اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

اﷲ تعالیٰ کے پیدا کردہ تجارت کے طریق اپناؤ

ایک شخص نے ایک لمباخط لکھا کہ سیونگ بنک کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوؤں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے حرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں مسلمان کو چاہیے کہ ان کو اختیار کرے اور اس سے پرہیز رکھے۔ ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اﷲ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے مثلاً اگر دنیا میں سؤر کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے۔ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے تب

ہمفَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍٍ(البقرۃ:174)

کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے۔‘‘

الحکم مؤرخہ 10مئی؍1902ء صفحہ11


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے