عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ یُحدِّثُ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ قَالَ اَکرِمُوْا اَوْلادَکُمْ وَاَحْسِنُوا اَدَبَھُمْ (ابن ماجہ)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اپنی اولاد کی بھی عزت کیا کرو اور ان کی تربیت کو بہترین قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرو۔
تشریح : اسلام نے جہان والدین کا حق اولاد پر تسلیم کیا ہے اور اولاد کو ماں باپ کی عزت اور خدمت کی انتہائی تاکید فرمائی ہے۔ وہاں والدین کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی اپنی اولاد کا واجبی اکرام کریں اور ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں ۔ جس سے ان کے اندر وقار اور عزت نفس کا جذبہ پیدا ہو اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی خاص توجہ دیں تاکہ وہ بڑے ہوکر حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بہترین صورت میں ادا کرسکیں اور ترقی کا موجب ہوں۔
حق یہ ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ بلکہ کوئی قوم تنزل سے بچ نہیں سکتی جب تک کہ اس کے افراد اپنی اولاد کو اپنے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر نہ جائیں۔ اگر ہر باپ اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ اپنی اولاد کو علم و عمل دونوں میں اپنے سے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائے گا تو یقینا قوم کا ہر اگلا قدم ہر پچھلے قدم سے اونچا اُٹھے گا اور ایسی قوم خدا کے فضل سے تنزل کے خطرات سے محفوظ رہے گی۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر والدین اس زریں اصول کو مدنظر نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے کئی بچے ماں باپ سے بہتر ہونا تو درکنار ایسی حالت میں پرورش پاتے ہیں کہ گویا ایک زندہ انسان کے گھر میں مردہ بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایسے ماں باپ بچوں کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا تو خیال رکھتے ہیں اور کسی حد تک ان کی تعلیم کا بھی خیال رکھتے ہیں کیونکہ وہ ان کی اقتصادی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے مگر ان کی تربیت کی طرف سے عموماً ایسی غفلت برتتے ہیں کہ گویا یہ کوئی قابل توجہ چیز ہی نہیں۔ حالانکہ تربیت کا سوال تعلیم کی نسبت بہت زیادہ بلند ہے۔ ایک کم تعلیم یافتہ مگر اچھے اخلاق کا انسان جس میں محنت او ر صداقت اور دیانت اور قربانی اور خوشی خلقی کے اوصاف پائے جائیں اس اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان سے یقینا بہتر ہے جس کے سر پر گدھے کی طرح علم کا بوجھ تو لدا ہوا ہے مگر وہ اعلیٰ اخلاق سے عادی ہے او رقرآن شریف نے جو
لا تقتلو اولادکم
(یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو) کے الفاظ فرمائے ہیں۔ ان میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم اپنے بچوں کی عمدہ تربیت اور اچھی تعلیم کا خیال نہیں رکھوگے تو تم گویا انہیں قتل کرنے والے ٹھہروگے۔
باقی رہا اس حدیث کا دوسرا حصہ یعنی اولاد کا اکرام کرنا۔ سو یہ بات وہ ہے جس میں اسلام کے سوا کسی دوسری شریعت نے توجہ ہی نہیںدی کیونکہ دنیا کے کسی اور مذہب نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ اولاد کے واجبی اکرام کے بغیر بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں کئے جاسکتے بعض نادان والدین بچوں کی محبت کے باوجود ان کے ساتھ بظاہر ایسا پست اور عامیانہ سلوک کرتے اور گالی گلوچ سے کام لیتے ہیں کہ ان کے اندر وقار اور خودداری اور عزت نفس کا جذبہ ٹھٹھر کر ختم ہو جاتا ہے ۔ پس ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی یہ تعلیم درحقیقت سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی واجبی اکرام سے پیش آنا چاہئے۔ تا ان کے اندر باوقار انداز اور اعلیٰ اخلاق پیدا ہو سکیں ۔ کاش ہم لوگ اس حکیمانہ تعلیم کی قدر پہچانیں۔
جواب دیں