عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلیٰ قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ۔ (مسلم)
ترجمہ: ابو ہریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ بلکہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کی طرف دیکھتا ہے۔
تشریح : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کی نعمت ہونے کے باوجود بعض اوقات عورتوں اور مردوں میں بھاری فتنہ کا موجب بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک جسمانی حسن و جمال ہے جوعموماً عورتوں کیلئے فتنہ کی بنیاد بنتا ہے اور دوسرے مال و دولت ہے جو بالعموم مردوں کو فتنہ میں مبتلا کرتا ہے۔ ان دو باتوں کو مثال کے طور پر سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بیشک یہ دونوں چیزیں خدا کی پیدا کی ہوئی نعمتیں ہیں۔ مگر مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ کسی انسان کی قدروقیمت کو پرکھنے کیلئے خدا تعالیٰ عورتوں کے حسن او رمردوں کے مال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ ان دونوں کے دلوں اور دماغ کی طرف دیکھتا ہے جو انسانی خیالات اور جذبات کا مبدا و منبع ہیںاور پھر وہ ان کے اعمال کی طرف دیکھتا ہے جو ان خیالات او رجذبات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
اس حدیث میں جو قلب کا لفظ بیان ہوا ہے اس سے دل اور دماغ دونوں مراد ہیںجنہیں انگریزی میں ہارٹ Heartاور مائنڈMindکہتے ہیں کیونکہ قلب کے لفظی معنی کسی نظام کے مرکزی نقطہ کے ہیں اور دل اور دماغ دونوں اپنے اپنے دائرہ میںجسمانی نظام کامرکز ہیں دماغ ظاہری احساسات کا مرکز ہے اور دل روحانی جذبات کا مرکز ہے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قلوب اور اعمال کا لفظ استعمال کرکے اشارہ فرمایا ہے کہ بیشک جسمانی حسن اور ظاہری مال و دولت بھی خدا کی نعمتیں ہیں اور انسان کو ان کی قدر کرنی چاہئے لیکن وہ چیز جس کی طرف خدا کی نظر ہے انسان کا قلب اور اس کے اعمال ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جمال و مال اور دنیا کی دوسری نعمتوں پر فخرکرنے کی بجائے اپنے دل و دماغ کی اصلاح اور اپنے اعمال کی درستی کی فکر کرے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کے قلب اور اس کے اعمال کی طرف دیکھتا ہے اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ قیامت والے حساب کتاب میں انہی چیزوں کووزن حاصل ہوگا۔ بلکہ ان الفاظ میں یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اس دنیا میں بھی حقیقی وزن دل کے جذبات اور دماغ کے احساسات اور جوارح کے اعمال کو حاصل ہوتا ہے حق یہ ہے کہ جس قوم کے افرا د کو یہ نعمت حاصل ہوجائے یعنی ان کا دل اور ان کا دماغ اور ان کے ہاتھ پاؤں ٹھیک رستہ پر چل دیں اس کی ترقی اور اس کے لئے نعمتوں کے حصول کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔