عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلاِیْمَانُ اَنْ تُؤمِنَ بِاللّٰہِ َومَلَٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ اْلاٰخِرِ وَتُوْمِنَ بِاْلقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ (مسلم)
ترجمہ :۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور یوم آخر یعنی جز ا سزا کے دن پر ایمان لائے اور اس کے علاوہ تو خدا کی تقدیر خیر و شر پر بھی ایمان لائے‘‘۔
تشریح : اس حدیث میں اسلام کی تعلیم کے مطابق ایمان کی تشریح بیان کی گئی ہے جو چھ بنیادی باتوں پر مشتمل ہے۔
(اوّل) اللہ پر ایمان لانا جو دنیا کا واحد خالق و مالک خدا ہونے کی وجہ سے ایمانیات کا مرکزی نقطہ ہے۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ عربی زبان میں اللہ کا لفظ خدائے واحد کے سوا کسی اور کے متعلق استعمال نہیں کیا جاتا اور اس سے مراد ایسی ہستی ہے جو تمام عیوب سے پاک اور تمام صفاتِ حسنہ سے متصف اور تمام علوم کی حامل اور تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔
(دوم) فرشتوں پر ایمان لانا جو خدا کی ایک نہ نظر آنے والی مگر نہایت اہم مخلوق ہے۔ فرشتے خدا کے حکم کے ماتحت اس کارخانہ ٔ عالم کو چلانے والے اور خدا کی طرف سے پیدا کئے ہوئے اسباب کے نگران ہیں اور فرشتے خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان پیغام رسانی کا واسطہ بھی بنتے ہیں۔
(سوم) خدا کی طرف سے نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان لانا جن کے ذریعہ دنیا کو خدا تعالیٰ کے منشاء کا علم حاصل ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں سے آخری اور دائمی کتاب قرآن شریف ہے ۔ جس نے پہلی تمام شریعتوں کوجو وقتی اورقومی نوعیت کی تھیں منسوخ کردیا ہے اور اب قیامت تک قرآن کے سوا کوئی اور شریعت نہیں۔
(چہارم) خدا کے رسولوں پر ایمان لانا ۔ جن پر وقتاً فوقتاً الہامی کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں اور جو اپنے عملی نمونہ سے خدا کے منشاء کو دنیا پر ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے آخری صاحب شریعت بنی اور خاتم النبیین ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو سید ولد آدم اور فخرِ انبیاء اور افضل الرسل ہیں۔
(پنجم) یومِ آخر پر ایمان لانا جو موت کے بعد آنے والا ہے او رجس میں انسان نئی زندگی حاصل کرکے اپنے ان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پائے گا جو اس نے دنیا میں کیے ہوں گے۔
(ششم ) تقدیر خیر و شر پر ایمان لانا جو خدا کی طرف سے دنیا میں جاری شدہ قانون کی صورت میں قائم ہے۔ یعنی اس بات پر یقین رکھنا کہ دنیا کا قانون قدرت اور قانونِ شریعت ہر دو خدا کے بنائے ہوئے قانون ہیں۔ اور خدا ہی اس سارے مادی اور روحانی نظام کا بانی اور نگران ہے خدا نے ہر کام کے متعلق خواہ وہ روحانی ہے یا مادی یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر یوں کروگے تو اس کا اس اس طرح اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اور اگر یوں کروگے تواس کا اس اس طرح خراب نتیجہ نکلے گا اور پھر خدا اپنے قانون کا مالک بھی ہے اور ایسے امور میں جو اس کی کسی بیان کردہ سنت یا وعدہ یا صفت اور پھر خدا کے خلاف نہ ہوں۔ وہ اس قانون میں اپنے رسولوں اور نیک بندوں کی خاطر خاص حالات میں استثنائی طور پر تبدیلی بھی کرسکتا ہے چنانچہ معجزات کا سلسلہ عموماً اسی استثنائی قانون سے تعلق رکھتا ہے۔