بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرے

عَنْ جَابِر قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُم ْخَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَ ھْلِیْ (ترمذی)

ترجمہ : ۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔ اور میں اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
تشریح :۔.8 اس حدیث میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے وہ ظاہر و عیاں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیوی کے ساتھ خاوند کے حسن سلوک کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کو تو مان لیا۔ اور ایمان کی نعمت سے بھی متمتع ہوگئے۔ لیکن حقوق العباد کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو بھی دیکھے گا۔ جو تم خدا کے بندوں کے ساتھ سلوک کرنے میں بجا لاتے ہو۔ اور ان اعمال میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو اسلام میں بہت نمایاں درجہ حاصل ہے حتیٰ کہ تم میں سے خدا کی نظر میں بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔ لیکن چونکہ ہر شخص اپنے سلوک کو بزعم خود اچھا قرار دے سکتا ہے اس لئے اس امکانی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اچھے سلوک کا معیار تمہارا کوئی خود تر اشیدہ قانون نہیں ہوگا بلکہ اس معاملہ میں میرے نمونہ کو دیکھا جائے گا۔ کیونکہ خدا کی دی ہوئی توفیق سے میں اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان عورتوں کے ازدواجی حقوق کو اتنے اعلیٰ معیار پر قائم فرما دیا ہے کہ وقتی رنجشوں کو چھوڑ کر جو بعض اوقات اچھے سے اچھے گھر میں بھی ہو جاتی ہیں۔ کوئی شریف بیوی کسی نیک مسلمان کے گھر میں دکھ کی زندگی میں مبتلا نہیں ہوسکتی۔ اور حق یہ ہے کہ اگر عورت کو خاوند کی طرف سے سکھ حاصل ہو تو وہ دنیا کی ہر دوسری تکلیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور اس سکھ کے مقابلہ میں کسی شریف عورت کے نزدیک دنیا کی کوئی اور نعمت کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر ایک عورت کے ساتھ اس کے خاوند کا سلوک اچھا نہیں تو خاوند کی دولت بھی اس کیلئے لعنت ہے اور خاوند کی عزت بھی اس کیلئے لعنت ہے اور خاوند کی صحت بھی اس کیلئے لعنت ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر صرف خاوند کی محبت اور گھر کی سکینت کے میدان میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ پس اس بات میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد گھروں کی چار دیواری کو جنت بنا دینے کیلئے کافی ہے۔ بشرطیکہ عورت بھی خاوند کی فرمانبردار اس کی محبت کی قدر دان ہو۔ اور پھر خاوند بیوی کے اس اتحادکا اثر لازماً ان کی اولاد پر بھی پڑتا ہے ۔ اور اس طرح آج کی برکت گویا ایک دائمی برکت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس ملک میں اور اس قوم کے درمیان رہتے ہوئے دیا جس میں عورت عموماً ایک جانور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی اور پھر اس حکم کو دو ایسی باتوں کے ساتھ مربوط کردیا۔ جن کے بلند معیار تک آج کی بظاہر ترقی یافتہ اقوام بھی نہیں پہنچ سکیں اور نہ کبھی پہنچ سکیں گی۔ کیونکہ ان دو باتوں کے ساتھ مل کر عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اس ارفع مقام کو حاصل کر لیتاہے جس کے اوپر اس میدان میں کوئی اور بلندی نہیں۔ یہ دو باتیں ہمارے آقا کے الفاظ

خیرکم خیرکم لا ھلہ وانا خیر کم لا ھلی

کے مطابق یہ ہیں کہ :۔
(اوّل) عورت کے ساتھ خاوند کا حسن سلوک صرف ضروری ہی نہیں ہے بلکہ دراصل حقوق العباد کے میدان میں مرد کا یہی وصف خدا کی نظر میں مرد کے درجہ اور مقام کا حقیقی پیمانہ ہے جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ سلوک میں بہتر ہے وہی خدا کی نظر میں بہتر ہے۔
(دوم) اس حسن سلوک کا معیار کسی شخص کی ذاتی رائے پر مبنی نہیں ہے (کیونکہ اپنے منہ سے توہر شخص اپنے آپ کو اچھا کہہ سکتا ہے ) بلکہ اس کا معیار رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اسوہ ہے ۔ پس صرف وہی سلوک اچھا سمجھا جائے گا۔ جو اس پاک اسوہ کے مطابق ٹھیک اترے گا۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 78

بیوی کے انتخاب میں دینی پہلو کو مقدم کرو

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنَکَحُ الْمَرْأَۃُ لَاِرَبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفرْ بِذَاتِ الدیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری)

ترجمہ:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بیوی کے انتخاب میں عموماً چار باتیں مدنظر رکھی جاتی ہیں ۔ بعض لوگ تو کسی عورت کے مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے خاندان اور حسب و نسب کی وجہ سے شادی کے خواہاں ہوتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے حسن و جمال پر اپنے انتخاب کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اور بعض لوگ عورت کے دین اور اخلاق کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کرتے ہیں سواے مرد مسلم ! تو دین دار اور بااخلاق رفیقہ ٔ حیات چن کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے۔
تشریح : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتانے کے بعد کہ دنیا میں عام طور پر بیوی کا انتخاب کن اصولوں پر کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے انتخاب میں دین اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھا کریں آپ فرماتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی اہلی زندگی کامیاب اور بابرکت رہے گی۔ ورنہ خواہ وہ وسطی اور عارضی خوشی حاصل کرلیں انہیں کبھی بھی حقیقی اور دائمی راحت نصیب نہیں ہوسکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نہایت گہری حکمت پر مبنی ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مسلمانوں کی اھلی زندگی کو بہترین بنیاد پر قائم کرنے کا رستہ کھولا گیا ہے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی حفاظت اور ترقی کا سامان بھی مہیا کیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ دوسری اقوام توالگ رہیں خود مسلمانوں میں بھی آج کل کثیر حصہ ان لوگوں کا ہے جو بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے یا تو دین اور اخلاق کے پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں اور یا دین اور اخلاق کی نسبت دوسری باتوں کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں کوئی شخص تو عورت کے حسن پر فریفتہ ہوکر باقی باتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کوئی اس کے حسب و نسب کا دلدادہ بن کر دوسری باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ اور کوئی اس کی دولت کے لالچ میں آکر اس کے ہاتھ پر بک جانا چاہتا ہے حالانکہ اصل چیز جو اہلی زندگی کی دائمی خوشی کی بنیاد بن سکتی ہے ۔ وہ عورت کا دین اور اس کے اخلاق ہیں دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ایک شخص نے کسی عورت کو محض اس کی شکل و صورت کی بناء پر انتخاب کیا ۔ لیکن کچھ عرصہ گذرنے پر جب اس کے حسن و جمال میں تنزل کے آثار پیدا ہوگئے کیونکہ جسمانی حسن ایک فانی چیز ہے یا اس کی نسبت کسی زیادہ حسین عورت کو دیکھنے کی وجہ سے بے اصول خاوند کی توجہ اس کی طرف سے ہٹ گئی ۔ یا بیوی کے ساتھ شب و روز کا واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں اس کے عادات کے بعض ناگوار پہلو خاوندکی آنکھوں کے سامنے آگئے تو ایسی صورت میں زندگی کی خوشی تو درکنار خاوند کے لئے اس کا گھر حقیقۃ ایک دوزخ بن جاتا ہے اور یہی حال حسب و نسب اور دولت کا ہے کیونکہ حسب و نسب کی وجہ سے تو بسا اوقات بیوی کے دل میں خاوند کے مقابلہ میں بڑائی اور تفاخر کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جو خانگی خوشی کے لئے مہلک ہے اور دولت ایک آنی جانی چیز ہے جو آج ہے اور کل کو ختم ہوسکتی ہے اور پھر بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بیوی کی دولت خاوند کے لئے مصیبت ہو جاتی ہے اور راحت کا سامان نہیں بنتی۔ پس جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے گھریلو اتحاد اور گھریلو خوشی کی حقیقی بنیاد عورت کے دین اور اس کے اخلاق پر قائم ہوتی ہے۔ اور بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو ٹھوس اور صاف کو چھوڑ کر وقتی کھلونوں یا طمع سازی کی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔
پھر ایک نیک اورخوش اخلاق بیوی کا جو گہرا اثر اولاد پر پڑتا ہے وہ تو ایک ایسی دائمی نعمت ہے جس کی طرف سے کوئی دانا شخص جسے اپنی ذاتی راحت کے علاوہ نسلی ترقی کا بھی احساس ہو آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ بچپن میںاولاد کی اصل تربیت ماں کے سپرد ہوتی ہے کیونکہ ایک تو بپچن میں بچہ کو طبعاً ماں کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے اور وہ اسی سے زیادہ بے تکلف ہوتا ہے اور اس کے پاس اپنا زیادہ وقت گزارتا ہے اور دوسرے باپ اپنے دیگر فرائض کی وجہ سے اولاد کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دے سکتا ۔ پس اولاد کی ابتدائی تربیت کی بڑی ذمہ داری بہرحال ماں پر پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر ماں نیک اور با اخلاق ہو تو وہ اپنے بچوں کے اخلاق کو شروع سے ہی اچھی بنیاد پر قائم کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے مقابل پر ایک ایسی عورت جو دین اور اخلاق کے ذیور سے عاری ہے وہ کبھی بھی بچوں میں نیک اخلاق اور نیک عادات پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی عورت بسا اوقات دین کی اہمیت اور نیک اخلاق کی ضرورت کو سمجھتی ہی نہیں ۔ پس نہ صرف خانگی خوشی کے لحاظ سے بلکہ آئندہ نسل کی حفاظت اور ترقی کے لحاظ سے بھی نیک اور با اخلاق بیوی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔ خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ ’’ یعنی نیک بیوی دنیا کی بہترین نعمت ہے‘‘
مگر حدیث زیر نظر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بیوی کے انتخاب میں دوسری تمام باتوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دینا چاہئے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نیکی اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھنا چاہئے۔ ورنہ بعض دوسرے موقعوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دوسری باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ وہ بھی ایک حد تک انسانی فطرت کے تقاضے ہیں ۔ مثلاً پردہ کے احکام کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے کہ شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ لیا کرو تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں شکل و صورت کی وجہ سے تمہارے دل میں انقباض پیدا ہو اور ایک دوسرے موقعہ پر جب ایک عورت اپنی شادی کے متعلق آپ سے مشورہ لینے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تو آپ نے فرمایا میں تمہیں فلاں شخص سے شادی کا مشورہ نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ مفلس اور تنگ دست ہے اور تمہارے اخراجات برداشت نہیں کرسکے گا۔ اور نہ میں فلاں شخص کے متعلق مشورہ دے سکتا ہوں۔ کیونکہ اس کے ہاتھ کا ڈنڈا ہر وقت ہی اٹھا رہتا ہے۔ ہاں فلاں شخص کے ساتھ شادی کرلو وہ تمہارے مناسب حال ہے اور ایک تیسرے موقعہ پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ قبیلہ قریش کی عورتیں خاوند کی وفاداری اور اولادپر شفقت کے حق میں اچھی ہوتی ہیں اور ایک چوتھے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ حتیٰ الوسع زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں کے ساتھ شادی کرو تاکہ میں قیامت کے دن اپنی امّت کی کثرت پر فخر کرسکوں۔ الغرض آپ نے اپنے اپنے موقعہ پر اور اپنی اپنی حدود کے اندر بعض دوسری باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ لیکن جس بات پر آپ نے خاص زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ ترجیح بہرحال دین اور اخلاق کے پہلو کو ہونی چاہئے ۔ورنہ تم اپنے ہاتھوں کو خاک آلود کرنے کے خود ذمہ دار ہوگے۔ یہ وہ زریں تعلیم ہے جس پر عمل کرکے مسلمانوں کے گھر برکت و راحت کا گہوارہ بن سکتے ہیں ۔ کاش وہ اسے سمجھیں!۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 73

اولاد کا بھی اکرام کرو اور انہیں بہترین تربیت دو

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ یُحدِّثُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ قَالَ اَکرِمُوْا اَوْلادَکُمْ وَاَحْسِنُوا اَدَبَھُمْ (ابن ماجہ)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اپنی اولاد کی بھی عزت کیا کرو اور ان کی تربیت کو بہترین قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرو۔
تشریح : اسلام نے جہان والدین کا حق اولاد پر تسلیم کیا ہے اور اولاد کو ماں باپ کی عزت اور خدمت کی انتہائی تاکید فرمائی ہے۔ وہاں والدین کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی اپنی اولاد کا واجبی اکرام کریں اور ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں ۔ جس سے ان کے اندر وقار اور عزت نفس کا جذبہ پیدا ہو اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی خاص توجہ دیں تاکہ وہ بڑے ہوکر حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بہترین صورت میں ادا کرسکیں اور ترقی کا موجب ہوں۔
حق یہ ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ بلکہ کوئی قوم تنزل سے بچ نہیں سکتی جب تک کہ اس کے افراد اپنی اولاد کو اپنے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر نہ جائیں۔ اگر ہر باپ اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ اپنی اولاد کو علم و عمل دونوں میں اپنے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائے گا تو یقینا قوم کا ہر اگلا قدم ہر پچھلے قدم سے اونچا اُٹھے گا اور ایسی قوم خدا کے فضل سے تنزل کے خطرات سے محفوظ رہے گی۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر والدین اس زریں اصول کو مدنظر نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے کئی بچے ماں باپ سے بہتر ہونا تو درکنار ایسی حالت میں پرورش پاتے ہیں کہ گویا ایک زندہ انسان کے گھر میں مردہ بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایسے ماں باپ بچوں کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا تو خیال رکھتے ہیں اور کسی حد تک ان کی تعلیم کا بھی خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ان کی اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے مگر ان کی تربیت کی طرف سے عموماً ایسی غفلت برتتے ہیں کہ گویا یہ کوئی قابل توجہ چیز ہی نہیں۔ حالانکہ تربیت کا سوال تعلیم کی نسبت بہت زیادہ بلند ہے۔ ایک کم تعلیم یافتہ مگر اچھے اخلاق کا انسان جس میں محنت او ر صداقت اور دیانت اور قربانی اور خوشی خلقی کے اوصاف پائے جائیں اس اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان سے یقینا بہتر ہے جس کے سر پر گدھے کی طرح علم کا بوجھ تو لدا ہوا ہے مگر وہ اعلیٰ اخلاق سے عادی ہے او رقرآن شریف نے جو

لا تقتلو اولادکم

(یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو) کے الفاظ فرمائے ہیں۔ ان میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم اپنے بچوں کی عمدہ تربیت اور اچھی تعلیم کا خیال نہیں رکھوگے تو تم گویا انہیں قتل کرنے والے ٹھہروگے۔
باقی رہا اس حدیث کا دوسرا حصہ یعنی اولاد کا اکرام کرنا۔ سو یہ بات وہ ہے جس میں اسلام کے سوا کسی دوسری شریعت نے توجہ ہی نہیںدی کیونکہ دنیا کے کسی اور مذہب نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ اولاد کے واجبی اکرام کے بغیر بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں کئے جاسکتے بعض نادان والدین بچوں کی محبت کے باوجود ان کے ساتھ بظاہر ایسا پست اور عامیانہ سلوک کرتے اور گالی گلوچ سے کام لیتے ہیں کہ ان کے اندر وقار اور خودداری اور عزت نفس کا جذبہ ٹھٹھر کر ختم ہو جاتا ہے ۔ پس ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی یہ تعلیم درحقیقت سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی واجبی اکرام سے پیش آنا چاہئے۔ تا ان کے اندر باوقار انداز اور اعلیٰ اخلاق پیدا ہو سکیں ۔ کاش ہم لوگ اس حکیمانہ تعلیم کی قدر پہچانیں۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 70

شرک اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹ سب سے بڑے گناہ ہیں

عَنْ اَبْی بَکْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبرِا لْکَبَائِرِ ثَلَاثًا قَالُوْا بَلیٰ یَاَرسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ الْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعَقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ اَلَا وَقَوْلُ الزُّوْر فَمَا زَالَ یُکرِّرُھَا حَتّٰی قُلْنَا لَیْتَہٗ سَکَتَ (بخاری)

ترجمہ : ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں پر مطلع نہ کروں؟ (اور صحابہ کو متوجہ کرنے کیلئے) آپ نے یہ الفاظ تین دفعہ دہرائے۔ صحابہ نے عرض کیا ۔ ہاں رسول اللہ آپ ضرور ہمیں مطلع فرمائیں۔ آپ نے فرمایا۔ تو پھر سنو کہ سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ کا شرک ہے۔ اور پھر دوسرے نمبر پر سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی اور ان کی خدمت کی طرف سے غفلت برتنا ہے اور پھر ۔۔۔ اور یہ بات کہتے ہوئے آپ تکئے کا سہارا چھوڑ کرجوش کے ساتھ بیٹھ گئے اور پھر فرمایا۔۔۔۔ اچھی طرح سن لو کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے اورآپ نے اپنے ان آخری الفاظ کو اتنی دفعہ دہرہایا کہ ہم نے آپ کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے دل میں کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جائیں۔ اور اتنی تکلیف نہ اُٹھائیں۔
تشریح: اس زوردار حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑے گناہوں کا ذکر فرماتے ہوئے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جوروحانیات اور اخلاقیات کے تین مختلف میدانوں کی بنیادی باتیں ہیں یہ تین میدان (۱) حقوق اللہ اور (۲) حقوق العباد اور (۳) اصلاح نفس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں سب سے بڑا گناہ شرک ہے یعنی خدا کے مقابل پر جو ہمارا خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے۔ کسی ایسی ہستی کو کھڑا کرنا جو نہ تو ہمارا خالق ہے اور نہ مالک ۔ اس لئے شرک کا گناہ دراصل غداری اور بغاوت دونوں کا مجموعہ ہے۔ یہ انتہا درجہ کی غداری ہے۔ کہ جس ہستی نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری دینی اور دنیوی ترقی کے اسباب مہیا کئے اس کے مقابل پر ایسی ہستیوں کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے جن کا نہ تو ہماری پیدائش کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہماری بقا کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ ہے اور پھر یہ انتہا درجہ کی بغاوت بھی ہے کہ دنیا کے حقیقی مالک اور حقیقی حکمران کی حکومت سے سرتابی کرکے ایسی ہستیوں کے سامنے سرجھکایا جائے جنہیں ہم پر کسی نوع کا ذاتی تصرف حاصل نہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کل کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جن کا دامن ان کی بظاہر اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تہذیب کے باوجود شرک کی نجاست سے پاک نہیں ۔ چنانچہ عیسائی اقوام حضرت مسیح ناصری کو (جن میں دوسرے نبیوں سے ہرگز کوئی زائد بات نہیں تھی) خدا مان کر اب تک شرک کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں اور ہندوئوں کے ہزاروں دیوتا تو ایک کھلی ہوئی کہانی کا حصہ ہیں جسے بچہ بچہ جانتا ہے۔
دوسرا بڑا گناہ اس حدیث میں عقوق الوالدین بیان کیا گیا ہے عقوق کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو کاٹنے کے ہیں اور اصلاحی طور پر اس کے معنی ماں باپ کی نافرمانی کرنا ان کا واجبی ادب ملحوظ رکھنا ان کے ساتھ شفقت سے پیش نہ آنا اور ان کی خدمت سے غفلت برتنا ہے۔ والدین کی اطاعت اور خدمت کا فریضہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دنیا کے حقوق میں غالباً سب سے زیادہ مقدس حق قرار دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ماں باپ کی خوشی میں خدا کی خوشی ہے اور ماں باپ کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے اور ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے والدین کے بڑھاپے کا زمانہ پایا اور پھر اس نے ان کی خدمت کے ذریعہ اپنے واسطے جنت کا رستہ نہیں کھولا۔ وہ بڑا ہی بدقسمت انسان ہے اور آپ کا ذاتی اسوہ اس معاملہ میں یہ ہے کہ جب ایک دفعہ آپ کچھ مال تقسیم فرمانے میں مصروف تھے تو آپ کی رضائی والدہ آپ کے ملنے کیلئے آئیں (آپ کی حقیقی والدہ آپ کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں) آپ انہیں دیکھتے ہی میری ماں میری ماں کہتے ہوئے ان کی طرف لپکے۔ ان کے لئے اپنی چادر بچھاکر انہیں بڑی محبت اور عزت کے ساتھ بٹھایا الغرض اسلام نے والدین کی اطاعت اور خدمت کے متعلق انتہائی تاکید فرمائی ہے حتیٰ کہ قرآن شریف فرماتا ہے

وَاخْفِضْ لَھُمَا جنَاحَ الذُّلِّ منَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً ’’

یعنی تم اپنے ماں باپ کے سامنے عاجزی اور انکساری کے بازؤں کو محبت اور رحمت کے ساتھ جھکائے رکھو اور ان کے لئے ہمیشہ خدا سے دعامانگتے رہو کہ خدایا جس طرح میرے والدین نے مجھے بچپن میں جب کہ میں بالکل بے سہارا تھا۔ محبت اور شفقت کے ساتھ پالا۔ اسی طرح اب تو ان کے بڑھاپے میں ان پر شفقت و رحم کی نظر رکھ‘‘۔
تیسرا بڑا گناہ اس حدیث میں جھوٹ بولنا بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کے متعلق اسلام کا نظریہ اس حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ جب آپ جھوٹ کا ذکر فرمانے لگے تو جوش کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئے اور ان الفاظ کو بار بار دہرایا کہ

الا وقول الزور الا وقول الزور ’’

یعنی کان کھول کر سن لو ۔ ہاں پھر کان کھول کر سن لو کہ شرک اور عقوق والدین کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولناہے‘‘۔ حق یہ ہے کہ اگر باقی باتیں اس بیج کا حکم رکھتی ہیں جن سے گناہ کا درخت پیدا ہوتا ہے ۔ تو جھوٹ اس بیج کے واسطے پانی کے طور پر ہے جس کی وجہ سے یہ درخت پنپتا اور ترقی کرتا ہے ۔ یہ جھوٹ ہی ہے جس کی وجہ سے گناہ پر دلیری پیدا ہوتی اور انسان گناہ کی دل دل میں پھنسے رہنے کا ایک بہانہ حاصل کر لیتا ہے کیونکہ جھوٹ کے ذریعہ گناہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور پھر اس پردہ کی اوٹ میں گناہ بڑھتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ پس جھوٹ صرف اپنی ذات میں ہی گناہ نہیں ہے بلکہ دوسرے گناہوں کے واسطے ایک بدترین قسم کا سہارا بھی ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو شرک اور عقوق والدین کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان نے آپ سے عرض کیا یارسول اللہ میرا نفس کمزور ہے اور میں بہت سی کمزوریوں میں مبتلا ہوں۔ اور میں سارے گناہوں کو یک دم چھوڑنے کی ہمت نہیں پاتا ۔ آپ مجھے ہدایت فرمائیں کہ میں سب سے پہلے کس گناہ کو چھوڑوں ؟ آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا چھوڑدو‘‘ اس نے اس کا وعدہ کیا۔ اور گھر واپس آگیا ۔ پھر جب وہ اپنی عادت کے مطابق بعض دوسرے گناہوں کا ارتکاب کرنے لگا تو اسے خیال آیا کہ اب اگر رسول اللہ تک میری یہ بات پہنچی اور آپ نے مجھ سے پوچھا۔ تو جھوٹ تو بہرحال میں نے بولنا نہیں میں آپ کو کیا جواب دوں گا؟ یا اگر کسی مسلمان کو میری کسی کمزوری کا علم ہوا تو اس کے سامنے میں اپنے اس گناہ پر کس طرح پردہ ڈالوں گا؟ آخر اسی میں اس نے سوچتے سوچتے فیصلہ کیا کہ جب چھوڑ دیا ہے تو اب یہی بہتر ہے کہ سارے گناہوں سے ہی اجتناب کیا جائے۔ چنانچہ وہ جھوٹ چھوڑنے کی برکت سے سب گناہوں سے نجات پاگیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے جھوٹ کے گناہ کو شرک اور عقوق والدین کے گناہوں کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دے کر مسلمانوں کی اصلاح کا ایک ایسا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا ہے جس کے ذریعہ وہ بہت جلد اپنے گناہوں پر غلبہ پاسکتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ جھوٹ ایک بدترین اور ذلیل ترین قسم کا گناہ ہے اور ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ اخلاقی گناہوں میں سب سے پہلے جھوٹ پر غلبہ پانے کی کوشش کرے۔
لیکن ضمناً یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ہرحال میں سچی بات بلا ضرورت بیان کردی جائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ جو بات بیان کی جائے وہ بہرحال سچی اور جھوٹ کی آمیزش سے پاک ہونی چاہئے۔ ورنہ بسا اوقات قومی یا خاندانی یا ذاتی مصالح بعض باتوں میں رازداری کے متقاضی ہوتے ہیں اور رازداری ہرگز راست گفتاری کے خلاف نہیں۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 64

چھوٹوں پر رحم کرو اور بڑوں پر حق کو پہچانو

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عَمْر وَعَن الَّنبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَّمَ یَرْحَمْ صَغِیْرَ نَا وَلَمْ یَعْرِفْ حَقَّ کبِیْرِنا فَلَیْسَ مِنَّا (ابودائود)

ترجمہ: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص ہم میں سے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہم میں سے بڑوں کا حق نہیں پہچانتا۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
تشریح: اس حدیث میں باہمی تعلقات کا ایک لطیف گر بیان کیا گیا ہے۔ دنیا میں اکثر فسادات اور جھگڑے اس لئے ہوتے ہیں کہ بڑے لوگ چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور رحم کا سلوک نہیں کرتے اور چھوٹے لوگ بڑوں کے واجبی احترام سے غافل رہتے ہیں اور اس طرح ایک ناگوار طبقاتی کش مکش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف تو سرکاری عہدوں اور دولت پیدا کرنے کے ذرایع کے حصول میں سب کے واسطے برابر کے حقوق تسلیم کئے اور دوسری طرف سوسائیٹی کے مختلف طبقات میں ایک طرف سے شفقت ورحمت اور دوسری طرف سے ادب و احترام کا مضبوط پل باندھ کر سب کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ جن لوگوں کو زندگی کی جدوجہد میں دوسروں سے آگے نکلنے کا موقعہ میسر آجاتا ہے ان کیلئے حکم ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں کے ساتھ جب تک کہ وہ پیچھے ہیں شفقت و رحم کا سلوک کریں۔ اور جو لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ آگے نکل جانے والوں کے ساتھ جب تک کہ وہ آگے ہیں واجبی ادب و احترام سے پیش آئیں۔ اس زریں ہدایت کے ذریعہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کے مختلف طبقات کے درمیان ناواجب کش مکش کی جڑھ کاٹ کر رکھ دی ہے مگر افسوس ہے کہ ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے کوئی طاقت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ تکبر میں مبتلا ہوکر اپنے سے نیچے کے لوگوں کو کچل دینے کا متمنی ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص زندگی کی دوڑ میں کسی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہے تو وہ حسد میں جل کر آگے نکل جانے والوں کو نیچے گرانے اور تباہ کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اسلام کی منصفانہ تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔
اسلام یقینا طبقات پیدا نہیں کرتا مگر جو وقطی امتیاز افراد کے دماغی قو یٰ یا ذاتی جدوجہد کے فرق کی وجہ سے خود بخود طبعی رنگ میں پیدا ہو جاتا یہ وہ جب تک اسی قسم کے طبعی طریق پر دور نہ ہو اسلام اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے حقائق کو نظر انداز بھی نہیں کرتا۔ بلکہ اسے اپنے نوٹس میں لاکر اس کے ناگوار نتائج کو روکنے کیلئے مناسب تدابیر اختیار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد انہی تدابیر کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام اس بات پر بھی زور دیتا چلا جاتا ہے کہ اس قسم کے امتیازات محض عارضی ہوا کرتے ہیں اور آج جو طبقہ نیچے ہے کل کو ہ ترقی کرکے اوپر آسکتاہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے لا یسخرقوم من قوم عسٰی اَنْ یکونوا خَیْراً منھم ’’ یعنی سوسائٹی کے کسی طبقہ کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے طبقہ کو ادنیٰ خیال کرکے اُسے تحقیر کی نظر سے دیکھے ۔ کیونکہ جو طبقہ نیچے ہے کل کو وہی طبقہ اوپر آکر تحقیر کرنے والوں سے بہتر بن سکتا ہے‘‘۔
.6یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس حدیث میں جو صغیر اور کبیر کا لفظ آتا ہے اس سے عربی محاورہ کے مطابق ہر قسم کے چھوٹے بڑے مراد ہیں۔ خواہ یہ فرق اثر و رسوخ کے لحاظ سے ہو یاافسری ماتحتی کے لحاظ سے ہو یا دولت کے لحاظ سے یا رشتہ کے لحاظ سے ہو یا عمر کے لحاظ سے ہو ۔ بہرحال جس جہت سے بھی فرق ہوگا۔ہر بڑے کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے چھوٹے کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کرے۔ اور ہر چھوٹے کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سے بڑے کے ساتھ واجبی ادب و احترام سے پیش آئے۔ اور جو شخص ایسا نہیں کرتا اس کے متعلق ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لیس منا ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 13

ظالم حکمران کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے

عَنْ طَارِقِ بْنِ شَھَابٍ اَنَّ رَجُلاً سَألَ النبِیَّ صَلّٰی اللہ علیہ وسلم وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَہٗ فِیْ الْغَرْزِاَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ قَالَ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (نسائی)

ترجمہ: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایسے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ جب آپ ایک سفر پر جاتے ہوئے اپنی رکاب میں پائوں ڈال رہے تھے۔ اس نے پوچھا یارسول اللہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ انصاف کے رستہ سے بھٹکتے ہوئے بادشاہ کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا‘‘۔
تشریح : اگر ایک طرف اسلام نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے امیر یا حاکم کی اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں ۔ اور اس کے احکام کو توجہ سے سنیں اور شرح صدر سے بجا لائیں۔ تو دوسری طرف اس نے ماتحتوں کا بھی یہ فرض مقرر کیا ہے کہ اگر ان کا بادشاہ یا امیر یا حاکم (کیونکہ اس جگہ سلطان کے مفہوم میں یہ سب لوگ شامل ہیں) انصاف کے رستہ سے بھٹکنے لگے ۔ اور ظلم کا طریق اختیار کرے تو وہ اخلاقی جرأت سے کام لے کر اسے نیک مشورہ دیں۔ اور حاکم کے رویہ میں اصلاح کی کوشش کرے ملک میں عدل و انصاف کو قائم کرنے میں مدد دیں۔ اور چونکہ جائر اور غصہ میں آئے ہوئے حاکم کو نیکی کا مشورہ دینا غیر معمولی جرأت چاہتا ہے ۔ اور بعض اوقات خطرہ سے بھی خالی نہیں ہوتا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوشش کو افضل جہا د کے نام سے موسوم کیا ہے۔
حق یہ ہے کہ اسلام نے حاکم اور محکوم اور راعی اور رعیت کے حقوق میں ایسا لطیف توازن قائم کیا ہے کہ اس معاملہ میں اس سے بڑھ کر کوئی او رتعلیم خیال میں نہیں آسکتی۔ سب سے اول نمبر پر اسلام نے بلا امتیاز قوم و ملت یہ ہدایت دی ہے کہ حکومت کے تمام عہدے (جس میں حاکم اعلیٰ سے لیکر سب سے نیچے کا افسر بھی شامل ہے) صرف اہلیت کی بناء پر تقسیم ہونے چاہئیں چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَ مَانَاتِ الیٰ اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ اَنْ تَحکُمُوْا بِالْعَدْلِ

’’یعنی حکومت کے تمام عہدے ایک مقدس امانت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا یہ کہ یہ امانت صرف اہلیت رکھنے والے لوگوں کے سپرد کیا کرو۔ اور پھر جو لوگ حاکم مقرر ہوں ان کا فرض ہے کہ کامل عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں‘‘ اس کے بعد دوسرے نمبر پر اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگوں کا فرض ہے کہ اپنے حاکموں کی پوری پوری اطاعت کریں اور ان کے احکام کو توجہ کے ساتھ سنیں اور شوق کے ساتھ بجا لائیں اور پھر تیسرے نمبر پر اسلام یہ ہدایت فرماتا ہے کہ اگر کوئی حاکم انصاف کے رستہ سے ہٹنے لگے تو ماتحتوں کا فرض ہے کہ بروقت نیک مشورہ دے کر اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ کیونکہ امن کے لحاظ سے یہ مشورہ ایک اعلیٰ قسم کے جہاد سے کم نہیں ۔ لیکن چونکہ بعض ماتحت لوگ اس معاملہ میں خوداری یا جلد بازی یا ناواجب رقابت یا ذاتی رنجش کے طریق پر غلط قدم اٹھا سکتے ہیں ۔ اس لئے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرعون کے معاملہ میں حضرت موسیٰ کو

قَوْلَا لَہٗ قَوْلَا لَیِّنًا

(یعنی فرعون کے ساتھ نرم انداز میں بات کرنا) کے الفاظ میں ہدایت فرماتا ہے۔ اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ایسے امور میں کوئی خلافِ آداب طریق یا گستاخی کا انداز یا بغاوت کا رنگ اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں صراحت آئی ہے اگر بعض مظالم برداشت کرکے بھی صبر سے کام لیا جاسکے تو وہ بہتر ہے تاکہ ملک کا امن اور قوم کا اتحاد خطرہ میں نہ پڑے اور یہی وہ وسطی تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد بن سکتی ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ حاکموں کو نیک مشورہ دینے اور انہیں عدل و انصاف کے مقام پر قائم رکھنے کی بجائے آج کل اکثر لوگ افسروں کو بگاڑنے کا طریق اختیار کرتے ہیں اور ایک طرف جھوٹی خوشامد کے ذریعہ اور دوسری طرف رشوت کے ناپاک وسیلہ سے حاکموں کے اخلاق اور ان کے جذبہ ٔ انصاف کو تباہ کرنے کے درپے رہتے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے اور ایک دوسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار ’’یعنی رشوت دینے والا شخص اور رشوت لینے والا شخص دونوں آگ کا ایندھن ہیں‘‘ کاش اسلامی ممالک تو اس لعنت سے آزاد ہوسکیں۔

اسلام میں اطاعت کا بلند معیار

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ عَلیَ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ اسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ فِیْمَا اَحَبَّ وَلَوْکَرِہَ اِلَّا اَنْ یُّؤمَرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِنْ اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ (بخاری)

ترجمہ:۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر مسلمان پر اپنے افسروں کی ہر بات سننا اور ماننا فرض ہے خواہ اسے ان کا کوئی حکم اچھا لگے یا برا لگے۔ سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم دیں۔ جس میں خدا اور رسول کے کسی حکم کی (یا کسی بالا افسر کے حکم کی )نافرمانی لازم آتی ہو۔ اگر وہ ایسی نافرمانی کا حکم دیں تو پھر اس میں ان کی اطاعت فرض نہیں۔
تشریح :۔ یہ حدیث اسلامی معیار اطاعت کا بنیادی اصول پیش کرتی ہے اسلام ایک انتہا درجہ کا نظم و ضبط والا مذہب ہے ۔ وہ کسی شخص کو اپنے حلقہ میں جبراً داخل کرنے کا موید نہیں اور صاف اعلان کرتا ہے کہ لَا اِکْرَاہ فِی الدِّینِ (یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں) لیکن جب کوئی شخص خوشی اور شرح صدر کے ساتھ اسلام قبول کرتا ہے تو پھر اسلام اس سے اس نظم و ضبط کی توقع رکھتا ہے جو ایک منظم قوم کے شایانِ شان ہے وہ اپنے ہر فرد کو کامل اطاعت کانمونہ بنانا چاہتا ہے۔ اور افسروں کے حکموں پر حیل و حجت کی اجازت نہیں دیتا کہ جو حکم پسند ہوا وہ مان لیا او رجو ناپسند ہوا اس کا انکار کردیا ’’ سنو اور مانو‘‘ اسلام کا ازلی نعرہ رہا ہے مسلمان کے اس ضابطہ ٔ اطاعت میں صرف ایک ہی استثناء ہے اور وہ یہ کہ اسے کسی ایسی بات کا حکم دیا جائے جو صریح طور پر خدا اور اس کے رسول یا کسی بالا افسر کے حکم کے خلاف ہو۔ اس کے علاوہ ہر حکم میں خواہ وہ کچھ ہو اور کیسے ہی حالات میں دیا جائے’’ سنو اور مانو‘‘ کا اٹل قانون چلتا ہے۔
اور یہ جو اس حدیث میں الطاعۃ (یعنی مانو) کے لفظ کے ساتھ السمع (یعنی سنو) کے لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس میں اس لطیف حکمت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ایک مسلمان کا کام صرف منفی قسم کی اطاعت نہیں ہے کہ جو حکم اسے پہنچ جائے وہ اسے مان لے اور بس بلکہ اسے مثبت قسم کی شوق امیز اطاعت کا نمونہ دکھانا چاہئے اور گویا اپنے افسروں کی طرف کان لگائے رکھنا چاہئے کہ کب ان کے منہ سے کوئی بات نکلے اور کب میں اسے مانوں۔ ورنہ محض اطاعت کیلئے اطاعۃ (یعنی مانو) کا لفظ بولنا کافی تھا۔ اور السمع (یعنی سنو) کا لفظ زیادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس لفظ کا زیادہ کرنا یقینا اسی غرض سے ہے کہ تارِسمی اطاعت کی بجائے شوق آمیز اطاعت کا معیار قائم کیا جائے ۔ پس اسلامی ضابطہ ٔ اطاعت کا خلاصہ یہ ہے کہ :

بھائی خواہ ظالم ہو یا مظلوم اُس کی مدد کرو

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِمًا اَوْمَظْلُوْمًا قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا نَنْصُرُہٗ مَظْلُوْماً فَکَیْفَ نَنْصُرُہٗ ظَالِمًا قَالَ تَاْخُذ فَوْقَ یَدَیْہِ (بخاری)

ترجمہ:۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی بہرحال امداد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم بھائی کی مدد کا مطلب تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم بھائی کی مدد کس طرح کی جائے؟ آپ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر کرو۔
تشریح :۔ یہ لطیف حدیث فلسفہ اخوت اور فلسفہ ٔ اخلاق کا ایک نہایت گراں قدر مجموعہ ہے۔ فلسفہ ٔ اخوت کا پہلو تو یہ ہے کہ ایک مسلمان بھائی کی مدد ہر حال میں ہونی چاہئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو اخوت وہ چیز نہیں جسے کسی حالت میں بھی فراموش یا نظرانداز کیا جائے جو شخص ہمارا بھائی ہے وہ ہر صورت میں ہماری مدد کا مستحق ہے اور اس کا ظالم یا مظلوم ہونا اس کے اس حق پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابل پر اس حدیث کے فلسفہ ٔ اخلاق کا پہلو یہ ہے کہ خواہ ہمارا واسطہ غیر کے ساتھ ہو یا کہ بھائی کے ساتھ ہمارا ہرحال میں فرض ہے کہ دنیا سے ظلم اور بدی کو مٹائیں اور نیکی اور انصاف کو قائم کریں کسی کے غیر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس پر ظلم کریں اور کسی کے بھائی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ہم ایک ظلم میں بھی اس کے معین و مددگار ہوں۔
اب غور کرو۔ کہ بظاہر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے کس قدر مخالف اور کتنی متضاد نظر آتی ہیں۔ اگر ظالم بھائی کی مدد نہ کی جائے تو اخوت کی تاریں ٹوٹتی ہیں۔ اور اگر ظالم بھائی کی مدد کی جائے تو انصاف ہاتھ سے دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے آقا (فداہ نفسی) نے ان متوازی نہروں کو جو بظاہر ہمیشہ ایک دوسرے سے جدا رہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حکمت و دانش مندی کی ایک درمیانی نہر کے ذریعہ اس طرح ملا دیا ہے کہ وہ گریا ایک جان ہوکر بہنے لگ گئی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اخوت ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو کسی حالت میں ٹوٹنا نہیں چاہئے۔ میرا بھائی خواہ اچھا ہے یا برا نیک ہے یا بد۔ ظالم ہے یا مظلوم ۔ بہرحال وہ میرا بھائی ہے۔ اور اس کی اخوت کی تاریں کسی حالت میں کاٹی نہیں جاسکتیں۔ لیکن خدائے اسلام ظلم کی بھی اجازت نہیں دیتا اور دشمن تک سے انصاف کا حکم فرماتا ہے ۔ اس لئے ان دو باتوں کو اس طرح ملائو کہ بھائی کی تو بہرحال مدد کرو لیکن اس کے ظالم ہونے کی حالت میں اپنی مدد کی صورت کو بدل دو اگر وہ مظلوم ہے تو اس کے ساتھ ہوکر ظالم کا مقابلہ کرو۔ اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ساتھ لپٹ کر اس کے ظلم کے ہاتھ کو مضبوطی کے ساتھ روکو۔ اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس سے عرض کرو کہ بھائی ہر حال میں میں تمہارے ساتھ ہوں مگر اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا اس لئے میں تمہارے ہاتھ کو ظلم کی طرف بڑھنے نہیں دوں گا۔ یہ وہ مقدس اصول ہے جو اس لطیف حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا ہے۔
یہ خیال کرنا جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض زور دینے کی خاطر خاص قسم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ورنہ مقصد یہی ہے کہ اگر تمہارا بھائی مظلوم ہے تو اس کی مدد کرو۔ اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کے خلاف کھڑے ہو جائو۔ بالکل غلط اور حدیث کے حکیمانہ الفاظ کے ساتھ گویا کھیلنے کے مترادف ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی منشا ہوتا تو آپ بڑی آسانی کے ساتھ فرما سکتے تھے کہ تم بہرحال ظلم کا مقابلہ کرو خواہ وہ تمہارے دشمن کی طرف سے ہو یا تمہارے بھائی کی طرف سے لیکن آپ نے ہرگز ایسا نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے اس فرمان میں بظاہر دو متضاد باتوں کو ملاکر ایک نہایت لطیف اور اچھوتا نظریہ قائم فرمایا ہے جو یہ ہے کہ :۔

یہ وہ مرکب نظریہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پیشترعرب کے صحرا سے اٹھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ لیکن آج تک یورپ اور امریکہ کی کوئی ترقی یافتہ قوم بھی اس نظریہ کی بلندی کو نہیں پہنچ سکی۔ انہوں نے اگر کسی قوم کے ساتھ اخوت کا عہد باندھا تو اس اخوت کے اکرام میں بے پناہ ظلم کا دروازہ کھول دیا اور اگر بزعمِ خود کسی ظلم کے انسداد کے لئے اُٹھے تو اخوت کے عہد کی دھجیاں اڑادیں۔

جو بات اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کیلئے پسند کرو

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ نَـفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَ خِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَـفْسِہٖ (بخاری)

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سچا مومن نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی بات پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
تشریح :۔ یہ حدیث اسلامی اخوت کا حقیقی معیار پیش کرتی ہے سب سے پہلے قرآن شریف نے تمام مسلمانوں کو انما المومنون اخوۃ (یعنی تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں) کہہ کر بھائی بھائی بنایا اور اس کے بعد ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ فرماکر جو اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اس اخوت کے بلند معیار کی وضاحت فرمائی آپ فرماتے ہیں اور کس شان کے ساتھ خدا کی قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ مومنوں کی اخوت کا حقیقی معیار یہ ہے کہ جو بات ایک مسلمان اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرے ان مختصر الفاظ کے ذریعہ آپ نے گویا مسلمانوں میں ہر قسم کی دُوئی اور غیریت کی جڑھ کاٹ کر انہیں بالکل ایک جان کردیا ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر لوگ نفسانفسی کی مرض میں مبتلا ہوکر اپنے واسطے ہر خیر کو جمع کرنے اور دوسروں کو ہر خیر سے محروم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ

وَیْلُ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا کَالُوْ ھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُم یُخْسِرُوْنَ اَلَا یَظُنُّ اُوْلٰئِکَ اَنَّھُمْ مَبْعُوْثُوْنَ

’’یعنی دوسروں کا حق مارنے والے لوگوں پر افسوس ہے کہ جب وہ دوسروں سے اپنا حق وصول کرتے ہیں تو خوب بڑھا چڑھا کر لیتے ہیں لیکن جب خود دوسروں کا حق دینے لگتے ہیں تو اپنا ناپ کم کر دیتے ہیں کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیںکہ وہ خدا کے سامنے کبھی پیش نہیں کئے جائیں گے‘‘؟ اسلام اس نفسا نفسی کی مرض کو جڑھ سے کاٹ کر حکم دیتا ہے کہ سچے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کریں۔
مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جو خاص حقوق شریعت نے قریبی رشتہ داروں کیلئے مقرر کر دیئے ہیں انہیں ترک کردیا جائے مثلا باپ کا فرض ہے کہ چھوٹی عمر کی اولاد کے اخراجات کاکفیل ہو خاوند کا فرض ہے کہ بیوی کے اخراجات کو برداشت کرے۔ بچوں کا فرض ہے کہ بوڑھے یا بے سہارا والدین کا بوجھ اُٹھائیں۔ اسی طرح شریعت نے ایک شخص کے مرنے پر اس کے ورثاء کے حصے بھی مقرر کر دیئے ہیں کہ بیوی کو اتنا حصہ ملے اور اولاد کو اتنا حصہ ملے۔ اور ماں باپ کو اتنا حصہ ملے وغیرہ وغیرہ اور دوسرے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں کاخاص خیال رکھنے کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ پس یہ مقرر حقوق تو بہرحال مقدم رہیں گے لیکن انہیں چھوڑ کر عام تعلقات اور معاملات میں اسلام ہر مسلمان سے توقع رکھتا اور اسے تاکیدی ہدایت دیتا ہے کہ جو بات وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند کرے اور یہ نہ ہو کہ اپنے لئے تو اس کا پیمانہ اور ہو اور دوسروں کے لئے اور ہو ۔ ایک دوسری حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں ایک انسانی جسم کے اعضا کا رنگ رکھتے ہیں جس طرح جسم کے ایک عضو کے دُکھنے سے سارا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان کے دُکھ سے ساری قوم میں بے کلی اور بے چینی پیدا ہو جانی چاہئے۔ یہ وہ اخوت کا بلند معیار ہے جس پر خدا کا رسول (فداہ نفسی) ہمیں لے جانا چاہتا ہے کاش ہم اس تعلیم کی قدر کریں۔

ہر ناپسندیدہ بات دیکھ کر اصلاح کی کوشش کرو

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَن رَأیَ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغیِرّہٗ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔ (مسلم)

ترجمہ:۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم میں سے جو شخص کوئی خلافِ اخلاق یا خلافِ دین بات دیکھے تو اُسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے لیکن اگر اسے یہ طاقت حاصل نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کے متعلق اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اسے یہ طاقت بھی نہ ہو تو کم از کم اپنے دل میں اسے برا سمجھ کر (دعا کے ذریعہ) بہتری کی کوشش کرے اور آپ فرماتے تھے کہ یہ سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے۔
تشریح : جہاں اوپر والی حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ کی تحریک کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہر سچے مومن کو اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ ہر وقت جہاد میں لگے رہنا چاہئے۔ وہاں اس حدیث میں جہاد کے بہت سے میدانوں میں سے ایک میدان کے متعلق جہاد کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ یہ میدان قومی اور خاندانی اور انفرادی اصلاح سے تعلق رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہت سی دینی اور اخلاقی بدیاں اس لئے پھیلتی ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کیلئے کوئی قولی یا عملی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اس طرح نہ صرف بدی کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے کیونکہ ایک شخص کے برے نمونہ سے بیسیوں مزید آدمی خراب ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں سے بدی کا رعب بھی کم ہونے لگتا ہے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ قانونی طریق کے علاوہ سوسائٹی میں سے بدی کو مٹانے کے دو ہی بڑے ذریعہ ہیں۔ ایک ذریعہ بزرگوں اور نیک لوگوں کی نگرانی اور نصیحت سے جو بے شمار کمزور طبیعتوں کو سنبھالنے کا موجب ہو جاتی ہے اور دوسرا ذریعہ بدی کا وہ رعب اور ڈر ہے جو سوسائٹی کی رائے عامہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لا تعداد لوگوں کو بدی کے ارتکاب سے روک دیتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ بدصحبت میں مبتلا ہوکر خراب ہونے لگتا ہے۔ مگر اس کے والد یا والدہ یا کسی اور نیک بزرگ کی بروقت نگرانی اور نصیحت اسے گرتے گرتے سنبھال لیتی ہے یا ایک شخص اپنے اندر ایک خاص قسم کی بدی کی طرف میلان پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ مگر اسے سوسائٹی کا رعب اور بدنامی کا ڈر اس میلان سے روک کر پھیلنے سے بچا لیتا ہے۔ اسی طرح اگر عملی نگرانی یا قولی نصیحت نہ بھی ہو تو نیک لوگوں کی خاموش دعائیں بھی خاندانوں اور قوموں کی اصلاح میں بڑا کام کرتی ہیں پس اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں قسموں کے موجبات اصلاح کو حرکت میں لاکر مسلمانوں میں بدی کا رستہ بند کرنا اور نیکی کا رستہ کھولنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں اکثر لوگ ایسے سست اور غافل اور بے پرواہ ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا کوئی عزیز یا دوست یا ہمسایہ برملا طور پر ایک خلافِ اخلاق یا خلافِ دین حرکت کرتا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور یہ خیال کرکے کہ ہم کسی عزیز یا دوست کا دل میلا کیوں کریں یا ہم کسی سے جھگڑا مول کیوں لیں یا ہمیں دوسروں کے ذاتی اخلاق سے کیا سروکار ہے۔ بالکل بے حرکت بیٹھے رہتیہیں ۔ اور بدی ان کی آنکھوں کے سامنے جڑ پکڑتی اور پودے سے پیڑ سے درخت بنتی چلی جاتی ہے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ جو آگ آج ان کے ہمسایہ کے گھر میں لگی ہے کل کو وہی وسیع ہوکر ان کے اپنے گھر کو بھی تباہ کر دے گی۔
الغرض ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت اور دُور اندیشی سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنے ارد گرد بدی اور گناہ کی آگ دیکھ کر تماشہ بین بن کر نہ بیٹھے رہو بلکہ اولاً اپنے ہمسایہ کے گھر کواور پھر خود اپنے گھر کو بھی اس آگ کی تباہی سے بچائو اور آپ نے اس تبلیغی اور تربیتی جدوجہد کو تین درجوں میں منقسم فرمایا ہے اوّل یہ کہ انسان کو اگر طاقت ہو تو بدی کو اپنے ہاتھ سے روک دے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعہ نصیحت کرکے روکنے کی کوشش کرے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر دل کے ذریعہ سے روکے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ ہاتھ سے روکنے سے غیر اور لاتعلق لوگوں کے خلاف تلوار چلانا یا جبر کرنا مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس پوزیشن میںہو کہ وہ کسی بدی کو اپنے ہاتھ سے زور سے بدل سکے تو اس کا فرض ہے کہ ایسا کرے مثلاً اگر ایک باپ اپنے بچے کو کسی غلط رستہ پر پڑتا دیکھے یا ایک افسر اپنے ماتحت کو یاآقا اپنے نوکر کو بدی کے رستہ پر گامزن پائے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے جائز اقتدار کے ذریعہ اس بدی کا سدباب کرے اور زبان سے روکنے سے نصیحت کرنا یا حسب ضرورت مناسب تنبیہہ کے ذریعہ روکنا مراد ہے اور دل کے ذریعہ اصلاح کرنے سے محض خاموش رہ کر دل میں برا ماننا مراد نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دل کے ذریعہ بدلنے یا روکنے ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور یہ غرض ہرگز محض دل میں براماننے کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی ۔ پس دل کے ذریعہ روکنے سے مراد دل کی دُعا ہے جو اصلاح کا ایک تجربہ شدہ ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامنشاء یہ ہے کہ اگر ایک انسان کسی بدی کو نہ تو ہاتھ سے روک سکے اور نہ ہی زبان سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ کم از کم دل کی دعا کے ذریعہ ہی اصلاح کی کوشش کرے اور یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل کے ذریعہ روکنے کی کوشش کرنا سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے ۔ اس سے یہ مراد ہے کہ محض دل کی دعا پر اکتفا کرنا بہت کمزور قسم کی چیز ہے اصل مجاہد انسان وہی سمجھا جاسکتا ہے جو دل کی دعا کے ساتھ ساتھ خدا کی پیدا کردہ ظاہری تدابیر بھی اختیار کرتا ہے جو شخص محض دُعا پر اکتفا کرتا ہے اور بدی کو روکنے کیلئے کوئی ظاہری تدبیر عمل میں نہیں لاتا۔ وہ دراصل اصلاحِ نفس کے فلسفہ کو بہت کم سمجھا ہے۔ دُعا میں بے شک بڑی طاقت ہے لیکن زیادہ موثر دُعا وہ ہے جس کے ساتھ ظاہری تدبیر بھی شامل ہوتا کہ انسان نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل کے ذریعہ بھی خدا کے فضل کا جاذب بن سکے۔
پس تمام سچے مسلمانوں کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد پر عمل کریں۔ یعنی اگر ان کے سامنے کوئی ایسا شخص بدی کا مرتکب ہو جو ان کا کوئی عزیز یا دوست یا ماتحت ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دیں اور اگر کوئی ایسا شخص بدی کا مرتکب ہونے لگے جسے ہاتھ سے روکنا ان کے اختیار میں نہیں۔ بلکہ ہاتھ کے ذریعہ روکنا فتنہ کا موجب ہوسکتا ہے تو اُسے زبان کی نصیحت سے روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر اپنی کمزوری یا فتنہ کے خوف کی وجہ سے انہیں ان دونوں باتوں کی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم اس بدی کے استیصال کیلئے دل میں ہی سچی تڑپ کے ساتھ دعا کریں افراد اور خاندانوں اور قوموں کی اصلاح کیلئے یہ تدبیر اتنی مفید اور اتنی مؤثر اور اتنی بابرکت ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو ایک بہت قلیل عرصہ میں ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے لیکن بدی کے نظاروں کو تماشے کے رنگ میں دیکھنے والا انسان ہرگز سچا مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا۔

مجاہد اور قاعد مسلمان میں درجہ کا فرق

عَنْ اَبیِ ھُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلوٰۃ وَصَامَ رَمْضَانَ کَانَ حَقّاً عَلیٰ اللّٰہِ اِنْ یُّدْخِلَہُ الْجنّۃَ جَاھَدَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ اَوْجَلَسَ فِیْ رَوْضَۃِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا۔ قَالُوْ اَفَلَا نُبَشِّرُ الَناسَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلمُجَاھِدِیْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالاَرْضِ فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْئَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَانَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلیٰ الْجَنَّۃِ وَفَوْقَھَا عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْھَا یَتَفَجَّرُ انْھٰرُ الْجَنَّۃِ(بخاری)

ترجمہ :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اور نماز قائم کرتا اور رمضان کے روزے رکھتا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ پر گویا یہ حق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ ایسا انسان خدا کے رستہ میں جہاد کرے یا کہ اپنے پیدائشی گھرکے باغیچہ میں ہی قاعدبن کر بیٹھا رہے۔ صحابہ نے عرض کیا تو کیا یا رسول اللہ ہم یہ بشارت لوگوں تک نہ پہنچائیں؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک سودرجے ایسے ہیں جنہیں خدا نے اپنے مجاہد بندوں کے لئے تیار کر رکھا ہے اور ہر درجہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس اے مسلمانو! جب تم خدا سے جنت کی خواہش کرو تو فردوس والے درجہ کی خواہش کیا کرو۔ جو جنت کاسب سے وسطی اور سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اس سے اوپرخدا نے ذوالجلال کا عرش ہے اور اسی میں سے جنت کی تمام نہریں پھوٹتی ہیں۔
تشریح :۔ میں نے اپنے عام اصولِ انتخاب کے خلاف یہ لمبی حدیث اس لئے درج کی ہے کہ اس حدیث سے ہمیں کئی اہم اور مفید اور اصولی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ باتیں یہ ہیں:۔
(۱) یہ کہ جنت میں صرف ایک ہی درجہ نہیں ہے بلکہ بہت سے درجے ہیں۔ جن میں سب سے اعلیٰ درجہ فردوس ہے جو گویا جنت کی نہروں کا منبع ہے۔
(۲) یہ کہ جنت میں مجاہد مسلمانوں کے کم سے کم درجہ اور قاعد مسلمانوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ میں بھی اتنا ہی فرق ہوگا۔ جتنا کہ زمین اور آسمان میں فرق ہے۔
(۳) یہ کہ مسلمانوں کو نہ صرف مجاہدوں والا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ مجاہدوں والے درجوں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ یعنی فردوس کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔
(۴) یہ کہ جنت کے مختلف درجے خدا تعالیٰ کے قرب کے لحاظ سے مقرر کئے گئے ہیں۔ اسی لئے جنت کے اعلیٰ ترین درجہ کو عرشِ الٰہی کے قریب تر رکھا گیا ہے۔
(۵) یہ کہ جنت کی نعمتیں مادی نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں۔ کیونکہ ان کا معیار خدا کا قرب مقرر کیا گیا ہے۔ اور گو ان نعمتوں میں روح کے ساتھ جسم کا بھی حصہ ہوگا۔ جیسا کہ اعمال میںبھی اس کا حصہ ہوتا ہے مگر جنت میں انسان کا جسم بھی روحانی رنگ کا ہوگا۔ اس لئے وہاں کی جسمانی نعمتیں بھی دراصل روحانی معیار کے مطابق بالکل پاک و صاف ہوں گی۔
یہ وہ لطیف علم ہے جو ہمیں اس حدیث سے حاصل ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ تا مسلمانوں کے مقصد اور آئیڈیل کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے بے شک ایک مسلمان جو نماز اور روزہ کے احکام وغیرہ کو تو خلوص نیت سے پورا کرتا ہے( اس حدیث میں حج اور زکوٰۃ کے ذکر کو اس لئے ترک کیا گیا ہے کہ وہ ہر مسلمان پر واجب نہیں۔ بلکہ صرف مستطیع اور مالدار لوگوں پر واجب ہیں)مگر اپنے گھر میں قاعدین کو بیٹھا رہتا ہے وہ خدا کی گرفت سے بچ کر نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر وہ ان اعلیٰ انعاموں کو نہیںپاسکتا جو انسان کو خدا تعالیٰ کے قرب خاص کا حق دار بناتے ہیں ۔ پس ترقی کی خواہش رکھنے والے مومنوں کا فرض ہے کہ وہ قاعدانہ زندگی ترک کرکے مجاہدانہ زندگی اختیار کریں۔ اور خدا کے دین اور اس کے رسول کی امت کی خدمت میں دن رات کوشاں رہیں۔ حق یہ ہے کہ ایک قاعد مسلمان جس کے دین کا اثر اور اس کے دین کا فائدہ صرف اس کی ذات تک محدود ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ نعمتوں سے ہی محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے ہر وقت کا خطرہ بھی مول لیتا ہے کیونکہ بوجہ اس کے کہ وہ بالکل کنارے پر کھڑا ہے اس کی ذرا سی لغزش اسے نجات کے مقام سے نیچے گر اکر عذاب کا نشانہ بنا سکتی ہے مگر ایک مجاہد مسلمان اس مقام سے نیچے گراکر عذاب کا نشانہ بناسکتی ہے مگر ایک مجاہد مسلمان اس امکانی خطرہ سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ خدا کی راہ میں مجاہد بننے کا کیا طریق ہے سوگو جہاد فی سبیل اللہ کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ مگر قرآن شریف نے دو شاخوں کو زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ فرماتا ہے

فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلیٰ الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً ۔

’’یعنی خدا تعالیٰ نے دین کے رستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والے لوگوں کو گھروں میں بیٹھ کر نیک اعمال بجا لانے والوں پر بڑی فضیلت دی ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا بڑا ذریعہ مال اور جان ہے ۔ مال کا جہاد یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترقی اور اسلام کی مضبوطی کے لئے بڑھ چڑھ کر روپیہ خرچ کیا جائے اور جان کا جہاد یہ ہے کہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت (یعنی تبلیغ اور تربیت وغیرہ) میں لگایا جائے۔ اور موقعہ پیش آنے پر جان کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ جو شخص ان دو قسموں کے جہادوں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ان اعلیٰ انعاموں کا حق دار قرار پاتا ہے جو ایک مجاہد کیلئے مقدر ہیں ۔ مگر گھر میں بیٹھ کر نماز روزہ کرنے والا مسلمان ایک قاعد والی بخشش سے زیادہ امید نہیں رکھ سکتا۔
اب دیکھو کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم پر کس درجہ شفقت ہے کہ ایک انتہائی طور پر رحیم باپ کی طرح فرماتے ہیں کہ بیشک تم نماز روزہ کے ذریعہ نجات تو پالو گے اور عذاب سے بچ جائوگے۔ مگر اپنے تخیل کو بلند کرکے ان انعاموں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو ایک مجاہد فی سبیل اللہ کیلئے مقدر کئے گئے ہیں کیونکہ اس کے بغیر قومی زندگی کا قدم کبھی بھی ترقی کی بلندیوں کی طرف نہیں اٹھ سکتا بلکہ ایسی قوم کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ اس تعلق میں سب سے مقدم فرض ماں باپ کا اور ان سے اُتر کر سکولوں کے اساتذہ اور کالج کے پروفیسروں کا ہے۔ کہ وہ بچپن کی عمر سے ہی بچوں میں مجاہدانہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں قاعدانہ زندگی پر ہرگز قانع نہ ہونے دیں۔

خدا کی نظر دلوں پر ہے

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلیٰ قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ۔ (مسلم)

ترجمہ: ابو ہریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کی طرف دیکھتا ہے۔
تشریح : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کی نعمت ہونے کے باوجود بعض اوقات عورتوں اور مردوں میں بھاری فتنہ کا موجب بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جسمانی حسن و جمال ہے جوعموماً عورتوں کیلئے فتنہ کی بنیاد بنتا ہے اور دوسرے مال و دولت ہے جو بالعموم مردوں کو فتنہ میں مبتلا کرتا ہے۔ ان دو باتوں کو مثال کے طور پر سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بیشک یہ دونوں چیزیں خدا کی پیدا کی ہوئی نعمتیں ہیں۔ مگر مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ کسی انسان کی قدروقیمت کو پرکھنے کیلئے خدا تعالیٰ عورتوں کے حسن او رمردوں کے مال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ ان دونوں کے دلوں اور دماغ کی طرف دیکھتا ہے جو انسانی خیالات اور جذبات کا مبدا و منبع ہیںاور پھر وہ ان کے اعمال کی طرف دیکھتا ہے جو ان خیالات او رجذبات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
اس حدیث میں جو قلب کا لفظ بیان ہوا ہے اس سے دل اور دماغ دونوں مراد ہیںجنہیں انگریزی میں ہارٹ Heartاور مائنڈMindکہتے ہیں کیونکہ قلب کے لفظی معنی کسی نظام کے مرکزی نقطہ کے ہیں اور دل اور دماغ دونوں اپنے اپنے دائرہ میںجسمانی نظام کامرکز ہیں دماغ ظاہری احساسات کا مرکز ہے اور دل روحانی جذبات کا مرکز ہے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قلوب اور اعمال کا لفظ استعمال کرکے اشارہ فرمایا ہے کہ بیشک جسمانی حسن اور ظاہری مال و دولت بھی خدا کی نعمتیں ہیں اور انسان کو ان کی قدر کرنی چاہئے لیکن وہ چیز جس کی طرف خدا کی نظر ہے انسان کا قلب اور اس کے اعمال ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جمال و مال اور دنیا کی دوسری نعمتوں پر فخرکرنے کی بجائے اپنے دل و دماغ کی اصلاح اور اپنے اعمال کی درستی کی فکر کرے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے قلب اور اس کے اعمال کی طرف دیکھتا ہے اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ قیامت والے حساب کتاب میں انہی چیزوں کووزن حاصل ہوگا۔ بلکہ ان الفاظ میں یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اس دنیا میں بھی حقیقی وزن دل کے جذبات اور دماغ کے احساسات اور جوارح کے اعمال کو حاصل ہوتا ہے حق یہ ہے کہ جس قوم کے افرا د کو یہ نعمت حاصل ہوجائے یعنی ان کا دل اور ان کا دماغ اور ان کے ہاتھ پاؤں ٹھیک رستہ پر چل دیں اس کی ترقی اور اس کے لئے نعمتوں کے حصول کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔

اعمال کا اجر نیّت کے مطابق ملتا ہے

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعَتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّمَا الْاَاعْمَالُ بِالِنّیَّاتِ وَاِ نَّمَا لِکُلِّ امْرِیٔ مَّانَوٰی (بخاری)

ترجمہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پاتا ہے۔
تشریح : یہ لطیف حدیث انسانی اعمال کے فلسلفہ پر ایک اصولی روشنی ڈالتی ہے ظاہر ہے کہ بظاہر نیک نظر پنے والے اعمال بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں بعض کام محض عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں اور بعض کام دوسروں کی نقل میں کئے جاتے ہیں اور بعض کام ریا اور دکھاوے کے طور پر کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب کام خدائے اسلام کے ترازو میں بالکل بے وزن اور بے سود ہیں اور صحیح عمل وہی ہے جو دل کے سچے ارادہ اور نیت کے خلوص کے ساتھ کیا جائے۔ اور یہی وہ عمل ہے جو خدا کی طرف سے حقیقی جزا پانے کا مستحق ہوتا ہے ۔ حق یہ ہے کہ جب تک انسان کا دل اور اس کی زبان اور اس کے جوارح یعنی ہاتھ پائوں وغیرہ کسی عمل کے بجالانے میں برابر کے شریک نہ ہوں وہ عمل کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ دل میں سچی نیت ہو۔ زبان سے اس نیت کی تصدیق ہو اور ہاتھ پائوں اس نیت کے عملی گواہ ہوں۔ تو تب جاکر ایک عمل قبولیت کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں سچی نیت نہیں تو وہ منافق ہے۔ اگر اس کی زبان پر اس کی نیت کی تصدیق نہیں توہ وہ بزدل ہے۔ اور اگر اس کے ہاتھ پائوں اس کی بیان کردہ نیت کے مطابق نہیں تو وہ بدعمل ہے پس سچاعمل وہی ہے جس کے ساتھ سچی نیت شامل ہو۔ پاک نیت سے انسان اپنے بظاہر دنیوی اعمال کو بھی اعلیٰ درجہ کے دینی اعمال بنا سکتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک خاوند اس نیت سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے کہ میرے خدا کا یہ منشاء ہے کہ میں اپنی بیوی کا خرچ مہیا کروں اور اس کے آرام کا خیال رکھوں تو اس کا یہ فعل بھی خدا کے حضور ایک نیکی شمار ہوگا مگر افسوس ہے کہ دنیا میں لاکھوں انسان صرف اس لئے نماز پڑھتے ہیں کہ انہیں بچپن سے نماز کی عادت پڑچکی ہے اور لاکھوں انسان صرف اس لئے روزہ رکھتے ہیں کہ ان کے ارد گرد کے لوگ روزہ دار ہوتے ہیں اور لاکھوں انسان صرف اس لئے حج کرتے ہیں کہ تا لوگوں میں ان کام حاجی مشہور ہو اور وہ نیک سجھے جائیں اور ان کے کاروبار میں ترقی ہو۔ ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی یہ حدیث ایسے تمام اعمال کو باطل قرار دیتی ہے اور ایک باطل عمل خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی نیک نظرآئے خدا کے حضور کوئی اجر نہیں پاسکتا۔ لاریب سچا عمل وہی ہے جس کے ساتھ سچی نیت ہو۔ اور عمل کا اجر بھی نیت کے مطابق ہی ملتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے نبی ہیں

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ قَالَ رَسُْولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنّیِ اٰخِرُالْاَ نْبِیَآئِ وَاِنَّ مَسْجِدِیْ ھٰذَا اٰخِرُالْمَسَاجِدِ (مسلم)

ترجمہ:۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں آخری نبی ہوں اور میری یہ (مدینہ کی) مسجد آخری مسجد ہے ۔
تشریح : اس لطیف حدیث میں ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی ایسا مصلح نہیں آسکتا جو میری نبوت کے دور کومنسوخ کرکے اور میرے مقابل پر کھڑا ہوکر ایک نیا دور شروع کر دے بلکہ اگر کوئی آئے گا تو وہ لازماً میراتابع اور میرا شاگرد اور میری شریعت کا خادم ہونے کی وجہ سے میری نبوت کے دور کے اندر ہوگا نہ کہ اس سے باہر۔ اسلطیف مضمون کو واضح فرمانے کیلئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ زیادہ فرمائے ہیں کہ مسجدی ھذا اٰخر المساجد ’’ یعنی میری یہ (مدینہ والی)مسجد آخری مسجد ہے ‘‘ اب ظاہر ہے کہ ان الفاظ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی واقعات اس کی تائید کرتے ہیں کہ آئندہ دنیا میں کوئی اور مسجد بنے گی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آئندہ کوئی مسجد میری مسجد کے مقابل پر نہیں بنے گی بلکہ جو مسجد بھیبنیگی وہ میری اس مسجد کے تابع اور اس کی نقل اور ظل ہوگی۔
اسی طرح انیِ اٰخرالا نبیآء (میں آخری نبی ہوں) کے بھی یہی معنی ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری غلامی سے آزاد ہوکر میری نبوت کے مقابل پرکھڑا ہو اور میرے دین کو چھوڑ کر کوئی نیا دین لائے بلکہ اگر کوئی آئے گا تو میرا خادم اور میرا شاگرد اور میرا تابع اور میرا ظل اور گویا میرے وجود کا حصہ ہوکر آئے گا۔ اور یہی وہ گہرا فلسفہ ہے جو ایک قرآنی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین (نبیوں کی مہر) رکھ کر بیان کیا گیا ہے خوب غور کرو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ والی مسجد کے بعد اسلامی ممالک میں کروڑوں مسجدوں کی تعمیر کے باوجود مسجد ھذا اٰخر المساجد (یعنی میری یہ مسجد آخری مسجد ہے) کا مفہوم قائم رہتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ کے کسی خادم اور شاگرد اور تابع کا آپ کی اتباع اور غلامی میں نبوت کا انعام پانا کس طرح ختم نبوت یا انی اخر الانبیاء (یعنی میں آخری نبی ہوں) کے منشاء کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے ؟ پس یقینا اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ میں خدا کا آخری صاحب شریعت نبی ہوں ۔ جس کے بعد کوئی نبی میری غلامی کے جوئے سے آزاد ہوکر اور میرے دین کو چھوڑ کر نہیں آسکتا اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے جس کے بعد کوئی اور مسجد میری مسجد کے مقابل پر نہیں بن سکتی۔ اور اگر غور کیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان بھی اس بات میں نہیں ہے کہ آپ کو گذشتہ جاری شدہ نعمتوں کا بند کرنے والا قرار دیا جائے بلکہ آپ کی شان اس بات میں ہے کہ الگ الگ نہروں کو بند کرکے آئندہ تمام نہریں آپ کے وسیع دریا سے نکالی جائیں۔
یہی وہ لطیف تشریح ہے جو اسلام کے چوٹی کے علماء اور بڑے بڑے مجدد ہر زمانہ میں کرتے آئے ہیں چنانچہ صوفیاء کے سردار اور امام حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (ولادت ۵۶۰ھ؁ وفات ۶۳۸ھ؁) فرماتے ہیں:۔
النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع۔ (فتوحات مکیہّ جلد ۲ صفحہ ۳)
’’ یعنی وہ نبوت جس کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے بند ہوگیا ہے وہ صرف شریعت والی نبوت ہے‘‘۔
حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (وفات ۹۷۶ھ؁ ) جو ایک بڑے امام مانے گئے ہیں فرماتے ہیں:۔ ان مطلق النبوۃ لم ترتفع وانما ارتفعت نبوۃ التشریع
(الیواقیت الجواہر جلد اوّل صفحہ ۲۴)
’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مطلق نبوت ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ صرف شریعت والی نبوت بند ہوئی ہے‘‘۔
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی (وفات ۱۰۳۴ھ؁ ) جو اسلام کے مجددین میں نہایت ممتاز حیثیت کے مالک ہیں فرماتے ہیں:۔
حصولِ کمالات نبوت مرتابعاں رابطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثتِ خاتم الرسل منافی ختمیت اونیست فلاتکن من الممترین
(مکتوبات احمد جلد ۔۱ ۔ مکتوب صفحہ ۲۷۱)
’’ یعنی آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے متبعین کیلئے آپ کی پیروی اور ورثہ میں نبوت کے کمالات کا حصول آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی نہیں ہے پس تو اس بات میں شک کرنے والوں میں سے مت بن‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجددو صدی دوازدہم (ولادت ۱۱۱۴ھ؁ وفات ۱۱۷۶ھ؁ ) جن کے علم و فضل اور علومرتبت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔
ختم بہ النبیون ای یوجد بعدہ من یامرہ اللہ سبحانہ بالتشریع علی الناس۔ (تفہیمات الہیہ تفہیم صفحہ ۵۳)
’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں آسکتا جسے خدا تعالیٰ کوئی نئی شریعت دے کر مبعوث کرے‘‘۔
حضرت مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند (ولادت ۱۲۴۸؁ھ وفات ۱۲۹۷ھ؁ ) جو قریب کے زمانہ میں ہی بہت بڑے عالم گذرے ہیں اور ان کا مدرسہ علومِ مشرقیہ کی تعلیم کیلئے برعظیم ہندو پاکستان میں بہت بڑی شہرت کا مالک ہے فرماتے ہیں:۔
’’ عوام الناس کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بائیں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئیگا۔ (تخدیر الناس صفحہ ۳و ۲۸)
پس لاریب یہی نظریہ درست اور صحیح ہے کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود با جود میں نبوت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے اور دائمی شریعت کا نزول پورا ہوچکا ہے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جو آپ کا خوشیہ چین بن کر آپ کی غلامی میں آپ کی مہر تصدیق کے ساتھ نبوت کے انعام کا وارث بنتا ہے ۔ کاش لوگ اس لطیف نکتہ کو سمجھیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ خصوصیات

عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُعْطِیْتُ خَمْسًالَّمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ قَبْلِیْ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَّجُعِلَتْ لِیَ اْلَارْضُ مَسْجِدًا وَّطَھُوْرا۔۔۔ وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِاَ حْدٍ قَبْلِیْ وَاُعْطیْتُ الشَّفَاعَۃَ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَاصَۃً وَّبُعِثْتُ اِلیَ النَّاسِ عَامَّۃً (بخاری)

ترجمہ:۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے خدا کی طرف سے پانچ ایسی باتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی اور نبی کو عطا نہیں ہوئیں اوّلؔ مجھے ایک مہینے کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا داد رعب عطا کیا گیا ہے۔ دوسرے میرے لئے ساری زمین مسجد او ر طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی ہے تیسرے میرے لئے جنگوں میں حاصل شدہ مال ِ غنیمت جائز قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے جائز نہیں تھا۔ چوتھے مجھے خدا کے حضور شفاعت کا مقام عطا کیا گیا ہے اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی صرف اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا۔ لیکن میں ساری دنیا اور سب قوموں کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
تشریح : اس حدیث میں ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی پانچ ممتاز خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن سے آپ کی ارفع شان اور آپ پر خدا تعالیٰ کی غیر معمولی شفقت کا ثبوت ملتا ہے ۔

پہلی خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ آپ کو ایک مہینہ کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا داد رعب عطا کیا گیا ۔ چنانچہ تاریخِ اسلام اس بات کی زبردست شہادت پیش کرتی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بظاہر کمزوری اور فقر کی حالت کے باوجود ہر دشمن آپ کے خداداد رعب سے کانپتا تھا۔ حتیٰ کہ بسا اوقات ایسا ہوا کہ دشمن نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک قلیل جماعت لیکر اس کے مقابلے کے واسطے نکلے تو وہ آپ کی آمد کی خبر سنتے ہی بھاگ گیا ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے سب سے بڑے بادشاہ قیصر ِ روم کو ایک تبلیغی خط لکھا تو اس نے آپ کے حالات سن کر کہا کہ اگر میں اس نبی کے پاس پہنچ سکوں تو آپ کے پائوں دھونے میں اپنی سعادت سمجھوں ۔

دوسری خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ آپ کیلئے ساری زمین مسجد بنادی گئی جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان جہاں بھی اُسے نماز کا وقت آجائے اپنی نماز ادا کرسکتا ہے اور دوسری قوموں کی طرح اسے کسی خاص جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یہ اس لئے ضروری تھا تاکہ مسلمانوں کے وسیع مجاہدانہ پروگرام میں سہولت پیدا کی جائے اسی طرح آپ کے لئے زمین طہارت کا ذریعہ بھی بنادی گئی جس کا ادنیٰ پہلو یہ ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو ایک مسلمان وضو کی جگہ پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرکے نماز ادا کرسکتا ہے اور یہ پانی اور مٹی کا جوڑ حضرت آدم کی خلقِت کے پیش نظر رکھا گیا ہے جنہیں قرآنی محاورہ کے مطابق گیلی مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔

تیسری خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ بخلاف سابقہ شریعتوں کے جن میں غنیمت کے مال کو جلا دینے کا حکم تھا۔ آپ کے واسطے جنگوں میں ہاتھ آنے والا مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے۔ جس میں یہ حکمت ہے کہ ایک تو قوموں کے اموال یونہی ضائع نہ ہوں اور دوسرے ظالم لوگوں کو یہ سبق دیا جائے کہ اگر تم دوسروں پر دست درازی کروگے تو تمہارے اموال تم سے چھین کر مظلوموں کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں گے اور تیسرے یہ کہ اسلامی غزوات میں کمزور مسلمانوں کیلئے مضبوطی کا سامان پیدا کیا جائے۔

چوتھی خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ آپ کو شفاعت کا ارفع مقام عطا کیا گیا ہے۔ شفاعت کے لفظی معنی جوڑ کے ہیں اور اصطلاحی طور پر اس سے مراد عام دعا نہیں ہے بلکہ وہ مخصوص مقام مراد ہے جس میں ایک مقرب انسان اپنے دہرے تعلق کی بنا پر (یعنی ایک طرف خدا کا تعلق اور دوسری طرف بندوں کا تعلق) خدا کے حضور سفارش کرنے کا حق حاصل کرتا ہے اور اس سفارش کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! میں ایک طرف تیرے ساتھ اپنے خاص تعلق کا واسطہ دے کر اور دوسری طرف تیری مخلوق کے لئے (یا فلاں مخصوص فرد کیلئے) اپنی قلبی درد کو تیرے سامنے پیش کرکے تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ اپنے ان کمزور بندوں پر رحم فرما اور انہیں بخش دے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دن لوگوں میں انتہائی گھبراہٹ اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگی تو اس وقت وہ تمام دوسری طرفوں سے مایوس ہوکر میرے پاس آئیں گے اور پھر میں خدا کے حضور ان کی شفاعت کروںگا۔ اور میری شفاعت قبول کی جائے گی۔

پانچویں خصوصیت:

آپ کی یہ ہے کہ جہاں گذشتہ نبی صرف خاص خاص قوموں کی طرف اور خاص خاص زمانوں کیلئے آئے تھے وہاں آپ ساری قوموں اور سارے زمانوں کے واسطے مبعوث کئے گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی خصوصیت اور بہت بڑا امتیاز ہے جس کے نتیجہ میں آپ کا خدا داد مشن ہر قوم اورہر ملک اور ہر زمانہ کے لئے وسیع ہوگیا اور آپ خدا کے کامل اور مکمل مظہر قرار دیئے گئے ہیں یعنی جس طرح ساری دنیا کا خدا ایک ہے۔ اسی طرح آپ کی بعثت سے ساری دنیا کا نبی بھی ایک ہوگیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ۔

پانچ ارکانِ اِسلام

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُنَِی اْلِاسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ شَھَادَۃُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامُ الصَّلوٰۃِ وَاِیتَائُ الَّزکٰوٰۃِ وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانََ (بخاری)

ترجمہ:۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پررکھی گئی ہے (۱) اس بات کی دل اور زبان سے گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی قابل پرستش نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ ادا کرنا (۴) بیت اللہ کا حج بجا لانا اور (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔
تشریح : یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں اوپر والی حدیث (یعنی پہلی حدیث) میں ایمان کی تشریح بیان کی گئی تھی۔ وہاں موجودہ حدیث میں اسلام کی تشریح بیان کی گئی ہے اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایمان عقیدہ کا نام ہے اور اسلام عمل کا نام ہے اور دین کی تکمیل کے لئے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں اور یہ جو ان دونوں حدیثوں میں خدا اور رسول پر ایمان لانے کو مشترک رکھا گیا ہے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ پہلی حدیث میں تو ایمان باللہ اور ایمان باالرسول کو صرف دل کے عقیدہ اور زبان کی تصدیق کے اظہار کے لئے شامل کیا گیا ہے مگر دوسری حدیث میں وہ عمل کی بنیاد بننے کی حیثیت میں داخل کیا گیا ہے بہرحال موجودہ حدیث کی رُو سے اسلام کی تعریف مبں سب سے اوّل نمبر پر یہ بات رکھی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لایا جائے تاکہ ایک مسلمان کا ہر عمل اسی مقدس عقیدہ کی بنیاد پر قائم ہو کہ خدا ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے آخری شریعت لانے والے نبی ہیں اس کے بعد چار عملی عبادتیں گنائی گئی ہیں جو یہ ہیں:۔
(۱) پہلی عبادت صلوٰۃ یعنی نماز ہے جس کے معنی عربی زبان میں دُعا اور تسبیح و تحمید کے ہیں ۔ نماز دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازوں کی صورت میں فرض کی گئی ہے اور جسمانی طہارت یعنی مسنون وضو کے بعد مقررہ طریق پر ادا کی جاتی ہے۔ ان پانچ نمازوں میں سے ایک صبح کی نماز ہے جو صبح صادق کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ دوسرے ظہر کی نماز ہے جو سورج کے ڈھلنے یعنی دوپہر کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ تیسرے عصر کی نماز ہے جو سورج کے کافی نیچا ہو جانے کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ چوتھے مغرب کی نماز ہے جو سورج کے غروب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور پانچویں عشاء کی نماز ہے جو شفق کے غائب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے اس طرح نہ صرف دن کے مختلف اوقات کو بلکہ رات کے ہر دو کناروں کو بھی خدا کے ذکر اور خدا کی عبادت اور خدا سے اپنی دعائوں کی طلب میں خرچ کیا جاتا ہے۔ نماز کی غرض و غایت خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرنا اور اس کی یاد کو اپنے دل میں تازہ رکھنا ۔ اور اس کے ذریعہ اپنے نفس کو فحشاء اور منکرات سے پاک کرنا اور خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرنا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق کامل نماز وہ ہے جس میں نماز پڑھنے والا اس وجدان سے معمور ہوکہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں۔ یا کم از کم یہ کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز کے اوقات میں انسانی زندگی کے مختلف حصوں کی طرف لطیف اشارہ رکھا گیا ہے اور اسی لئے دن کے آخری حصہ میں جب رات کی تاریکی قریب آرہی ہوتی ہے نمازوں کے درمیانی وقفہ کو کم کردیا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ عالمِ آخرت کی تیاری عمر کی زیادتی کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جانی چاہئے ۔ نماز کی عبادت حقیقۃً روحانیت کی جان ہے اور اسی لئے اسے مومن کا معراج قرار دیا گیا ہے اور نماز کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی شغف اور ذاتی سرورکا یہ عالم تھا کہ آپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے ’’ جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلوٰۃ‘‘۔ یعنی نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
(۲) دوسری عملی عبادت اسلام میں زکوٰۃ ہے جس کے معنی کسی چیز کو پاک کرنے اور بڑھانے کے ہیں۔ زکوٰۃ کی بڑی غرض یہ ہے کہ ایک طرف امیروں کے مال میں سے غریبوں کا حق نکال کر اسے پاک کیا جائے اور دوسری طرف غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کا سامان مہیا کرکے قوم کے مقام کو بلند کیا جائے اور اس کے افراد کو اوپر اٹھایا جائے۔ زکوٰۃ کا ٹیکس مال کا ضروری اور اقل حصہ چھوڑ کر زائد مال پر جسے شرعی اصطلاح میں نصاب کہتے ہیں لگایا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس چاندی سونے اور چاندی سونے کے زیورات اور چاندی سونے کے سکوں (جن میں کرنسی نوٹ بھی شامل ہیں) اڑھائی فی صدی سالانہ کے حساب سے مقرر ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ سونے کا علیحدہ نصاب مقرر نہیں ہے۔ بلکہ چاندی کے نصاب کی قیمت کی بنیاد پرہی سونے کے نصاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو لازماً ان دو ۲ دھاتوں کی نسبتی قیمت کے لحاظ سے بڑھتا گھٹتا رہے گا۔تجارتی مال پر بھی اڑھائی فی صدی سالانہ کی شرح مقرر کی گئی ہے۔ زرعی زمینوں اور باغات کی فصل پر بارانی فصل کی صورت میں دسواں حصہ اور مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بیسواں حصہ زکوٰۃ مقرر ہے بھیڑ بکریوں کی صورت میں قطع نظر تفصیلات کے ہر چالیس بکریوں سے لیکر ایک سو بیس بکریوں تک پر ایک بکری اور گائے بھینسوں کی صورت میں تیس جانوروں پر ایک بچھڑا اور اونٹوں کی صورت میں ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری اور پچیس اونٹوں پر ایک جوان اونٹنی مقرر ہے اور زمین کی کانوں اور دفینوں اور بند خزانوں پر بیس فیصدی یک مشت کی شرح سے زکوٰۃ لگتی ہے اور پھر زکوٰۃ کی یہ سب آمدنی فقراء اور مساکین کے علاوہ مقروضوں اور مسافروں اور غلاموں اور مولفۃ القلوب لوگوں اور دینی مہموں میں حصہ لینے والوں اورزکوٰۃ کا انتظام کرنے والے عملہ پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح زکوٰۃ قومی دولت کو سمونے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔
(۳) تیسری عملی عبادت حج ہے۔ حج کے معنی کسی مقدس مقام کی طرف سے سفر اختیار کرنے کے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد مکرمہ میں جاکر خانہ کعبہ اور صفا و مروہ کی پہاڑیوں کا طواف کرنا اور پھر مکہ سے نو میل پر عرفات کے تاریخی میدان میں وقوف کرکے دعائیں کرنا اور پھر واپسی پر مزولفہ میں قیام کرکے عبادت بجا لانا اور بالآخر مکہ سے تین میل پر منیٰ کے مقام میں قربانی دینا ہے۔ حج جو ماہ ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں اور دسویں تاریخوں میں ہوتا ہے صرف ایک مقدس ترین جگہ کی زیارت ہی نہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانی اور پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی قربانی کی مقدس روایات وابستہ ہیں بلکہ حج مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے مسلمانوں کو آپس میں ملنے اور تعارف پیدا کرنے اور ایک دوسرے سے ملی معاملات میں مشورہ کرنے کا بے نظیر موقعہ بھی مہیا کرتا ہے حج ساری عمر میں صرف ایک دفعہ بجا لانا فرض ہے او جیسا کہ دوسری حدیث میں صراحت آئی ہے اس کے لئے صحت او ر واجبی خرچ اور راستہ میں امن کا ہونا ضروری شرط ہے۔
(۴) چوتھی عملی عبادت رمضان کے روز ے ہیں یہ روزے ہر ایسے مسلمان پر جو بلوغ کی عمر کو پہنچ چکا ہو اور بیمار یا مسافر نہ ہو۔ فرض کئے گئے ہیں ۔ بیمار یا مسافر کو دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنی پڑتی ہے روزہ کے لئے عربی میں صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی اپنے نفس کو روکنے کے ہیں ۔ یہ عبادت رمضان کے مہینہ میں جو قمری حساب کے مطابق سال کے مختلف موسموں میں چکر لگاتا ہے ۔ ادا کی جاتی ہے۔ اور صبح صادق سے قبل سحری کا کھانا کھاکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ اختلاط کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے گویا روزوں میں مسلمانوں کی طرف سے زبان حال سے اپنی ذات اور اپنی نسل کی قربانی کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے روزے نفس کو پاک کرنے اور مشقت کا عادی بنانے کے علاوہ غریبوں کی غربت کا احساس پیدا کرانے اور مومنوں میں قربانی کی روح کو ترقی دینے کیلئے مقرر کئے گئے ہیں۔ حقیقۃً روزہ ایک بہت ہی بابرکت عبادت ہے۔

چھ شرائط ِ ایمان

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلاِیْمَانُ اَنْ تُؤمِنَ بِاللّٰہِ َومَلَٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ اْلاٰخِرِ وَتُوْمِنَ بِاْلقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ (مسلم)

ترجمہ :۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور یوم آخر یعنی جز ا سزا کے دن پر ایمان لائے اور اس کے علاوہ تو خدا کی تقدیر خیر و شر پر بھی ایمان لائے‘‘۔
تشریح : اس حدیث میں اسلام کی تعلیم کے مطابق ایمان کی تشریح بیان کی گئی ہے جو چھ بنیادی باتوں پر مشتمل ہے۔
(اوّل) اللہ پر ایمان لانا جو دنیا کا واحد خالق و مالک خدا ہونے کی وجہ سے ایمانیات کا مرکزی نقطہ ہے۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ عربی زبان میں اللہ کا لفظ خدائے واحد کے سوا کسی اور کے متعلق استعمال نہیں کیا جاتا اور اس سے مراد ایسی ہستی ہے جو تمام عیوب سے پاک اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور تمام علوم کی حامل اور تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔
(دوم) فرشتوں پر ایمان لانا جو خدا کی ایک نہ نظر آنے والی مگر نہایت اہم مخلوق ہے۔ فرشتے خدا کے حکم کے ماتحت اس کارخانہ ٔ عالم کو چلانے والے اور خدا کی طرف سے پیدا کئے ہوئے اسباب کے نگران ہیں اور فرشتے خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان پیغام رسانی کا واسطہ بھی بنتے ہیں۔
(سوم) خدا کی طرف سے نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان لانا جن کے ذریعہ دنیا کو خدا تعالیٰ کے منشاء کا علم حاصل ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں سے آخری اور دائمی کتاب قرآن شریف ہے ۔ جس نے پہلی تمام شریعتوں کوجو وقتی اورقومی نوعیت کی تھیں منسوخ کردیا ہے اور اب قیامت تک قرآن کے سوا کوئی اور شریعت نہیں۔
(چہارم) خدا کے رسولوں پر ایمان لانا ۔ جن پر وقتاً فوقتاً الہامی کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں اور جو اپنے عملی نمونہ سے خدا کے منشاء کو دنیا پر ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے آخری صاحب شریعت بنی اور خاتم النبیین ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو سید ولد آدم اور فخرِ انبیاء اور افضل الرسل ہیں۔
(پنجم) یومِ آخر پر ایمان لانا جو موت کے بعد آنے والا ہے او رجس میں انسان نئی زندگی حاصل کرکے اپنے ان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پائے گا جو اس نے دنیا میں کیے ہوں گے۔
(ششم ) تقدیر خیر و شر پر ایمان لانا جو خدا کی طرف سے دنیا میں جاری شدہ قانون کی صورت میں قائم ہے۔ یعنی اس بات پر یقین رکھنا کہ دنیا کا قانون قدرت اور قانونِ شریعت ہر دو خدا کے بنائے ہوئے قانون ہیں۔ اور خدا ہی اس سارے مادی اور روحانی نظام کا بانی اور نگران ہے خدا نے ہر کام کے متعلق خواہ وہ روحانی ہے یا مادی یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر یوں کروگے تو اس کا اس اس طرح اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اور اگر یوں کروگے تواس کا اس اس طرح خراب نتیجہ نکلے گا اور پھر خدا اپنے قانون کا مالک بھی ہے اور ایسے امور میں جو اس کی کسی بیان کردہ سنت یا وعدہ یا صفت اور پھر خدا کے خلاف نہ ہوں۔ وہ اس قانون میں اپنے رسولوں اور نیک بندوں کی خاطر خاص حالات میں استثنائی طور پر تبدیلی بھی کرسکتا ہے چنانچہ معجزات کا سلسلہ عموماً اسی استثنائی قانون سے تعلق رکھتا ہے۔