نوکریوں کی بجائے تجارت اور صنعت وحرفت کو اختیار کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍مارچ1936ء کے خطبہ جمعہ احرار کی فتنہ انگیزیوں اور اس کے نتیجہ میں اس وقت کی حکومت پنجاب کی طرف سے جماعت احمدیہ کے متعلق منفی رویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم تو ہمیشہ سے امن پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ تفرقہ و فساد نہ ہو۔ہمیں نہ مسلمانوں سے دشمنی ہے نہ ہندوؤں،سکھوں اور عیسائیوں سے ،ہم ہر ایک کے دوست بن کر رہنا چاہتے ہیں مگر کوئی امن سے رہنے بھی تو دے۔لیکن باوجود ہماری طرف سے امن پر قائم رہنے کے اگر حکومت رویہ نہ بدلے تومیں اسے کہوں گا کہ فتنہ کو کم سے کم حلقہ میں محدود کرنے کے لیے اسے چاہیے کہ جماعت پریہ بات کھول دے کہ اقتصادی طور پر اسے حکومت سے کوئی فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہ ہو گا۔اس سے بھی بہت سی تلخی دور ہو جائے گی کیونکہ امید کے بعد ناامیدی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب کوئی سمجھ لے کہ میرا کوئی حق نہیں تو اس کا شکوہ بھی کم ہو جاتاہے۔ اسے چاہیے کہ یہ اعلان کر دے کہ آئندہ سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہیں لیا جائے گا۔ہماری جماعت کے لوگوں کو ایسے اعلان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاکھوں تدبیریں ہیں جو اختیار کی جا سکتی ہیں۔اگر ملازمتوں کے دروازے گورنمنٹ بند کرے تو ہمارے نوجوان تجارت وغیرہ کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہوں گے۔
اس وقت دو نہایت زبردست حکومتیں ہندوستان میں اپنے تعلقات وسیع کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں اور وہ غیر معمولی مدد دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔مثلاًوہ اس بات پر تیار ہیں کہ تجارتی مال دیں مگر اس کے بدلہ میں روپیہ نہ لیں بلکہ ہندوستانی مال مثلاً گیہوں لے لیں یا کپاس لے لیں اس طرح تجارت میں بہت کچھ سہولت پیدا ہو گئی ہے ۔بے شک ابتدا میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے تکلیف ہو گی مگر خطرات میں پڑے بغیر انسانی اخلاق میں مضبوطی نہیں پیدا ہوتی۔عقل مند ان تکلیفوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سمجھا کرتے ہیں اگر اس تجربہ میں ہمارے نوجوان کامیاب ہو گئے تو وہ اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کو بھی سزادے دیں گے جو ہمیں ناحق دکھ دیتے ہیں کیونکہ اس طرح لاکھوں کی تجارت انگلستان کے ہاتھ سے نکل کر دوسری قوموں کے ہاتھ میں چلی جائے گی بلکہ میں کہتاہوں کہ دوسری قوموں سے تجارتی تعلق پیدا کرنے سے بھی زیادہ مفید یہ ہے کہ خود صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت توجہ کرے تاکہ ہر قسم کے سیاسی اثر سے محفوظ ہو جائے۔ گزشتہ جدوجہد کے زمانہ میں یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ زمیندار افسروں سے زیادہ مرعوب ہوتاہے بہ نسبت تاجروں کے۔
پس تجارت اور صنعت وحرفت کی طرف ہماری جماعت کو زیادہ توجہ چاہیے تاکہ کسی کی محتاجی باقی ہی نہ رہے۔ خود صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرے اور تجارت غیر ملکوں سے بڑھانے کی کوشش کرے جو قانوناً جائز فعل ہے۔کوئی قانون ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور انگریزی مال لیں، بے شک ہم بائیکاٹ کے مخالف ہیں مگربغیر بائیکاٹ کیے کے کوئی دوسرا طریق اختیار کرنا تو منع نہیں۔اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو کانگرس بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گی۔کانگرس میں اس وقت کوئی تنظیم نہیں اگر ہم ایک تنظیم کے ساتھ یہ کام کرنے لگیں تو ہزاروں ہندو اور سکھ ہم سے مل جائیں گے اور قانون شکنی کا خیال لوگ بھلا دیں گے اور اس طرح بالواسطہ طور پر بھی حکومت کی ایک خدمت کردیں گے اور ساتھ ہی قانون کے اندر رہتے ہوئے خود نفع کماتے ہوئے ہم اپنے حقوق بھی حاصل کر سکیں گے اور یہ صرف ایک ہی طریق نہیں ایسے بیسیوں طریق ہیں جن سے جماعتیں اپنے آپ کو ملازمتوں سے آزاد کرسکتی ہیں۔جب ملازمتوں کے راستے بند ہوں تو خود بخود ہماری جماعت کے دماغ دوسری راہوں کی دریافت اور ان پر چلنے کی طر ف متوجہ ہوں گے مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور خوامخواہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کریں گے کہ اور کوشش کریں گے کہ چند افسروں کی وجہ سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موجب نہ بنیں مگر جو سلوک ہم سے کیا جا رہا ہے نہایت تکلیف دہ ہے اور میں نہیں سمجھ سکتاکہ آخر کب تک ہم ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جائیں گے۔کب تک ہم اپنے امن کو برباد ہوتا دیکھیں گے۔ یقینا ایک وقت آئے گاجب مجبور ہو کر ہمیں ان ذرائع کو اختیار کرنا پڑے گا جو ہمیں ان تکالیف سے بچائیں۔ اس لیے میں ایک دفعہ پھر حکومت کو توجہ دلاتاہوں کہ وہ اب بھی اپنے رویہ پر غور کریں ۔ہم اس بات پر تیار ہیں کہ اس سے صلح کر لیں مگر اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بڑی بڑی باتوں میں ہماری شکایتوں کو دور کرے۔
آج حکومت اپنے آپ کو ہماری مدد سے مستغنی سمجھتی ہے مگر میں اس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں جس نگاہ سے وہ نہیں دیکھ رہی کہ حکومت کو پھر مشکلات پیش آنے والی ہیں اور آسمان سے خدا تعالیٰ یہ ثابت کر دے گا کہ کل کو یہی حکومت پھر ہماری مدد کی محتاج ہو گی پھر کل کے افسر ہمیں کہیں گے کہ آؤ اور ہماری مدد کرواور پچھلے افسروں کے رویہ کو نظر انداز کر دومگر میں انہیں بتا دینا چاہتاہوں کہ اگر آج انہوں نے ہماری شکایات کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو کل ان کا ہمیں اپنی مدد کے لیے بلانا بیکار ثابت ہو گا اور ہم قانون شکنی سے بچتے ہوئے اپنی جماعت کی معیشت کے لیے دوسرے ذرائع انشاء اﷲ نکالیں گے جن کو اختیار کر کے ہم حکومت کی مہربانیوں سے آزاد ہو جائیں گے مگر ہم چھپ کر کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ کھلے بندوں کریں گے، علی الاعلان کریں گے اور حکومت کے قانون کے اندر رہ کر کریں گے یہاں تک کہ انگریزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان باتوں میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ہم کو ان ذرائع کے اختیار کرنے سے روکیں تو ملک میں بھی شورش برپا ہو جائے گی اور دنیامیں بھی ان کی بدنامی ہو گی۔ انگریزی فطرت کو ہم جانتے ہیں وہ کھلی بے انصافی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔پس ہم اس سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ خود ہی قانون بنائے اور ان کے اندر رہ کر کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے بے انصاف بن جائے۔
میں پھر ایک طرف حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور ان فتنہ انگیزوں کو روکنے کی طرف متوجہ ہو اور دوسری طرف جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ زیادہ تر نوکریوں کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ تجارت،زراعت اور صنعت و حرفت کے کاموں کو اختیار کرے ،مگر بعض بیو قوف ایسے ہیں جو اب تک مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر کے پاس ہماری سفارش کر دیں ۔نا معلوم وہ لوگ میرے خطبے پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے کیوں نہیں ۔میں متواتر جماعت کو بتا رہا ہوں کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے امن کو برباد کر رہے ہیں۔وہ ہماری کسی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہمیں نقصان پہنچانے اور ہماری طاقت کو توڑنے کی کو شش کر رہے ہیں ،مگر وہ احمق مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دیں ۔میں نے تم کووہ راستہ بتا دیا ہے جس پر تم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گرو اور اس سے دعائیں کرو ،جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس پیر سے روزے رکھو مگر معلوم نہیں تمہیں کیا عادت ہو گئی ہے تم خدا تعالیٰ کی بجائے بندوں کے پاس جانا پسند کرتے ہو۔

نوکریوں کی نسبت تجارت میں رزق زیادہ ہے

میں تمہیں نوکریوں سے منع نہیں کرتا بے شک تم اچھی سے اچھی ملازمت کے لیے کو شش کرو لیکن یہ سمجھ لو کہ سب لوگوں کو نوکریاں نہیں مل سکتیں اس لیے علاج یہی ہے کہ تم اپنا رزق خدا سے مانگو۔وہ معمولی معمولی کاموں میں بھی بعض دفعہ اتنی ترقی دے دیتا ہے کہ لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔پس تم قربانیوں کے لیے تیار ہوجاؤ اور اس بات پر آمادہ رہو کہ اگر تمہیں بھوکا رہنا پڑے، پیاسا رہنا پڑے،ننگا رہنا پڑے تب بھی تم ان تکالیف کو برداشت کرو گے ۔جب یہ روح پیدا کرو گے تو اﷲ تعالیٰ غیب سے خود بخود تمہارے لیے کئی راستے کھول دے گا۔
تام چینی کے برتن جس شخص نے بنائے ہیں وہ پہلے نواب تھا ،لاکھوں روپیہ کا مالک تھا مگر جب اس نے یہ کام شروع کیا تو اپنا سارا روپیہ اس نے خرچ کر دیا مگر پھر بھی کامیاب نہ ہوا۔اس کے بعد اس نے بیوی کے زیور بیچنے شروع کر دیے،وہ روپیہ ختم ہوا تو دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کر کام کرناشروع کر دیا ۔جب با لکل اس کی آخری نوبت پہنچ گئی تو بیس سال کی محنت ،تلاش اور جستجو کے بعد وہ تام چینی کے برتن بنانے میں کامیاب ہوا اوراس کے بعد اسی کام سے وہ کروڑ پتی ہو گیا۔
پس صنعت و حرفت کرو اور اپنی ہمتوں کو بلند کرو ۔تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر آمد ہوتی ہے کہ نوکریوں میں اتنی آمد نہیں ہوتی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ نوکریاں نہ کرو ۔جب تک حکومت روک نہیں دیتی اس وقت تک بے شک نوکریاں کرو لیکن روک دے تو گھبراؤ نہیں بلکہ کہہ دو،

مُلکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست

خدا تعالیٰ نے دنیا کو نہایت وسیع بنایا ہے۔ایک جگہ اگر راستہ بند ہو تو وہ دوسر ی جگہ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے اور ہمارا رزق تو خداتعالیٰ کے عرش پر موجود ہے اور اُسی نے ہمیں دینا ہے پس اسی سے مانگو اور دعائیں کرو ۔میں نے کوشش کی ہے کہ محبت،پیار،نرمی اور دلائل سے حکومت پر تمام باتیں واضح کر دوں لیکن اگر باوجوداس کے حکومت ہماری شکایتوں کو دور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتو دنیا گواہ رہے کہ ہم نے امن قائم کرنے اور حکومت سے تعاون کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہماری طرف محبت کا ہاتھ نہیں بڑھا یا۔اس کے بعد بھی اگرچہ میں کوشش کروں گا کہ ہماری طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون ہو لیکن اگر اس حد تک تعاون نہ ہو سکے جس حد تک کہ ہم پہلے تعاون کرتے تھے تو آئندہ آنے والے افسروں کا یہ حق نہیں ہو گا کہ وہ ہم سے سوال کریں کہ تم کیوں اب گزشتہ کی طرح تعاون نہیں کرتے کیونکہ آخر پچھلے لوگ پہلوں کے ہی وارث ہوا کرتے ہیں۔‘‘

( خطبات محمودجلد17 صفحہ195تا198)

قادیان میں تجارت کا رنگ کس طرح بدلا

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ6؍دسمبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’قادیان کی تجارت کا وہ رنگ جو آج سے بیس سال پہلے تھا آج نہیں۔ آج سے بیس سال پہلے صرف دو تین احمدی تاجر تھے اور وہ بھی ہمیشہ شکوہ کرتے رہتے تھے کہ ان کا کام نہیں چلتا اور یہ کہ وہ مقروض رہتے ہیں۔اٹھارہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارا ایک موروثی مر گیا۔ قانوناً اس کی زمین ہمیں ملتی تھی ہم نے اُس پر قبضہ کرنا چاہا مگر بعض لوگ جو متوفی کے رشتہ دار نہ تھے جبراً اُس کی زمین پر قبضہ کرنے پر آمادہ ہوئے اور انہوں نے ہمارے آدمیوں کا مقابلہ کیا اور ان پر حملہ آور ہوئے اور پھر انہوں نے اسے ہندو مسلم سوال بنا دیااور یوں شکل دے دی کہ گویا احمدی ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم کرتے ہیں حالانکہ مرنے والا ہمارا موروثی تھا اور لاولد تھااور اس کی زمین ہمیں ہی ملتی تھی۔ چنانچہ جب عدالت میں یہ معاملہ گیاتو ہمار ا حق تسلیم کیا گیا اور اب تک ہم اس پر قابض ہیں لیکن اس زمین کے جھگڑے کو قومی سوال بنا دیا گیا۔اسی سلسلہ میں ایک مصنوعی فساد کھڑا کر کے یہ مشہور کر دیا گیا کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں۔میں اس قصہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کئی دفعہ میں اس واقعہ کو بیان کر چکاہوں۔بہر حال اُس وقت ایسے سامان پیدا کر دیے گئے تھے کہ اگر مجھے وقت پر معلوم نہ ہو جاتا تو اُس دن بیسیوں خون ہو جاتے۔مگرمیں اُس وقت اتفاقاً گلی کے اوپر کے کمرہ میں کھڑکی کے پاس کھڑاتھااور جب میں نے لوگوں کے دوڑنے کا شور سنا تو انہیں روک دیا انہی ایام میں ہمارے طالب علم ایک دفعہ بڑے بازار سے گزر رہے تھے تو ایک ہندو مٹھائی کے تاجر نے اپنی چھابڑیاں زمین پر پھینک دیں اور یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ احمدیوں نے اس کی دکان لوٹ لی ہے یہ حالات ایسے تھے کہ میں نے سمجھ لیا خداتعالیٰ ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اس طرح بلا قصور اور خطا جماعت کو بدنام کیا جاتا اور فساد میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی اس خیال پر میں نے اسی مسجد میں تمام دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو اگر تم فساد ات سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ آئندہ ان لوگوں سے تعلق نہ رکھوکہ جو اس طرح تم کو بدنام کرتے ہیں ۔آج اگر انہوں نے مٹھائی کی چھابڑیاں خود زمین پر گِرا کر یہ مشہور کر دیا ہے کہ احمدیوں نے انہیں لیا۔ تو کیا پتہ ہے کہ کل کو کوئی اور تاجر کپڑوں کے تھان گلی میں پھینک کر کہہ دے کہ یہ تھان احمدی لُوٹے لیے جا رہے ہیں۔یا اپنی صندوقچی کے متعلق کہہ دیں کہ یہ احمدیوں نے توڑ ڈالی۔ پس چونکہ ایسے حالات رونما ہو گئے ہیں جن سے فتنوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے اس لیے جماعت کی عزت اور اس کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ خاص احتیاط سے کام لیا جائے۔ پس یا تو آپ لوگ جماعتی ذمہ واری سے سلسلہ کو آزاد کردیں اور جو چاہیں کریں اور یا پھر اپنے پر یہ پابندی کر لیں کہ صرف انہی لوگوں سے لین دین کیا جائے جو ہم سے تعاون اورصلح رکھنے کے لیے تیار ہوں۔میں نے کہا میں آپ لوگوں کو کسی خاص طریق پر مجبور نہیں کرتا ہاں چونکہ آپ لوگوں نے خود میرے پاس بیان کیا ہے کہ بعض ہندوؤں نے اپنی چھابڑیاں زمین پر پھینک دیں اور مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں لوٹ لیا حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی۔اسی طرح آپ لوگ ہی یہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے فتنہ پردازی کے لیے یہ خبر مشہور کر دی کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں اور اس طرح احمدیوں کو اشتعال دلوا کر لڑوانا چاہا۔پس اگر آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو میں اُس جگہ جانے کی اجازت نہیں دے سکتا جہاں اس قسم کے فتنہ کے سامان پیدا کیے جا رہے ہیں۔آپ لوگوں میں سے کوئی شخص اپنی ذمہ واری پر اُدھر جائے تو میں اُسے روکنا نہیں چاہتا۔لیکن وہ اپنا آپ ذمہ وار ہو گا۔جماعت اس کے متعلق کسی قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ جماعت بحیثیت جماعت ایسے فتنوں کے وقت میں آپ کی مناسب امداد کرے تو پھر آپ اقرار کریں کہ آپ ان لوگوں سے سودا نہیں خریدیں گے کہ جو اس قسم کے فساد کھڑا کرتے ہیں صرف ان لوگوں سے سودا خریدیں گے جو آپ کے ساتھ شریفانہ طور پر تعاون کرنا چاہیں گے۔چنانچہ اُسی وقت ایک رجسٹر کھولا گیا اور میں نے کہا جو لوگ یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اپنا سودا صرف احمدی دکانداروں سے یا دوسری اقوام کے ان دکانداروں سے خریدیں گے جو ہم سے تعاون کا اقرار کریں وہ اس میں اپنا نام لکھا دیں اور جو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کے آپ ذمہ دار بن سکتے ہیں یا سب ہندوؤں سے وہ سودا خریدنا چاہتے ہیں اور ہندوؤں اور سکھوں میں انہیں رسوخ حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں کوئی خطرہ نہیں وہ اپنا نام الگ لکھا دیں۔اس پر صرف سات احمدیوں نے کہا کہ ہم ہندوؤں سے سودا خریدیں گے لیکن باقی سب نے کہا کہ خطرہ حقیقی ہے اور ہم ان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدیں گے جو ہمارے ساتھ معاہد ہ میں شامل نہ ہوں۔ اس معاہدہ کے مطابق صرف ایک ہندو دکاندار معاہدہ میں شامل ہوا۔باقی نے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینو ں میں ہی احمدیوں کی کئی دکانیں کھل گئیں۔اس وقت سے ترقی کرتے کرتے آج یہ حالت ہے کہ قادیان کی تجارت کا اسی فیصدی حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے اور گو ہماری ظاہر ی تجارت بھی دوسروں سے نمایاں ہے لیکن بعض اندرونی تجارتیں ہیں جیسے بعض عورتیں تجارت کرتی ہیں پھر بعض عارضی طور پر تجارت کر لیتے اور بعد ازاں چھوڑ دیتے ہیں ان تمام تجارتوں کو اگر ملا لیا جائے تو 80 فیصد تجارت احمدیوں کی بنتی ہے ۔حالانکہ اُس وقت ایک فیصدی تجارت بھی احمدیوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔اس میں شبہ نہیں کہ ابتدا میں اس کام کے شروع کرتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بار بار لوگوں کو ہدایتیں دینی پڑتیں اور پھر ان لوگوں کے لیے جرمانے مقرر تھے جو معاہدہ میں شامل نہ ہونے والوں سے سودا خریدتے اور اپنے عہد کو توڑ دیتے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ جماعت کو اس بات کی عادت ہو گئی اب بھی بعض لوگ اس معاہدے کو کبھی کبھی توڑ دیتے ہیں مگر بہت کم اور جو پابندی کرتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ شروع میں بے شک ہمیں نقصان بھی ہوا چنانچہ جماعت کے لوگوں کو مہنگا سودا خریدنا پڑتا بعض دفعہ بٹالہ اور بعض دفعہ امرتسر سے چیزیں منگوانی پڑتیں لیکن آخر نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کا اکثر حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں آ گیا اور قادیان کی ترقی جتنی سُرعت سے اس کے بعد ہوئی اتنی سُرعت سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔بلکہ اس معاہد ہ کے نتیجہ میں سینکڑوں آدمیوں کو قادیان میں بسنے کا موقع مل گیا۔کسی کو معماروں کی صورت میں کسی کو نجاروں کی صورت میں کسی کو لوہارو ں کی صورت میں اور کسی کو دکانداروں کی صورت میں اور میں سمجھتاہوں اس تحریک کے نتیجہ میں کم از کم تین ہزار آدمی قادیان میں بڑھے ہیں اور اس سے جو مرکزِ سلسلہ کو تقویت پہنچی اور جماعت کی مالی حالت کی درستی پر اس کا اثر پڑا وہ مزید برآں ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے دوست اب بھی ہمت کریں تو ارد گرد کے دیہات کی تجارت کو بھی اپنے قبضہ میں لا سکتے ہیں۔ پس استقلال سے کام لینے کی ایک مثال قادیان کی موجود ہے اور اُس وقت باربار لوگ کہتے تھے کہ ہندوؤں سے قرض مل جاتاہے احمدی سرمایہ دار نہیں اور احمدی زمیندار کہتے ہیں کہ ان کی گردنیں ساہوکاروں کے قبضہ میں ہیں۔اگر پہلے طریق کو ترک کر دیا گیا تو وہ نوٹس دے کر ہمیں پکڑوا سکتے ہیں۔ یہ سب مشکلات موجود تھیں صرف ملازمت کا سوال نہیں تھا۔لیکن باقی دو باتیں موجود تھیں یعنی ایسی قوم سے مقابلہ تھا جس کے ہاتھ میں سینکڑوں سال سے تجارت چلی آرہی ہے پھر مقابلہ تھا اُن ساہوکاروں سے جن کے قبضہ میں زمینداروں کی گردنیں تھیں۔مگر استقلال اور ہمت سے کام لیتے ہی حالت بدل گئی اور اب یہ حال ہے کہ گو یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ہم غیروں پر ظلم کرتے ہیں مگر مخالفوں کو بھی ہماری طاقت اتنی زیادہ نظر آتی ہے کہ انہوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔اگر ہماری طاقت میں نمایاں فرق نہ ہوتا تو وہ یہ الزام ہم پر کس طرح لگا سکتے تھے۔ان کا یہ الزام لگانا بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اب احمدیوں کی قادیان میں اتنی طاقت بڑھ چکی ہے کہ اگر ہم ان پر یہ الزام لگائیں کہ یہ غیروں پر ظلم کرتے ہیں تو لوگ اسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
غرض مسلمان اگر استقلال سے کام لیں تو اب بھی حقوق حاصل کر سکتے ہیں اور کوئی جھگڑے کی بات نہیں رہتی۔ ہم نے قادیان میں ہندوؤں سے نہ فساد کیا نہ جھگڑابلکہ انہیں یقین دلایا کہ اگر کوئی ہندو دکاندار ہمیں تسلی دلا دے کہ وہ ان جھگڑوں میں شامل نہیں ہو گا تو ہم اس سے بھی معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں چنانچہ جیسا کہ بتا چکا ہوں ایک ہندو دکاندار نے معاہدہ کیا اور ہم اس وقت سے برابر ان سے سودا خریدتے چلے آرہے ہیں وہ صرافے کا کام کرتے ہیں۔ اب تو تحریک جدید کے تحت ہم نے زیور بنوانے ترک کر دیئے ہیں لیکن جب تک زیور بنوائے جاتے تھے تو جماعت کے لوگ عموماً انہی سے بنواتے تھے اور چونکہ زیورات کو بیچنا اب بھی منع نہیں اس لیے اگر زیور بیچے جاتے ہیں تو اکثر انہیں کے پاس ۔میرے پاس جو چندے میں زیورات آتے ہیں یا تحریک جدید میں حصہ لینے کے لیے بعض عورتیں اپنے زیور بھیج دیتی ہیں یا صدقہ و خیرات کی مد میں بعض دفعہ زیور آجاتاہے وہ ہمارا دفتر اکثر انہی کے پاس بھجواتاہے۔پس ہم نے بائیکاٹ نہیں کیااور نہ ہم بائیکاٹ کو جائز سمجھتے ہیں ۔ہم نے صرف فتنہ سے بچنے کے لیے ایک صورت نکالی تھی جو بالآخر کامیاب ہوئی اسی طرح مسلمان بھی کام کر سکتے تھے اور بغیر آپس کے تعلقات کو خراب کرنے کے کام کر سکتے تھے۔مگر کس چیزنے انہیں کام نہیں کرنے دیا صرف عدم استقلال نے ۔ورنہ مسلمان آج بھی وہ قربانیاں کر سکتے ہیں جو یورپ کے لوگ بھی نہیں کر سکتے جس وقت ایک مسلمان کے دل میں غیر ت پیدا ہوتی ہے حیر ت آتی ہے کہ وہ کس طرح انجام سے لاپرواہ ہو کر کام کر جاتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ768تا771)

دیانت دار تاجر وں کی ضرورت

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ15؍نومبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں نے ایک دفعہ جلسہ میں تقریر کی اور اس میں کہا کہ ہماری جماعت میں مال تو ہے مگر دیانت دار تاجر نہیں ملتے۔شروع شروع میں میرے پاس بہت سے ایسے لوگ آتے تھے کہ ہمارے پاس روپیہ ہے وہ کسی کام میں لگوا دیں۔اب بھی آتے ہیں مگر اب چونکہ لوگوں کوپتہ لگ گیا ہے کہ میں ایسے روپیہ کو رد کر دیتاہوں اور اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، اس لیے کم آتے ہیں۔تو میں نے بیان کیا کہ میرے پاس لوگ روپیہ لاتے ہیں اگر دیانت دار تاجر مل سکیں تو ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے اور روپیہ والوں کو بھی۔اس تقریر کے بعد پانچ سات رُقعے میرے پاس آئے کہ آپ کا سوال تو یہی تھا نا کہ دیانتدار آدمی نہیں ملتے۔سو وہ دقّت دور ہو گئی اور ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔آپ ہمیں روپیہ دلوائیں ہم دیانت داری سے کام کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ سب کے سب ایسے تھے جن کے پاس پھوٹی کوڑی کا امانت رکھنا بھی میں جائز نہ سمجھتاتھا اور بعد میں بعض ان میں سے خیانت میں پکڑے بھی گئے تو صرف منہ کا دعویٰ کچھ نہیں بلکہ عمل سے اس کی تائید ہونی چاہیے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ706)

راز۔تجارت میں کامیابی کا ایک گُر

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ16؍اگست1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’تجارت کتنی اعلیٰ چیز ہے اور قوموں کی ترقی کے لیے کس قدر ضروری سمجھی گئی ہے مگر اس میں بھی راز رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ راز بتا دیے جائیں تو تجارت کامیاب نہیں ہو سکتی۔تاجر کبھی نہیں بتائے گا کہ وہ سستا سودا کہاں سے خریدتاہے کیونکہ اگر وہ یہ بتا دے تو اس کا ہمسایہ سودا گر بھی وہاں سے سودا خرید لائے اور اس طرح اس کا مقابلہ کرنے لگے۔اسی طرح تاجر کبھی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی چیز کہاں سے خریدتاہے کیونکہ اگر وہ بتا دے تو دوسرا تاجربھی وہاں سے اعلیٰ چیزیں خرید لائے گااور اس کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے گا۔مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ لاہور گیا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا زمانہ تھا وہاں ہمارے ایک دوست تاجر ہیں جو بائیسکلوں کی تجارت کرتے ہیں ۔میں کسی کام کے لیے ان کے پاس بیٹھا تھا کہ باتیں کرتے ہوئے ان کے پاس ایک تار پہنچا انہوں نے جونہی اسے کھولا اور پڑھا معاً کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے آپ اجازت دیں تو میں دس منٹ کے لیے باہر جانا چاہتاہوں یہ کہتے ہی وہ بائیسکل پر سوار ہوئے اور دیوانہ وار اسے دوڑاتے ہوئے چلے گئے۔میں حیران ہوا کہ یہ کیسا تار آیا ہے جس نے انہیں اس قدر بے تاب کر دیا ہے۔آخر بیس پچیس منٹ کے بعد وہ آئے اور کہنے لگے میں ایک منٹ لیٹ پہنچا ورنہ آج مجھے سینکڑوں کا نفع ہو جاتا۔میں نے پوچھا بات کیا ہوئی؟ انہوں نے کہا مجھے تار پہنچا تھا کہ ڈن لوپ کے بائیسکلوں کے ٹائروں کا بھاؤ مہنگا ہو گیا ہے مال روڈ پر ٹائروں کی ایک دکان تھی میں وہاں پہنچا اور اگرمیں اُس سے ٹائروں کا سودا کر لیتا تو آج کئی سوکا مجھے نفع ہو جاتا کیونکہ میں نے یہ اندازہ کیا تھا کہ اس کے پاس تار میرے بعد پہنچے گا اور چونکہ تار والے نے راستے میں اور تار دینے تھے اس لیے میں اس خیال میں رہا کہ اس کے پاس تار پہنچتے وقت تک میں اس سے سودا کر چکوں گااور جب بعد میں اسے تار پہنچ گیا تو میں کہوں گا کہ میرے سودے پر اس بھاؤ کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔لیکن جب میں وہاں پہنچا اور ٹائروں کے متعلق میں نے سودا کیا تو اسی وقت تار بھی پہنچ گیا اور اس طرح میرا سودا رہ گیا یہ کتنا جائز مقابلہ ہے مگر اس میں بھی راز سے پہلے واقف ہو جانے کی وجہ سے ایک شخص فائدہ اُٹھا سکتاہے اور دوسرا نقصان اُٹھا سکتاہے ۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ498،499)

چیز میں ملاوٹ نہ ہو اور وزن پورا ہو

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ31؍اگست1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
پھر ایک اور بات جس کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کے بعض تاجر دیانت سے کام نہیں لیتے اس لیے ہر محلہ کے دوستوں کو اپنے اپنے محلہ کی دُکانوں کے متعلق خیال رکھنا چاہیے کہ ان سے سوداصحیح طور پر ملے۔ چیز خراب نہ ہواور وزن کم نہ ہو۔ ایک دن مجھے عرقِ گلاب کی ضرورت تھی جومیں نے ایک دُکان سے منگوایا ۔میں نے دیکھا دُکاندار نے پانی میں یوکلپٹس آئل ملایا ہوا تھا جسے وہ عرق گلاب کے طور پر بیچتا تھا اور یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اسلامی حکومت ہو تو اس کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔دوائیوں میں بے احتیاطی بسا اوقات مُہلک ثابت ہوتی ہے۔ آجکل بہت سے ولائتی ایسنس نکلے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ ہر چیز کا عرق بنایا جاسکتا ہے۔مگر وہ گلاب وغیرہ کا عرق نہیں ہو گا اگرچہ اس کی خوشبو ویسی ہی ہو بعض لوگ انہی سے عروق تیار کر لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ زہریلے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ دواؤں سے نہیں بنتے بلکہ ایسنسوں سے بنتے ہیں۔ پھر میر ا تجربہ ہے کہ جو آٹا فروخت کیا جاتا ہے اس میں سے نوے فیصدی ایسا ہو تا ہے جس میں کِرَک ہوتی ہے۔ اور کِرَک ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس سے درد گردہ ، پتھری اور مثانہ وغیرہ کی بیماریاں پیداہوتی ہیں لوگ عام طور پر جلدی جلدی روٹی کھانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس نقص کو محسوس نہیں کرتے اگر اسلام کے حکم کے مطابق آہستہ آہستہ اور چبا چبا کر روٹی کھائیں تو انہیں باآسانی معلوم ہو سکتاہے کہ عام طور پر جو آٹا فروخت ہوتا ہے اس میں کرک ہوتی ہے مگر لوگ وقار کے ساتھ روٹی نہیں کھاتے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے اگر ہماری جماعت کے لوگ کھانے کے متعلق اس ہدایت کی پابندی کرتے تو انہیں اس نقص کا احساس بڑی آسانی سے ہو سکتا تھا۔ کرک ایک سخت تکلیف دہ چیز ہے۔ گردہ اور مثانہ کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں مگر دکاندار جو آٹا فرخت کرتے ہیں اس میں سے نو ے فیصدی بلکہ میں کہوں گا ننانوے فیصدی کرک ہوتی ہے اور دکاندار بھاؤ کرتے وقت یہ خیال نہیں رکھتے کہ ایسا آٹا خریدیں جس میں کرک وغیرہ نہ ہو بلکہ صاف ہو وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ چار آنہ سستی بوری مل جائے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بیوپاری کو اجازت دیتے ہیں کہ اس قدر وہ مٹی ملا سکتا ہے اور یہ بھی ویسی ہی بددیانتی ہے جیسا خود مٹی ڈال کر بیچنا ۔ پس دوست تاجروں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں اور جب انہیں شُبہ ہو کہ کوئی دوائی یا کوئی اور چیز اچھی نہیں تو فوراًمقامی انجمن کے پاس رپورٹ کریں اور اس کا فرض ہے کہ تحقیقات کر ے کہ شکایت صحیح ہے یا نہیں۔ اگر صحیح ہوتو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے۔
ایک دفعہ ہمارے گھر میں ایک بوری آئی اور اسے دیکھ کر میں نے کہا کہ اس میں کِرَک ہے۔ چنانچہ جب آدمی واپس کرنے کے لیے گیا تو دکاندار نے وہ رکھ لی اور یہ کہہ کر کہ ہمیں علم نہ تھا حضرت صاحب کے گھر جانی ہے اچھے آٹے کی دوسری بوری دے دی جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں اعتراض کا خیال ہو وہاں وہ ایسا نہیں کرتے ورنہ کر لیتے ہیں اور انہیں علم ہوتا ہے پس آئندہ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ کوئی دکاندار ایسا آٹا فروخت نہ کرے جس میں کرک یا مٹی کی ملونی ہو اسی طرح دوسری اشیاء بھی خراب اور میلی کُچیلی نہ ہو ں اس سے جسمانی صحت بھی درست ہو گی اور ایمانوں میں بھی چُستی پیدا ہو گی۔ جب قیمت ادا کرنی ہے تو کیوں ناقص چیز لی جائے۔یہ خیال کرنا کہ چلو تھوڑی سی خرابی ہے اسے جانے دو نہایت ہی معیوب بات ہے اور ایسا کہہ کر بات کو ٹال دینے والااپنی بددیانتی کا ثبوت دیتا ہے اُس کے اِس قول کے معنے یہ ہیں کہ جب اسے موقع ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ بددیانتی کرے گا۔غرض یہ چیزیں اخلاق کو برباد کر دینے والی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ

یعنی کم تولنے والوں پر خداتعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔دراصل چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بڑی باتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اس لیے انہیں کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ایک دفعہ میں مغرب کی نماز پڑھا رہا تھا اور ایک خاص وجہ سے میں اس میں ایک ہی سورۃ پڑھا کرتا ہوں مگر اس دن ایسا معلوم ہوا کہ باقی سب قرآن مجھے بھول چکا ہے اور صرف

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ

والی سورۃ یاد ہے۔ میں نے اسے کسی الٰہی حکمت پر محمول کیا اور سمجھا کہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ نماز کے بعد میں نے حکم دیا کہ سب دکانداروں کے بٹے تولے جائیں۔ چنانچہ بٹے تولنے پر معلوم ہوا کہ کئی ایک کے وزن کم تھے۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس خرابی کو دور کریں۔ دکانداروں کی ہر چیز کو دیکھیں اور خیال رکھیں کہ بھاؤ ٹھیک ہو ں ۔وزن پورے ہوں اور چیز صاف سُتھری ہو۔ ہر چیز ملونی سے پاک ہو ۔ دوائیں درست اور صحیح ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ شدید طاعون پڑی تو لوگ کہتے تھے کہ دکاندار ایک ہی بوتل سے سب عرق دے دیتے ہیں۔ اسی سے گلاب اسی سے گاؤزبان اور اسی سے کیوڑہ وغیرہ حالانکہ دوائی میں ادنیٰ سی غلطی سے بھی بعض اوقات جان ضائع ہو جاتی ہے۔ میں امیدکرتا ہوں کہ دوست اس امر کی طرف توجہ کریں گے اور تاجر ہر قسم کی بددیانتی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد 15صفحہ 241تا243)

قرض اور سود کے متعلق اسلام کی تعلیم

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ9؍فروری1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’اسلام نے تمدنی معاملات کے متعلق ایک ایسی تعلیم دی ہے جو اپنی ذات میں گو نہایت ہی مکمل ہے لیکن جب تک اسے اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ مدنظر نہ رکھا جائے اور اس پر کامل طور پر عمل نہ کیا جائے وہ مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔مثلاً اسلام نے سود سے روکا ہے۔سود دنیا میں دو قسم کا ہوتاہے ایک وہ سود جو مالدار آدمی اپنے مال کو اوربڑھانے کے لیے دوسرے مالداروں سے رقم لے کر اُن کو اداکرتاہے جیسے تاجر پیشہ لوگ یا بینک والے کرتے ہیں اور ایک وہ سود ہے جو غریب آدمی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی صاحب استطاعت سے قرض لے کر اُسے اداکرتاہے۔اسلام نے ان دونوں سودوں سے منع کیا ہے۔اس سود سے بھی روکا ہے جو تجارت یا جائیداد کو فروغ دینے کے لیے مالداروں سے روپیہ لے کر انہیں ادا کیا جاتاہے اور اُس سود سے بھی منع کیا ہے جو غریب آدمی اپنی غربت سے تنگ آکر کسی صاحب استطاعت سے قرض لینے کے بعد اسے ادا کرتاہے اور نہ صرف ایسا سود دینے سے روکا بلکہ لینے سے بھی منع کیا ہے اور نہ صرف سود لینے دینے سے منع کیا بلکہ گواہی دینے والوں اور تحریر کرنے والوں ،غرض سب کو مجرم قرار دیا ہے۔

سود کی بجائے رہن یا قرض سے ضروریات پوری کریں

تاجر پیشہ لوگوں کے سود کے متعلق تو جب کوئی شخص سوال کرے کہ مثلاًاس کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اور وہ اس سے دس لاکھ روپیہ کما سکتا ہے۔اگر وہ بنکوں یا دوسرے افرادسے روپیہ لے کر اسے ترقی نہ دے تو کیا کرے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ صبر کرے۔دس ہزار روپیہ اس کے لیے کافی ہے،اسی پر وہ گزارہ کرتارہے ۔مگر جس وقت یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایک غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے، کھیتی اس کی نہیں ہوئی،اناج اس کے گھر میں نہیں آیا،بارشیں وقت پر نہیں برسیں،ایسی صورت میں اگر وہ اپنی زمین کے لیے روپیہ مانگتا ہے تو بغیر سود کے لوگ اُسے دیتے نہیں اب وہ کیا کرے؟اگر وہ بیل نہ خریدے گا تو کھیتی کس طرح کرے گا۔یا عمدہ بیج نہیں لے گاتو وہ اور اس کے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے۔ اس کے لیے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ روپیہ قرض لے مگر جب لوگ اسے بغیر سود کے قرض نہ دیں تو وہ کیا کرے۔جب یہ سوال پیش کیا جاتاہے تو اس کا جواب دینا ذرا مشکل ہو جاتاہے اور درحقیقت یہی وہ سود ہے جس کے حالات اور کوائف سننے کے بعد انسان حیرت میں پڑجاتاہے کہ وہ کیا جواب دے ۔مالدار آدمی کو تو جھٹ ہم یہ جواب دے سکتے ہیں کہ سود پر روپیہ مت دو اگر دس ہزار روپیہ ہے تو اسی پر کفایت کرو سود کے ذریعہ زیادہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے مگر ایک غریب آدمی کو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اسی حالت پر کفایت کرو۔اس کو تو ایک ہی جواب دیا جا سکتاہے کہ بھوکے رہو اور مرجاؤ۔مگر یہ کوئی ایسا معقول جواب نہیں جس سے ہمارے نفس کو تسلی ہو یا سائل کے دل کو اطمینان حاصل ہو۔ پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا کیا حل رکھا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیم پر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے اس سوال کا یہ جواب دیاہے کہ غریب آدمی تو ایسا ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ نہیں مگر جائیداد ہوتی ہے اس کے لیے تو یہ صورت ہے کہ جائیداد رہن رکھے اور روپیہ لے لے۔مگر ایک ایسا غریب ہوتاہے جس کے پاس جائیداد بھی نہیں ہوتی جسے رہن رکھ سکے یا اگر جائیداد ہوتی ہے تو وہ اس قسم کی ہوتی ہے کہ اگر وہ اسے رہن رکھ دے تو اس کا کاروبار بند ہو جاتاہے مثلاً زمیندار ہے اگر وہ زمین رہن رکھ دیتاہے تو وہ کھیتی باڑی کہاں کرے گا۔اپنے مکان کی چھت یا صحن میں تو وہ کھیتی نہیں کر سکتا۔ان حالات میں اسلام نے یہ رکھا ہے کہ ایک طرف تو امراء پر ٹیکس لگا دیا جس سے غرباء کی امداد کی جا سکتی ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جب ٹیکس سے بھی کسی غریب کی ضرورت پوری نہ ہو تو جو اس کے دوست واقف کار یا محلے والے ہوں،وہ اسے قرضِ حسنہ دیں۔
یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اگر اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ایک صورت کبھی کام نہیں دے سکتی۔مگر ہمارے لیے اس میں بھی کئی رکاوٹیں ہیں کیونکہ اسلام نے امراء پر جو کئی قسم کے ٹیکس لگائے ہیں،وہ ہم وصول نہیں کرسکتے کیونکہ گورنمنٹ وصول کر لیتی ہے۔زکوٰۃ اگرچہ آتی ہے مگر وہ بہت ہی کم ہوتی ہے۔

قرض داروں کا ناروا رویہ اور اس کے نقصانات

پس جبکہ امراء کے ٹیکسوں سے ہم اپنی جماعت کے غرباء کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو ہمارے لیے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی جماعت سے کہیں کہ امیر آدمی غرباء کو ضرورت کے وقت قرض حسنہ دیا کریں اور کبھی کبھار میں جماعت کو کہتابھی رہتاہوں مگرجس حد تک کہنے سے احساس پیدا ہو سکتاہے وہ میں نہیں کہتا اور نہیں کہہ سکتا اور آج اسی کے متعلق میں بیان کرنا چاہتاہوں کہ میں کیوں جماعت کو زیادہ زور کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ امیر غرباء کو قرض حسنہ دیا کریں۔ میرے نہ کہہ سکنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس جس قدر مالی جھگڑے آتے ہیں،ان میں سے ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن میں مجھے نظر آرہا ہوتاہے کہ مقروض قرض واپس کرنے سے گریز کر رہا ہوتاہے اور ایک فیصدی جھگڑا میرے سامنے ایسا آتاہے جس میں مجھے یہ معلوم ہوتاہے کہ قرضہ دینے والا مطالبہ میں سختی کر رہا ہے مگر ننانوے فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جو قرضہ لیتے ہیں اور پھر واپس نہیں کرتے بلکہ گریز کرتے اور قرض دینے والے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جو شخص قرض لے کر واپس نہیں کر سکتا اُس کے متعلق تو ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ

فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ(البقرۃ:281)

کشائش تک اُسے مہلت دینی چاہیے اور ایسا انسان جو واقعہ میں تنگی میں ہو اور مالی مشکلات کی وجہ سے روپیہ ادا نہ کر سکتا ہو، میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی معقول پسندانسان یہ کہے کہ مجھے اس سے روپیہ دلوادیجیے۔ہم یہی پوچھیں گے کہ ہم کہاں سے دلوائیں۔وہ تو خود کئی قسم کی مشکلات میں مبتلا ہے۔لیکن جو میری نظر میں کیس آتے ہیں وہ ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں کہ قرض لینے والے کا حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ قرض لینے والے کا حق نہیں ہوتا کہ قرض لے تو اس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ شخص قرض لیتاہے جسے کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید ہی نہیں ہوتی۔میرے نزدیک جو شخص اس حالت میں قرض لیتاہے جبکہ اُسے کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید نہیں ہوتی اور وہ دوسرے پر اپنی غربت کا اثر ڈال کر اُس سے روپیہ کھینچ لیتاہے وہ دھوکے باز اور فریبی ہے۔جب اُسے معلوم ہے کہ مجھے روپیہ کہیں سے نہیں آنا تو وہ قرض لیتاہی کیوں ہے اور جب اس نے بعد میں تقاضوں پر دوسرے کو یہ جواب دینا ہے کہ میں کیا کروں تو وہ پہلے سے کیوں اس مصیبت کو دورکرنے کی فکر نہیں کرتا۔
ایسا شخص جب دوسرے سے قرض لے رہا ہوتاہے تو منہ سے تو قرض دینے والے کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں جلدی ادا کردوں گا مگر دل میں اس کے یہ ہوتاہے کہ روپیہ میرے قابو میں آجائے ۔پھر کون واپس لے سکتاہے ۔میں ایسے شخص کو یقینی طور پر ویسا ہی مجرم سمجھتاہوں جیسا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں سیندھ لگانے والا بلکہ اس سے زیادہ بُرا۔کیونکہ جو شخص سیندھ لگاتاہے وہ تو اپنے آپ کو چور کہتاہے۔مگر یہ ایک طرف تو اپنی دیانت داری کا سکہ بٹھاتا ہے،دوسری طرف جماعت کی ہمدردی اور اخوت یاد دلاتاہے،تیسری طرف قرآن مجید کے احکام سناتا اور کہتاجاتاہے میری ضرور مدد کرو۔ احمدیت آخر کس چیزکا نام ہے؟ایک مہینہ یا دو مہینہ تک روپیہ ادا کردوں گا۔اس دھوکے اور فریب کے ذریعہ وہ دوسرے کا مال اُڑالیتاہے۔ وہ خیال کرتاہے کہ شاید میں دیانتدارہی مشہور رہوں گا مگر آخر وہ دھوکہ باز مشہور ہو جاتاہے اور ہر شخص سمجھ لیتاہے کہ یہ فریبی ہے۔ بہانوں سے روپیہ وصول کر لیتاہے مگر دینے کا نام نہیں لیتا۔پھر اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک شخص سے لیا ہوا روپیہ ہمیشہ تو کام نہیں آسکتا۔کچھ عرصہ کے بعد ضرور ختم ہو جائے گا۔پھر وہ کیا کرے گا۔شاید اس کا خیال ہو وہ کسی دوسرے سے لے لے گا اور ممکن ہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے مگر پھر کیا کرے گا۔اس کے بعد اگر وہ تیسرے شخص کو بھی دھوکہ دے لے توپھر کیا ہو گا۔آخر چھ مہینے ،سال،دوسال،چار سال کے بعدلوگ شور مچائیں گے اور اُسے قرض دینا بند کر دیں گے ۔پھر وہ جماعت کے پاس آئے گااور کہے گا اب میں کیا کروں میرے لیے کوئی انتظام کرومگر یہی بات اُس نے پہلے کیوں نہ کی اور قرض لینے سے پہلے ہی وہ کیوں نہیں فکر کرتا کہ اب میں کیا کروں۔دھوکہ بازیاں کرنے کے بعد اُس نے جو کچھ کہنا ہے وہ پہلے کیوں نہیں کہہ دیتا۔ہاں بعض دفعہ یقین ہوتاہے کہ کہیں سے روپیہ آنے والا ہے مثلاً کسی نے اس کا سو دو سو روپیہ دینا ہو اور سال بھر کا وعدہ ہو اس دوران میں اُسے خود روپیہ لینے کی ضرورت پیش آجائے اور وہ کسی کے پاس جا کر کہے کہ مجھے فلاں سے روپیہ لینا ہے کیا مجھے آپ اس روپیہ کے ملنے تک جس کی مجھے غالب اُمید ہے کچھ روپیہ قرض دے سکتے ہیں اگر دے دیں تو کام چل سکتاہے ۔یا زمیندار اگر کہہ دے کہ فصل پکنے پر روپیہ ادا کر دوں گا تو یہ اور بات ہے لیکن اگر اسے کہیں سے روپیہ کی وصولی کی اُمید ہی نہ ہو اور پھر بھی وہ روپیہ قرض لیے جاتاہے تو وہ یقینا دھوکاباز ہے۔ایسا شخص سمجھ رہا ہوتاہے کہ چونکہ میں قرض لے رہاہوں اس لیے یہ جائز کام ہے حالانکہ قرض وہ ہوتاہے جس کے ادا کرنے کی ہمت ہو، جب ہمت ہی نہ ہو تو پھر قرض کے نام سے روپیہ لینا قرض نہیں بلکہ ٹھگی ہے۔مثلاً ایک شخص جس کی پچاس روپیہ بھی آمد نہ ہو،اگر وہ دو لاکھ روپیہ قرض لے لے تو کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ اس نے قرض لیا ہے۔ ہر شخص کہے گا یہ قرض نہیں بلکہ دھوکہ اور فریب ہے۔دو لاکھ چھوڑ اس کی تو دو ہزار کی بھی حیثیت نہیں۔یہی مثال پچاس ،بیس یا دس روپیہ قرض لینے پر بھی عائد ہو سکتی ہے ۔جب ایک شخص میں دس روپیہ قرض ادا کرنے کی بھی ہمت نہیں تو اگر وہ دس روپیہ بھی لیتاہے تو دھوکہ بازی کرتاہے۔چونکہ ہماری جماعت کا قرض لینے والا حصہ خواہ وہ دس،بیس،پچاس،سو یا دوسو روپیہ قرض لیتاہے بسا اوقات ایسی صورت میں قرض لیتاہے جبکہ وہ اُسے ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اس لیے میری تشریح کے مطابق ننانوے فیصدی یقینی طور پر دھوکہ باز ہیں اور جبکہ اس قسم کے لوگ ہماری جماعت میں موجود ہوں میں کس طرح ترغیب دے سکتاہوں کہ غریبوں کو قرض دو میرا اپنا تجربہ یہی ہے ۔خلافت کے ابتدائی چار پانچ سالوں میں میرے پاس لوگوں کی بہت سی امانتیں رہتی تھیں بعض دفعہ بیس بیس،تیس تیس ہزار روپیہ امانتوں کا ہو جاتا تھا اور چونکہ میرے پاس یہ روپیہ موجود ہوتاتھا اس لیے جب مجھ سے کوئی شخص قرض مانگتا تو میں اُسے دے دیتا۔مگر میں دیکھتاکہ قرض لینے والوں کا بیشتر حصہ ایسا ہوتا ہے جو قرض لے کر بھول جاتااور چونکہ میرے لیے یہ ایک نہایت ہی مشکل تھی اس لیے میں نے امانتیں لینی چھوڑ دیں۔اب بھی بعض امانتیں اگرچہ لوگ میرے پاس رکھواتے ہیں مگر میں انہیں اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ بنک میں جمع کرا دیتاہوں اس لیے اب اگرمجھ سے کوئی شخص قرض مانگے تو سچائی سے میرے پاس یہ عُذر ہوتا ہے کہ اپنا کیا دوسروں کا بھی میرے پاس روپیہ نہیں کیونکہ میرے لیے یہ مشکل ہوتی ہے کہ کوئی مصیبت زدہ میرے پاس آئے اور میں اُس کی امداد سے قاصر رہوں۔انہی مشکلات کی وجہ سے میں اب لوگوں کو جرأت نہیں دلاتا کہ میرے پاس امانتیں رکھوادیا کرو۔ورنہ حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ تعالیٰ ہر ہفتہ درس وغیرہ میں فرما دیا کرتے تھے کہ روپیہ اپنے گھروں میں نہ رکھو بلکہ میرے پاس رکھا دیا کرو تا وہ محفوظ رہے۔ابتدائے خلافت میں مَیں بھی کہہ دیا کرتا تھا اور اس طرح کافی رقم جمع ہو جایا کرتی تھی مگر اب میں اول تو امانتیں لیتاہی نہیں اور اگر لوں بھی تو انہیں بنک میں جمع کر ا دیتاہوں مگر چونکہ دوسروں کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہے اور ہماری جماعت کا کثیر حصہ بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو ننانوے فیصدی حصہ ایسا ہے کہ اسے حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے یا اگر حق ہوتاہے تو جب روپیہ اسے ملتاہے تو وہ اور جگہ خرچ کر دیتاہے ۔اس لیے مجھے یہ نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔

روپیہ آنے کی یقینی امید پر قرض لینا جائز ہے

میں عام طور پر دیکھتاہوں کہ اول تو قرض ایسی حالت میں لیا جاتاہے جب قرض ادا کرنے کی اپنے اندرہمت نہیں ہوتی اور اگر کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید میں قرض لیا جاتاہے تو جب روپیہ آجاتاہے تو اور جگہوں پر خرچ کر دیا جاتاہے اور دل میں خیال کر لیا جاتاہے کہ جب قرض خواہ مانگنے آئے گاتو ہم کہیں گے کہ ہم کیا کریں ہمارے پاس روپیہ نہیں ہے اور اگر زیادہ اصرار کرے گا تو کہہ دیں گے ہمارا مکان ہے بیس ہزار اس کی لاگت ہے یہ خرید لو اور اس میں اپنا قرض وضع کر لو۔چاہے وہ اُس وقت پانچ ہزار روپیہ کا ہی ہو۔اب کون بیوقوف ہو گا جو دو ہزارروپیہ قرض وصول کرنے کے لیے اٹھارہ ہزار اور خرچ کرے۔یا بعض دفعہ مکان بناتے وقت زیادہ خرچ ہوتاہے مگر بعد میں قیمتیں گِر جاتی ہیں اس صورت میں مکان خریدنے والے کو گھاٹا بھی ہو سکتاہے مگر مقروض سمجھتا ہے میں نے مکان پیش کر دیا ہے اسی جھگڑے میں ایک دو سال اور گزر جائیں گے حالانکہ یہ قرض دینے والے کا کام نہیں کہ وہ مکان خریدے یا بیچے بلکہ قرض لینے والے کا کام ہے کہ وہ جس طرح ہو قرض ادا کرے ۔مکان بیچنا ہے تو خود بیچے اور جس قیمت پر بکتاہے فروخت کر کے قرض ادا کرے ۔غرض عدمِ ادائیگی کا نقص ایسا ہو گیا ہے کہ اس کی وجہ سے اب مجھے جرأت ہی نہیں ہوتی کہ غریبوں کی مدد کے لیے قرض حسنہ کی تحریک کی جائے میں جانتاہوں کہ اگر میں تحریک کروں تو کئی مخلص ایسے کھڑے ہوجائیں گے جو قرض دینے کے لیے تیار ہوں گے ۔مگرآخر ساری ذمہ داری مجھ پر آجائے گی وہ کہیں گے آپ نے وعظ کیا تھا اور ہم نے روپیہ دے دیا۔اب روپیہ لینے والے دیتے نہیں اب آپ ہی دلوایئے۔کیونکہ قرض لینے والے ننانوے فیصدی میری تشریح کے مطابق ٹھگ ہوں گے اور گو وہ یہ بھی کہیں کہ ہماری نیت تھی کہ ہم روپیہ ادا کردیں پھر بھی وہ الزام سے بری نہیں ہو سکتے۔کیا اگر کوئی شخص عمارت بنانا چاہے اور اُسے بیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہو مگر اس کے پاس صرف دس ہزار ہو باقی دس ہزار کے متعلق ایک شخص اسے کہے کہ آپ عمارت شروع کریں میں دس ہزار روپیہ دے دوں گا لیکن جب عمارت نا مکمل صورت میں کھڑی ہو جائے اور وہ آکر کہے کہ روپیہ دیجیے بارش کا خطرہ ہے،عمارت گِر جائے گی تو وہ کہہ دے کہ میری نیت تو ہے کہ آپ کو دس ہزار روپیہ دوں مگر پاس نہیں ۔تو کیا تم کہو گے کہ وہ بڑا مخلص ہے کیونکہ اس کی نیت تو ہے کہ وہ دس ہزار روپیہ دے ۔ہر شخص کہے گا کہ وہ دھوکہ باز ہے اُس نے دھوکہ دے کر اُس کا روپیہ بھی برباد کرایا اور آپ پیچھے ہٹ گیا ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر بعض لوگ آپؐ کے پاس آتے اور کہتے کہ یا رسول اﷲ !فلاں دشمن کے مقابلہ میں لشکر کشی فرمائیں ۔دس ہزار آدمی ہمارا آجائے گا اور جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تیار ہو کر باہر نکلتے تو دو چار آدمی بھیج دیتے اور کہتے ہماری نیت تو دس ہزار بھیجنے کی تھی مگر ملے نہیں۔کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ دس ہزار کا انہوں نے وعدہ کیا اس لیے بڑے مخلص سمجھے جاتے ۔نہیں بلکہ جتنی زیادہ انہوں نے اس رنگ میں نیت کی اتنا وہ منافق اور دھوکہ باز ثابت ہوئے۔نیت وہ ہوتی ہے جس کے پورا کرنے کا یقین ہو۔مگر قرض لینے والوں میں سے ننانوے فیصدی جانتے ہیں کہ ہم قرض ادا نہیں کرسکتے پھر بھی وہ قرض لیتے ہیں یا نیت ادا کرنے کی کرتے ہیں مگر ایسی جو کبھی پوری نہ ہو ۔پس درحقیقت ان کی نیت بھی شیطانی ہوتی ہے۔
اسی طرح تجارت پیشہ لوگ ہیں۔بیسیوں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پاس روپیہ ہے کہیں تجارت پر لگوا دیجیے۔ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ہی میں نے تقریر کی کہ اس قسم کے لوگ میرے پاس آتے رہتے ہیں ۔پندرہ بیس ہزار روپیہ سالانہ جمع ہو جانا کوئی مشکل بات نہیں۔جلسہ کے بعد میرے پاس تین آدمیوں کی دستخطی چٹھی پہنچی کہ بس روپیہ کا ہی سوال تھا،ہمیں روپیہ دیجیے تاکہ ہم تجارت شروع کریں اور وہ تینوں ایسے تھے کہ اگر میں بھی اُنہیں قرض دوں تو وہ ایک دمڑی تک اس میں سے واپس نہ کریں۔ایک تو ان میں سے پچھلے دنوں بددیانتی کی وجہ سے قید بھی ہو گیا ہے۔یہ ایک ایسا نقص ہے جس نے سلسلہ کا نظام بہت حد تک تہہ و بالا کر رکھا ہے۔اگر قرض ادا کرنے کی ہمت ہی نہیں تو کسی سے قرض لینے سے پیشتر ایسے شخص کا فرض ہے کہ لوگوں سے کہہ دے کہ میں کنگال ہوں،میری مدد کرو مگر جب وہ بغیر اپنے حالات پر غور کیے قرض لے لیتاہے تو وہ فریبی ہے ۔مانگنا علیحدہ چیز ہے اگر کوئی شخص سوال کرتا ہے تو اگر اس نے بغیر کسی اور ذریعہ سے کام لینے کے جلدی سے سوال کر دیا تو ہم کہیں گے یہ کم ہمت ہے اور اس میں اخلاق کی کمی ہے ۔مصائب آئے مگر وہ جلدی ان سے گھبرا گیا لیکن قرض لینے والے کو جبکہ وہ ادا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ہم یہ نہیں کہیں گے کہ کم ہمت ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ دھوکہ باز ہے۔ایسے لوگ مجلس میں بڑے فخر سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم سلسلہ سے تو نہیں مانگتے ہم تو لوگوں سے قرض لیتے ہیں حالانکہ جو سلسلہ سے مانگنے آتا ہے وہ اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتاہے جو ادا کرنے کے ذرائع مفقود ہوتے ہوئے قرض لیتاہے کیونکہ مانگنے والا دھوکہ نہیں دیتا مگر وہ دھوکہ دیتاہے۔پس میں نصیحت کر تاہوں کہ آئندہ سے اس طریق کو بند کرنا چاہیے۔قادیان میں بھی اور باہر بھی کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو قرض لیتے اور پھر واپس نہیں کرتے۔مگر کثرت سے بھی وہ مراد نہیں جو مخالف بعض دفعہ میرے اس قسم کے الفاظ سے لے لیتے ہیں کہ کم از کم جماعت کے 51فیصدی لوگ ایسے ہیں ۔میرا اس قسم کے فقروں سے یہ مطلب ہوتاہے کہ جماعت میں بیسیوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں یہی بات میں اس وقت کہہ رہا ہوں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا شغل ہی یہ ہے کہ وہ قرض لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کا نام نہیں لیتے۔اس طریق پر وہ خود بھی بدنام ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی بدنام کرتے ہیں جو جائز طور پر قرض لیتے اور پھر مجبوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتے۔اگر مجبوریاں نہ ہوں تو وہ فوراً اداکردیں۔میں جماعت کونصیحت کرتاہوں اور خصوصاً اُن لوگوں کو جنہوں نے میری جلسہ سالانہ کی تقریر کے مطابق سالکین میں نام لکھوائے ہیں۔میں اس فکر میں ہوں کہ سالکین کے لیے ایسے قواعد وضع کیے جائیں کہ نہ تو یہ کام ایسا بوجھل ہو جائے کہ اپنی ذات میں ایک محکمہ بن جائے اور نہ ایسا ہو کہ صرف نام کے ہی سالکین رہیں اور کام کوئی نہ کریں۔

روپیہ آنے کی یقینی امید نہ ہو تو قرض نہ دیاکریں

میں ایسے قواعد سوچ رہا ہوں کہ بغیر کسی محکمہ پر خاص طور پر بوجھ ڈالنے کے دوست اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کی بھی اور اُمید کرتاہوں کہ چند دن تک ان کو شائع کر سکوں گا۔لیکن میں ان لوگوں کے جنہوں نے اپنے نام پیش کیے ہیں پہلا کام یہ سپرد کرتا ہوں کہ وہ جماعت کی نگرانی کریں اور عام طور پر یہ نصیحت کریں کہ جسے یقینی طور پر روپیہ کی آمد کی اُمید نہ ہو وہ کسی سے قرض نہ لے ۔دوسرے یہ بھی نصیحت کریں کہ جس شخص کو یقینی طور پر آمدنی کی کہیں سے اُمید نہ ہو اسے لوگ قرض دیا بھی نہ کریں۔یہ بھی ایک نیکی ہے جس کا انہیں ثواب ملے گا۔اب تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کا مکان دو روپیہ ماہوار آمد کا ہوتاہے مگر وہ بہت سا روپیہ قرض لے کر بیس روپیہ ماہوار کرایہ میں اسے رہن رکھ دیتا ہے۔روپیہ دینے والا خوش ہوتاہے کہ اسے بہت سا روپیہ مل جائے گا حالانکہ وہ بیس روپے صرف نام کے ہوتے ہیں،ادا ایک بھی نہیں ہوتا۔ابھی پچھلے دنوں ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میرے پاس پانچ چھ ہزار روپیہ ہے اسے میں ایسی جگہ لگانا چاہتاہوں جہاں سے پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار آمد ہوجائے حالانکہ جائیدا د پر اس سے آدھا منافع بھی نہیں مل سکتا مگر انہوں نے لکھا مجھے ایسے لوگ ملتے تو ہیں مگر میں چاہتاہوں آپ کی معرفت کام کروں۔مگر بات یہ ہے کہ انہیں ایسے لوگ مل رہے تھے جو پچاس ساٹھ کہنے کو تو کہتے تھے مگر ادا ایک بھی نہ کرتے اور نہ صرف انہیں منافع حاصل نہ ہوتا بلکہ اصل روپیہ بھی کھو بیٹھتے کیونکہ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ آخر مقدمہ قضا میں آنا ہے اور قضا والے جھٹ کہہ دیں گے کہ یہ سود ہے اور اگر مکان پر قبضہ دلایا جائے تب بھی پانچ چھ ہزار میں۔اگر آٹھ سو روپیہ کا مکان کسی شخص کو دینا پڑے تو اسے تو فائدہ ہی رہا۔ پس ایسے لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کو قرض نہ دیا کریں پھر تیسری بات یہ ہے کہ جب کسی شخص کے متعلق کوئی ایسا معاملہ دیکھیں اور محسوس کریں کہ وہ دھوکہ بازی کر رہا ہے تو جماعت میں اس کی دھوکہ بازی اور فریب کاری کو ظاہر کریں۔پس یہ تین کام ہیں ۔اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید نہ ہو وہ قرض نہ لیا کریں۔دوسرے روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں اور تیسری بات یہ ہے کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں تا لوگ اس سے بچ کر رہیں۔پھر ہمیشہ مظلوم کی تائید کرنی چاہیے۔مگر غلطی سے لوگ مظلوم غریب کو قرار دیتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ امیر ہی ظالم ہے حالانکہ اگر ایک کروڑ پتی کا ایک روپیہ بھی کسی غریب نے دینا ہے اور وہ دینے کی طاقت رکھتا ہوا نہیں دیتا تو کروڑ پتی مظلوم ہے اور غریب ظالم۔اگر یہ تین کام ہماری جماعت کے لوگ کرنا شروع کردیں تومیں اُمید کرتاہوں کہ چھ مہینہ ،سال تک اس حد تک اصلاح ہو جائے گی کہ میں دلیری سے لوگوں کو یہ کہہ سکوں گا کہ غریبوں اورحاجت مندوں کو قرض دیا کرو۔
پس وہ لوگ جنہوں نے میرے پاس اپنے نام بھجوائے ہیں ان کے سپرد فی الحال میں یہ کام کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ وہ مہینہ دو مہینہ کے بعد مجھے اپنی رپورٹ بھیجا کریں گے کہ ہم نے اس اس طرح اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ میرے دل میں بھی ان کے لیے دعا کی تحریک ہو اور یہ بھی مجھے معلوم ہوتا رہے کہ وہ سچ مچ کام کر رہے ہیں صرف نام لکھوا کر ہی نہیں بیٹھ گئے۔میں سمجھتاہوں اگر اس طریق پر کام کیا گیا تو غرباء کی مصیبت ایک دن دور ہو سکے گی اور جماعت بھی دلیری سے ان کی مدد پر تیار رہے گی اور اس طرح سود کی لعنت سے بھی جماعت کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہو جائے گا۔‘‘

(خطبات محمودجلد15صفحہ 44تا53)

ناکارہ لوگ قوم کی ترقی کی راہ میں روک ہوتے ہیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ13؍مارچ1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ جماعت میں کوئی نکما نہ رہے اور کوئی آدمی ایسا نہ ہوجو کمائی نہ کرتاہو۔بظاہر تو یہ معلوم ہوتاہے کہ جو شخص کچھ کماتانہیں وہ کھاتا کہاں سے ہے لیکن اگر غورکیاجائے تو معلوم ہو گا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو قطعاًکوئی کمائی نہیں کر رہے اس لیے میں امور عامہ کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ ایک ایسی مردم شماری کرے جس میں ہر آدمی کا نام ہو، اس کی قابلیت کہ وہ کیا کام جانتاہے اور کیا کام کرتاہے یا بیکار ہے۔ تو تمام تفصیلات درج ہوں۔خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت سب کے متعلق یہ معلومات بہم پہنچائی جائیں۔خاوند والی عورت کے اخراجات کا کفیل تو اس کا خاوند ہوتاہے مگر بیوہ کے گزارہ کی صورت معلوم کرنی ضروری ہے پس ہر بالغ مرد بیوہ عورت یا بن بیاہی جوان لڑکی کے متعلق یہ معلومات امور عامہ حاصل کرے۔ناکارہ لوگ قوم کی گردن میں پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں اور قوم کی ترقی میں ایک روک ہوتے ہیں۔اگر انسان تھوڑا بہت بھی کام کرے تو وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتاہے اور قوم کی ترقی میں بھی کسی حد تک ممد ہو سکتاہے۔ اس طرح کی مردم شماری سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ہاں کتنے پیشے جاننے والے لوگ ہیں۔بعض موزوں آدمیوں کو تعاون سے مدد دی جاسکتی ہے ۔اگر کسی تاجر کی تجارت کسی وجہ سے تباہ ہو گئی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو اسے نقد روپیہ دینے سے اس کی عادت کے خراب ہونے کا احتمال ہوتاہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر نقصان ہو گیا تو پھر بھی روپیہ مل سکتاہے لیکن اگر اسے تعاون کے ذریعہ مدد دی جائے تو وہ سنبھل جاتاہے ۔

بوہروں کی ترقی کا راز

بمبئی کے بوہرے اسی طرح کرتے ہیں اگر ان میں سے کسی کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے تو سارے مل کر ایک چیز کی تجارت اس کے حوالے کر دیتے ہیں مثلاً وہ فیصلہ کر دیں گے کہ دیا سلائی کی ڈبیہ سوائے فلاں کے کوئی نہ بیچے اور جب کوئی گاہک ان کے پاس آئے تو اس کی دکان پر بھیج دیتے ہیں اور اس طرح ایک مہینہ کے اندر اندر وہ کافی سرمایہ جمع کر کے پھر ترقی کر سکتاہے۔اسی طرح اگر ہماری جماعت کے کسی تاجر کا نقصان ہو جائے تو بجائے اس کے کہ سلسلہ کے روپیہ سے اُسے مدد دی جائے ایسا انتظام کر دیا جائے کہ وہ خود بخود اپنے آپ کو سنبھال سکے۔اسے کہہ دیا جائے جو کچھ تمہارے پاس ہے اس سے فلاں چیز کا کاروبار شروع کر دو۔یا اگر کچھ بھی نہیں تو تمہیں اُدھار سودا لے دیتے ہیں اور تم مثلاً آٹا فروخت کیا کرو ادھر سب سے کہہ دیا جائے کہ پندرہ روز تک آٹا اسی سے خریدیں اور کوئی دکاندار آٹا فروخت نہ کرے۔اسی طرح دوسرے دکانداروں کو اگرچہ گاہکوں سے چھٹی مل جائے گی مگر ان کا آٹا پھر بھی فروخت ہوتا رہے گا کیونکہ بیچنے والا انہیں سے لے کر بیچے گااور آٹا اگر انیس سیر کا بکتاہے تو وہ پندرہ دن تک ساڑھے اٹھارہ سیر بیچے اور اس طرح ہر روپیہ،آدھ سیر کی بچت سے پندرہ روز میں اسے کافی سرمایہ مل جائے گااور یہ عملی قدم اٹھا کر کمزوروں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتاہے اور پھر جو کام نہیں جانتے انہیں کوئی مفید پیشہ سکھایا جا سکتاہے اور جن کے پاس کوئی کام نہیں ان کے لیے کام کا بندوبست کیا جا سکتاہے ۔……

جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے

میرا منشا ہے کہ اب جو صرف سلسلہ کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے آئندہ اس کا سلسلہ بند کر دیا جائے اور یہ شرط کر دی جائے کہ جو کوئی جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے۔مثلاً ایک مستحق شخص اگر پانچ روپے طلب کرتاہے تو ہم اسے کہیں ہم پانچ روپے تو دیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اتنی ہی کمائی تم خودبھی کرو ۔اس طرح تمہارے پاس دس روپے ہو جائیں گے اور تم خود آرام پاؤ گے ۔غرض یہ کہ کوشش کی جائے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو اور اپنے لیے اپنے خاندان کے لیے بلکہ دنیا کے لیے مفید ثابت ہو۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم میں کام کرنا کوئی عیب نہ تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی تھے مکہ کے رؤ سا میں سے تھے اور معزز ترین خاندان کے فرد تھے۔مگر باوجود اس کے جب آپ پہلے پہل مدینہ میں گئے تو دیگر صحابہ رضی اﷲ عنھم کے ساتھ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے۔مگر کیا آج کوئی معمولی زمیندار بھی ہے جو ایسا کرنے کے لیے تیار ہو ۔ وہ بھوکا مرنا پسند کرے گا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی مکہ کے رئیس اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے یہ کام کیااور اصل اسلامی روح یہی ہے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو۔چاہے علمی کام کرے جیسے مدرس، مبلغ وغیرہ اور چاہے ہاتھ سے کام کرے جیسے لوہار،ترکھان ،جولاہا وغیرہ پیشے ہیں۔

کوئی پیشہ ذلیل نہیں

دراصل کوئی پیشہ ذلیل نہیں۔ ہندوستانیوں نے اپنی بیوقوفی سے بعض پیشوں کو ذلیل قرار دے دیا اور پھر خود ذلیل ہوگئے۔انگریز آج کس وجہ سے ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو فن بافندگی ہی ان کی اس عظمت اور شوکت کا موجب ہے۔مگر ہم یہ کہہ کر کہ جو لاہے کا کام ذلیل ہے خود محکوم اور ذلیل ہو گئے۔پس ہاتھ سے کام کرنا ذلیل فعل نہیں ذلیل کام صرف وہ ہیں جو کمینہ ہیں۔مثلاً کنچنی کا پیشہ یا گانے والی رنڈیاں،ایکٹر،میراثی یا ڈوم وغیرہ۔باقی اگر کوئی نائی ہے اور محنت کرتاہے تو وہ ذلیل کیوں ہو گیا۔وہ اس سے زیادہ شریف ہے جو کسی اعلیٰ قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود محنت نہیں کرتا اور نکما ہے۔اگر کوئی جولاہا ہے تو وہ دوسروں کے ننگ ڈھانکتاہے وہ خود کس طرح ذلیل ہو سکتاہے۔ اسی طرح لوہار، ترکھان کے پیشے بھی ذلیل نہیں یہ کیسے ہو سکتاہے کہ اگر کوئی ہل کو پکڑ کر جانوروں کے پیچھے ٹخ ٹخ کرتا پھرے تو معزز ہو لیکن اگر ہتھوڑا چلائے تو ذلیل ہو جائے یا اگر کوئی دفتر میں کام کرے تو معزز ہو لیکن اگر کپڑا بُنے تو ذلیل ہو جائے۔یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے۔جب وہی دماغ وہی جسم ہے تو پیشہ اختیار کر لینے سے ذلیل کیوں ہو گیا۔ ایک شخص اگر نکما بیٹھا رہے لوگوں کا صدقہ کھائے اور مانگتا رہے تو وہ معزز ہو لیکن اگر کوئی کھڈی پر کپڑا بُنے تو وہ ذلیل ہو جائے۔یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے جسے کوئی بیوقوف ہی سمجھے گاہماری عقل میں تو یہ آتی نہیں۔پس ہماری جماعت میں احساس ہونا چاہیے کہ محنت کرنا بُرا نہیں اپنے لیے،اپنے خاندان کے لیے،اپنی قوم کے لیے،دین کے لیے اور خدا کے لیے کوئی کام کرنا ذلّت کا موجب نہیں بلکہ اسی میں عزت ہے۔اس لیے جو لوگ کوئی نہ کوئی کام کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اور ہر حال میں مفید بننے کی کوشش کریں۔میری غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد دین اور دنیا کے لیے مفید بنیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد 13صفحہ99تا101)

قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍جنوری1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ہر سال خدا تعالیٰ کا سلوک بندوں سے جدا گانہ ہوتاہے اور اس کی بعض نئی صفات ظاہر ہوتی ہیں گو وہ اپنی شان میں ایسی اعلیٰ و ارفع نہ ہوں جتنی انبیاء کے دور میں ہوتی ہیں۔مگر بہرحال تجدید اور زیادتی ضرور ہوتی ہے اور زیادتی چاہے ایک پیسہ کی ہو وہ زیادتی ہی ہے۔کیونکہ تھوڑا تھوڑا مل کر بھی زیادہ ہوجاتاہے ۔کسی نے کہا ہے

قطرہ قطرہ مے شود دریا

معمولی معمولی منافع لینے والے تاجر بڑی دولت پیدا کرلیتے ہیں بلکہ جتنی زیادہ کسی کی تجارت وسیع ہو اتنا ہی وہ کم منافع لیتاہے۔ اس کے ہاتھ سے اربوں روپیہ کامال نکلتا ہے اس لیے وہ نہایت معمولی منافع سے ہی کروڑوں روپیہ کما لیتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 13صفحہ4)

ایک تاجر صحابی رضی اﷲ عنہ کی ذہانت کا واقعہ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍اکتوبر1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ صحابہ رضی اﷲ عنھم تجارت بھی کرتے تھے اور زراعت بھی کرتے تھے لیکن دین ان کو مقدم تھا اور دین کے کام میں کبھی سوال نہیں کرتے تھے اور دنیا ان کو دین کے کام سے روک نہیں سکتی تھی۔یہ نہیں تھا کہ ان کو تجارت یا کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا چنانچہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ نے ایک دفعہ کئی ہزار اونٹ خریدے جب وہ ہزاروں اونٹوں کا ایک وقت میں سودا کرسکتے تھے تو اس سے پتہ لگتاہے کہ ان کے پاس لاکھوں ہی روپے ہوں گے چنانچہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے گھر میں کئی کروڑ روپیہ تھا۔وہ اونٹ انہوں نے تجارت کے لیے خریدے تھے اور فوراً ہی بک گئے اور سودا اسی طرح ہوا کہ جس قیمت پر انہوں نے خریدے تھے اسی پر بیچ دیئے۔مگر عقال (اونٹ باندھنے کی رسی) کے بغیر۔کسی نے کہاآپ کو کیا نفع رہا ہے؟ انہوں نے کہا اتنے ہزار عقال جتنے ہزار اونٹ ہیں نفع میں آئے کیونکہ میں نے سودا مع عقال کیا تھا اور بیچے بغیر عقال کے ہیں اور اسی طرح ان کو کھڑے کھڑے نفع ہو گیا۔یہ سودا کئی لاکھ کا تھااور آج کل بھی اتنا بڑا سودا بہت بڑا سودا سمجھا جاتاہے۔غرض یہ ان کی تجارت کا حال تھا۔باوجود اس کے وہ دین میں تجارت نہ کرتے تھے بلکہ جو کام کرتے تھے خدا کے لیے کرتے تھے۔وہ دنیاوی امور میں بھی انصاف اور عدل کو نہ چھوڑتے تھے۔دو صحابیوں کا حال میں نے تو کسی کتاب میں پڑھا نہیں حضرت صاحب علیہ السلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان میں اس بات پر جھگڑاہو رہاتھاکہ ایک اپنا گھوڑا مثلاً تین ہزار درہم پر بیچتے تھے اور جوخریدنا چاہتے تھے کہتے تھے نہیں یہ گھوڑا پانچ ہزار کا ہے۔وہ اس قدر قیمت دینے پر مُصر تھے۔لیکن آج کل تو لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر دیکھیں خریدار اتنی زیادہ رقم دیتاہے تو وہ فوراً کہہ دیں گے کہ لو سودا پختہ ہو گیا۔اصل میں بیچنے والا واقف نہ تھا اور خریدار واقف تھااس لیے وہ اس کی کم قیمت نہ دینا چاہتاتھا اور بیچنے والا اس کی زیادہ قیمت لینا دھوکہ خیال کرتا تھا وہ سمجھتاتھا کہ یہ مجھ پر احسان کرنا چاہتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد7صفحہ396)

تجارت کے سنہری اصول

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ23؍جون1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’آج میں اپنی جماعت کے ایک خاص حصے کے متعلق بعض باتیں بیان کرنا چاہتاہوں ۔مگر اس میں ساری جماعت کے لیے بھی فائدہ ہے۔اس لیے کہ وہ حصہ ایسا نہیں کہ وہ کسی خاص قوم سے تعلق رکھے۔بلکہ ہر ایک کے لیے ممکن ہے کہ اس میں شامل ہوجائے اور ممکن ہے کہ اس طرح پر نصائح سب لوگوں کے لیے مفید ہوں وہ حصہ تاجروں کا حصہ ہے۔آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں طبعاً اس بات کا خواہش مندہوں اورہر ایک وہ شخص جو احمدیت سے تعلق رکھتاہے اس بات کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ یہ جماعت ترقی کرے۔دین میں بھی اور دنیا میں بھی اور اس کی ترقی کے لیے جس قدر بھی جائز اخلاق کے اندر ذرائع ہوں وہ استعمال کیے جائیں۔کوئی مذہب اس خواہش سے نہیں روکتا۔ یہ خواہش مجھ میں بھی ہے اور ہر ایک احمدی کے دل میں ہوگی۔

صحیح ذرائع کے استعمال سے کامیابی ملتی ہے

لیکن ہر ایک کام کے لیے کچھ ذرائع ہوتے ہیں میں نے اس طرف بارہا توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے لیے خدا نے جو راستہ اور ذرائع رکھے ہیں انہی پر چلنے اور ان کو استعمال کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے اور ان کو ترک کرنے سے ناکامی ہوتی ہے۔صحیح ذرائع سے کام نہ لینے کی غلطی مختلف مذاہب کے لوگوں کو مذہب کے بارے میں لگی ہے۔وہ محض خالی کوشش کو کامیابی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں اگر ایک شخص سارا دن خدا کے لیے کام کرتا اور رات بھر اس کے لیے جاگتاہے تو وہ محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نہ ماننے کی وجہ سے کیوں جہنم میں جائے۔وہ کہتے ہیں اصل چیز تو محبت الٰہی ہے۔اگر ایک شخص کو جہالت سے اصل نماز کا پتہ نہیں لگتااور وہ اپنے رنگ میں عبادت کرتاہے اگر وہ رمضان کے روزوں کی بجائے یونہی فاقہ کشی کرتاہے یا حج بیت اﷲ کرنے کی بجائے یونہی خدا کے لیے گھر بار چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتاہے یا مقررہ طریق پر زکوٰۃ دینے کی بجائے اپنے مال کا چالیسواں حصہ نہیں بلکہ بہت زیادہ دیتاہے تو وہ کیوں خدا کو نہیں پا سکتا۔ہم کہتے ہیں ہر ایک چیز کے ملنے کے لیے مقررہ ذرائع ہوتے ہیں اور جب تک ان کو نہ استعمال کیا جائے وہ چیز نہیں مل سکتی مثلاً پانچ روپیہ اگر منی آرڈر کرنے ہوں تو ان پر چار آنہ محصول مقرر ہے۔ اگرکوئی شخص فارم پُر کر کے سوا پانچ روپیہ ڈاکخانہ میں دے گا تو اس کا منی آرڈر منزل پر پہنچ جائے گا۔لیکن اگر کوئی شخص فارم پُر کرنے اور ڈاک خانہ میں دینے کی بجائے تھانے میں جائے اور پانچ روپیہ کے ساتھ چارآنہ محصول کی جگہ دو روپیہ وہاں دے آئے تو اس کے روپے نہیں پہنچ سکیں گے۔تھانہ والے اس کا روپیہ واپس کر دیں گے اور اگر کوئی خراب نیت کے لوگ ہوئے تو سات کے سات خود کھا جائیں گے۔اسی طرح زمین بونے کے لیے اس میں ہل چلایا جاتا اور ایک حد تک گہرا چلایا جاتا ہے مگر ایک شخص زمین میں ہل چلانے کے بجائے لمبے لمبے اور گہرے کنویں کھود کر ان میں بیج ڈال دے تو کیا اس کا کھیت تیار ہو جائے گا گو اس نے محنت کی اور ہل چلانے والے سے بہت زیادہ کی مگر چونکہ اس طریق کو چھوڑ دیا جو کھیت بونے کے لیے مقرر تھا اس لیے اس کا بیج زمین میں ضائع ہو جائے گا۔چہ جائیکہ اس کا کھیت تیارہو۔اسی طرح ایک شخص سخت گرمی میں آتاہے اور کنویں سے ڈول نکال کر پانی پی لیتاہے مگر دوسرا پیاسا آتاہے جو دو من کی بوری اُٹھا کر ایک میل تک چلا جاتاہے اور پھر شکایت کرتاہے کہ میں نے پہلے سے زیادہ کام کیا اور محنت اُٹھائی مگر میں پیاسا ہی رہا۔تو اس کا یہ کہنا غلط ہو گا کیونکہ پیاس کے لیے پانی کنویں سے نکال کر پینا ایک ذریعہ ہے ۔لیکن یہ کوئی ذریعہ نہیں کہ پیاسا بوریاں اُٹھا کر بھاگتا پھرے۔ پس جو طریق کسی کام کے کرنے کا ہے اسی طریق پر کیا جائے گا تو ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔
اسی طرح مذاہب کا حال ہے۔بعض مذاہب میں اسلام کی نسبت بہت مشقتیں اور محنتیں ہیں مگر ان کا نتیجہ کچھ نہیں۔مثلاً ہندو مذہب ہے اس میں لوگ اُلٹے لٹکتے ہیں اور اُلٹے لٹکے ہوئے ہی آٹا گوندھتے اور اسی حالت میں روٹی پکاتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس سے خدا کی رضا اور جنت کے اعلیٰ مقام پالیں گے؟نہیں۔کیونکہ غلط طریق سے جو کام کیا جاتاہے اس میں کامیابی نہیں ہوتی۔پس اگر کوئی غلط طریق پر خدا تعالیٰ کے حضور جانا چاہے گا تو ردکیا جائے گا۔

نفع کی بھی ایک حد ہونی چاہیے

ہماری جماعت میں خواہش ترقی ہے خواہ دینی ترقی ہو یا دنیاوی۔مگر اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحیح طریق پر عمل ہو۔ بعض حالات کی وجہ سے یہاں سودے سلف پر بعض روکیں عائد کی گئی ہیں۔کیونکہ ان حالات نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم ایسا کریں۔اگر وہ حالات دور ہو جائیں تو یہ روکیں نہیں رہ سکتیں۔گویا یہ روکیں عارضی ہیں ۔ان کی وجہ سے اگر کوئی فائدہ آتاہے تو وہ حقیقی فائدہ نہیں۔اصل میں فائدہ وہ ہے جو اپنی لیاقت اور قابلیت سے حاصل کیا جائے۔مگر لوگ اس اصل کو نہیں سمجھتے ۔وہ اپنی اس بات کو خلاف دیانت نہیں سمجھتے کہ بازار میں ایک چیز جو سستی بکتی ہو اس سے ایک شخص اس دلیل کی بنا پر مہنگا بیچے کہ یہ میری چیز ہے میں جس قیمت پر چاہوں بیچوں اور اس طرح زیادہ قیمت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔مگر ان کا یہ کہنا اس وقت تک غلط ہے جب تک کہ خریداروں پر روکیں لگائی گئی ہیں اور اگر کوئی ایسا کہتاہے تو یہ اس کی بددیانتی ہے۔اگر زید کو مجبورکیا گیا ہے کہ وہ بکر سے سودانہ لے بلکہ خالد سے لے اور خالد، بکر کی نسبت مال کی قیمت بڑھاتاہے اور زید اس سے لینے پر مجبور ہے تو اس کی مجبوری سے اس کو ناجائز فائدہ اُٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ میری چیز ہے جس طرح چاہوں بیچوں۔اس کا ایسا کہنا غلط ہے۔اس کو منڈی کے نرخ کا خیال رکھنا چاہیے۔
دیکھو اگر کسی شخص کے پاس کچھ روٹیاں ہوں اور ایک سائل اس سے مانگنے آئے تو یہ اس کا حق نہیں کہ وہ اس کو کہے کہ میں نہیں دیتا تو جب فقیر جو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا اس کو روٹی نہ دینا غلطی اور ظلم ہے۔تو جو شخص قیمتاً ایک چیزلیتاہے اور دکاندار اس کو منڈی کے نرخ پر نہیں دیتا وہ بھی ظالم ہے۔
اگر کوئی شخص منڈی کے نرخ سے گراں نرخ رکھتاہے تو یہ بددیانتی کرتاہے اور لوگوں کی مجبوری اور ناواقفی سے فائدہ اُٹھاتاہے ہاں اگر کوئی دکاندار ایسا اعلان کر دے اور بورڈ پر لکھ کر لگا دے کہ میں دو پیسہ میں امرتسر سے چیز خریدتا ہوں اور یہاں ایک آنے میں بازارمیں بکتی ہے مگر میں دو آنے میں بیچتاہوں اور پھر گاہک اس کی دکان پر جائیں اور اس سے خریدیں تو اس کا حق ہو سکتاہے لیکن لوگ عام طور پر چونکہ بھاؤ سے واقف نہیں ہوتے اس لیے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ان سے زیادہ قیمت لی جاتی ہے اور یہ بددیانتی ہے اور یہ بددیانتی اپنی غلطی اور ناواقفی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اپنی غلطی کا اثر دوسروں پر ڈالا جاتاہے کہ ہم نے مہنگی خریدی ہے ۔اس لیے مہنگی بیچتے ہیں۔حالانکہ اس کا خمیازہ ان کو خود بھگتنا چاہیے۔
جو لوگ یہ طریق جاری رکھتے ہیں نہ ان کی تجارت کامیاب ہوتی ہے نہ ان کو تجارت کا علم آتاہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی دکان اچھی حالت میں نہیں ہے۔لوگ محنت نہیں کرتے اور تجارت کا علم حاصل نہیں کرتے اور ناجائز وسائل سے اپنی دکان چلانا چاہتے ہیں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ روک جو سودے سلف کے متعلق ہے قائم رہے اور جو چیز ایک لاتاہے وہ دوسرا نہ لاوے۔مگر خود محنت نہیں کرتے ۔یہ ناجائز یا وقتی حفاظت کے طریق ہیں۔اگر صحیح ذرائع پر عمل کریں تو ان ذرائع کو اختیار کرنے کی ان کو ضرورت نہ رہے اور ان کی یہ خواہش نہ ہو کہ یہ روک قائم رہے۔کیونکہ یہ بھی عارضی ہے۔اگر آج حالات بدل جائیں تو وہ روک قائم نہیں رہ سکتی۔ہوشیار آدمی ہوشیاری سے کام کرتا اور کامیاب ہوتاہے۔لیکن اگر ہوشیاری کے ساتھ دیانت بھی شامل ہو جائے تو پھر یہ بہت اعلیٰ درجہ کی بات ہوتی ہے۔اگر ہوشیاری نہ ہو بلکہ سستی ہو تو پھر کامیابی مشکل ہے اور پھر فائدہ اُٹھانے کی خواہش ایک مخفی بددیانتی ہے۔
ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ہر ایک بات میں بڑھ کر رہیں۔مومن غیرت مند ہوتاہے اور وہ کسی بات میں کسی سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔
حضرت شاہ اسماعیل(شہید دہلوی)کا ایک واقعہ ہے ان کو معلوم ہوا کہ ایک سکھ ہے جو تیرنے میں بہت مشّاق ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔یہ سن کر آپ تیر نے کی مشق کرنے لگے اور اس میں ایسا کمال حاصل کیا کہ کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکتاتھا۔یہ انہوں نے اس لیے کیا کہ کوئی غیر مسلم مسلمانوں سے کسی کام میں کیوں بڑھ جائے تو مومن چھوٹی چھوٹی باتوں میں غیرت رکھتا ہے اور ہر ایک بات میں خواہ وہ دین کی ہو یا دنیا کی دوسروں سے بڑھنے کی کوشش کرتاہے۔
ہمیں شبہ نہیں کہ دنیا الگ ہے اور دین الگ۔مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیاوی باتوں کا اثر دین پر پڑتاہے جو شخص دنیا میں سست ہو وہ دین میں بھی سست ہوتاہے جو دنیاوی کام کرنے میں سست ہے وہ تہجد کے لیے کب اُٹھے گااور وہ آہستہ آہستہ سنتوں کا بھی تارک ہو جائے گااور فرائض کو بھی جواب دے دے گا۔کیونکہ سستی ایک ہی چیز ہے اور وہ دونوں جگہ کرے گا۔دنیا میں بھی اور دین میں بھی۔

ولایت میں نفع کی حد بندی

ولایت میں نفع کی حد بندی کی گئی ہے مثلاً اس حد تک نفع جائز ہے اور اس کے آگے ناجائز اور وہاں نفع مقرر کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ چیز عام مقابلہ میں آجائے اس وقت جو قیمت ٹھہر جائے وہ اصل قیمت ہواور اس میں یہ بات بھی مدنظر رکھی جاتی ہے کہ بیچنے والے آپس میں سمجھوتہ نہ کرلیں۔یعنی یہ نہ ہو کہ دس پندرہ دکاندار آپس میں فیصلہ کر لیں کہ اس قیمت پر فروخت کریں گے۔اگر یہ ہو تو یہ ناجائز ہے اور سمجھوتہ کر کے جو نفع حاصل کیا جائے وہ بھی ایک قسم کی ٹھگی ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص زائد نفع اپنی لیاقت سے حاصل کرتاہے تو وہ جائز ہے۔مثلاً لوگ عموماً امرتسر سے چیزیں لاتے ہیں اور ایک نرخ پر یہاں بیچتے ہیں دوسرا شخص اگر دلی سے اس سے سستی لا کر اس نرخ پر بیچتاہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ نفع کماتاہے تو اس پر الزام نہیں یا کراچی میں ایک چیز بہت سستی ملتی ہے اور ایک شخص وہاں سے لاتاہے جو یہاں بہت سستی پڑتی ہے پھر اگر وہ بازار کے عام نرخ پر بیچ کر تمام بازار والوں سے زیادہ نفع لیتاہے تو اس پر الزام نہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر دکاندار وں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں ان میں بعض غلط بھی ہوتی ہیں مگر بعض درست بھی۔بعض دکانداروں کایہ کہنا کہ ہمارا حق ہے کہ ہمارے بھائی ہم سے چیزیں خریدیں۔یہ سچ ہے کہ ان کاحق ہے کہ ان کے بھائی ان سے چیزیں خریدیں۔مگر بھائیوں کا بھی تو حق ہے کہ تم ان سے ناجائز فائدہ نہ اُٹھاؤ۔اس سے بری بات کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنا حق یاد رکھے مگر دوسرے کا حق بھول جائے۔حالانکہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنا حق بھلا دیتاہے اور دوسروں کا حق جو اس پر ہو یاد رکھتاہے ۔……صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم دوسرے کے حق کو خوب یاد رکھتے تھے۔روایات میں آتاہے کہ ایک گھوڑا ایک صحابیؓ بیچنے لگے اور اس کی قیمت انہوں نے مثلاً دو ہزار مقرر کی۔دوسری طرف جو صحابیؓ خریدار تھے وہ چار ہزار بتاتے تھے اور ان میں اسی بات پر جھگڑا تھا کہ مالک کم قیمت بتاتا اور خریدار زیادہ دیتا۔تو مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حقوق کا بہت خیال رکھتاہے جب دوسرے کے حقوق کا خیال لازمی ہے اور بددیانتی منع ہے تو مومن کے لیے کس قدر لازمی ہے کہ وہ ہوشیاری اور چستی سے کا م لے۔
دکانداروں کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہماری چیز ہے ہم اس کی جو قیمت چاہتے ہیں مقرر کرتے ہیں۔نہ یہ اصولاً درست ہے نہ اخلاقاً درست ہے عام طور پر دکاندار یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی ناواقفیت سے جتنے کی چیز ملتی ہے لے آتے اور سَستی اور عمدہ تلاش نہیں کرتے اور پھر اس کا اثر خرید ار پر ڈالتے ہیں۔اگر انہیں اپنی سستی کا خمیازہ بھگتنا پڑے اور عام بھاؤ پر بیچ کر نقصان ہوتو آئندہ کے لیے ہوشیا ر ہو جائیں۔ مگر ابھی تک لوگ اس گُر کو نہیں سمجھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ خود اچھی طرح دکان چلاسکتے ہیں اور نہ ان کے خریدار ان سے خوش ہوتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دکان بند ہوجاتی ہے۔
میں تو یہ خیا ل نہیں کر سکتاکہ کوئی احمدی کہلانے والا جان بوجھ کر دھوکہ دیتاہے۔کیونکہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی احمدی ہو اور پھر جان بوجھ کر دھوکہ دے۔میرا دل ہی اس قسم کا نہیں بنایا گیا کہ میں کسی کے متعلق ایسا خیال کروں ۔ہاں میں یہ کہتاہوں کہ غفلت یا ناواقفی سے ان لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں۔لیکن غفلت سے بھی جو جرم ہو وہ جرم ہی ہوتاہے اور اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔دیکھو اگر کوئی شخص کسی کو گولی مارتاہے اور بعد میں کہتاہے کہ میں نے جانور سمجھا تھا۔اگر یہ درست ثابت ہو جائے تو گو اسے پھانسی کی سزا نہ ملے مگر سزا ضرور ملے گی۔اسی طرح اور باتوں میں ہوتاہے۔پس تم غفلت کو دور کرو تا دنیا کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کر سکو۔……‘‘

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمُدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ

پڑھتے ہوئے فرمایا:
’’ یہ کامیابی کا گُر بتایا گیا ہے۔اﷲ کی تعریف ہو جس نے ہمیں صحیح رستہ دکھایا۔پھر خدا سے گناہوں کی معافی مانگے اور دعا مانگے کہ غفلت سے بچایا جائے۔پھر وہ طریق اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے کسی کام کے لیے مقرر فرمائے ہیں اور

وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ

اور یہ یقین رکھے کہ اﷲ تعالیٰ ضرور کامیاب کرے گا۔کیونکہ جو اس پر توکل کرتاہے وہ ناکام نہیں رہتا۔ اگر خدا نہیں ہے تو پھر سب فریب ہے اور اگر ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے ذلیل نہیں ہو سکتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد نمبر7صفحہ 306تا311)

تاجر کو باخبر ہونا چاہیے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍اپریل1922ء کو ایک خطبۂ نکاح میں فرمایا:
’’قاعدہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کی اہمیت سے ناواقف ہے وہ اس کے فوائد کو حاصل بھی نہیں کر سکتا مثلاً یہی چائے جو ہندوستان میں پیدا ہوتی ہے لوگ اس سے ناواقف تھے انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ کی اس کا پودا پیدا ہوتا تھااور جنگل میں ہی سوکھ جاتا تھا۔انگریزوں نے چینیوں کے ساتھ تجارت میں اس کے فوائد اور اس کی اہمیت کو سمجھا اور فوراً ان علاقہ جات کو سستے داموں خرید لیا جہاں چائے پیدا ہوتی ہے۔
اب تمام ہندوستان میں چائے کے باغات انگریزوں کے ہیں ۔انہوں نے زبردستی نہیں لیے قیمت سے لیے ہیں ۔ہاں اپنے علم سے فائدہ اُٹھایا ہے ۔اب اسی چائے سے بیس کروڑ روپیہ سالانہ انگریز ہندوستان میں کماتے ہیں ۔
انگریز ہندوستان سے روپیہ لیتے ہیں مگر حکومت کے ذریعہ نہیں ایسے ہی ذرائع سے ۔پھر ہندوستان میں بانس ہوتا تھا ۔ہندوستانی صرف بانس کی غرض یہ سمجھتے تھے کہ کاٹا اور ڈنڈا بنا لیا اس لیے بانس کے جنگلات ان کے لیے بے سود تھے مگر انگریزوں نے اس کے فوائد کو سمجھا اور اس کے لاکھوں کروڑوں روپیہ کے کاغذ بنا ڈالے ۔……
میں جن دنوں بمبئی گیا تھا وہاں ایک واقعہ پیش آیا۔ایک سوداگر کی جیب سے جواہرات کی پڑیا گر گئی۔ایک بچہ کو ملی اس نے معمولی شیشہ خیال کر کے پیسہ کے چار چار بیچ ڈالے۔لڑکے آپس میں گولیاں کھیلتے ہیں۔ایک شخص نے اپنے بچہ کے پاس دیکھا تو پہچانا۔کسی دکاندار کے پاس لے گیا ۔اس نے بڑی قیمت بتائی۔جس کے جواہرات تھے اس نے پولیس میں اطلاع کردی۔اس شخص سے جس کے بچہ کے قبضہ میں ہیرا تھا پوچھا گیا ۔اس نے سب حال بتایا۔آخر سراغ لگاکہ لڑکوں کو پڑیا ملی تھی۔اب دیکھو کہ ان بچوں کو صرف یہ معلوم تھا کہ یہ شیشے ہیں ان سے کھیلنا چاہیے۔اگر ان کو اس کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ پیسہ کے چار چار نہ بیچتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد3صفحہ151)

قول ِسدید کے فوائد

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ30؍جنوری1922ء کو ایک خطبۂ نکاح میں فرمایا:
’’یورپ والے قریباً دہریہ ہیں مگر ان کا تجارت کے معاملہ میں صداقت اور سداد پر عمل ہے ۔ان سے لاکھوں کی چیز منگواؤ تو کوئی فریب کا اندیشہ نہیں اس لیے ان کی تجارت کو فروغ ہے۔اگر ناقص چیز ہو تووہ لکھ دیں گے کہ یہ چیز ناقص ہے اس لیے ہم نے قیمت کم کر دی ہے۔اگر پسند نہ ہو تو واپس بھیج دیں۔ خرچ ہمارا۔اس بارے میں وہ نقصان کا بھی خیال نہیں کرتے مگر اور لوگ تجارت میں اس اصول کے پابند نہیں اس لیے ان کی تجارت تباہ ہو رہی ہے ۔یورپ کے اس اصول میں گو خدا کی رضا مد نظر نہیں۔اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًاo یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الاحزاب:71،72)

مسلمانو!یہ تو تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں کہ سچ بولو اس لیے کہ تم اس پر عمل کرتے ہواور ہر شریف سچ بولنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس کے طبعی نتائج ظاہرہیں لیکن ہم ایک زائدبات بتاتے ہیں کہ تقوی اﷲ کو مد نظر رکھو کیونکہ سدید کہتے ہیں ہر پیچ سے مبرّا ،صاف سیدھی،راستی کی بات۔ ممکن ہے کہ ایک بات سچی ہو مگر اس میں پیچ رکھا گیا ہو کہ موقع پر اس سے نکل جائیں۔مگر سدید بات میں اس کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔اس میں ہر مخفی دھوکہ سے اجتناب ہوتا ہے۔اس لیے فرمایاکہ تم قولِ سدید پر عمل کرو اور زائد بات یہ ہے کہ خدا کے تقویٰ سے کام لو کہ خدا کی رضا حاصل ہو۔

یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ

اعمال کو درست کر دے گا۔یہ سداد پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔لیکن اگر سداد کے ساتھ تقویٰ ہو گا تو اس کا نتیجہ اس سے زائد ہو گا وہ یہ کہ

یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ

تمہارے کئی قسم کے گناہ اور کمزوریاں دور ہو جائیں گی اور خدا کی صفات تم پر جلوہ گر ہوں گی۔اگر قولِ سدید پر عمل کرتے ہوئے تقوی اﷲ بھی مدنظر ہو تو نقصان کچھ بھی نہیں ۔طبعی نتائج ضرور ملتے ہیں اس لیے فرمایا

فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا

اگر قولِ سدید پر عمل کرتے ہوئے تقوی اﷲ بھی مدنظر ہو گا تو جو کامیابی ہو گی وہ محض قولِ سدید پر عمل کرنے والے لوگوں سے بہت زیادہ ہو گی جن کو سچائی کے طبعی نتائج پر یقین ہے۔گویا سداد پر عمل کرنے کا ایک تو طبعی نتیجہ ہوگا اور ایک تقویٰ پر عمل کرنے سے شرعی ثواب بھی مل جائے گا۔‘‘

(خطبات محمود جلد3صفحہ127،128)

قرض کے لین دین کے متعلق ہدایات

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ19؍نومبر1920ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’جو لوگ قرض لیتے ہیں اور دینے میں حیل و حجت کرتے یا مکر جاتے ہیں وہ اپنے دشمن ہوتے ہیں۔ نہ صرف اپنے ملک اپنی قوم کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ جب ان کو ضرورت پڑتی ہے تو گڑگڑاتے ہیں مگر جب قرض خواہ مطالبہ کرتا ہے تو اس کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بد معاملگی سے ڈر کروہ لوگ جن کی سچی ضرورت ہوتی ہے قرض لینے سے محروم رہتے ہیں۔کیونکہ جس شخص کے پاس وہ قرض لینے جاتے ہیں وہ ان کی بات کا اعتبار نہیں کر سکتاجبکہ پہلے وہ دیکھ چکا ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس سے قرض لے کر کیا سلوک کیاایسے لوگ دو طرح مضر ہوتے ہیں اور وہ دو قسم کے لوگوں کے لیے مضر ہوتے ہیں ۔
(۱)وہ لوگ جو سچی ضرورت رکھتے ہیں ان کو قرض نہیں مل سکتا۔(۲)وہ لوگ جن سے قرض لیتے ہیں آئندہ ان کو نیکی کرنے سے محروم کر دیتے ہیں اور نیز ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بدمعاملگی کی تعلیم کرتے ہیں۔
خو ب یاد رکھو جس طرح شریعت یہ کہتی ہے کہ دوسروں سے نیکی کرو اس طرح یہ بھی کہتی ہے کہ محسن کے احسان کی قدر کرو اور احسان فراموش نہ بنو۔جو شخص تم کو ضرورت کے وقت قرض دیتا ہے وہ تمہارا محسن ہے تم اس کے ساتھ شریفانہ برتاؤ کرواور جن آنکھوں سے لیا ہے انہی سے دو۔بعض لوگ جب قرض لے جاتے ہیں تو بہت الحاح سے کام لیتے ہیں ۔مگر جب وہ مانگنے آتاہے تو اس کو کہتے ہیں۔ لاٹ صاحب بن گیا ۔ہر وقت سر پر چڑھا رہتاہے ۔حالانکہ لینے والے کا حق تھا کہ وہ سختی کرے مگر یہاں الٹا معاملہ ہے کہ جب مطالبہ کیا جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے لگاہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی غیر مسلم شخص نے کچھ لینا تھا وہ آیا اور سختی کرنے لگا۔بعض صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم کوبُرا معلوم ہوا۔آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کا مقروض ہوں اس کو حق ہے کہ سختی کرے۔
تو ضرورت کے وقت جاتے ہیں اور لیتے ہیں لیکن جب ادائیگی کا وقت آتاہے تو کبھی سامنے نہیں ہوتے اور ہمیشہ آنکھ بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر قرض خواہ لوگوں کے پاس کہے کہ آپ ہی لے دیں تو کہتے ہیں کہ ہم اب نہیں دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں بدنام کیاہے گویا وہ اس کے باپ کی جائیداد میں سے کچھ اس سے مانگتا تھا۔اس کا حق تھا وہ کیوں نہ طلب کرتا جو شخص ایسے کمینہ کو گالی دیتا ہے وہ حق ہے۔اگرچہ اخلاق گالی کی اجازت نہیں دیتا،کانے کو کانا کہنا حق ہے مگر اخلاق سے بعید ہے چور کو چور کہنا جائز ہے لیکن مجسٹریٹ کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا۔شریعت نے منع کیا ہے کہ کانے کو کانا کہا جائے اس لیے کہ جو کانا کہتاہے وہ اُس کو چڑانا چاہتاہے مگر اس میں شک نہیں کانے کو کانا کہنا درست ہے ۔اس طرح جو شخص کسی کا مال مارتاہے حق ہے کہ وہ اس کو چور یا ڈاکو کہے۔کیونکہ یہ اس عیب کا مرتکب ہوتاہے۔بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتاہے کہ قرض لیتے ہیں اور اس سے اپنی جائیداد بناتے ہیں۔قرض دینے والا اس خیال سے کہ ان کوضرورت ہے ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم کر کے دے دیتاہے لیکن جب وہ مطالبہ کرتاہے تو کہتے ہیں کہ دس دن کو آنا۔پھر جب جائے تو پھر دس دن توقف کرنے کو کہتے ہیں۔اس طرح کئی دفعہ ہو چکنے کے بعد انکار کر بیٹھتے ہیں یا بعض عدم گنجائش کا بہانہ کر بیٹھتے ہیں۔حالانکہ یہ کہنا ان کو جُرم سے نہیں بچاتا۔کیونکہ جب قرض لینے لگے تھے ضروری تھا کہ اس وقت حیثیت کو سوچتے ۔نہ یہ کہ جب دینے کا وقت آیااس وقت گنجائش کا سوال اٹھایا۔پس جب قرض لینے لگے تھے اس وقت سوچنا تھا کہ ہم ادا بھی کر سکیں گے یانہیں۔
مجھے قرآن کریم کی اس آیت پر ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ

یٰایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاْ اِِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ (البقرہ:283)

اس میں مدت کی شرط لگائی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے سمجھایا کہ اس میں دو فائدے ہیں۔
اول۔دینے والے کے لیے۔دوم۔لینے والے کے لیے۔
اول لینے والے کے لیے یہ فائدہ ہے کہ مثلاً مہینہ کا وعدہ ہے تو مہینہ کے بعد جا کر طلب کرے گا۔یہ نہیں ہو گا کہ اس کو روز روز پوچھنا پڑے گا اور نیز یہ بھی فائدہ ہو گا کہ جب مہینہ کا وعدہ ہو گا تو یہ حق نہیں ہو گا کہ دوسرے دن ہی مطالبہ شروع کر دے۔دوسرا فائدہ ہو گا کہ جب لینے والا لینے لگے گا تو پہلے سوچے گا کہ میں جتنے عرصہ میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔اتنے عرصہ میں ادا بھی کر سکوں گا کہ نہیں۔اگر کوئی شخص اپنی آمدنی پندرہ بیس روپیہ ماہوار رکھتاہے اور ایک مہینہ کے وعدہ پر سو روپیہ قرض لیتاہے تو سوال ہو گا کہ وہ کہاں سے ادا کرے گا۔
اس لیے قرض دینے والا اس سے متنبہ ہو سکتاہے ۔ہاں اگر ایک زمیندار قرض لیتاہے اور اس کی فصل اس کے قرض سے زیادہ یا برابر ہے تو وہ لے سکتاہے۔ پس اس آیت میں یہ فوائد بتائے ہیں اور اب ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو قرض لیتاہے وہ اس کو ادا کر سکے گا یا نہیں۔اگر نہیں ادا کر سکے گااور وہ قرض لیتا ہے تو یہ ٹھگی ہے۔بعض وہ لوگ جو کہتے ہیں ،گنجائش نہیں۔ ان کو ثابت کرنا چاہیے کہ جب وہ لینے لگے تھے اس وقت ان کو امید تھی کہ وہ قرض اُتار سکیں گے۔مگر ناگہانی اسباب نے ان ذرائع کو منقطع کر دیا۔اس لیے قرض اُتارنا ممکن نہ رہا۔ورنہ گنجائش کا سوال بعد از وقت ہے۔
اگر کوئی شخص قرض لے کر نفع اُٹھاتا اور تجارت کر تا ہے اور قرض خواہ کو قرض نہیں دیتا تو ضروری ہے کہ اس سے روپیہ لے کر اس کو دیا جائے۔اگر وہ کہے کہ میری تجارت تباہ ہو گئی تو اس کا روپیہ تھا ہی نہیں کہ یہ تجارت کر سکتا۔اس نے جو نفع اُٹھایا اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔جو لوگ اس طرح قرض لیتے ہیں اور آپ نفع اُٹھاتے ہیں اور قرض خواہ کو نہیں دیتے وہ نفع نہیں اُٹھاتے وہ آگ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔پس جو معاملہ کرو دیانت سے کرو اور صفائی اس میں رکھو۔قرض دینے والے کو چاہیے کہ لکھ لے اور مدت مقرر کر لے اس میں دونوں کے لیے فائدہ ہے۔بعض لوگ کام کچھ نہیں کرتے اور قرض لے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں توکل پر گزارہ کرتے ہیں ۔حالانکہ توکل انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں، اور اس کے معنے ہیں کہ وہ شخص بادشاہ ہو گیا۔کیونکہ جس طرح بادشاہ جب چاہتے ہیں ٹیکس لگا کر رقم وصول کرتے ہیں۔اسی طرح وہ لوگ جو متوکل ہوتے ہیں۔ان کی ضرورت خدا پوری کرتاہے۔مگر یہ عجیب متوکل ہیں کہ لوگوں سے قرض لیتے ہیں او ر دیتے نہیں۔
ہاں جو لوگ اپاہج ہوں یا معذور ہوں ان کی مدد حکومت پر فرض ہے اگر حکومت غیر مذہب کی ہو اور اس کا ایسا انتظام نہ ہو تو پھر وہ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس جماعت کے امام کا اور بیت المال کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کو پوراکرے۔لیکن جس طرح بعض لوگ قرض لینے میں بدمعاملگی کرتے ہیں اسی طرح بعض دکاندار بھی بدمعاملگی کرتے ہیں وہ بچوں یا عورتوں کو یا ایسے لوگوں کو جن کی آمد کی کوئی سبیل نہیں وہ محتاج یا اپاہج ہیں اور ان کا بار بیت المال پر ہے قرض دیتے ہیں اور بچوں کے باپ کو اور عورت کے خاوند اور اپاہجوں کے قرض کے لیے انجمن کو مجبور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شور ڈالنے سے مل ہی جائے گا۔حالانکہ ان کا فرض ہے کہ یہ قرض اس کو دیں جس پر ان کو ذاتی اعتماد ہو اور وہ شخص ذاتی آمدنی رکھتاہو۔اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ بھی ٹھگی کرتاہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے معاملات کی خرابی سے جماعت کو بدنام کرتے ہیں اس لیے بہتر ہو کہ ایسے لوگ اپنے رویہ کی اصلاح کریں۔ورنہ ان کو جماعت سے الگ کر دیا جائے گا۔مذہب سے الگ کرنا تو اختلاف عقائد سے ہوتاہے مگر جس شخص کا رویہ جماعت کے لیے مضر ہو اس کو جماعت سے الگ کیا جا سکتاہے۔
میں اُن اصحا ب کو بھی نصیحت کرتا ہوں جو سُستی سے کام لیتے ہیں کہ وہ سُستی کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھو کہ یہ معاملات کی اچھائی یا بُرائی ہے جس کی بنا پر غیرشخص تمہارے متعلق رائے قائم کرتے ہیں۔اگر معاملات اچھے ہیں تو لوگ تمہاری بات سن سکتے ہیں ۔اگر نہیں تو ساری جماعت چند آدمیوں کی خاطر ٹھگ کہلائے گی اور مثال میں دو چار نام لے دینا ہی کافی خیال کیا جائے گا۔
پس جو قرض دیتاہے وہ محسن ہے سچی ضرورت کے وقت لو اور میعادمعینہ میں ادا کرو۔اگر کسی معقول وجہ سے نہیں اُتار سکتے تو نرمی اور خندہ پیشانی سے اس کو یقین دلاؤ کہ میں ان وجوہ سے اب ادا نہیں کر سکا۔پھر آئندہ کر دوں گااور جب روپیہ آئے تو پہلے قرض خواہ کے روپے ادا کرو۔حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں مَیں نے عورتوں کو زیادہ دیکھا ۔بوجہ ان کے ناشکرگزار ہونے کے۔ تو ناشکروں کی سزا جہنم ہے۔لوگ معاملات سے حالات کا اندازہ کرتے ہیں۔نمازوں سے نہیں۔اگر اس طرح تبلیغ کے رستہ کو بند کر دیا تو پھر کوئی عمدہ رستہ نہیں۔پس اپنے معاملات کی درُستی پر بہت زور دو۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔آمین‘‘

(خطبات محمود جلد 6صفحہ550تا553)

دست درکار دل بایار

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍اگست1919ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس غرباء آئے اور کہا حضور! ہمارے بھائی امیر نیکیوں میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔نماز ہم پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں، روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں ،ہم جہاد کے لیے جاتے ہیں وہ بھی جاتے ہیں ،وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ہم اس سے محروم ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتاہوں کہ اگر تم وہ کروگے توامراء سے تم نیکیوں میں بڑھ جاؤ گے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد 33دفعہ تحمید33دفعہ تقدیس اور 34دفعہ تکبیر کہا کرو اﷲ تعالیٰ تمہیں ان سے بڑھا دے گا۔چند دن کے بعد غرباء پھر آئے کہ حضور! امیر تو یہ کام بھی کرنے لگ گئے ہم کیاکریں آپؐ نے فرمایا کہ خدا جس کو فضیلت دیتا ہے میں کس طرح اُس کو روک سکتاہوں۔وہ دولت مند مسلمان ایسے مسلمان نہ تھے کہ فرائض کو بھی ترک کر دیں۔وہ تو نوافل میں اس قدر جدو جہد کرتے تھے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔پھر ان کی دولت مندی برائے نام نہ تھی بلکہ کافی دولت رکھتے تھے۔ایک صحابی رضی اﷲ عنہ جن کے متعلق صحابہ رضی اﷲ عنھمکا خیال تھا کہ غریب ہیں جب فوت ہوئے تو ان کے پاس اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد ثابت ہوئی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں صحابہ رضوان اﷲ علیھم کو تجارت کا بھی خاص ملکہ تھا۔چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ اس فن میں کامل تھے۔انہوں نے ایک دفعہ دس ہزار اونٹ خریدے اور اصل قیمت پر ہی فروخت کر دیئے۔ایک دوست نے کہا کہ اس میں آپ کو کیا نفع ہوا۔انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسی وقت کھڑے کھڑے اڑھائی ہزار روپے کا نفع ان اونٹوں کی خریدو فروخت میں حاصل ہوا ہے اور وہ اس طرح کہ میں نے جب اونٹ خریدے تھے تو نکیل سمیت خریدے تھے اور فروخت بغیر نکیل کے کیے ہیں اس سودے میں دس ہزار نکیل مجھے نفع میں ملی اور اگر میں اس وقت فروخت نہ کرتا تو خدا جانے کب گاہک پیدا ہوتااور اتنے عرصہ میں کتنا کھا جاتے لیکن اس وقت بغیر کسی خرچ کے اڑھائی ہزار روپے کا نفع ہوا۔چونکہ ان کو تجارت کا فن خوب آتا تھا اور اپنے کام میں بہت چست تھے اس لیے وہ مال میں بڑھ گئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 6صفحہ294،295)

تجارت کا ایک سنہری اصول

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍فروری1917ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ہر ایک تاجر کی ایک الگ سیا ست ہے اور ہر ایک پیشہ ور کی الگ۔تاجر کی سیاست تو یہ ہے کہ وہ باہر سے مال نہ اس بے احتیاطی اور کثرت سے خریدے کہ اس کی دکان میں ہی پڑا خراب ہوتا رہے اور نہ اتنا کم لائے کہ لوگوں کی ضروریات بھی پوری نہ ہوں بلکہ وہ ضروریات کو دیکھتا ہوا کسی چیز کی خریداری پر ہاتھ ڈالے تاکہ نہ اس کو ایک لمبے عرصہ تک خریداروں کا انتظار کرنا پڑے اور نہ یہ ہو کہ اس کے ہاں سے مال ہی نہ ملے۔اسی طرح پیشہ ور کی سیاست یہ ہے کہ نہ تو اشیاء کے تیار کرنے میں اتنی دیر لگائے جس سے مانگ کا وقت گزر جائے اور نہ اتنا پہلے کہ ابھی مانگ کا موقع ہی نہ آئے اور وہ اشیاء کے تیار کرنے میں مصروف رہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ381)

دکانداری کے ساتھ مہمان نوازی بھی مد نظر رکھیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ22؍دسمبر1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں یہاں(قادیان)کے دکانداروں کو دکانداری سے روکنا پسند نہیں کرتا ۔خدا تعالیٰ نے حج کے موقع پر بھی تجارت کو جائز رکھا ہے ۔قادیان کے دکانداروں کے لیے بھی یہ تجارت کرنے کا موقع ہے۔ مگر جہاں خدا تعالی ایسے موقع پر تجارت کرنے سے منع نہیں کرتا وہاں یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ بالکل اسی میں لگ جائیں ۔پس دکاندار خوب کمائیں اور خوب تجارت کریں مگر کچھ وقت مہمانداری میں بھی صرف کریں۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ358)

بد دیانتی کا نتیجہ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍ستمبر1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں جب کشمیر گیا تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بُننے کے لیے کہا گیااور قیمت پیشگی دے دی۔غالیچہ کا طول و عرض سب اس کو بتا دیا گیا ۔ہم آگے چلے گئے جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لپیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دے دیے اور کہنے لگا کہ اسی طرح بندکے بندہی لے جاؤ ،کھولو نہیں۔ لیکن اس کے بار بار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جاؤاس لیے کھول کر دیکھنے چاہییں۔جب کھولے اور ناپے تو معلوم ہوا ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے ۔ہم نے اسے کہا یہ تم نے کیا کیا؟وہ کہنے لگا جی ہم مسلمان ہوتے ہیں ۔میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا ناجائز ہے پھر تم نے مسلمان ہو کرکیوں ایسا کیا ؟اس کا وہ یہی جواب دیتا رہا کہ میں مسلمان ہوں۔اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا ۔تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکہ، فریب، دغاکرنے کی عادت ہی ہو گئی جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی استعمال کرنے لگ گئے۔ اس طرح ان کانہ آپس میں اعتبار بھروسہ اور اطمینان رہا اور نہ دوسروں کے نزدیک اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اس قدر ذلت اور رُسوائی کو پہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہو گئی ہے ۔میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتے تھے ۔جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہوا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا اور جب مال نہ بِکا تو بنانے والوں نے بھی اس کام کو چھوڑ کر اور کام اختیار کر لیے اور اس طرح تجارت کو زوال آگیا۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ268)

سود کا نفع

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ25؍اگست1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے اپنے لیے یہ بات خاص کر چھوڑی ہے کہ جب بندہ اس سے لین دین کرتا ہے تو نفع ہی نفع حاصل کرتا ہے ۔چونکہ سود بھی ایک قسم کا نفع ہے جس میں نفع ہی نفع ہوتا ہے،نقصان نہیں ہوتا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس فعل کو اپنے لیے خالص کرنے کے لیے بندوں کو منع کر دیا ہے کہ وہ سود نہ لیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی ہی صفت ہے کہ وہ نفع ہی نفع دیتا ہے ۔پس جب خدا کو اتنی غیرت ہے کہ اس نے بندوں کو اس قسم کے لین دین سے بھی منع کر دیا ہے تاکہ یہ صرف خدا ہی کی خصوصیت رہے ،حالانکہ بندوں کا فعل خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر اور لا شے ہے اور اکثر دفعہ سود کی بجائے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے،تاہم خدا تعالیٰ نے اس کو پسند نہیں کیا ۔پس وہ جو اس کی رضاء کے لیے کچھ خرچ کرتا ہے کبھی نقصان نہیں اُٹھاتا۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ234)

الٰہی بیع میں کوئی نقصان نہیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ17؍جولائی1914ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’دنیا میں قسم قسم کی بیعیں ہوتی ہیں اور بڑا بیوپاراور تجارت ہو رہی ہے۔ یورپ کا سار ازور تجارت پر ہے۔ اس زمانہ میں تجارت کا اتنا زور ہے کہ اس کی وجہ سے بعض مفید اور نیک باتیں دنیا سے مفقود ہیں مثلاً مہمان نوازی یہ ایک اعلیٰ وصف تھا لیکن یورپ میں کوئی کیسا عزیز دوست کیوں نہ ہو اسے ہوٹل میں اُترنا پڑتاہے اور کھانے پینے کا بل اس کے سامنے پیش کر کے پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں اور اس زمانہ میں ہر ایک ذلیل سے ذلیل چیز کی بھی بیع ہو رہی ہے ۔حیرت کا مقام ہے شہروں میں اب پاخانہ بھی فروخت کیا جاتاہے اور اس کے علاوہ کوئی ذرا بھر نفع دینے والی چیز ہو اسے جھٹ فروخت کر دیا جائے گا تم یہاں سے چلو گے تو یہیں سے تم بیع میں لگ جاؤ گے۔یکہ والے سے بیع ،ریل میں پھر سٹیشنوں پر جا کر مختلف قسم کی بیعیں ہوں گی۔برف ،مٹھائی،مختلف قسم کے میوے اور مختلف قسم کی اور چیزیں ہوں گی جن کی تم بیع کرو گے لیکن یہ وقتی بیعیں ہوں گی۔ یہ سب چیزیں جو تم لو گے کچھ تو گھر پہنچتے پہنچتے تمہارا جزو بدن بن چکی ہوں گی کچھ فضلہ بن کر تم سے الگ ہوں گی۔ پھر جو چیزیں تم گھروں میں لے جاؤ گے وہ تم اپنے بھائیوں اور عزیزوں کو دو گے۔ بچوں کو دو گے وہ بھی انہیں کھا کر ختم کریں گے لوگ بھاگے بھاگے اِدھر سے اُدھر،اُدھر سے اِدھر پھرتے ہوں گے ان کی غرض یہ ہے کہ ان کی چیزیں بک جائیں اور وہ اس کے بدلے میں روپے پیسے لیں۔وہ چیزیں بھی تمہارے پاس نہ رہیں گی بلکہ تمہاراجزوِ بدن بن جائیں گی۔یہ تو وقتی بیعیں ہیں جو فنا ہونے والی اور محدود ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک بیع بتلاتاہے اور وہ یہ ہے

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُم(التوبۃ:111)

خدا فرماتاہے ہم تم سے ایک بیع کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ تم ہمارے پاس اپنے نفس اور اموال بیچ دو اور تمہیں اس کے بدلے میں ہم ایک کبھی نہ ختم ہونے والی چیز دیتے ہیں وہ کبھی ختم نہ ہو گی اور اس کے بدلے میں آرام اور سُکھ تم کو ملے گا۔ دنیا میں تو جو چیز دے کر دوسرے کے پاس سے اس کی محنت لیتاہے۔ بیچنے والا ایک چیز اپنی محنت کے ذریعہ پیدا کرتاہے پھر اسے بیچتاہے لیکن اﷲ تعالیٰ انسان کو بغیر اس کی محنت اور مشقت کے ایک چیز دیتاہے پھر کہتاہے اچھا یہ چیز ہمارے پاس بیچ دو ہم تمہیں اس کے بدلے میں ایک غیر فانی چیز دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو خود ناک، کان، ہاتھ، پاؤں،سر،منہ غرض تمام اعضاء عنایت کیے اور مال بھی اپنے پاس سے دیا لیکن پھر وہ انسان کو کہتاہے یہ چیز بیچ دو اس کے بدلہ میں مَیں تم کو ایک اعلیٰ چیز دوں گا کیا تم بتلا سکتے ہو کہ اس بیع میں کوئی نقصان ہے ؟نادان ہے وہ شخص جو اس بیع کے کرنے میں ہچکچائے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ132،133)

انصاف اور معاہدات کی پابندی

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ یکم مئی1914ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’بہت لوگ دنیا میں اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ انصاف سے کام نہیں کرتے جہاں کہیں ان کا معاملہ کسی سے پڑتاہے ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز ہم لے لیں یہ لوگ معاہدات کی پابندی نہیں کرتے حالانکہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جب ایک بات پر معاہدہ ہو جائے تو اس سے یہ اُمید رکھی جاوے کہ اس کو زید تو پورا کرے اور میں نہ کروں اور کسی کا نقصان ہو توہو لیکن مجھے ضرور ہی فائدہ پہنچ جاوے۔
تاجرلوگ چاہتے ہیں کہ ہر ایک چیز کی قیمت تو پوری لیں لیکن چیز گندی اور خراب دیں۔ادھر خریداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم قیمت تو تھوڑی دیں لیکن مال اچھالیں۔خواہ تاجر گھر سے ڈال کردے۔ نوکر چاہتاہے کہ میں محنت کم کروں لیکن تنخواہ زیادہ پاؤں اور آقاچاہتاہے کہ کام پورا لوں لیکن تنخواہ بہت کم دوں۔ غرضیکہ ہر ایک آدمی اپنے معاملہ میں دوسرے کا نقصان ہی کرنا چاہتا ہے لیکن یہ نہیں چاہتا کہ کسی اور کو بھی کوئی فائدہ پہنچ سکے۔بعض دفعہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہوئے خود نقصان اٹھا لیتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے سنا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک بزاز سے کپڑا خریدا۔جب وہ خرید کر گھر چلا گیا تو فروخت کرنے والے شخص کو معلوم ہوا کہ اس کپڑے میں تو نقص تھا۔ کیڑے نے اس کو ناکارہ کر دیا ہوا تھا۔اس کو خوف خدا آیا کہ میں نے مسافر سے دھوکا کیا ہے وہ ایک قافلے کا آدمی تھا،قافلہ چلا گیا۔تاجر اس کے پیچھے گیا اور دو تین منزلوں پر جا کر اس سے ملا اور کہا کہ میرا دل گھبرا گیا کیونکہ میں نے تم کو دھوکا دیا ۔تم اپنا روپیہ واپس لے لو اور مجھے کپڑا دے دو۔اس نے کہا کہ تو نے ہی دھوکا نہیں دیا میں نے بھی کیا ہے جتنے روپے میں نے تم کو دیے تھے وہ سب کھوٹے تھے مجھے تو نفع ہی رہا تھا۔
لوگوں سے تو دھوکا کیا ہی جاتاہے لیکن آدمی اﷲ کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں۔آدمی دھوکا کھا جاتاہے لیکن تعجب اور حیرت اس بات پر ہے کہ انسان خدا کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں اور پھر عجیب در عجیب فریب کرتے ہیں۔خدا کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کو تو پورا نہیں کرتے لیکن یہ امید رکھتے ہیں کہ خدا ہم سے اپنے عہد کو پورا کرے۔یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چونکہ مسلمان کہلالیا پس خدا ہم کو مسلمان سمجھ لے گا۔خواہ ہم میں کتنا ہی بغض،کینہ،دشمنی اور برائیاں کیوں نہ ہوں اور خدا ہم سے مسلمانوں والا سلوک کرے گا اور دھوکا کھا جائے گا۔لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ عالم الغیب ہے۔انسان دھوکا کھا سکتاہے ،دکاندار خریدا ر کو دھوکا دے سکتاہے،نوکر آقا کو دھوکا دے سکتاہے اور آقا نوکر کے ساتھ دغا بازی کر سکتاہے لیکن خدا دھوکا نہیں کھا سکتا کیونکہ وہ تو انسان کی ہر ایک کمزوری کو خوب جانتا ہے اور پوشیدہ بھیدوں اور ارادوں سے بھی خوب واقف ہے بہت دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان عبادت کرتا ہے لیکن خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔روزے رکھتا ہے لیکن خدا کے حضور قبول نہیں کیے جاتے۔بیسیوں نیکی کے کام کرتا ہے لیکن رد کیے جاتے ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ خدا انسان کی نیتوں اور اندرونی رازوں کو جانتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان باتوں سے کام نہیں بن سکتا میں اسی وقت اپنے وعدے پورے کروں گا جبکہ تم بھی اپنے وعدے پورے کروگے۔جب تم راستباز بن جاؤ گے،گناہوں کو چھوڑ دو گے،فسق و فجور سے قطع تعلق کر لو گے،بغض وکینہ سے اپنے سینوں کو صاف کر لو گے اور اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو جا ؤ گے تب تم سچے مسلمان بنو گے اور پھر تم سے وعدے پورے کیے جائیں گے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ81تا83)

تجارت اور سود

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ9؍جنوری1914ء کے خطبہ جمعہ میں سو د اور تجارت کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’سود کا نظارہ دیکھ لو اﷲ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم سود سے باز نہیں آتے تو

فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ(البقرۃ:280)

یہ تو اﷲ تعالیٰ سے لڑائی کرنا ہے ۔تو تم پھر اﷲ سے لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود میں کچھ حرج نہیں ہے اور اس کے بغیر دنیا تباہ ہوتی ہے اور اس کے سوا کام نہیں چل سکتا ۔لیکن قرآن شریف میں تو یہ آیا ہے کہ

لَا رَیْبَ فِیْہِ

یعنی اس کتاب میں ہلاکت کی تعلیم نہیں ہے تو گویا یہ کہنے والے کہ سود کے بغیر کام نہیں چل سکتا اور دنیا ہلاک ہوتی ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کوجھوٹا قرار دیتے ہیں اور ان کو قرآن کریم پر ایمان نہیں ہے ۔لوگ تجارت اور سود کو برابر بتلاتے ہیں

وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو(البقرۃ:276)

حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے تجارت کوحلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حرمت ِسود و حلّتِ بیع پر دلیل نہیں دی۔ حالانکہ جب ڈاکٹر ایک چیز سے منع کرتاہے تو وہ ضرور مضر ہوگی اور اگر وہ کسی چیز کو جائز قرار دیتاہے تو وہ ضرو ر فائدہ مند ہو گی۔پس اﷲ جس چیز کو حرام قرار دیتاہے وہ ضرور ہی ضرر رساں ہو گی۔ پس یہی دلیل ہے۔
بنکوں کے معاملے کو دیکھ لواور ان کے دیوالیے نکلنے سے معلوم کر لو۔ اس سے بخوبی ثابت ہو جائے گا کہ تجارت اور سود ایک چیز نہیں کیونکہ ایک بنک کے ٹوٹنے سے دوسرے کئی بنک اس وجہ سے ٹوٹ گئے کہ ان کا آپس میں سودی لین دین تھا دوسرے بے اعتباری ہونے پر امانتداروں نے اپنا روپیہ واپس لینا شروع کر دیا اگر کسی تجارتی کوٹھی کو نقصان پہنچتا تو اس کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا بلکہ ایک دکان جاتی رہنے سے بہت سی دکانیں فروغ پاجاتی ہیں کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ20)