حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍ستمبر1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں جب کشمیر گیا تو وہاں ایک غالیچہ باف کو غالیچے بُننے کے لیے کہا گیااور قیمت پیشگی دے دی۔غالیچہ کا طول و عرض سب اس کو بتا دیا گیا ۔ہم آگے چلے گئے جب واپس آکر اس سے غالیچے مانگے تو اس نے لپیٹے ہوئے ہمارے ہاتھ میں دے دیے اور کہنے لگا کہ اسی طرح بندکے بندہی لے جاؤ ،کھولو نہیں۔ لیکن اس کے بار بار اس بات پر زور دینے سے ہمیں خیال ہوا کہ کوئی بات ہی ہے جب یہ کہتا ہے کہ بند کے بند ہی لے جاؤاس لیے کھول کر دیکھنے چاہییں۔جب کھولے اور ناپے تو معلوم ہوا ایک ایک بالشت طول میں اور ایک ایک چپہ عرض میں کم تھے ۔ہم نے اسے کہا یہ تم نے کیا کیا؟وہ کہنے لگا جی ہم مسلمان ہوتے ہیں ۔میں اسے کہوں کہ اسلام میں تو ایسا کرنا ناجائز ہے پھر تم نے مسلمان ہو کرکیوں ایسا کیا ؟اس کا وہ یہی جواب دیتا رہا کہ میں مسلمان ہوں۔اس کہنے سے اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر ہم مسلمان لوگ ایسا نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا ۔تو اب مسلمانوں میں ہر ایک سے دھوکہ، فریب، دغاکرنے کی عادت ہی ہو گئی جب انہوں نے دوسروں سے غدر کرنا سیکھا تو اب اپنوں پر بھی استعمال کرنے لگ گئے۔ اس طرح ان کانہ آپس میں اعتبار بھروسہ اور اطمینان رہا اور نہ دوسروں کے نزدیک اور ان اخلاقی جرموں کی پاداش میں ان کی حالت اس قدر ذلت اور رُسوائی کو پہنچ گئی کہ اب کشمیر کی تجارت پہلے کی نسبت سینکڑوں گنا کم ہو گئی ہے ۔میں نے اس کی وجہ پوچھی تو یہ بتائی گئی کہ یہاں کے لوگ ناقص مال بنا کر بھیجتے تھے ۔جس کا آہستہ آہستہ یہ انجام ہوا کہ لینے والوں نے مال کا لینا ترک کر دیا اور جب مال نہ بِکا تو بنانے والوں نے بھی اس کام کو چھوڑ کر اور کام اختیار کر لیے اور اس طرح تجارت کو زوال آگیا۔‘‘
جواب دیں