عَنْ جَابِر قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُم ْخَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَ ھْلِیْ (ترمذی)
ترجمہ : ۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔ اور میں اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
تشریح :۔.8 اس حدیث میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے وہ ظاہر و عیاں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیوی کے ساتھ خاوند کے حسن سلوک کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کو تو مان لیا۔ اور ایمان کی نعمت سے بھی متمتع ہوگئے۔ لیکن حقوق العباد کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو بھی دیکھے گا۔ جو تم خدا کے بندوں کے ساتھ سلوک کرنے میں بجا لاتے ہو۔ اور ان اعمال میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو اسلام میں بہت نمایاں درجہ حاصل ہے حتیٰ کہ تم میں سے خدا کی نظر میں بہتر انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔ لیکن چونکہ ہر شخص اپنے سلوک کو بزعم خود اچھا قرار دے سکتا ہے اس لئے اس امکانی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اچھے سلوک کا معیار تمہارا کوئی خود تر اشیدہ قانون نہیں ہوگا بلکہ اس معاملہ میں میرے نمونہ کو دیکھا جائے گا۔ کیونکہ خدا کی دی ہوئی توفیق سے میں اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان عورتوں کے ازدواجی حقوق کو اتنے اعلیٰ معیار پر قائم فرما دیا ہے کہ وقتی رنجشوں کو چھوڑ کر جو بعض اوقات اچھے سے اچھے گھر میں بھی ہو جاتی ہیں۔ کوئی شریف بیوی کسی نیک مسلمان کے گھر میں دکھ کی زندگی میں مبتلا نہیں ہوسکتی۔ اور حق یہ ہے کہ اگر عورت کو خاوند کی طرف سے سکھ حاصل ہو تو وہ دنیا کی ہر دوسری تکلیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور اس سکھ کے مقابلہ میں کسی شریف عورت کے نزدیک دنیا کی کوئی اور نعمت کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر ایک عورت کے ساتھ اس کے خاوند کا سلوک اچھا نہیں تو خاوند کی دولت بھی اس کیلئے لعنت ہے اور خاوند کی عزت بھی اس کیلئے لعنت ہے اور خاوند کی صحت بھی اس کیلئے لعنت ہے کیونکہ ان چیزوں کی قدر صرف خاوند کی محبت اور گھر کی سکینت کے میدان میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ پس اس بات میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد گھروں کی چار دیواری کو جنت بنا دینے کیلئے کافی ہے۔ بشرطیکہ عورت بھی خاوند کی فرمانبردار اس کی محبت کی قدر دان ہو۔ اور پھر خاوند بیوی کے اس اتحادکا اثر لازماً ان کی اولاد پر بھی پڑتا ہے ۔ اور اس طرح آج کی برکت گویا ایک دائمی برکت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس ملک میں اور اس قوم کے درمیان رہتے ہوئے دیا جس میں عورت عموماً ایک جانور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی اور پھر اس حکم کو دو ایسی باتوں کے ساتھ مربوط کردیا۔ جن کے بلند معیار تک آج کی بظاہر ترقی یافتہ اقوام بھی نہیں پہنچ سکیں اور نہ کبھی پہنچ سکیں گی۔ کیونکہ ان دو باتوں کے ساتھ مل کر عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اس ارفع مقام کو حاصل کر لیتاہے جس کے اوپر اس میدان میں کوئی اور بلندی نہیں۔ یہ دو باتیں ہمارے آقا کے الفاظ
خیرکم خیرکم لا ھلہ وانا خیر کم لا ھلی
کے مطابق یہ ہیں کہ :۔
(اوّل) عورت کے ساتھ خاوند کا حسن سلوک صرف ضروری ہی نہیں ہے بلکہ دراصل حقوق العباد کے میدان میں مرد کا یہی وصف خدا کی نظر میں مرد کے درجہ اور مقام کا حقیقی پیمانہ ہے جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ سلوک میں بہتر ہے وہی خدا کی نظر میں بہتر ہے۔
(دوم) اس حسن سلوک کا معیار کسی شخص کی ذاتی رائے پر مبنی نہیں ہے (کیونکہ اپنے منہ سے توہر شخص اپنے آپ کو اچھا کہہ سکتا ہے ) بلکہ اس کا معیار رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک اسوہ ہے ۔ پس صرف وہی سلوک اچھا سمجھا جائے گا۔ جو اس پاک اسوہ کے مطابق ٹھیک اترے گا۔