اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

بھائی خواہ ظالم ہو یا مظلوم اُس کی مدد کرو

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِمًا اَوْمَظْلُوْمًا قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا نَنْصُرُہٗ مَظْلُوْماً فَکَیْفَ نَنْصُرُہٗ ظَالِمًا قَالَ تَاْخُذ فَوْقَ یَدَیْہِ (بخاری)

ترجمہ:۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی بہرحال امداد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم بھائی کی مدد کا مطلب تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم بھائی کی مدد کس طرح کی جائے؟ آپ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر کرو۔
تشریح :۔ یہ لطیف حدیث فلسفہ اخوت اور فلسفہ ٔ اخلاق کا ایک نہایت گراں قدر مجموعہ ہے۔ فلسفہ ٔ اخوت کا پہلو تو یہ ہے کہ ایک مسلمان بھائی کی مدد ہر حال میں ہونی چاہئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو اخوت وہ چیز نہیں جسے کسی حالت میں بھی فراموش یا نظرانداز کیا جائے جو شخص ہمارا بھائی ہے وہ ہر صورت میں ہماری مدد کا مستحق ہے اور اس کا ظالم یا مظلوم ہونا اس کے اس حق پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابل پر اس حدیث کے فلسفہ ٔ اخلاق کا پہلو یہ ہے کہ خواہ ہمارا واسطہ غیر کے ساتھ ہو یا کہ بھائی کے ساتھ ہمارا ہرحال میں فرض ہے کہ دنیا سے ظلم اور بدی کو مٹائیں اور نیکی اور انصاف کو قائم کریں کسی کے غیر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس پر ظلم کریں اور کسی کے بھائی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ہم ایک ظلم میں بھی اس کے معین و مددگار ہوں۔
اب غور کرو۔ کہ بظاہر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے کس قدر مخالف اور کتنی متضاد نظر آتی ہیں۔ اگر ظالم بھائی کی مدد نہ کی جائے تو اخوت کی تاریں ٹوٹتی ہیں۔ اور اگر ظالم بھائی کی مدد کی جائے تو انصاف ہاتھ سے دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے آقا (فداہ نفسی) نے ان متوازی نہروں کو جو بظاہر ہمیشہ ایک دوسرے سے جدا رہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حکمت و دانش مندی کی ایک درمیانی نہر کے ذریعہ اس طرح ملا دیا ہے کہ وہ گریا ایک جان ہوکر بہنے لگ گئی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اخوت ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو کسی حالت میں ٹوٹنا نہیں چاہئے۔ میرا بھائی خواہ اچھا ہے یا برا نیک ہے یا بد۔ ظالم ہے یا مظلوم ۔ بہرحال وہ میرا بھائی ہے۔ اور اس کی اخوت کی تاریں کسی حالت میں کاٹی نہیں جاسکتیں۔ لیکن خدائے اسلام ظلم کی بھی اجازت نہیں دیتا اور دشمن تک سے انصاف کا حکم فرماتا ہے ۔ اس لئے ان دو باتوں کو اس طرح ملائو کہ بھائی کی تو بہرحال مدد کرو لیکن اس کے ظالم ہونے کی حالت میں اپنی مدد کی صورت کو بدل دو اگر وہ مظلوم ہے تو اس کے ساتھ ہوکر ظالم کا مقابلہ کرو۔ اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ساتھ لپٹ کر اس کے ظلم کے ہاتھ کو مضبوطی کے ساتھ روکو۔ اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس سے عرض کرو کہ بھائی ہر حال میں میں تمہارے ساتھ ہوں مگر اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا اس لئے میں تمہارے ہاتھ کو ظلم کی طرف بڑھنے نہیں دوں گا۔ یہ وہ مقدس اصول ہے جو اس لطیف حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا ہے۔
یہ خیال کرنا جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض زور دینے کی خاطر خاص قسم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ورنہ مقصد یہی ہے کہ اگر تمہارا بھائی مظلوم ہے تو اس کی مدد کرو۔ اور اگر وہ ظالم ہے تو اس کے خلاف کھڑے ہو جائو۔ بالکل غلط اور حدیث کے حکیمانہ الفاظ کے ساتھ گویا کھیلنے کے مترادف ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی منشا ہوتا تو آپ بڑی آسانی کے ساتھ فرما سکتے تھے کہ تم بہرحال ظلم کا مقابلہ کرو خواہ وہ تمہارے دشمن کی طرف سے ہو یا تمہارے بھائی کی طرف سے لیکن آپ نے ہرگز ایسا نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے اس فرمان میں بظاہر دو متضاد باتوں کو ملاکر ایک نہایت لطیف اور اچھوتا نظریہ قائم فرمایا ہے جو یہ ہے کہ :۔

  • ۱۔ بھائی بہرحال مدد کا مستحق ہے۔
  • ۲۔ ظلم کا بہرحال مقابلہ ہونا چاہئے۔
  • ۳۔ اگر بھائی مظلوم ہوتو اس کی مدد کرو۔ اور اگر بھائی ظالم ہو تو مدد کی نوعیت کو بدل کر اس کے ظلم کے ہاتھ کو روکو تاکہ اخوت بھی قائم رہے اور ظلم کا انسداد بھی ہو جائے۔

یہ وہ مرکب نظریہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پیشترعرب کے صحرا سے اٹھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ لیکن آج تک یورپ اور امریکہ کی کوئی ترقی یافتہ قوم بھی اس نظریہ کی بلندی کو نہیں پہنچ سکی۔ انہوں نے اگر کسی قوم کے ساتھ اخوت کا عہد باندھا تو اس اخوت کے اکرام میں بے پناہ ظلم کا دروازہ کھول دیا اور اگر بزعمِ خود کسی ظلم کے انسداد کے لئے اُٹھے تو اخوت کے عہد کی دھجیاں اڑادیں۔


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے