عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ یَقُوْلُ قَالَ رَسُْولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنّیِ اٰخِرُالْاَ نْبِیَآئِ وَاِنَّ مَسْجِدِیْ ھٰذَا اٰخِرُالْمَسَاجِدِ (مسلم)
ترجمہ:۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں آخری نبی ہوں اور میری یہ (مدینہ کی) مسجد آخری مسجد ہے ۔
تشریح : اس لطیف حدیث میں ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی ایسا مصلح نہیں آسکتا جو میری نبوت کے دور کومنسوخ کرکے اور میرے مقابل پر کھڑا ہوکر ایک نیا دور شروع کر دے بلکہ اگر کوئی آئے گا تو وہ لازماً میراتابع اور میرا شاگرد اور میری شریعت کا خادم ہونے کی وجہ سے میری نبوت کے دور کے اندر ہوگا نہ کہ اس سے باہر۔ اسلطیف مضمون کو واضح فرمانے کیلئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ زیادہ فرمائے ہیں کہ مسجدی ھذا اٰخر المساجد ’’ یعنی میری یہ (مدینہ والی)مسجد آخری مسجد ہے ‘‘ اب ظاہر ہے کہ ان الفاظ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی واقعات اس کی تائید کرتے ہیں کہ آئندہ دنیا میں کوئی اور مسجد بنے گی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آئندہ کوئی مسجد میری مسجد کے مقابل پر نہیں بنے گی بلکہ جو مسجد بھیبنیگی وہ میری اس مسجد کے تابع اور اس کی نقل اور ظل ہوگی۔
اسی طرح انیِ اٰخرالا نبیآء (میں آخری نبی ہوں) کے بھی یہی معنی ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو میری غلامی سے آزاد ہوکر میری نبوت کے مقابل پرکھڑا ہو اور میرے دین کو چھوڑ کر کوئی نیا دین لائے بلکہ اگر کوئی آئے گا تو میرا خادم اور میرا شاگرد اور میرا تابع اور میرا ظل اور گویا میرے وجود کا حصہ ہوکر آئے گا۔ اور یہی وہ گہرا فلسفہ ہے جو ایک قرآنی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین (نبیوں کی مہر) رکھ کر بیان کیا گیا ہے خوب غور کرو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ والی مسجد کے بعد اسلامی ممالک میں کروڑوں مسجدوں کی تعمیر کے باوجود مسجد ھذا اٰخر المساجد (یعنی میری یہ مسجد آخری مسجد ہے) کا مفہوم قائم رہتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ کے کسی خادم اور شاگرد اور تابع کا آپ کی اتباع اور غلامی میں نبوت کا انعام پانا کس طرح ختم نبوت یا انی اخر الانبیاء (یعنی میں آخری نبی ہوں) کے منشاء کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے ؟ پس یقینا اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ میں خدا کا آخری صاحب شریعت نبی ہوں ۔ جس کے بعد کوئی نبی میری غلامی کے جوئے سے آزاد ہوکر اور میرے دین کو چھوڑ کر نہیں آسکتا اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے جس کے بعد کوئی اور مسجد میری مسجد کے مقابل پر نہیں بن سکتی۔ اور اگر غور کیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان بھی اس بات میں نہیں ہے کہ آپ کو گذشتہ جاری شدہ نعمتوں کا بند کرنے والا قرار دیا جائے بلکہ آپ کی شان اس بات میں ہے کہ الگ الگ نہروں کو بند کرکے آئندہ تمام نہریں آپ کے وسیع دریا سے نکالی جائیں۔
یہی وہ لطیف تشریح ہے جو اسلام کے چوٹی کے علماء اور بڑے بڑے مجدد ہر زمانہ میں کرتے آئے ہیں چنانچہ صوفیاء کے سردار اور امام حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (ولادت ۵۶۰ھ وفات ۶۳۸ھ) فرماتے ہیں:۔
النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع۔ (فتوحات مکیہّ جلد ۲ صفحہ ۳)
’’ یعنی وہ نبوت جس کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے بند ہوگیا ہے وہ صرف شریعت والی نبوت ہے‘‘۔
حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (وفات ۹۷۶ھ ) جو ایک بڑے امام مانے گئے ہیں فرماتے ہیں:۔ ان مطلق النبوۃ لم ترتفع وانما ارتفعت نبوۃ التشریع
(الیواقیت الجواہر جلد اوّل صفحہ ۲۴)
’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مطلق نبوت ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ صرف شریعت والی نبوت بند ہوئی ہے‘‘۔
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی (وفات ۱۰۳۴ھ ) جو اسلام کے مجددین میں نہایت ممتاز حیثیت کے مالک ہیں فرماتے ہیں:۔
حصولِ کمالات نبوت مرتابعاں رابطریق تبعیت و وراثت بعد از بعثتِ خاتم الرسل منافی ختمیت اونیست فلاتکن من الممترین
(مکتوبات احمد جلد ۔۱ ۔ مکتوب صفحہ ۲۷۱)
’’ یعنی آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے متبعین کیلئے آپ کی پیروی اور ورثہ میں نبوت کے کمالات کا حصول آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی نہیں ہے پس تو اس بات میں شک کرنے والوں میں سے مت بن‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجددو صدی دوازدہم (ولادت ۱۱۱۴ھ وفات ۱۱۷۶ھ ) جن کے علم و فضل اور علومرتبت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔
ختم بہ النبیون ای یوجد بعدہ من یامرہ اللہ سبحانہ بالتشریع علی الناس۔ (تفہیمات الہیہ تفہیم صفحہ ۵۳)
’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں آسکتا جسے خدا تعالیٰ کوئی نئی شریعت دے کر مبعوث کرے‘‘۔
حضرت مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند (ولادت ۱۲۴۸ھ وفات ۱۲۹۷ھ ) جو قریب کے زمانہ میں ہی بہت بڑے عالم گذرے ہیں اور ان کا مدرسہ علومِ مشرقیہ کی تعلیم کیلئے برعظیم ہندو پاکستان میں بہت بڑی شہرت کا مالک ہے فرماتے ہیں:۔
’’ عوام الناس کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بائیں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئیگا۔ (تخدیر الناس صفحہ ۳و ۲۸)
پس لاریب یہی نظریہ درست اور صحیح ہے کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود با جود میں نبوت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے اور دائمی شریعت کا نزول پورا ہوچکا ہے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جو آپ کا خوشیہ چین بن کر آپ کی غلامی میں آپ کی مہر تصدیق کے ساتھ نبوت کے انعام کا وارث بنتا ہے ۔ کاش لوگ اس لطیف نکتہ کو سمجھیں۔
جواب دیں