیں تو تمام دو سو سال کے بعد مرتب ہوئی ہیں۔میں نے اسے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک بھول جائے تو دوسرا یاد کرائے۔اس اصول کے مطابق ہم حدیثوں کے قدر مشترک کو لے لیتے ہیں۔

فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْھَا

تم پر گناہ نہیں جو نہ لکھوا سکو۔اس سے معلوم ہوا کہ لکھنا بہر حال بہتر ہے۔یہ اس کلمہ سے خوب ملتاہے

فَلَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا(البقرہ: 159)

اس میں طواف واجب ہے۔

وَاَشْھِدُوْااِذَاتَبَایَعْتُمْشافعی

دکاندار معمولی سودوں میں بھی آس پاس کے دکانوں کے لوگوں کو گواہ کر لیتے ہیں یا کم از کم علیٰ مذہب ابی حنیفہ کہہ کر اعلان کر دیتے ہیں۔
لا یضارکاتب کو حق کتابت ضرور دینا چاہیے۔گواہوں کو بھی حرجانہ حسب حیثیت ان کو دینا چاہیے۔

وَاتَّقُوااللّٰہَ

اﷲ کو سِپر بناؤ۔اس کا تقویٰ اختیار کرو۔اﷲ علم دے گا۔یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ تقویٰ کا نتیجہ سچے علوم کا ملنا ہے۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان20؍مئی1909ء)(حقائق الفرقان جلد نمبر1صفحہ نمبر433تا435)

سود کے بد نتائج

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:

’’اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا(البقرۃ:276)

کمانے کی صورتوں میں سے ایک صورت کمانے کی جہاد کی بہت بھاری دشمن ہے اور وہ سود ہے۔رِبٰوا کے بہت ہی خطرناک نتائج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔سود خواروں کے اخلاق ایسے خراب ہوتے ہیں کہ ایک سود خوار کے آگے میں نے ایک فقیر کے لیے سفارش کی تو وہ کہنے لگے کہ پانچ روپے میں دے تو دوں گا مگر میرے پاس رہتے تو سو برس میں سود در سود سے سوالاکھ ہوجاتا۔
لکھنؤ میں ایک سلطنت تھی وہ بھی محض سود سے تباہ ہوئی۔پہلے ان کے مبلغات پر و میسری نوٹوں کے بدلے میں گئے پھر وہ جنگ کرنے کے قابل نہ رہے اور آخر وہ وقت آیاکہ یہ سلطنت تباہ ہو گئی۔میں نے چند مصنفین کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ربٰوا کے معنے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر بھی نہ کھلے۔تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہاں تک تو فرما دیا کہ

فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ(البقرۃ:280)

اور یہ نہ کھولا کہ رِبٰواکیا ہے پھر ساہوکار جاہل سے جاہل زمیندار سب جانتے ہیں کہ سود کیا ہے۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان20؍مئی1909ء)(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 430)