عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعَتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّمَا الْاَاعْمَالُ بِالِنّیَّاتِ وَاِ نَّمَا لِکُلِّ امْرِیٔ مَّانَوٰی (بخاری)
ترجمہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پاتا ہے۔
تشریح : یہ لطیف حدیث انسانی اعمال کے فلسلفہ پر ایک اصولی روشنی ڈالتی ہے ظاہر ہے کہ بظاہر نیک نظر پنے والے اعمال بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں بعض کام محض عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں اور بعض کام دوسروں کی نقل میں کئے جاتے ہیں اور بعض کام ریا اور دکھاوے کے طور پر کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب کام خدائے اسلام کے ترازو میں بالکل بے وزن اور بے سود ہیں اور صحیح عمل وہی ہے جو دل کے سچے ارادہ اور نیت کے خلوص کے ساتھ کیا جائے۔ اور یہی وہ عمل ہے جو خدا کی طرف سے حقیقی جزا پانے کا مستحق ہوتا ہے ۔ حق یہ ہے کہ جب تک انسان کا دل اور اس کی زبان اور اس کے جوارح یعنی ہاتھ پائوں وغیرہ کسی عمل کے بجالانے میں برابر کے شریک نہ ہوں وہ عمل کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ دل میں سچی نیت ہو۔ زبان سے اس نیت کی تصدیق ہو اور ہاتھ پائوں اس نیت کے عملی گواہ ہوں۔ تو تب جاکر ایک عمل قبولیت کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں سچی نیت نہیں تو وہ منافق ہے۔ اگر اس کی زبان پر اس کی نیت کی تصدیق نہیں توہ وہ بزدل ہے۔ اور اگر اس کے ہاتھ پائوں اس کی بیان کردہ نیت کے مطابق نہیں تو وہ بدعمل ہے پس سچاعمل وہی ہے جس کے ساتھ سچی نیت شامل ہو۔ پاک نیت سے انسان اپنے بظاہر دنیوی اعمال کو بھی اعلیٰ درجہ کے دینی اعمال بنا سکتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک خاوند اس نیت سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے کہ میرے خدا کا یہ منشاء ہے کہ میں اپنی بیوی کا خرچ مہیا کروں اور اس کے آرام کا خیال رکھوں تو اس کا یہ فعل بھی خدا کے حضور ایک نیکی شمار ہوگا مگر افسوس ہے کہ دنیا میں لاکھوں انسان صرف اس لئے نماز پڑھتے ہیں کہ انہیں بچپن سے نماز کی عادت پڑچکی ہے اور لاکھوں انسان صرف اس لئے روزہ رکھتے ہیں کہ ان کے ارد گرد کے لوگ روزہ دار ہوتے ہیں اور لاکھوں انسان صرف اس لئے حج کرتے ہیں کہ تا لوگوں میں ان کام حاجی مشہور ہو اور وہ نیک سجھے جائیں اور ان کے کاروبار میں ترقی ہو۔ ہمارے آقا (فداہ نفسی) کی یہ حدیث ایسے تمام اعمال کو باطل قرار دیتی ہے اور ایک باطل عمل خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی نیک نظرآئے خدا کے حضور کوئی اجر نہیں پاسکتا۔ لاریب سچا عمل وہی ہے جس کے ساتھ سچی نیت ہو۔ اور عمل کا اجر بھی نیت کے مطابق ہی ملتا ہے۔