عَنْ اَبیِ ھُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلوٰۃ وَصَامَ رَمْضَانَ کَانَ حَقّاً عَلیٰ اللّٰہِ اِنْ یُّدْخِلَہُ الْجنّۃَ جَاھَدَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ اَوْجَلَسَ فِیْ رَوْضَۃِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا۔ قَالُوْ اَفَلَا نُبَشِّرُ الَناسَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلمُجَاھِدِیْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالاَرْضِ فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْئَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَانَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلیٰ الْجَنَّۃِ وَفَوْقَھَا عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْھَا یَتَفَجَّرُ انْھٰرُ الْجَنَّۃِ(بخاری)
ترجمہ :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اور نماز قائم کرتا اور رمضان کے روزے رکھتا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ پر گویا یہ حق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ ایسا انسان خدا کے رستہ میں جہاد کرے یا کہ اپنے پیدائشی گھرکے باغیچہ میں ہی قاعدبن کر بیٹھا رہے۔ صحابہ نے عرض کیا تو کیا یا رسول اللہ ہم یہ بشارت لوگوں تک نہ پہنچائیں؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک سودرجے ایسے ہیں جنہیں خدا نے اپنے مجاہد بندوں کے لئے تیار کر رکھا ہے اور ہر درجہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس اے مسلمانو! جب تم خدا سے جنت کی خواہش کرو تو فردوس والے درجہ کی خواہش کیا کرو۔ جو جنت کاسب سے وسطی اور سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اس سے اوپرخدا نے ذوالجلال کا عرش ہے اور اسی میں سے جنت کی تمام نہریں پھوٹتی ہیں۔
تشریح :۔ میں نے اپنے عام اصولِ انتخاب کے خلاف یہ لمبی حدیث اس لئے درج کی ہے کہ اس حدیث سے ہمیں کئی اہم اور مفید اور اصولی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ باتیں یہ ہیں:۔
(۱) یہ کہ جنت میں صرف ایک ہی درجہ نہیں ہے بلکہ بہت سے درجے ہیں۔ جن میں سب سے اعلیٰ درجہ فردوس ہے جو گویا جنت کی نہروں کا منبع ہے۔
(۲) یہ کہ جنت میں مجاہد مسلمانوں کے کم سے کم درجہ اور قاعد مسلمانوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ میں بھی اتنا ہی فرق ہوگا۔ جتنا کہ زمین اور آسمان میں فرق ہے۔
(۳) یہ کہ مسلمانوں کو نہ صرف مجاہدوں والا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ مجاہدوں والے درجوں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ یعنی فردوس کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔
(۴) یہ کہ جنت کے مختلف درجے خدا تعالیٰ کے قرب کے لحاظ سے مقرر کئے گئے ہیں۔ اسی لئے جنت کے اعلیٰ ترین درجہ کو عرشِ الٰہی کے قریب تر رکھا گیا ہے۔
(۵) یہ کہ جنت کی نعمتیں مادی نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں۔ کیونکہ ان کا معیار خدا کا قرب مقرر کیا گیا ہے۔ اور گو ان نعمتوں میں روح کے ساتھ جسم کا بھی حصہ ہوگا۔ جیسا کہ اعمال میںبھی اس کا حصہ ہوتا ہے مگر جنت میں انسان کا جسم بھی روحانی رنگ کا ہوگا۔ اس لئے وہاں کی جسمانی نعمتیں بھی دراصل روحانی معیار کے مطابق بالکل پاک و صاف ہوں گی۔
یہ وہ لطیف علم ہے جو ہمیں اس حدیث سے حاصل ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ تا مسلمانوں کے مقصد اور آئیڈیل کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے بے شک ایک مسلمان جو نماز اور روزہ کے احکام وغیرہ کو تو خلوص نیت سے پورا کرتا ہے( اس حدیث میں حج اور زکوٰۃ کے ذکر کو اس لئے ترک کیا گیا ہے کہ وہ ہر مسلمان پر واجب نہیں۔ بلکہ صرف مستطیع اور مالدار لوگوں پر واجب ہیں)مگر اپنے گھر میں قاعدین کو بیٹھا رہتا ہے وہ خدا کی گرفت سے بچ کر نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر وہ ان اعلیٰ انعاموں کو نہیںپاسکتا جو انسان کو خدا تعالیٰ کے قرب خاص کا حق دار بناتے ہیں ۔ پس ترقی کی خواہش رکھنے والے مومنوں کا فرض ہے کہ وہ قاعدانہ زندگی ترک کرکے مجاہدانہ زندگی اختیار کریں۔ اور خدا کے دین اور اس کے رسول کی امت کی خدمت میں دن رات کوشاں رہیں۔ حق یہ ہے کہ ایک قاعد مسلمان جس کے دین کا اثر اور اس کے دین کا فائدہ صرف اس کی ذات تک محدود ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ نعمتوں سے ہی محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے ہر وقت کا خطرہ بھی مول لیتا ہے کیونکہ بوجہ اس کے کہ وہ بالکل کنارے پر کھڑا ہے اس کی ذرا سی لغزش اسے نجات کے مقام سے نیچے گر اکر عذاب کا نشانہ بنا سکتی ہے مگر ایک مجاہد مسلمان اس مقام سے نیچے گراکر عذاب کا نشانہ بناسکتی ہے مگر ایک مجاہد مسلمان اس امکانی خطرہ سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ خدا کی راہ میں مجاہد بننے کا کیا طریق ہے سوگو جہاد فی سبیل اللہ کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ مگر قرآن شریف نے دو شاخوں کو زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ فرماتا ہے
فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلیٰ الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً ۔
’’یعنی خدا تعالیٰ نے دین کے رستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والے لوگوں کو گھروں میں بیٹھ کر نیک اعمال بجا لانے والوں پر بڑی فضیلت دی ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا بڑا ذریعہ مال اور جان ہے ۔ مال کا جہاد یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترقی اور اسلام کی مضبوطی کے لئے بڑھ چڑھ کر روپیہ خرچ کیا جائے اور جان کا جہاد یہ ہے کہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت (یعنی تبلیغ اور تربیت وغیرہ) میں لگایا جائے۔ اور موقعہ پیش آنے پر جان کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ جو شخص ان دو قسموں کے جہادوں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ان اعلیٰ انعاموں کا حق دار قرار پاتا ہے جو ایک مجاہد کیلئے مقدر ہیں ۔ مگر گھر میں بیٹھ کر نماز روزہ کرنے والا مسلمان ایک قاعد والی بخشش سے زیادہ امید نہیں رکھ سکتا۔
اب دیکھو کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم پر کس درجہ شفقت ہے کہ ایک انتہائی طور پر رحیم باپ کی طرح فرماتے ہیں کہ بیشک تم نماز روزہ کے ذریعہ نجات تو پالو گے اور عذاب سے بچ جائوگے۔ مگر اپنے تخیل کو بلند کرکے ان انعاموں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو ایک مجاہد فی سبیل اللہ کیلئے مقدر کئے گئے ہیں کیونکہ اس کے بغیر قومی زندگی کا قدم کبھی بھی ترقی کی بلندیوں کی طرف نہیں اٹھ سکتا بلکہ ایسی قوم کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ اس تعلق میں سب سے مقدم فرض ماں باپ کا اور ان سے اُتر کر سکولوں کے اساتذہ اور کالج کے پروفیسروں کا ہے۔ کہ وہ بچپن کی عمر سے ہی بچوں میں مجاہدانہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں قاعدانہ زندگی پر ہرگز قانع نہ ہونے دیں۔