اﷲ تعالیٰ ہی بہتر رزق دینے والا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے سورۃ الجمعہ آیت12

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَا نِانْفَضُّوْااِلَیْھَا

کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور جب تجارت کے سامان مل جاتے ہیں یا کھیل تماشہ کا وقت پاتے ہیں۔وہ تجھے چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ان کو کہہ دو کہ اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں اور کھیل تماشوں سے بہترہے اور اﷲ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے۔
یہ حالت انسان کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا تعالیٰ پرسچا اور کامل یقین نہیں رکھتااور اس کو رازق نہیں سمجھتا۔ یوں ماننے سے کیا ہوتاہے ۔جب کامل ایمان ہوتا ہے تو اس پر اﷲ تعالیٰ کے لیے سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتاہے۔
بعض لڑکوں سے میں نے پوچھا ہے کہ تم جو گھر جاتے ہو کیوں ؟ کیا لھو کے واسطے؟اگر یہ غرض ہے تو پھر یہ خدا کے ارشاد کے نیچے ہے۔لَھْوًا اور تِجَارَۃً کو گویا خدا تعالیٰ پر مقدم کرتاہے۔اس سے بچنا چاہیے۔
اﷲ کو

خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ

یقین کرو اور مت خیال کروکہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہو گا کبھی ایسی جرأت کرنے کی کوشش نہ کروکہ اپنی ذاتی اغراض کو مقدم کر لو۔خدا کے لیے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اُس سے کہیں بڑھ کر پالیتاہے ۔تم جانتے ہوابوبکررضی اﷲ عنہ نے کیا چھوڑا تھااور پھر کیا پایا۔صحابہ رضی اﷲ عنھم نے کیا چھوڑا ہو گا۔اس کے بدلہ میں کتنے گُنے زیادہ خدا نے ان کو دیا ۔خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے جو نہیں ہے؟

لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

تجارتوں میں خسارہ کا ہو جانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہوجانا قرین قیاس ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی بھی انسان خسارہ نہیں اٹھاسکتا۔

(الحکم28؍فروری1903ء صفحہ7)

غرض اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں سے بہتر ہے۔وہ خیرالرازقین ہے۔ میں نے بہت سے ایسے بے باک دیکھے ہیں جو کہا کرتے ہیں

اے خیانت بر تو رحمت از تو گنجے یافتم
اے دیانت بر تو لعنت از تو رنجے یافتم

ایسے شوخ دیدہ خود ملعون ہیں جو دیانت پر لعنت بھیجتے ہیں۔پس خدا کے لیے ان ذریعوں اور راستوں کو چھوڑو جو بظاہر کیسے ہی آرام دہ نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر خدا کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔میں نے بسااوقات نصیحت کی ہے کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبۃ:120) پر عمل کرنے کے واسطے ضروری ہے یہاں آکر رہو۔بعض نے جواب دیا ہے کہ تجارت یا ملازمت کے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی۔لیکن میں ان کو آج یہ سناتاہوں کہ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ تمام تجارتوں کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آجاؤ!وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟کیا ہم کُنبہ قبیلہ والے نہیں؟کیا ہماری ضروریات اور ہمارے اخراجات نہیں ہیں؟کیا ہم کو دنیوی عزت یا وجاہت بُری لگتی ہے؟پھر وہ کیا چیز ہے جو ہم کو کھینچ کر یہاں لے آئی؟میں شیخی کے لیے نہیں کہتا بلکہتحدیث بالنعمۃ کے طورپر کہتاہوں کہ میں اگر شہر میں رہوں تو بہت روپیہ کما سکوں لیکن میں کیوں ان ساری آمدنیوں پر قادیان کے رہنے کو ترجیح دیتاہوں؟اس کا مختصر جواب میں یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے۔ جس کو چورا ور قزاق نہیں لے جا سکتا۔مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا۔ پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لیے مارا مارا پھروں؟میں سچ کہتاہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھناچاہے میں نہیں رہ سکتا۔ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں۔پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے۔پس میری دولت، میرا مال،میری ضرورتیں اسی امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتاہوں۔

مہاجرین میں خلافت کا انعام ملنے کا سبب

میرے دل میں بارہایہ سوال پیدا ہوا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنھم کو جو مہاجر تھے کیوں خلافت ملی اور مدینہ والے صحابہ رضی اﷲ عنھم کو جو انصار تھے اس سے حصہ نہیں ملا۔بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ انصا ر کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی جب آپؐ مکہ سے تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچے۔مگر اس میں بھید یہی ہے کہ انصارنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے چھوڑا نہیں۔اس کی نصر ت کے لیے خدا نے ان کو بہت کچھ دیا۔مگر مہاجر جنہوں نے اﷲ کے لیے ہاں محض اﷲ ہی کے لیے اپنے گھر بار بیوی بچے اور رشتہ داروں تک چھوڑ دیے تھے اور اپنے منافع اور تجارتوں پر پانی پھیر دیا تھاوہ خلافت کی مسند پر بیٹھے۔ میں سقیفہ کی بحث پڑھتا تھا اور

مِنْکُمْ اَمِیْرٌ وَّ مِنَّا اَمِیْرٌ

پر میں نے غور کی ہے۔مجھے خدا نے اس مسئلہ خلافت میں یہی سمجھایا ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اپنے گھر بار تعلقات چھوڑے تھے ان کو ہی اس مسند پر اول جگہ ملنی ضرور تھی۔اﷲ تعالیٰ کے لیے جب کوئی کام کرتاہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا۔پس ایسے عذر بے فائدہ اور بیہودہ ہیں۔اس وقت دنیا خطرناک ابتلا میں پھنسی ہوئی ہے۔پہلی بلا جہالت کی ہے۔تدبر سے کتاب اﷲ کو نہیں پڑھتے اور نہیں سوچتے جب تدبر ہی نہ ہو، تلاوت ہی نہ ہو تو اس پر عمل کی تحریک کیسے پیدا ہو۔کتاب اﷲ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی جگہ بہت بڑا وقت قصوں کہانیوں اور لغویات میں بسر کیا جاتاہے۔‘‘

(الحکم10؍مارچ1903ء صفحہ2،3)(حقائق الفرقان جلد چہارم،صفحہ130تا132)