تجارت اور سود

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ9؍جنوری1914ء کے خطبہ جمعہ میں سو د اور تجارت کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’سود کا نظارہ دیکھ لو اﷲ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم سود سے باز نہیں آتے تو

فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ(البقرۃ:280)

یہ تو اﷲ تعالیٰ سے لڑائی کرنا ہے ۔تو تم پھر اﷲ سے لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود میں کچھ حرج نہیں ہے اور اس کے بغیر دنیا تباہ ہوتی ہے اور اس کے سوا کام نہیں چل سکتا ۔لیکن قرآن شریف میں تو یہ آیا ہے کہ

لَا رَیْبَ فِیْہِ

یعنی اس کتاب میں ہلاکت کی تعلیم نہیں ہے تو گویا یہ کہنے والے کہ سود کے بغیر کام نہیں چل سکتا اور دنیا ہلاک ہوتی ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کوجھوٹا قرار دیتے ہیں اور ان کو قرآن کریم پر ایمان نہیں ہے ۔لوگ تجارت اور سود کو برابر بتلاتے ہیں

وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو(البقرۃ:276)

حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے تجارت کوحلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حرمت ِسود و حلّتِ بیع پر دلیل نہیں دی۔ حالانکہ جب ڈاکٹر ایک چیز سے منع کرتاہے تو وہ ضرور مضر ہوگی اور اگر وہ کسی چیز کو جائز قرار دیتاہے تو وہ ضرو ر فائدہ مند ہو گی۔پس اﷲ جس چیز کو حرام قرار دیتاہے وہ ضرور ہی ضرر رساں ہو گی۔ پس یہی دلیل ہے۔
بنکوں کے معاملے کو دیکھ لواور ان کے دیوالیے نکلنے سے معلوم کر لو۔ اس سے بخوبی ثابت ہو جائے گا کہ تجارت اور سود ایک چیز نہیں کیونکہ ایک بنک کے ٹوٹنے سے دوسرے کئی بنک اس وجہ سے ٹوٹ گئے کہ ان کا آپس میں سودی لین دین تھا دوسرے بے اعتباری ہونے پر امانتداروں نے اپنا روپیہ واپس لینا شروع کر دیا اگر کسی تجارتی کوٹھی کو نقصان پہنچتا تو اس کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا بلکہ ایک دکان جاتی رہنے سے بہت سی دکانیں فروغ پاجاتی ہیں کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ20)