علم الادیان اور علم الابدان

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍مارچ1936ء کو صنعتی سکول کے افتتاح کے موقع پر خطاب میں فرمایا:
’’آج آپ لوگوں کو یہاں آنے کی اس لیے تکلیف دی گئی ہے کہ میرا منشا ہے آج ہم دعا کر کے اس صنعتی سکول کا افتتاح کریں جس کا اعلان میں پہلے کر چکا ہوں۔دنیا میں تعلیم اور صنعت وحرفت علیحدہ علیحدہ تنگ دائروں میں تقسیم ہو سکتی ہے ۔ورنہ بڑے بڑے دائرے تو صرف دو ہی ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔’’علم دو ہیں۔علم الادیان اور علم الابدان‘‘یعنی ایک علم وہ ہے جو دین کو نفع دیتا ہے اور دوسرا علم وہ ہے جو جسم کو نفع دیتا ہے۔لوگوں نے اس علم کے معنی طب کے بھی کیے ہیں۔بے شک طب بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے۔لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ علم جس کا مادیت کے ساتھ تعلق ہو۔پس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے درحقیقت علم کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جو روح یا جسم کو فائدہ دے۔جو علم روح یا جسم کے لیے فائدہ مند نہیں وہ علم نہیں کھیل ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔وہ علم جو روح کو نفع دے وہ تو اس وقت دین اسلام ہی ہے کیونکہ باقی دین اس قابل نہیں کہ وہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں۔روحانی لحاظ سے صحیح طور پر اور ہر ضرورت کے موقع پر نفع دینے والی چیز صرف اسلام ہے۔

آٹھ بنیادی پیشوں میں ہی سارے پیشے محصور ہیں

باقی رہا’’علم الابدان‘‘۔اس علم کا تعلق مختلف پیشوں سے ہے۔پیشے تو لاکھوں ہیں لیکن وہ چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس لیے بڑے بڑے پیشے چند ہی ہیں۔مثلاً ایک پیشہ وہ ہے جس سے انسان کی زندگی کا بڑا تعلق ہے اور وہ زراعت ہے۔زراعت کے ذریعہ غلہ وغیرہ اور ایسی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں جن پرانسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔اس کے بعد دوسری چیز جسم کو ڈھانکنے کا سوال ہے اس کے لیے کپڑا بُننے والے کی ضرورت ہے۔جس کو ہم جولاہاکہتے ہیں۔پھر پہننے کے لیے مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مثلاً کپڑے کے علاوہ جرابیں،سویٹر وغیرہ۔یہ سب چیزیں اسی پیشہ کے اندر آجاتی ہیں اور وہ سب اشیاء جن کا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوگا سب کی سب اس پیشہ سے متعلق ہوں گی۔تیسرا پیشہ معماری ہے کیونکہ عناصر میں جو طوفان پیدا ہوتے ہیں ان کے اثرات سے بچنے کے لے ضروری ہے کہ انسان مکان بنائے۔یا ایک دوسرے کے ضرر سے بچنے کے لیے مثلاً چوریا حملہ آور سے محفوظ رہنے کے لیے مکان ضروری ہے۔پس تیسری چیز معماری ہے۔ چوتھا پیشہ جو اصولی حیثیت رکھتا ہے وہ لوہاری کا کام ہے۔بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی انسان کو ضرورت پیش آتی ہے یا خود انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حاجت ہوتی ہے اس کے لیے مثلاً گاڑیاں،موٹریں،سائیکل یا ریل گاڑیاں کام میں لائی جاتی ہیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور انسانی کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لیے یہ دوپیشے ہیں۔ایک لوہار کا کام دوسرا ترکھان کا کام۔یہ زراعت میں مفید ہونے کے علاوہ باقی بہت سے کاموں کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں اورانسان کے عام مشاغل کو بھی سہل بناتے ہیں۔پھر’’علم الابدان‘‘میں وہ چیز بھی آجاتی ہے جس کو لوگوں نے مقدم رکھا ہے۔یعنی علم کیمیا اور علم طب،علم طب بھی انسانی علاج کوسہل کر دینے والی چیز ہے توگویا زراعت، معماری، لوہاری، نجاری،علم کیمیا،علم طب اور علم طب دراصل ایک لحاظ سے علم کیمیا ہی کی ایک شاخ ہے اور کپڑا بننے کا کام ۔یہ سات پیشے ہوئے ۔باقی تمام پیشے انہی کے اندر آجاتے ہیں۔مثلاً دوسرے کام پینٹنگ وغیرہ معماری کی بھی ایک شاخ ہے اور علم کیمیا کی بھی۔چمڑے کا کام اس کے علاوہ ہے ۔تو اسے ملا کر گویاآٹھ پیشے ہوئے۔ان آٹھ پیشوں کو جو قوم جان لیتی ہے وہ اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی محتاج نہیں رہتی بشرطیکہ وہ ان پیشوں کو اس رنگ میں جانتی ہو جیسا کہ جاننے کا حق ہے۔یہ نہیں کہ ایک کام سیکھ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ بس اب کام ختم ہو گیااور اب اس میں ترقی کرنے کی ضرورت نہیں۔
وٹرنری کاعلم یعنی حیوانوں اور جانوروں وغیرہ کا پالنا اور ان کا علاج بھی’’علم الابدان‘‘ہی سے تعلق رکھتاہے ۔یہ علم اور نرسنگ وغیرہ کا علم طب کے نیچے آجائیں گے۔پس جتنے بھی علوم ہیں وہ سب انہی آٹھ پیشوں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض یا تو زراعت سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا چمڑے کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا معماری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا نجاری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ان چیزوں سے باہر اور شاید ہی کوئی چیز ہو۔اگر یہ چیزیں کوئی قوم مضبوطی سے حاصل کرے تو وہ دوسری قوموں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ان کا ممد پیشہ بے شک تجارت ہے مگر وہ تابع پیشہ ہے۔حقیقی پیشہ نہیں اور اپنی ذات میں وہ کوئی الگ نہیں کیونکہ وہ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کو ہی لوگوں تک پہنچاتاہے۔لیکن دولت کے لحاظ سے وہ پیشہ ان سے کم نہیں ان سے زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس لیے کہ مالی لحاظ سے اس کو ان پیشوں پر فوقیت حاصل ہے۔سوائے اس کے کہ پیشہ ور اپنے ساتھ تجارت کو بھی شامل کر لیں۔جب تجارت ساتھ شامل ہو جائے تو کام بہت وسیع ہو جاتاہے۔

ہم میں تجارت کی کمی ہے

میں نے تحریک جدید کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ معلوم کیا ہے کہ ہماری جماعت میں کن پیشوں کی کمی ہے اور کون کون سے پیشے ایسے ہیں جنہیں انفرادی یا جماعتی طور پر ہمیں لوگوں کو سکھانے کی ضرورت ہے۔زراعت کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں کافی لوگ ایسے ہیں جو زراعت کا کام کرتے ہیں۔تجارت کے متعلق میں نے غور کیا اور میں نے دیکھا کہ اگرچہ اس کی ہماری جماعت میں کمی ہے لیکن چونکہ ہم ابھی اس کام میں فوری ہاتھ ڈالنے کے قابل نہیں تھے اس لیے میں نے چند مبلغوں کو تیار کیا کہ وہ بعض ایسی نئی تجارتی چیزیں دریافت کریں جنہیں ہم ہاتھ میں لے کر ان کی تجارت کر سکتے ہیں۔ جو تجارتیں پہلے قائم شدہ ہیں ان میں ہمارا داخل ہونا،کروڑوں روپیہ کے سرمایہ کی تجارتوں کے مقابل ہمارا کھڑا ہونا نا ممکن ہے۔اس لیے میں نے یہ تجویز کی کہ نئی تجارتی اشیاء دریافت کی جائیں۔

تجارتوں میں سے واسطوں کو اڑانے کی ضرورت ہے

اس ضمن میں میں نے دیکھا کہ تجارتوں میں جو واسطے پائے جاتے ہیں ان کو اُڑانے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے بعض دوست واسطوں کا مطلب نہ سمجھیں اس لیے میں اس کی تشریح کر دیتاہوں۔واسطے کا مطلب یہ ہے کہ اصل خریدار تک پہنچنے کے لیے ایک چیز کئی ایک ہاتھوں میں سے گزر کر آتی ہے۔مثلاًایک چیز انگلستان میں پیدا ہوتی ہے اور فرض کرو کہ وہ چین میں جا کر بِکتی ہے تو بسا اوقات ایساہوتا ہے کہ اسے پہلے ایک ملک نے خریدا،اس سے پھر دوسرے نے اور پھر تیسرے اور چوتھے نے، یہاں تک کہ وہ چیز کئی ملکوں میں سے ہوتی ہوئی چین تک جا پہنچی۔جنگ کے دنوں میں اس راز کا انکشاف ہواتھاکہ وہ دوائیاں جو یہاں آکر بِکتی تھیں و ہ دراصل جرمنی میں بنائی جاتی تھیں اور ان پر صرف انگریزی ٹھپہ لگتا تھا اور ہندوستان میں لوگ انہیں صرف انگریزی دوا تصور کر کے خریدتے تھے۔ہندوستانیوں کو اس بات کا علم نہ تھا۔انگریز انہیں جرمنی سے خرید کر ہندوستانیوں سے ان کی بڑی بڑی قیمتیں لیتے تھے اور بہت کم لوگ اس راز سے آگاہ تھے باقی سارے لوگ ناواقف تھے۔جب جنگ شروع ہوئی تو دوائیاں نایاب ہو گئیں اور لوگ اس بات سے حیران تھے لیکن پھر یہ راز کھلا کہ جرمنی کی دوائیاں انگلستان میں سے ہوتی ہوئی ہندوستان آتی تھیں۔
پس واسطے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کی اشیاء اور ملکوں میں سے گزر کر اصلی حاجت مند کے پاس پہنچتی ہیں۔اس کے متعلق یہ پتہ لگایا جائے کہ کس ملک کی کونسی چیز کس کس ملک سے ہو کر آتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے بعد جو چیزمثلاً جرمنی میں بنتی ہے،اس کے لیے اگر کوئی شخص جرمنی جا کر کہے کہ تم اپنی فلاں چیز براہ راست ہمیں بھیجو اور اس طرح کی ایک دکان کھول لی جائے تو براہ راست تعلق قائم ہونے کی وجہ سے بیچ کا نفع جو دوسرے لوگ اٹھا رہے ہوں گے وہ نہیں اٹھائیں گے اور اس طرح وہ چیز سستی مل سکے گی اور نفع اپنے ہاتھوں میں رہے گا۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ سات سات اور آٹھ آٹھ واسطے درمیان میں پڑجاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی چیز سات یا آٹھ ہاتھوں میں سے گزر کر آئے۔جتنے واسطے اُڑائے جاسکیں اتنی ہی کم قیمت دینی پڑے گی۔
پس اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ چیز براہ راست ہمیں پہنچے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس پر کم خرچ آئے گا اور واسطوں کے اڑجانے سے ہم تھوڑے سرمایہ سے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ کر سکیں گے۔مگر یہ تجارت قادیان میں نہیں ہو گی کیونکہ یہاں کوئی منڈی نہیں ہے۔یہ کلکتہ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں قائم ہو سکتی ہے۔

کپڑا بُننے کا کام

باقی پیشوں میں سے جو انسان کی ضروریات مہیا کرتے ہیں،کپڑا بُننے کا کام بہت بڑے سرمایہ کو چاہتاہے اور یہ شروع سے ہی لاکھوں روپیہ والے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ اس لیے فوراً اس میں ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔اس کے لیے ہمارے پاس ایکNUCLEUSیعنی بیج ہے اور وہ ہوزری ہے۔فی الحال جُرابیں وغیرہ بنانے کا کام جاری ہے۔اس کے ساتھ ہم آہستہ آہستہ دوسرے کپڑے بنانے کا کام بھی شروع کر دیں گے۔کپڑے کے لیے کھڈیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں لیکن ابھی تک کھڈیاں اتنی مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ایک دو دفعہ لدھیانہ سے مشینیں منگا کر دیکھی ہیں لیکن ان کے ذریعہ جو کام کیا گیا وہ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔اگر آئندہ مفید ثابت ہو تو وہ کام بھی انشاء اﷲ شروع کر دیا جائے گا۔

علمِ طب

اب رہ گیا طب کا علم۔طب کے متعلق باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا گیا۔لیکن مبلغ جو باہر جاتے ہیں انہیں طب پڑھانے کا انتظام کیا جاتاہے۔اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک الگ طبی سکول جاری کر دیا جائے گا یا مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ کھول دی جائے گی اور یہ کام خصوصاً اس لیے شروع کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس سے تعلق تھااور حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ تو ایک بلند پایہ طبیب بھی تھے۔غرض طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ بچپن میں عموماً میری صحت خراب رہتی تھی۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اور بخاری کا ترجمہ اور طب پڑھ لو۔چنانچہ میں نے طب کی تین چار کتابیں پڑھیں بھی۔تو طب کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے جاری کیاجائے۔فی الحال مبلغین کو طب پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اب پانچ پیشے رہ جاتے ہیں۔کیمیا،چمڑے کا کام،لکڑی کا کام،لوہاری اور معماری۔معماری کے کام میں فی الحال میں نے دخل دینا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ معماری کے کام کے لیے خاص انتظام کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لوگ اپنے اپنے طور پر اسے سیکھ سکتے ہیں۔لیکن اگر موقع ملا تو ہم اسے بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔

دارالصناعت میں سکھائے جانے والے کام

باقی رہ گئے چار کام لوہاری،نجاری،چمڑے کا کام اور علم کیمیا۔یہ سکول جس کے افتتاح کے لیے آج ہم جمع ہوئے ہیں اس میں تین کام شروع کیے جا ئیں گے۔ابھی صرف دو جماعتیں کھولنے کا انتظام کیا گیا ہے۔لوہاری اور نجاری،چمڑے کے کام کی سکیم ابھی زیر غور ہے۔کیمیا کے کام مثلاً ادویہ سازی کے متعلق بھی میں مشورہ کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ انشاء اﷲ اس کام کو بھی شروع کر دیا جائے۔اس کام کی ایک قسم تو شروع کی ہوئی ہے اور وہ گلاس فیکٹری ہے۔لیکن ایک خاص شکل میں محدود ہے۔کیمیا سازی میں پینٹنگ،پالش وغیرہ سب چیزیں آ جاتی ہیں۔میں اس کے متعلق ماہر فن لوگوں سے مشورہ کر رہا ہوں۔اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس میں بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔باقی تین کام جو ہم شروع کرنے والے ہیں اور ان کے ساتھ کپڑا بُننے کا کام بھی لگا دیا جائے تو چار ہو جاتے ہیں،نہایت ضروری ہیں۔مگر بدقسمتی سے یہ کام ہندوستان میں ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔جب کسی ملک کے زوال کے دن آتے ہیں تو لوگوں کی نیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ یہ موچی ہے تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ ذلیل کام کرنے والا ہے او روہ خود بھی اس پیشے کو ذلیل سمجھے گا اور اسے چھوڑ دینے کی خواہش کرے گا۔لوہار اورترکھان کے پیشے کو بھی ذلیل سمجھا جاتاہے۔گو وہ موچی کے پیشے کی طرح بدنام نہیں اورگو لوگ انہیں اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں مگر وہ کبھی پسند نہ کریں گے کہ ہمارے بچے لوہار یا ترکھان بنیں یا وہ جولاہے کا کام سیکھیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پیشوں کی آمدنیاں محدود ہو گئی ہیں۔ جب کسی پیشہ میں نفع کم ہو جائے تو قدرتی طور پر اس کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے۔مثلاً تمہیں ہندوستان میں ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی ماہوارآمدنی پانچ چھ روپیہ سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپیہ ماہوار ہوگی۔اگر سارے طبیب پانچ یا چھ ہزار روپیہ آمدنی کے ہوں تو طب کی بھی بہت کم قدر ہو جائے۔چونکہ لوہارے اور ترکھانے کی آمدنی بھی کم اور محدود رہ گئی ہے اس لیے لوگوں نے ان پیشوں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیا ہے۔تجارت میں چونکہ آمد زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کی قدر زیادہ کی جاتی ہے۔

یورپ کی ترقی کی اصل وجہ

لیکن اگر ہم بھی ان تمام پیشوں کو اسی طریق پر چلاتے جس طریق پر انہیں یورپ میں چلایا جاتاہے تو یہاں بھی ان کی ویسی ہی قدر کی جاتی جیسی کہ وہاں کی جاتی ہے۔اب دیکھ لو تمام کپڑا یورپ سے آتا ہے جو یا تو لنکا شائر میں بنتا ہے یا بیلجیئم میں ۔بیان کیا جاتاہے کہ ہر سال ساٹھ کروڑ روپے کا کپڑا باہر سے ہندوستان میں آتاہے۔ظاہر ہے یہ سب کام جولاہے کرتے ہیں۔ چاہے کسی قسم کا کپڑا بُنا جائے،گرم کپڑا ہو یا چھینٹ ہو یا کھدر،یہ کام جولاہے کا کام ہی کہلائے گا صرف کھدر بُننے کا کام کسی کوجولاہا نہیں بناتا بلکہ کپڑا بُننے کا کام جولاہابناتاہے۔پھر لوہارے کے تمام کاموں کی اشیاء یورپ سے آتی ہیں۔مثلاًریل گاڑی کا سامان،کپڑے سینے کی مشینیں، آٹا پیسنے کی مشینیں،روئی اور بنولے کی مشینیں،موٹر،بائیسکل،مختلف پُرزے سب یورپ سے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یورپ والوں نے سرمایہ داری کے ذریعہ سارا کام اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ جب ہمارا کپڑا پھٹ جائے اوراسے سینے کی ضروت ہو تو ہمیں سوئی کے لیے بھی یورپ کا دست نگر ہونا پڑتاہے۔بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ہندوستان کی بنی ہوئی سوئیاں جو کچی سوئیاں کہلاتی تھیں استعمال کی جاتی تھیں۔مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔بات یہ ہے کہ جن چیزوں کے متعلق یورپ والوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں استعمال ہوتی ہیں،انہوں نے وہ چیزیں مشین کے ذریعہ بنانی شروع کر دیں۔اب تو مشینوں نے کھدر بھی بنا دیا ہے اور وہ کھدر کریپ کہلاتا ہے ۔یورپ والوں نے کہا اگر ہندوستانی کھدر پہننے کے لیے ہی تیار ہیں تو ہم مشینوں سے کھدرہی تیار کر دیں گے۔ پھر نجاری کا کام ہے اس میں بھی اعلیٰ فن کے کام ولایت سے ہی آتے ہیں۔بڑے بڑے گھروں میں دیکھ لو کرسیاں اور کوچیں یورپ کی بنی ہوئی استعمال کی جاتی ہیں اور بعض کوچوں کی قیمت کئی کئی سو تک ہوتی ہے۔اسی طرح عمارتی کاموں میں بھی بعض ٹکڑے بنے بنائے ولایت سے آتے ہیں مگر یہ پیشہ پھر بھی ایک حد تک محفوظ رہا ہے۔باقی رہا چمڑے کا کام،اس کا بیشتر حصہ ولایت چلا گیا تھا مگر اب واپس لوٹ رہا ہے۔پہلے تمام چیزیں چمڑے کی ولایت سے بن کر آتی تھیں مگر اب ہندوستان کے بعض شہروں مثلاً کانپور وغیرہ میں چمڑے کی بہت اشیاء تیارکی جاتی ہیں۔تا ہم چمڑے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو یورپ سے تیار ہو کر ہندوستان آتی ہیں اور یورپ والے ان کے ذریعہ روپیہ کمارہے ہیں۔یورپ میں جوتیاں بنانے والے ہمارے ہاں موچیوں کی طرح نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان کی وہی قدر و منزلت ہوتی ہے جو وہاں بڑے بڑے لارڈوں کی ہوتی ہے بلکہ وہاں تو ایسے لوہار یا بُوٹ میکر ہیں جو لارڈہیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ان میں سے جب کوئی ہندوستان آتاہے تو وائسرائے کا مہمان ہوتاہے اور راجے ،نواب بھی اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آمدنیوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں غیر محدود بنا لیاہے اوران کے پیشے اپنی غیر محدود آمدنیوں اور وسیع پیمانے پر ہونے کی وجہ سے معزز تصور ہو رہے ہیں۔مگر ہندوستان میں وہی پیشے قلیل آمدنیوں کی وجہ سے ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔

پیشہ ور کسی پیشہ کو اپنی ذاتی جائیداد نہ تصور کریں

یہا ں ایک اور عجیب رواج بھی ہے اور دراصل ہندوستانیوں کو اسی کی سزا مل رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشہ ور انسان اپنے پیشہ کوذاتی جائیداد تصور کرتاہے اور چاہتاہے کہ صرف اپنے بیٹے کو وہ پیشہ سکھا دے،کسی دوسرے کو وہ سکھانا پسند نہیں کرتا۔اسلام نے اسے قطعا ًپسند نہیں کیاکہ کوئی شخص کسی کا م کو اپنی ذاتی جائیدا د بنا کر بیٹھ جائے۔یورپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی خاندان سارے کا سارا بوٹ بنانے والا نہیں ہو گا۔اگر باپ بوٹ میکر ہو گا تو بیٹا کیمیا کے علم کا ماہر ہوگا۔پوتے کپڑا بنانے کا کام کرتے ہوں گے اور پڑپوتے کسی فرم میں حصہ دار ہوں گے۔غرض ایک ہی کام نہیں ہو گا جس میں وہ سارے کے سارے لگے ہوئے ہوں گے مگر ہمارے ملک نے سمجھ رکھا ہے کہ پیشے ذاتی جائیداد ہوتے ہیں اور وہ اپنے خاندان تک ہی محدود رہنے چاہییں کسی اور کو نہیں سکھانے چاہییں۔اس کے دو بہت بڑے نقصان یہ ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسرا قومی۔قومی نقصان تو یہ ہے کہ اگر بیٹا جب لائق نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فن گِر جائے گا اور اس طرح قوم کو نقصان پہنچے گا۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ باپ سے بیٹے کو بیٹے سے پوتے کو جب وہ کام ورثہ میں ملے گا تو ان کے نام کے ساتھ ایک اور چیز جسے پنجابی میں اَل کہتے ہیں لگ جائے گی اور وہ اس کی قومیت بن جائے گی حالانکہ اگر آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کا طریق رائج ہو تو بالکل ممکن تھا کہ ایک درزی کا کام کرنے والے کا بیٹا اچھا لوہار یا اچھا نجار یا اعلیٰ معمار بن سکتا۔پس اس طریق کا انفرادی طورپر بھی نقصان ہوا اور قومی طورپر بھی۔یورپ میں لوگوں نے اپنے آپ کو ان نقصانات سے بچالیا ہے۔نہ ان کے نام کے ساتھ کوئی اَل لگی اور نہ ان کے پیشے ہی محدود رہے کیونکہ انہوں نے ایک ہی کام پر جمے رہنا پسند نہیں کیا بلکہ کام تبدیل کرتے گئے اور انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتی ہے۔مرد کم تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے مگر عورت زیادہ تبدیلی چاہتی ہے۔گھروں میں دیکھ لو جب کبھی عورتیں صفائی کرتی ہیں تو چیزوں کو اِدھر سے اُدھر رکھ کر نقشہ بدل دیتی ہیں اور بالکل بِلاوجہ ایسا کرتی ہیں۔پہلے اگر چارپائی مشرقی دیوار کے ساتھ ہو گی تو پھر مغربی دیوار کے ساتھ کر دی جائے گی،کبھی جنوبی دیوار کے ساتھ لگا دی جائے گی اور کبھی مشرقی دیوار کے ساتھ رکھ دی جائے گی۔یہ صرف نظارے کی تبدیلی ہوتی ہے۔بہر حال تبدیلی ترقی کے لیے ضروری چیز ہے گو تبدیلی میں تنزل کا پہلو بھی ہوتاہے مگر اس میں ترقی بھی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انسان میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک حالت میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ تغیر چاہتاہے اور کام کی تبدیلی کے ساتھ بھی بہت سے خاندان بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔
غرض ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس صنعتی سکول کی ابتدا کی ہے۔میں نے بتایا ہے کہ ہندوستان کے تنزل اور اس کی تباہی کی ایک وجہ ان پیشوں کا ہمارے ہاتھوں سے نکل جانا ہے اور یورپ کی ترقی کی وجہ ان پیشوں کا ان کے ہاتھ میں چلا جانا ہے۔پھر میرے مدنظر یہ بات بھی ہے کہ اس طرح بے کاری کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے مگر میں فوری طورپر اس کام کو وسعت نہیں دے سکتا۔کیونکہ ہمارے پاس سرمایہ کم ہے۔گو میری خواہش یہی ہے کہ ہربیکار کو کام پر لگایا جائے۔مگر عقل چاہتی ہے کہ کام کو اس طریق سے نہ چلایا جائے کہ چند دن جاری رہ سکے اور پھر ختم ہو جائے بلکہ ایسے طریق سے قدم اُٹھایاجائے کہ جس سے ہمارے کام کو دوام نصیب ہو۔

دارالصناعت میں شرائط داخلہ نیز طریق تعلیم

فی الحال مَیں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ ایک استاد کے ساتھ تین شاگرد ہوں۔اس طرح کام چلانا سہل ہو گا۔ہر تیسرے ماہ طالب علموں کا انتخاب ہوا کرے گا اور مزید تین تین لڑکوں کو لے کر کا م پر لگا دیا جائے گا۔اس طرح سال میں ہر ایک استاد کے پاس بارہ طالب علم ہو جائیں گے اور پھر سال بھر کے سیکھے ہوئے لڑکے نئے داخل ہونے والے لڑکوں کو کام سکھا بھی سکیں گے۔اس سلسلہ میں جو مشکلات پیدا ہوں گی وہ تو بعد میں ہی دیکھنے میں آئیں گی مگر اصولی طورپر یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ کام کو بڑھا یا جائے ۔
میری تجویز یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ بھی اس کام میں حصہ لیں اور وہ اس طرح کہ اس سرمایہ کے جو اس پر لگایا جائے حصص خریدیں چنانچہ اس میں تجارتی طورپر حصہ لینے کے لیے میں نے جماعت کے لیے گنجائش رکھی ہے اس میں سے پچاس فیصدی تک سرمایہ کے حصے خریدے جا سکتے ہیں ۔
میں نے اس سکول کے متعلق اصول انتخاب میں یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ یتامیٰ کو مقدم رکھا جائے اور ان کی نسبت دوسرے لڑکوں کے انتخاب کی شرائط کڑی ہوں۔مثلاً پہلی شرط ان کے لیے یہ رکھی گئی ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں مگر یتیموں کے لیے پرائمری پاس ہونے کی شرط نہیں گو انہیں بھی اگر وہ اَن پڑھ ہوں تعلیم دی جائے گی پھر بھی یہ شرط ہے کہ ان کو بورڈنگ میں رکھا جائے گا اور پانچ سال انہیں یہاں رہنا ہو گاتین سال تک ان پر ہم خرچ کریں گے باقی دو سال میں اس آمد پر جو اُن کی تیار کی ہو ئی اشیاء سے حاصل ہو گی ان کا خرچ چلے گا۔پہلے تین سال تک استادوں کی تنخواہیں بورڈنگ کا خرچ اور کپڑے وغیرہ کا خرچ تحریک جدید کے ذمہ ہو گا۔اس کے علاوہ ہم نے دو سال اس لیے زائد رکھے ہیں تاکہ وہ سلسلہ کا کام کریں اور اس قرض کا کچھ حصہ جو ان پر خرچ ہوا ہو ادا کرسکیں۔اگر کوئی لڑکا بیچ میں ہی کام چھوڑ کر چلا جائے گا تو اسے وہ روپیہ واپس دینا ہو گا جو اس پر خرچ ہوا۔سوائے اس کے کہ کوئی اشد معذوری اسے پیش آجائے مثلاً کوئی آنکھوں سے اندھا ہو جائے یا کسی طرح کام کے ناقابل ہو جائے کیونکہ ایسے کاموں میں اس قسم کے حادثات بھی ہوجانے کا اندیشہ ہوا کرتاہے۔
پس ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو لڑکے داخل ہونا چاہئیں وہی داخل ہو سکتے ہیں۔ یتامیٰ کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ ان کو بغیر کسی شرط کے لے لیا گیا ہے مگر دوسروں کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ کم ازکم پرائمری پاس ہوں۔آئندہ آہستہ آہستہ شرائط کڑی کر دی جائیں گی۔مثلاً پھر یہ شرط رکھ دی جائے گی کہ مڈل پاس طالب علم لیے جائیں اور مڈل تک کی تعلیم تو مجلس مشاورت میں ہماری جماعت کے لیے لازمی تعلیم قرار پا چکی ہے پس جب مڈل تک کی تعلیم ہر احمدی کے لیے لازمی ہے تو بعد میں تعلیم کے اسی معیار کے لحاظ سے طالب علم سکول میں لیے جائیں گے۔علاوہ ازیں سکول کے استادوں کو دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کو کام سکھانے پر لگا یا جائے گا۔یعنی دوسرے مدرسوں کے طالب علموں کو بھی اسی قسم کے کام سکھائے جائیں گے۔مثلاً ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ کے جو لڑکے چاہیں گے ان کے لیے بھی انتظام کر لیا جائے گا مگر ان کے لیے ہفتہ میں صرف دو روز اس کام کے لیے ہوں گے کیونکہ انہیں اپنے کورس کی اور بھی پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ بیشک اس طرح وہ بہت دیر میں کام سیکھ سکیں گے اور بعض دفعہ ان کو چھٹیوں میں یہ کام کرنا پڑے گا مثلاً گرمیوں کی رخصتوں میں ان کو اورکہیں جانے کی اجازت نہ ہو گی بلکہ انہیں یہ کام سکھایا جائے گا۔

پیشوں کے متعلق حقارت مٹائی جائے

بہر حال جب تک ہم پیشوں کے ساتھ تمام لوگوں کی دلچسپی نہ پیدا کر دیں گے اس وقت تک پیشہ وروں کو ذلیل سمجھنے کی خرابی دور نہ ہوگی۔جب سارے لوگ مختلف پیشے جانتے ہوں اور ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی آدمی اس قسم کا کام کرتا ہوتو پھر پیشوں کے متعلق حقارت لوگوں کے دلوں سے مٹ جائے گی۔ یورپ میں بڑے سے بڑے لوگ بھی اس قسم کے کاموں کو حقیر نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود کسی نہ کسی پیشہ کے ماہر ہوتے ہیں۔چنانچہ فرانس کا ایک پریذیڈنٹ تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ جب کبھی اسے اپنے کام سے فرصت ملتی تو وہ دھونکنی پر جا کر کام شروع کر دیتا۔
پس اگر دوسرے سکولوں کی خواہش ہوئی تو ان کے لیے بھی انتظام کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد میں دوستوں سے خواہش کر تا ہوں کہ وہ مل کر دعا کریں کہ اس ابتدا کو جو بظاہر چھوٹی اور ہیچ معلوم ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ ترقی کی منازل تک پہنچائے اور ہمارے کام کرنے والے لوگ اس رنگ میں کام کریں کہ جہاں وہ دنیا کے لیے بہتری کا موجب ہوں وہاں دین کے لیے بھی بہتری کا باعث بنیں۔میں استادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں میں یہ روح پیدا کریں کہ دنیا کے ساتھ انہیں دین بھی حاصل کرنا ہے۔گویا وہ ’’دست با کار اور دل بایار‘‘کے مصداق بنیں۔شروع سے ہی ان کے اندر یہ روح پیدا کی جائے کہ سلسلہ کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنا اپنے نفسوں کو مارنا اور اپنے پیشوں کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے۔اگر یہ روح ان کے اندر پیدا ہو جائے کہ انہوں نے اپنی اپنی صنعتوں میں غیر ممالک کے صنّاعوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ادھر نیکی اور تقویٰ پر بھی قائم رہنا ہے تب یہ لوگ ہمارے لیے مفید ہو سکتے ہیں ورنہ روٹی کمانے والے تو دنیا میں بہت لوگ ہیں ۔ہماری یہ غرض نہیں کہ صرف روٹی کمانے والے پیدا کیے جائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایسے ہوں جو دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی حاصل کرنے والے ہوں۔ وہ اسلام کی کھوئی ہوئی شوکت کو واپس لانے میں ممد ہوں اور دوسروں کو اس بات کا سبق دے سکیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایک شخص حقیقی مومن ہو سکتاہے اور دنیاکمانے سے اس کا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ ترقی کرتاہے۔‘‘

(ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے۔انوار العلوم جلد14صفحہ205تا215)

ہاتھ سے کام کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍دسمبر1935ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’میں نے قادیان کے متعلق ایک سکیم بھی بنائی تھی جس کے مطابق تحریک جدید کے چندہ کے ایک حصہ کو بطور رأس المال نفع مند کاموں پر لگاکر جو منافع حاصل ہو اس سے اس قسم کے کام جاری کرنے کی تجویز ہے جن میں عورتیں ،نابینا اشخاص اور غرباء بھی حصہ لے سکیں۔مثلاًٹوکریاں بنانا،چکیں بنانا، ازار بند اور پراندے وغیرہ بنانا ۔اسی طرح میرے مدِ نظر اس قسم کے بھی کام ہیں ۔جیسے میز کرسیاں بنانا، لوہے کا کام اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جو دساورکے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں ۔

تجارت کے متعلق مشورہ دیں اور تجربہ سے آگاہ کریں

میں نے تحریک کی تھی کی جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کیے جائیں ۔اس پر بعض دوستوں نے نہایت اعلیٰ مشورے دیے ہیں۔گو اس کے مقابلہ میں بعض تجربہ کاروں نے ایسے بھونڈے مشورے دیے ہیں کہ انہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔لیکن بعض اور دوستوں نے واقع میں ایسے لطیف مشورے دیئے ہیں کہ ان کی بنیاد پر نہایت اعلیٰ کام جاری کیے جا سکتے ہیں ۔میں پھر اس موقع پر تحریک کرتا ہوں کی اگر کسی نے میرا وہ خطبہ نہ پڑھا ہو تو اَب جن جن دوستوں کو ایسے کام معلوم ہوں جنہیں تھوڑے سے روپیہ سے شروع کیا جا سکے اور بے کاری دُور ہو،وہ خطوط کے ذریعہ مجھے اطلاع دے دیں اورجوان کاموں میں مہارت رکھتے ہیں، وہ بھی اپنے تجربہ سے آگاہ کریں……

پیشہ ور لوگ وقف کریں

پانچویں تحریک یہ ہے کہ پیشہ ور لوگ اپنے آپ کو وقف کریں تا انہیں ہندوستان یا ہندوستان سے باہر ایسی جگہ بھیجا جا سکے جہاں وہ تبلیغ بھی کر سکیں اور مالی فائدہ بھی اٹھا سکیں۔ ہمارے ملک کے پیشہ ور عموماً ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں ان کا کام نہیں چلتا۔اگر وہ اپنے آپ کو پیش کریں تو انہیں ایسی جگہوں پر بھیجا جا سکتا ہے جہاں ان کا کام بھی چل سکے اور تبلیغ بھی ہوتی رہے۔ہمارے ملک میں کوئی نظام نہیں،ہر بات لوگ اندھا دھند کریں گے۔اگر ایک گاؤں میں دو لوہاروں کی گنجائش ہے تو اُس جگہ بیس لوہار کام کر رہے ہوں گے،مگر بعض دوسری جگہوں پر جہاں دس یا بیس لوہاروں کی ضرورت ہو گی وہاں ایک لوہار بھی نہ ملے گا۔یہ ایک غلط طریق ہے جس کے ماتحت کام کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزار ہا لوہار،نجار اور دوسرے پیشہ ور بے کار پھرتے ہیں انہیں کوئی کام نہیں ملتا اور جو کام کرتے ہیں وہ بھی تنزّل میں گِرے ہوئے ہیں۔کیونکہ ان کی آمد سے بمشکل ان کا گزارہ ہوتاہے ۔اگر ان میں تقسیم عمل ہوتی تو یہ حالت ہر گز نہ ہوتی۔مثلاًباقی ملکوں میں یہ قاعدہ ہے کہ زمیندار زمین کے مناسب حال اجناس کی کاشت کرتے ہیں اور اگر کوئی زمین بعض اجناس کی کاشت کے لیے نامناسب ہوتی ہے تو ان چیزوں کی کاشت اس میں نہیں کرتے۔لیکن ہمارے زمیندار کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر چیز اپنی زمین میں بونے کی کوشش کرے گا۔دو مرلہ میں موٹھ بو دے گا،دومرلہ میں مسور بو دے گا،کچھ حصہ گندم بو دے گا اور کچھ حصہ میں گنا بو دے گا او رکوشش کرے گا کہ ساری چیزیں اس کے کھیت میں ہو جائیں۔اس کے مقابلہ میں دوسرے ملکوں والے جہاں گنا اچھا ہو گا وہاں گنا بوئیں گے،جہاں گندم اچھی ہو گی وہاں گندم بوئیں گے اور جہاں موٹھ اچھے ہوں گے وہاں موٹھ بوئیں گے اور اس طرح زمین سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کریں گے۔اس کے برخلاف ہمارے ملک کے زمینداروں کے طریق عمل کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غلہ بھی ضائع ہوتا ہے،زمین بھی ضائع ہوتی ہے،وقت بھی ضائع ہوتاہے مگر پھر بھی زمیندار وہی کرتے جا رہے ہیں جس کے عادی ہو چکے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جو تقسیم عمل کے نہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے۔یہی نقص پیشہ وروں کی تقسیم میں بھی ہے اور اس کی وجہ سے بعض علاقوں میں مثلاً لوہار کو دو آنے بھی روزانہ نہیں ملتے لیکن بعض علاقوں میں وہ دو دو روپیہ تک کما لیتے ہیں۔ پس کیوں ہماری جماعت کے پیشہ ور تحریک جدید سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور کیوں ہمارے سامنے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے۔ہمیں ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں نجّاری کا کام بہت اچھا ہو سکتا ہے،ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں معماری کا کام بہت اچھا ہو سکتاہے اور ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں آہن گری کا کام بہت اچھا ہو سکتاہے ۔
بے شک پہلے کام کے چلانے میں کچھ دقتیں واقع ہو ں گی اور لوگ احمدی پیشہ وروں سے کام کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے لیکن آہستہ آہستہ جب ہم نجّاروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں نجّار نہیں ،معماروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں معمار نہیں،حکیموں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں حکیم نہیں اور لوہاروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں لوہار نہیں تو مجبور ہو کر لوگ احمدی پیشہ وروں سے کام کرانے پر آمادہ ہو جائیں گے۔اسی لیے میں نے مختلف اضلاع کی سروے کرائی ہیں اور میں چاہتا ہوں جن اضلاع کی سروے کرائی گئی ہے،ان میں جو لوہار، ترکھان یا پیشہ ور احمدی بے کار ہیں،انہیں پھیلا دوں۔تمام گاؤں کے نقشے ہمارے پاس موجود ہیں اور ہر مقام کی لسٹیں ہمارے پاس ہیں جن سے پتہ لگ سکتاہے کہ ان گاؤں میں پیشہ وروں اور تاجروں کی کیا حالت ہے۔اس ذریعہ سے میں چاہتاہوں کہ اپنی جماعت کے پیشہ ور بے کاروں کو ان علاقوں میں پھیلا دوں۔جہاں لوہارنہیں وہاں لوہار بھجوا دیے جائیں، جہاں معمار نہیں وہاں معمار بٹھا دیے جائیں۔ جہاں حکیم نہیں وہاں حکیم بجھوادیے جائیں۔اس سکیم کے ما تحت اگر ہماری جماعت مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو جہاں ہمارے بہت سے تبلیغی مرکز ان علاقوں میں قائم ہو سکتے ہیں وہاں لوگ بھی مجبور ہوں گے کہ احمدیوں سے کام لیں۔ اس طرح ان کی بے کاری بھی دور ہو گی اور تبلیغی مرکز بھی قائم ہو جائیں گے بلکہ لکھے پڑھے لوگ کئی گاؤں میں مدرسے بھی جاری کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس ایسی بیسیوں لسٹیں موجود ہیں جہاں مدرسوں کی ضرورت ہے یا حکیموں کی ضرورت ہے یا کمپونڈروں کی ضرورت ہے۔مگر انہیں مدرّس،حکیم اور کمپونڈر نہیں ملتے۔اسی طرح ہندوستان سے باہر بھی ہم بعض پیشہ وروں کو بھیجنا چاہتے ہیں جہاں بعض کام عمدگی سے کیے جا سکتے ہیں۔چنانچہ بعض قسم کے پیشہ ور چین میں اچھا کام کر سکتے ہیں۔مثلاً چین کے مغربی حصہ میں پیشہ وروں کی بہت ضرورت ہے۔ اگر وہاں لوہار چلے جائیں تو اعلیٰ درجہ کا کام کر سکتے اور کافی مالی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔علاوہ ازیں اس ذریعہ سے تبلیغ بھی ہوتی رہے گی۔
غرض دنیا کے ایسے حصے جہاں تجارتی کام اعلیٰ پیمانے پر جاری کیے جا سکتے ہیں ہم نے معلوم کیے اور ہر جگہ کے نقشے تیار کیے ہیں۔ان علاقوں میں تھوڑی سی ہمت کر کے ہم بے کاروں کو کام پر لگا سکتے ہیں اور بہت سے تبلیغی سنٹر قائم کر سکتے ہیں اور یہ کام ایسا اعلیٰ ہوا ہے کہ جس کی اہمیت ابھی جماعت کو معلوم نہیں اور گو یہ معلومات کا تما م ذخیرہ ابھی صرف چند کاپیوں میں ہے لیکن یورپ والوں کے سامنے یہ کاپیاں پیش کی جائیں تو وہ ان کے بدلے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔مگر افسوس ابھی ہماری جماعت نے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔اسی طرح میں تجارتی طورپر مختلف مقامات کے نقشے بنوا رہا ہوں اور اس امر کا پتہ لے رہاہوں کہ چین اور جاپان اور دوسرے ممالک کے کس کس حصہ میں کون کون سی صنعت ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی جماعت کے تاجروں یا ان لوگوں کو جو تجارت پیشہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان علاقوں میں پھیلا دیں۔اس کے متعلق بہت سی لطیف معلومات کا ذخیرہ جمع ہو رہا ہے ۔ جو دوست تجارت کے متعلق کوئی مشورہ لینا چاہیں وہ مشورہ کر لیں۔جب موقع آئے گا انہیں کسی موزوں علاقہ میں تجارت کے لیے بھیج دیا جائے گااور اگر معلوم ہوگا کہ وہ دیانتداری سے کام کرنے والے ہیں تو شروع میں ایک قلیل رقم بطور امداد بھی دی جا سکے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ جائیداد ہو جس کی ضمانت پر اسے روپیہ دیا جا سکے۔تا اگر کوئی روپیہ کھا جائے تو اس کی واپسی کا انتظام ہو سکے اور دوسری شرط یہ ہے کہ سینکڑوں یا ہزاروں کی رقم کا مطالبہ نہ ہو۔‘‘

(تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت۔انوار العلوم جلد14صفحہ144تا148)

بیکاری کام کرنے کی رو ح کو کچل دیتی ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍مئی1935ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’ایک نصیحت ترک بے کاری کے متعلق تھی۔اس پر بھی بہت کم عمل کیا گیا ہے اور بہت کم ہمت دکھائی گئی ہے۔جھوٹی نام و نمود کی قربانی بہت مشکل ہوتی ہے ۔تعلیم یافتہ بے کار یہ ہمت نہیں کرتے کہ ’’الفضل‘‘کے پرچے بغل میں دبا کر بیچتے پھریں۔میں امید کرتاہوں کہ نوجوان اس مرض کو دور کریں گے اور والدین بھی اپنی اولا د سے اس مرض کو دور کرانے کی کوشش کریں گے۔یہ مرض قوم کی کام کرنے کی روح کو کچل دیتا ہے۔پھر میں نے ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت کی تھی،اس کی طرف بھی کم توجہ کی گئی ہے۔میں نے کہا تھا کہ اگر قادیان کی جماعت کوئی ایسے کام پیدا کرے تو میں بھی دوستوں کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہوں گا لیکن ابھی تک کوئی ایسا کام پیدا نہیں کیا گیا۔‘‘

(احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہر گز کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے۔انوار العلوم جلد 14صفحہ21،22)

ماں باپ سنگدل بن کر بیکار بچوں کو کام پر لگائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1934ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں تحریک جدید کے مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ احباب کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں،سادہ کھانا کھائیں،سادہ کپڑا پہنیں،دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں،کوئی احمدی بیکار نہ رہے۔ اگر کسی کو جھاڑودینے کا کام ملے تو وہ بھی کرلے اس میں بھی فائدہ ہے۔بہر حال کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔اس کے جو فوائد ہیں وہ میں اس وقت نہیں بیان کر سکتا کیونکہ وقت تھوڑا ہے مگر یہ ضرور کہتاہوں کہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بے کار نہ رہے۔ماں باپ سنگدل بن کر اپنے بیکار لڑکوں سے کہہ دیں کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا ہے اب تم جوان ہو جاؤ اور خود کما کر کھاؤ۔ بے شک یہ سنگدلی ہے مگر اس پیار اور محبت سے ہزار درجہ بہتر ہے جو بے کاری میں مبتلا رکھتی ہے……

اخبارات فروخت کریں

میں نے کئی بار اخبارات کی ایجنسیاں قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔اگراحباب کوشش کریں تو اس طرح ہزاروں کی تعداد میں پرچے نکل سکتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح مہینہ میں روپیہ ڈیرھ روپیہ سے زائد آمد نہیں ہو سکتی مگر میں کہتاہوں کہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ صفر سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے اور آج کل تو اس سے ایک شخص ایک مہینہ تک کھانا کھا سکتاہے۔پس میں تمام جماعتوں کو ہدایت دیتاہوں کہ اپنی اپنی جگہ کے بے کاروں یا ان کو جنہیں اپنے دوسرے کاموں سے فرصت مل سکتی ہے اخبارات فروخت کرنے کے کام پر لگادیں۔غر ض ہر رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر احیا چاہتے ہوتو دنیا میں پھیل جاؤ

میں تمہیں ایک طرف تو یہ کہتاہوں کہ جاؤ نکل کر تمام دنیا میں پھیل جاؤ اور دوسری طرف یہ کہتاہوں کہ جب تمہیں مرکز سلسلہ سے آواز آئے کہ آجاؤ تو لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جاؤ یہ آنا جسمانی طورپر بھی ہو سکتاہے اور روحانی ،اخلاقی اور مالی طورپر بھی۔……
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام چونکہ ابراہیم رکھا گیا ہے اس لیے آپ سب لو گ ان کے پرندے ہوئے۔پس اے ابراہیم ثانی کے پرندو!اگر احیاء چاہتے ہوتو دنیا میں پھیل جاؤ مگر اس طرح نہیں کہ اپنے اصل گھر کو بھول جاؤ تمہارا اصل گھر قادیان ہی ہے خواہ تم کہیں رہتے ہواسے یاد رکھو۔جب تمہیں ابراہیمی آواز آئے،قادیان سے خدا کا نمائندہ،مَیں یا کوئی اور جب کہے کہ اے احمدیو!خد اکے دین کو تمہاری اس وقت ضرورت ہے تم جہاں جہاں ہو مرکز میں حاضر ہوجاؤ۔اگر مال کی ضرورت ہو تو مال حاضر کرو،اگر جان کی ضرورت ہوتو جان پیش کردو اور چاروں طرف سے وہی نظارہ نظر آئے جو حج کے موقع پر ہر طرف سے’’ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ ‘‘کہنے والوں کا نظر آتاہے۔خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ تمہاری نسل چاروں طرف پھیل جائے گی اور جب تم ان کو بلاؤ گے تو دوڑیں آئیں گے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعلق ہونا چاہیے کہ چاروں طرف سے لبیک کہنے والے دوڑے آئیں۔اس نظارہ ہی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ

زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے

پس جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ کہ کامیابی کا ذریعہ یہی ہے اور جب آواز پہنچے تو یوں جمع ہو جاؤ جس طرح پرندے اُڑ کر جمع ہو جاتے ہیں۔پھر خواہ کتنی بڑی کوئی فرعونی طاقت تمہارے مٹانے کے لیے کھڑی ہو جائے اسے معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کو مٹانا آسان نہیں ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی میں آپ لوگوں سے اُمید کرتاہوں کیونکہ آپ وہ لوگ ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے حقیقی ایمان پیدا کیا اور جو مقدس گھر کے گرد گھومنے والے پرندے ہیں۔میں نے خدا تعالیٰ کی باتیں آپ کو پہنچا دیں جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اورجو کچھ بتانا تھا بتادیا۔اب یہ تمہار ا کام ہے کہ

’’ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ ‘‘

کہتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘

(حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات۔انوارالعلوم جلد13صفحہ536تا539)

عورتیں بھی ہاتھ سے چیزیں بنائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1934ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’زمیندار عورتیں بھی اپنے کام کاج کرنے کے درمیان میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ وقت نکال لیں اور چھِکو اور ٹوکریاں ہی بنالیں تو آنہ دوآنہ ضرور کما سکتی ہیں اور بڑی بڑی ہُنر والیاں بیس تیس روپے ماہوار تک کما سکتی ہیں۔لیکن میں نے چونکہ آجکل حکم دیا ہے کہ آرائش نہ کرو اس لیے ایسی سادہ چیزیں بنائیں مثلاً پراندے،اِزار بند۔آئندہ کے لیے میں تجویز کرتا ہوں 1936ء فروری سے نمائش ہوا کرے اور اس میں سب جگہ کی عورتیں چیزیں بھیجا کریں وہاں یہ چیزیں بِک سکتی ہیں اور یہ لاہور میں نمائش ہو۔اس میں ہر جگہ کی عورتیں شامل ہوں۔‘‘

(مستورات سے خطاب۔انوار العلوم جلد 13صفحہ500)

تجارت میں باہمی تعاون ضروری ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1933ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’ہمارایہ عام طریق ہے اور ہر مخلص احمدی کا یہ طریق ہونا چاہیے کہ جماعت کے دوستوں سے تعاون کیا جائے اس لیے تمام وہ دوست جو تاجرہوں دواؤں کے یا سٹیشنری کے یا اور چیزوں کے یا صنعت و حرفت کا کام کرتے ہوں جن بھائیوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہو اور جو چیزیں اپنے بھائیوں سے میسر آسکیں وہ ان سے خرید کر ان کی مدد کرنی چاہیے۔پھر جو چیزیں احمدیوں سے میسر نہ آسکتی ہوں مگر دوسرے مسلمانوں سے مل سکتی ہوں اُن سے حاصل کریں۔پھر جو چیزیں اُن سے بھی نہ مل سکیں اور غیر مسلموں سے مل سکتی ہوں وہ ایسے غیر مسلموں سے خریدی جائیں جو جماعت کی مخالفت کرنے والے نہ ہوں بلکہ جماعت سے اچھے تعلقات رکھتے ہوں۔غرض ہمارا عام طریق یہی ہونا چاہیے کہ ہمارا روپیہ اس طرح خرچ ہو کہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اسلام کو پہنچ سکے اور اس کے لیے یہی طریق ہو سکتاہے کہ ہم جو ضروریات پر روپیہ خرچ کریں وہ ان لوگوں کے پاس جائے جو خدمتِ دین کے لیے چندے دیتے ہوں یا کم از کم ایسے ہاتھوں میں نہ جائے جو اسلام کی مخالفت کرنے والے ہوں یا کم از کم ایسے لوگوں کے پاس نہ جائے جو ہماری سیاسی طورپر مخالفت کرنے والے ہوں۔‘‘

(اہم اور ضروری امور۔انوار العلوم جلد 13صفحہ317،318 )

چھوٹے چھوٹے سرمایہ سے کام شروع کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1932ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ مسلمان تجارت کرنا نہیں جانتے۔ وہ بڑا سرمایہ چاہتے ہیں نہ انہیں وہ مل سکتا ہے اور نہ کام کر سکتے ہیں لیکن ہندو تھوڑے سے تھوڑے سرمایہ سے تجارت شروع کر دیتے ہیں اور پھر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے اس طریق عمل کی اصلاح کرنی چاہیے اپنا رویہ بدلنا چاہیے اور ہر حال میں بیکاری سے بچنا چاہیے۔ میرے نزدیک بیکار رہنا خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ ایک سال بھی جو بیکار رہااسے اگر کوئی عمدہ ملازمت مل جائے تو بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکے گا کیونکہ بیکاری کی زندگی انسان کو بالکل نکما کر دیتی ہے اور کوئی کام کرنے کی ہمت باقی نہیں چھوڑتی ۔اس حالت سے بچنے کے لیے چاہیے کہ خواہ کوئی بی اے ہو یا ایم اے ، ایل ایل بی ہو یا بیرسٹر ہو یا ولایت کی کوئی اور ڈگری رکھتا ہو اگر اسے کوئی ملازمت نہیں ملتی یا حسب منشا کام نہیں ملتا تو وہ معمولی سے معمولی کام حتیٰ کہ ایک جگہ سے مٹی اُٹھا کر دوسری جگہ پھینکنا ہی شروع کر دے لیکن بیکار اور نکما ہر گز نہ رہے۔اگر وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھے گا خواہ وہ کام کتنا ہی معمولی ہو تو اس سے اُمید کی جا سکے گی کہ مفید کام کر سکے گا۔

کسی کو بیکار نہ رہنے دیں

پس میں دوستوں کو نصیحت کر تا ہوں کہ اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کے متعلق تحقیقات کریں کہ ان میں سے کتنے بیکار ہیں اور پھر انہیں مجبو رکریں کہ وہ کوئی نہ کوئی کام کیا کریں۔لیکن اگر وہ کوئی کام نہ کر سکیں تو انہیں قادیان بھیج دیا جائے تاکہ یہاں آکر وہ آنریری کام کریں جب تک یہ حالت نہ ہو کہ ہماری جماعت کا کوئی انسان بیکار نہ ہو اس وقت تک جماعت کی اقتصادی حالت درست نہ ہو گی۔

مسلمانوں کے بزرگوں کا طریق عمل

کسی شخص کو کوئی کام کرنے میں کسی قسم کی عار نہیں ہونی چاہیے ۔مسلمانوں میں یہ کتنی خوبی کی بات تھی کہ ان کے بڑے بڑے بزرگوں کے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ رسی بٹنے والایا ٹوکریاں بنانے والا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علماء اور امام عملاً کام کرتے تھے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔میں نے ایک دفعہ تجویز کی تھی کہ ایک کلب بنائی جائے جس کا کوئی ممبر راج کا ،کوئی معمار کا، کوئی لوہار کا کام کرے تاکہ اس قسم کے کام کرنے میں جو عار سمجھی جاتی ہے وہ لوگوں کے دلوں سے نکل جائے اب بھی میراخیال ہے کہ اس قسم کی تجویز کی جائے ۔

دوسروں کی امداد کرو

پھر جہاں میں یہ کہتا ہو ں کہ ہماری جماعت کاہر ایک فر د کام کرے جو بیکار ہے وہ اپنے لیے کام تلاش کرے اگر کوئی اعلیٰ درجے کا کام نہیں ملتا تو ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے میں بھی عار نہ سمجھے۔اگر دوست ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ جماعت میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جائے گی کہ کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔وہاں دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے جولوگ ملازم ہیں انہیں چاہیے کہ دوسروں کو ملازم کرائیں،جو تاجر ہیں انہیں چاہیے دوسروں کو تجارت کرنا سکھائیں، جو پیشہ ور ہیں انہیں چاہیے دوسروں کو اپنے پیشہ کاکام سکھائیں۔یہ صرف دنیوی طور پر عمدہ اور مفید کام نہ ہو گابلکہ دینی خدمت بھی ہو گی اور بہت بڑے ثواب کا موجب ہو گا۔

نقصان سے بچانے کا ایک طریق

ایک طریق کام چلانے کا وہ بھی ہے جو بوہروں میں رائج ہے ۔ان میں سے اگر کوئی بیکار ہو جائے۔ تجارت نہ چلتی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو بوہرے اس طرح کرتے ہیں کہ پنچائت کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں فلاں چیز فلاں کے سوا اور کوئی نہ بیچے۔دوسرے دکاندار وہ مال اسے دے دیں گے۔مثلاً دیا سلائی کی ڈبیاں ہیں ۔جب یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ فلاں کے سوا اور کوئی دیا سلائی کی ڈبیاں نہ بیچے تو جتنے بوہروں کے پاس یہ مال ہو گاوہ سب اس کو دے دیں گے۔اس طرح اس کا کام چل جاتاہے۔مگر اس کے لیے بڑی جماعت کی ضرورت ہے ۔جہاں چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہوں وہ اس طرح کر سکتی ہیں کہ ایک دوکان کھلوا دی جائے اور یہ عہد کر لیا جائے کہ تکلیف اٹھا کر بھی سب کے سب اسی سے سودا خریدیں گے۔مسلمانو ں میں تجارت کبھی ترقی نہ کر سکے گی جب تک وہ اس قسم کی پابندی اپنے اوپر عائد نہ کریں گے۔ہماری جماعت اگر اس طریق کو چلائے تو بیسیوں لوگ تاجر بن سکتے ہیں۔

اشیائے ضرورت اپنوں سے خریدیں

پھر قومی نقطۂ نگاہ سے بھی اپنی اقتصادی حالت کا اندازہ کرنا چاہیے اس کے متعلق پہلی نصیحت میں نے یہ کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے مسلمان اپنی ضروریات کی چیزیں مسلمان دکانداروں سے خریدیں اور کھانے پینے کی چیزیں جو ہندو کسی مسلمان سے نہیں خریدتے وہ تو قطعاً مسلمانوں کو ہندوؤں سے نہ خریدنی چاہییں۔یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ وہ چیزیں جو مسلمان کا ہاتھ لگ جانے کی وجہ سے ہندوؤں کے نزدیک ناپاک ہو جاتی ہیں،وہ مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی خرید کر استعمال کریں۔کئی دوست اس تحریک پر عمل کرتے ہیں مگر کئی نہیں بھی کرتے اور دوسرے مسلمان تو بالکل بھی نہیں کرتے۔ہماری جماعت کے جو دوست اس پر عمل نہیں کرتے وہ خود عمل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو عمل کرنے کی تحریک کریں اور جہاں جہاں مسلمانوں کی دکانیں نہیں ہیں،وہاں احمدیوں کی دکانیں کھلوادیں اور ان کی مدد اس طرح کریں کہ ضروریات کی چیزیں انہی سے خریدیں۔

مشترکہ سرمایہ سے تجارت

دوسرا طریق یہ ہے کہ مشترک سرمایہ سے کام کیا جائے وہ کام جو افراد نہیں کر سکتے،قوم کر سکتی ہے۔اس سلسلہ میں میں نے مجلس شوریٰ میں یہ تجویز منظور کی تھی کہ جرابیں وغیرہ بُننے کے لیے کمپنی بنائی جائے۔ اس کے کچھ حصے قادیان اور باہر کے لوگوں نے خریدے ہیں۔لیکن کام شروع کرنے کے لیے کم از کم بائیس ہزار روپیہ ضروری ہے۔افسوس کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ حالانکہ مجلس مشاورت میں شریک ہونے والے دوست یہ عہد کر کے گئے تھے کہ ہم اس کمپنی کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں گے اور میں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اس کمپنی کی جرابیں پورے سائز کی نہ ہو ں گی تو خواہ وہ کتنی ہی خراب ہوں ہم وہی پہنیں گے اور ان پر اعلیٰ درجہ کی جرابوں کو ترجیح نہ دیں گے۔ تمام جماعتوں کو چاہیے کہ اس ہوزری فیکٹری کے حصے خریدیں۔ اس رنگ میں عمدگی سے تجارتی کام چلایا جا سکتاہے ۔ہوزری کے کام کو اس لیے چُنا گیا ہے کہ یہ تھوڑے سرمایہ سے چلایا جا سکتاہے۔ جب یہ تجویز کی گئی تھی اس وقت بارہ ہزار سرمایہ کی ضرورت تھی لیکن اب بائیس ہزار کی ہے اور اگر اب بھی کام نہ چلایا گیا تو ممکن ہے پھرپچاس ہزار کی ضرورت پیش آئے۔اگر سرمایہ زیادہ ہو جائے تو اس کام کو اور زیادہ بڑھا یا جا سکتاہے یعنی بُنیانیں اور کپڑا بُننے کا کا م شروع کیا جاسکتاہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کا مسلمانوں کے لیے درد

اس وقت مسلمانوں میں بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اوروہ اُبھرنا چاہتے ہیں مگر ہندوؤں نے تجارت کا ایک ایسا حلقہ قائم کر رکھا ہے کہ مسلمان اُبھر نہیں سکتے۔ہماری جماعت کو خدا نے موقع دیا ہے کہ ہم اپنی تنظیم کے ذریعہ ابھر سکتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو سہارا دے کر کھڑا کر سکتے ہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو اقتصادی طور پر جو کُچلا جا رہا ہے اس کا انسداد ہو جائے، مسلمان محفوظ ہو جائیں اور ارتداد کے گڑھے میں نہ گریں۔ اس کے علاوہ کئی ادنیٰ اقوام مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ کام دو۔ ہم کام کہاں سے دیں جب تک قومی طورپر کام شروع نہ کیے جائیں۔……

نقصان سے مایوس نہیں ہونا چاہیے

ہمارا فرض ہے کہ جماعت کی چاردیواری کو ہر طرف سے مضبوط کریں۔اس کی ایک طرف کی دیوار اقتصادی حالت ہے اسے اگر مضبوط نہ کیا جائے تو سخت نقصان ہو گا۔فی الحال جو چھوٹا سا کام شروع کرنے کی تجویز ہے اس میں احباب کو شرکت اختیار کرنی چاہیے۔جب ہم اس کام میں روپیہ اس نیت سے لگا رہے ہیں کہ جماعت کی طاقت اور قوت بڑھے،جو بے کار لوگ ہیں وہ کام پر لگ جائیں،مسلمانوں کی اقتصادی حالت درست ہو سکے،اچھوت اقوام میں تبلیغ کر سکیں تو انشاء اﷲ اس کمپنی کو کسی صورت میں بھی نقصان نہیں ہوگااور اگر خدا نخواستہ مالی لحاظ سے نقصان ہو تو خدا تعالیٰ دوسری طرح اسے پورا کر دے گا۔بعض لوگ سٹور کے فیل ہونے سے ڈرے ہوئے ہیں۔مگر وہ منافع کے لیے کام شروع کیا گیا تھا اوراب جو کام شروع کیا جانے والا ہے اس کی غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترقی حاصل ہو اور اقتصادی پہلو سے ان کی حفاظت کر سکیں۔پھر ترقی کرنے والی قوم کو اس طرح کی باتوں سے ڈرنا نہیں چاہیے کہ فلاں کام میں نقصان ہو گیا تھا اس قسم کا ڈر ترقی کے رستہ میں بہت بڑی روک ہے۔انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی توپہلے اس میں گھاٹا پڑتا رہا مگر انہوں نے استقلال کے ساتھ کام جاری رکھا آخر ہندوستان کی بادشاہت انہیں مل گئی۔غرض قومی طور پر جو کام شروع کیا جائے وہ گو ابتدا میں معمولی نظر آئے،اس میں مشکلات ہوں،اس میں نقصان اٹھانا پڑے لیکن اگر قوم ہمت اور استقلال سے اسے جاری رکھے تو آخر کار عظیم الشان نتائج رونما ہوتے ہیں۔ ہماری جماعت کو ایسی ہی ہمت دکھانی چاہیے۔……

اپنے مال کاذراسا نقص بھی بتاناچاہیے

مال میں خواہ ذرا سا بھی نقص ہو،تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو بتا دے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔ اس طرح نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی رہتاہے۔جب انسان دھوکہ کی چیز بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تو مال خریدتے وقت خود بھی احتیاط نہیں کرتا لیکن اگر ناقص چیز گاہک اس سے نہ خریدے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی پڑے گی ۔پھر معاملہ کی صفائی سے ایک قومی کریکٹر بنتاہے جو ساری قوم کے لیے نہایت مفید ہوتاہے۔‘‘

(بعض اہم اور ضروری امور۔انوار العلوم جلد 12صفحہ583تا602)

اقتصادی ترقی کی ایک سکیم

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1931ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’ایک اور سکیم اقتصادی ترقی کے لیے بنائی گئی تھی۔مجلس شوریٰ کے موقع پر میں نے تحریک کی تھی۔ اس پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تجویز کی تھی کہ ہوزری فیکٹری بنائی جائے جس کے لیے حصے فروخت کر کے سرمایہ جمع کیا جائے۔اسے مجلس شوریٰ نے پسند کیا تھا یہ اب بن گئی ہے اور رجسٹری کے لیے کاغذات گئے ہوئے ہیں۔ عنقریب اس کاکام شروع ہو جائے گا۔اس کے متعلق مجلس شوریٰ میں شامل ہونے والے دوستوں نے بشمولیت میرے یہ اقرار کیا تھا کہ جو چیزیں یہ فیکٹری بنائے گی اسی سے خریدیں گے اس طرح اس کے گاہکوں کی تعداد مستقل پیدا ہو جائے گی۔مگر شرط یہ ہو گی کہ مطلوبہ سائز کی اشیاء مہیا ہوں یہ نہیں کہ چھوٹے سائز کی چیزیں ہوں یا چاہے جرابیں تین تین انچ لٹکتی رہیں گی تو بھی اس کی پہنیں گے۔اس کا جب اعلان ہو تو میں امید کرتاہوں کہ جو دوست ایک یا زیادہ حصے لے سکتے ہیں وہ ضرورلیں گے۔اس کے حصہ کی شرح دس روپے فی حصہ ہے اور ایک شخص دس،بیس،سو حصے خرید سکتاہے ۔اس سکیم کے متعلق مفصل اطلاع بیت المال سے حاصل کی جائے۔اس سے بھی قادیان کی ترقی ہو سکتی ہے۔‘‘

(بعض ضروری امور۔انوار العلوم جلد 12صفحہ409)

تجارت کی ترقی باہمی تعاون سے مشروط ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ28؍دسمبر1930ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’دنیوی ترقی کے لیے بہترین چیز تعاون ہے۔یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی۔لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے۔جب سارا یورپ اکٹھا ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے۔اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو۔ اس کاجو نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہے۔پس تعاون سے جو نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے۔اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لیے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتاہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے۔ اس لیے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے اس کے لیے سرِدست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں۔اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتاہے ۔مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان،آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتاہے اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتاہے۔سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں۔اس لیے اس سال کے لیے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحبِ رسوخ ہوں ، سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں،کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں،کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں۔وہ یہ مدنظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے۔میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنا لیں۔جس کے صرف وہی حصہ دارہوں جو یہ کاروبار کرتے ہیں تاکہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے۔اس وقت مَیں صرف یہ تحریک کرتا ہوں۔ جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کرلیں گے،اس وقت اخبار میں مَیں اعلان کر دوں گا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے۔اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتاہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہو گی۔

تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز

اس طرح ایک کمپنی تعاون کرنے والی قائم کرنی چاہیے جس میں تاجر،زمیندار اوردوسرے لوگ بھی شامل ہوں۔میں نے اس کے لیے کچھ قواعد تجویز کیے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفراﷲ خان صاحب نے پسند کیا تھا۔ اب ان کو شائع کر دیا جائے گا۔یہ اس قسم کی کمپنی ہو گی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لیے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے۔اس طرح جو روپیہ جمع ہو گا اُس سے رہن با قبضہ جائیداد خریدی جائے گی۔اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لیے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن باقبضہ جائیداد خرید لی جائے گی۔جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتاہے ۔اس طرح جو نفع حاصل ہو گا اس کا نصف یا ثُلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا۔جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہو گی۔میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتاہوں۔پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی۔دوست اس کے لیے تیاری کررکھیں۔‘‘

(فضائل ِقرآن(۳)۔انوار العلوم جلد 11صفحہ559تا561)

سستی اور کاہلی کو دور کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1927ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’جماعت میں سے سستی اور کاہلی کو دور کیا جائے۔سستی سے قوموں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ اسلامی طریق یہ ہے کہ کسی کو بے کار نہیں رہنے دینا چاہیے۔سیکرٹری صاحبان اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی احمدی بے کار نہ رہے جن کو کوئی کام نہ ملے انہیں مختلف پیشے سکھلا دیے جائیں۔اگر کوئی شخص مہینہ میں دو روپیہ ہی کما سکتاہے تو وہ اتنا ہی کمائے کیونکہ بالکل خالی رہنے سے کچھ نہ کچھ کما لینا ہی اچھا ہے۔دیکھو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کس شان کے انسان تھے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گھاس کاٹ کر لاتے اور اسے فروخت کرتے تھے۔تو کوئی کام جس سے کسب حلال ہو کر نے میں عار نہیں ہونی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی احمدی بیکار اور سست نہ ہو……

اقتصادی ترقی کی جان

اس سال جو تحریکیں کی گئیں ان میں سے ایک کے متعلق آئندہ کے لیے بھی خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ تحریک چھوت چھات کی ہے۔اس کے متعلق میں نے عورتوں میں بھی بہت زور دیا ہے اور اب آپ لوگوں کے سامنے بھی اس کا ذکر کرتاہوں۔یہ تحریک مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کی جان ہے۔علاوہ ازیں مذہبی طور پر بھی یہ بڑااثر رکھتی ہے۔ ملکانوں میں ایک بہت بڑا ظلم ہندو پرچارکوں نے یہ بھی کیا کہ وہ انہیں بتاتے تھے کہ دیکھو مسلمان ہم سے ادنیٰ ہیں اور ہم ان سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ہم ان کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی چیز نہیں کھاتے مگر وہ ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھالیتے ہیں ۔اس پر ہزاروں ملکانے اس لیے مرتد ہوگئے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر اعلیٰ ہو جائیں گے۔مسلمانوں نے سات سو سال تک ہندوؤں کا لحاظ کیا ۔مسلمان جب بادشاہ تھے اُس وقت بھی انہوں نے درگزر کیا اور کہا ہندو اگران کے ہاتھ کا نہیں کھاتے تو نہ کھائیں مگر اب مسلمان ہندوؤں کے اس طرز عمل کی وجہ سے قلاش ہو گئے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسلام کی خدمت کے لیے پچیس لاکھ روپیہ بھی جمع نہیں ہو سکتا۔کیوں؟اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس روپیہ ہے نہیں۔مسلمانوں میں کئی لوگ لاکھوں ہزاروں کی جائیدادیں رکھنے والے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کے مقروض ہیں پس جب کہ مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہندو چھوت چھات کی وجہ سے اپنی برتری جتلا کر ناواقف اور جاہل مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ مسلمان اس طرف متوجہ ہوں۔پس میں دوستوں سے امید کرتاہوں کہ وہ اس تحریک کو خصوصیت سے جاری رکھیں گے اور ہر جگہ ہر مسلمان کے کان میں یہ بات ڈال دیں گے کہ اس تحریک پر عمل کرنے سے تمہار اہی فائدہ ہے۔ہماری جماعت میں تو تاجر پیشہ لوگ بہت کم ہیں زمیندار اور ملازمت پیشہ زیادہ ہیں اس وجہ سے چھوت چھات کی تحریک کے کامیاب ہونے پر دوسرے مسلمانوں کو ہی فائدہ ہو گا۔ کم از کم تین چار کروڑ روپیہ سالانہ مسلمانوں کا اس تحریک پر عمل کرنے سے بچ سکتاہے اور مسلمانوں جیسی کنگال قوم کے لیے اتنا روپیہ بچنا بہت بڑی بات ہے۔میں نے عورتوں کو بتایا تھا کہ یہاں قادیان میں مسلمان مٹھائی والا کوئی نہ تھا اس لیے ہم نے مٹھائی خریدنا بند کر دیااور سات سال تک یہ بندش رہی۔ یہ بتا کر میں نے ان کو یقین دلایا کہ اتنا عرصہ میں کوئی ایک آدمی بھی مٹھائی نہ خریدنے کی وجہ سے نہ مرا۔نہ ہمارے بچوں کی صحت کو اور نہ ہماری صحت کوکوئی نقصان پہنچا۔بلکہ فائدہ ہی ہوا کہ پیسے بچ گئے۔میں سمجھ نہیں سکتا کھانے پینے کی چیزیں غیر مسلموں سے نہ خریدنے میں کون سی مصیبت آجاتی ہے۔پوری کچوری نہ کھائی روٹی کھالی۔ کیا ہندوؤں کی بنائی ہوئی کچوری میں اتنا مزا ہے کہ بے شک دین جائے غیرت جائے مگر پوری کچور ی نہ جائے۔میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خصوصیت سے یہ تحریک کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی چھوئی ہوئی چیزیں اس وقت تک نہ کھانی چاہییں جب تک ہندو بھی علی الاعلان عام مجلسوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے لے کر وہ چیزیں نہ کھائیں۔ہم ضدی نہیں، ہم کسی کے دشمن نہیں،ہم بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنا مال بچانا چاہتے ہیں اپنی قوم کو بچانا چاہتے ہیں۔چاہیے تو یہ کہ جس طرح ہندو مسلمانوں سے سات سو سال تک کھانے پینے کی چیزیں نہیں لیتے رہے اس طرح مسلمان بھی سات سو سال تک ان سے نہ لیں اور ہندو مسلمانوں سے لیتے رہیں تب مساوات ہو گی مگر ہم یہ کہتے ہیں جس طرح ہندو مسلمانوں سے نہیں خریدتے اسی طرح مسلمان بھی نہ خریدیں ۔اس طرح ایک لاکھ مسلمانوں کے لیے کاروبار نکل آئے گا اور اتنے خاندان چل سکیں گے۔
ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس تحریک پر عمل کرنا چاہیے اور دوسرے لوگوں سے کرانا چاہیے۔ یہ ہمارے فائدہ کی بات نہیں اگر وہ عمل کریں گے تو ہم پر احسان نہیں کریں گے انہی کو فائدہ پہنچے گا۔

مسلمانوں کے آپس میں تعاون کی ضرورت ہے

ایک اور بات جو اس سال کے پروگرام میں رکھنی چاہیے وہ مسلمانوں کا آپس میں تعاون ہے یعنی جہاں مسلمان سودا بیچنے والے ہوں وہاں ان سے خرید ا جائے۔ میں نے دیکھا ہے اس سال کی تحریک کے ماتحت سینکڑوں نہیں ہزاروں دکانیں نکلیں۔ ایک دوست نے بتایا ایک جگہ مسلمانوں کے دکانیں کھولنے کی وجہ سے 35ہندودکانوں کا دیوالیہ نکل گیا او ر ایک کارخانہ فیل ہو گیا جو ایک مسلمان نے خرید لیا۔ایک جگہ کے دوست سے معلوم ہوا کہ ایک شہر میں ایک دکاندار کو جب معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہے تو اس نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ کی جماعت کی مہربانی ہے کہ ہماری دکانیں بھی اب چلنے لگی ہیں پہلے کچھ بِکری نہ ہوتی تھی مگر اب خوب ہوتی ہے ۔پس مسلمان دکانداروں کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہیے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کا بائیکاٹ کیا جائے بائیکاٹ کرنا ناجائز ہے اور بائیکاٹ کے یہ معنی ہیں کہ کسی صورت میں بھی ان سے کچھ نہیں خریدنا۔مگر جہاں مسلمان دکاندار نہ ہوں وہاں ہندوؤں سے ضرورت کی اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔یا جو چیزیں مسلمانوں کے پاس نہ ہوں وہ ہندوؤں سے لی جا سکتی ہیں مگر تعجب ہے مسلمانوں کو بائیکاٹ کا لفظ ایسا پسند آیا ہوا ہے کہ بائیکاٹ کرتے تو نہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔
میں جب اس سال شملہ گیا تو گورنر صاحب پنجاب سے میرا ملنے کا ارادہ نہ تھا مگر چیف سیکرٹری صاحب گورنر پنجاب کی چٹھی آئی کہ واپس جانے سے پہلے گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں۔میں جب ان سے ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے چھوٹتے ہی تحریک چھوت چھات کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہاکہ آپ کی جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک شروع کر رکھی ہے میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے نہ ہم نے بائیکاٹ کرنے کے لیے کہااور نہ ہماری جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک کی۔ہم نے جو کچھ کہا وہ صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تاکہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے۔آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد گورنر صاحب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ بائیکاٹ نہیں ہے اور اس تحریک میں کوئی حرج نہیں۔پس یاد رکھو بائیکاٹ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔یہ نہ شرعاًجائز ہے نہ قانوناً نہ عدلاً اور جب کہ مسلمان بائیکاٹ کر ہی نہیں رہے تو اس لفظ کو کیوں استعمال کرتے ہیں۔جو کچھ کرنا چاہیے وہ اپنے بھائیوں کا تعاون اور امداد ہے اوراس سے کوئی گورنمنٹ روک نہیں سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں نکالیں وہاں ہندوؤں نے شور مچا دیا کہ مسلمان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدتے اور گورنمنٹ کو لکھا کہ اس قسم کی تحریک جاری کرکے منافرت پیدا کی جا رہی ہے۔میرے سامنے یہاں کے لوگوں نے یہ بات پیش کی میں نے انہیں کہا تم بھی کیوں اس قسم کی درخواستیں گورنمنٹ کو نہیں بھیجتے کہ ہندو ہماری دکانوں سے کچھ نہیں خریدتے۔آخر تمہیں گورنمنٹ اس کا کوئی جواب دے گی اگر وہ یہ جواب دے کہ ہندو چونکہ مسلمان کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لیے نہیں خریدتے تو تم بھی یہی جواب دے سکتے ہو کہ ہم بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لیے نہیں خریدتے تو جہاں مسلمانوں کی دکانیں نکلیں وہ اس قسم کی درخواستیں حکام کو ضرور بھیجیں۔اس طرح ہندوؤں کی درخواستوں کا جواب خود بخود ہوجائے گا۔

تجارت میں ترقی کا ایک طریق

تجارت میں ترقی کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت فیصلہ کرے کہ فلاں چیز اپنی جماعت کے لوگوں کی ساختہ ہی لیں گے ۔مثلاً جرابیں اپنی جماعت کی بنائی ہوئی یا ان لوگوں کی بنائی ہوئی جو اس تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اور ہمارے ساتھ تعاون کریں گے ان سے لیں گے۔تین سال تک اگر یہی طریق جاری رکھا جائے تو اس چیز کے فروخت کرنے والے تاجر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اورپھر بغیر خاص مدد کے دوسروں کو زِک دے سکتے ہیں۔‘‘

(تقریر دلپذیر۔انوار العلوم جلد 10صفحہ97تا103)

کوئی بیکار نہ رہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ11؍ستمبر1927ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’گیارہویں چیز جس کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی بے کار اور نکما نہ ہو۔قوم کا ایک فرد بھی اگر نکما ہوتو یہ مصیبت ہے اور جہاں قریباً سب ہی بے کار ہوں اس مصیبت کا اندازہ کون کرے۔
حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اگری(ایک قسم کی گھاس)کی جھولی لیے جا رہا ہے۔آپ نے اسے چھین لیا اور کہا جاؤ جا کر کام کرو۔مگر آج جو حالت ہے وہ تم سے پوشیدہ نہیں۔
قوموں میں تمدنی اور اقتصادی جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔اگر نکمے ہوں تو وہ اس مقابلہ میں کیا کریں گے۔اس ملک میں ہندو،سکھ اور اچھوت24کروڑ ہیں۔مسلمان7کروڑ۔اگر نکمے ہوں تو اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے ۔یہ چیزیں ہیں جو اخلاق کی مضبوطی کے لیے ضروری ہیں۔ جب تک کسی شخص اور قوم میں یہ نہ پائی جاویں اخلاقی مضبوطی اس میں پیدا نہیں ہو سکتی۔

ہر شعبہ کے ماہر ہمارے پاس ہوں

اب پھر میں انفرادی ذمہ داریوں کے سلسلہ کی طرف آتاہوں۔چوتھی انفرادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر کام کے لیے آدمی ہو۔یہی نہیں کہ ہر شخص کام کرے بلکہ ہر کام کے اہل موجود ہوں۔نیوی گیشن کے لیے ملاح بھی ہوں، کمانڈر بھی ہوں، ڈاکٹر بھی ہوں، انجینئر بھی ہوں۔کوئی شعبہ انسانی زندگی اور اس کی ضروریات کا نہ ہو جس کے لیے قابل اور ماہر آدمی ہمارے پاس نہ ہوں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتاہے کہ ہر مسلمان اس ضرورت کا احساس کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی ایک کو لے کر ماہر بنے۔‘‘

(مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں۔انوار العلوم جلد 10صفحہ21،22)

محنت سے عارنہ کرو

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ11؍ستمبر1927ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’اخلاق کی مضبو طی کے لیے دوسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ محنت سے عار نہ کرو۔ہم محنت سے جی چراتے ہیں اور کام کرنا عار سمجھتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں اس کے لیے قومی حالت ذمہ دار ہے۔سو سال پہلے ہم بادشاہوں کی قوم کے لوگ تھے ۔پس قومی طریق نے ایسا ہونے دیا۔ ہندو بادشاہ نہ تھے اس لیے وہ محنت سے عاری نہ تھے ۔وہ تنزل میں ترقی کے سامان کر رہے تھے ہم ترقی میں تنزل کے سامان بنا رہے تھے۔ہماری مثال سمندر میں کودنے والے کے گلے میں پتھرباندھ دینے کی سی ہے۔ مجھے ایک تاجرنے سنایا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ گھر بیٹھے روپیہ کما سکتے ہو۔اس اشتہار کے جواب میں اس کے پاس ڈیڑھ سو مسلمانوں کے خطوط پہنچے جو بغیر کام کے روپیہ مل جانے کی درخواست کرتے تھے۔چار پانچ ہندوؤں کی درخواستوں میں سے ایک تو ایسی ہی تھی مگر باقیوں نے لکھا کہ آپ کو ایجنٹ مطلوب ہیں تو ہم ایجنسی لینے کو تیار ہیں ۔اس سے عام ذہنیت کا پتہ مل جاتاہے کہ ہم روز بروز نکمے ہوتے جاتے ہیں۔ اس کو چھوڑ دو اپنے اندر اور اپنی اولاد میں کام اور محنت کی عادت ڈالو۔یہ عمل کی چیز ہے لیکچروں سے کچھ نہیں ہو گا اور نہ کمیٹیاں اس کے لیے کام آئیں گی۔خواہ خلافت کمیٹی بناؤ یا مسلم لیگ۔ کچھ فائدہ نہیں ہوگا جب تک ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے عملی کام شروع نہ کرے گا۔‘‘

(مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں۔انوار العلوم جلد 10صفحہ18)

آڑھت کی دکانیں کھولیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہمیں مسلمانوں کی آڑھت کی دکانیں کھلوانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔جب تک آڑھت کی دکانیں نہیں کھلیں گی کبھی مسلمان زمیندار اور دُکاندار نہیں پنپ سکتے۔اندھیر ہے کہ جو روپیہ اس وقت ہندو تبلیغ پر خرچ ہو رہا ہے اس کا کافی حصہ مسلمانوں کے گھروں سے خاص اس غرض سے جاتاہے۔ عام طورپر ہندو آڑھتی ہر مسلمان زمیندار سے ہر سودے کے وقت ایک مقررہ رقم لیتاہے کہ اتنی گؤشالہ کے لیے ہے،اس قدر دھرم ارتھ کے لیے،اتنی یتیموں کے لیے،اور اس سے مراد مسلمان یتیم خانے اور مسلمانوں کے کام نہیں ہوتے بلکہ خاص ہندوؤں کے کام ہوتے ہیں۔اب غور کرو کہ پنجاب میں کس قدر رقم مسلمان خالص ہندوکاموں کے لیے دیتے ہیں۔پس جب تک مسلمان ان رقوم کو بند نہ کریں گے اور اپنی رقوم کو اسلام کی ترقی کے لیے خرچ نہیں کریں گے وہ پروپیگنڈا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف ہو رہا ہے کبھی بند نہ ہوگا۔لوگ کہتے ہیں مٹھائیاں و برف وغیرہ کہاں سے لیں۔مَیں کہتاہوں ۔اے بھائیو!تمہارے بھائی اسلام کی عزت کے لیے برفوں سے نہیں اپنے بیوی بچوں کی صحبتوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔کیا تم برف اور مٹھائی ترک نہیں کر سکتے اور کیا مسلمان کا دماغ اور سب کام کر سکتاہے مگر یہ کام نہیں کر سکتے۔‘‘

(رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض۔انوار العلوم جلد 9صفحہ569،570)

صنعت و تجارت کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’آپ خواہ کسی شعبۂ زندگی میں حصہ لے رہے ہیں آپ اسلام کی خدمت اپنے دائرہ میں خوب اچھی طرح کر سکتے ہیں اور اب میں آپ کو بتاتاہوں کہ مندرجہ ذیل امور میں سے سب میں یا بعض یا کسی ایک میں حصہ لے کر آپ اسلام کی خدمت میں حصہ لے سکتے ہیں۔

  1. اگر آپ مسلمانوں کی تمدنی حالت درست کرنے میں مدد دے سکتے ہیں اور کسی محکمہ میں مسلمانوں کی ملازمت کا انتظام کر سکتے ہیں تو آپ آج سے اقرار کرلیں کہ جہاں تک آپ کے اختیار میں ہو گا آپ جائز طور پر مسلمانوں کی بیکاری کو دُور کرنے میں مدد دیں گے اور اپنے اس ارادہ سے صیغہ ترقی اسلام قادیان ضلع گورداسپور کو اطلاع دیں گے جسے اس کام کے لیے مَیں نے مقرر کیا ہے۔
  2. اس انجمن کے مراکزکام کی زیادتی کے ساتھ انشاء اﷲ ہر صوبہ میں قائم کیے جائیں گے۔
  3. چونکہ کئی مسلمان مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کا ارادہ تو رکھتے ہیں لیکن انہیں مناسب آدمیوں کا علم نہیں ہوتا اس لیے آپ کو اگر ایسے مسلمانوں کا علم ہو جو کسی قسم کے روزگار کے متلاشی ہیں تو ان لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ اپنے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو جسے موجودہ فتنہ کے دُور کرنے کے لیے میں نے قائم کیا ہے اطلاع دیں۔یہ بھی آپ کی ایک اسلامی خدمت ہو گی۔یہ صیغہ ہر جگہ تحریک کر کے مسلمانوں کی بیکاری کے دُور کرنے کی کوشش کرے گا۔
  4. اگر آپ پیشہ ور ہیں اور آپ کے نزدیک آپ کے پیشہ کے ذریعہ سے ملک کے مختلف گوشوں میں انسان روزی کما سکتاہے تو آپ یہ ارادہ کر لیں کہ آپ مسلمان مستحقین کو اپنا پیشہ سکھا کر انہیں کام کے قابل بنانے کی ہر سعی کو استعمال کریں گے اور اس ارادہ سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں۔
  5. چونکہ بہت سے لوگ اپنے پیشے سکھانا چاہتے ہیں لیکن مستحق آدمیوں کا ان کو علم نہیں ہوتا اس لیے اگر آپ پیشہ سکھا نہیں سکتے مگر آپ کو ایسے نوجوانوں کا حال معلوم ہے جو مناسب پیشہ نہ جاننے کے سبب سے بے کار ہیں تو ایسے نوجوانوں کے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں۔یہ بھی آپ کی اسلامی خدمت ہو گی۔
  6. مسلمان ہر جگہ پر ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔اگرآپ صاحب رسوخ ہیں اور اسلام کی خدمت کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں تو آپ آج سے ارادہ کر لیں کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کے لیے آپ حتی الوسع تیار رہیں گے اور اپنے ارادہ اور پتہ سے مذکورہ بالا صیغہ کو اطلاع دیں تا جو کام آپ کے مناسب حال ہو اس سے آپ کو اطلاع دی جائے۔
  7. اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو یہ بھی آپ کی اسلامی خد مت ہو گی کہ آپ ایسے مظلوموں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیں تا جہاں تک اس کے امکان میں ہو اصلا ح کی کوشش کرے۔
  8. اگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اقتصادیات کا علم دیا ہے اور ذہن رسا عطا کیا ہے اور آپ کو بعض ایسے کام اور پیشے معلوم ہیں جن میں مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو اس کے متعلق صیغہ مذکور کو تفصیلی علم دیں تا اگر اس کے نزدیک وہ کام یا پیشہ مسلمانوں کے لیے مفید ہوں تو وہ ان کی طرف انہیں توجہ دلائے۔
  9. اگر آپ کو بعض ایسے محکموں کا حال معلوم ہو جن میں مسلمان کم ہیں اور ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے لیے مفید ہے تو ان سے صیغہ مذکورہ کو اطلاع دیتے رہیں۔یہ بھی ایک اسلامی خدمت ہے۔‘‘

(آ پ اسلام اور مسلمانوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟۔انوار العلوم جلد 9صفحہ532،533)

احمدی تاجروں اور صنّاعوں سے چیزیں خریدیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ28؍دسمبر1925ء کوجلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’ضروری ہے کہ جماعت کی مالی اصلاح اور ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ایک تو یہ ضروری ہے کہ جماعت کے لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں مختلف مقامات پر ٹرنک سازی، سیاہی سازی،لُنگیاں بنانا،ازار بند بنانا،کلاہ وغیرہ مختلف قسم کی صنعتیں جاری ہیں۔اگر مختلف جگہ کے احمدی تاجر احمدی صنّاعوں سے اشیاء خریدیں تو ان کی بِکری وسیع ہو سکتی ہے اور ان کی آمدزیادہ ہونے کی وجہ سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے۔پس احمدی تاجر احمدی صنّاعوں سے مال خریدیں اور احمدی گاہک احمدی دکانداروں سے خریدیں تو اس طرح بھی بہت فائدہ ہو سکتاہے ۔ہمارے مبلغوں کو بھی اس کام میں مدد دینی چاہیے۔جہاں جائیں دیکھیں کہ کون سی صنعت کوئی احمدی کرتاہے اور جب دوسری جگہ جائیں تو وہاں کے لوگوں کو بتائیں کہ فلاں مال فلاں احمدی بناتاہے اس سے خریدا جائے۔

صنعتی نمائش کے انعقاد کی تلقین

میرے نزدیک اس پہلو میں ترقی دینے کا ایک آسان طریق یہ بھی ہے کہ مجلس مشاورت کے وقت ایک نمائش بھی ہو جایا کرے جس میں احمدی صنّاع اپنی بنائی ہوئی چیزیں لا کر رکھیں تاکہ دوست واقف ہو جائیں کہ فلاں چیز فلاں جگہ سے مل سکتی ہے اور پھر ضرورت کے وقت وہاں سے منگالیں۔پھر احمدیوں کو چاہیے کہ بے کار احمدیوں کو ملازم کرانے کی کوشش کریں۔بعض دوستوں نے اس بارے میں بڑی ہمت دکھائی ہے مگر اکثر سستی کرتے ہیں۔ اسی طرح جماعت کے لوگوں کو چاہیے تجارتی شہروں میں جا کر تجارت اور صنعت سیکھیں۔‘‘

(منہاج الطالبین۔انوار العلوم جلد 9صفحہ170،171)

تجارت کے ہر شعبہ کو اختیار کرنا چاہیے

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’تجارت کے متعلق میں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اس امر سے مسلمانوں نے سب دوسرے امور کی نسبت زیادہ تغافل برتاہے۔تجارت بالکل مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں ہے اس کا ہر ایک شعبہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان اقتصادی طورپر ہندوؤں کے غلام ہیں اور ان کی گردنیں ایسی بُری طرح ان کے پھندے میں ہیں کہ وہ بغیر ایک جان توڑ جد وجہد کے اس سے آزاد نہیں ہو سکتے۔آڑھت،صرافی،تجارت درآمد و برآمد،ایجنسی،انشورنس،بنکنگ،ہر ایک شعبہ جو تجارت کے علم سے تعلق رکھتا ہے اس میں وہ نہ صرف پیچھے ہیں بلکہ اس کے مبادی سے بھی واقف نہیں اور اس کے دروازے تک بھی نہیں پہنچے۔صرف چند چیزیں خرید کر دکان میں بیٹھ جانے کا نام وہ تجارت سمجھتے ہیں اور ان چیزوں کے بیچنے اور خریدنے کا بھی ڈھنگ ان کو نہیں آتا۔وہ اس کوچہ سے نابلد ہونے کے سبب اس دیانتِ تجارت اور خُلقِ تاجرانہ سے جس کے بغیر تجارت باوجود علم کے بھی نہیں چل سکتی ناواقف ہیں۔پس ضروری ہے کہ ایک کمیشن کے ذریعہ تجارت کی تمام اقسام کی ایک لسٹ بنائی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کس قسم کی تجارت میں مسلمان کمزور ہیں اور کس کس قسم کی تجارت سے مسلمان بالکل غافل ہیں اور پھر ان نقائص کا ازالہ شریعت کے احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔‘‘

مسلم چیمبر آف کامرس

یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مسلم چیمبر آف کامرس بنائی جائے تاکہ مسلمان تاجروں میں اپنی قومی کمزوری کا احساس ہواور وہ ایک دوسرے سے تعاون کا معاملہ کرنے کے عادی ہوں۔اسی چیمبر سے نظامِ مرکزی بھی نہایت قیمتی مدد اپنے اغراض کے پورا کرنے میں لے سکتاہے۔

صنعت و حرفت

صنعت وحرفت کا میدان میرے نزدیک تجارت سے بھی اہم ہے کیونکہ(۱)اس میں نفع کا زیادہ موقع ہے اور(۲)اس میں دوسرے ملکوں کی دولت کھینچی جا سکتی ہے۔اور(۳)ملک کے لاکھوں آدمیوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے(۴)تجارت کا دارومداراس پر ہے۔جو قوم اس پر اچھی طرح قابو پالے وہ تجارت کو اپنے ہاتھ میں آسانی سے لے سکتی ہے ۔اس کے ذریعہ سے ملک اقتصادی اور سیاسی غلامی سے محفوظ ہو جاتاہے۔
مسلمانوں کے لیے اس میدان میں بہت موقع ہے۔اوّل تو اس وجہ سے کہ جو ملکی قدیم صنعت و حرفت ہے اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ۔گو وہ آج کل مردہ ہے لیکن اگر اس کو اُبھارا جائے تو مسلمانوں کے پاس ایک بیج موجود ہے۔دوسرے اس وجہ سے وسیع پیمانے پر صنعت وحرفت کا تجربہ ابھی ہمارے ملک میں شروع نہیں ہوا۔یہ صیغہ ابھی ابتدائی تجارت کی حالت میں ہے اور بہت ہی قریب زمانہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔پس مسلمانوں کے لیے اس میدان کا دروازہ بند نہیں اور وہ آسانی سے اپنا حصہ بلکہ اپنے حصہ سے بڑھ کر اس شعبۂ عمل میں حاصل کر سکتے ہیں۔پس میرے نزدیک اس امر کی طرف فوری توجہ ہونی چاہیے اور اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ(۱)ایک بورڈ آف انڈسٹریز مقرر کیاجائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ ان صنعتوں کی ایک فہرست بنائے جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہو رہی ہیں اور ان کی جو آسانی سے رائج ہو سکتی ہیں اوران کی جن کی ملک کی اقتصادی آزادی کے لیے ضرورت ہے۔جو رائج ہیں ان کو تو ایک نظام میں لا کر ترقی دینے کی کو شش کی جائے اور جو ملک میں رائج ہیں مگر مسلمان ان سے غافل ہیں ان کی طرف مسلمان سرمایہ داروں کو توجہ دلا کر ان کو جاری کروایا جائے اور جو ملک میں رائج ہی نہیں مگر ان کی ضرورت ہے ان کے لیے تجربہ کار آدمیوں کا ایک وفد بیرونی ممالک میں بھیجا جائے جو ان کے متعلق تمام ضروری معلومات بہم پہنچائے اور جن جن صنعتوں کا اجرا وہ ممکن قرار دے ان کے لیے ہوشیار طالب علموں کو وظیفہ دے کر بیرونی ممالک میں تعلیم دلوائی جائے اور ان کی واپسی پر مسلم سرمایہ داران کے ذریعہ سے ان صنعتوں کے کارخانے جاری کیے جاویں۔‘‘

(آل پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر۔انوار العلوم جلد 9صفحہ122تا124)

ہر احمدی محنت کرے

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایک مسلمان شہری کے جو کام اسلام نے مقرر کیے ہیں اب میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں۔ایک حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ ہر ایک آدمی محنت کرکے کھائے اور سست نہ بیٹھے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!بہترین رزق وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے مہیا کرے اور فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ کی محنت سے اپنا رزق پیدا کرتے تھے۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۔انوار العلوم جلد8صفحہ280)

سود اور منافع کی زیادتی کے نقصانات

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’اگر غور کیا جائے تو اس نقص کے باعث کہ بعض ملکوں میں چند گھرانوں میں تمام ترقیات محدود ہو گئی ہیں ،تین ہیں۔

  1. جائیداد کا تقسیم نہ ہونا بلکہ صرف بڑے لڑکے کے قبضہ میں رہنا اور مال کے متعلق باپ کو اختیار ہونا کہ جس قدر چاہے جس کو چاہے دے دے۔
  2. سود کی اجازت جس کی وجہ سے ایک ہی شخص یا چند افراد بغیر محنت کے جس قدر چاہیں اپنے کام کو وسعت دے سکتے ہیں۔
  3. منافع کی زیادتی۔

ان تین نقائص کی وجہ سے بہت سے ممالک میں لوگوں کے لیے ترقیات کے راستے بالکل محدود ہو گئے ہیں۔جائیدادیں چند لوگوں کے قبضہ میں ہیں اور اس وجہ سے غرباء کو جائیدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں۔سود کی وجہ سے جو لوگ پہلے ہی اپنی ساکھ بٹھا چکے ہیں وہ جس قدر چاہیں روپیہ لے سکتے ہیں۔چھوٹے سرمایہ دار کو ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ منافع کی زیادتی کی وجہ سے دولت ایک آبشار کی طرح چند لوگوں کے گھروں میں جمع ہو رہی ہے……
دوسری روک غرباء کے راستہ میں سود ہے، سود کے ذریعہ سے وہ تاجر جو پہلے سے ساکھ بٹھا چکے ہیں جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے سکتے ہیں۔اگر ان کو اس طرح روپیہ نہ مل سکتا تو وہ یا تو دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے یااپنی تجارت کو اس پیمانہ پر نہ بڑھا سکتے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے روک بن سکیں اور ٹرسٹس اور ایسوسی ایشنز قائم کر کے دوسرے لوگوں کے لیے ترقی کا دروازہ بالکل روک دیں۔نتیجہ یہ ہوتا کہ مال ملک میں مناسب تناسب سے تقسیم رہتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ مال جمع نہ ہو سکتا۔جو ملک کی اخلاقی ترقی کے لیے مہلک اور غرباء اور درمیانی طبقہ کے لوگوں کے لیے تباہی کا موجب ہوتاہے۔
تیسری صورت جو نفع کی زیادتی کی تھی اس کا اسلام نے ایک تو اس ٹیکس کے ذریعہ سے انتظام کیا ہے جو غرباء کی خاطر امراء سے لیا جاتاہے۔اس ٹیکس کے ذریعہ سے اتنی رقم امراء سے لے لی جاتی ہے کہ ان کے پاس اس قدر روپیہ اکٹھا ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے زور سے ملک کا سارا روپیہ جمع کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ جس قدر روپیہ ان کے پاس ہو گا اس میں سے ہر سال ان کو غریبوں کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔دوسرے شریعت نے یہ انتظام کیا ہے کہ غرباء میں سے ہوشیار اور ترقی کرنے والے لوگوں کو اس ٹیکس میں سے اس قدر سرمایہ دیا جائے کہ وہ اپنا کام چلا سکیں۔ اس ذریعہ سے نئے نئے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں رہے گا۔
تیسرے اسلام نے ان ترکیبوں سے منع کر دیا ہے جن کے ذریعہ سے لوگ ناجائز طور پر زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں۔چنانچہ اسلام اس امر کو گناہ قرار دیتاہے کہ کوئی شخص تجارتی مال کو اس لیے روک رکھے کہ تااس کی قیمت بڑھ جائے اور وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہو۔پس اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرسٹس کی قسم کے تمام ذرائع جن سے نفع کو زیادہ کیا جاتاہے اسلامی تعلیم کے مطابق ناجائز ہوں گے اور حکومت ان کی اجازت نہ دے گی۔
اب ایک سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر سود بند کیا جائے گا تو تمام تجارتیں تباہ ہو جائیں گی مگر یہ امر درست نہیں۔ممانعتِ سود سے کبھی تجارتیں تباہ نہ ہو ں گی۔اب بھی سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ اس وجہ سے سود کا تعلق تجارت سے ہے کہ مغربی ممالک نے اس طریق کو نشوونما دیا ہے۔ اگروہ اپنی تجارتوں کی بنیاد شروع سے سود پر نہ رکھتے تو نہ آج یہ بے امنی کی صورت نظر آتی اور نہ تجارتوں سے سود کا کوئی تعلق ہوتا۔آج سے چند سو سال پہلے مسلمانوں نے ساری دنیا سے تجارت کی ہے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے کامیاب تجارت کی ہے مگر وہ سود بالکل نہیں لیتے تھے۔وہ بوجہ سود نہ لینے کے ادنیٰ ادنیٰ غرباء سے روپیہ شراکت کے طور پر لیتے تھے اور ملک کے اکثر حصہ کو ان تجارتوں سے فائدہ پہنچتاتھا۔
پس سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ سود پر چونکہ ان کی بنیاد رکھی گئی ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سود پر چل رہی ہیں۔بے شک شروع میں دقتیں ہو ں گی لیکن جس طرح سود پر بنیاد رکھی گئی ہے اسی طرح اس عمارت کو آہستگی سے ہٹایا بھی جا سکتاہے۔
سود اس زمانہ کی وہ جونک ہے جو انسانیت کاخون چوس رہی ہے۔ غرباء اور درمیانی درجہ کے لوگ بلکہ امراء بھی اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں مگر بہت سے لوگ اس چیتے کی طرح جس کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ اپنی زبان پتھر پر رگڑ رگڑ کر کھا گیا تھا ایک جھوٹی لذت محسوس کر رہے ہیں۔جس کے سبب سے وہ اس کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور اگر چھوڑنا چاہتے ہیں تو سوسائٹی کا بہاؤ ان کو الگ ہونے نہیں دیتا۔
اس کے دو خطرناک اثر ملکوں کے امن کے خلاف پڑ رہے ہیں۔ایک اس کے ذریعہ سے دولت محدود ہاتھوں میں جمع ہو رہی ہے ۔دوسرے اس کی وجہ سے جنگیں آسان ہو گئی ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کا کوئی انسان بھی اس جنگ عظیم کی جو پچھلے دنوں ہوئی ہے جرأت کر سکتاتھا اگر سود کا دروازہ اس کے لیے کھلا نہ ہوتا؟جس قدر روپیہ اس جنگ پر خرچ ہوا ہے مختلف ممالک اس روپے کے خرچ کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوتے اگر اس کا بوجھ براہ راست ملک کی آبادی پر پڑجاتا۔اس قدر عرصہ تک جنگ محض سود کی وجہ سے جاری رہی ورنہ بہت سی سلطنتیں تھیں جو اس عرصہ سے بہت پیشتر جس میں پچھلی جنگ جاری رہی جنگ کو چھوڑ بیٹھتیں کیونکہ ان کے خزانے ختم ہوجاتے اور ان کے ملک میں بغاوت کی ایک عام لہر پیدا ہو جاتی۔یہ سود ہی تھا جس کی وجہ سے اس وقت تک لوگوں کو بوجھ محسوس نہیں ہوالیکن اب کمریں اس کے بوجھ کے نیچے جھکی جا رہی ہیں اور غالباً کئی نسلیں اس قرضہ کے اتارنے میں مشغول چلی جائیں گی۔اگر سود نہ لیا جاتا تو جنگ کا نتیجہ وہی ہوتا جو اب ہوا ہے یعنی وہی اقوام جیت جاتیں جو اب جیتی ہیں۔مگر فرانس اس قدر تباہ نہ ہوتا،جرمنی اس طرح برباد نہ ہوتا،آسٹریا اس طرح ہلاک نہ ہوتا،انگلستان پر یہ بارنہ پڑتا،اول تو جنگ چھیڑنے ہی کی حکومتوں کو جرأت نہ ہوتی اور اگر جنگ چھڑ بھی جاتی تو ایک سال کے اندر جوش مدھم ہو کر کبھی کی صلح ہو چکی ہوتی اور آج دنیا شاہراہِ ترقی پر چل رہی ہوتی۔ حکومتیں آج کل آلاتِ جنگ کے کم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر آلات تو ارادے کے ساتھ فوراً ہی بن جاتے ہیں۔جس چیز کے توڑنے کی ضرورت ہے وہ سود ہے۔ قرآن کریم کہتاہے کہ سود جنگ کے پیداکرنے کا موجب ہے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔انوار العلوم جلد8صفحہ307تا310)

عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کا طریق

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ14؍نومبر1923ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’مسلمان صنعت و حرفت کی طرف توجہ کریں۔ڈاکٹری اور وکالت وغیرہ کے پیشوں میں مسلمانوں کی کافی تعداد ہو۔ اسی طرح بنکوں میں مسلمان پیچھے ہیں ان میں ترقی کرنی چاہیے۔میں سودی لین دین کے خلاف ہوں کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مگر میں نے غور کیا ہے کہ اگر قوم تیار ہو تو سود کے بغیربینک چل سکتاہے ۔اسی طرح ہندوستان کی تجارت ایکسپورٹ اور امپورٹ جو کُلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اس شعبہ کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔علاوہ ازیں کمیشن ایجنسیوں میں بھی مسلمان پیچھے ہیں بلکہ صفر کے برابر ہیں۔ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔پس اگر مسلمان گھٹنوں کے بل گِر کر معافی مانگنا اور ذلیل ہوکر زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں تو او ربات ہے ورنہ اگر چاہتے ہیں کہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کریں تو ان کمیوں کو پورا کریں۔‘‘

(پیغام صلح۔انوار العلوم جلد7صفحہ315)

عہدیداران کے فرائض

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ17؍مارچ1919ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’اس محکمہ کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ احمدی جماعت کی دنیاوی ترقیات کے متعلق خیال رکھے۔ مثلاً جو لوگ بے کار ہیں انہیں کام پر لگانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایک حصہ بے کار ہو تو اس کا ساری جماعت پر اثر پڑتاہے اور ان کے کام پر لگنے سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتاہے۔مثلاً پچاس آدمی ایسے ہوں جو ملازمت کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔لیکن ناواقف ہونے کی وجہ سے کسی جگہ ملازم نہ ہو سکیں تو ان کا بار جماعت کے افراد پر ہی پڑے گا اور اگر وہ ملازم ہو جائیں تو نہ صرف دوسروں پر بوجھ نہیں رہیں گے بلکہ خود بھی جماعت کے کاموں میں چندہ دے سکیں گے۔پس اس صیغہ کا یہ بھی کام ہوگا کہ ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کرے جو ملازمت تو کر سکتے ہیں۔لیکن ناواقفیت کی وجہ سے ملازم نہیں ہوسکتے اور ان کے متعلق ایسے لوگوں کو لکھا جائے جو ملازمتیں تلاش کر سکتے ہیں کہ وہ انہیں نوکر کرائیں۔اسی طرح تعلیم کے مختلف شعبوں کے متعلق خیال رکھنا اس صیغہ کا کام ہو گا۔لوگوں میں عام طورپربھیڑ چال ہوتی ہے ۔مثلاً اگر وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے فائدہ اٹھایا ہے تو وہ اسی کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔لیکن کوئی قوم اور خصوصاً وہ قوم جو ابھی ابتدائی حالت میں ہواس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ سب قسم کے تعلیم یافتہ لوگ ا س میں نہ پائے جاتے ہوں۔میرے خیال میں آجکل مسلمانوں کو ا س بات سے بہت نقصان اٹھانا پڑ اہے کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگوں نے انجینئری کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے اور عام طور پر یہ صیغہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے۔اگر مسلمان اس طرف خاص توجہ کرتے تو اپنی قوم کے لوگوں کو جائز طورپر بہت فائدہ پہنچا سکتے تھے۔کیونکہ اس محکمہ کے آفیسروں کے اختیار میں کئی قسم کے ٹھیکے وغیرہ دینے کا کام ہوتاہے جو آج کل عام طورپر ہندوؤں ہی کو ملتے ہیں اور اگر کسی مسلمان کو مل بھی جائے تو اس کام میں نقص نکال کر اس کے اپنے سرمایہ کوبھی تباہ کر دیا جاتاہے ۔اسی سٹیج پر ایک صاحب بیٹھے ہیں ان کے ایک بزرگ کو ٹھیکہ کے معاملہ میں ہی انجینئر نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ ان کی اپنی جائیداد جو کروڑوں کی تھی تباہ و برباد ہو گئی۔ پس ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نئے تعلیم پانے والوں کی خبر لیتے رہیں اور ان کے لیے ان کے مذاق اور قابلیت کے مطابق تعلیم کا انتظام کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ ان مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں تقسیم ہو جاویں جو آئندہ ان کی ذات کے لیے بھی اور جماعت کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ17مارچ1919ء۔انوار العلوم جلد4صفحہ340،341)