انصاف اور معاہدات کی پابندی

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ یکم مئی1914ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’بہت لوگ دنیا میں اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ انصاف سے کام نہیں کرتے جہاں کہیں ان کا معاملہ کسی سے پڑتاہے ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز ہم لے لیں یہ لوگ معاہدات کی پابندی نہیں کرتے حالانکہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جب ایک بات پر معاہدہ ہو جائے تو اس سے یہ اُمید رکھی جاوے کہ اس کو زید تو پورا کرے اور میں نہ کروں اور کسی کا نقصان ہو توہو لیکن مجھے ضرور ہی فائدہ پہنچ جاوے۔
تاجرلوگ چاہتے ہیں کہ ہر ایک چیز کی قیمت تو پوری لیں لیکن چیز گندی اور خراب دیں۔ادھر خریداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم قیمت تو تھوڑی دیں لیکن مال اچھالیں۔خواہ تاجر گھر سے ڈال کردے۔ نوکر چاہتاہے کہ میں محنت کم کروں لیکن تنخواہ زیادہ پاؤں اور آقاچاہتاہے کہ کام پورا لوں لیکن تنخواہ بہت کم دوں۔ غرضیکہ ہر ایک آدمی اپنے معاملہ میں دوسرے کا نقصان ہی کرنا چاہتا ہے لیکن یہ نہیں چاہتا کہ کسی اور کو بھی کوئی فائدہ پہنچ سکے۔بعض دفعہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہوئے خود نقصان اٹھا لیتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے سنا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک بزاز سے کپڑا خریدا۔جب وہ خرید کر گھر چلا گیا تو فروخت کرنے والے شخص کو معلوم ہوا کہ اس کپڑے میں تو نقص تھا۔ کیڑے نے اس کو ناکارہ کر دیا ہوا تھا۔اس کو خوف خدا آیا کہ میں نے مسافر سے دھوکا کیا ہے وہ ایک قافلے کا آدمی تھا،قافلہ چلا گیا۔تاجر اس کے پیچھے گیا اور دو تین منزلوں پر جا کر اس سے ملا اور کہا کہ میرا دل گھبرا گیا کیونکہ میں نے تم کو دھوکا دیا ۔تم اپنا روپیہ واپس لے لو اور مجھے کپڑا دے دو۔اس نے کہا کہ تو نے ہی دھوکا نہیں دیا میں نے بھی کیا ہے جتنے روپے میں نے تم کو دیے تھے وہ سب کھوٹے تھے مجھے تو نفع ہی رہا تھا۔
لوگوں سے تو دھوکا کیا ہی جاتاہے لیکن آدمی اﷲ کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں۔آدمی دھوکا کھا جاتاہے لیکن تعجب اور حیرت اس بات پر ہے کہ انسان خدا کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں اور پھر عجیب در عجیب فریب کرتے ہیں۔خدا کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کو تو پورا نہیں کرتے لیکن یہ امید رکھتے ہیں کہ خدا ہم سے اپنے عہد کو پورا کرے۔یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چونکہ مسلمان کہلالیا پس خدا ہم کو مسلمان سمجھ لے گا۔خواہ ہم میں کتنا ہی بغض،کینہ،دشمنی اور برائیاں کیوں نہ ہوں اور خدا ہم سے مسلمانوں والا سلوک کرے گا اور دھوکا کھا جائے گا۔لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ عالم الغیب ہے۔انسان دھوکا کھا سکتاہے ،دکاندار خریدا ر کو دھوکا دے سکتاہے،نوکر آقا کو دھوکا دے سکتاہے اور آقا نوکر کے ساتھ دغا بازی کر سکتاہے لیکن خدا دھوکا نہیں کھا سکتا کیونکہ وہ تو انسان کی ہر ایک کمزوری کو خوب جانتا ہے اور پوشیدہ بھیدوں اور ارادوں سے بھی خوب واقف ہے بہت دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان عبادت کرتا ہے لیکن خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔روزے رکھتا ہے لیکن خدا کے حضور قبول نہیں کیے جاتے۔بیسیوں نیکی کے کام کرتا ہے لیکن رد کیے جاتے ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ خدا انسان کی نیتوں اور اندرونی رازوں کو جانتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان باتوں سے کام نہیں بن سکتا میں اسی وقت اپنے وعدے پورے کروں گا جبکہ تم بھی اپنے وعدے پورے کروگے۔جب تم راستباز بن جاؤ گے،گناہوں کو چھوڑ دو گے،فسق و فجور سے قطع تعلق کر لو گے،بغض وکینہ سے اپنے سینوں کو صاف کر لو گے اور اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو جا ؤ گے تب تم سچے مسلمان بنو گے اور پھر تم سے وعدے پورے کیے جائیں گے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ81تا83)