اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

دینی امور پر تجارت کو فوقیت نہ دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ الجمعہ آیت10

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللَّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود محبوب اور مطاع نہ ہو گا اور کوئی غرض و مقصد اﷲ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہوگی۔ اس امام ؑ نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘۔اب اس اقرار کو مدنظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو کہ کیا اﷲ تعالیٰ کے احکام اوامرونواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض و مطالب؟ ……غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم نماز کے لیے جمعہ کے دن بلائے جاؤ تو بیع کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ۔
عام جمعوں میں چھوٹی چھوٹی بیع ہے لیکن مسیح موعود علیہ السلام کا وقت چونکہ عظیم الشان جمعہ ہے اس لیے اس وقت دجال کا فتنہ بہت بڑی بیع ہے اس لیے فرمایا کہ اس کو چھوڑو اور ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ۔ نتیجہ اس کا کیا ہے؟

ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

اگر تم کو کچھ علم ہے تو یاد رکھو یہ تمہارے لیے مفید ہے۔ اس میں خیر وبرکت ہے۔ تمہارے لیے اﷲ تعالیٰ جس امر کو خیر وبرکت کا موجب قرار دیتا ہے اس کو ظنی یا وہمی خیال کرنا کفر ہے۔انسان چونکہ عواقب الامور اور نتائج کا علم نہیں رکھتا اس لیے وہ بعض اوقات اپنی کمزوریٔ علم اور کمیٔ معرفت کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مأمور کی صحبت میں رہنا یا اس کے پاس جانا اخراجات کو چاہتا ہے یا بعض تجارتی کاموں میں اس سے حرج واقع ہو گا۔دکان بند کرنی پڑے گی یا کیا کیا عذرات تراشتا ہے لیکن خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی حاضر ہو جانا خیر وبرکت کا موجب ہے۔ اس میں کوئی خسارا اور نقصان نہیں مگر تم کو اس کا علم ہونا چاہیے۔پس اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

دست بکار دل بیار

ہاں

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(الجمعۃ:11)

جب نماز ادا کرچکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کے فضل کو لو۔اس کا اصل اور گُر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو بہت یاد کرو۔نتیجہ یہ ہو گا کہ تم مظفر اور منصور ہو جاؤ گے۔خد ا کی یاد ساری کامیابیوں کا راز اور ساری نصرتوں اور فتوحات کی کلید ہے۔ اسلام انسان کو بے دست وپا بنانا یا دوسروں کے لیے بوجھ بنانا نہیں چاہتا۔عبادت کے لیے اوقات رکھے ہیں جب ان سے فارغ ہو جاوے پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہو۔ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کاروبار میں مصروف ہو کر بھی یادِ الٰہی کو نہ چھوڑے بلکہ دست بکار دل بیارہو اور اس کا طریق یہ ہے کہ ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے اور دیکھ لے کہ آیا خلافِ مرضیٔ مولیٰ تو نہیں کر رہا۔ جب یہ بات ہو تو اس کا ہر فعل خواہ وہ تجارت کا ہو یا معاشرت کا، ملازمت کا ہو یا حکومت کا۔ غرض کوئی بھی حالت ہو عبادت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ کھانا پینا بھی اگر امرِ الٰہی کے نیچے ہو تو عبادت ہے۔
یہ اصل ہے جو ساری فتح مندیوں کی کلید ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اصل کو چھوڑ دیا جب تک اس پر عملدرآمد رہا اس وقت تک وہ ایک قوم فتح مند قوم کی حالت میں رہی۔ لیکن جب اس پر سے عمل جاتا رہا تو نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قوم ہر طرح کی پستیوں میں گر گئی۔‘‘

(الحکم28؍فروری1903ء صفحہ3تا6)(حقائق الفرقان جلد4صفحہ126تا128)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے