پانچ ارکانِ اِسلام

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُنَِی اْلِاسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ شَھَادَۃُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامُ الصَّلوٰۃِ وَاِیتَائُ الَّزکٰوٰۃِ وَحَجُّ الْبَیْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانََ (بخاری)

ترجمہ:۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پررکھی گئی ہے (۱) اس بات کی دل اور زبان سے گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی قابل پرستش نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ ادا کرنا (۴) بیت اللہ کا حج بجا لانا اور (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔
تشریح : یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں اوپر والی حدیث (یعنی پہلی حدیث) میں ایمان کی تشریح بیان کی گئی تھی۔ وہاں موجودہ حدیث میں اسلام کی تشریح بیان کی گئی ہے اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایمان عقیدہ کا نام ہے اور اسلام عمل کا نام ہے اور دین کی تکمیل کے لئے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں اور یہ جو ان دونوں حدیثوں میں خدا اور رسول پر ایمان لانے کو مشترک رکھا گیا ہے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ پہلی حدیث میں تو ایمان باللہ اور ایمان باالرسول کو صرف دل کے عقیدہ اور زبان کی تصدیق کے اظہار کے لئے شامل کیا گیا ہے مگر دوسری حدیث میں وہ عمل کی بنیاد بننے کی حیثیت میں داخل کیا گیا ہے بہرحال موجودہ حدیث کی رُو سے اسلام کی تعریف مبں سب سے اوّل نمبر پر یہ بات رکھی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لایا جائے تاکہ ایک مسلمان کا ہر عمل اسی مقدس عقیدہ کی بنیاد پر قائم ہو کہ خدا ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے آخری شریعت لانے والے نبی ہیں اس کے بعد چار عملی عبادتیں گنائی گئی ہیں جو یہ ہیں:۔
(۱) پہلی عبادت صلوٰۃ یعنی نماز ہے جس کے معنی عربی زبان میں دُعا اور تسبیح و تحمید کے ہیں ۔ نماز دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازوں کی صورت میں فرض کی گئی ہے اور جسمانی طہارت یعنی مسنون وضو کے بعد مقررہ طریق پر ادا کی جاتی ہے۔ ان پانچ نمازوں میں سے ایک صبح کی نماز ہے جو صبح صادق کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ دوسرے ظہر کی نماز ہے جو سورج کے ڈھلنے یعنی دوپہر کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ تیسرے عصر کی نماز ہے جو سورج کے کافی نیچا ہو جانے کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ چوتھے مغرب کی نماز ہے جو سورج کے غروب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور پانچویں عشاء کی نماز ہے جو شفق کے غائب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے اس طرح نہ صرف دن کے مختلف اوقات کو بلکہ رات کے ہر دو کناروں کو بھی خدا کے ذکر اور خدا کی عبادت اور خدا سے اپنی دعائوں کی طلب میں خرچ کیا جاتا ہے۔ نماز کی غرض و غایت خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرنا اور اس کی یاد کو اپنے دل میں تازہ رکھنا ۔ اور اس کے ذریعہ اپنے نفس کو فحشاء اور منکرات سے پاک کرنا اور خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرنا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق کامل نماز وہ ہے جس میں نماز پڑھنے والا اس وجدان سے معمور ہوکہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں۔ یا کم از کم یہ کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز کے اوقات میں انسانی زندگی کے مختلف حصوں کی طرف لطیف اشارہ رکھا گیا ہے اور اسی لئے دن کے آخری حصہ میں جب رات کی تاریکی قریب آرہی ہوتی ہے نمازوں کے درمیانی وقفہ کو کم کردیا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ عالمِ آخرت کی تیاری عمر کی زیادتی کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جانی چاہئے ۔ نماز کی عبادت حقیقۃً روحانیت کی جان ہے اور اسی لئے اسے مومن کا معراج قرار دیا گیا ہے اور نماز کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی شغف اور ذاتی سرورکا یہ عالم تھا کہ آپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے ’’ جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فِی الصَّلوٰۃ‘‘۔ یعنی نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
(۲) دوسری عملی عبادت اسلام میں زکوٰۃ ہے جس کے معنی کسی چیز کو پاک کرنے اور بڑھانے کے ہیں۔ زکوٰۃ کی بڑی غرض یہ ہے کہ ایک طرف امیروں کے مال میں سے غریبوں کا حق نکال کر اسے پاک کیا جائے اور دوسری طرف غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کا سامان مہیا کرکے قوم کے مقام کو بلند کیا جائے اور اس کے افراد کو اوپر اٹھایا جائے۔ زکوٰۃ کا ٹیکس مال کا ضروری اور اقل حصہ چھوڑ کر زائد مال پر جسے شرعی اصطلاح میں نصاب کہتے ہیں لگایا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس چاندی سونے اور چاندی سونے کے زیورات اور چاندی سونے کے سکوں (جن میں کرنسی نوٹ بھی شامل ہیں) اڑھائی فی صدی سالانہ کے حساب سے مقرر ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ سونے کا علیحدہ نصاب مقرر نہیں ہے۔ بلکہ چاندی کے نصاب کی قیمت کی بنیاد پرہی سونے کے نصاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو لازماً ان دو ۲ دھاتوں کی نسبتی قیمت کے لحاظ سے بڑھتا گھٹتا رہے گا۔تجارتی مال پر بھی اڑھائی فی صدی سالانہ کی شرح مقرر کی گئی ہے۔ زرعی زمینوں اور باغات کی فصل پر بارانی فصل کی صورت میں دسواں حصہ اور مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بیسواں حصہ زکوٰۃ مقرر ہے بھیڑ بکریوں کی صورت میں قطع نظر تفصیلات کے ہر چالیس بکریوں سے لیکر ایک سو بیس بکریوں تک پر ایک بکری اور گائے بھینسوں کی صورت میں تیس جانوروں پر ایک بچھڑا اور اونٹوں کی صورت میں ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری اور پچیس اونٹوں پر ایک جوان اونٹنی مقرر ہے اور زمین کی کانوں اور دفینوں اور بند خزانوں پر بیس فیصدی یک مشت کی شرح سے زکوٰۃ لگتی ہے اور پھر زکوٰۃ کی یہ سب آمدنی فقراء اور مساکین کے علاوہ مقروضوں اور مسافروں اور غلاموں اور مولفۃ القلوب لوگوں اور دینی مہموں میں حصہ لینے والوں اورزکوٰۃ کا انتظام کرنے والے عملہ پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح زکوٰۃ قومی دولت کو سمونے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔
(۳) تیسری عملی عبادت حج ہے۔ حج کے معنی کسی مقدس مقام کی طرف سے سفر اختیار کرنے کے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد مکرمہ میں جاکر خانہ کعبہ اور صفا و مروہ کی پہاڑیوں کا طواف کرنا اور پھر مکہ سے نو میل پر عرفات کے تاریخی میدان میں وقوف کرکے دعائیں کرنا اور پھر واپسی پر مزولفہ میں قیام کرکے عبادت بجا لانا اور بالآخر مکہ سے تین میل پر منیٰ کے مقام میں قربانی دینا ہے۔ حج جو ماہ ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں اور دسویں تاریخوں میں ہوتا ہے صرف ایک مقدس ترین جگہ کی زیارت ہی نہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانی اور پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی قربانی کی مقدس روایات وابستہ ہیں بلکہ حج مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے مسلمانوں کو آپس میں ملنے اور تعارف پیدا کرنے اور ایک دوسرے سے ملی معاملات میں مشورہ کرنے کا بے نظیر موقعہ بھی مہیا کرتا ہے حج ساری عمر میں صرف ایک دفعہ بجا لانا فرض ہے او جیسا کہ دوسری حدیث میں صراحت آئی ہے اس کے لئے صحت او ر واجبی خرچ اور راستہ میں امن کا ہونا ضروری شرط ہے۔
(۴) چوتھی عملی عبادت رمضان کے روز ے ہیں یہ روزے ہر ایسے مسلمان پر جو بلوغ کی عمر کو پہنچ چکا ہو اور بیمار یا مسافر نہ ہو۔ فرض کئے گئے ہیں ۔ بیمار یا مسافر کو دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنی پڑتی ہے روزہ کے لئے عربی میں صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی اپنے نفس کو روکنے کے ہیں ۔ یہ عبادت رمضان کے مہینہ میں جو قمری حساب کے مطابق سال کے مختلف موسموں میں چکر لگاتا ہے ۔ ادا کی جاتی ہے۔ اور صبح صادق سے قبل سحری کا کھانا کھاکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ اختلاط کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے گویا روزوں میں مسلمانوں کی طرف سے زبان حال سے اپنی ذات اور اپنی نسل کی قربانی کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے روزے نفس کو پاک کرنے اور مشقت کا عادی بنانے کے علاوہ غریبوں کی غربت کا احساس پیدا کرانے اور مومنوں میں قربانی کی روح کو ترقی دینے کیلئے مقرر کئے گئے ہیں۔ حقیقۃً روزہ ایک بہت ہی بابرکت عبادت ہے۔