بیعت اور توبہ

بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شے کا فائدہ اور قیمت معلوم نہ ہو تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال واسباب ہوتا ہے.مثلاً روپیہ، پیسہ، کوڑی، لکڑی وغیرہ تو جس قسم کی جو شے ہے اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی.ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تو یونہی ایک کونہ میں ڈال دے گا.علیٰ ہذاالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے اس کی زیادہ حفاظت کرے گا.اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے.جس کے معنی رجوع کے ہیں.توبہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جس سے اُس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہوئی ہے تو توبہ کے معنے یہ ہیں کہ اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش و ہمسائے، وہ گلیاں، کوچے، بازار سب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس وطن میں کبھی نہیں آتا.اس کا نام توبہ ہے.معصیت کے دوست اَور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اَور.اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے.جو توبہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے.وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطا نہ فرماوے نہیں مارتا.

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ (البقرۃ: ۲۲۳)

میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب، بیکس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور اُسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.دوسری قومیں خدا کو رحیم ، کریم خیال نہیں کرتیں.عیسائیوں نے خدا کو تو ظالم جانا اور بیٹے کو رحیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دے کر بخشوائے.بڑی بے وقوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق.والد مولود میں مناسبت اخلاق عادات کی ہوا کرتی ہے (مگر یہاں تو بالکل ندارد) اگر اللہ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گزارہ نہ ہوتا.جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اُس کے لئے مفید بنائیں تو کیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ توبہ اور عمل کو قبول نہ کرے.

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1، صفحہ 2

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام – فقہ احمدیہ کی بنیاد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور زمانہ کی حیثیت سے ایک نیا فقہی اسلوب دیا جو فقہ احمدیہ کی بنیاد بنا۔آپ کے فقہی اسلوب کے بنیادی خدّوخال ،آپ کی تحریرات اورملفوظات میں ہمیں ملتے ہیں۔ آپ نے اصول اور مسائل فقہ میں ہر پہلو سے ہماری      رہنمائی فرمائی اورمیزان اور اعتدال کا راستہ دکھایا اورصراط مستقیم پر ہمیں قائم فرمایا ۔ آپ ؑ کے فقہی اسلوب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔قرآن کریم ہی اصل میزان، معیار اورمِحَک ہے 

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں شریعت کی اصل بنیاد پر نئے سرے سے قائم فرمایا اور خدا کی اس رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت کی جسے لوگ چھوڑچکے تھے۔ چنانچہ آپ نے باہمی اختلافات کو دورکرنے کے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ قرآن کریم ہی میزان، معیار اورمِحَک ہے۔ فرمایا:

’’ کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے ‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ11،12) 

2۔  سنّت اور تعامل کی حجیّت 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے قرآن کریم کو معیار  قراردیا اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس موضوع پر آپ کا ایک مباحثہ ہواجو ’’الحق مباحثہ لدھیانہ ‘‘ کے نام سے روحانی خزائن جلد4میں موجود ہے۔ آپ نے حدیث کے صحیح مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ  سنت اور حدیث میں فرق ہے۔ سنت الگ چیز ہے اورحدیث الگ چیز۔ سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش کا نام ہے جو تعامل کے رنگ میں امتِ مسلمہ میں مسلسل جاری رہی ہے اس لئے ہم اسے نہایت اہمیت دیتے ہیں اوراس کے بارہ میں یہ معیار قرارنہیں دیتے کہ اسے قرآن کریم پر پرکھا جائے۔ہاں حدیث کو قرآن کریم پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔

سنت اور حدیث کا فرق واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔

’’ہم حدیث اورسنت کو ایک چیز قرارنہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدّثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنت الگ چیز ہے۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل۔ ‘‘

(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔روحانی خزائن جلد19صفحہ209،210) 

نیزفرمایا

’’ ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں اور اگر حدیث جو آپؐ کے بعد ڈیڑھ سو دو سو برس بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ توجب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اورحدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں لکھے گئے۔‘‘    

(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2) 

حضرت مسیح موعود ؑ نے حدیث کے مقابلے میں سنت اور تعامل کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا:۔

’’ یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کرلیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کی وجہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اوردرحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ توطبعی طورپر ہرایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔ ‘‘    

(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ26) 

آپ نے سنت اور تعامل کے باہمی تعلق کو واضح کرکے دکھایا اور سنت کی زیادہ اہمیت کی وجہ بتائی کہ اُسے سلسلہ تعامل نے حجت قوی بنادیاہے۔فرمایا

’’احادیث کے دو حصّہ ہیں ایک وہ حصّہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طورپرآگیا ہے یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اورقوی اورلاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اورمرتبہ یقین تک پہنچادیا ہے جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اورعقود اور معاملات اوراحکام شرع متین داخل ہیں۔ ‘‘ 

(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ35) 

3۔ انسانی اجتہاد پر حدیث فضیلت رکھتی ہے 

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم کو حدیثوں کو پرکھنے کے لئے معیار قراردیا اور سنت اورتعامل کو حدیث پر اہمیت دی اور اسے قطعی اور یقینی درجہ دیا ۔دوسری طرف محدّثین کے خود ساختہ معیار کے مطابق ضعیف قراردی جانے والی احادیث کو بھی انسان کے اجتہاد اور فقہ پر ترجیح دی کیونکہ بہرحال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس حوالے سے آپ نے اپنی جماعت کو بھی خصوصی نصیحت فرمائی۔

فرمایا

’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔ ‘‘ 

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ212) 

4۔ شریعت کی اصل روح کا احیاء 

حضرت مسیح موعود ؑ  کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا : 

’’  یُحْيِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ  ‘‘ 

ترجمہ:  وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔ 

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ79) 

اس الہام میں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ ؑ کے ذریعے دین کااحیاء ہوگا اور شریعت کو اصل شکل میں قائم کیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے شریعت کے منافی تمام باتوں کی مناہی فرمائی اور انہیں بدعات قراردے کر اپنی جماعت کو ان سے بچنے کی نصیحت کی۔فرمایا

’’کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اورسب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھراُدھر بالکل نہ جاوے ۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔۔۔۔

ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اورطریق سنت کے سِوا نہیں۔

(البدر 13مارچ1903ء صفحہ59) 

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا

’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اوروظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کی بجائے قِسم قِسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذتِ روح کے لئے نہیں ہے بلکہ لذتِ نفس کے لئے ہے۔ ‘‘

(الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ8) 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر طرح کی بدعات سے منع کرتے ہوئے اصل سنت کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؑ نے قل خوانی، فاتحہ خوانی، چہلم، مولودخوانی، تصورِ شیخ، اسقاط، ختم، دسویں محرّم کی رسوم سمیت سب بدرسوم سے اپنی جماعت کوبچنے کی نصیحت فرمائی اور خدااور رسولؐ  کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اورصرف ظاہری مسائل پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے انداز کو ناپسندفرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایمان دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ صرف ظاہری مسائل پر ہی عمل کرنا اور حقیقت کو نہ سمجھنا یہ بڑی غلطی ہے ۔مجھے خدا نے مجدّد بنا کر بھیجا ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔فرمایا

’’مجدد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیاکرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے۔ ‘‘

(الحکم 19مئی 1899ء صفحہ4) 

اسی طرح آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا

’’یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدّد ہے۔ تجدید کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے۔ اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنے ہیں کہ جوعقائد حقّہ میں فتور آگیاہے اور طرح طرح کے زوائد اُن کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے اُن کو مجدّدًا تاکیدًا بالاصل بیان کیا جائے۔ ‘‘

(الحکم 24جون1900ء صفحہ3) 

5۔ قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حَکَم عَدل کی حیثیت سے باہمی تنازعات کا فیصلہ فرمایا اورجن امور میں امتِ مسلمہ میں اختلاف پایا جاتا تھا اور باہمی بحث مباحثے بھی ہوتے تھے اُن میں آپ ؑ نے صحیح اور معتدل راستہ دکھایا۔ اس کے علاوہ مسلّمہ اور متداول فقہی مسائل میں امتِ مسلمہ کے اجتہاد کوبھی بڑی اہمیت دی۔خاص طور پرایسے مسائل کو جومُطَہَّر بزرگان امت کے اجتہاد پر مبنی ہیں اور امت مسلمہ ان پرصدیوں سے عمل کر رہی ہے۔ فرمایا

’’ میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حُکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام   بیّنہ  قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلّمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتاہوں۔ ‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82) 

6۔بزرگان سلف کا احترام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حَکَم عدل کی حیثیت سے بہت سے اختلافی مسائل میں اپنا فیصلہ دیا اوراپناوزن کسی خاص موقف کے حق میں ڈالا تو اس پر بعض لوگوں نے ایسے سوال کئے جن سے بعض مسلّمہ بزرگان دین پر اعتراض ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں آپؑ نے زیادہ تفصیل میں جانے سے منع فرمایا۔مثلًا 

ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟فرمایا

’’ اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ، حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سُنے تھے۔ ‘‘        

(البدر17نومبر1905ء صفحہ6) 

اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے نقش بندی صوفیاء کے بعض خاص طریقوں کے حوالے سے سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہم ایسے طریقوں کی ضرورت خیال نہیں کرتے ۔ اس پر    اس نے کہا کہ اگر یہ امورخلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اورمشاہیر جن میں    حضرت احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجدّد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اورلوگوں کو ایسے امور کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا

’’اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اورسامانِ تعیّش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ اُن کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالے کردینا مناسب ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2صفحہ69،70)

بزرگانِ سلف کے بعض معتقدات سے اختلاف کے باوجود آپ نے اُن کی عزت اور قبولیت کو بہت اہمیت دی اوراُن کے عالی مقام کا بھی تذکرہ کیا۔ خاص طورپر یہ شرف حضرت امام ابو حنیفہؒ  کوحاصل ہوا جن پرگزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے اُن کے مخالف علماء  اہل الرائے ہونے کا الزام لگاتے تھے اور اہل حدیث تو بار بار اس بات کو پیش کرتے تھے کہ امام صاحب نے قیاس سے کام لے کر گویاشریعت میں دخل دیا ہے۔

الحق مباحثہ لدھیانہ میں ایک ایسے ہی موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

’’اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو  امام بزرگ ابوحنیفہ ؒسے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر ُسبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ101) 

حضرت امام ابو حنیفہؓ  کو استخراج مسائل قرآن میں خاص دسترس تھی اس وجہ سے آپ بعض احادیث کی تاویل کرتے تھے یا انہیں چھوڑ دیتے تھے۔اس پر آپ کے مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں آپ کے فتاویٰ قرآن و حدیث کے منافی نہیں تھے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔ سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا۔‘‘

(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد3 صفحہ385) 

7۔ احکام شریعت پُرحکمت ہیں

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑے زور کے ساتھ ان مفاسد کو دورکردیا جو اس زمانے میں اسلام کے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جارہے تھے اوراسلام کی تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے۔ آپ نے اسلام کی مدافعت کا حق ادا کردیا ۔ آپؑ کی معرکۃ الآراء کتاب کا تعارف تو اس کے نام سے ظاہر ہے۔

’’اَلْبَرَاہِیْنُ الْاَحْمَدِیَّۃُ عَلٰی حَقِیَّۃِ کِتَابِ اللّٰہِ الْقُرَْآنِ وَالنَّبُوَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ   ‘‘

یعنی کتاب اللہ کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر احمدی دلائل اوربراہین۔ 

اس کتاب میں آپ نے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے سچے اور برحق ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ اسلام کی تعلیم عین فطرتی تعلیم ہے اس کے تمام مسائل انسان کی بھلائی اورانسانی فطرت اورزندگی کے عین مطابق ہیں گویا تمام احکام حق محض ہیں۔آپ نے فرمایا

’’ آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔جس کے اصول نجات کے ،بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبّہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیّت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں، ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دِلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے ۔‘ ‘

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد1صفحہ81،82) 

اپنے موقف کے حق میں آپ نے زورداردلائل بیان فرمائے۔تعدّد ازدواج ہو یا ورثہ کی تعلیم جہاں عورتوں کے لئے نصف حصہ جائیداد میں مقرر ہے سب کے عقلی جواب دئیے۔ متعہ کا اعتراض ہو یا متبنّی بنانے کا مسئلہ ہر ایک بات کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ نیوگ پر آپ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات ہوں یا اُن کے جواب میں حلالہ کے مسئلہ کی آڑ لے کر دشمنوں کا جوابی اعتراض ہوہر مسئلہ کو نکھار کر رکھ دیا۔

آپ نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان فرمائیں اور وضو اور نماز کے باطنی فوائد کے علاوہ ظاہری طبّی فوائد بھی بیان فرمائے۔ اوقات نماز کی فلاسفی بیان فرمائی اورثابت فرمایا کہ نماز کے متفرق اوقات زندگی کے حقائق اورحالات کے مطابق ہیں۔ بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ ہو یا نماز باجماعت میں ظاہری مضمر فوائد ہوں اورحج کی حکمتیں سب مسائل کو عقلی دلائل سے پیش فرمایا۔

آپ نے اپنی تحریرات اور تقاریر میںمنقولی اور معقولی ہردو طرح کے دلائل پیش فرماتے ہوئے اعتراضات کے جواب دئیے۔اورایسے معترضین کو جومنقولی دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے عقلی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ فرمایا

’’ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے جو سرگشتۂ عقل کو عقل ہی سے تسلّی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ ہرچہارحصص روحانی خزائن جلد1صفحہ67) 

پردہ کے مسئلہ کو معقول اور فطرت کے عین مطابق قراردیتے ہوئے آپؑ نے انسانی ضرورتوں کی مثال پیش فرمائی ۔فرمایا

’’جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لو گے کہ تنگ آکراسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا۔ ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اورمرد ہوجائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے۔ ‘‘  

(نسیم دعوت ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ434) 

8۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تکریم

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے شریعت کی بعض ایسی رخصتوں اور سہولتوں پر عمل فرمایا جنہیں خدا نے جائز قراردیا ہے لیکن لوگوں نے از خود ایسی باتوں پر عمل چھوڑدیا تھا۔ مثلًا نمازوں کا جمع کرنا انسانوں کی سہولت کے پیشِ نظر جائز رکھا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاوہ سفروں اورموسمی خرابیوں کے خالص دینی ضروریات کے لئے بھی نمازیں جمع کرنی پڑیں اور بعض اوقات کئی مہینے تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ بعض معترضین نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے بڑی نرمی اور محبت سے اس بات کوسمجھایا کہ میں شریعت کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر نمازیں جمع کرتا ہوں اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو خدانخواستہ استخفاف کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ فرمایا

’’ اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تواصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم ، القاء اورالہام کے بِدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں تک خدا نے مجھ پر اس جمع بین الصلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے  تُجْمَعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ  کی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواَب پوری ہورہی ہے۔‘‘ 

(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ1) 

ایک اور موقعہ پر فرمایا

’’دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں  تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘

(الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)  

9۔ شریعت کی رخصتوں پر بھی عمل ضروری ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کی حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور احکام کی غرض وغایت پر زوردیا۔خدا تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے احکام دے کر تنگی اور تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ بعض جگہ رخصتیں اوررعایتیں بھی دی ہیں۔لیکن لوگ عمومًا تنگی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو سمجھایا کہ خدا کی طرف سے دی گئی رخصتیںبھی اس کے احکام کی طرح اہم ہیںاوراُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ 

ایک ایسے ہی موقع پر جبکہ ایک مہمان کی مہمان نوازی کے بارہ میں آپ نے ہدایت فرمائی اوراس سے آپ نے پوچھا کہ آپ مسافر ہیں آپ نے روزہ تو نہیں رکھاہوگا۔ اس نے کہا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا

’’ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالتِ سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اوراللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔‘‘

(الحکم 31جنوری 1907، صفحہ14) 

خدا تعالیٰ کی رخصتوں پر عمل کر نے کے ضمن میں آپ نے شریعت کے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی حرج اورتنگی نہیں رکھی۔ فرمایا

      ’’شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔ ‘‘

(الحکم10اگست 1903ء صفحہ20) 

10۔ شعائراللہ کا احترام اور دینی غیرت 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ میں ہمیںیہ خصوصی انداز نظر آتا ہے کہ آپ مسائل کی صرف ظاہری صورتوں پر ہی نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ شکرگزاری کا جذبہ ہمیشہ پیشِ نظر رہتا تھا۔ اسی وجہ سیبعض دفعہ آپ نے اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پرشکرگزاری کے اظہار کے طورپر پر تکلف دعوت بھی کی۔ 

حضور علیہ السلام اپنے بچوں کو بھی شعائراللہ میں سے سمجھتے تھے۔ اسی حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جون 1897ء میں آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدؓصاحب کی آمین کی تقریب منعقد کی جس میں آپ نے اپنے احباب کو پرتکلف دعوت دی اوراس موقعہ پر آپ نے ایک نظم لکھی

حمدوثناء اسی کو جو ذات جاودانی

یہ نظم آمین کی تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اندرزنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اورباہر مرد اوربچے پڑھتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد1صفحہ611، 612) 

اس کے بعد دسمبر1901ء میں حضور ؑنے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ ،       صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ اورصاحبزادی نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ کی تقریبِ آمین منعقد کی۔ اس موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں تحریرکیا کہ 

’’حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعے پیدا ہوئے۔ ان کے ایسے مواقع پر جواظہارِ خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور ؑ بروزِ محمد ؐ ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہوجائیں گے۔ اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے۔‘‘ 

اس پرحضرت اقدس نے سیر کرتے ہوئے تقریر فرمائی کہ 

’’ الاعمال بالنیات ایک مسلّمہ مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے۔ اگر کوئی ریاء سے اظہار علی الخلق اور تفوّق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے توایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ۔ مگر اگر کوئی تشکّر اور اللہ کی رضاجوئی کی نیّت سے خرچ کرتا ہے بلا ریاومعاوضہ تواس میں حرج نہیں۔‘‘

(اصحابِ احمد جلد2صفحہ551۔ سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔نیا ایڈیشن ) 

اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا

’’میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لا انتہاء فضل اورانعام ہیں ۔ ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میںجب کوئی کام کرتاہوں تو میری غرض اورنیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہارہوتی ہے۔ ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے۔ یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدرکرنی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘

(الحکم 10اپریل 1903ء صفحہ2)  

اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دینی غیرت اورحمیّت کے جذبہ کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسی جذبہ کے پیشِ نظر اسلام کی طرف سے مدافعت کا خوب حق ادا کیا۔ جب دشمنانِ اسلام، اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے آپ نے تحریری او رتقریری ہر دو ذریعوں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دئیے اور بعض مواقع پر آپ کے ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات بھی ہوئے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ کا پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو وہ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کی روایت ہے کہ

’’ پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں)کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے  لہٰذا  اِن کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2صفحہ198 )

عام طور پر عیسائیوں، ہندوؤں اور دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے لحاظ سے تعلقات رکھے جاتے تھے لیکن جہاں دینی غیرت کا معاملہ آتا تھا وہاں اس حد تک ان سے قطع تعلق کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے طریق عمل کونہ بدل لیں۔ ایک ایسے ہی موقعہ پرحضور سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اورمعانقہ کرنا جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا: 

’’ میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اورہم اُن سے معانقہ کریں۔ قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اورپھر یہ لوگ خنزیرخور ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟

(الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ10) 

11۔ خشک مسائل سے اجتناب 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دی۔ عام طورپر لوگ جزوی ، فروعی اورخشک مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور حقیقت سے دور جاپڑتے تھے۔ حضورؑ نے ایسے بعض پیش آمدہ مسائل میں غیر حقیقی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ روایتی کتب فقہ میں چونکہ ایسے مسائل موجود تھے جنہیں پڑھ کر بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں بہت علم حاصل ہوگیا ہے اور اب ہم فقہ کے ماہربن گئے ہیں اس لئے وہ ان مسائل کی ظاہری صورتوں پرہی زور دیتے رہتے تھے ۔خاص طورپرحنفیوں میں یہ کمزوری تھی اوراپنے اس طرزِ عمل پر وہ بے جا فخر بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو مقلّد کہتے تھے ۔ اسی لئے آپ نے بعض ایسے روایتی فقہی مسائل سے احتراز فرمایا۔مثلًا

 آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلّی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیںمیں مرجائیں تو اتنے دَلوْ (ڈول) پانی نکالنا چاہئے۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ ، بو، مزانہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا

’’ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے یہ جوحساب ہے کہ اتنے دَلْو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اوراتنے اگر فلاں پڑے، یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے ۔‘‘ 

عرض کیا گیا کہ حضور ؑ نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں فقہ حنفی پرعمل کرلو۔ فرمایا

’’فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعیُّن ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے۔ سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے ۔ 

سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے 

کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو۔مَیں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے  

وَالْرُّجْزَ فَاھْجُرْ  (المدثر:۶)  

جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلًا پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ (حالانکہ اس پریہ مُلّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جب تک رنگ و بو ومزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔‘‘

(بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12) 

اسی طرح آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ 

میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکّی بناؤں یا نہ بناؤں ؟اس پر آپؑ نے فرمایا

’’ اگر نمود اوردکھلاؤ کے واسطے پکّی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جاویں تو یہ حرام ہیں لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے تو یہ بھی حرام ہے۔ 

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ   

عمل نیّت پر موقوف ہیں۔‘‘

(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ    صفحہ253) 

12۔ اشدّ ضرورتوں میں حُکم بدل جاتے ہیں

شریعت نے جہاں ہمیں زندگی کے ہراہم پہلو کے لئے مفصل تعلیم دی ہے وہاں انسانی مجبوریوں اورمعذوریوں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور اضطرار کے حالات میں رعایت اور سہولت کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے۔افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خان صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اورباہر سے اس کا افسر آجائے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اورٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے ؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ

’’ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ۔ ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے ۔ اِ س لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التواء سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ایسے ہی اگرلڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ بعضوں نے یہ بھی لِکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسدِ نماز نہیں ہے۔ کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔‘‘

(البدر24نومبر،یکم دسمبر1904ء صفحہ4) 

 سونے چاندی اور ریشم کا ضرورتًا استعمال تو معروف مسئلہ ہے۔ اسی حوالے سے آپ سے سوال کیا گیا کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ اس پر آپ نے فرمایا

’’ تین ، چارماشہ تک توحرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔ایک شخص آنحضرت  ﷺ کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔ (ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔ ‘‘

(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)

13۔ عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے

احکام شریعت میں موقع و محل کی رعایت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اوربہت سے ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان میں معروضی حالات کو مدّ نظر نہ رکھا جائے تو احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مثلًا شریعت نے بیمار اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے میں رخصت دی ہے تاہم بیماری کی تفاصیل اورسفر کی حدود کاذکر نہیں کیا۔ اسی طرح سفر میں نماز قصرکرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کی حدّ بیان نہیں فرمائی ۔اس بارہ میں فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ کتنا سفر ہو تو سفر کہلائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عُرف کے اصول کو   مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل فرمادیا ۔  

ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے۔میں کس کوسفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں؟ فرمایا

’’میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بِنا دِقّت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عُرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔‘‘

(الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13) 

اسی طرح خریدوفروخت کے معاملات میں بھی عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مروجہ قانون ہو اور سب لوگ اس پر عمل کررہے ہوں اور کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو تو اس عُرف پر بھی عمل کرنا چاہئے۔

ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیراسّی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپیہ کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا

’’ جن معاملات بیع وشراء میں مقدمات نہ ہوں، فساد نہ ہوں تراضی فریقین ہو اورسرکار نے بھی جُرم نہ رکھا ہو عُرف میں جائز ہو وہ جائز ہے۔ ‘‘

(الحکم 10اگست 1903ء صفحہ19) 

14۔ حکومتِ وقت کی اطاعت کی تعلیم

مسلمانوں کے جس ادبار اور پستی کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہوئے اس دور میں مسلمان سیاسی ، سماجی، مذہبی ، ہرلحاظ سے پسماندہ ہوچکے تھے ۔ اپنے سابقہ شاندار ماضی کو یادکرتے ہوئے محکومی اورکمزوری ان کے لئے بھاری ہورہی تھی۔ جس دور میں خلافت بنو امیہ،بنوعباس اورعثمانی حکومتیں بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں اس دور میں مذہبی مسائل میں بھی بہت سی جگہوں پر بادشاہ وقت کا ذکر ہوتا تھا اور بعض مسائل میں امامت کا حقدار بادشاہ وقت کو قراردیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن بعد میں پستی اورذلّت بھی دیکھنی پڑی۔ چونکہ ماضی میں دارالاسلام اوردارالحرب جیسی اصطلاحیں وضع ہوچکی تھیں اس لئے برصغیر میں مسلمانوں کو اپنی حکومت نہ ہونے سے یہ احساس تھا کہ یہ دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اورخصوصًا 1857ء کے غدر کی بنیادمیں بھی یہ ایک غلط تصوّر تھا۔ 

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی بغاوت ، فساد، اورنافرمانی سے بچنے اورسچے دل سے حکومت وقت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی۔ آپ نے یہ مسئلہ باربار اور کھول کر واضح کیا کہ چونکہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ ہے بلکہ مذہبی آزادی اورامن بھی حاصل ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر قسم کی بغاوت اورفساد سے بچنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے۔ آپ ؑ نے فرمایاکہ میرے پانچ بڑے اصول ہیں۔ان اصولوں میںسے چوتھے اصول کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ  

’’یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرِ سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اورخلوصِ دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔ ‘‘

(کتاب البریۃ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ348) 

اسی طرح حکومت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا

’’ حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔ ‘‘

(الحکم 31جولائی،10اگست 1904ء صفحہ13) 

قرآن کریم نے

اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنکُم 

کا جو حکم دیا ہے بعض لوگ اس کی یہ تشریح کرتے تھے کہ اللہ، رسول اور اپنے حکام کی اطاعت کرنی چاہئے یعنی صرف مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی جائز ہے!

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حکم کا حوالہ دے کر’’مِنْکُمْ‘‘ میں ان تمام حکمرانوں کو بھی شامل فرمایا جو خلافِ شریعت حکم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ فرمایا

’’اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ ’’مِنْکُمْ‘‘میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے۔ وہ  مِنْکُمْ میں داخل ہے۔ جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طورپر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئیاوراس کی باتیں مان لینی چاہئیں۔‘‘

(رسالہ الانذارصفحہ 15۔تقریر حضرت اقدس ؑ فرمودہ 2مئی 1898ء  ۔ ملفوظات جلد1صفحہ171) 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کی پاکیزہ تعلیم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے تحریری اورتقریری ہر طرح سے زوردار کوششیں کیں ۔خاص طورپر آپؑ نے ایک رسالہ لکھا

’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ جوروحانی خزائن کی جلد17میں موجود ہے۔اس میں آپ نے جہاد کی تعلیم کی پوری تفصیل بیان فرمائی اورانگریزوں کے ساتھ جہاد کرنے اوران کی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی اور آپ نے اس مسئلہ کو اپنے منظوم میں بھی پیش فرمایا۔فرماتے ہیں:۔؎

اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے 

دیں کی تمام جنگوں کااب اختتام ہے

15۔ نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ اپنے رنگ ڈھنگ بدل رہا تھا۔انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کا منظر نامہ بالکل بدل کر رکھ دیا۔ تار، ریل، چھاپہ خانے، فوٹوگرافی، فونوگراف، ٹیکہ، وغیرہ ایسی ایجادات تھیں جس کا خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ تھا۔ حضورؑ نے بار بار فرمایا کہ اس دور میں روحانی اورجسمانی ہردوبرکات کی بارش ہورہی ہے۔نئی ایجادات نے دنیا کو قریب ترکردیا۔پریس کی ایجاد نے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک جوش پیدا کردیا کہ وہ اپنے مذہب کی خوب اشاعت کریں۔ اس ایجاد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف کثرت کے ساتھ کتابیں لکھ کر شائع کروائیں اورانہیں سارے ہندوستان میں پھیلادیا۔ اسی طرح ہندوؤں نے بھی اسلام کواپنا تختہ مشق بنایا اورکثرت سے اعتراضات سے بھری ہوئی کتابیں لکھیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کی پستی کا یہ حال تھا کہ مدافعت تو درکنار ایسی ایجادات کو بھی خلافِ اسلام قراردینے پر تُل گئے۔ خاص طورپر فوٹوگرافی پر بہت اعتراض کئے گئے اورجب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فوٹو اتروائی تو ایک شور مچ گیا کہ دیکھو اس نے ایک حرام کام کیا ہے۔

آپ نے قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح فرمایاکہ حدیث میں جن تصویروں کی ممانعت آئی ہے اس کاموجودہ دور کی فوٹوگرافی سے تعلق نہیں۔ فوٹو توایک عکس ہے جیسے آنکھ میں تصویر بنتی ہے، پانی میں عکس بنتا ہے۔ فرمایا

’’ یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔‘‘ 

(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ366) 

اسی طرح ریل کی سواری کی ایجاد سے بھی آپ نے فائدہ اُٹھایا اوراسے اپنے لئے نشان قراردیا۔ فونوگراف میں نظم ریکارڈ کی گئی جو آپ نے خاص اس مقصد کے لئے لکھی تھی جس کا پہلا شعریہ تھا

آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے 

 ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے

ہر نئی ایجاد اورفن کو حضور نے اس شرط پر درست اورجائز قراردیا کہ اگر اسے شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے تو ایسا کام جائز ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ عکسی تصویر لینا شرعًا جائز ہے؟

فرمایاکہ

’’یہ ایک نئی ایجاد ہے پہلی کتب میں اس کاذکر نہیں۔ بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے۔ اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘

(بدر24، 31دسمبر1908ء صفحہ5) 

16۔ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے

جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ تغیرات برپاہورہے تھے۔ رہن سہن اورتمدّن کی صورتیں بدل رہی تھیں۔ حکومتوں کے انداز اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں ہورہی تھیں۔ قومیت کی جگہ بین الاقوامیت کا تصور ابھر رہا تھا۔ ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اورغیراقوام کے محکوم عوام میں آزادی کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔ خریدوفروخت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں پیداہوچکی تھیں جو گزشتہ حالات سے بالکل مختلف تھیں۔اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی اور لباس اور خوراک میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن سے نئے سوالات نے جنم لیا ۔ سُود جسے اسلام نے قطعی حرام قراردیا ہے کئی ملکوں میں قانونی شکل اختیار کرگیا اورمختلف ممالک میں بینکنگ کا تصور عملی شکل میں سامنے آیا جہاں سارالین دین ہی سود کی بنیادپر ہورہاتھا۔ ایسے بدلے ہوئے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی راہنمائی فرمائی اورانہیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل دیا۔ 

بعض ایسے مسائل تھے جن میں واضح طورپر سود لیا اوردیا جاتاتھا اوربعض ایسے مسائل تھے جن میں سود کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اگر یقین نہ بھی ہوتوشک ضرورپایاجاتا تھا۔ ایک ایسے موقعہ پر جب آپ سے سوال کیا گیاتو آپ نے فرمایا

’’ اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے اسی لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ‘‘

(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ8) 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت ابو حنیفہ کے ساتھ ایک طبعی وفطرتی مناسبت تھی اورفقہ حنفی کے مسائل کو آپ نے اہمیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ چونکہ زمانہ میں تغیّرات ہوچکے ہیں اس لئے بہت سی جگہوں پر فقہ حنفی کے مسائل سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں احمدی علماء اپنے خداداداجتہاد سے کام لیں ۔ فرمایا

’’ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اورنہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘ 

(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212) 

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام – حَکَم عَدل

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لئے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا جب امتِ مسلمہ باہمی افتراق و انتشار کا شکار تھی اور تمام غیر مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے اوروہ مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی پستی کا فائدہ اُٹھاکر مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کررہے تھے۔

وہ امت واحدہ جو جسد واحد کی طرح تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بہتّر فرقوں میں بٹ چکی تھی اورعجیب بات یہ تھی کہ اختلاف کی وجوہ بنیادی اصول میں نہیں بلکہ فروعی مسائل تھے۔

خدا کا کلام قرآن کریم اللہ کی رسّی کی شکل میں موجود تو تھامگر باہمی تنازعات کی وجہ سے ہر فرقہ الگ الگ تفسیر کرتا تھا۔ فقہی اور مسلکی اختلافات میں شدّت آچکی تھی۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سوسال سے فقہی مذاہب نہروں کی شکل میں ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے اوران میں باہمی بحث مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے تاہم اس دور میں ہر کوئی اپنے آپ کواپنے اپنے مؤقف میں قلعہ بند کر چکا تھا اور دوسروں کی بات سننے کا بھی روادار نہیں تھا۔ اس صورتحال کو حضرت مسیح موعود ؑ نے یوں بیان فرمایا ہے:۔

’’اِفْتَرَقَتِ الْأُمَّۃُ، وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّۃُ فَمِنْہُمْ حَنْبَلِیٌّ وَشَافِعِیٌّ وَ مَالِکِیٌّ وَحَنَفِیٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَیِِّعِیْنَ۔ وَ لَا شَکَّ اَنَّ التَّعْلِیْمَ کَانَ وَاحِدًا وَّلٰکِنِ اخْتَلَفَتِ  الْاَحْزَابُ بَعْدَ ذَالِکَ فَتَرَوْنَ کُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحِیْنَ۔ وَ کُلُّ فِرْقَۃٍ بَنٰی لِمَذْھَبِہِ قَلْعَۃً وَلَا یُرِیْدُ أَنْ یَّخْرُجَ مِنْھَا وَلَوْ وَجَدَ اَحْسَنَ مِنْھَا صُوْرَۃً وَکَانُوْا لِعَمَاسِ اِخْوَانِھِمْ مُتَحَصِّنِیْنَ   فَاَرْسَلَنِیَ اللّٰہُ لِأَٔسْتَخْلِصَ الصِّیَاصِی وَأَسْتَدْنِیَ الْقَاصِی، وَاُنْذِرَ الْعَاصِی، وَیَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَیَکُوْنَ الْقُرْآنُ مَالِکَ النَّوَاصِی وَ قِبْلَۃَ الدِّیْنِ۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ559،560) 

ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی، مالکی ، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔  

ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ،خواہ دوسری طرف انہیں بہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتِ مسلمہ کے افتراق اورانتشار اورگمراہی کے دور میں خدا کی طرف سے مامور بن کر آئے۔ چنانچہ آپ نے خدا کے حکم سے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود مسیح اورمہدی ہوں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر رکھی ہے۔ 

بخاری کتاب الانبیاء کی یہ مشہور حدیث دراصل آپ کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ حَتَّی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا‘‘

            (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث نمبر3448) 

ترجمہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم  حَکَم عدل بن کر تم میں نازل ہوں، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ  کو موقوف کردیں گے اورمال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتَّی کہ ایک سجدہ دنیاومافیہا سے بہتر ہوجائے گا۔ 

اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں حَکَمًا مُقسِطًا اوراِمَامًا عَدْلًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی منصف مزاج حَکَم اورعادل امام ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم ) 

پیشگوئی کے عین مطابق آپ نے دعویٰ فرمایا کہ 

’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیاہوں اورحَکَم ہوکر آیاہوں۔ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ مقلّد غیر مقلّدوں کی غلطیاں نکالتے اوروہ اُن کی غلطیاں ظاہر کرتے اوراس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے ایک دوسرے کو کافر کہتے اورنجس بتاتے تھے۔ اگر کوئی تسلّی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہوچکی تھیں اورلوگ حقیقت کی راہ سے دور جاپڑے تھے۔ ایسے اختلاف کے وقت ضرورتھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اورایک حَکَم ان میں بھیج دیا۔‘‘

(الحکم 30ستمبر1904ء صفحہ2،3) 

امت مسلمہ کے مسلکی اور فقہی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ حَکَم غیر جانبدار ہو ۔ اگرحَکَم پہلے سے کسی فرقہ کی طرف منسوب ہو یا اپنے آپ کو مطیع اور مقلّد کہتا ہو تو پھراس کا فیصلہ کون تسلیم کرتا۔ فرمایا

’’ ہم بطورحَکَم کے آئے ہیں کیا حَکَم  کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے ۔بہتّر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے۔حَکَم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قراردے گااوربعض کوصحیح۔ ‘‘  

(الحکم 10فروری 1905ء صفحہ۴)

 ایک اور جگہ فرمایا

’’آنے والے مسیح کا نام حَکَم رکھا گیا ہے۔ یہ نام خود اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت غلطیاں ہوں گی اورمختلف الرائے۔۔۔۔لوگ موجود ہوں گے۔پھر اُسی کا فیصلہ ناطق ہوگا۔اگر اسے ہر قسم کی باتیں مان لینی تھیں تو اس کا نام حَکَم ہی کیوں رکھا گیا؟      

(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2) 

آپؑ نے بتایاکہ حَکَم دراصل حرم کے مشابہہ ہے جس کا کام لوگوں کو اختلافات سے بچا کرامن دینا ہے ۔فرمایا

اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان حَکَم بن کر فیصلہ کردے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اورتاکہ وہ اسے فاتح قراردیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کرلیں اوراس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں  کوئی تنگی محسوس نہ کریں اوریہ وہی حَکَم ہے جو (خدا کی طرف سے) آیا ہے۔ ۔۔۔۔  اے لوگو!تم مسیح کا انتظار کرتے تھے اوراللہ نے جس طرح چاہا اُسے ظاہر کردیا۔ پس اپنے چہروں کو اپنے رب کی طرف پھیر لواوراپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔تم احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتے تواب تم اپنی متفرق آراء کی پیروی کس طرح کر سکتے ہوجبکہ تمہارے پاس حَکَم موجود ہے٭۔ 

٭  حاشیہ:  متفرق آراء پرندوں کے مشابہہ ہیں جو ہوا میں ہوتے ہیں اور  حَکَم  اس امن والے حرم کے مشابہہ ہے جو غلطیوں سے امن دیتا ہے جس طرح اللہ کی مقدس سرزمین کی عزت کی خاطر حرم میں شکار منع ہے اسی طرح متفرق آراء کی پیروی … اس  حَکَم  کی موجودگی کی وجہ سے حرام ہے۔وہ   حَکَم جو معصوم ہے اور خدائے عزّوجل کی طرف سے حَرَم کی جگہ پر ہے۔ اب ادب کا تقاضا ہے کہ ہر بات اس کے سامنے پیش کی جائے اوراُسی کے ہاتھوں سے ہی اب ہر چیزوصول کی جائے۔ 

(الھُدٰی والتبصرۃُ لِمَن ْ یَرٰی ۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ338،339۔عربی سے ترجمہ) 

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امت مسلمہ کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی اور جن عقائد اوراعمال میں بگاڑ پیدا ہوچکاتھا ان کی اصلاح فرمائی۔آپ ؑ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ مختلف فرقوں اورجماعتوں میں بٹی ہوئی تھی اور فقہی اختلافات کے لحاظ سے بھی بہت شدّت آچکی تھی اوربرصغیر پاک و ہند میں حنفی اورغیرحنفی کی تقسیم واضح صورت اختیار کرچکی تھی۔ حنفی اپنے حنفی ہونے پر فخر کرتے تھے اور دین میں اجتہاد کے راستے کو ازخود بند کرچکے تھے اوراپنے ائمہ کی فخریہ تقلید کرتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف اہلحدیث فرقہ، حنفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا اور فروعی مسائل میں باہمی مباحثے ہوتے تھے۔ اہلحدیث موحّد کہلاتے تھے اور حدیث کی اہمیت اوردرجے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اوربخاری اورمسلم کو عملًا قرآن کے برابر قراردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہردوگروہوں کی اصلاح فرمائی اورانہیں صحیح راستہ دکھایا۔ فرمایا

     ’’جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں(بخاری و مسلم۔ناقل) کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفی مذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟ اس پر آپ کے پاس شرعی ثبوت کیا ہے؟‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ20،21) 

بچوں کو بے کار رکھنا موت کے مترادف

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ23؍اکتوبر1936ء کومجلس مشاورت میں فرمایا:
’’میں نے جماعت سے دین کی خدمت کے لیے روپے مانگے اور وہ اس نے دے دیے لیکن جب میں نے کہا کہ میں تمہارے بچوں کو زندگی دیتا ہوں تو اسے قبول نہ کیا گیا اور جہاں دو متضاد چیزیں جمع ہو جائیں وہاں ترقی کس طرح ہو سکتی ہے؟ہماری جماعت کے لوگوں نے پہلے سے زیادہ مالی قربانی کر کے گویا اپنے آپ کو ایک رنگ میں مار دیا اور اپنے بچوں کو بیکار رکھ کر موت لے لی اور اس طرح دو موتیں جمع ہو گئیں۔حالانکہ میں نے ان کو ایک حیات دی تھی اور وہ یہ کہ اپنے بچوں کو بیکار نہ رکھو ،اسے انہوں نے چھوڑ دیا اور جو موت دی تھی وہ لے لی اور پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لیے کوئی کام نہیں ملتا۔ قادیان میں ہی ایک محکمہ بے کاری کو دور کرنے کے لیے ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا۔

کام سیکھنے والے کو مزدوری کم کیوں دی جاتی ہے

ہم نے یہاں کئی کارخانے جاری کیے ہیں مگر یہی سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور مزدوری تھوڑی ملتی ہے ۔حالانکہ آوارگی اور بیکاری سے تو تھوڑی مزدوری بھی اچھی ہے ۔یہ قدرتی بات ہے کہ کام سیکھنے والے سے کام خراب بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح کام سکھانے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔اس وجہ سے کام سیکھنے والوں کو کم مزدوری دی جاتی ہے ۔کل ہی کام سکھانے والے آئے تھے جو کہتے تھے کہ کام سیکھنے والے لڑکوں نے کام خراب کر دیا ہے۔
طریق تو یہ ہے کہ کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر ہم تو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں مگر پھر بھی کام نہیں سیکھتے،حالانکہ اس وقت تک ہمارے پاس کئی ہندوؤں کی چٹھیاں آچکی ہیں کہ ہمارے بچوں کو اپنے کارخانوں میں داخل کر کے کام سکھائیے۔ولایت میں بھی کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر یہاں کہتے ہیں کہ مزدوری کم ملتی ہے اور اس وجہ سے بچوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں جبکہ میرا بتایا ہوا یہ گُر استعمال نہیں کیا گیا تو آگے کیا امید ہو سکتی ہے کہ جو بات بتائی جائے گی اس پر عمل کیا جائے گا مگرمیرا کام یہ ہے کہ راہنمائی کرتا جاؤں جب تک جماعت یہ بات محسوس نہیں کرتی کہ نوجوانوں کا بیکار رہنا خطرناک ظلم ہے اتنا خطر ناک کہ اس سے بڑھ کر اولاد پر اور پھر قوم پر ظلم نہیں ہو سکتا۔
میں نے کہا تھا کہ چاہے ایک پیسہ کی مزدوری ملے تو بھی کرو خواہ کوئی گریجو ایٹ ہو جب تک اسے کوئی اورکام نہیں ملتا ۔اب اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پیسہ بھی نہ ملے تو بھی محنت مزدوری کروکیونکہ بیکار رہنے کی نسبت یہ بھی تمہارے لیے ،تمہارے خاندان کے لیے اورتمہاری قوم کے لیے بابرکت ہوگا۔
یاد رکھو! جب تک تم اپنی زندگی کے لمحات مفید بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس وقت تک غالب حیثیت سے رہنے کے بھی قابل نہیں بن سکتے۔غلبہ حاصل کرنے کے لیے کام کرنے بلکہ کام میں لذت محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کسی کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ گھر سے نکل جائے اور وہ سڑکوں پر جھاڑو ہی دیتا پھرے مگر بیکار نہ رہے۔‘‘

(تحریک جدید -ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ368،369)

کارخانے لگانے کا مقصد

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ10؍اپریل1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’دوسری سکیم یہ ہے کہ یہاں کارخانے جاری کیے جائیں ۔جراب سازی کا کارخانہ تو اپنے طور پر قائم ہو چکاہے اور وہ اس سکیم کے ماتحت نہیں گو میری تحریک سے ہی جاری ہواہے ۔اس سکیم کے ما تحت جو کارخانے جاری کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔(۱)لوہے کا کام کرنے کا کارخانہ(۲)لکڑی کا کام کرنے کا کارخانہ،اب چمڑے کے کام کا بھی اضافہ کیا جا رہاہے،(اس دوران میں یہ کارخانہ بھی جاری ہو چکاہے)(۳)دوا سازی کاکام بھی شروع کیا جائے گا جس کی ایک شاخ دہلی میں کھولی جائے گی(۴)گلاس فیکٹری کا کام ہے۔ایک مخلص دوست نے اپنی جائیداد بیچ کر جاری کیا ہے۔چونکہ وہ اکیلے اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے اس میں بھی تحریک جدید کا حصہ رکھ دیا گیا ہے۔بیرونی ممالک میں جو مبلغ گئے ہیں ان کے ذریعہ وہاں کئی قسم کا ہندوستان کاسامان فروخت ہو سکتاہے اس لیے ایک قسم کی دکان جاری کرنے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ اور کارخانے بھی مدنظر ہیں۔اصل بات بیکاروں کو کام پر لگانا ہے اور یہ بھی کہ جماعت کی مالی حالت بھی اچھی ہو اور تحریک جدید کی مالی تحریک جب بند کر دی جائے تو اس کاکام ان کارخانوں کی آمدنی سے چلے ۔
ان کارخانوں کے متعلق احباب ان طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں۔

  1. جن احباب کو ان کاموں میں سے کسی کا تجربہ ہو وہ مفید تجاویز بتائیں اور سود مند مشورے دیں۔
  2. ماہر فن احباب کارخانوں میں آکر کام ہوتا دیکھیں اور مشورے دیں کہ کس طرح کام کرنا چاہیے۔

اس طرح بھی اس بارے میں مدد کی جا سکتی ہے کہ جماعت کے لوگ ان کارخانوں کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں۔ہوزری سے خریدنے کے لیے میں نے کہا تھا۔گو مجھے افسوس ہے کہ اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی مگر مجھے ہوزری سے بھی شکایت ہے کہ اس نے کام اس طرح سے شروع نہیں کیا جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا۔اسی طرح لکڑی کا سامان ہے جو دوست یہ سامان اور جگہوں سے خریدتے ہیں وہ یہاں سے خریدا کریں۔
ان کارخانوں میں کام سکھانے کے متعلق ہم یتیم لڑکوں کو مقدم رکھیں گے اور جن لڑکوں کو ہم لیتے ہیں ان کا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں ساتھ ہی دینی اور دنیوی تعلیم بھی دلاتے ہیں تاکہ گو وہ کہنے کو تو مستری ہوں لیکن اصل میں انجینئر ہوں اور اعلیٰ پیشہ ور ہوں۔ یہ بھی ارادہ ہے کہ سرکاری ورکشاپوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں کن کاموں اور پیشوں کے جاننے والوں کی ضرورت ہوتی ہے پھر ان کے مطابق کام سکھایا جائے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ362،363)

اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ15؍مئی1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ مگر اس تحریک میں مجھے کئی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا کہ جو اس وجہ سے اولاد سے کام نہیں کراتے کہ گرمی زیادہ ہے بھوکے مریں گے مگر جب کہا جائے کہ جو کارخانے کھولے جا رہے ہیں ان میں اولاد کو داخل کر دو تو کہیں گے کہ وہاں گرمی میں کام کرنا پڑتاہے۔ہم تو گرم ملک کے رہنے والے ہیں مگر سرد ملک کے رہنے والے انگریز گرمی میں کام کرنے سے نہیں گھبراتے۔انگلستان میں چھ ماہ تو برف پڑی رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ آدمی ٹھٹھر نے لگتاہے ۔جب میں وہاں گیا تھا تو سخت گرمی کا موسم تھا۔حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے گرم پاجامہ پہنا اور کہنے لگے کہ میں نے ہندوستان میں سخت سردیوں کے موسم میں بھی اسے کبھی نہ پہناتھا مگر ایسے سرد ملک کے رہنے والے لوگ انجنوں پر کام کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انگریزوں نے نوکریاں سنبھال لی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ سنبھالیں وہ نہیں سنبھالیں گے تو کیا وہ نکمے لوگ سنبھالیں گے جو گرمی گرمی پکارتے ہیں اور اولادوں کو گھروں میں بے کار بٹھائے رکھتے ہیں ۔

نکما آدمی نجاست کھانے والی بھیڑوں سے بھی بد تر ہے

میں نے الفضل والوں کو کہا تھا کہ وہ شہروں میں ایجنسیاں قائم کر دیں مگر وہ شکایت کرتے ہیں کہ نوجوان یہ کام نہیں کرتے اور کوئی کرتاہے تو روپیہ نہیں دیتا۔جس قوم کے نوجوان چند پیسے بھی لے کر ادا نہ کریں اور بے کار پھریں ،کام کے لیے تیار نہ ہوں وہ کب امید کر سکتی ہے کہ زندہ رہے گی؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس سے مخالف مراد ہیں مگر جماعت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے اور اس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے،ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے ۔ گویا اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔میں دیکھتاہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لیے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی

’’قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ(الفرقان:78)‘‘

یعنی میراخدا تمہاری کیاپرواہ کرتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور کہا تم چیز کیا ہو؟گوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نکمے لوگ مٹا دیے جاتے ہیں۔ بھیڑیں تو پھر بھی گوں کھا کر نجاست کو دور کرتی ہیں لیکن نکما آدمی تو اس سے بھی بد تر ہے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ273تا274)

صنعت و حرفت کے کام

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 12؍اپریل1936ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا:
’’پہلی بات یہ ہے کہ میں نے کل دوستوں کو بتایا تھا کہ جماعت کے لوگوں میں سے بیکاری کو دور کر کے جماعت کی مالی حالت مضبوط کرنے کے لیے نئے کچھ کام یہاں جاری کیے گئے ہیں ۔ان کاموں کے جاری کرنے میں یہ بات مد نظر ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچ جائیں کہ اپنی سار ی ضرورتیں خود پوری کر سکیں اور دوسری اقوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی حصہ لے سکیں۔اس وقت غیر ہندوستانی طاقتیں ہندوستان میں اتنی قوت پکڑ چکی ہیں کہ تجارتی طور پر ہمارا ملک ان کے مقابلہ میں عاجز آرہا ہے اور یہ بات انسانی طاقت سے با لا معلوم ہوتی ہے کہ کوئی جماعت اس کی اصلاح کی کوشش کرے کہ ہندوستانی تجارت و صنعت دوسری قوموں کی تجارت اور صنعت کے مقا بلہ میں ٹھہر سکے لیکن ہماری جماعت کو اﷲ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے دوسری اقوام پر ایک فضیلت حاصل ہے اور وہ یہ کہ یہ منظم جما عت ہے ۔ایک ہاتھ پر اس نے بیعت کی ہوئی ہے ۔ہماری جماعت میں بہت سے مخلص ہیں لیکن سب کے سب نے یہ اقرار کیا ہوا ہے کہ ہر قسم کے احکام کی فرمانبرداری کریں گے مگر سب سے زیادہ مشکلات بھی ہماری جماعت کے لیے ہی ہیں اور جتنی روکیں ہمارے رستے میں حائل ہیں کسی اور کے رستہ میں اتنی نہیں ۔کہتے ہیں

’’نزلہ بر عضو ضعیف مے ریزد‘‘

ہم چونکہ کمزور ہیں اس لیے دوسری طاقتیں ہمارے خلاف جتھہ کر کے ہمارے خلاف کھڑی ہیں اور ہمیں تجارت میں، ملازمت میں، صنعت و حرفت میں سخت دقتیں پیش آرہی ہیں۔اہل ہند میں سے مسلمان گرے ہوئے ہیں اور ہم مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دوسری قوموں نے مسلمانوں سے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور دوسروں سے مار کھائے ہوئے مسلمان ہم پر حملہ کر رہے ہیں ۔ایسی صورت میں ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کریں ۔ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے لوہے اور لکڑی اور چمڑے اور شیشے کے کام شروع کیے گئے ہیں اور آئندہ کپڑا بُننے کا کام اور دوا سازی کا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔……

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کے دل کی ایک حسرت

میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہو ں میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کی کاش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہواور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں ۔میں پچھلے دنوں کراچی گیا تو اپنے دوستوں سے کہا کاش کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا کاش کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتدا چھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے۔
یہ ہیں میرے ارادے اور یہ ہیں میری تمنائیں ۔ان کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں۔مگر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کے لیے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے۔دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے اس لیے احمدی جو اشیا اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے۔
ایک دفعہ دیال باغ آگرہ والے لاہور اپنی اشیاء کی نمائش کرنے کے لیے آئے تو انہو ں نے مجھے بھی دعوت دی۔ گورنرپنجاب کو انہوں نے ٹی پارٹی دینے کا انتظام کیا ہوا تھا اور اس موقع پر چیزیں بھی فروخت کرتے تھے اس وقت ان کی چیزیں نسبتاً مہنگی ہیں مگر ان کے خریدنے سے غرباء کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ لوگ ان کامال شوق سے خریدتے تھے اور خود میں نے بھی ایک اٹیچی کیس ان سے خریدا تھا۔ اگر دوسری قومیں اپنی جماعتوں کو بڑھانے کے لیے یہ قربانی کر سکتی ہیں تو کیوں احمدی ایسا نہیں کر سکتے جبکہ ان کی ضرورت دوسرے لوگوں سے بھی اہم ہے کیونکہ ہمارے کارخانوں کی اشیاء خریدنے سے نہ صرف غرباء کو امداد ملے گی بلکہ سب سے بڑے غریب اسلام کو بھی مدد ملے گی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

بے کسے شد دین احمدؐ ، ہیچ خویش دیار نیست
ہر کسے در کار خود با دین احمدؐ کار نیست

پس اس وقت اسلام سب سے زیادہ امداد کا محتاج ہے اور اس طرح مدد کرنے سے نہ صرف افراد کی مدد ہو گی بلکہ اس عظیم الشان صداقت کی بھی مدد ہوگی جو بے کس ہے۔پس یہ نہایت ثواب کا کام ہے دینوی لحاظ سے بھی اوردینی لحاظ سے بھی اور میں سمجھتا ہوں تھوڑے عرصہ میں ایسے ماہر پیدا ہو سکیں گے جو باہر نکل کر اچھے کام کر سکیں گے ۔ہم کارخانوں میں کام سیکھنے والوں کو ساتھ تعلیم بھی دیں گے اور اس طرح انہیں صرف مستری نہیں بلکہ انجینئر بنائیں گے۔
پس ایک بات تو میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ان کارخانوں کے حصے خریدے اور یہ مدنظر رکھ کر خریدے کہ کوئی چیز دنیا کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ایسی نہ ہو جو احمدیوں کی بنائی ہوئی نہ ہو۔ اس طرح خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب ہماری جماعت ترقی کرے گی تو ساتھ اسلام کی بھی ترقی ہوگی۔……

بیکاروں کو کام پر لگائیں

میں اخبار کی ایجنسیاں قائم کرنے کی تحریک اخبارات کی ترقی کے لیے ہی نہیں کرتا بلکہ بیکاروں کو کام پر لگانے کے لیے بھی کرتا ہوں۔ میں نے باربار توجہ دلائی ہے کہ اگرکوئی شخص مہینہ میں ایک روپیہ بھی کما سکتا ہے تو بھی وہ ضرور کام کرے ۔ جب تک ہم اس طرف توجہ نہ کریں گے ۔اس وقت تک بحیثیت جماعت نہ روحانیت مضبوط ہوگی اور نہ دنیوی حالت۔ یہ خیال کہ اتنی آمد ہو تب کام کروں گاورنہ نہیں بہت نقصان رساں ہے۔
میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے ہا ں جاکر بیکار لوگوں کو کام پر لگانے کی کوشش کریں،خواہ کسی کام سے کتنی ہی کم آمدنی ہو ۔کتابوں اور اخبارات کی ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اپنی اپنی جماعت کے متعلق اس قسم کے نقشے بھجوائے جائیں کہ کتنے لوگ بیکار ہیں اور کتنے لوگوں کوکسی نہ کسی کام پر لگایا گیا ہے ۔بیکار خواہ کتنے ہی معمولی کام پر اپنے آپ کو لگا دیں اس سے انہیں آگے چل کر بہت فائدہ ہو گا ۔ان کے اندر کام کرنے کی اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ دوسراا س کا اندازہ نہیں کر سکے گا اور اس کے شاندار نتائج نکلیں گے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1936ء صفحہ128تا135)

نوکریوں کی بجائے تجارت اور صنعت وحرفت کو اختیار کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍مارچ1936ء کے خطبہ جمعہ احرار کی فتنہ انگیزیوں اور اس کے نتیجہ میں اس وقت کی حکومت پنجاب کی طرف سے جماعت احمدیہ کے متعلق منفی رویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم تو ہمیشہ سے امن پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ تفرقہ و فساد نہ ہو۔ہمیں نہ مسلمانوں سے دشمنی ہے نہ ہندوؤں،سکھوں اور عیسائیوں سے ،ہم ہر ایک کے دوست بن کر رہنا چاہتے ہیں مگر کوئی امن سے رہنے بھی تو دے۔لیکن باوجود ہماری طرف سے امن پر قائم رہنے کے اگر حکومت رویہ نہ بدلے تومیں اسے کہوں گا کہ فتنہ کو کم سے کم حلقہ میں محدود کرنے کے لیے اسے چاہیے کہ جماعت پریہ بات کھول دے کہ اقتصادی طور پر اسے حکومت سے کوئی فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہ ہو گا۔اس سے بھی بہت سی تلخی دور ہو جائے گی کیونکہ امید کے بعد ناامیدی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب کوئی سمجھ لے کہ میرا کوئی حق نہیں تو اس کا شکوہ بھی کم ہو جاتاہے۔ اسے چاہیے کہ یہ اعلان کر دے کہ آئندہ سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہیں لیا جائے گا۔ہماری جماعت کے لوگوں کو ایسے اعلان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاکھوں تدبیریں ہیں جو اختیار کی جا سکتی ہیں۔اگر ملازمتوں کے دروازے گورنمنٹ بند کرے تو ہمارے نوجوان تجارت وغیرہ کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہوں گے۔
اس وقت دو نہایت زبردست حکومتیں ہندوستان میں اپنے تعلقات وسیع کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں اور وہ غیر معمولی مدد دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔مثلاًوہ اس بات پر تیار ہیں کہ تجارتی مال دیں مگر اس کے بدلہ میں روپیہ نہ لیں بلکہ ہندوستانی مال مثلاً گیہوں لے لیں یا کپاس لے لیں اس طرح تجارت میں بہت کچھ سہولت پیدا ہو گئی ہے ۔بے شک ابتدا میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے تکلیف ہو گی مگر خطرات میں پڑے بغیر انسانی اخلاق میں مضبوطی نہیں پیدا ہوتی۔عقل مند ان تکلیفوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سمجھا کرتے ہیں اگر اس تجربہ میں ہمارے نوجوان کامیاب ہو گئے تو وہ اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کو بھی سزادے دیں گے جو ہمیں ناحق دکھ دیتے ہیں کیونکہ اس طرح لاکھوں کی تجارت انگلستان کے ہاتھ سے نکل کر دوسری قوموں کے ہاتھ میں چلی جائے گی بلکہ میں کہتاہوں کہ دوسری قوموں سے تجارتی تعلق پیدا کرنے سے بھی زیادہ مفید یہ ہے کہ خود صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت توجہ کرے تاکہ ہر قسم کے سیاسی اثر سے محفوظ ہو جائے۔ گزشتہ جدوجہد کے زمانہ میں یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ زمیندار افسروں سے زیادہ مرعوب ہوتاہے بہ نسبت تاجروں کے۔
پس تجارت اور صنعت وحرفت کی طرف ہماری جماعت کو زیادہ توجہ چاہیے تاکہ کسی کی محتاجی باقی ہی نہ رہے۔ خود صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرے اور تجارت غیر ملکوں سے بڑھانے کی کوشش کرے جو قانوناً جائز فعل ہے۔کوئی قانون ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور انگریزی مال لیں، بے شک ہم بائیکاٹ کے مخالف ہیں مگربغیر بائیکاٹ کیے کے کوئی دوسرا طریق اختیار کرنا تو منع نہیں۔اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو کانگرس بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گی۔کانگرس میں اس وقت کوئی تنظیم نہیں اگر ہم ایک تنظیم کے ساتھ یہ کام کرنے لگیں تو ہزاروں ہندو اور سکھ ہم سے مل جائیں گے اور قانون شکنی کا خیال لوگ بھلا دیں گے اور اس طرح بالواسطہ طور پر بھی حکومت کی ایک خدمت کردیں گے اور ساتھ ہی قانون کے اندر رہتے ہوئے خود نفع کماتے ہوئے ہم اپنے حقوق بھی حاصل کر سکیں گے اور یہ صرف ایک ہی طریق نہیں ایسے بیسیوں طریق ہیں جن سے جماعتیں اپنے آپ کو ملازمتوں سے آزاد کرسکتی ہیں۔جب ملازمتوں کے راستے بند ہوں تو خود بخود ہماری جماعت کے دماغ دوسری راہوں کی دریافت اور ان پر چلنے کی طر ف متوجہ ہوں گے مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور خوامخواہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کریں گے کہ اور کوشش کریں گے کہ چند افسروں کی وجہ سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موجب نہ بنیں مگر جو سلوک ہم سے کیا جا رہا ہے نہایت تکلیف دہ ہے اور میں نہیں سمجھ سکتاکہ آخر کب تک ہم ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جائیں گے۔کب تک ہم اپنے امن کو برباد ہوتا دیکھیں گے۔ یقینا ایک وقت آئے گاجب مجبور ہو کر ہمیں ان ذرائع کو اختیار کرنا پڑے گا جو ہمیں ان تکالیف سے بچائیں۔ اس لیے میں ایک دفعہ پھر حکومت کو توجہ دلاتاہوں کہ وہ اب بھی اپنے رویہ پر غور کریں ۔ہم اس بات پر تیار ہیں کہ اس سے صلح کر لیں مگر اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بڑی بڑی باتوں میں ہماری شکایتوں کو دور کرے۔
آج حکومت اپنے آپ کو ہماری مدد سے مستغنی سمجھتی ہے مگر میں اس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں جس نگاہ سے وہ نہیں دیکھ رہی کہ حکومت کو پھر مشکلات پیش آنے والی ہیں اور آسمان سے خدا تعالیٰ یہ ثابت کر دے گا کہ کل کو یہی حکومت پھر ہماری مدد کی محتاج ہو گی پھر کل کے افسر ہمیں کہیں گے کہ آؤ اور ہماری مدد کرواور پچھلے افسروں کے رویہ کو نظر انداز کر دومگر میں انہیں بتا دینا چاہتاہوں کہ اگر آج انہوں نے ہماری شکایات کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو کل ان کا ہمیں اپنی مدد کے لیے بلانا بیکار ثابت ہو گا اور ہم قانون شکنی سے بچتے ہوئے اپنی جماعت کی معیشت کے لیے دوسرے ذرائع انشاء اﷲ نکالیں گے جن کو اختیار کر کے ہم حکومت کی مہربانیوں سے آزاد ہو جائیں گے مگر ہم چھپ کر کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ کھلے بندوں کریں گے، علی الاعلان کریں گے اور حکومت کے قانون کے اندر رہ کر کریں گے یہاں تک کہ انگریزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان باتوں میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ہم کو ان ذرائع کے اختیار کرنے سے روکیں تو ملک میں بھی شورش برپا ہو جائے گی اور دنیامیں بھی ان کی بدنامی ہو گی۔ انگریزی فطرت کو ہم جانتے ہیں وہ کھلی بے انصافی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔پس ہم اس سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ خود ہی قانون بنائے اور ان کے اندر رہ کر کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے بے انصاف بن جائے۔
میں پھر ایک طرف حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور ان فتنہ انگیزوں کو روکنے کی طرف متوجہ ہو اور دوسری طرف جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ زیادہ تر نوکریوں کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ تجارت،زراعت اور صنعت و حرفت کے کاموں کو اختیار کرے ،مگر بعض بیو قوف ایسے ہیں جو اب تک مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر کے پاس ہماری سفارش کر دیں ۔نا معلوم وہ لوگ میرے خطبے پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے کیوں نہیں ۔میں متواتر جماعت کو بتا رہا ہوں کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے امن کو برباد کر رہے ہیں۔وہ ہماری کسی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہمیں نقصان پہنچانے اور ہماری طاقت کو توڑنے کی کو شش کر رہے ہیں ،مگر وہ احمق مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دیں ۔میں نے تم کووہ راستہ بتا دیا ہے جس پر تم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گرو اور اس سے دعائیں کرو ،جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس پیر سے روزے رکھو مگر معلوم نہیں تمہیں کیا عادت ہو گئی ہے تم خدا تعالیٰ کی بجائے بندوں کے پاس جانا پسند کرتے ہو۔

نوکریوں کی نسبت تجارت میں رزق زیادہ ہے

میں تمہیں نوکریوں سے منع نہیں کرتا بے شک تم اچھی سے اچھی ملازمت کے لیے کو شش کرو لیکن یہ سمجھ لو کہ سب لوگوں کو نوکریاں نہیں مل سکتیں اس لیے علاج یہی ہے کہ تم اپنا رزق خدا سے مانگو۔وہ معمولی معمولی کاموں میں بھی بعض دفعہ اتنی ترقی دے دیتا ہے کہ لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔پس تم قربانیوں کے لیے تیار ہوجاؤ اور اس بات پر آمادہ رہو کہ اگر تمہیں بھوکا رہنا پڑے، پیاسا رہنا پڑے،ننگا رہنا پڑے تب بھی تم ان تکالیف کو برداشت کرو گے ۔جب یہ روح پیدا کرو گے تو اﷲ تعالیٰ غیب سے خود بخود تمہارے لیے کئی راستے کھول دے گا۔
تام چینی کے برتن جس شخص نے بنائے ہیں وہ پہلے نواب تھا ،لاکھوں روپیہ کا مالک تھا مگر جب اس نے یہ کام شروع کیا تو اپنا سارا روپیہ اس نے خرچ کر دیا مگر پھر بھی کامیاب نہ ہوا۔اس کے بعد اس نے بیوی کے زیور بیچنے شروع کر دیے،وہ روپیہ ختم ہوا تو دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کر کام کرناشروع کر دیا ۔جب با لکل اس کی آخری نوبت پہنچ گئی تو بیس سال کی محنت ،تلاش اور جستجو کے بعد وہ تام چینی کے برتن بنانے میں کامیاب ہوا اوراس کے بعد اسی کام سے وہ کروڑ پتی ہو گیا۔
پس صنعت و حرفت کرو اور اپنی ہمتوں کو بلند کرو ۔تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر آمد ہوتی ہے کہ نوکریوں میں اتنی آمد نہیں ہوتی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ نوکریاں نہ کرو ۔جب تک حکومت روک نہیں دیتی اس وقت تک بے شک نوکریاں کرو لیکن روک دے تو گھبراؤ نہیں بلکہ کہہ دو،

مُلکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست

خدا تعالیٰ نے دنیا کو نہایت وسیع بنایا ہے۔ایک جگہ اگر راستہ بند ہو تو وہ دوسر ی جگہ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے اور ہمارا رزق تو خداتعالیٰ کے عرش پر موجود ہے اور اُسی نے ہمیں دینا ہے پس اسی سے مانگو اور دعائیں کرو ۔میں نے کوشش کی ہے کہ محبت،پیار،نرمی اور دلائل سے حکومت پر تمام باتیں واضح کر دوں لیکن اگر باوجوداس کے حکومت ہماری شکایتوں کو دور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتو دنیا گواہ رہے کہ ہم نے امن قائم کرنے اور حکومت سے تعاون کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہماری طرف محبت کا ہاتھ نہیں بڑھا یا۔اس کے بعد بھی اگرچہ میں کوشش کروں گا کہ ہماری طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون ہو لیکن اگر اس حد تک تعاون نہ ہو سکے جس حد تک کہ ہم پہلے تعاون کرتے تھے تو آئندہ آنے والے افسروں کا یہ حق نہیں ہو گا کہ وہ ہم سے سوال کریں کہ تم کیوں اب گزشتہ کی طرح تعاون نہیں کرتے کیونکہ آخر پچھلے لوگ پہلوں کے ہی وارث ہوا کرتے ہیں۔‘‘

( خطبات محمودجلد17 صفحہ195تا198)

علم الادیان اور علم الابدان

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍مارچ1936ء کو صنعتی سکول کے افتتاح کے موقع پر خطاب میں فرمایا:
’’آج آپ لوگوں کو یہاں آنے کی اس لیے تکلیف دی گئی ہے کہ میرا منشا ہے آج ہم دعا کر کے اس صنعتی سکول کا افتتاح کریں جس کا اعلان میں پہلے کر چکا ہوں۔دنیا میں تعلیم اور صنعت وحرفت علیحدہ علیحدہ تنگ دائروں میں تقسیم ہو سکتی ہے ۔ورنہ بڑے بڑے دائرے تو صرف دو ہی ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔’’علم دو ہیں۔علم الادیان اور علم الابدان‘‘یعنی ایک علم وہ ہے جو دین کو نفع دیتا ہے اور دوسرا علم وہ ہے جو جسم کو نفع دیتا ہے۔لوگوں نے اس علم کے معنی طب کے بھی کیے ہیں۔بے شک طب بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے۔لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ علم جس کا مادیت کے ساتھ تعلق ہو۔پس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے درحقیقت علم کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جو روح یا جسم کو فائدہ دے۔جو علم روح یا جسم کے لیے فائدہ مند نہیں وہ علم نہیں کھیل ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔وہ علم جو روح کو نفع دے وہ تو اس وقت دین اسلام ہی ہے کیونکہ باقی دین اس قابل نہیں کہ وہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں۔روحانی لحاظ سے صحیح طور پر اور ہر ضرورت کے موقع پر نفع دینے والی چیز صرف اسلام ہے۔

آٹھ بنیادی پیشوں میں ہی سارے پیشے محصور ہیں

باقی رہا’’علم الابدان‘‘۔اس علم کا تعلق مختلف پیشوں سے ہے۔پیشے تو لاکھوں ہیں لیکن وہ چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس لیے بڑے بڑے پیشے چند ہی ہیں۔مثلاً ایک پیشہ وہ ہے جس سے انسان کی زندگی کا بڑا تعلق ہے اور وہ زراعت ہے۔زراعت کے ذریعہ غلہ وغیرہ اور ایسی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں جن پرانسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔اس کے بعد دوسری چیز جسم کو ڈھانکنے کا سوال ہے اس کے لیے کپڑا بُننے والے کی ضرورت ہے۔جس کو ہم جولاہاکہتے ہیں۔پھر پہننے کے لیے مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مثلاً کپڑے کے علاوہ جرابیں،سویٹر وغیرہ۔یہ سب چیزیں اسی پیشہ کے اندر آجاتی ہیں اور وہ سب اشیاء جن کا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوگا سب کی سب اس پیشہ سے متعلق ہوں گی۔تیسرا پیشہ معماری ہے کیونکہ عناصر میں جو طوفان پیدا ہوتے ہیں ان کے اثرات سے بچنے کے لے ضروری ہے کہ انسان مکان بنائے۔یا ایک دوسرے کے ضرر سے بچنے کے لیے مثلاً چوریا حملہ آور سے محفوظ رہنے کے لیے مکان ضروری ہے۔پس تیسری چیز معماری ہے۔ چوتھا پیشہ جو اصولی حیثیت رکھتا ہے وہ لوہاری کا کام ہے۔بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی انسان کو ضرورت پیش آتی ہے یا خود انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حاجت ہوتی ہے اس کے لیے مثلاً گاڑیاں،موٹریں،سائیکل یا ریل گاڑیاں کام میں لائی جاتی ہیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور انسانی کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لیے یہ دوپیشے ہیں۔ایک لوہار کا کام دوسرا ترکھان کا کام۔یہ زراعت میں مفید ہونے کے علاوہ باقی بہت سے کاموں کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں اورانسان کے عام مشاغل کو بھی سہل بناتے ہیں۔پھر’’علم الابدان‘‘میں وہ چیز بھی آجاتی ہے جس کو لوگوں نے مقدم رکھا ہے۔یعنی علم کیمیا اور علم طب،علم طب بھی انسانی علاج کوسہل کر دینے والی چیز ہے توگویا زراعت، معماری، لوہاری، نجاری،علم کیمیا،علم طب اور علم طب دراصل ایک لحاظ سے علم کیمیا ہی کی ایک شاخ ہے اور کپڑا بننے کا کام ۔یہ سات پیشے ہوئے ۔باقی تمام پیشے انہی کے اندر آجاتے ہیں۔مثلاً دوسرے کام پینٹنگ وغیرہ معماری کی بھی ایک شاخ ہے اور علم کیمیا کی بھی۔چمڑے کا کام اس کے علاوہ ہے ۔تو اسے ملا کر گویاآٹھ پیشے ہوئے۔ان آٹھ پیشوں کو جو قوم جان لیتی ہے وہ اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی محتاج نہیں رہتی بشرطیکہ وہ ان پیشوں کو اس رنگ میں جانتی ہو جیسا کہ جاننے کا حق ہے۔یہ نہیں کہ ایک کام سیکھ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ بس اب کام ختم ہو گیااور اب اس میں ترقی کرنے کی ضرورت نہیں۔
وٹرنری کاعلم یعنی حیوانوں اور جانوروں وغیرہ کا پالنا اور ان کا علاج بھی’’علم الابدان‘‘ہی سے تعلق رکھتاہے ۔یہ علم اور نرسنگ وغیرہ کا علم طب کے نیچے آجائیں گے۔پس جتنے بھی علوم ہیں وہ سب انہی آٹھ پیشوں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض یا تو زراعت سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا چمڑے کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا معماری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا نجاری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ان چیزوں سے باہر اور شاید ہی کوئی چیز ہو۔اگر یہ چیزیں کوئی قوم مضبوطی سے حاصل کرے تو وہ دوسری قوموں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ان کا ممد پیشہ بے شک تجارت ہے مگر وہ تابع پیشہ ہے۔حقیقی پیشہ نہیں اور اپنی ذات میں وہ کوئی الگ نہیں کیونکہ وہ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کو ہی لوگوں تک پہنچاتاہے۔لیکن دولت کے لحاظ سے وہ پیشہ ان سے کم نہیں ان سے زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس لیے کہ مالی لحاظ سے اس کو ان پیشوں پر فوقیت حاصل ہے۔سوائے اس کے کہ پیشہ ور اپنے ساتھ تجارت کو بھی شامل کر لیں۔جب تجارت ساتھ شامل ہو جائے تو کام بہت وسیع ہو جاتاہے۔

ہم میں تجارت کی کمی ہے

میں نے تحریک جدید کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ معلوم کیا ہے کہ ہماری جماعت میں کن پیشوں کی کمی ہے اور کون کون سے پیشے ایسے ہیں جنہیں انفرادی یا جماعتی طور پر ہمیں لوگوں کو سکھانے کی ضرورت ہے۔زراعت کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں کافی لوگ ایسے ہیں جو زراعت کا کام کرتے ہیں۔تجارت کے متعلق میں نے غور کیا اور میں نے دیکھا کہ اگرچہ اس کی ہماری جماعت میں کمی ہے لیکن چونکہ ہم ابھی اس کام میں فوری ہاتھ ڈالنے کے قابل نہیں تھے اس لیے میں نے چند مبلغوں کو تیار کیا کہ وہ بعض ایسی نئی تجارتی چیزیں دریافت کریں جنہیں ہم ہاتھ میں لے کر ان کی تجارت کر سکتے ہیں۔ جو تجارتیں پہلے قائم شدہ ہیں ان میں ہمارا داخل ہونا،کروڑوں روپیہ کے سرمایہ کی تجارتوں کے مقابل ہمارا کھڑا ہونا نا ممکن ہے۔اس لیے میں نے یہ تجویز کی کہ نئی تجارتی اشیاء دریافت کی جائیں۔

تجارتوں میں سے واسطوں کو اڑانے کی ضرورت ہے

اس ضمن میں میں نے دیکھا کہ تجارتوں میں جو واسطے پائے جاتے ہیں ان کو اُڑانے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے بعض دوست واسطوں کا مطلب نہ سمجھیں اس لیے میں اس کی تشریح کر دیتاہوں۔واسطے کا مطلب یہ ہے کہ اصل خریدار تک پہنچنے کے لیے ایک چیز کئی ایک ہاتھوں میں سے گزر کر آتی ہے۔مثلاًایک چیز انگلستان میں پیدا ہوتی ہے اور فرض کرو کہ وہ چین میں جا کر بِکتی ہے تو بسا اوقات ایساہوتا ہے کہ اسے پہلے ایک ملک نے خریدا،اس سے پھر دوسرے نے اور پھر تیسرے اور چوتھے نے، یہاں تک کہ وہ چیز کئی ملکوں میں سے ہوتی ہوئی چین تک جا پہنچی۔جنگ کے دنوں میں اس راز کا انکشاف ہواتھاکہ وہ دوائیاں جو یہاں آکر بِکتی تھیں و ہ دراصل جرمنی میں بنائی جاتی تھیں اور ان پر صرف انگریزی ٹھپہ لگتا تھا اور ہندوستان میں لوگ انہیں صرف انگریزی دوا تصور کر کے خریدتے تھے۔ہندوستانیوں کو اس بات کا علم نہ تھا۔انگریز انہیں جرمنی سے خرید کر ہندوستانیوں سے ان کی بڑی بڑی قیمتیں لیتے تھے اور بہت کم لوگ اس راز سے آگاہ تھے باقی سارے لوگ ناواقف تھے۔جب جنگ شروع ہوئی تو دوائیاں نایاب ہو گئیں اور لوگ اس بات سے حیران تھے لیکن پھر یہ راز کھلا کہ جرمنی کی دوائیاں انگلستان میں سے ہوتی ہوئی ہندوستان آتی تھیں۔
پس واسطے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کی اشیاء اور ملکوں میں سے گزر کر اصلی حاجت مند کے پاس پہنچتی ہیں۔اس کے متعلق یہ پتہ لگایا جائے کہ کس ملک کی کونسی چیز کس کس ملک سے ہو کر آتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے بعد جو چیزمثلاً جرمنی میں بنتی ہے،اس کے لیے اگر کوئی شخص جرمنی جا کر کہے کہ تم اپنی فلاں چیز براہ راست ہمیں بھیجو اور اس طرح کی ایک دکان کھول لی جائے تو براہ راست تعلق قائم ہونے کی وجہ سے بیچ کا نفع جو دوسرے لوگ اٹھا رہے ہوں گے وہ نہیں اٹھائیں گے اور اس طرح وہ چیز سستی مل سکے گی اور نفع اپنے ہاتھوں میں رہے گا۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ سات سات اور آٹھ آٹھ واسطے درمیان میں پڑجاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی چیز سات یا آٹھ ہاتھوں میں سے گزر کر آئے۔جتنے واسطے اُڑائے جاسکیں اتنی ہی کم قیمت دینی پڑے گی۔
پس اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ چیز براہ راست ہمیں پہنچے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس پر کم خرچ آئے گا اور واسطوں کے اڑجانے سے ہم تھوڑے سرمایہ سے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ کر سکیں گے۔مگر یہ تجارت قادیان میں نہیں ہو گی کیونکہ یہاں کوئی منڈی نہیں ہے۔یہ کلکتہ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں قائم ہو سکتی ہے۔

کپڑا بُننے کا کام

باقی پیشوں میں سے جو انسان کی ضروریات مہیا کرتے ہیں،کپڑا بُننے کا کام بہت بڑے سرمایہ کو چاہتاہے اور یہ شروع سے ہی لاکھوں روپیہ والے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ اس لیے فوراً اس میں ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔اس کے لیے ہمارے پاس ایکNUCLEUSیعنی بیج ہے اور وہ ہوزری ہے۔فی الحال جُرابیں وغیرہ بنانے کا کام جاری ہے۔اس کے ساتھ ہم آہستہ آہستہ دوسرے کپڑے بنانے کا کام بھی شروع کر دیں گے۔کپڑے کے لیے کھڈیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں لیکن ابھی تک کھڈیاں اتنی مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ایک دو دفعہ لدھیانہ سے مشینیں منگا کر دیکھی ہیں لیکن ان کے ذریعہ جو کام کیا گیا وہ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔اگر آئندہ مفید ثابت ہو تو وہ کام بھی انشاء اﷲ شروع کر دیا جائے گا۔

علمِ طب

اب رہ گیا طب کا علم۔طب کے متعلق باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا گیا۔لیکن مبلغ جو باہر جاتے ہیں انہیں طب پڑھانے کا انتظام کیا جاتاہے۔اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک الگ طبی سکول جاری کر دیا جائے گا یا مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ کھول دی جائے گی اور یہ کام خصوصاً اس لیے شروع کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس سے تعلق تھااور حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ تو ایک بلند پایہ طبیب بھی تھے۔غرض طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ بچپن میں عموماً میری صحت خراب رہتی تھی۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اور بخاری کا ترجمہ اور طب پڑھ لو۔چنانچہ میں نے طب کی تین چار کتابیں پڑھیں بھی۔تو طب کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے جاری کیاجائے۔فی الحال مبلغین کو طب پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اب پانچ پیشے رہ جاتے ہیں۔کیمیا،چمڑے کا کام،لکڑی کا کام،لوہاری اور معماری۔معماری کے کام میں فی الحال میں نے دخل دینا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ معماری کے کام کے لیے خاص انتظام کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لوگ اپنے اپنے طور پر اسے سیکھ سکتے ہیں۔لیکن اگر موقع ملا تو ہم اسے بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔

دارالصناعت میں سکھائے جانے والے کام

باقی رہ گئے چار کام لوہاری،نجاری،چمڑے کا کام اور علم کیمیا۔یہ سکول جس کے افتتاح کے لیے آج ہم جمع ہوئے ہیں اس میں تین کام شروع کیے جا ئیں گے۔ابھی صرف دو جماعتیں کھولنے کا انتظام کیا گیا ہے۔لوہاری اور نجاری،چمڑے کے کام کی سکیم ابھی زیر غور ہے۔کیمیا کے کام مثلاً ادویہ سازی کے متعلق بھی میں مشورہ کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ انشاء اﷲ اس کام کو بھی شروع کر دیا جائے۔اس کام کی ایک قسم تو شروع کی ہوئی ہے اور وہ گلاس فیکٹری ہے۔لیکن ایک خاص شکل میں محدود ہے۔کیمیا سازی میں پینٹنگ،پالش وغیرہ سب چیزیں آ جاتی ہیں۔میں اس کے متعلق ماہر فن لوگوں سے مشورہ کر رہا ہوں۔اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس میں بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔باقی تین کام جو ہم شروع کرنے والے ہیں اور ان کے ساتھ کپڑا بُننے کا کام بھی لگا دیا جائے تو چار ہو جاتے ہیں،نہایت ضروری ہیں۔مگر بدقسمتی سے یہ کام ہندوستان میں ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔جب کسی ملک کے زوال کے دن آتے ہیں تو لوگوں کی نیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ یہ موچی ہے تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ ذلیل کام کرنے والا ہے او روہ خود بھی اس پیشے کو ذلیل سمجھے گا اور اسے چھوڑ دینے کی خواہش کرے گا۔لوہار اورترکھان کے پیشے کو بھی ذلیل سمجھا جاتاہے۔گو وہ موچی کے پیشے کی طرح بدنام نہیں اورگو لوگ انہیں اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں مگر وہ کبھی پسند نہ کریں گے کہ ہمارے بچے لوہار یا ترکھان بنیں یا وہ جولاہے کا کام سیکھیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پیشوں کی آمدنیاں محدود ہو گئی ہیں۔ جب کسی پیشہ میں نفع کم ہو جائے تو قدرتی طور پر اس کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے۔مثلاً تمہیں ہندوستان میں ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی ماہوارآمدنی پانچ چھ روپیہ سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپیہ ماہوار ہوگی۔اگر سارے طبیب پانچ یا چھ ہزار روپیہ آمدنی کے ہوں تو طب کی بھی بہت کم قدر ہو جائے۔چونکہ لوہارے اور ترکھانے کی آمدنی بھی کم اور محدود رہ گئی ہے اس لیے لوگوں نے ان پیشوں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیا ہے۔تجارت میں چونکہ آمد زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کی قدر زیادہ کی جاتی ہے۔

یورپ کی ترقی کی اصل وجہ

لیکن اگر ہم بھی ان تمام پیشوں کو اسی طریق پر چلاتے جس طریق پر انہیں یورپ میں چلایا جاتاہے تو یہاں بھی ان کی ویسی ہی قدر کی جاتی جیسی کہ وہاں کی جاتی ہے۔اب دیکھ لو تمام کپڑا یورپ سے آتا ہے جو یا تو لنکا شائر میں بنتا ہے یا بیلجیئم میں ۔بیان کیا جاتاہے کہ ہر سال ساٹھ کروڑ روپے کا کپڑا باہر سے ہندوستان میں آتاہے۔ظاہر ہے یہ سب کام جولاہے کرتے ہیں۔ چاہے کسی قسم کا کپڑا بُنا جائے،گرم کپڑا ہو یا چھینٹ ہو یا کھدر،یہ کام جولاہے کا کام ہی کہلائے گا صرف کھدر بُننے کا کام کسی کوجولاہا نہیں بناتا بلکہ کپڑا بُننے کا کام جولاہابناتاہے۔پھر لوہارے کے تمام کاموں کی اشیاء یورپ سے آتی ہیں۔مثلاًریل گاڑی کا سامان،کپڑے سینے کی مشینیں، آٹا پیسنے کی مشینیں،روئی اور بنولے کی مشینیں،موٹر،بائیسکل،مختلف پُرزے سب یورپ سے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یورپ والوں نے سرمایہ داری کے ذریعہ سارا کام اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ جب ہمارا کپڑا پھٹ جائے اوراسے سینے کی ضروت ہو تو ہمیں سوئی کے لیے بھی یورپ کا دست نگر ہونا پڑتاہے۔بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ہندوستان کی بنی ہوئی سوئیاں جو کچی سوئیاں کہلاتی تھیں استعمال کی جاتی تھیں۔مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔بات یہ ہے کہ جن چیزوں کے متعلق یورپ والوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں استعمال ہوتی ہیں،انہوں نے وہ چیزیں مشین کے ذریعہ بنانی شروع کر دیں۔اب تو مشینوں نے کھدر بھی بنا دیا ہے اور وہ کھدر کریپ کہلاتا ہے ۔یورپ والوں نے کہا اگر ہندوستانی کھدر پہننے کے لیے ہی تیار ہیں تو ہم مشینوں سے کھدرہی تیار کر دیں گے۔ پھر نجاری کا کام ہے اس میں بھی اعلیٰ فن کے کام ولایت سے ہی آتے ہیں۔بڑے بڑے گھروں میں دیکھ لو کرسیاں اور کوچیں یورپ کی بنی ہوئی استعمال کی جاتی ہیں اور بعض کوچوں کی قیمت کئی کئی سو تک ہوتی ہے۔اسی طرح عمارتی کاموں میں بھی بعض ٹکڑے بنے بنائے ولایت سے آتے ہیں مگر یہ پیشہ پھر بھی ایک حد تک محفوظ رہا ہے۔باقی رہا چمڑے کا کام،اس کا بیشتر حصہ ولایت چلا گیا تھا مگر اب واپس لوٹ رہا ہے۔پہلے تمام چیزیں چمڑے کی ولایت سے بن کر آتی تھیں مگر اب ہندوستان کے بعض شہروں مثلاً کانپور وغیرہ میں چمڑے کی بہت اشیاء تیارکی جاتی ہیں۔تا ہم چمڑے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو یورپ سے تیار ہو کر ہندوستان آتی ہیں اور یورپ والے ان کے ذریعہ روپیہ کمارہے ہیں۔یورپ میں جوتیاں بنانے والے ہمارے ہاں موچیوں کی طرح نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان کی وہی قدر و منزلت ہوتی ہے جو وہاں بڑے بڑے لارڈوں کی ہوتی ہے بلکہ وہاں تو ایسے لوہار یا بُوٹ میکر ہیں جو لارڈہیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ان میں سے جب کوئی ہندوستان آتاہے تو وائسرائے کا مہمان ہوتاہے اور راجے ،نواب بھی اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آمدنیوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں غیر محدود بنا لیاہے اوران کے پیشے اپنی غیر محدود آمدنیوں اور وسیع پیمانے پر ہونے کی وجہ سے معزز تصور ہو رہے ہیں۔مگر ہندوستان میں وہی پیشے قلیل آمدنیوں کی وجہ سے ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔

پیشہ ور کسی پیشہ کو اپنی ذاتی جائیداد نہ تصور کریں

یہا ں ایک اور عجیب رواج بھی ہے اور دراصل ہندوستانیوں کو اسی کی سزا مل رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشہ ور انسان اپنے پیشہ کوذاتی جائیداد تصور کرتاہے اور چاہتاہے کہ صرف اپنے بیٹے کو وہ پیشہ سکھا دے،کسی دوسرے کو وہ سکھانا پسند نہیں کرتا۔اسلام نے اسے قطعا ًپسند نہیں کیاکہ کوئی شخص کسی کا م کو اپنی ذاتی جائیدا د بنا کر بیٹھ جائے۔یورپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی خاندان سارے کا سارا بوٹ بنانے والا نہیں ہو گا۔اگر باپ بوٹ میکر ہو گا تو بیٹا کیمیا کے علم کا ماہر ہوگا۔پوتے کپڑا بنانے کا کام کرتے ہوں گے اور پڑپوتے کسی فرم میں حصہ دار ہوں گے۔غرض ایک ہی کام نہیں ہو گا جس میں وہ سارے کے سارے لگے ہوئے ہوں گے مگر ہمارے ملک نے سمجھ رکھا ہے کہ پیشے ذاتی جائیداد ہوتے ہیں اور وہ اپنے خاندان تک ہی محدود رہنے چاہییں کسی اور کو نہیں سکھانے چاہییں۔اس کے دو بہت بڑے نقصان یہ ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسرا قومی۔قومی نقصان تو یہ ہے کہ اگر بیٹا جب لائق نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فن گِر جائے گا اور اس طرح قوم کو نقصان پہنچے گا۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ باپ سے بیٹے کو بیٹے سے پوتے کو جب وہ کام ورثہ میں ملے گا تو ان کے نام کے ساتھ ایک اور چیز جسے پنجابی میں اَل کہتے ہیں لگ جائے گی اور وہ اس کی قومیت بن جائے گی حالانکہ اگر آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کا طریق رائج ہو تو بالکل ممکن تھا کہ ایک درزی کا کام کرنے والے کا بیٹا اچھا لوہار یا اچھا نجار یا اعلیٰ معمار بن سکتا۔پس اس طریق کا انفرادی طورپر بھی نقصان ہوا اور قومی طورپر بھی۔یورپ میں لوگوں نے اپنے آپ کو ان نقصانات سے بچالیا ہے۔نہ ان کے نام کے ساتھ کوئی اَل لگی اور نہ ان کے پیشے ہی محدود رہے کیونکہ انہوں نے ایک ہی کام پر جمے رہنا پسند نہیں کیا بلکہ کام تبدیل کرتے گئے اور انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتی ہے۔مرد کم تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے مگر عورت زیادہ تبدیلی چاہتی ہے۔گھروں میں دیکھ لو جب کبھی عورتیں صفائی کرتی ہیں تو چیزوں کو اِدھر سے اُدھر رکھ کر نقشہ بدل دیتی ہیں اور بالکل بِلاوجہ ایسا کرتی ہیں۔پہلے اگر چارپائی مشرقی دیوار کے ساتھ ہو گی تو پھر مغربی دیوار کے ساتھ کر دی جائے گی،کبھی جنوبی دیوار کے ساتھ لگا دی جائے گی اور کبھی مشرقی دیوار کے ساتھ رکھ دی جائے گی۔یہ صرف نظارے کی تبدیلی ہوتی ہے۔بہر حال تبدیلی ترقی کے لیے ضروری چیز ہے گو تبدیلی میں تنزل کا پہلو بھی ہوتاہے مگر اس میں ترقی بھی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انسان میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک حالت میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ تغیر چاہتاہے اور کام کی تبدیلی کے ساتھ بھی بہت سے خاندان بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔
غرض ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس صنعتی سکول کی ابتدا کی ہے۔میں نے بتایا ہے کہ ہندوستان کے تنزل اور اس کی تباہی کی ایک وجہ ان پیشوں کا ہمارے ہاتھوں سے نکل جانا ہے اور یورپ کی ترقی کی وجہ ان پیشوں کا ان کے ہاتھ میں چلا جانا ہے۔پھر میرے مدنظر یہ بات بھی ہے کہ اس طرح بے کاری کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے مگر میں فوری طورپر اس کام کو وسعت نہیں دے سکتا۔کیونکہ ہمارے پاس سرمایہ کم ہے۔گو میری خواہش یہی ہے کہ ہربیکار کو کام پر لگایا جائے۔مگر عقل چاہتی ہے کہ کام کو اس طریق سے نہ چلایا جائے کہ چند دن جاری رہ سکے اور پھر ختم ہو جائے بلکہ ایسے طریق سے قدم اُٹھایاجائے کہ جس سے ہمارے کام کو دوام نصیب ہو۔

دارالصناعت میں شرائط داخلہ نیز طریق تعلیم

فی الحال مَیں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ ایک استاد کے ساتھ تین شاگرد ہوں۔اس طرح کام چلانا سہل ہو گا۔ہر تیسرے ماہ طالب علموں کا انتخاب ہوا کرے گا اور مزید تین تین لڑکوں کو لے کر کا م پر لگا دیا جائے گا۔اس طرح سال میں ہر ایک استاد کے پاس بارہ طالب علم ہو جائیں گے اور پھر سال بھر کے سیکھے ہوئے لڑکے نئے داخل ہونے والے لڑکوں کو کام سکھا بھی سکیں گے۔اس سلسلہ میں جو مشکلات پیدا ہوں گی وہ تو بعد میں ہی دیکھنے میں آئیں گی مگر اصولی طورپر یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ کام کو بڑھا یا جائے ۔
میری تجویز یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ بھی اس کام میں حصہ لیں اور وہ اس طرح کہ اس سرمایہ کے جو اس پر لگایا جائے حصص خریدیں چنانچہ اس میں تجارتی طورپر حصہ لینے کے لیے میں نے جماعت کے لیے گنجائش رکھی ہے اس میں سے پچاس فیصدی تک سرمایہ کے حصے خریدے جا سکتے ہیں ۔
میں نے اس سکول کے متعلق اصول انتخاب میں یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ یتامیٰ کو مقدم رکھا جائے اور ان کی نسبت دوسرے لڑکوں کے انتخاب کی شرائط کڑی ہوں۔مثلاً پہلی شرط ان کے لیے یہ رکھی گئی ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں مگر یتیموں کے لیے پرائمری پاس ہونے کی شرط نہیں گو انہیں بھی اگر وہ اَن پڑھ ہوں تعلیم دی جائے گی پھر بھی یہ شرط ہے کہ ان کو بورڈنگ میں رکھا جائے گا اور پانچ سال انہیں یہاں رہنا ہو گاتین سال تک ان پر ہم خرچ کریں گے باقی دو سال میں اس آمد پر جو اُن کی تیار کی ہو ئی اشیاء سے حاصل ہو گی ان کا خرچ چلے گا۔پہلے تین سال تک استادوں کی تنخواہیں بورڈنگ کا خرچ اور کپڑے وغیرہ کا خرچ تحریک جدید کے ذمہ ہو گا۔اس کے علاوہ ہم نے دو سال اس لیے زائد رکھے ہیں تاکہ وہ سلسلہ کا کام کریں اور اس قرض کا کچھ حصہ جو ان پر خرچ ہوا ہو ادا کرسکیں۔اگر کوئی لڑکا بیچ میں ہی کام چھوڑ کر چلا جائے گا تو اسے وہ روپیہ واپس دینا ہو گا جو اس پر خرچ ہوا۔سوائے اس کے کہ کوئی اشد معذوری اسے پیش آجائے مثلاً کوئی آنکھوں سے اندھا ہو جائے یا کسی طرح کام کے ناقابل ہو جائے کیونکہ ایسے کاموں میں اس قسم کے حادثات بھی ہوجانے کا اندیشہ ہوا کرتاہے۔
پس ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو لڑکے داخل ہونا چاہئیں وہی داخل ہو سکتے ہیں۔ یتامیٰ کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ ان کو بغیر کسی شرط کے لے لیا گیا ہے مگر دوسروں کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ کم ازکم پرائمری پاس ہوں۔آئندہ آہستہ آہستہ شرائط کڑی کر دی جائیں گی۔مثلاً پھر یہ شرط رکھ دی جائے گی کہ مڈل پاس طالب علم لیے جائیں اور مڈل تک کی تعلیم تو مجلس مشاورت میں ہماری جماعت کے لیے لازمی تعلیم قرار پا چکی ہے پس جب مڈل تک کی تعلیم ہر احمدی کے لیے لازمی ہے تو بعد میں تعلیم کے اسی معیار کے لحاظ سے طالب علم سکول میں لیے جائیں گے۔علاوہ ازیں سکول کے استادوں کو دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کو کام سکھانے پر لگا یا جائے گا۔یعنی دوسرے مدرسوں کے طالب علموں کو بھی اسی قسم کے کام سکھائے جائیں گے۔مثلاً ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ کے جو لڑکے چاہیں گے ان کے لیے بھی انتظام کر لیا جائے گا مگر ان کے لیے ہفتہ میں صرف دو روز اس کام کے لیے ہوں گے کیونکہ انہیں اپنے کورس کی اور بھی پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ بیشک اس طرح وہ بہت دیر میں کام سیکھ سکیں گے اور بعض دفعہ ان کو چھٹیوں میں یہ کام کرنا پڑے گا مثلاً گرمیوں کی رخصتوں میں ان کو اورکہیں جانے کی اجازت نہ ہو گی بلکہ انہیں یہ کام سکھایا جائے گا۔

پیشوں کے متعلق حقارت مٹائی جائے

بہر حال جب تک ہم پیشوں کے ساتھ تمام لوگوں کی دلچسپی نہ پیدا کر دیں گے اس وقت تک پیشہ وروں کو ذلیل سمجھنے کی خرابی دور نہ ہوگی۔جب سارے لوگ مختلف پیشے جانتے ہوں اور ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی آدمی اس قسم کا کام کرتا ہوتو پھر پیشوں کے متعلق حقارت لوگوں کے دلوں سے مٹ جائے گی۔ یورپ میں بڑے سے بڑے لوگ بھی اس قسم کے کاموں کو حقیر نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود کسی نہ کسی پیشہ کے ماہر ہوتے ہیں۔چنانچہ فرانس کا ایک پریذیڈنٹ تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ جب کبھی اسے اپنے کام سے فرصت ملتی تو وہ دھونکنی پر جا کر کام شروع کر دیتا۔
پس اگر دوسرے سکولوں کی خواہش ہوئی تو ان کے لیے بھی انتظام کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد میں دوستوں سے خواہش کر تا ہوں کہ وہ مل کر دعا کریں کہ اس ابتدا کو جو بظاہر چھوٹی اور ہیچ معلوم ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ ترقی کی منازل تک پہنچائے اور ہمارے کام کرنے والے لوگ اس رنگ میں کام کریں کہ جہاں وہ دنیا کے لیے بہتری کا موجب ہوں وہاں دین کے لیے بھی بہتری کا باعث بنیں۔میں استادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں میں یہ روح پیدا کریں کہ دنیا کے ساتھ انہیں دین بھی حاصل کرنا ہے۔گویا وہ ’’دست با کار اور دل بایار‘‘کے مصداق بنیں۔شروع سے ہی ان کے اندر یہ روح پیدا کی جائے کہ سلسلہ کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنا اپنے نفسوں کو مارنا اور اپنے پیشوں کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے۔اگر یہ روح ان کے اندر پیدا ہو جائے کہ انہوں نے اپنی اپنی صنعتوں میں غیر ممالک کے صنّاعوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ادھر نیکی اور تقویٰ پر بھی قائم رہنا ہے تب یہ لوگ ہمارے لیے مفید ہو سکتے ہیں ورنہ روٹی کمانے والے تو دنیا میں بہت لوگ ہیں ۔ہماری یہ غرض نہیں کہ صرف روٹی کمانے والے پیدا کیے جائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایسے ہوں جو دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی حاصل کرنے والے ہوں۔ وہ اسلام کی کھوئی ہوئی شوکت کو واپس لانے میں ممد ہوں اور دوسروں کو اس بات کا سبق دے سکیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایک شخص حقیقی مومن ہو سکتاہے اور دنیاکمانے سے اس کا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ ترقی کرتاہے۔‘‘

(ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے۔انوار العلوم جلد14صفحہ205تا215)

ہاتھ سے کام کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍دسمبر1935ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’میں نے قادیان کے متعلق ایک سکیم بھی بنائی تھی جس کے مطابق تحریک جدید کے چندہ کے ایک حصہ کو بطور رأس المال نفع مند کاموں پر لگاکر جو منافع حاصل ہو اس سے اس قسم کے کام جاری کرنے کی تجویز ہے جن میں عورتیں ،نابینا اشخاص اور غرباء بھی حصہ لے سکیں۔مثلاًٹوکریاں بنانا،چکیں بنانا، ازار بند اور پراندے وغیرہ بنانا ۔اسی طرح میرے مدِ نظر اس قسم کے بھی کام ہیں ۔جیسے میز کرسیاں بنانا، لوہے کا کام اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جو دساورکے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں ۔

تجارت کے متعلق مشورہ دیں اور تجربہ سے آگاہ کریں

میں نے تحریک کی تھی کی جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کیے جائیں ۔اس پر بعض دوستوں نے نہایت اعلیٰ مشورے دیے ہیں۔گو اس کے مقابلہ میں بعض تجربہ کاروں نے ایسے بھونڈے مشورے دیے ہیں کہ انہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔لیکن بعض اور دوستوں نے واقع میں ایسے لطیف مشورے دیئے ہیں کہ ان کی بنیاد پر نہایت اعلیٰ کام جاری کیے جا سکتے ہیں ۔میں پھر اس موقع پر تحریک کرتا ہوں کی اگر کسی نے میرا وہ خطبہ نہ پڑھا ہو تو اَب جن جن دوستوں کو ایسے کام معلوم ہوں جنہیں تھوڑے سے روپیہ سے شروع کیا جا سکے اور بے کاری دُور ہو،وہ خطوط کے ذریعہ مجھے اطلاع دے دیں اورجوان کاموں میں مہارت رکھتے ہیں، وہ بھی اپنے تجربہ سے آگاہ کریں……

پیشہ ور لوگ وقف کریں

پانچویں تحریک یہ ہے کہ پیشہ ور لوگ اپنے آپ کو وقف کریں تا انہیں ہندوستان یا ہندوستان سے باہر ایسی جگہ بھیجا جا سکے جہاں وہ تبلیغ بھی کر سکیں اور مالی فائدہ بھی اٹھا سکیں۔ ہمارے ملک کے پیشہ ور عموماً ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں ان کا کام نہیں چلتا۔اگر وہ اپنے آپ کو پیش کریں تو انہیں ایسی جگہوں پر بھیجا جا سکتا ہے جہاں ان کا کام بھی چل سکے اور تبلیغ بھی ہوتی رہے۔ہمارے ملک میں کوئی نظام نہیں،ہر بات لوگ اندھا دھند کریں گے۔اگر ایک گاؤں میں دو لوہاروں کی گنجائش ہے تو اُس جگہ بیس لوہار کام کر رہے ہوں گے،مگر بعض دوسری جگہوں پر جہاں دس یا بیس لوہاروں کی ضرورت ہو گی وہاں ایک لوہار بھی نہ ملے گا۔یہ ایک غلط طریق ہے جس کے ماتحت کام کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزار ہا لوہار،نجار اور دوسرے پیشہ ور بے کار پھرتے ہیں انہیں کوئی کام نہیں ملتا اور جو کام کرتے ہیں وہ بھی تنزّل میں گِرے ہوئے ہیں۔کیونکہ ان کی آمد سے بمشکل ان کا گزارہ ہوتاہے ۔اگر ان میں تقسیم عمل ہوتی تو یہ حالت ہر گز نہ ہوتی۔مثلاًباقی ملکوں میں یہ قاعدہ ہے کہ زمیندار زمین کے مناسب حال اجناس کی کاشت کرتے ہیں اور اگر کوئی زمین بعض اجناس کی کاشت کے لیے نامناسب ہوتی ہے تو ان چیزوں کی کاشت اس میں نہیں کرتے۔لیکن ہمارے زمیندار کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر چیز اپنی زمین میں بونے کی کوشش کرے گا۔دو مرلہ میں موٹھ بو دے گا،دومرلہ میں مسور بو دے گا،کچھ حصہ گندم بو دے گا اور کچھ حصہ میں گنا بو دے گا او رکوشش کرے گا کہ ساری چیزیں اس کے کھیت میں ہو جائیں۔اس کے مقابلہ میں دوسرے ملکوں والے جہاں گنا اچھا ہو گا وہاں گنا بوئیں گے،جہاں گندم اچھی ہو گی وہاں گندم بوئیں گے اور جہاں موٹھ اچھے ہوں گے وہاں موٹھ بوئیں گے اور اس طرح زمین سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کریں گے۔اس کے برخلاف ہمارے ملک کے زمینداروں کے طریق عمل کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غلہ بھی ضائع ہوتا ہے،زمین بھی ضائع ہوتی ہے،وقت بھی ضائع ہوتاہے مگر پھر بھی زمیندار وہی کرتے جا رہے ہیں جس کے عادی ہو چکے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جو تقسیم عمل کے نہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے۔یہی نقص پیشہ وروں کی تقسیم میں بھی ہے اور اس کی وجہ سے بعض علاقوں میں مثلاً لوہار کو دو آنے بھی روزانہ نہیں ملتے لیکن بعض علاقوں میں وہ دو دو روپیہ تک کما لیتے ہیں۔ پس کیوں ہماری جماعت کے پیشہ ور تحریک جدید سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور کیوں ہمارے سامنے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے۔ہمیں ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں نجّاری کا کام بہت اچھا ہو سکتا ہے،ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں معماری کا کام بہت اچھا ہو سکتاہے اور ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں آہن گری کا کام بہت اچھا ہو سکتاہے ۔
بے شک پہلے کام کے چلانے میں کچھ دقتیں واقع ہو ں گی اور لوگ احمدی پیشہ وروں سے کام کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے لیکن آہستہ آہستہ جب ہم نجّاروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں نجّار نہیں ،معماروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں معمار نہیں،حکیموں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں حکیم نہیں اور لوہاروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں لوہار نہیں تو مجبور ہو کر لوگ احمدی پیشہ وروں سے کام کرانے پر آمادہ ہو جائیں گے۔اسی لیے میں نے مختلف اضلاع کی سروے کرائی ہیں اور میں چاہتا ہوں جن اضلاع کی سروے کرائی گئی ہے،ان میں جو لوہار، ترکھان یا پیشہ ور احمدی بے کار ہیں،انہیں پھیلا دوں۔تمام گاؤں کے نقشے ہمارے پاس موجود ہیں اور ہر مقام کی لسٹیں ہمارے پاس ہیں جن سے پتہ لگ سکتاہے کہ ان گاؤں میں پیشہ وروں اور تاجروں کی کیا حالت ہے۔اس ذریعہ سے میں چاہتاہوں کہ اپنی جماعت کے پیشہ ور بے کاروں کو ان علاقوں میں پھیلا دوں۔جہاں لوہارنہیں وہاں لوہار بھجوا دیے جائیں، جہاں معمار نہیں وہاں معمار بٹھا دیے جائیں۔ جہاں حکیم نہیں وہاں حکیم بجھوادیے جائیں۔اس سکیم کے ما تحت اگر ہماری جماعت مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو جہاں ہمارے بہت سے تبلیغی مرکز ان علاقوں میں قائم ہو سکتے ہیں وہاں لوگ بھی مجبور ہوں گے کہ احمدیوں سے کام لیں۔ اس طرح ان کی بے کاری بھی دور ہو گی اور تبلیغی مرکز بھی قائم ہو جائیں گے بلکہ لکھے پڑھے لوگ کئی گاؤں میں مدرسے بھی جاری کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس ایسی بیسیوں لسٹیں موجود ہیں جہاں مدرسوں کی ضرورت ہے یا حکیموں کی ضرورت ہے یا کمپونڈروں کی ضرورت ہے۔مگر انہیں مدرّس،حکیم اور کمپونڈر نہیں ملتے۔اسی طرح ہندوستان سے باہر بھی ہم بعض پیشہ وروں کو بھیجنا چاہتے ہیں جہاں بعض کام عمدگی سے کیے جا سکتے ہیں۔چنانچہ بعض قسم کے پیشہ ور چین میں اچھا کام کر سکتے ہیں۔مثلاً چین کے مغربی حصہ میں پیشہ وروں کی بہت ضرورت ہے۔ اگر وہاں لوہار چلے جائیں تو اعلیٰ درجہ کا کام کر سکتے اور کافی مالی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔علاوہ ازیں اس ذریعہ سے تبلیغ بھی ہوتی رہے گی۔
غرض دنیا کے ایسے حصے جہاں تجارتی کام اعلیٰ پیمانے پر جاری کیے جا سکتے ہیں ہم نے معلوم کیے اور ہر جگہ کے نقشے تیار کیے ہیں۔ان علاقوں میں تھوڑی سی ہمت کر کے ہم بے کاروں کو کام پر لگا سکتے ہیں اور بہت سے تبلیغی سنٹر قائم کر سکتے ہیں اور یہ کام ایسا اعلیٰ ہوا ہے کہ جس کی اہمیت ابھی جماعت کو معلوم نہیں اور گو یہ معلومات کا تما م ذخیرہ ابھی صرف چند کاپیوں میں ہے لیکن یورپ والوں کے سامنے یہ کاپیاں پیش کی جائیں تو وہ ان کے بدلے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔مگر افسوس ابھی ہماری جماعت نے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔اسی طرح میں تجارتی طورپر مختلف مقامات کے نقشے بنوا رہا ہوں اور اس امر کا پتہ لے رہاہوں کہ چین اور جاپان اور دوسرے ممالک کے کس کس حصہ میں کون کون سی صنعت ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی جماعت کے تاجروں یا ان لوگوں کو جو تجارت پیشہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان علاقوں میں پھیلا دیں۔اس کے متعلق بہت سی لطیف معلومات کا ذخیرہ جمع ہو رہا ہے ۔ جو دوست تجارت کے متعلق کوئی مشورہ لینا چاہیں وہ مشورہ کر لیں۔جب موقع آئے گا انہیں کسی موزوں علاقہ میں تجارت کے لیے بھیج دیا جائے گااور اگر معلوم ہوگا کہ وہ دیانتداری سے کام کرنے والے ہیں تو شروع میں ایک قلیل رقم بطور امداد بھی دی جا سکے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ جائیداد ہو جس کی ضمانت پر اسے روپیہ دیا جا سکے۔تا اگر کوئی روپیہ کھا جائے تو اس کی واپسی کا انتظام ہو سکے اور دوسری شرط یہ ہے کہ سینکڑوں یا ہزاروں کی رقم کا مطالبہ نہ ہو۔‘‘

(تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت۔انوار العلوم جلد14صفحہ144تا148)

بے کاری ایک مہلک وبائی مرض ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ20؍دسمبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’تحریک جدیدکی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بے کار نہ رہیں۔میں نہیں کہہ سکتا میری اس تحریک پر جماعت نے کس حد تک عمل کیا؟لیکن اپنے طور پر میں یہ کہہ سکتاہوں کہ جماعت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو میرے پاس اس کی رپورٹ نہیں پہنچی۔یادرکھو!جس قوم میں بیکاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے۔بیکاری ایک وبا کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک طاعون کا مریض سارے گاؤں والوں کو طاعون میں مبتلا کر دیتاہے۔جس طرح ایک ہیضہ کا مریض سارے گاؤں والوں کو ہیضہ میں مبتلا کر دیتاہے اسی طرح تم ایک بے کا رکو کسی گاؤں میں چھوڑ دو وہ سارے نوجوانوں کو بے کار بنانا شروع کر دے گا۔
جو شخص بے کار رہتاہے وہ کئی گندی عادتیں سیکھ جاتاہے۔مثلاً تم دیکھو گے کہ بے کار آدمی ضرور اس قسم کی کھیلیں کھیلے گا جیسے تاش یا شطرنج وغیرہ ہیں اور جب وہ یہ کھیلیں کھیلنے بیٹھے گا تو چونکہ وہ اکیلاکھیل نہیں سکتا اس لیے وہ لازماً دو چار لڑکوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہے گا اور پھر اپنے حلقہ کو اور وسیع کرتاجائے گا۔
اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہمارے ایک اُستاد تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص تھا بعد میں وہ اسی نقص کی وجہ سے مدعیِ مأموریت اور نبوت بھی ہو گئے۔انہیں بھی کسی زمانہ میں تاش کھیلنے کا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ وہ ہمارے استاد تھے اور ان کا کام یہ تھاکہ ہماری تربیت کریں پھر بھی وہ پکڑ کر ہمیں بٹھا لیتے اور کہتے آؤ تاش کھیلیں۔اس وقت ہم کو بھی اس کھیل میں مزہ آتا کیونکہ بچپن میں جس کام پر بھی لگا دیا جائے اس میں بچے کو لذت آتی ہے لیکن آج یہ بے ہودہ کھیل معلوم ہوتی ہے ۔مجھے یاد ہے بعض اور بچے بھی ان کے ساتھ تاش کھیلتے جب نماز کا وقت آتا تو ہم نماز پر جانے کے لیے گھبراہٹ کا اظہار کرتے لیکن جب انہیں ہماری گھبراہٹ محسوس ہوتی تو کہتے ایک بار اور کھیل لو۔وہ کھیلتے تو تھوڑی دیر کے بعد کہتے ایک بار اور کھیل لو،ہمارے کان میں چونکہ ہر وقت یہ باتیں پڑتی رہتی تھیں کہ دین کی کیا قیمت ہے اس لیے جب ہم دیکھتے کہ نماز کو دیر ہو رہی ہے تو اٹھ کر نماز کے لیے بھاگ جاتے مگر جن کے کانوں میں یہ آوازنہ پڑے کہ دین کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے ان کے ساتھ اگر ایسی کھیلوں میں دوست مل جائیں یا کوئی استاد ہی مل جائے تو ان کی زندگی کے تباہ ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ جس وقت فٹ بال کی کھیل میں مقابلہ ہوتاہے یا کرکٹ میں مقابلہ ہوتاہے یا تاش میں مقابلہ ہوتاہے تو بچے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان کو ترقی دینے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ مقابلہ میں دلچسپی لیتی اور لذت محسوس کرتی ہے۔اگر کبھی چوری کے مقابلہ کی عادت ڈال دو تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ چوریاں زیادہ ہونے لگی ہیں اور لوگوں نے چوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔یہی مقابلہ کی روح ہے جو تاش وغیرہ کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی زندگی برباد کر دیتی ہے ۔غرض تم کسی شہر میں ایک آوارہ کو چھوڑ دو وہ چونکہ بے کار ہوگا اس لیے اپنی بے کاری کو دور کرنے کے لیے کوئی کام نکالے گا کیونکہ انسان اگر فارغ بیٹھے تو تھوڑے ہی دنوں میں پاگل ہو جائے لیکن چونکہ وہ محنت سے جی چراتاہے اس لیے بجائے کوئی مفید کام کرنے کے ایسے کام کرتا ہے جن میں اس کا دن بھی گزر جاتاہے اور جی بھی لگا رہتاہے ۔کہیں تاش شروع ہو جائیں گے،کہیں شطرنج کھیلی جائے گی،کہیں گانا شروع ہوجائے گا،کہیں بانسریاں بجنی شروع ہو جائیں گی،کہیں سارنگیاں اور پھر طبلے بجنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اسے ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی اور ان سے پیچھے ہٹانااس کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ وہ بظاہر ایک آوارہ ہو گامگر درحقیقت وہ مریض ہو گا طاعون کا ،وہ مریض ہو گا ہیضے کا جو نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ ہزاروں اور قیمتی جانوں کو بھی ہلاک کرے گا۔پھر اس سے متاثر ہونے والے متعدی امراض کی طرح اور لوگوں کو متاثر کریں گے اور وہ اَور کو۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ملک کا کثیر حصہ اس لعنت میں گرفتار ہوجائے گا۔
پس بے کاری ایسا مرض ہے کہ جس علاقے میں یہ ہو اس کی تباہی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔پہلا بے کار اس لیے بناتھا کہ اس کے والدین نے اس کے لیے کام مہیا نہ کیا۔لیکن دوسرے بے کار اس لیے بنیں گے کہ وہ ایک بے کار سے متاثر ہو کر اس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور اس کی بد عادات کو اپنے اندر پید اکر کے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھیں گے کہ کہیں بیٹھے تو گالیا اور کہیں سر مار لیا، کہیں تاش کھیل لی،کہیں شطرنج کھیل لیا،کہیں جؤا کھیلنے لگ گئے۔غرض بے کاروں کی تمام تر کوشش ایسے ہی کاموں کے لیے ہو گی جو نہ ان کے لیے مفید نہ سلسلے کے لیے اور نہ مذہب کے لیے۔

بے کاری اقتصادی لحاظ سے لعنت ہے

پھر اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاری ایک لعنت ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دور کرنا چاہیے۔ہمارے ملک کی آمد پہلے ہی 6پائی فی کس ہے اور یہ ہر شخص کی آمد نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی آمد ڈال کر اوسط نکالی گئی ہے اور ان لوگوں کی آمد ڈال کر نکالی گئی ہے جن کی دو تین لاکھ روپیہ ماہوار آمد ہے۔ورنہ اگر ان کو نکال دیا جائے تو ہمارے ملک کی آمد فی کس 3پائی رہ جاتی ہے۔جس ملک کی آمدنی کا یہ حال ہو اس میں سمجھ لو کتنے بے کار ہوں گے اگر ملک کے تمام افراد کام پر لگے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ لیکن اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی دو آنے کماتاہے تو اس پر اتنے بے کاروں کا بوجھ ہوتاہے کہ اپنے لیے اس کی آمد دمڑی رہ جاتی ہے اور جو زیادہ کماتاہے اس کی آمد پر بھی اثر پڑتاہے ۔تو بے کاروں کی وجہ سے ایک تو دوسرے لوگ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ بے کار ان کے لیے بوجھ بنتے ہیں ۔ دوسرے جب ملک میں ایک طبقہ ایسا ہو جو آگے نہ بڑھنے والا ہو تو دوسرے لوگوں کا قدم بھی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتاکیونکہ بیکار مزدوری کو بہت کم کر دیتے ہیں۔ بے کار شخص ہمیشہ عارضی کام کرنے کا عادی ہوتاہے اور جب کسی کی بے کاری حد سے بڑھتی اور وہ بھوکوں مرنے لگتاہے تومزدوری کے لیے نکل کھڑا ہوتاہے لیکن چونکہ اسے سخت احتیاج ہوتی ہے اس لیے اگر ایک جگہ مزدور کو چار آنے مل رہے ہوں تو یہ دو آنے لے کر بھی وہ کام کر دے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارے مزدروں کی اجرت دو آنے ہوجائے گی اور لوگ کہیں گے کہ جب ہمیں دو دو آنے پر مزدو رمل جاتے ہیں تو ہم چار آنے مزدوری کیوں دیں۔پس وہ ایک بے کار ساری دنیا کے مزدوروں کی اجرت کو نقصان پہنچاتا اور سب کو دو آنے لینے پر مجبور کر دیتاہے ،یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں بے کاری زیادہ ہو ان میں مزدوری نہایت سستی ہوتی ہے کیونکہ بے کار مجبور ی کی وجہ سے کام کرتا اور باقی مزدوروں کی اجرتوں کو نقصان پہنچا دیتاہے۔لیکن جن قوموں میں بے کاری کم ہو ان میں مزدوری مہنگی ہوتی ہے۔ تو بے کار اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔بے کار شخص ہمیشہ مانگنے کاعادی ہو گا۔ دوسروں پر بوجھ بنے گا اور اگر کبھی مزدوری کرے گا مزدوروں کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔ پس اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاروں کا وجود سخت خطرناک ہے۔

بے کاروں کا وجود قومی لحاظ سے بھی خطرناک ہے

پھرنہ صرف اقتصادی لحاظ سے بے کاروں کا وجود خطرناک ہے بلکہ قومی لحاظ سے بھی ان کاوجود خطرناک ہے اگر کسی قوم میں دس ہزار میں سے ایک ہزار بے کار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے پاس سو میں سے صرف نوے شخص موجود ہیں اور ان پر بھی دس فیصدی کا بوجھ ہے۔ایسی قوم دنیا کی اور قوموں کے مقابلہ میں جن کا ہر فرد خود کمانے کا عادی ہو کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے ۔نیلامی میں اس قسم کا نظارہ دیکھنے کا موقع مل سکتاہے۔ایک شخص کے پاس ایک سو روپیہ ہوتاہے اور دوسرے کے پاس ایک سو ایک لیکن یہ سو روپیہ پاس رکھنے والا شخص وہ چیز نہیں لے سکتا جو صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے والا اس کا مخالف لے جاتاہے ۔اگر صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے سے نیلامیوں میں مخالف کامیاب ہو جاتا ہے تو جہاں سو کے مقابلہ میں کسی کے پاس نوے روپے ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتاہے ایسے شخص کا شکست کھا جانا یقینی ہے ۔
ہندوؤں کو دیکھ لو ان میں چونکہ بے کار کم ہیں اس لیے وہ ہر مرحلہ پر مسلمانوں کو شکست دے دیتے ہیں ۔ان کی قوم دولت کمانے کی عادی ہے اور گو وہ دنیا کی خاطر دولت کماتی ہے جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے۔ مگر اقتصادی اور قومی طور پر اُس کا نتیجہ ان کے لیے نہایت ہی خوش کن نکلتاہے۔
پس میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جولوگ بے کار ہیں وہ معمولی سے معمولی مزدوری کر لیں مگر بے کار نہ رہیں۔لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کیا گیااور اگر کیا گیا تو بہت کم حالانکہ اگر کوئی شخص بی۔اے ہے یا ایم۔اے اور اسے ملازمت نہیں ملتی اور وہ کوئی ایسا کام شروع کر دیتاہے جس کے نتیجہ میں وہ دو یا پانچ روپے ماہوار کماتاہے تو اس کا اسے بھی فائدہ ہو گا اور جب وہ کام میں مشغول رہے گا تو دوسروں کو بھی فائدہ ہوگااور اس سے عام لوگوں کو نقصان نہیں پہنچے گاجو بے کار شخص سے پہنچتاہے ۔بلکہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے اخلاق درست ہوں گے۔ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا روپیہ جو اس پر صرف کرتے تھے ضائع نہیں ہو گااور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس سے قوم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔غرضیکہ وہ اپنی اخلاقی حالت کو بھی درست کرے گا اور اقتصادی حالت کو بھی۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں جو لوگ اپنے بے کار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہمارے گھر سے روٹی کھا تاہے کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے یا میرا بچہ ہیضہ سے بیمارہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔جس طرح طاعون کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرور ت ہے بلکہ سارے شہر کو حق حاصل ہے کہ اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرے اور اس بیماری کو روکے۔ جس طرح ہیضہ کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سار ا شہر اس بات کا حق رکھتاہے کہ اس کے متعلق گھبراہٹ ظاہر کرے اور اس بیماری کو روکے اسی طرح جو شخص بے کار ہے اس کے متعلق تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے ہم خود روٹی کھلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔بلکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بے کاری کے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ وہ طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں کی طرح دوسرے بچوں کا خون چوستا اور انہیں بد عادات میں مبتلا کرتاہے۔تم ہیضہ کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،تم طاعون کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،مگر تم ہیضہ اور طاعون کے کیڑوں کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ پھیلیں گے اور دوسروں کو مرض میں مبتلا کریں گے اسی طرح تم یہ کہہ کر کہ ہم اپنے بچہ کو کھلاتے اور پلاتے ہیں اس ذمہ واری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے جو تم پر عائد ہوتی ہے بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے اس بیماری کو دور کر و ورنہ قوم اور ملک اس کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔پس یہ معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے ۔اگر ایک کروڑ پتی کا بچہ بھی بے کار ہے تووہ اپنے گھر کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی تباہ کر تاہے۔

دنیا کا سب سے خطرناک جرم آوارگی بے کاری کانتیجہ ہے

یاد رکھو!تمام آوارگیاں بے کاری سے پیدا ہوتی ہیں اور آوارگی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی جرم نہیں۔میرے نزدیک چور ایک آوارہ سے بہتر ہے بشرطیکہ ان دونوں جرائم کو الگ الگ کیا جا سکے اور اگر چور ی اور آوارگی کو الگ الگ کر کے میرے سامنے رکھا جائے تو یقینا میں یہی کہوں گا کہ چور ہونا اچھا ہے مگر آوارہ ہو نا بُرا۔قتل نہایت ناجائز اور ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اگر میری طرح کسی نے اخلاق کا مطالعہ کیا ہو اور ان دونوں جرائم کو الگ الگ رکھ کر اس سے دریافت کیا جائے کہ ان میں سے کون سا فعل زیادہ برا ہے؟تو یقینا یہی کہے گا کہ قتل کرنا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا کیونکہ ممکن ہے قاتل پر ساری عمر میں صرف ایک گھنٹہ ایساآیاہو جبکہ اس نے جوش میں آکر کسی شخص کو قتل کر دیا ہو لیکن آوارہ آدمی ساری عمر ذہنی طور پر قاتل بنا رہتاہے اور اپنی عمر کے ہر گھنٹہ میں اپنی روح کو ہلاک کرتا ہے۔ تم ایک قاتل کو نیک دیکھ سکتے ہو لیکن تم کسی آوارہ کو نیک نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہو سکتاہے ایک شخص نیک ہو لیکن اس کی عمر میں ایک گھنٹہ ایسا آجائے جبکہ وہ جوش میں آکر کسی کو قتل کر دے اور قتل کے بعد اپنے کیے پر پشیمان ہو اور دوسرے گھنٹہ میں ہی وہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے اور کہے اے میرے رب مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف فرما۔پس ہو سکتاہے وہ معاف کر دیا جائے لیکن آوارہ شخص خداتعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کیونکہ وہ مردہ ہوتاہے اس میں کوئی روحانی حس باقی نہیں ہوتی۔میرے نزدیک دنیا کا ہر خطرناک سے خطرناک جرم آوارگی سے کم ہے اور آوارگی مجموعہ جرائم ہے کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی تمام جرائم کا مجموعہ۔ایک بادشاہ کے ہاتھ کی قیمت بادشاہ کی قیمت سے کم ہے،ایک جرنیل کے ہاتھ کی قیمت جرنیل سے کم ہے۔ اسی طرح ہر جرم کی پاداش آوارگی سے کم ہے کیونکہ جرم ایک جز و ہے اور آوارگی اس کاکُل ہے۔ تم دنیا سے آوارگی مٹا ڈالو تمام جرائم خود بخود مٹ جائیں گے۔
تمام جرائم کی ابتدا بچپن کی عمر سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ آوارگی میں مبتلا ہوتاہے ۔تم بچے کو کھلا چھوڑ دیتے ہو اور کہتے ہو کہ بچہ ہے اس پرکیا پابندیاں عائد کریں؟اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خطرناک جرائم کا عادی بن جاتاہے۔اگر دنیا اپنے تمدن کو ایسا تبدیل کر دے کہ بچے فارغ نہ رہ سکیں تو یقینا دنیا میں جرائم کی تعداد معقول حد تک کم ہو جائے۔لوگ اصلاحِ اخلاق کے لیے کئی کئی تجویزیں سوچتے اور قسم قسم کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ سب ناکام رہتی ہیں اس کے مقابلہ میں اگر بچوں کو کام پر لگا دیا جائے اور بچپن کی عمر فارغ عمر نہ قرار دیا جائے تو نہ چوری باقی رہے،نہ جھوٹ،نہ دغا،نہ فریب اور نہ کوئی اور فعل بد۔بالعموم لوگ بچپن کی عمر کو بیکاری کا جائز زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بے کاری بھی ویسی ہی ناجائز ہے جیسے بڑی عمر میں کسی کا بے کار رہنا۔

بچہ کے کان میں اذان دینے میں ایک لطیف حکمت

چنانچہ ہماری شریعت نے اس کو خصوصیت سے مدنظر رکھا ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے متعلق امت محمدیہ کو ہدایت دی ہے،پاگل اور دیوانے کہتے ہیں کہ یہ بے معنی حکم ہے حالانکہ یہ بہترین تعلیم ہے جو بچوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔ آپ ؐ فرماتے ہیں :جب بچہ پیدا ہوتواس کے دائیں کان میں اذان کہو اور بائیں میں اقامت۔وہ بچہ جو ابھی بات کو سمجھتا ہی نہیں ،وہ بچہ جو آج ہی پیدا ہو ا ہے ،رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج ہی اس سے کام لو اور پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو۔کیا تم سمجھتے ہو کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمہیں اس کے کان میں اذان دینی چاہیے لیکن دوسرے اور تیسرے دن نہیں؟کیا پہلے دن بچہ اذان کو سمجھ سکتاتھا مگر مہینہ کے بعد کم فہم ہو جاتاہے کہ تم اس حکم کو نظر انداز کر دیتے ہو؟یا سمجھتے ہو کہ پہلے دن تو وہ اس قابل تھا کہ اس سے کام لیا جاتا لیکن سا ل دو سال گزرنے کے بعد وہ ناقابل ہو گیا ہے؟جو شخص ہمیں یہ نصیحت کرتاہے کہ تم بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو یقینا وہ اس تعلیم کے ذریعہ ہمیں اس نکتہ سے آگاہ کرتاہے کہ بچہ کا ہر دن تعلیم کا دن ہے اور ہر روز اس کی تربیت کا تمہیں فکر کر نا چاہیے۔مگر امت محمدیہ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا؟ہمیں خداتعالیٰ نے ایسا معلم دیا تھا جس کا ہر ہر لفظ اس قابل تھا کہ دنیا کے خزانے اس پر نچھاور کر دیے جائیں۔ اس نے ہمیں معرفت کے موتی دیے،علوم کے خزانے بخشے،اور ایسی کامل تعلیم دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔مگر افسوس!لو گوں نے اس کی قدر نہ کی۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو پیدا ہوا مگر اس کے کان میں اذان نہ کہی گئی پھر کیوں تم نے اب تک یہ نکتہ نہیں سمجھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیکاری کو سب سے بڑی لعنت قرار دیاہے؟اور تمہار ا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس لعنت سے بچاؤ۔تم دنیا میں دیکھتے ہو کہ جب کارخانہ والوں کے سپرد کوئی مزدور کیا جاتاہے تو وہ اس کانام رجسٹر میں درج کر لیتے ہیں اور اس سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کارخانہ والوں نے کسی مزدو ر کا نام رجسٹر میں درج کر لینے کے بعد اسے دو چار سال کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہو؟اگر نہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمہارے منہ سے کسی بزرگ کے ذریعہ تمہارے بچوں کے کانوں میں اذان دلا کر کہا کہ اب اس کا نام میری امت کے رجسٹر میں درج ہو گیا تم نے اس بچے کا نام رجسٹر میں درج تو کرا لیا مگر پھر اسے کارخانہ سے چھٹی دے دی۔پس اس غفلت اور کوتاہی کا تم پر الزام عائد ہوتاہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نہیں۔ہر نبی اپنی امت کا ذمہ دار ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہو تو اس کے بعد قیامت کے دن اگر محمدصلی اﷲ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ پوچھے کہ اے محمدؐ یہ تیری امت کے بیکار جو چور، قاتل، جھوٹے، دغاباز، فریبی اور مکّار بن گئے اور خون چوسنے والی جونکوں کی طرح انہوں نے ظلم سے دوسروں کی اولادوں کو بھی تباہ کیا ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کہہ دیں گے اے خدا!اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میں نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اسی دن اس کے کان مین اذان دو جس کایہ مطلب تھا کہ اسی دن بچوں کو کام پر لگا دو اور ان کی نگرانی کرو۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو یہ جواب دے کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے دیں گے مگر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہو جائے گی جن کے گھروں میں بے کار بچے رہے اور انہوں نے ان کی بیکاری کو دور کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا۔
پس یہ غلطی ہے کہ ہمارے ملک میں بچپن کے زمانہ کو بے کاری کا زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بچپن کا زمانہ بے کاری کا زمانہ ہے تو پھر چوری چوری نہیں اور فریب فریب نہیں،تمام بدکاریاں اور تمام قسم کے فسق و فجور بچپن میں ہی سیکھے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر کے لیے لعنت کا طوق بن کر گلے میں پڑ جاتے ہیں۔
پس بے کاری کا ایک دن بھی موت کا دن ہے۔جب تک ہماری جماعت ا س نکتہ کو نہیں سمجھتی حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو سمجھانے والے دیے ہیں ،اس وقت تک وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔دیکھو! رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات کہی مگر لوگوں نے نہ سمجھی۔اب میں نے بتائی ہے اور یہ میں آج ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میں مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں کئی دفعہ اس بات کو دہرا چکا ہوں ۔مجھے اﷲ تعالیٰ نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ میں اسلام کے کسی حکم کو بھی لوں اسے ہر دفعہ نئے رنگ میں بیان کر سکتااور نئے پیرایہ میں لوگوں کے ذہن نشین کر سکتاہوں۔مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ تم مختلف رنگوں میں ایک بات سنو مزے لو اور عمل نہ کرو اس کے نتیجہ میں تمہار ا جرم اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمہیں ایک ایسا شخص ملا جس نے ایک ہی بات مختلف دلکش اور مؤثر پیرایوں میں تمہارے سامنے رکھی مگر پھر بھی تم نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔پس تحریک جدید میں مَیں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ بے کاری کو دور کیا جائے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ237تا244)

قادیان میں تجارت کا رنگ کس طرح بدلا

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ6؍دسمبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’قادیان کی تجارت کا وہ رنگ جو آج سے بیس سال پہلے تھا آج نہیں۔ آج سے بیس سال پہلے صرف دو تین احمدی تاجر تھے اور وہ بھی ہمیشہ شکوہ کرتے رہتے تھے کہ ان کا کام نہیں چلتا اور یہ کہ وہ مقروض رہتے ہیں۔اٹھارہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارا ایک موروثی مر گیا۔ قانوناً اس کی زمین ہمیں ملتی تھی ہم نے اُس پر قبضہ کرنا چاہا مگر بعض لوگ جو متوفی کے رشتہ دار نہ تھے جبراً اُس کی زمین پر قبضہ کرنے پر آمادہ ہوئے اور انہوں نے ہمارے آدمیوں کا مقابلہ کیا اور ان پر حملہ آور ہوئے اور پھر انہوں نے اسے ہندو مسلم سوال بنا دیااور یوں شکل دے دی کہ گویا احمدی ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم کرتے ہیں حالانکہ مرنے والا ہمارا موروثی تھا اور لاولد تھااور اس کی زمین ہمیں ہی ملتی تھی۔ چنانچہ جب عدالت میں یہ معاملہ گیاتو ہمار ا حق تسلیم کیا گیا اور اب تک ہم اس پر قابض ہیں لیکن اس زمین کے جھگڑے کو قومی سوال بنا دیا گیا۔اسی سلسلہ میں ایک مصنوعی فساد کھڑا کر کے یہ مشہور کر دیا گیا کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں۔میں اس قصہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کئی دفعہ میں اس واقعہ کو بیان کر چکاہوں۔بہر حال اُس وقت ایسے سامان پیدا کر دیے گئے تھے کہ اگر مجھے وقت پر معلوم نہ ہو جاتا تو اُس دن بیسیوں خون ہو جاتے۔مگرمیں اُس وقت اتفاقاً گلی کے اوپر کے کمرہ میں کھڑکی کے پاس کھڑاتھااور جب میں نے لوگوں کے دوڑنے کا شور سنا تو انہیں روک دیا انہی ایام میں ہمارے طالب علم ایک دفعہ بڑے بازار سے گزر رہے تھے تو ایک ہندو مٹھائی کے تاجر نے اپنی چھابڑیاں زمین پر پھینک دیں اور یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ احمدیوں نے اس کی دکان لوٹ لی ہے یہ حالات ایسے تھے کہ میں نے سمجھ لیا خداتعالیٰ ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اس طرح بلا قصور اور خطا جماعت کو بدنام کیا جاتا اور فساد میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی اس خیال پر میں نے اسی مسجد میں تمام دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو اگر تم فساد ات سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ آئندہ ان لوگوں سے تعلق نہ رکھوکہ جو اس طرح تم کو بدنام کرتے ہیں ۔آج اگر انہوں نے مٹھائی کی چھابڑیاں خود زمین پر گِرا کر یہ مشہور کر دیا ہے کہ احمدیوں نے انہیں لیا۔ تو کیا پتہ ہے کہ کل کو کوئی اور تاجر کپڑوں کے تھان گلی میں پھینک کر کہہ دے کہ یہ تھان احمدی لُوٹے لیے جا رہے ہیں۔یا اپنی صندوقچی کے متعلق کہہ دیں کہ یہ احمدیوں نے توڑ ڈالی۔ پس چونکہ ایسے حالات رونما ہو گئے ہیں جن سے فتنوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے اس لیے جماعت کی عزت اور اس کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ خاص احتیاط سے کام لیا جائے۔ پس یا تو آپ لوگ جماعتی ذمہ واری سے سلسلہ کو آزاد کردیں اور جو چاہیں کریں اور یا پھر اپنے پر یہ پابندی کر لیں کہ صرف انہی لوگوں سے لین دین کیا جائے جو ہم سے تعاون اورصلح رکھنے کے لیے تیار ہوں۔میں نے کہا میں آپ لوگوں کو کسی خاص طریق پر مجبور نہیں کرتا ہاں چونکہ آپ لوگوں نے خود میرے پاس بیان کیا ہے کہ بعض ہندوؤں نے اپنی چھابڑیاں زمین پر پھینک دیں اور مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں لوٹ لیا حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی۔اسی طرح آپ لوگ ہی یہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے فتنہ پردازی کے لیے یہ خبر مشہور کر دی کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں اور اس طرح احمدیوں کو اشتعال دلوا کر لڑوانا چاہا۔پس اگر آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو میں اُس جگہ جانے کی اجازت نہیں دے سکتا جہاں اس قسم کے فتنہ کے سامان پیدا کیے جا رہے ہیں۔آپ لوگوں میں سے کوئی شخص اپنی ذمہ واری پر اُدھر جائے تو میں اُسے روکنا نہیں چاہتا۔لیکن وہ اپنا آپ ذمہ وار ہو گا۔جماعت اس کے متعلق کسی قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ جماعت بحیثیت جماعت ایسے فتنوں کے وقت میں آپ کی مناسب امداد کرے تو پھر آپ اقرار کریں کہ آپ ان لوگوں سے سودا نہیں خریدیں گے کہ جو اس قسم کے فساد کھڑا کرتے ہیں صرف ان لوگوں سے سودا خریدیں گے جو آپ کے ساتھ شریفانہ طور پر تعاون کرنا چاہیں گے۔چنانچہ اُسی وقت ایک رجسٹر کھولا گیا اور میں نے کہا جو لوگ یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اپنا سودا صرف احمدی دکانداروں سے یا دوسری اقوام کے ان دکانداروں سے خریدیں گے جو ہم سے تعاون کا اقرار کریں وہ اس میں اپنا نام لکھا دیں اور جو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کے آپ ذمہ دار بن سکتے ہیں یا سب ہندوؤں سے وہ سودا خریدنا چاہتے ہیں اور ہندوؤں اور سکھوں میں انہیں رسوخ حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں کوئی خطرہ نہیں وہ اپنا نام الگ لکھا دیں۔اس پر صرف سات احمدیوں نے کہا کہ ہم ہندوؤں سے سودا خریدیں گے لیکن باقی سب نے کہا کہ خطرہ حقیقی ہے اور ہم ان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدیں گے جو ہمارے ساتھ معاہد ہ میں شامل نہ ہوں۔ اس معاہدہ کے مطابق صرف ایک ہندو دکاندار معاہدہ میں شامل ہوا۔باقی نے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینو ں میں ہی احمدیوں کی کئی دکانیں کھل گئیں۔اس وقت سے ترقی کرتے کرتے آج یہ حالت ہے کہ قادیان کی تجارت کا اسی فیصدی حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے اور گو ہماری ظاہر ی تجارت بھی دوسروں سے نمایاں ہے لیکن بعض اندرونی تجارتیں ہیں جیسے بعض عورتیں تجارت کرتی ہیں پھر بعض عارضی طور پر تجارت کر لیتے اور بعد ازاں چھوڑ دیتے ہیں ان تمام تجارتوں کو اگر ملا لیا جائے تو 80 فیصد تجارت احمدیوں کی بنتی ہے ۔حالانکہ اُس وقت ایک فیصدی تجارت بھی احمدیوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔اس میں شبہ نہیں کہ ابتدا میں اس کام کے شروع کرتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بار بار لوگوں کو ہدایتیں دینی پڑتیں اور پھر ان لوگوں کے لیے جرمانے مقرر تھے جو معاہدہ میں شامل نہ ہونے والوں سے سودا خریدتے اور اپنے عہد کو توڑ دیتے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ جماعت کو اس بات کی عادت ہو گئی اب بھی بعض لوگ اس معاہدے کو کبھی کبھی توڑ دیتے ہیں مگر بہت کم اور جو پابندی کرتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ شروع میں بے شک ہمیں نقصان بھی ہوا چنانچہ جماعت کے لوگوں کو مہنگا سودا خریدنا پڑتا بعض دفعہ بٹالہ اور بعض دفعہ امرتسر سے چیزیں منگوانی پڑتیں لیکن آخر نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کا اکثر حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں آ گیا اور قادیان کی ترقی جتنی سُرعت سے اس کے بعد ہوئی اتنی سُرعت سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔بلکہ اس معاہد ہ کے نتیجہ میں سینکڑوں آدمیوں کو قادیان میں بسنے کا موقع مل گیا۔کسی کو معماروں کی صورت میں کسی کو نجاروں کی صورت میں کسی کو لوہارو ں کی صورت میں اور کسی کو دکانداروں کی صورت میں اور میں سمجھتاہوں اس تحریک کے نتیجہ میں کم از کم تین ہزار آدمی قادیان میں بڑھے ہیں اور اس سے جو مرکزِ سلسلہ کو تقویت پہنچی اور جماعت کی مالی حالت کی درستی پر اس کا اثر پڑا وہ مزید برآں ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے دوست اب بھی ہمت کریں تو ارد گرد کے دیہات کی تجارت کو بھی اپنے قبضہ میں لا سکتے ہیں۔ پس استقلال سے کام لینے کی ایک مثال قادیان کی موجود ہے اور اُس وقت باربار لوگ کہتے تھے کہ ہندوؤں سے قرض مل جاتاہے احمدی سرمایہ دار نہیں اور احمدی زمیندار کہتے ہیں کہ ان کی گردنیں ساہوکاروں کے قبضہ میں ہیں۔اگر پہلے طریق کو ترک کر دیا گیا تو وہ نوٹس دے کر ہمیں پکڑوا سکتے ہیں۔ یہ سب مشکلات موجود تھیں صرف ملازمت کا سوال نہیں تھا۔لیکن باقی دو باتیں موجود تھیں یعنی ایسی قوم سے مقابلہ تھا جس کے ہاتھ میں سینکڑوں سال سے تجارت چلی آرہی ہے پھر مقابلہ تھا اُن ساہوکاروں سے جن کے قبضہ میں زمینداروں کی گردنیں تھیں۔مگر استقلال اور ہمت سے کام لیتے ہی حالت بدل گئی اور اب یہ حال ہے کہ گو یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ہم غیروں پر ظلم کرتے ہیں مگر مخالفوں کو بھی ہماری طاقت اتنی زیادہ نظر آتی ہے کہ انہوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔اگر ہماری طاقت میں نمایاں فرق نہ ہوتا تو وہ یہ الزام ہم پر کس طرح لگا سکتے تھے۔ان کا یہ الزام لگانا بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اب احمدیوں کی قادیان میں اتنی طاقت بڑھ چکی ہے کہ اگر ہم ان پر یہ الزام لگائیں کہ یہ غیروں پر ظلم کرتے ہیں تو لوگ اسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
غرض مسلمان اگر استقلال سے کام لیں تو اب بھی حقوق حاصل کر سکتے ہیں اور کوئی جھگڑے کی بات نہیں رہتی۔ ہم نے قادیان میں ہندوؤں سے نہ فساد کیا نہ جھگڑابلکہ انہیں یقین دلایا کہ اگر کوئی ہندو دکاندار ہمیں تسلی دلا دے کہ وہ ان جھگڑوں میں شامل نہیں ہو گا تو ہم اس سے بھی معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں چنانچہ جیسا کہ بتا چکا ہوں ایک ہندو دکاندار نے معاہدہ کیا اور ہم اس وقت سے برابر ان سے سودا خریدتے چلے آرہے ہیں وہ صرافے کا کام کرتے ہیں۔ اب تو تحریک جدید کے تحت ہم نے زیور بنوانے ترک کر دیئے ہیں لیکن جب تک زیور بنوائے جاتے تھے تو جماعت کے لوگ عموماً انہی سے بنواتے تھے اور چونکہ زیورات کو بیچنا اب بھی منع نہیں اس لیے اگر زیور بیچے جاتے ہیں تو اکثر انہیں کے پاس ۔میرے پاس جو چندے میں زیورات آتے ہیں یا تحریک جدید میں حصہ لینے کے لیے بعض عورتیں اپنے زیور بھیج دیتی ہیں یا صدقہ و خیرات کی مد میں بعض دفعہ زیور آجاتاہے وہ ہمارا دفتر اکثر انہی کے پاس بھجواتاہے۔پس ہم نے بائیکاٹ نہیں کیااور نہ ہم بائیکاٹ کو جائز سمجھتے ہیں ۔ہم نے صرف فتنہ سے بچنے کے لیے ایک صورت نکالی تھی جو بالآخر کامیاب ہوئی اسی طرح مسلمان بھی کام کر سکتے تھے اور بغیر آپس کے تعلقات کو خراب کرنے کے کام کر سکتے تھے۔مگر کس چیزنے انہیں کام نہیں کرنے دیا صرف عدم استقلال نے ۔ورنہ مسلمان آج بھی وہ قربانیاں کر سکتے ہیں جو یورپ کے لوگ بھی نہیں کر سکتے جس وقت ایک مسلمان کے دل میں غیر ت پیدا ہوتی ہے حیر ت آتی ہے کہ وہ کس طرح انجام سے لاپرواہ ہو کر کام کر جاتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ768تا771)

پیشہ ور لوگ دوسرے ممالک میں جائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍نومبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ پیشہ ور لوگ بھی مفید ہو سکتے ہیں اچھے لوہار دنیا کے ہر علاقہ میں خصوصاً آزاد ملکوں میں جہاں ہتھیار وغیرہ بنتے ہوں بہت کامیاب ہو سکتے ہیں چین اور افریقہ کے کئی علاقوں میں ان کی بہت قدر ہوسکتی ہے عرب میں نہیں کیونکہ وہاں کے لوگ تلوار بنانے میں ماہر ہیں۔اسی طرح ڈرائیوری جاننے والوں کے لیے بھی کافی گنجائش ہو سکتی ہے۔کسی ملک میں پہنچ کر کوئی سیکنڈ ہینڈ لاری یا موٹر لے کر فوراً کام شروع کیا جا سکتاہے۔بی اے مولوی فاضل اور میٹرک پاس بھی کام دے سکتے ہیں۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وہ ہاتھ سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔پھیری کے ذریعہ پہلے دن ہی روزی کمائی جا سکتی ہے۔ہم تو کچھ مدد بھی دیتے ہیں لیکن ہمت کرنے والے نوجوان تو بغیر مدد کے بھی کام چلا سکتے ہیں……

بیکار لوگوں کو مدد دینے کے ساتھ ان کو کام پر بھی لگایا جائے

میرا ارادہ ہے کہ اس سال کی تحریک میں بے کاری کو دور کرنا بھی شامل کر لیا جائے۔اس وقت غریب اور بے کارلوگوں کو مدد دی جاتی ہے ۔میں چاہتاہوں کہ آئندہ ان کو کام پر لگایا جائے۔ہماری آمد کا بہت سا حصہ تو تبلیغ پر صرف ہوتا ہے،کچھ تعلیم پر،کچھ مرکز کے کارکنوں پر اور اسی طرح لنگر خانہ پر بھی۔سالانہ جلسہ کے اخراجات کو ملا کر پچیس چھبیس ہزار روپیہ خرچ ہوتاہے اس کے بعدغرباء کی امداد کے لیے کم رقم بچتی ہے۔مگر پھر بھی تعلیمی و ظائف وغیرہ ملا کر تیس پینتیس ہزار روپیہ کی رقم صرف ہوتی ہے مگر اتنی بڑی جماعت کے لحاظ سے یہ پھر بھی کم رہتی ہے اور کمی کی وجہ سے کئی لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ کئی شکوے بھی کرتے ہیں ۔حالانکہ مومن کو شکوہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔اُسے چاہیے کہ بجائے دو روپے نہ مل سکنے کا شکوہ کرنے کے ایک جو ملا ہے اس کا شکر کرے۔بہرحال غربا ء کو پوری امداد نہیں دی جاتی اور نہ دی جا سکتی ہے اور اس کی وجہ قلت سرمایہ ہے۔
پس اس تکلیف کا اصل علاج یہی ہے کہ بے کاری کو دور کیا جائے۔میں نے اس کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر اس نے اپنا کام صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ درخواستوں پر امداد دیے جانے کی سفارش کردے۔حالانکہ یہ کام تو میں خود بھی آسانی کے ساتھ کر سکتاتھا بلکہ غرباء چونکہ مجھ سے زیادہ ملتے اور اپنے حالات بیان کرتے رہتے ہیں اس لیے ان سے بہتر طور پر کر سکتاتھا۔پس امدادی رقم کی تقسیم کے لیے کسی امداد کی تو مجھے ضرورت نہیں۔میر ی غرض تو یہ تھی کہ بے کاروں کے لیے کام مہیا کیا جائے……
امداد بے کار ان کے متعلق میرا ارادہ یہ ہے کہ رأ س المال کو خرچ نہ کیا جائے بلکہ بعض نفع مند کاموں پر روپیہ لگاکرجو نفع حاصل ہو وہ اس مد میں خرچ کیا جائے اور بے کاروں کے لیے لوہار، ترکھان،چمڑے کا کام۔مثلاً اٹیچی کیس اور بوٹ وغیرہ بنانا سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے۔ہم سالانہ قادیان کے غرباء پر پندرہ ہزار روپیہ کے قریب صرف کرتے ہیں،پانچ ہزار تو زکوٰۃ کا ہوتاہے پھر کئی ایک کو لنگر خانہ سے روٹی دی جاتی ہے پھر دارالشیوخ کے طلباء ہیں جن کے لیے جمعہ کے روز آٹا جمع کیا جاتاہے ،عیدین کے موقع پر بھی کچھ روپیہ خرچ ہوتاہے اور میں کچھ روپیہ اپنے پاس سے بھی خرچ کرتاہوں اور یہ سب ملا کر قریباً پندرہ ہزار ہو جاتا ہے ،اس کی بجائے اگر ہم فی الحال پانچ ہزار بھی تجارتی کاموں پر لگا دیں تو اس سے بہت زیادہ فوائد ہوں گے۔
بے کاروں کے اندر کام سیکھنے کے بعد قربانی کی روح اور خود اعتمادی پیدا ہوگی اور مانگنے کی وجہ سے جو خِسّت پیدا ہوجاتی ہے وہ دور ہو گی اور پانچ ہزار روپیہ سے ہم سو دو سو آدمی پال سکتے ہیں اور ایسے کام نکالے جائیں گے جن میں عورتیں اور نابینا اشخاص بھی حصہ لے سکیں۔مثلاً ٹوکریاں بنانا،چِکیں بنانا،اِزاربند بنانا وغیرہ یہ ایسے کام ہیں جنہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔اگر شرو ع میں ہمیں نقصان بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔مثلاً ہم نے دس ہزار خرچ کیا اور آٹھ ہزار کی آمد ہوئی تو پھر بھی ہم نفع میں رہے۔کیونکہ ان لوگوں کی اگر ہم روپیہ سے امداد کرتے تو غالباً پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوتی۔اگر اﷲ تعالیٰ اس سلسلہ میں برکت دے تو موجودہ بے کاروں کو کام پر لگانے کے بعد باہر سے بھی بے کاروں کو بلایا جا سکتاہے اور اس طرح یہ کام قادیان کی ترقی کا موجب بھی ہو سکتاہے……

چلنے کی بجائے بھاگیں

میں نے لنڈن کی گلیوں میں کسی آدمی کو چلتے نہیں دیکھا سب بھاگے پھرتے ہیں۔جب میں وہاں تھا تو ایک دن مجھ سے حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہاں کسی آدمی کوچلتے بھی دیکھا ہے ؟میں نے کہا کہ نہیں یوں معلوم ہوتاہے کہ گویا کسی قریبی کے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے اور اسے بجھانے جارہے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے وہ لوگ چلتے ہیں۔پس مجھے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو خود پاگل ہوں اور دوسروں کو پاگل کر دیں۔اتنے بڑے ثواب کا کام ہے کہ ایسے شخص کا نام صدیوں تک زندہ رہ سکتاہے اور اگر روپیہ آجائے تو ایسے لوگوں کی خدمت کرنے سے بھی سلسلہ کو دریغ نہیں ہو سکتا۔مثلاً اگر پندرہ ہزار منافع ہو جائے تو اس میں سے کام کرنے والے کو چار پانچ سو یا ہزار دینے میں بھی کیا عذر ہو سکتاہے؟

معذورں کے سوا کوئی بیکار نہ رہے

گویا اس کام میں دنیوی طورپر بھی فائدہ ہونے کا امکان ہے۔جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ یہ بھی مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کیے جائیں؟میرے ذہن میں تو لکڑی کا کام مثلاً میز کرسیاں بنانا، لوہے کاکام جیسے تالے،کیل ،کانٹے اور اسی قسم کی دوسری چیز یں جو دساور کے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں،چمڑے کا کام یعنی بوٹ،اٹیچی کیس،وغیرہ چیزیں تیار کرانا ہے۔ہماری جماعت میں ہی ان کی کافی کھپت ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ ازار بند،پراندے اور اسی قسم کی کئی دوسری چیزیں ہیں ۔گوٹہ کے استعمال سے میں نے روک دیا ہے لیکن اگر باہر اس کی کھپت ہو سکے تو بھی تیار کرایا جا سکتاہے۔میں نے جہاں تک عقل کا کام تھا یہ سکیم تیار کی ہے باقی تجربہ سے جوحصہ تعلق رکھتاہے اس کے بارہ میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد تجربہ کار دوست اطلاع دیں۔میری تجویز یہ ہے کہ عورت،مرد،بچہ،بوڑھا ہر ایک کو کسی کام پر لگا دیا جائے اور سوائے معذوروں کے کوئی بے کار نہ رہے اس طرح ہجرت کا سامان بھی پیدا ہو سکتاہے اب تو ہم ہجرت سے روکتے ہیں مگر اس صورت میں باہر سے لوگوں کو بلا سکیں گے۔
میں چاہتاہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کما کر کھانے کا عادی ہو۔میرا ارادہ ہے کہ تحریک جدید کے طلبا کو بھی ایسے کام سکھائے جائیں تا ان میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح پیدا ہو۔غریب امیر کا امتیاز مٹ جائے اور نوکری نہ ملے تو کوئی پیشہ ان کے ہاتھ میں ہو۔پڑھے لکھے لوگ آج کل دس دس روپیہ کی چپڑاسی کی نوکری کے لیے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں حالانکہ اس طرح کے کاموں سے وہ سو پچاس روپیہ ماہوار کما سکتے ہیں۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ219تا225)

دیانت دار تاجر وں کی ضرورت

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ15؍نومبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں نے ایک دفعہ جلسہ میں تقریر کی اور اس میں کہا کہ ہماری جماعت میں مال تو ہے مگر دیانت دار تاجر نہیں ملتے۔شروع شروع میں میرے پاس بہت سے ایسے لوگ آتے تھے کہ ہمارے پاس روپیہ ہے وہ کسی کام میں لگوا دیں۔اب بھی آتے ہیں مگر اب چونکہ لوگوں کوپتہ لگ گیا ہے کہ میں ایسے روپیہ کو رد کر دیتاہوں اور اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، اس لیے کم آتے ہیں۔تو میں نے بیان کیا کہ میرے پاس لوگ روپیہ لاتے ہیں اگر دیانت دار تاجر مل سکیں تو ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے اور روپیہ والوں کو بھی۔اس تقریر کے بعد پانچ سات رُقعے میرے پاس آئے کہ آپ کا سوال تو یہی تھا نا کہ دیانتدار آدمی نہیں ملتے۔سو وہ دقّت دور ہو گئی اور ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔آپ ہمیں روپیہ دلوائیں ہم دیانت داری سے کام کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ سب کے سب ایسے تھے جن کے پاس پھوٹی کوڑی کا امانت رکھنا بھی میں جائز نہ سمجھتاتھا اور بعد میں بعض ان میں سے خیانت میں پکڑے بھی گئے تو صرف منہ کا دعویٰ کچھ نہیں بلکہ عمل سے اس کی تائید ہونی چاہیے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ706)

راز۔تجارت میں کامیابی کا ایک گُر

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ16؍اگست1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’تجارت کتنی اعلیٰ چیز ہے اور قوموں کی ترقی کے لیے کس قدر ضروری سمجھی گئی ہے مگر اس میں بھی راز رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ راز بتا دیے جائیں تو تجارت کامیاب نہیں ہو سکتی۔تاجر کبھی نہیں بتائے گا کہ وہ سستا سودا کہاں سے خریدتاہے کیونکہ اگر وہ یہ بتا دے تو اس کا ہمسایہ سودا گر بھی وہاں سے سودا خرید لائے اور اس طرح اس کا مقابلہ کرنے لگے۔اسی طرح تاجر کبھی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی چیز کہاں سے خریدتاہے کیونکہ اگر وہ بتا دے تو دوسرا تاجربھی وہاں سے اعلیٰ چیزیں خرید لائے گااور اس کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے گا۔مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ لاہور گیا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا زمانہ تھا وہاں ہمارے ایک دوست تاجر ہیں جو بائیسکلوں کی تجارت کرتے ہیں ۔میں کسی کام کے لیے ان کے پاس بیٹھا تھا کہ باتیں کرتے ہوئے ان کے پاس ایک تار پہنچا انہوں نے جونہی اسے کھولا اور پڑھا معاً کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے آپ اجازت دیں تو میں دس منٹ کے لیے باہر جانا چاہتاہوں یہ کہتے ہی وہ بائیسکل پر سوار ہوئے اور دیوانہ وار اسے دوڑاتے ہوئے چلے گئے۔میں حیران ہوا کہ یہ کیسا تار آیا ہے جس نے انہیں اس قدر بے تاب کر دیا ہے۔آخر بیس پچیس منٹ کے بعد وہ آئے اور کہنے لگے میں ایک منٹ لیٹ پہنچا ورنہ آج مجھے سینکڑوں کا نفع ہو جاتا۔میں نے پوچھا بات کیا ہوئی؟ انہوں نے کہا مجھے تار پہنچا تھا کہ ڈن لوپ کے بائیسکلوں کے ٹائروں کا بھاؤ مہنگا ہو گیا ہے مال روڈ پر ٹائروں کی ایک دکان تھی میں وہاں پہنچا اور اگرمیں اُس سے ٹائروں کا سودا کر لیتا تو آج کئی سوکا مجھے نفع ہو جاتا کیونکہ میں نے یہ اندازہ کیا تھا کہ اس کے پاس تار میرے بعد پہنچے گا اور چونکہ تار والے نے راستے میں اور تار دینے تھے اس لیے میں اس خیال میں رہا کہ اس کے پاس تار پہنچتے وقت تک میں اس سے سودا کر چکوں گااور جب بعد میں اسے تار پہنچ گیا تو میں کہوں گا کہ میرے سودے پر اس بھاؤ کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔لیکن جب میں وہاں پہنچا اور ٹائروں کے متعلق میں نے سودا کیا تو اسی وقت تار بھی پہنچ گیا اور اس طرح میرا سودا رہ گیا یہ کتنا جائز مقابلہ ہے مگر اس میں بھی راز سے پہلے واقف ہو جانے کی وجہ سے ایک شخص فائدہ اُٹھا سکتاہے اور دوسرا نقصان اُٹھا سکتاہے ۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ498،499)

بیکاری کام کرنے کی رو ح کو کچل دیتی ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍مئی1935ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’ایک نصیحت ترک بے کاری کے متعلق تھی۔اس پر بھی بہت کم عمل کیا گیا ہے اور بہت کم ہمت دکھائی گئی ہے۔جھوٹی نام و نمود کی قربانی بہت مشکل ہوتی ہے ۔تعلیم یافتہ بے کار یہ ہمت نہیں کرتے کہ ’’الفضل‘‘کے پرچے بغل میں دبا کر بیچتے پھریں۔میں امید کرتاہوں کہ نوجوان اس مرض کو دور کریں گے اور والدین بھی اپنی اولا د سے اس مرض کو دور کرانے کی کوشش کریں گے۔یہ مرض قوم کی کام کرنے کی روح کو کچل دیتا ہے۔پھر میں نے ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت کی تھی،اس کی طرف بھی کم توجہ کی گئی ہے۔میں نے کہا تھا کہ اگر قادیان کی جماعت کوئی ایسے کام پیدا کرے تو میں بھی دوستوں کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہوں گا لیکن ابھی تک کوئی ایسا کام پیدا نہیں کیا گیا۔‘‘

(احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہر گز کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے۔انوار العلوم جلد 14صفحہ21،22)

ماں باپ سنگدل بن کر بیکار بچوں کو کام پر لگائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1934ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں تحریک جدید کے مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ احباب کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں،سادہ کھانا کھائیں،سادہ کپڑا پہنیں،دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں،کوئی احمدی بیکار نہ رہے۔ اگر کسی کو جھاڑودینے کا کام ملے تو وہ بھی کرلے اس میں بھی فائدہ ہے۔بہر حال کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔اس کے جو فوائد ہیں وہ میں اس وقت نہیں بیان کر سکتا کیونکہ وقت تھوڑا ہے مگر یہ ضرور کہتاہوں کہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بے کار نہ رہے۔ماں باپ سنگدل بن کر اپنے بیکار لڑکوں سے کہہ دیں کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا ہے اب تم جوان ہو جاؤ اور خود کما کر کھاؤ۔ بے شک یہ سنگدلی ہے مگر اس پیار اور محبت سے ہزار درجہ بہتر ہے جو بے کاری میں مبتلا رکھتی ہے……

اخبارات فروخت کریں

میں نے کئی بار اخبارات کی ایجنسیاں قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔اگراحباب کوشش کریں تو اس طرح ہزاروں کی تعداد میں پرچے نکل سکتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح مہینہ میں روپیہ ڈیرھ روپیہ سے زائد آمد نہیں ہو سکتی مگر میں کہتاہوں کہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ صفر سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے اور آج کل تو اس سے ایک شخص ایک مہینہ تک کھانا کھا سکتاہے۔پس میں تمام جماعتوں کو ہدایت دیتاہوں کہ اپنی اپنی جگہ کے بے کاروں یا ان کو جنہیں اپنے دوسرے کاموں سے فرصت مل سکتی ہے اخبارات فروخت کرنے کے کام پر لگادیں۔غر ض ہر رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر احیا چاہتے ہوتو دنیا میں پھیل جاؤ

میں تمہیں ایک طرف تو یہ کہتاہوں کہ جاؤ نکل کر تمام دنیا میں پھیل جاؤ اور دوسری طرف یہ کہتاہوں کہ جب تمہیں مرکز سلسلہ سے آواز آئے کہ آجاؤ تو لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جاؤ یہ آنا جسمانی طورپر بھی ہو سکتاہے اور روحانی ،اخلاقی اور مالی طورپر بھی۔……
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام چونکہ ابراہیم رکھا گیا ہے اس لیے آپ سب لو گ ان کے پرندے ہوئے۔پس اے ابراہیم ثانی کے پرندو!اگر احیاء چاہتے ہوتو دنیا میں پھیل جاؤ مگر اس طرح نہیں کہ اپنے اصل گھر کو بھول جاؤ تمہارا اصل گھر قادیان ہی ہے خواہ تم کہیں رہتے ہواسے یاد رکھو۔جب تمہیں ابراہیمی آواز آئے،قادیان سے خدا کا نمائندہ،مَیں یا کوئی اور جب کہے کہ اے احمدیو!خد اکے دین کو تمہاری اس وقت ضرورت ہے تم جہاں جہاں ہو مرکز میں حاضر ہوجاؤ۔اگر مال کی ضرورت ہو تو مال حاضر کرو،اگر جان کی ضرورت ہوتو جان پیش کردو اور چاروں طرف سے وہی نظارہ نظر آئے جو حج کے موقع پر ہر طرف سے’’ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ ‘‘کہنے والوں کا نظر آتاہے۔خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ تمہاری نسل چاروں طرف پھیل جائے گی اور جب تم ان کو بلاؤ گے تو دوڑیں آئیں گے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعلق ہونا چاہیے کہ چاروں طرف سے لبیک کہنے والے دوڑے آئیں۔اس نظارہ ہی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ

زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے

پس جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ کہ کامیابی کا ذریعہ یہی ہے اور جب آواز پہنچے تو یوں جمع ہو جاؤ جس طرح پرندے اُڑ کر جمع ہو جاتے ہیں۔پھر خواہ کتنی بڑی کوئی فرعونی طاقت تمہارے مٹانے کے لیے کھڑی ہو جائے اسے معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کو مٹانا آسان نہیں ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی میں آپ لوگوں سے اُمید کرتاہوں کیونکہ آپ وہ لوگ ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے حقیقی ایمان پیدا کیا اور جو مقدس گھر کے گرد گھومنے والے پرندے ہیں۔میں نے خدا تعالیٰ کی باتیں آپ کو پہنچا دیں جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اورجو کچھ بتانا تھا بتادیا۔اب یہ تمہار ا کام ہے کہ

’’ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ ‘‘

کہتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘

(حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات۔انوارالعلوم جلد13صفحہ536تا539)

عورتیں بھی ہاتھ سے چیزیں بنائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1934ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’زمیندار عورتیں بھی اپنے کام کاج کرنے کے درمیان میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ وقت نکال لیں اور چھِکو اور ٹوکریاں ہی بنالیں تو آنہ دوآنہ ضرور کما سکتی ہیں اور بڑی بڑی ہُنر والیاں بیس تیس روپے ماہوار تک کما سکتی ہیں۔لیکن میں نے چونکہ آجکل حکم دیا ہے کہ آرائش نہ کرو اس لیے ایسی سادہ چیزیں بنائیں مثلاً پراندے،اِزار بند۔آئندہ کے لیے میں تجویز کرتا ہوں 1936ء فروری سے نمائش ہوا کرے اور اس میں سب جگہ کی عورتیں چیزیں بھیجا کریں وہاں یہ چیزیں بِک سکتی ہیں اور یہ لاہور میں نمائش ہو۔اس میں ہر جگہ کی عورتیں شامل ہوں۔‘‘

(مستورات سے خطاب۔انوار العلوم جلد 13صفحہ500)

بیکار لوگ گھروں سے باہر نکلیں اور کمائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ30؍نومبر1934ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے مطالبات میں فرمایا:
’’پندرھواں مطالبہ جو جماعت سے بلکہ نوجوانانِ جماعت سے یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت سے نوجوان بے کار ہیں میں ایک مثال دے چکاہوں کہ ایک نوجوان اسی قسم کی تحریک پر ولایت چلے گئے اور وہاں سے کام سیکھ کر آگئے۔اب وہ انگلش وئیر ہاؤس لاہور میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہیں۔وہ جب گئے تو جہازپر کوئلہ ڈالنے والوں میں بھرتی ہوگئے۔ولایت جا کر انہوں نے کٹر کا کام سیکھا اور اب اچھی ملازمت کر رہے ہیں۔وہ نوجوان جو گھروں میں بے کار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں۔جہاں تک دوسرے ممالک کا تعلق ہے اگر وہ اپنے لیے صحیح انتخاب کر لیں تو 99فیصدی کامیابی کی امید ہے۔کوئی امریکہ چلاجائے،کوئی جرمنی چلا جائے،کوئی فرانس چلا جائے،کوئی انگلستان چلا جائے ،کوئی اٹلی چلا جائے، کوئی افریقہ چلا جائے غرض کہیں نہ کہیں چلا جائے اور جا کر قسمت آزمائی کرے۔وہ کیوں گھروں میں بیکار پڑے ہیں؟باہر نکلیں اور کمائیں پھر خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے ۔جو جانا چاہیں وہ اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں۔مدراس کے بمبئی کے علاقہ میں چلے جائیں،بمبئی کے بہار میں،پنجاب کے بنگال میں،غرض کسی نہ کسی دوسرے علاقہ میں چلے جائیں۔رنگون، کلکتہ ،بمبئی وغیرہ شہروں میں پھیری سے ہی وہ کچھ نہ کچھ کما سکتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض ہونے سے بچا سکتے ہیں لیکن اگر کسی کو ناکامی ہو تو کیا ناکامی اپنے وطن میں رہنے والوں کو نہیں ہوتی۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ باہر نکل کر جدوجہد نہ کریں اور سلسلہ کے لیے مفید وجود نہ بنیں اور بیکار گھروں میں پڑے رہیں۔

ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں

سولہواں مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔حالانکہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے ۔ذلت کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کام ذلت کا موجب ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا حق ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کہیں کہ وہ فلاں کام کرے جسے ہم کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا چاہیے۔امراء تو اپنے گھروں میں کوئی چیز ادھر سے اٹھا کر اُدھر رکھنا بھی عار سمجھتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کانمونہ

حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میں نے بیسیوں دفعہ برتن مانجتے اور دھوتے دیکھا ہے اور میں نے خود بیسیوں دفعہ برتن مانجے اوردھوئے ہیں اور کئی دفعہ رومال وغیرہ کی قسم کے کپڑے بھی دھوئے ہیں۔ایک دفعہ میں نے ایک ملازم کو پاؤ ں دبانے کے لیے بلایا وہ مجھے دبا رہا تھا کہ کھانے کا وقت ہو گیا لڑکا کھانے کا پوچھنے آیاتو میں نے کہا کہ دو آدمیوں کا کھانا لے آؤ۔کھانا آنے پر میں نے اس ملازم کو ساتھ بٹھا لیا۔لڑکا یہ دیکھ کر دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور جا کر قہقہہ مار کر کہنے لگا حضرت صاحب فلاں ملازم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔اسلامی طریق یہی ہے اور میں سفر میں یہی طریق رکھتاہوں کہ ساتھ والے آدمیوں کو اپنے ساتھ کھانے پربٹھا لیتاہوں۔

حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاول رضی اﷲ عنہ کانمونہ

میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاول رضی اﷲ عنہ میں بعض خوبیا ں نہا یت نما یا ں تھیں۔ حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ اسی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے میں چھوٹا ساتھا، سات آٹھ سال کی عمر ہو گی ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلا نے مینہ آگیا ہے اوپلے بھیگ جائیں گے جلدی آؤ اور ان کو اندر ڈالو ۔حضر ت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ درس دے کر ادھر سے جا رہے تھے انہوں نے اس آدمی سے کہا کیا شور مچا رہے ہو؟اس نے کہا کوئی آ دمی نہیں ملتا جو اوپلے اندر ڈالے آپؓ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی او ر اس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے۔آپؓ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے اندر ڈال دیے گئے۔اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بنوایا تھا۔ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھامگر اس پر بہت عرصہ گزر گیا ہے ۔

ترقی سے محرومی کی ایک وجہ

میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لیے کئی بار کہاہے مگر توجہ نہیں کرتے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ احساس مٹا دیں کہ فلاں آقا ہے اور فلاں مزدور اگر ہم اس لیے آقا بنتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو یہ بھی ظاہر کرنا چاہیے کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم آقا بنیں اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے آقا بننے کا حق ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔کئی لوگ ترقی کرنے سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کام کیا اور نہ کر سکے تو لوگ کیا کہیں گے۔بعض مبلغ خود چوہدری بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسروں کو مباحثہ میں آگے کر دیتے ہیں تاکہ وہ ہار نہ جائیں۔مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے کہا ہمارے پاس اب صرف دو مبلغ مناظرے کرنے والے ہیں۔مگر اس کی ذمہ داری ناظر صاحب پر ہی عائد ہوتی ہے ۔انہیں دو مبلغ ہوشیار نظر آئے انہی کو انہوں نے مناظرے کے لیے رکھ لیا۔حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ سب سے یہ کام لیتے اور اس طرح زیادہ مبلغ مباحثات کرنے والے پیدا ہو جاتے۔چونکہ کام کرنے سے کام کی قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔بعض لوگ دراصل کام کرنے سے جی چراتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہاہوں اس کے لیے پہلے قادیان والوں کو لیتاہوں۔یہاں کے احمدی محلوں میں جو اونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں ،گلیاں صاف نہیں،نالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ نالیاں موجود ہی نہیں ان کا انتظام کریں،وہ جو اووَرسئیر ہیں وہ سروے کریں اور جہاں جہاں گندا پانی جمع رہتاہے اور جو ارد گرد بسنے والے دس بیس کو بیمار کرنے کا موجب بنتاہے اُسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کر کے سب مل کر محلوں کو درست کرلیں۔اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو مثلاً لنگر خانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلو ب ہو تو بجائے مزدور لگانے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے ثواب حاصل کریں۔ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو حروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتاہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کے لیے پھیرتا جاتاہوں۔
پس جتنے عضو بھی ثواب کے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہو گی۔اب اگر کسی کو ہاتھ سے کام کرنے کے لیے کہو او ر وہ کام کرنا شروع بھی کر دے تو کھسیانا ہو کر مسکراتا جائے گالیکن اگر سب کو اسی طرح کام کرنے کی عادت ہو تو پھر کوئی عار نہ سمجھے گا۔یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتاہوں اور باہر گاؤں کی احمدیہ جماعتوں کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے۔شغل کے طورپر لوہار،نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں۔

حضرت رسول کریم صلی اﷲ وعلیہ وسلم کانمونہ

رسول کریم صلی اﷲ وعلیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپؐ نے پتھر توڑے اور مٹی ڈھوئی۔صحابہ رضی اﷲ عنھم کے متعلق آتاہے کہ اس وقت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو پسینہ آیا بعض نے برکت کے لیے اسے پونچھ لیا۔یہ تربیت،ثواب اور رُعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیزہے۔جو لو گ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے ان پر خاص اثر ہوگا۔بدر کے موقع پر جب کفار نے ایک شخص کو مسلمانوں کی جمیعت دیکھنے کے لیے بھیجا تو اس نے آ کر کہا،آدمی تو تھوڑے سے ہی ہیں لیکن موت نظر آتے ہیں وہ یا تو خود مر جائیں گے یا ہمیں مار ڈالیں گے۔اسی وجہ سے انہوں نے لڑائی سے باہر رہنے کی کوشش کی جس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں۔ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی مخالفین جب یہ دیکھیں گے کہ ہر کام کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی کام کے کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو سمجھیں گے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔

چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی ملے وہ کر لیں

سترھواں مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ بے کار ہیں وہ بے کار نہ رہیں۔اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں۔اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں،ریزروفنڈ کے لیے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کر دیں۔غرض کوئی شخص بے کار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو کیونکہ دو بہرحال صفر سے زیادہ ہیں۔بعض بی اے کہتے ہیں ہم بے کار ہیں ہمیں کوئی کام نہیں ملتا۔میں انہیں کہتاہوں دو روپے بھی اگر وہ کما سکیں تو کمائیں۔میں نے جس قدر حساب پڑھا ہے اس سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دو روپے صفر سے زیادہ ہوتے ہی۔ غرض کوئی احمدی نکما نہ رہے اسے ضرور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ70تا73)

چیز میں ملاوٹ نہ ہو اور وزن پورا ہو

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ31؍اگست1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
پھر ایک اور بات جس کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کے بعض تاجر دیانت سے کام نہیں لیتے اس لیے ہر محلہ کے دوستوں کو اپنے اپنے محلہ کی دُکانوں کے متعلق خیال رکھنا چاہیے کہ ان سے سوداصحیح طور پر ملے۔ چیز خراب نہ ہواور وزن کم نہ ہو۔ ایک دن مجھے عرقِ گلاب کی ضرورت تھی جومیں نے ایک دُکان سے منگوایا ۔میں نے دیکھا دُکاندار نے پانی میں یوکلپٹس آئل ملایا ہوا تھا جسے وہ عرق گلاب کے طور پر بیچتا تھا اور یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اسلامی حکومت ہو تو اس کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔دوائیوں میں بے احتیاطی بسا اوقات مُہلک ثابت ہوتی ہے۔ آجکل بہت سے ولائتی ایسنس نکلے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ ہر چیز کا عرق بنایا جاسکتا ہے۔مگر وہ گلاب وغیرہ کا عرق نہیں ہو گا اگرچہ اس کی خوشبو ویسی ہی ہو بعض لوگ انہی سے عروق تیار کر لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ زہریلے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ دواؤں سے نہیں بنتے بلکہ ایسنسوں سے بنتے ہیں۔ پھر میر ا تجربہ ہے کہ جو آٹا فروخت کیا جاتا ہے اس میں سے نوے فیصدی ایسا ہو تا ہے جس میں کِرَک ہوتی ہے۔ اور کِرَک ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس سے درد گردہ ، پتھری اور مثانہ وغیرہ کی بیماریاں پیداہوتی ہیں لوگ عام طور پر جلدی جلدی روٹی کھانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس نقص کو محسوس نہیں کرتے اگر اسلام کے حکم کے مطابق آہستہ آہستہ اور چبا چبا کر روٹی کھائیں تو انہیں باآسانی معلوم ہو سکتاہے کہ عام طور پر جو آٹا فروخت ہوتا ہے اس میں کرک ہوتی ہے مگر لوگ وقار کے ساتھ روٹی نہیں کھاتے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے اگر ہماری جماعت کے لوگ کھانے کے متعلق اس ہدایت کی پابندی کرتے تو انہیں اس نقص کا احساس بڑی آسانی سے ہو سکتا تھا۔ کرک ایک سخت تکلیف دہ چیز ہے۔ گردہ اور مثانہ کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں مگر دکاندار جو آٹا فرخت کرتے ہیں اس میں سے نو ے فیصدی بلکہ میں کہوں گا ننانوے فیصدی کرک ہوتی ہے اور دکاندار بھاؤ کرتے وقت یہ خیال نہیں رکھتے کہ ایسا آٹا خریدیں جس میں کرک وغیرہ نہ ہو بلکہ صاف ہو وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ چار آنہ سستی بوری مل جائے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بیوپاری کو اجازت دیتے ہیں کہ اس قدر وہ مٹی ملا سکتا ہے اور یہ بھی ویسی ہی بددیانتی ہے جیسا خود مٹی ڈال کر بیچنا ۔ پس دوست تاجروں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں اور جب انہیں شُبہ ہو کہ کوئی دوائی یا کوئی اور چیز اچھی نہیں تو فوراًمقامی انجمن کے پاس رپورٹ کریں اور اس کا فرض ہے کہ تحقیقات کر ے کہ شکایت صحیح ہے یا نہیں۔ اگر صحیح ہوتو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے۔
ایک دفعہ ہمارے گھر میں ایک بوری آئی اور اسے دیکھ کر میں نے کہا کہ اس میں کِرَک ہے۔ چنانچہ جب آدمی واپس کرنے کے لیے گیا تو دکاندار نے وہ رکھ لی اور یہ کہہ کر کہ ہمیں علم نہ تھا حضرت صاحب کے گھر جانی ہے اچھے آٹے کی دوسری بوری دے دی جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں اعتراض کا خیال ہو وہاں وہ ایسا نہیں کرتے ورنہ کر لیتے ہیں اور انہیں علم ہوتا ہے پس آئندہ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ کوئی دکاندار ایسا آٹا فروخت نہ کرے جس میں کرک یا مٹی کی ملونی ہو اسی طرح دوسری اشیاء بھی خراب اور میلی کُچیلی نہ ہو ں اس سے جسمانی صحت بھی درست ہو گی اور ایمانوں میں بھی چُستی پیدا ہو گی۔ جب قیمت ادا کرنی ہے تو کیوں ناقص چیز لی جائے۔یہ خیال کرنا کہ چلو تھوڑی سی خرابی ہے اسے جانے دو نہایت ہی معیوب بات ہے اور ایسا کہہ کر بات کو ٹال دینے والااپنی بددیانتی کا ثبوت دیتا ہے اُس کے اِس قول کے معنے یہ ہیں کہ جب اسے موقع ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ بددیانتی کرے گا۔غرض یہ چیزیں اخلاق کو برباد کر دینے والی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ

یعنی کم تولنے والوں پر خداتعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔دراصل چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بڑی باتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اس لیے انہیں کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ایک دفعہ میں مغرب کی نماز پڑھا رہا تھا اور ایک خاص وجہ سے میں اس میں ایک ہی سورۃ پڑھا کرتا ہوں مگر اس دن ایسا معلوم ہوا کہ باقی سب قرآن مجھے بھول چکا ہے اور صرف

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ

والی سورۃ یاد ہے۔ میں نے اسے کسی الٰہی حکمت پر محمول کیا اور سمجھا کہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ نماز کے بعد میں نے حکم دیا کہ سب دکانداروں کے بٹے تولے جائیں۔ چنانچہ بٹے تولنے پر معلوم ہوا کہ کئی ایک کے وزن کم تھے۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس خرابی کو دور کریں۔ دکانداروں کی ہر چیز کو دیکھیں اور خیال رکھیں کہ بھاؤ ٹھیک ہو ں ۔وزن پورے ہوں اور چیز صاف سُتھری ہو۔ ہر چیز ملونی سے پاک ہو ۔ دوائیں درست اور صحیح ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ شدید طاعون پڑی تو لوگ کہتے تھے کہ دکاندار ایک ہی بوتل سے سب عرق دے دیتے ہیں۔ اسی سے گلاب اسی سے گاؤزبان اور اسی سے کیوڑہ وغیرہ حالانکہ دوائی میں ادنیٰ سی غلطی سے بھی بعض اوقات جان ضائع ہو جاتی ہے۔ میں امیدکرتا ہوں کہ دوست اس امر کی طرف توجہ کریں گے اور تاجر ہر قسم کی بددیانتی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد 15صفحہ 241تا243)

قرض اور سود کے متعلق اسلام کی تعلیم

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ9؍فروری1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’اسلام نے تمدنی معاملات کے متعلق ایک ایسی تعلیم دی ہے جو اپنی ذات میں گو نہایت ہی مکمل ہے لیکن جب تک اسے اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ مدنظر نہ رکھا جائے اور اس پر کامل طور پر عمل نہ کیا جائے وہ مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔مثلاً اسلام نے سود سے روکا ہے۔سود دنیا میں دو قسم کا ہوتاہے ایک وہ سود جو مالدار آدمی اپنے مال کو اوربڑھانے کے لیے دوسرے مالداروں سے رقم لے کر اُن کو اداکرتاہے جیسے تاجر پیشہ لوگ یا بینک والے کرتے ہیں اور ایک وہ سود ہے جو غریب آدمی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی صاحب استطاعت سے قرض لے کر اُسے اداکرتاہے۔اسلام نے ان دونوں سودوں سے منع کیا ہے۔اس سود سے بھی روکا ہے جو تجارت یا جائیداد کو فروغ دینے کے لیے مالداروں سے روپیہ لے کر انہیں ادا کیا جاتاہے اور اُس سود سے بھی منع کیا ہے جو غریب آدمی اپنی غربت سے تنگ آکر کسی صاحب استطاعت سے قرض لینے کے بعد اسے ادا کرتاہے اور نہ صرف ایسا سود دینے سے روکا بلکہ لینے سے بھی منع کیا ہے اور نہ صرف سود لینے دینے سے منع کیا بلکہ گواہی دینے والوں اور تحریر کرنے والوں ،غرض سب کو مجرم قرار دیا ہے۔

سود کی بجائے رہن یا قرض سے ضروریات پوری کریں

تاجر پیشہ لوگوں کے سود کے متعلق تو جب کوئی شخص سوال کرے کہ مثلاًاس کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اور وہ اس سے دس لاکھ روپیہ کما سکتا ہے۔اگر وہ بنکوں یا دوسرے افرادسے روپیہ لے کر اسے ترقی نہ دے تو کیا کرے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ صبر کرے۔دس ہزار روپیہ اس کے لیے کافی ہے،اسی پر وہ گزارہ کرتارہے ۔مگر جس وقت یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایک غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے، کھیتی اس کی نہیں ہوئی،اناج اس کے گھر میں نہیں آیا،بارشیں وقت پر نہیں برسیں،ایسی صورت میں اگر وہ اپنی زمین کے لیے روپیہ مانگتا ہے تو بغیر سود کے لوگ اُسے دیتے نہیں اب وہ کیا کرے؟اگر وہ بیل نہ خریدے گا تو کھیتی کس طرح کرے گا۔یا عمدہ بیج نہیں لے گاتو وہ اور اس کے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے۔ اس کے لیے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ روپیہ قرض لے مگر جب لوگ اسے بغیر سود کے قرض نہ دیں تو وہ کیا کرے۔جب یہ سوال پیش کیا جاتاہے تو اس کا جواب دینا ذرا مشکل ہو جاتاہے اور درحقیقت یہی وہ سود ہے جس کے حالات اور کوائف سننے کے بعد انسان حیرت میں پڑجاتاہے کہ وہ کیا جواب دے ۔مالدار آدمی کو تو جھٹ ہم یہ جواب دے سکتے ہیں کہ سود پر روپیہ مت دو اگر دس ہزار روپیہ ہے تو اسی پر کفایت کرو سود کے ذریعہ زیادہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے مگر ایک غریب آدمی کو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اسی حالت پر کفایت کرو۔اس کو تو ایک ہی جواب دیا جا سکتاہے کہ بھوکے رہو اور مرجاؤ۔مگر یہ کوئی ایسا معقول جواب نہیں جس سے ہمارے نفس کو تسلی ہو یا سائل کے دل کو اطمینان حاصل ہو۔ پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا کیا حل رکھا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیم پر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے اس سوال کا یہ جواب دیاہے کہ غریب آدمی تو ایسا ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ نہیں مگر جائیداد ہوتی ہے اس کے لیے تو یہ صورت ہے کہ جائیداد رہن رکھے اور روپیہ لے لے۔مگر ایک ایسا غریب ہوتاہے جس کے پاس جائیداد بھی نہیں ہوتی جسے رہن رکھ سکے یا اگر جائیداد ہوتی ہے تو وہ اس قسم کی ہوتی ہے کہ اگر وہ اسے رہن رکھ دے تو اس کا کاروبار بند ہو جاتاہے مثلاً زمیندار ہے اگر وہ زمین رہن رکھ دیتاہے تو وہ کھیتی باڑی کہاں کرے گا۔اپنے مکان کی چھت یا صحن میں تو وہ کھیتی نہیں کر سکتا۔ان حالات میں اسلام نے یہ رکھا ہے کہ ایک طرف تو امراء پر ٹیکس لگا دیا جس سے غرباء کی امداد کی جا سکتی ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جب ٹیکس سے بھی کسی غریب کی ضرورت پوری نہ ہو تو جو اس کے دوست واقف کار یا محلے والے ہوں،وہ اسے قرضِ حسنہ دیں۔
یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اگر اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ایک صورت کبھی کام نہیں دے سکتی۔مگر ہمارے لیے اس میں بھی کئی رکاوٹیں ہیں کیونکہ اسلام نے امراء پر جو کئی قسم کے ٹیکس لگائے ہیں،وہ ہم وصول نہیں کرسکتے کیونکہ گورنمنٹ وصول کر لیتی ہے۔زکوٰۃ اگرچہ آتی ہے مگر وہ بہت ہی کم ہوتی ہے۔

قرض داروں کا ناروا رویہ اور اس کے نقصانات

پس جبکہ امراء کے ٹیکسوں سے ہم اپنی جماعت کے غرباء کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو ہمارے لیے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی جماعت سے کہیں کہ امیر آدمی غرباء کو ضرورت کے وقت قرض حسنہ دیا کریں اور کبھی کبھار میں جماعت کو کہتابھی رہتاہوں مگرجس حد تک کہنے سے احساس پیدا ہو سکتاہے وہ میں نہیں کہتا اور نہیں کہہ سکتا اور آج اسی کے متعلق میں بیان کرنا چاہتاہوں کہ میں کیوں جماعت کو زیادہ زور کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ امیر غرباء کو قرض حسنہ دیا کریں۔ میرے نہ کہہ سکنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس جس قدر مالی جھگڑے آتے ہیں،ان میں سے ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن میں مجھے نظر آرہا ہوتاہے کہ مقروض قرض واپس کرنے سے گریز کر رہا ہوتاہے اور ایک فیصدی جھگڑا میرے سامنے ایسا آتاہے جس میں مجھے یہ معلوم ہوتاہے کہ قرضہ دینے والا مطالبہ میں سختی کر رہا ہے مگر ننانوے فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جو قرضہ لیتے ہیں اور پھر واپس نہیں کرتے بلکہ گریز کرتے اور قرض دینے والے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جو شخص قرض لے کر واپس نہیں کر سکتا اُس کے متعلق تو ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ

فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ(البقرۃ:281)

کشائش تک اُسے مہلت دینی چاہیے اور ایسا انسان جو واقعہ میں تنگی میں ہو اور مالی مشکلات کی وجہ سے روپیہ ادا نہ کر سکتا ہو، میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی معقول پسندانسان یہ کہے کہ مجھے اس سے روپیہ دلوادیجیے۔ہم یہی پوچھیں گے کہ ہم کہاں سے دلوائیں۔وہ تو خود کئی قسم کی مشکلات میں مبتلا ہے۔لیکن جو میری نظر میں کیس آتے ہیں وہ ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں کہ قرض لینے والے کا حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ قرض لینے والے کا حق نہیں ہوتا کہ قرض لے تو اس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ شخص قرض لیتاہے جسے کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید ہی نہیں ہوتی۔میرے نزدیک جو شخص اس حالت میں قرض لیتاہے جبکہ اُسے کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید نہیں ہوتی اور وہ دوسرے پر اپنی غربت کا اثر ڈال کر اُس سے روپیہ کھینچ لیتاہے وہ دھوکے باز اور فریبی ہے۔جب اُسے معلوم ہے کہ مجھے روپیہ کہیں سے نہیں آنا تو وہ قرض لیتاہی کیوں ہے اور جب اس نے بعد میں تقاضوں پر دوسرے کو یہ جواب دینا ہے کہ میں کیا کروں تو وہ پہلے سے کیوں اس مصیبت کو دورکرنے کی فکر نہیں کرتا۔
ایسا شخص جب دوسرے سے قرض لے رہا ہوتاہے تو منہ سے تو قرض دینے والے کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں جلدی ادا کردوں گا مگر دل میں اس کے یہ ہوتاہے کہ روپیہ میرے قابو میں آجائے ۔پھر کون واپس لے سکتاہے ۔میں ایسے شخص کو یقینی طور پر ویسا ہی مجرم سمجھتاہوں جیسا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں سیندھ لگانے والا بلکہ اس سے زیادہ بُرا۔کیونکہ جو شخص سیندھ لگاتاہے وہ تو اپنے آپ کو چور کہتاہے۔مگر یہ ایک طرف تو اپنی دیانت داری کا سکہ بٹھاتا ہے،دوسری طرف جماعت کی ہمدردی اور اخوت یاد دلاتاہے،تیسری طرف قرآن مجید کے احکام سناتا اور کہتاجاتاہے میری ضرور مدد کرو۔ احمدیت آخر کس چیزکا نام ہے؟ایک مہینہ یا دو مہینہ تک روپیہ ادا کردوں گا۔اس دھوکے اور فریب کے ذریعہ وہ دوسرے کا مال اُڑالیتاہے۔ وہ خیال کرتاہے کہ شاید میں دیانتدارہی مشہور رہوں گا مگر آخر وہ دھوکہ باز مشہور ہو جاتاہے اور ہر شخص سمجھ لیتاہے کہ یہ فریبی ہے۔ بہانوں سے روپیہ وصول کر لیتاہے مگر دینے کا نام نہیں لیتا۔پھر اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک شخص سے لیا ہوا روپیہ ہمیشہ تو کام نہیں آسکتا۔کچھ عرصہ کے بعد ضرور ختم ہو جائے گا۔پھر وہ کیا کرے گا۔شاید اس کا خیال ہو وہ کسی دوسرے سے لے لے گا اور ممکن ہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے مگر پھر کیا کرے گا۔اس کے بعد اگر وہ تیسرے شخص کو بھی دھوکہ دے لے توپھر کیا ہو گا۔آخر چھ مہینے ،سال،دوسال،چار سال کے بعدلوگ شور مچائیں گے اور اُسے قرض دینا بند کر دیں گے ۔پھر وہ جماعت کے پاس آئے گااور کہے گا اب میں کیا کروں میرے لیے کوئی انتظام کرومگر یہی بات اُس نے پہلے کیوں نہ کی اور قرض لینے سے پہلے ہی وہ کیوں نہیں فکر کرتا کہ اب میں کیا کروں۔دھوکہ بازیاں کرنے کے بعد اُس نے جو کچھ کہنا ہے وہ پہلے کیوں نہیں کہہ دیتا۔ہاں بعض دفعہ یقین ہوتاہے کہ کہیں سے روپیہ آنے والا ہے مثلاً کسی نے اس کا سو دو سو روپیہ دینا ہو اور سال بھر کا وعدہ ہو اس دوران میں اُسے خود روپیہ لینے کی ضرورت پیش آجائے اور وہ کسی کے پاس جا کر کہے کہ مجھے فلاں سے روپیہ لینا ہے کیا مجھے آپ اس روپیہ کے ملنے تک جس کی مجھے غالب اُمید ہے کچھ روپیہ قرض دے سکتے ہیں اگر دے دیں تو کام چل سکتاہے ۔یا زمیندار اگر کہہ دے کہ فصل پکنے پر روپیہ ادا کر دوں گا تو یہ اور بات ہے لیکن اگر اسے کہیں سے روپیہ کی وصولی کی اُمید ہی نہ ہو اور پھر بھی وہ روپیہ قرض لیے جاتاہے تو وہ یقینا دھوکاباز ہے۔ایسا شخص سمجھ رہا ہوتاہے کہ چونکہ میں قرض لے رہاہوں اس لیے یہ جائز کام ہے حالانکہ قرض وہ ہوتاہے جس کے ادا کرنے کی ہمت ہو، جب ہمت ہی نہ ہو تو پھر قرض کے نام سے روپیہ لینا قرض نہیں بلکہ ٹھگی ہے۔مثلاً ایک شخص جس کی پچاس روپیہ بھی آمد نہ ہو،اگر وہ دو لاکھ روپیہ قرض لے لے تو کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ اس نے قرض لیا ہے۔ ہر شخص کہے گا یہ قرض نہیں بلکہ دھوکہ اور فریب ہے۔دو لاکھ چھوڑ اس کی تو دو ہزار کی بھی حیثیت نہیں۔یہی مثال پچاس ،بیس یا دس روپیہ قرض لینے پر بھی عائد ہو سکتی ہے ۔جب ایک شخص میں دس روپیہ قرض ادا کرنے کی بھی ہمت نہیں تو اگر وہ دس روپیہ بھی لیتاہے تو دھوکہ بازی کرتاہے۔چونکہ ہماری جماعت کا قرض لینے والا حصہ خواہ وہ دس،بیس،پچاس،سو یا دوسو روپیہ قرض لیتاہے بسا اوقات ایسی صورت میں قرض لیتاہے جبکہ وہ اُسے ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اس لیے میری تشریح کے مطابق ننانوے فیصدی یقینی طور پر دھوکہ باز ہیں اور جبکہ اس قسم کے لوگ ہماری جماعت میں موجود ہوں میں کس طرح ترغیب دے سکتاہوں کہ غریبوں کو قرض دو میرا اپنا تجربہ یہی ہے ۔خلافت کے ابتدائی چار پانچ سالوں میں میرے پاس لوگوں کی بہت سی امانتیں رہتی تھیں بعض دفعہ بیس بیس،تیس تیس ہزار روپیہ امانتوں کا ہو جاتا تھا اور چونکہ میرے پاس یہ روپیہ موجود ہوتاتھا اس لیے جب مجھ سے کوئی شخص قرض مانگتا تو میں اُسے دے دیتا۔مگر میں دیکھتاکہ قرض لینے والوں کا بیشتر حصہ ایسا ہوتا ہے جو قرض لے کر بھول جاتااور چونکہ میرے لیے یہ ایک نہایت ہی مشکل تھی اس لیے میں نے امانتیں لینی چھوڑ دیں۔اب بھی بعض امانتیں اگرچہ لوگ میرے پاس رکھواتے ہیں مگر میں انہیں اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ بنک میں جمع کرا دیتاہوں اس لیے اب اگرمجھ سے کوئی شخص قرض مانگے تو سچائی سے میرے پاس یہ عُذر ہوتا ہے کہ اپنا کیا دوسروں کا بھی میرے پاس روپیہ نہیں کیونکہ میرے لیے یہ مشکل ہوتی ہے کہ کوئی مصیبت زدہ میرے پاس آئے اور میں اُس کی امداد سے قاصر رہوں۔انہی مشکلات کی وجہ سے میں اب لوگوں کو جرأت نہیں دلاتا کہ میرے پاس امانتیں رکھوادیا کرو۔ورنہ حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ تعالیٰ ہر ہفتہ درس وغیرہ میں فرما دیا کرتے تھے کہ روپیہ اپنے گھروں میں نہ رکھو بلکہ میرے پاس رکھا دیا کرو تا وہ محفوظ رہے۔ابتدائے خلافت میں مَیں بھی کہہ دیا کرتا تھا اور اس طرح کافی رقم جمع ہو جایا کرتی تھی مگر اب میں اول تو امانتیں لیتاہی نہیں اور اگر لوں بھی تو انہیں بنک میں جمع کر ا دیتاہوں مگر چونکہ دوسروں کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہے اور ہماری جماعت کا کثیر حصہ بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو ننانوے فیصدی حصہ ایسا ہے کہ اسے حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے یا اگر حق ہوتاہے تو جب روپیہ اسے ملتاہے تو وہ اور جگہ خرچ کر دیتاہے ۔اس لیے مجھے یہ نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔

روپیہ آنے کی یقینی امید پر قرض لینا جائز ہے

میں عام طور پر دیکھتاہوں کہ اول تو قرض ایسی حالت میں لیا جاتاہے جب قرض ادا کرنے کی اپنے اندرہمت نہیں ہوتی اور اگر کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید میں قرض لیا جاتاہے تو جب روپیہ آجاتاہے تو اور جگہوں پر خرچ کر دیا جاتاہے اور دل میں خیال کر لیا جاتاہے کہ جب قرض خواہ مانگنے آئے گاتو ہم کہیں گے کہ ہم کیا کریں ہمارے پاس روپیہ نہیں ہے اور اگر زیادہ اصرار کرے گا تو کہہ دیں گے ہمارا مکان ہے بیس ہزار اس کی لاگت ہے یہ خرید لو اور اس میں اپنا قرض وضع کر لو۔چاہے وہ اُس وقت پانچ ہزار روپیہ کا ہی ہو۔اب کون بیوقوف ہو گا جو دو ہزارروپیہ قرض وصول کرنے کے لیے اٹھارہ ہزار اور خرچ کرے۔یا بعض دفعہ مکان بناتے وقت زیادہ خرچ ہوتاہے مگر بعد میں قیمتیں گِر جاتی ہیں اس صورت میں مکان خریدنے والے کو گھاٹا بھی ہو سکتاہے مگر مقروض سمجھتا ہے میں نے مکان پیش کر دیا ہے اسی جھگڑے میں ایک دو سال اور گزر جائیں گے حالانکہ یہ قرض دینے والے کا کام نہیں کہ وہ مکان خریدے یا بیچے بلکہ قرض لینے والے کا کام ہے کہ وہ جس طرح ہو قرض ادا کرے ۔مکان بیچنا ہے تو خود بیچے اور جس قیمت پر بکتاہے فروخت کر کے قرض ادا کرے ۔غرض عدمِ ادائیگی کا نقص ایسا ہو گیا ہے کہ اس کی وجہ سے اب مجھے جرأت ہی نہیں ہوتی کہ غریبوں کی مدد کے لیے قرض حسنہ کی تحریک کی جائے میں جانتاہوں کہ اگر میں تحریک کروں تو کئی مخلص ایسے کھڑے ہوجائیں گے جو قرض دینے کے لیے تیار ہوں گے ۔مگرآخر ساری ذمہ داری مجھ پر آجائے گی وہ کہیں گے آپ نے وعظ کیا تھا اور ہم نے روپیہ دے دیا۔اب روپیہ لینے والے دیتے نہیں اب آپ ہی دلوایئے۔کیونکہ قرض لینے والے ننانوے فیصدی میری تشریح کے مطابق ٹھگ ہوں گے اور گو وہ یہ بھی کہیں کہ ہماری نیت تھی کہ ہم روپیہ ادا کردیں پھر بھی وہ الزام سے بری نہیں ہو سکتے۔کیا اگر کوئی شخص عمارت بنانا چاہے اور اُسے بیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہو مگر اس کے پاس صرف دس ہزار ہو باقی دس ہزار کے متعلق ایک شخص اسے کہے کہ آپ عمارت شروع کریں میں دس ہزار روپیہ دے دوں گا لیکن جب عمارت نا مکمل صورت میں کھڑی ہو جائے اور وہ آکر کہے کہ روپیہ دیجیے بارش کا خطرہ ہے،عمارت گِر جائے گی تو وہ کہہ دے کہ میری نیت تو ہے کہ آپ کو دس ہزار روپیہ دوں مگر پاس نہیں ۔تو کیا تم کہو گے کہ وہ بڑا مخلص ہے کیونکہ اس کی نیت تو ہے کہ وہ دس ہزار روپیہ دے ۔ہر شخص کہے گا کہ وہ دھوکہ باز ہے اُس نے دھوکہ دے کر اُس کا روپیہ بھی برباد کرایا اور آپ پیچھے ہٹ گیا ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر بعض لوگ آپؐ کے پاس آتے اور کہتے کہ یا رسول اﷲ !فلاں دشمن کے مقابلہ میں لشکر کشی فرمائیں ۔دس ہزار آدمی ہمارا آجائے گا اور جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تیار ہو کر باہر نکلتے تو دو چار آدمی بھیج دیتے اور کہتے ہماری نیت تو دس ہزار بھیجنے کی تھی مگر ملے نہیں۔کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ دس ہزار کا انہوں نے وعدہ کیا اس لیے بڑے مخلص سمجھے جاتے ۔نہیں بلکہ جتنی زیادہ انہوں نے اس رنگ میں نیت کی اتنا وہ منافق اور دھوکہ باز ثابت ہوئے۔نیت وہ ہوتی ہے جس کے پورا کرنے کا یقین ہو۔مگر قرض لینے والوں میں سے ننانوے فیصدی جانتے ہیں کہ ہم قرض ادا نہیں کرسکتے پھر بھی وہ قرض لیتے ہیں یا نیت ادا کرنے کی کرتے ہیں مگر ایسی جو کبھی پوری نہ ہو ۔پس درحقیقت ان کی نیت بھی شیطانی ہوتی ہے۔
اسی طرح تجارت پیشہ لوگ ہیں۔بیسیوں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پاس روپیہ ہے کہیں تجارت پر لگوا دیجیے۔ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ہی میں نے تقریر کی کہ اس قسم کے لوگ میرے پاس آتے رہتے ہیں ۔پندرہ بیس ہزار روپیہ سالانہ جمع ہو جانا کوئی مشکل بات نہیں۔جلسہ کے بعد میرے پاس تین آدمیوں کی دستخطی چٹھی پہنچی کہ بس روپیہ کا ہی سوال تھا،ہمیں روپیہ دیجیے تاکہ ہم تجارت شروع کریں اور وہ تینوں ایسے تھے کہ اگر میں بھی اُنہیں قرض دوں تو وہ ایک دمڑی تک اس میں سے واپس نہ کریں۔ایک تو ان میں سے پچھلے دنوں بددیانتی کی وجہ سے قید بھی ہو گیا ہے۔یہ ایک ایسا نقص ہے جس نے سلسلہ کا نظام بہت حد تک تہہ و بالا کر رکھا ہے۔اگر قرض ادا کرنے کی ہمت ہی نہیں تو کسی سے قرض لینے سے پیشتر ایسے شخص کا فرض ہے کہ لوگوں سے کہہ دے کہ میں کنگال ہوں،میری مدد کرو مگر جب وہ بغیر اپنے حالات پر غور کیے قرض لے لیتاہے تو وہ فریبی ہے ۔مانگنا علیحدہ چیز ہے اگر کوئی شخص سوال کرتا ہے تو اگر اس نے بغیر کسی اور ذریعہ سے کام لینے کے جلدی سے سوال کر دیا تو ہم کہیں گے یہ کم ہمت ہے اور اس میں اخلاق کی کمی ہے ۔مصائب آئے مگر وہ جلدی ان سے گھبرا گیا لیکن قرض لینے والے کو جبکہ وہ ادا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ہم یہ نہیں کہیں گے کہ کم ہمت ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ دھوکہ باز ہے۔ایسے لوگ مجلس میں بڑے فخر سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم سلسلہ سے تو نہیں مانگتے ہم تو لوگوں سے قرض لیتے ہیں حالانکہ جو سلسلہ سے مانگنے آتا ہے وہ اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتاہے جو ادا کرنے کے ذرائع مفقود ہوتے ہوئے قرض لیتاہے کیونکہ مانگنے والا دھوکہ نہیں دیتا مگر وہ دھوکہ دیتاہے۔پس میں نصیحت کر تاہوں کہ آئندہ سے اس طریق کو بند کرنا چاہیے۔قادیان میں بھی اور باہر بھی کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو قرض لیتے اور پھر واپس نہیں کرتے۔مگر کثرت سے بھی وہ مراد نہیں جو مخالف بعض دفعہ میرے اس قسم کے الفاظ سے لے لیتے ہیں کہ کم از کم جماعت کے 51فیصدی لوگ ایسے ہیں ۔میرا اس قسم کے فقروں سے یہ مطلب ہوتاہے کہ جماعت میں بیسیوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں یہی بات میں اس وقت کہہ رہا ہوں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا شغل ہی یہ ہے کہ وہ قرض لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کا نام نہیں لیتے۔اس طریق پر وہ خود بھی بدنام ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی بدنام کرتے ہیں جو جائز طور پر قرض لیتے اور پھر مجبوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتے۔اگر مجبوریاں نہ ہوں تو وہ فوراً اداکردیں۔میں جماعت کونصیحت کرتاہوں اور خصوصاً اُن لوگوں کو جنہوں نے میری جلسہ سالانہ کی تقریر کے مطابق سالکین میں نام لکھوائے ہیں۔میں اس فکر میں ہوں کہ سالکین کے لیے ایسے قواعد وضع کیے جائیں کہ نہ تو یہ کام ایسا بوجھل ہو جائے کہ اپنی ذات میں ایک محکمہ بن جائے اور نہ ایسا ہو کہ صرف نام کے ہی سالکین رہیں اور کام کوئی نہ کریں۔

روپیہ آنے کی یقینی امید نہ ہو تو قرض نہ دیاکریں

میں ایسے قواعد سوچ رہا ہوں کہ بغیر کسی محکمہ پر خاص طور پر بوجھ ڈالنے کے دوست اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کی بھی اور اُمید کرتاہوں کہ چند دن تک ان کو شائع کر سکوں گا۔لیکن میں ان لوگوں کے جنہوں نے اپنے نام پیش کیے ہیں پہلا کام یہ سپرد کرتا ہوں کہ وہ جماعت کی نگرانی کریں اور عام طور پر یہ نصیحت کریں کہ جسے یقینی طور پر روپیہ کی آمد کی اُمید نہ ہو وہ کسی سے قرض نہ لے ۔دوسرے یہ بھی نصیحت کریں کہ جس شخص کو یقینی طور پر آمدنی کی کہیں سے اُمید نہ ہو اسے لوگ قرض دیا بھی نہ کریں۔یہ بھی ایک نیکی ہے جس کا انہیں ثواب ملے گا۔اب تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کا مکان دو روپیہ ماہوار آمد کا ہوتاہے مگر وہ بہت سا روپیہ قرض لے کر بیس روپیہ ماہوار کرایہ میں اسے رہن رکھ دیتا ہے۔روپیہ دینے والا خوش ہوتاہے کہ اسے بہت سا روپیہ مل جائے گا حالانکہ وہ بیس روپے صرف نام کے ہوتے ہیں،ادا ایک بھی نہیں ہوتا۔ابھی پچھلے دنوں ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میرے پاس پانچ چھ ہزار روپیہ ہے اسے میں ایسی جگہ لگانا چاہتاہوں جہاں سے پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار آمد ہوجائے حالانکہ جائیدا د پر اس سے آدھا منافع بھی نہیں مل سکتا مگر انہوں نے لکھا مجھے ایسے لوگ ملتے تو ہیں مگر میں چاہتاہوں آپ کی معرفت کام کروں۔مگر بات یہ ہے کہ انہیں ایسے لوگ مل رہے تھے جو پچاس ساٹھ کہنے کو تو کہتے تھے مگر ادا ایک بھی نہ کرتے اور نہ صرف انہیں منافع حاصل نہ ہوتا بلکہ اصل روپیہ بھی کھو بیٹھتے کیونکہ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ آخر مقدمہ قضا میں آنا ہے اور قضا والے جھٹ کہہ دیں گے کہ یہ سود ہے اور اگر مکان پر قبضہ دلایا جائے تب بھی پانچ چھ ہزار میں۔اگر آٹھ سو روپیہ کا مکان کسی شخص کو دینا پڑے تو اسے تو فائدہ ہی رہا۔ پس ایسے لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کو قرض نہ دیا کریں پھر تیسری بات یہ ہے کہ جب کسی شخص کے متعلق کوئی ایسا معاملہ دیکھیں اور محسوس کریں کہ وہ دھوکہ بازی کر رہا ہے تو جماعت میں اس کی دھوکہ بازی اور فریب کاری کو ظاہر کریں۔پس یہ تین کام ہیں ۔اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید نہ ہو وہ قرض نہ لیا کریں۔دوسرے روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں اور تیسری بات یہ ہے کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں تا لوگ اس سے بچ کر رہیں۔پھر ہمیشہ مظلوم کی تائید کرنی چاہیے۔مگر غلطی سے لوگ مظلوم غریب کو قرار دیتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ امیر ہی ظالم ہے حالانکہ اگر ایک کروڑ پتی کا ایک روپیہ بھی کسی غریب نے دینا ہے اور وہ دینے کی طاقت رکھتا ہوا نہیں دیتا تو کروڑ پتی مظلوم ہے اور غریب ظالم۔اگر یہ تین کام ہماری جماعت کے لوگ کرنا شروع کردیں تومیں اُمید کرتاہوں کہ چھ مہینہ ،سال تک اس حد تک اصلاح ہو جائے گی کہ میں دلیری سے لوگوں کو یہ کہہ سکوں گا کہ غریبوں اورحاجت مندوں کو قرض دیا کرو۔
پس وہ لوگ جنہوں نے میرے پاس اپنے نام بھجوائے ہیں ان کے سپرد فی الحال میں یہ کام کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ وہ مہینہ دو مہینہ کے بعد مجھے اپنی رپورٹ بھیجا کریں گے کہ ہم نے اس اس طرح اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ میرے دل میں بھی ان کے لیے دعا کی تحریک ہو اور یہ بھی مجھے معلوم ہوتا رہے کہ وہ سچ مچ کام کر رہے ہیں صرف نام لکھوا کر ہی نہیں بیٹھ گئے۔میں سمجھتاہوں اگر اس طریق پر کام کیا گیا تو غرباء کی مصیبت ایک دن دور ہو سکے گی اور جماعت بھی دلیری سے ان کی مدد پر تیار رہے گی اور اس طرح سود کی لعنت سے بھی جماعت کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہو جائے گا۔‘‘

(خطبات محمودجلد15صفحہ 44تا53)

تجارت میں باہمی تعاون ضروری ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1933ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’ہمارایہ عام طریق ہے اور ہر مخلص احمدی کا یہ طریق ہونا چاہیے کہ جماعت کے دوستوں سے تعاون کیا جائے اس لیے تمام وہ دوست جو تاجرہوں دواؤں کے یا سٹیشنری کے یا اور چیزوں کے یا صنعت و حرفت کا کام کرتے ہوں جن بھائیوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہو اور جو چیزیں اپنے بھائیوں سے میسر آسکیں وہ ان سے خرید کر ان کی مدد کرنی چاہیے۔پھر جو چیزیں احمدیوں سے میسر نہ آسکتی ہوں مگر دوسرے مسلمانوں سے مل سکتی ہوں اُن سے حاصل کریں۔پھر جو چیزیں اُن سے بھی نہ مل سکیں اور غیر مسلموں سے مل سکتی ہوں وہ ایسے غیر مسلموں سے خریدی جائیں جو جماعت کی مخالفت کرنے والے نہ ہوں بلکہ جماعت سے اچھے تعلقات رکھتے ہوں۔غرض ہمارا عام طریق یہی ہونا چاہیے کہ ہمارا روپیہ اس طرح خرچ ہو کہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اسلام کو پہنچ سکے اور اس کے لیے یہی طریق ہو سکتاہے کہ ہم جو ضروریات پر روپیہ خرچ کریں وہ ان لوگوں کے پاس جائے جو خدمتِ دین کے لیے چندے دیتے ہوں یا کم از کم ایسے ہاتھوں میں نہ جائے جو اسلام کی مخالفت کرنے والے ہوں یا کم از کم ایسے لوگوں کے پاس نہ جائے جو ہماری سیاسی طورپر مخالفت کرنے والے ہوں۔‘‘

(اہم اور ضروری امور۔انوار العلوم جلد 13صفحہ317،318 )

ہوزری کی سکیم

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 16؍اپریل1933ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’پھر ایک اور بات کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجلس مشاورت میں ہی ایک سکیم ہوزری کی تجویز ہوئی تھی ۔اس وقت تک اس کے حصص فروخت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پانچ ہزار حصوں کے مہیا ہونے کی ضرورت ہے۔لیکن اس وقت تک 22سو حصے فروخت ہوئے ہیں۔ میں دوستوں کو نصیحت کرتاہوں کہ اپنی اپنی جگہ جا کر اس کام کو دینی کام سمجھ کر سرانجام دیں اور اس کو کامیاب بنانے میں حصہ لیں۔بعض کہتے ہیں مذہبی جماعت کو بزنس سے کیا تعلق؟ وہ بزنس مین نہ سہی زمیندار یا ملازمت پیشہ ہی سہی۔مگر جماعت کی اقتصادی اور مالی حالت کو درست اور مضبوط کرنا ان کا فرض ہے یا نہیں؟ہر ایک احمدی کا یہ فرض ہے۔ پس دوست جا کر اپنی اپنی جماعت میں اس کے حصے فروخت کریں۔دس روپے کا ایک حصہ ہے جومعمولی بات ہے۔اگر کام کو کام سمجھ کر کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں کامیابی نہ ہو۔ایک لاکھ حصہ کا فروخت ہو جا نا بھی کوئی مشکل بات نہیں ہے۔بشرطیکہ اسے دینی کام سمجھ کر کیا جائے اور جماعت کی مالی و اقتصادی ترقی کی بنیاد قرار دیا جائے۔
پس اسے مذہبی ،تمدنی اور سیاسی فرض سمجھ کر ہر شخص جو حصہ لے سکتا ہے لے اور اپنی طاقت کے مطابق لے۔میں نے حال ہی میں مکان بنوایا ہے ۔اگرچہ کمیٹی میں میرا حصہ نکل آیامگر اس حصہ کی قسط اداکرتاہوں۔مگر باوجود اس کے جب کہ خرچ خوراک میں بھی کمی کرنی پڑی ہے۔پانچ سو روپیہ میں نے اس فنڈ میں دیا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا ہے کہ اگر خدانخواستہ فیکٹری ٹوٹ بھی جائے تو کیا ہے۔جماعت کی بہتری کے لیے کوشش کی گئی ہے۔
پس احباب کو اس اقتصادی حالت کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ہماری جماعت میں تاجر بہت کم ہیں۔حالانکہ تجارت اقتصادی ترقی کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے ۔ہوزری کے کام کوضرور کامیاب بنانا چاہیے۔جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر ۵۵ہزار حصے پورے کر دیں تاکہ کام شروع کر دیا جائے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1933ء صفحہ 135،136)

چھوٹے چھوٹے سرمایہ سے کام شروع کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1932ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ مسلمان تجارت کرنا نہیں جانتے۔ وہ بڑا سرمایہ چاہتے ہیں نہ انہیں وہ مل سکتا ہے اور نہ کام کر سکتے ہیں لیکن ہندو تھوڑے سے تھوڑے سرمایہ سے تجارت شروع کر دیتے ہیں اور پھر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے اس طریق عمل کی اصلاح کرنی چاہیے اپنا رویہ بدلنا چاہیے اور ہر حال میں بیکاری سے بچنا چاہیے۔ میرے نزدیک بیکار رہنا خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ ایک سال بھی جو بیکار رہااسے اگر کوئی عمدہ ملازمت مل جائے تو بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکے گا کیونکہ بیکاری کی زندگی انسان کو بالکل نکما کر دیتی ہے اور کوئی کام کرنے کی ہمت باقی نہیں چھوڑتی ۔اس حالت سے بچنے کے لیے چاہیے کہ خواہ کوئی بی اے ہو یا ایم اے ، ایل ایل بی ہو یا بیرسٹر ہو یا ولایت کی کوئی اور ڈگری رکھتا ہو اگر اسے کوئی ملازمت نہیں ملتی یا حسب منشا کام نہیں ملتا تو وہ معمولی سے معمولی کام حتیٰ کہ ایک جگہ سے مٹی اُٹھا کر دوسری جگہ پھینکنا ہی شروع کر دے لیکن بیکار اور نکما ہر گز نہ رہے۔اگر وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھے گا خواہ وہ کام کتنا ہی معمولی ہو تو اس سے اُمید کی جا سکے گی کہ مفید کام کر سکے گا۔

کسی کو بیکار نہ رہنے دیں

پس میں دوستوں کو نصیحت کر تا ہوں کہ اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کے متعلق تحقیقات کریں کہ ان میں سے کتنے بیکار ہیں اور پھر انہیں مجبو رکریں کہ وہ کوئی نہ کوئی کام کیا کریں۔لیکن اگر وہ کوئی کام نہ کر سکیں تو انہیں قادیان بھیج دیا جائے تاکہ یہاں آکر وہ آنریری کام کریں جب تک یہ حالت نہ ہو کہ ہماری جماعت کا کوئی انسان بیکار نہ ہو اس وقت تک جماعت کی اقتصادی حالت درست نہ ہو گی۔

مسلمانوں کے بزرگوں کا طریق عمل

کسی شخص کو کوئی کام کرنے میں کسی قسم کی عار نہیں ہونی چاہیے ۔مسلمانوں میں یہ کتنی خوبی کی بات تھی کہ ان کے بڑے بڑے بزرگوں کے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ رسی بٹنے والایا ٹوکریاں بنانے والا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علماء اور امام عملاً کام کرتے تھے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔میں نے ایک دفعہ تجویز کی تھی کہ ایک کلب بنائی جائے جس کا کوئی ممبر راج کا ،کوئی معمار کا، کوئی لوہار کا کام کرے تاکہ اس قسم کے کام کرنے میں جو عار سمجھی جاتی ہے وہ لوگوں کے دلوں سے نکل جائے اب بھی میراخیال ہے کہ اس قسم کی تجویز کی جائے ۔

دوسروں کی امداد کرو

پھر جہاں میں یہ کہتا ہو ں کہ ہماری جماعت کاہر ایک فر د کام کرے جو بیکار ہے وہ اپنے لیے کام تلاش کرے اگر کوئی اعلیٰ درجے کا کام نہیں ملتا تو ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے میں بھی عار نہ سمجھے۔اگر دوست ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ جماعت میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جائے گی کہ کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔وہاں دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے جولوگ ملازم ہیں انہیں چاہیے کہ دوسروں کو ملازم کرائیں،جو تاجر ہیں انہیں چاہیے دوسروں کو تجارت کرنا سکھائیں، جو پیشہ ور ہیں انہیں چاہیے دوسروں کو اپنے پیشہ کاکام سکھائیں۔یہ صرف دنیوی طور پر عمدہ اور مفید کام نہ ہو گابلکہ دینی خدمت بھی ہو گی اور بہت بڑے ثواب کا موجب ہو گا۔

نقصان سے بچانے کا ایک طریق

ایک طریق کام چلانے کا وہ بھی ہے جو بوہروں میں رائج ہے ۔ان میں سے اگر کوئی بیکار ہو جائے۔ تجارت نہ چلتی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو بوہرے اس طرح کرتے ہیں کہ پنچائت کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں فلاں چیز فلاں کے سوا اور کوئی نہ بیچے۔دوسرے دکاندار وہ مال اسے دے دیں گے۔مثلاً دیا سلائی کی ڈبیاں ہیں ۔جب یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ فلاں کے سوا اور کوئی دیا سلائی کی ڈبیاں نہ بیچے تو جتنے بوہروں کے پاس یہ مال ہو گاوہ سب اس کو دے دیں گے۔اس طرح اس کا کام چل جاتاہے۔مگر اس کے لیے بڑی جماعت کی ضرورت ہے ۔جہاں چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہوں وہ اس طرح کر سکتی ہیں کہ ایک دوکان کھلوا دی جائے اور یہ عہد کر لیا جائے کہ تکلیف اٹھا کر بھی سب کے سب اسی سے سودا خریدیں گے۔مسلمانو ں میں تجارت کبھی ترقی نہ کر سکے گی جب تک وہ اس قسم کی پابندی اپنے اوپر عائد نہ کریں گے۔ہماری جماعت اگر اس طریق کو چلائے تو بیسیوں لوگ تاجر بن سکتے ہیں۔

اشیائے ضرورت اپنوں سے خریدیں

پھر قومی نقطۂ نگاہ سے بھی اپنی اقتصادی حالت کا اندازہ کرنا چاہیے اس کے متعلق پہلی نصیحت میں نے یہ کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے مسلمان اپنی ضروریات کی چیزیں مسلمان دکانداروں سے خریدیں اور کھانے پینے کی چیزیں جو ہندو کسی مسلمان سے نہیں خریدتے وہ تو قطعاً مسلمانوں کو ہندوؤں سے نہ خریدنی چاہییں۔یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ وہ چیزیں جو مسلمان کا ہاتھ لگ جانے کی وجہ سے ہندوؤں کے نزدیک ناپاک ہو جاتی ہیں،وہ مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی خرید کر استعمال کریں۔کئی دوست اس تحریک پر عمل کرتے ہیں مگر کئی نہیں بھی کرتے اور دوسرے مسلمان تو بالکل بھی نہیں کرتے۔ہماری جماعت کے جو دوست اس پر عمل نہیں کرتے وہ خود عمل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو عمل کرنے کی تحریک کریں اور جہاں جہاں مسلمانوں کی دکانیں نہیں ہیں،وہاں احمدیوں کی دکانیں کھلوادیں اور ان کی مدد اس طرح کریں کہ ضروریات کی چیزیں انہی سے خریدیں۔

مشترکہ سرمایہ سے تجارت

دوسرا طریق یہ ہے کہ مشترک سرمایہ سے کام کیا جائے وہ کام جو افراد نہیں کر سکتے،قوم کر سکتی ہے۔اس سلسلہ میں میں نے مجلس شوریٰ میں یہ تجویز منظور کی تھی کہ جرابیں وغیرہ بُننے کے لیے کمپنی بنائی جائے۔ اس کے کچھ حصے قادیان اور باہر کے لوگوں نے خریدے ہیں۔لیکن کام شروع کرنے کے لیے کم از کم بائیس ہزار روپیہ ضروری ہے۔افسوس کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ حالانکہ مجلس مشاورت میں شریک ہونے والے دوست یہ عہد کر کے گئے تھے کہ ہم اس کمپنی کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں گے اور میں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اس کمپنی کی جرابیں پورے سائز کی نہ ہو ں گی تو خواہ وہ کتنی ہی خراب ہوں ہم وہی پہنیں گے اور ان پر اعلیٰ درجہ کی جرابوں کو ترجیح نہ دیں گے۔ تمام جماعتوں کو چاہیے کہ اس ہوزری فیکٹری کے حصے خریدیں۔ اس رنگ میں عمدگی سے تجارتی کام چلایا جا سکتاہے ۔ہوزری کے کام کو اس لیے چُنا گیا ہے کہ یہ تھوڑے سرمایہ سے چلایا جا سکتاہے۔ جب یہ تجویز کی گئی تھی اس وقت بارہ ہزار سرمایہ کی ضرورت تھی لیکن اب بائیس ہزار کی ہے اور اگر اب بھی کام نہ چلایا گیا تو ممکن ہے پھرپچاس ہزار کی ضرورت پیش آئے۔اگر سرمایہ زیادہ ہو جائے تو اس کام کو اور زیادہ بڑھا یا جا سکتاہے یعنی بُنیانیں اور کپڑا بُننے کا کا م شروع کیا جاسکتاہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کا مسلمانوں کے لیے درد

اس وقت مسلمانوں میں بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اوروہ اُبھرنا چاہتے ہیں مگر ہندوؤں نے تجارت کا ایک ایسا حلقہ قائم کر رکھا ہے کہ مسلمان اُبھر نہیں سکتے۔ہماری جماعت کو خدا نے موقع دیا ہے کہ ہم اپنی تنظیم کے ذریعہ ابھر سکتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو سہارا دے کر کھڑا کر سکتے ہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو اقتصادی طور پر جو کُچلا جا رہا ہے اس کا انسداد ہو جائے، مسلمان محفوظ ہو جائیں اور ارتداد کے گڑھے میں نہ گریں۔ اس کے علاوہ کئی ادنیٰ اقوام مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ کام دو۔ ہم کام کہاں سے دیں جب تک قومی طورپر کام شروع نہ کیے جائیں۔……

نقصان سے مایوس نہیں ہونا چاہیے

ہمارا فرض ہے کہ جماعت کی چاردیواری کو ہر طرف سے مضبوط کریں۔اس کی ایک طرف کی دیوار اقتصادی حالت ہے اسے اگر مضبوط نہ کیا جائے تو سخت نقصان ہو گا۔فی الحال جو چھوٹا سا کام شروع کرنے کی تجویز ہے اس میں احباب کو شرکت اختیار کرنی چاہیے۔جب ہم اس کام میں روپیہ اس نیت سے لگا رہے ہیں کہ جماعت کی طاقت اور قوت بڑھے،جو بے کار لوگ ہیں وہ کام پر لگ جائیں،مسلمانوں کی اقتصادی حالت درست ہو سکے،اچھوت اقوام میں تبلیغ کر سکیں تو انشاء اﷲ اس کمپنی کو کسی صورت میں بھی نقصان نہیں ہوگااور اگر خدا نخواستہ مالی لحاظ سے نقصان ہو تو خدا تعالیٰ دوسری طرح اسے پورا کر دے گا۔بعض لوگ سٹور کے فیل ہونے سے ڈرے ہوئے ہیں۔مگر وہ منافع کے لیے کام شروع کیا گیا تھا اوراب جو کام شروع کیا جانے والا ہے اس کی غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترقی حاصل ہو اور اقتصادی پہلو سے ان کی حفاظت کر سکیں۔پھر ترقی کرنے والی قوم کو اس طرح کی باتوں سے ڈرنا نہیں چاہیے کہ فلاں کام میں نقصان ہو گیا تھا اس قسم کا ڈر ترقی کے رستہ میں بہت بڑی روک ہے۔انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی توپہلے اس میں گھاٹا پڑتا رہا مگر انہوں نے استقلال کے ساتھ کام جاری رکھا آخر ہندوستان کی بادشاہت انہیں مل گئی۔غرض قومی طور پر جو کام شروع کیا جائے وہ گو ابتدا میں معمولی نظر آئے،اس میں مشکلات ہوں،اس میں نقصان اٹھانا پڑے لیکن اگر قوم ہمت اور استقلال سے اسے جاری رکھے تو آخر کار عظیم الشان نتائج رونما ہوتے ہیں۔ ہماری جماعت کو ایسی ہی ہمت دکھانی چاہیے۔……

اپنے مال کاذراسا نقص بھی بتاناچاہیے

مال میں خواہ ذرا سا بھی نقص ہو،تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو بتا دے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔ اس طرح نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی رہتاہے۔جب انسان دھوکہ کی چیز بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تو مال خریدتے وقت خود بھی احتیاط نہیں کرتا لیکن اگر ناقص چیز گاہک اس سے نہ خریدے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی پڑے گی ۔پھر معاملہ کی صفائی سے ایک قومی کریکٹر بنتاہے جو ساری قوم کے لیے نہایت مفید ہوتاہے۔‘‘

(بعض اہم اور ضروری امور۔انوار العلوم جلد 12صفحہ583تا602)

اقتصادی ترقی کی ایک سکیم

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1931ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’ایک اور سکیم اقتصادی ترقی کے لیے بنائی گئی تھی۔مجلس شوریٰ کے موقع پر میں نے تحریک کی تھی۔ اس پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تجویز کی تھی کہ ہوزری فیکٹری بنائی جائے جس کے لیے حصے فروخت کر کے سرمایہ جمع کیا جائے۔اسے مجلس شوریٰ نے پسند کیا تھا یہ اب بن گئی ہے اور رجسٹری کے لیے کاغذات گئے ہوئے ہیں۔ عنقریب اس کاکام شروع ہو جائے گا۔اس کے متعلق مجلس شوریٰ میں شامل ہونے والے دوستوں نے بشمولیت میرے یہ اقرار کیا تھا کہ جو چیزیں یہ فیکٹری بنائے گی اسی سے خریدیں گے اس طرح اس کے گاہکوں کی تعداد مستقل پیدا ہو جائے گی۔مگر شرط یہ ہو گی کہ مطلوبہ سائز کی اشیاء مہیا ہوں یہ نہیں کہ چھوٹے سائز کی چیزیں ہوں یا چاہے جرابیں تین تین انچ لٹکتی رہیں گی تو بھی اس کی پہنیں گے۔اس کا جب اعلان ہو تو میں امید کرتاہوں کہ جو دوست ایک یا زیادہ حصے لے سکتے ہیں وہ ضرورلیں گے۔اس کے حصہ کی شرح دس روپے فی حصہ ہے اور ایک شخص دس،بیس،سو حصے خرید سکتاہے ۔اس سکیم کے متعلق مفصل اطلاع بیت المال سے حاصل کی جائے۔اس سے بھی قادیان کی ترقی ہو سکتی ہے۔‘‘

(بعض ضروری امور۔انوار العلوم جلد 12صفحہ409)

زمیندار وں کو ترقی کرنے کے لیے ایک نصیحت

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 3؍اپریل1931ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ میں نے اندازہ لگایا ہے موجودہ حالات میں زمیندار لوگ زمینوں کی آمدنی پر گزارا نہیں کر سکتے۔عام طور پر ایک زمیندار کے پاس تین چار پانچ گھماؤں زمین ہوتی ہے ۔بڑے زمینداروں کے پاس سو، دو سو، تین سو، چار سو گھماؤں ہو سکتی ہے مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں اور اوسط زیادہ سے زیادہ دس گھماؤں کی ہے۔اس میں سارا سال محنت کر کے اگر ہر سال گیہوں ہی بوئی جائے اور فرض کر لیا جائے کہ فی گھماؤں دس من اوسط ہے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے تو سو من غلہ حاصل ہو گااور آجکل کے ریٹ کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دو سو روپیہ ہو گی۔اس میں زمیندار کے کمین بھی شامل ہوں گے، گورنمنٹ کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا، بیلوں کا خرچ بھی برداشت کرنا ہو گا۔یہ سب اخراجات لگاکر زیادہ سے زیادہ سو روپیہ بچے گا۔گویا آٹھ سوا آٹھ روپے ماہوار آمدنی ہو گی۔اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ جس ملک کے لوگوں کی آمدنی کی یہ اوسط ہو وہ کس طرح ترقی کر سکتاہے۔ایک زمیندار جو سارا سال خود محنت کر تاہے۔ اس کی بیوی بچے اس کی محنت میں مدد کرتے ہیں اور پھر اسے سوا آٹھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک معمولی مزدور جس کی بیوی بچے آرام سے گھر میں رہتے ہیں جو کوئی سرمایہ خرچ نہیں کرتا ۔وہ کم از کم بیس روپے ماہوار کماتاہے۔مگر ایک زمیندارجو اپنی بڑی شان سمجھتاہے 22،23سو روپیہ کا سرمایہ زمین اور اس کے متعلقات کی شکل میں خرچ کرتاہے، بیوی بچوں کو اپنی محنت مشقت میں شریک رکھتاہے جو دن رات کام کرتاہے سوا آٹھ روپے ماہوار کماتا ہے۔
پس زمیندارہ کرنے والے لوگ قطعاً ترقی نہیں کر سکتے اور جب تک مسلمان اسے چھوڑ کر دوسرے کاموں کو اختیار نہ کریں گے ترقی نہیں کر سکیں گے ۔پھر آج جس کے پاس آٹھ دس گھماؤں زمین ہے اس کی اولاد میں تقسیم ہو کر وہ اور بھی تھوڑی حصہ میں آتی ہے اس طرح کہاں ترقی ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی اِسی حالت میں رہے تو جماعت ترقی نہیں کر سکے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے گزارا چل سکے۔زمین اپنے میں سے کسی ایک کے سپرد کر دی جائے اور باقی کے حصہ دار دوسرے کاموں کی طرف توجہ کریں۔……

مختلف پیشے سیکھے جائیں

ہر جگہ کے لوگوں کو اندازہ لگانا چاہیے کہ ان کے پاس گزارہ کے لیے کافی زمین ہے یا نہیں ۔اگر کافی نہ ہو تو اپنی اولاد میں سے کسی ایک دو کے سپردزمین کر کے باقیوں کو مختلف کام سکھلائیں کسی کو لوہار،کسی کو جولاہا،کسی کو صنّاع،کسی کو تاجر بنائیں۔اس طرح ترقی کر سکیں گے۔

کوئی پیشہ ذلیل نہیں

سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہندوستان میں پیشوں کو ذلیل سمجھا جاتاہے اور زمیندارہ کو معزز پیشہ قرار دیاجاتاہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک لوہار،ایک ترکھان،ایک جولاہا جو کام کرتاہے اس میں ذلت کیا ہے۔ ان کاموں کو ذلیل قرار دینے والے کبھی غور نہیں کرتے کہ انگریزوں کی ساری ترقی کی بنیاد یہی پیشے ہیں اور وہ انہی کے ذریعہ ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اہل ہند اس لیے ذلیل ہو گئے کہ انہوں نے پیشوں کو ذلیل سمجھااور وہ لوگ معززبن گئے جنہوں نے موچی کا کام کیا ،جولاہے کا کام کیا،لوہار کا کام کیا،پس اس خیال میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے کہ کوئی پیشہ ذلیل ہے اور مختلف پیشوں اور تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

کم سرمایہ سے تجارت شروع کرنی چاہیے

تجارت کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے اور سرمایہ ہمارے پاس نہیں اس لیے ہم تجارت نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ایک ہندو نے بتایا تجارت ڈیڑھ پیسہ سے شروع کرنی چاہیے۔ فرماتے ایک شخص کو دیکھا کہ جو لکھ پتی تھا مگراس کا بیٹا پکوڑوں کی دوکان کرتاتھا۔پوچھایہ کیا توکہنے لگا اگر ابھی اسے سرمایہ دے دیا جائے تو ضائع کر دے گا۔اب اتنے کام سے ہی اسے تجربہ حاصل کرنا چاہیے یہ اسی سے اپنی روٹی چلاتاہے۔

غیر ممالک میں جانامالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے

پھر غیر ممالک میں جانا بھی ترقی کاایک ذریعہ ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ عام طور پر اپنے ملک میں ہی پڑے رہنے کے عادی ہیں اس وجہ سے ترقی سے بھی محروم ہیں ۔امریکہ ،یورپ، آسٹریلیا وغیرہ کے لوگ دور دراز ملکوں میں جاتے ہیں اور قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ امریکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ کہتے یہ ہیں کہ اپنے ملک سے باہر نہ جائیں خواہ بھوکے ہی مریں۔قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ دنیا میں پھرو۔ پس جنہیں اپنے ملک میں ترقی کی صورت نہ نظر آئے انہیں دیگر ممالک میں جانا چاہیے۔اس طرح بہت سے لوگ ترقی کر سکتے ہیں۔ہمارے ایک جالندھر کے دوست آسٹریلیا میں پھیری کے لیے جاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کم از کم پندرہ روپیہ روزانہ کی آمد ہوتی ہے۔ وہ وہاں سے کماکر آجاتے اور پھر گھر میں رہتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو باہر بھی نکلنا چاہیے۔یہ مالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے۔

باہمی تعاون

پھر ایک نہایت ضروری بات باہمی تعاون ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کانگرس والوں نے باہمی تعاون سے کس طرح گورنمنٹ کو نقصان پہنچایا ۔اسی طرح فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتاہے مگر ہماری جماعت نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی۔ہمارے سامنے کئی سکیمیں آتی ہیں، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں مگر کوئی کام نہیں ہوتا۔میرے سامنے ایک سکیم ہے جس کا میں نے سالانہ جلسہ پر بھی ذکر کیا تھا اور وہ تاجروں اور صناعوں کے متعلق ہے۔یعنی یہ کہ جو چیز ہماری جماعت کے لوگ بنائیں ا س کے متعلق ان احمدی تاجروں کو جو وہ چیز فروخت کرتے ہوں لکھا جائے کہ ان سے خریدو اور اس طرح باہمی تعاون کرو۔اس وقت میرے سامنے ایک عزیز بیٹھا ہے اس کے والد صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا۔
چوہدری نصراﷲ خان صاحب مرحوم یہاں ایک دفعہ آئے اور حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں اُنہوں نے یہاں کپڑے بنوائے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ یہاں کیوں کپڑے بنواتے ہیں؟ کہنے لگے میں ایک سال کے لیے کپڑے یہاں سے ہی بنوایا کرتاہوں۔تاکہ یہاں کے کپڑا فروخت کرنے والوں اور درزیوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ جائے۔یہ ان کے دل میں آپ ہی آپ تحریک ہوئی اور میرے نزدیک ہر احمدی میں یہی روح ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچائے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ اس روح کے ماتحت کام کریں تو ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اس قدر مضبوط ہو سکتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی طرف کھینچ سکیں۔اگر جماعت کے ایسے لوگوں کی فہرستیں بن جائیں جن سے معلوم ہو کہ کون سی چیز کہاں کے احمدی مہیا کر سکتے ہیں توپھر جسے اس کی ضرو رت ہو ان سے منگا سکتے ہیں اور اس طرح بہت فائدہ ہو سکتاہے اور بہت سے لوگوں کے لیے کام نکل سکتاہے اور ان کا گزارہ بہت اچھا چل سکتاہے۔

مشترکہ کام جاری کیے جائیں

ایک صورت اقتصادی ترقی کی یہ ہے کہ جماعت کی طرف سے اشتراکی کام جاری کیے جائیں۔ ہم نے اسی غرض سے ایک سٹور جاری کیا تھا مگر اس سے ایسا دھکا لگاکہ پھر ہوش نہ آئی۔حالانکہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نئے سرے سے اور کام نہ کرتے اور نقصان سے بے دل ہو کر بیٹھ رہتے۔انگلستان والوں نے جب ہندوستان میں تجارت شروع کی تو کئی سال تک بڑا نقصان اُٹھاتے رہے مگر انہوں نے کام نہ چھوڑا اور آخر ہندوستان لے ہی لیا۔پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک دفعہ نقصان ہونے کی وجہ سے ہم کوشش جاری نہ رکھیں۔سٹور کے متعلق یہ غلطی ہوئی کہ بہت سا سرمایہ جمع کر لیا گیا جو استعمال نہ کیا جا سکا یہاں ایسی دوکان چل سکتی ہے جس کا سرمایہ سال میں دو تین دفعہ چکر کھا لے۔سٹور میں 80 ہزار کا سرمایہ لگایا گیا جس کے لیے ضروری تھا کہ کم از کم اڑھائی لاکھ کی سالانہ بِکری ہوتی مگر یہ ہونہیں سکتی تھی ۔اس غلطی کی وجہ سے ناکامی ہوئی۔دوسرا نقص یہ ہوا کہ جنہوں نے روپیہ دیا انہوں نے اپنا سارے کا سار ا روپیہ دے دیا۔بعض لوگوں کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا۔انہوں نے اپنا سارا جمع کردہ روپیہ لگادیااورپھر انہیں روپیہ ملنا مشکل ہو گیااور اس طرح ان کی نہایت نازک حالت ہو گئی۔اگر کام ایسی طرز پر شروع کیا جائے کہ تھوڑا سرمایہ ہو جو ساری جماعت پر پھیلا کر جمع کیا جائے ۔مثلاً دس دس روپیہ کا حصہ رکھا جائے اور کوئی جس قدر حصے چاہے خرید لے۔مگر یہ بات مدنظر رکھے کہ اگرنقصان ہو تو برداشت کر لیا جائے گا۔تو وہ حالت پیدا نہ ہو گی جو سٹور کے فیل ہونے سے ہوئی۔اول تو امید ہے کہ اب ہم انشاء اﷲ نقصان نہ اُٹھائیں گے اور اگر اُٹھائیں گے تو پہلے نقصان سے جو سبق حاصل ہوا ہے اُسے یاد رکھ سکیں گے۔

جُرابوں کا کارخانہ

اس قسم کے کام کے لیے پچھلے مہینہ ایک تجویز پر غور کیا گیا اور مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ کو اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے لاہور اور لدہانہ بھیجااور وہ کام یہ ہے کہ جُرابوں وغیرہ کا کارخانہ جاری کیا جائے ۔درد صاحب نے بتایا کہ ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے بتایا یہ کامیاب کام ہے۔اس سے25 فیصدی نفع حاصل ہواہے۔ہمارا ارادہ ہے کہ اس کے لیے جو سرمایہ جمع کیا جائے اسے اس طرز پر جماعت میں پھیلائیں کہ کوئی شخص اتنے حصے نہ لے کہ اگر خدانخواستہ گھاٹا ہو تو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے۔یہ سکیم امورعامہ والے پیش کریں گے۔اسے اس طرح پیچھے نہ ڈالا جائے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ سات ہزار کے سرمایہ سے یہ کارخانہ چل سکتاہے اور آئندہ اور زیادہ وسیع کیا جا سکتاہے۔صحیح اعداد ناظر صاحب امور عامہ پیش کریں گے۔

بااثر لوگ بطور شغل کوئی پیشہ اختیار کریں

ایک صورت اور بھی ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ

ہر اچھی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے۔جہاں اسے پائے لے لے۔اس کے مطابق ایک سبق ہم گاندھی جی سے بھی لے سکتے ہیں۔ان کی غرض تو کھدر بنانے سے یہ ہے کہ انگریزوں کو نقصان پہنچائیں۔لیکن ہم اس قسم کی تحریک اس لیے جاری کر سکتے ہیں کہ جماعت میں پیشوں سے جو نفرت ہے وہ دور ہو جائے۔ اگر ایسی تحریک ہو کہ جماعت کے بااثر لوگ شغل کے طورپر ان پیشوں میں سے کوئی شروع کر دیں جنہیں ذلیل سمجھا جا تا ہے تو اس طرح لوگوں کے دلوں میں ان کی نفرت دور ہو جائے گی۔مثلاً اگر میں ہتھوڑا لے کر کام کروں ،یا کھڈی پر کپڑا بُنوں تو جو لوگ میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کے دلوں سے ان پیشوں کی تذلیل کا خیال جاتارہے گا۔یورپ میں معزز لوگ اس قسم کا کوئی نہ کوئی شغل اختیار کر لیتے ہیں۔اس سے ورزش بھی ہوتی ہے اور پیشوں سے نفرت بھی دور ہوتی جاتی ہے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1931ء صفحہ17تا22)

ناکارہ لوگ قوم کی ترقی کی راہ میں روک ہوتے ہیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ13؍مارچ1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ جماعت میں کوئی نکما نہ رہے اور کوئی آدمی ایسا نہ ہوجو کمائی نہ کرتاہو۔بظاہر تو یہ معلوم ہوتاہے کہ جو شخص کچھ کماتانہیں وہ کھاتا کہاں سے ہے لیکن اگر غورکیاجائے تو معلوم ہو گا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو قطعاًکوئی کمائی نہیں کر رہے اس لیے میں امور عامہ کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ ایک ایسی مردم شماری کرے جس میں ہر آدمی کا نام ہو، اس کی قابلیت کہ وہ کیا کام جانتاہے اور کیا کام کرتاہے یا بیکار ہے۔ تو تمام تفصیلات درج ہوں۔خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت سب کے متعلق یہ معلومات بہم پہنچائی جائیں۔خاوند والی عورت کے اخراجات کا کفیل تو اس کا خاوند ہوتاہے مگر بیوہ کے گزارہ کی صورت معلوم کرنی ضروری ہے پس ہر بالغ مرد بیوہ عورت یا بن بیاہی جوان لڑکی کے متعلق یہ معلومات امور عامہ حاصل کرے۔ناکارہ لوگ قوم کی گردن میں پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں اور قوم کی ترقی میں ایک روک ہوتے ہیں۔اگر انسان تھوڑا بہت بھی کام کرے تو وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتاہے اور قوم کی ترقی میں بھی کسی حد تک ممد ہو سکتاہے۔ اس طرح کی مردم شماری سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ہاں کتنے پیشے جاننے والے لوگ ہیں۔بعض موزوں آدمیوں کو تعاون سے مدد دی جاسکتی ہے ۔اگر کسی تاجر کی تجارت کسی وجہ سے تباہ ہو گئی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو اسے نقد روپیہ دینے سے اس کی عادت کے خراب ہونے کا احتمال ہوتاہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر نقصان ہو گیا تو پھر بھی روپیہ مل سکتاہے لیکن اگر اسے تعاون کے ذریعہ مدد دی جائے تو وہ سنبھل جاتاہے ۔

بوہروں کی ترقی کا راز

بمبئی کے بوہرے اسی طرح کرتے ہیں اگر ان میں سے کسی کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے تو سارے مل کر ایک چیز کی تجارت اس کے حوالے کر دیتے ہیں مثلاً وہ فیصلہ کر دیں گے کہ دیا سلائی کی ڈبیہ سوائے فلاں کے کوئی نہ بیچے اور جب کوئی گاہک ان کے پاس آئے تو اس کی دکان پر بھیج دیتے ہیں اور اس طرح ایک مہینہ کے اندر اندر وہ کافی سرمایہ جمع کر کے پھر ترقی کر سکتاہے۔اسی طرح اگر ہماری جماعت کے کسی تاجر کا نقصان ہو جائے تو بجائے اس کے کہ سلسلہ کے روپیہ سے اُسے مدد دی جائے ایسا انتظام کر دیا جائے کہ وہ خود بخود اپنے آپ کو سنبھال سکے۔اسے کہہ دیا جائے جو کچھ تمہارے پاس ہے اس سے فلاں چیز کا کاروبار شروع کر دو۔یا اگر کچھ بھی نہیں تو تمہیں اُدھار سودا لے دیتے ہیں اور تم مثلاً آٹا فروخت کیا کرو ادھر سب سے کہہ دیا جائے کہ پندرہ روز تک آٹا اسی سے خریدیں اور کوئی دکاندار آٹا فروخت نہ کرے۔اسی طرح دوسرے دکانداروں کو اگرچہ گاہکوں سے چھٹی مل جائے گی مگر ان کا آٹا پھر بھی فروخت ہوتا رہے گا کیونکہ بیچنے والا انہیں سے لے کر بیچے گااور آٹا اگر انیس سیر کا بکتاہے تو وہ پندرہ دن تک ساڑھے اٹھارہ سیر بیچے اور اس طرح ہر روپیہ،آدھ سیر کی بچت سے پندرہ روز میں اسے کافی سرمایہ مل جائے گااور یہ عملی قدم اٹھا کر کمزوروں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتاہے اور پھر جو کام نہیں جانتے انہیں کوئی مفید پیشہ سکھایا جا سکتاہے اور جن کے پاس کوئی کام نہیں ان کے لیے کام کا بندوبست کیا جا سکتاہے ۔……

جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے

میرا منشا ہے کہ اب جو صرف سلسلہ کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے آئندہ اس کا سلسلہ بند کر دیا جائے اور یہ شرط کر دی جائے کہ جو کوئی جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے۔مثلاً ایک مستحق شخص اگر پانچ روپے طلب کرتاہے تو ہم اسے کہیں ہم پانچ روپے تو دیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اتنی ہی کمائی تم خودبھی کرو ۔اس طرح تمہارے پاس دس روپے ہو جائیں گے اور تم خود آرام پاؤ گے ۔غرض یہ کہ کوشش کی جائے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو اور اپنے لیے اپنے خاندان کے لیے بلکہ دنیا کے لیے مفید ثابت ہو۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم میں کام کرنا کوئی عیب نہ تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی تھے مکہ کے رؤ سا میں سے تھے اور معزز ترین خاندان کے فرد تھے۔مگر باوجود اس کے جب آپ پہلے پہل مدینہ میں گئے تو دیگر صحابہ رضی اﷲ عنھم کے ساتھ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے۔مگر کیا آج کوئی معمولی زمیندار بھی ہے جو ایسا کرنے کے لیے تیار ہو ۔ وہ بھوکا مرنا پسند کرے گا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی مکہ کے رئیس اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے یہ کام کیااور اصل اسلامی روح یہی ہے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو۔چاہے علمی کام کرے جیسے مدرس، مبلغ وغیرہ اور چاہے ہاتھ سے کام کرے جیسے لوہار،ترکھان ،جولاہا وغیرہ پیشے ہیں۔

کوئی پیشہ ذلیل نہیں

دراصل کوئی پیشہ ذلیل نہیں۔ ہندوستانیوں نے اپنی بیوقوفی سے بعض پیشوں کو ذلیل قرار دے دیا اور پھر خود ذلیل ہوگئے۔انگریز آج کس وجہ سے ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو فن بافندگی ہی ان کی اس عظمت اور شوکت کا موجب ہے۔مگر ہم یہ کہہ کر کہ جو لاہے کا کام ذلیل ہے خود محکوم اور ذلیل ہو گئے۔پس ہاتھ سے کام کرنا ذلیل فعل نہیں ذلیل کام صرف وہ ہیں جو کمینہ ہیں۔مثلاً کنچنی کا پیشہ یا گانے والی رنڈیاں،ایکٹر،میراثی یا ڈوم وغیرہ۔باقی اگر کوئی نائی ہے اور محنت کرتاہے تو وہ ذلیل کیوں ہو گیا۔وہ اس سے زیادہ شریف ہے جو کسی اعلیٰ قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود محنت نہیں کرتا اور نکما ہے۔اگر کوئی جولاہا ہے تو وہ دوسروں کے ننگ ڈھانکتاہے وہ خود کس طرح ذلیل ہو سکتاہے۔ اسی طرح لوہار، ترکھان کے پیشے بھی ذلیل نہیں یہ کیسے ہو سکتاہے کہ اگر کوئی ہل کو پکڑ کر جانوروں کے پیچھے ٹخ ٹخ کرتا پھرے تو معزز ہو لیکن اگر ہتھوڑا چلائے تو ذلیل ہو جائے یا اگر کوئی دفتر میں کام کرے تو معزز ہو لیکن اگر کپڑا بُنے تو ذلیل ہو جائے۔یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے۔جب وہی دماغ وہی جسم ہے تو پیشہ اختیار کر لینے سے ذلیل کیوں ہو گیا۔ ایک شخص اگر نکما بیٹھا رہے لوگوں کا صدقہ کھائے اور مانگتا رہے تو وہ معزز ہو لیکن اگر کوئی کھڈی پر کپڑا بُنے تو وہ ذلیل ہو جائے۔یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے جسے کوئی بیوقوف ہی سمجھے گاہماری عقل میں تو یہ آتی نہیں۔پس ہماری جماعت میں احساس ہونا چاہیے کہ محنت کرنا بُرا نہیں اپنے لیے،اپنے خاندان کے لیے،اپنی قوم کے لیے،دین کے لیے اور خدا کے لیے کوئی کام کرنا ذلّت کا موجب نہیں بلکہ اسی میں عزت ہے۔اس لیے جو لوگ کوئی نہ کوئی کام کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اور ہر حال میں مفید بننے کی کوشش کریں۔میری غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد دین اور دنیا کے لیے مفید بنیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد 13صفحہ99تا101)

قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍جنوری1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ہر سال خدا تعالیٰ کا سلوک بندوں سے جدا گانہ ہوتاہے اور اس کی بعض نئی صفات ظاہر ہوتی ہیں گو وہ اپنی شان میں ایسی اعلیٰ و ارفع نہ ہوں جتنی انبیاء کے دور میں ہوتی ہیں۔مگر بہرحال تجدید اور زیادتی ضرور ہوتی ہے اور زیادتی چاہے ایک پیسہ کی ہو وہ زیادتی ہی ہے۔کیونکہ تھوڑا تھوڑا مل کر بھی زیادہ ہوجاتاہے ۔کسی نے کہا ہے

قطرہ قطرہ مے شود دریا

معمولی معمولی منافع لینے والے تاجر بڑی دولت پیدا کرلیتے ہیں بلکہ جتنی زیادہ کسی کی تجارت وسیع ہو اتنا ہی وہ کم منافع لیتاہے۔ اس کے ہاتھ سے اربوں روپیہ کامال نکلتا ہے اس لیے وہ نہایت معمولی منافع سے ہی کروڑوں روپیہ کما لیتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 13صفحہ4)

تجارت کی ترقی باہمی تعاون سے مشروط ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ28؍دسمبر1930ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’دنیوی ترقی کے لیے بہترین چیز تعاون ہے۔یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی۔لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے۔جب سارا یورپ اکٹھا ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے۔اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو۔ اس کاجو نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہے۔پس تعاون سے جو نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے۔اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لیے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتاہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے۔ اس لیے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے اس کے لیے سرِدست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں۔اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتاہے ۔مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان،آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتاہے اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتاہے۔سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں۔اس لیے اس سال کے لیے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحبِ رسوخ ہوں ، سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں،کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں،کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں۔وہ یہ مدنظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے۔میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنا لیں۔جس کے صرف وہی حصہ دارہوں جو یہ کاروبار کرتے ہیں تاکہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے۔اس وقت مَیں صرف یہ تحریک کرتا ہوں۔ جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کرلیں گے،اس وقت اخبار میں مَیں اعلان کر دوں گا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے۔اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتاہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہو گی۔

تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز

اس طرح ایک کمپنی تعاون کرنے والی قائم کرنی چاہیے جس میں تاجر،زمیندار اوردوسرے لوگ بھی شامل ہوں۔میں نے اس کے لیے کچھ قواعد تجویز کیے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفراﷲ خان صاحب نے پسند کیا تھا۔ اب ان کو شائع کر دیا جائے گا۔یہ اس قسم کی کمپنی ہو گی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لیے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے۔اس طرح جو روپیہ جمع ہو گا اُس سے رہن با قبضہ جائیداد خریدی جائے گی۔اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لیے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن باقبضہ جائیداد خرید لی جائے گی۔جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتاہے ۔اس طرح جو نفع حاصل ہو گا اس کا نصف یا ثُلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا۔جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہو گی۔میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتاہوں۔پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی۔دوست اس کے لیے تیاری کررکھیں۔‘‘

(فضائل ِقرآن(۳)۔انوار العلوم جلد 11صفحہ559تا561)

سستی اور کاہلی کو دور کریں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1927ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’جماعت میں سے سستی اور کاہلی کو دور کیا جائے۔سستی سے قوموں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ اسلامی طریق یہ ہے کہ کسی کو بے کار نہیں رہنے دینا چاہیے۔سیکرٹری صاحبان اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی احمدی بے کار نہ رہے جن کو کوئی کام نہ ملے انہیں مختلف پیشے سکھلا دیے جائیں۔اگر کوئی شخص مہینہ میں دو روپیہ ہی کما سکتاہے تو وہ اتنا ہی کمائے کیونکہ بالکل خالی رہنے سے کچھ نہ کچھ کما لینا ہی اچھا ہے۔دیکھو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کس شان کے انسان تھے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گھاس کاٹ کر لاتے اور اسے فروخت کرتے تھے۔تو کوئی کام جس سے کسب حلال ہو کر نے میں عار نہیں ہونی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی احمدی بیکار اور سست نہ ہو……

اقتصادی ترقی کی جان

اس سال جو تحریکیں کی گئیں ان میں سے ایک کے متعلق آئندہ کے لیے بھی خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ تحریک چھوت چھات کی ہے۔اس کے متعلق میں نے عورتوں میں بھی بہت زور دیا ہے اور اب آپ لوگوں کے سامنے بھی اس کا ذکر کرتاہوں۔یہ تحریک مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کی جان ہے۔علاوہ ازیں مذہبی طور پر بھی یہ بڑااثر رکھتی ہے۔ ملکانوں میں ایک بہت بڑا ظلم ہندو پرچارکوں نے یہ بھی کیا کہ وہ انہیں بتاتے تھے کہ دیکھو مسلمان ہم سے ادنیٰ ہیں اور ہم ان سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ہم ان کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی چیز نہیں کھاتے مگر وہ ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھالیتے ہیں ۔اس پر ہزاروں ملکانے اس لیے مرتد ہوگئے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر اعلیٰ ہو جائیں گے۔مسلمانوں نے سات سو سال تک ہندوؤں کا لحاظ کیا ۔مسلمان جب بادشاہ تھے اُس وقت بھی انہوں نے درگزر کیا اور کہا ہندو اگران کے ہاتھ کا نہیں کھاتے تو نہ کھائیں مگر اب مسلمان ہندوؤں کے اس طرز عمل کی وجہ سے قلاش ہو گئے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسلام کی خدمت کے لیے پچیس لاکھ روپیہ بھی جمع نہیں ہو سکتا۔کیوں؟اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس روپیہ ہے نہیں۔مسلمانوں میں کئی لوگ لاکھوں ہزاروں کی جائیدادیں رکھنے والے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کے مقروض ہیں پس جب کہ مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہندو چھوت چھات کی وجہ سے اپنی برتری جتلا کر ناواقف اور جاہل مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ مسلمان اس طرف متوجہ ہوں۔پس میں دوستوں سے امید کرتاہوں کہ وہ اس تحریک کو خصوصیت سے جاری رکھیں گے اور ہر جگہ ہر مسلمان کے کان میں یہ بات ڈال دیں گے کہ اس تحریک پر عمل کرنے سے تمہار اہی فائدہ ہے۔ہماری جماعت میں تو تاجر پیشہ لوگ بہت کم ہیں زمیندار اور ملازمت پیشہ زیادہ ہیں اس وجہ سے چھوت چھات کی تحریک کے کامیاب ہونے پر دوسرے مسلمانوں کو ہی فائدہ ہو گا۔ کم از کم تین چار کروڑ روپیہ سالانہ مسلمانوں کا اس تحریک پر عمل کرنے سے بچ سکتاہے اور مسلمانوں جیسی کنگال قوم کے لیے اتنا روپیہ بچنا بہت بڑی بات ہے۔میں نے عورتوں کو بتایا تھا کہ یہاں قادیان میں مسلمان مٹھائی والا کوئی نہ تھا اس لیے ہم نے مٹھائی خریدنا بند کر دیااور سات سال تک یہ بندش رہی۔ یہ بتا کر میں نے ان کو یقین دلایا کہ اتنا عرصہ میں کوئی ایک آدمی بھی مٹھائی نہ خریدنے کی وجہ سے نہ مرا۔نہ ہمارے بچوں کی صحت کو اور نہ ہماری صحت کوکوئی نقصان پہنچا۔بلکہ فائدہ ہی ہوا کہ پیسے بچ گئے۔میں سمجھ نہیں سکتا کھانے پینے کی چیزیں غیر مسلموں سے نہ خریدنے میں کون سی مصیبت آجاتی ہے۔پوری کچوری نہ کھائی روٹی کھالی۔ کیا ہندوؤں کی بنائی ہوئی کچوری میں اتنا مزا ہے کہ بے شک دین جائے غیرت جائے مگر پوری کچور ی نہ جائے۔میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خصوصیت سے یہ تحریک کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی چھوئی ہوئی چیزیں اس وقت تک نہ کھانی چاہییں جب تک ہندو بھی علی الاعلان عام مجلسوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے لے کر وہ چیزیں نہ کھائیں۔ہم ضدی نہیں، ہم کسی کے دشمن نہیں،ہم بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنا مال بچانا چاہتے ہیں اپنی قوم کو بچانا چاہتے ہیں۔چاہیے تو یہ کہ جس طرح ہندو مسلمانوں سے سات سو سال تک کھانے پینے کی چیزیں نہیں لیتے رہے اس طرح مسلمان بھی سات سو سال تک ان سے نہ لیں اور ہندو مسلمانوں سے لیتے رہیں تب مساوات ہو گی مگر ہم یہ کہتے ہیں جس طرح ہندو مسلمانوں سے نہیں خریدتے اسی طرح مسلمان بھی نہ خریدیں ۔اس طرح ایک لاکھ مسلمانوں کے لیے کاروبار نکل آئے گا اور اتنے خاندان چل سکیں گے۔
ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس تحریک پر عمل کرنا چاہیے اور دوسرے لوگوں سے کرانا چاہیے۔ یہ ہمارے فائدہ کی بات نہیں اگر وہ عمل کریں گے تو ہم پر احسان نہیں کریں گے انہی کو فائدہ پہنچے گا۔

مسلمانوں کے آپس میں تعاون کی ضرورت ہے

ایک اور بات جو اس سال کے پروگرام میں رکھنی چاہیے وہ مسلمانوں کا آپس میں تعاون ہے یعنی جہاں مسلمان سودا بیچنے والے ہوں وہاں ان سے خرید ا جائے۔ میں نے دیکھا ہے اس سال کی تحریک کے ماتحت سینکڑوں نہیں ہزاروں دکانیں نکلیں۔ ایک دوست نے بتایا ایک جگہ مسلمانوں کے دکانیں کھولنے کی وجہ سے 35ہندودکانوں کا دیوالیہ نکل گیا او ر ایک کارخانہ فیل ہو گیا جو ایک مسلمان نے خرید لیا۔ایک جگہ کے دوست سے معلوم ہوا کہ ایک شہر میں ایک دکاندار کو جب معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہے تو اس نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ کی جماعت کی مہربانی ہے کہ ہماری دکانیں بھی اب چلنے لگی ہیں پہلے کچھ بِکری نہ ہوتی تھی مگر اب خوب ہوتی ہے ۔پس مسلمان دکانداروں کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہیے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کا بائیکاٹ کیا جائے بائیکاٹ کرنا ناجائز ہے اور بائیکاٹ کے یہ معنی ہیں کہ کسی صورت میں بھی ان سے کچھ نہیں خریدنا۔مگر جہاں مسلمان دکاندار نہ ہوں وہاں ہندوؤں سے ضرورت کی اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔یا جو چیزیں مسلمانوں کے پاس نہ ہوں وہ ہندوؤں سے لی جا سکتی ہیں مگر تعجب ہے مسلمانوں کو بائیکاٹ کا لفظ ایسا پسند آیا ہوا ہے کہ بائیکاٹ کرتے تو نہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔
میں جب اس سال شملہ گیا تو گورنر صاحب پنجاب سے میرا ملنے کا ارادہ نہ تھا مگر چیف سیکرٹری صاحب گورنر پنجاب کی چٹھی آئی کہ واپس جانے سے پہلے گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں۔میں جب ان سے ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے چھوٹتے ہی تحریک چھوت چھات کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہاکہ آپ کی جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک شروع کر رکھی ہے میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے نہ ہم نے بائیکاٹ کرنے کے لیے کہااور نہ ہماری جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک کی۔ہم نے جو کچھ کہا وہ صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تاکہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے۔آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد گورنر صاحب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ بائیکاٹ نہیں ہے اور اس تحریک میں کوئی حرج نہیں۔پس یاد رکھو بائیکاٹ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔یہ نہ شرعاًجائز ہے نہ قانوناً نہ عدلاً اور جب کہ مسلمان بائیکاٹ کر ہی نہیں رہے تو اس لفظ کو کیوں استعمال کرتے ہیں۔جو کچھ کرنا چاہیے وہ اپنے بھائیوں کا تعاون اور امداد ہے اوراس سے کوئی گورنمنٹ روک نہیں سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں نکالیں وہاں ہندوؤں نے شور مچا دیا کہ مسلمان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدتے اور گورنمنٹ کو لکھا کہ اس قسم کی تحریک جاری کرکے منافرت پیدا کی جا رہی ہے۔میرے سامنے یہاں کے لوگوں نے یہ بات پیش کی میں نے انہیں کہا تم بھی کیوں اس قسم کی درخواستیں گورنمنٹ کو نہیں بھیجتے کہ ہندو ہماری دکانوں سے کچھ نہیں خریدتے۔آخر تمہیں گورنمنٹ اس کا کوئی جواب دے گی اگر وہ یہ جواب دے کہ ہندو چونکہ مسلمان کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لیے نہیں خریدتے تو تم بھی یہی جواب دے سکتے ہو کہ ہم بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لیے نہیں خریدتے تو جہاں مسلمانوں کی دکانیں نکلیں وہ اس قسم کی درخواستیں حکام کو ضرور بھیجیں۔اس طرح ہندوؤں کی درخواستوں کا جواب خود بخود ہوجائے گا۔

تجارت میں ترقی کا ایک طریق

تجارت میں ترقی کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت فیصلہ کرے کہ فلاں چیز اپنی جماعت کے لوگوں کی ساختہ ہی لیں گے ۔مثلاً جرابیں اپنی جماعت کی بنائی ہوئی یا ان لوگوں کی بنائی ہوئی جو اس تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اور ہمارے ساتھ تعاون کریں گے ان سے لیں گے۔تین سال تک اگر یہی طریق جاری رکھا جائے تو اس چیز کے فروخت کرنے والے تاجر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اورپھر بغیر خاص مدد کے دوسروں کو زِک دے سکتے ہیں۔‘‘

(تقریر دلپذیر۔انوار العلوم جلد 10صفحہ97تا103)

کوئی بیکار نہ رہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ11؍ستمبر1927ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’گیارہویں چیز جس کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی بے کار اور نکما نہ ہو۔قوم کا ایک فرد بھی اگر نکما ہوتو یہ مصیبت ہے اور جہاں قریباً سب ہی بے کار ہوں اس مصیبت کا اندازہ کون کرے۔
حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اگری(ایک قسم کی گھاس)کی جھولی لیے جا رہا ہے۔آپ نے اسے چھین لیا اور کہا جاؤ جا کر کام کرو۔مگر آج جو حالت ہے وہ تم سے پوشیدہ نہیں۔
قوموں میں تمدنی اور اقتصادی جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔اگر نکمے ہوں تو وہ اس مقابلہ میں کیا کریں گے۔اس ملک میں ہندو،سکھ اور اچھوت24کروڑ ہیں۔مسلمان7کروڑ۔اگر نکمے ہوں تو اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے ۔یہ چیزیں ہیں جو اخلاق کی مضبوطی کے لیے ضروری ہیں۔ جب تک کسی شخص اور قوم میں یہ نہ پائی جاویں اخلاقی مضبوطی اس میں پیدا نہیں ہو سکتی۔

ہر شعبہ کے ماہر ہمارے پاس ہوں

اب پھر میں انفرادی ذمہ داریوں کے سلسلہ کی طرف آتاہوں۔چوتھی انفرادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر کام کے لیے آدمی ہو۔یہی نہیں کہ ہر شخص کام کرے بلکہ ہر کام کے اہل موجود ہوں۔نیوی گیشن کے لیے ملاح بھی ہوں، کمانڈر بھی ہوں، ڈاکٹر بھی ہوں، انجینئر بھی ہوں۔کوئی شعبہ انسانی زندگی اور اس کی ضروریات کا نہ ہو جس کے لیے قابل اور ماہر آدمی ہمارے پاس نہ ہوں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتاہے کہ ہر مسلمان اس ضرورت کا احساس کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی ایک کو لے کر ماہر بنے۔‘‘

(مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں۔انوار العلوم جلد 10صفحہ21،22)

محنت سے عارنہ کرو

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ11؍ستمبر1927ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’اخلاق کی مضبو طی کے لیے دوسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ محنت سے عار نہ کرو۔ہم محنت سے جی چراتے ہیں اور کام کرنا عار سمجھتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں اس کے لیے قومی حالت ذمہ دار ہے۔سو سال پہلے ہم بادشاہوں کی قوم کے لوگ تھے ۔پس قومی طریق نے ایسا ہونے دیا۔ ہندو بادشاہ نہ تھے اس لیے وہ محنت سے عاری نہ تھے ۔وہ تنزل میں ترقی کے سامان کر رہے تھے ہم ترقی میں تنزل کے سامان بنا رہے تھے۔ہماری مثال سمندر میں کودنے والے کے گلے میں پتھرباندھ دینے کی سی ہے۔ مجھے ایک تاجرنے سنایا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ گھر بیٹھے روپیہ کما سکتے ہو۔اس اشتہار کے جواب میں اس کے پاس ڈیڑھ سو مسلمانوں کے خطوط پہنچے جو بغیر کام کے روپیہ مل جانے کی درخواست کرتے تھے۔چار پانچ ہندوؤں کی درخواستوں میں سے ایک تو ایسی ہی تھی مگر باقیوں نے لکھا کہ آپ کو ایجنٹ مطلوب ہیں تو ہم ایجنسی لینے کو تیار ہیں ۔اس سے عام ذہنیت کا پتہ مل جاتاہے کہ ہم روز بروز نکمے ہوتے جاتے ہیں۔ اس کو چھوڑ دو اپنے اندر اور اپنی اولاد میں کام اور محنت کی عادت ڈالو۔یہ عمل کی چیز ہے لیکچروں سے کچھ نہیں ہو گا اور نہ کمیٹیاں اس کے لیے کام آئیں گی۔خواہ خلافت کمیٹی بناؤ یا مسلم لیگ۔ کچھ فائدہ نہیں ہوگا جب تک ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے عملی کام شروع نہ کرے گا۔‘‘

(مسلمانوں کی انفرادی اور قومی ذمہ داریاں۔انوار العلوم جلد 10صفحہ18)

آڑھت کی دکانیں کھولیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہمیں مسلمانوں کی آڑھت کی دکانیں کھلوانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔جب تک آڑھت کی دکانیں نہیں کھلیں گی کبھی مسلمان زمیندار اور دُکاندار نہیں پنپ سکتے۔اندھیر ہے کہ جو روپیہ اس وقت ہندو تبلیغ پر خرچ ہو رہا ہے اس کا کافی حصہ مسلمانوں کے گھروں سے خاص اس غرض سے جاتاہے۔ عام طورپر ہندو آڑھتی ہر مسلمان زمیندار سے ہر سودے کے وقت ایک مقررہ رقم لیتاہے کہ اتنی گؤشالہ کے لیے ہے،اس قدر دھرم ارتھ کے لیے،اتنی یتیموں کے لیے،اور اس سے مراد مسلمان یتیم خانے اور مسلمانوں کے کام نہیں ہوتے بلکہ خاص ہندوؤں کے کام ہوتے ہیں۔اب غور کرو کہ پنجاب میں کس قدر رقم مسلمان خالص ہندوکاموں کے لیے دیتے ہیں۔پس جب تک مسلمان ان رقوم کو بند نہ کریں گے اور اپنی رقوم کو اسلام کی ترقی کے لیے خرچ نہیں کریں گے وہ پروپیگنڈا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف ہو رہا ہے کبھی بند نہ ہوگا۔لوگ کہتے ہیں مٹھائیاں و برف وغیرہ کہاں سے لیں۔مَیں کہتاہوں ۔اے بھائیو!تمہارے بھائی اسلام کی عزت کے لیے برفوں سے نہیں اپنے بیوی بچوں کی صحبتوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔کیا تم برف اور مٹھائی ترک نہیں کر سکتے اور کیا مسلمان کا دماغ اور سب کام کر سکتاہے مگر یہ کام نہیں کر سکتے۔‘‘

(رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض۔انوار العلوم جلد 9صفحہ569،570)

صنعت و تجارت کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’آپ خواہ کسی شعبۂ زندگی میں حصہ لے رہے ہیں آپ اسلام کی خدمت اپنے دائرہ میں خوب اچھی طرح کر سکتے ہیں اور اب میں آپ کو بتاتاہوں کہ مندرجہ ذیل امور میں سے سب میں یا بعض یا کسی ایک میں حصہ لے کر آپ اسلام کی خدمت میں حصہ لے سکتے ہیں۔

  1. اگر آپ مسلمانوں کی تمدنی حالت درست کرنے میں مدد دے سکتے ہیں اور کسی محکمہ میں مسلمانوں کی ملازمت کا انتظام کر سکتے ہیں تو آپ آج سے اقرار کرلیں کہ جہاں تک آپ کے اختیار میں ہو گا آپ جائز طور پر مسلمانوں کی بیکاری کو دُور کرنے میں مدد دیں گے اور اپنے اس ارادہ سے صیغہ ترقی اسلام قادیان ضلع گورداسپور کو اطلاع دیں گے جسے اس کام کے لیے مَیں نے مقرر کیا ہے۔
  2. اس انجمن کے مراکزکام کی زیادتی کے ساتھ انشاء اﷲ ہر صوبہ میں قائم کیے جائیں گے۔
  3. چونکہ کئی مسلمان مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کا ارادہ تو رکھتے ہیں لیکن انہیں مناسب آدمیوں کا علم نہیں ہوتا اس لیے آپ کو اگر ایسے مسلمانوں کا علم ہو جو کسی قسم کے روزگار کے متلاشی ہیں تو ان لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ اپنے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو جسے موجودہ فتنہ کے دُور کرنے کے لیے میں نے قائم کیا ہے اطلاع دیں۔یہ بھی آپ کی ایک اسلامی خدمت ہو گی۔یہ صیغہ ہر جگہ تحریک کر کے مسلمانوں کی بیکاری کے دُور کرنے کی کوشش کرے گا۔
  4. اگر آپ پیشہ ور ہیں اور آپ کے نزدیک آپ کے پیشہ کے ذریعہ سے ملک کے مختلف گوشوں میں انسان روزی کما سکتاہے تو آپ یہ ارادہ کر لیں کہ آپ مسلمان مستحقین کو اپنا پیشہ سکھا کر انہیں کام کے قابل بنانے کی ہر سعی کو استعمال کریں گے اور اس ارادہ سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں۔
  5. چونکہ بہت سے لوگ اپنے پیشے سکھانا چاہتے ہیں لیکن مستحق آدمیوں کا ان کو علم نہیں ہوتا اس لیے اگر آپ پیشہ سکھا نہیں سکتے مگر آپ کو ایسے نوجوانوں کا حال معلوم ہے جو مناسب پیشہ نہ جاننے کے سبب سے بے کار ہیں تو ایسے نوجوانوں کے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں۔یہ بھی آپ کی اسلامی خدمت ہو گی۔
  6. مسلمان ہر جگہ پر ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔اگرآپ صاحب رسوخ ہیں اور اسلام کی خدمت کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں تو آپ آج سے ارادہ کر لیں کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کے لیے آپ حتی الوسع تیار رہیں گے اور اپنے ارادہ اور پتہ سے مذکورہ بالا صیغہ کو اطلاع دیں تا جو کام آپ کے مناسب حال ہو اس سے آپ کو اطلاع دی جائے۔
  7. اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو یہ بھی آپ کی اسلامی خد مت ہو گی کہ آپ ایسے مظلوموں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیں تا جہاں تک اس کے امکان میں ہو اصلا ح کی کوشش کرے۔
  8. اگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اقتصادیات کا علم دیا ہے اور ذہن رسا عطا کیا ہے اور آپ کو بعض ایسے کام اور پیشے معلوم ہیں جن میں مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو اس کے متعلق صیغہ مذکور کو تفصیلی علم دیں تا اگر اس کے نزدیک وہ کام یا پیشہ مسلمانوں کے لیے مفید ہوں تو وہ ان کی طرف انہیں توجہ دلائے۔
  9. اگر آپ کو بعض ایسے محکموں کا حال معلوم ہو جن میں مسلمان کم ہیں اور ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے لیے مفید ہے تو ان سے صیغہ مذکورہ کو اطلاع دیتے رہیں۔یہ بھی ایک اسلامی خدمت ہے۔‘‘

(آ پ اسلام اور مسلمانوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟۔انوار العلوم جلد 9صفحہ532،533)

محکمہ تجارت تجارتی معلومات بہم پہنچائے

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 15؍اپریل1927ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’پھر نظارت تجارت کی تجاویز ہیں۔

  1. یہ کہ احمدیوں کو بغیر سود قرضہ دینے کے لیے انجمن قائم کی جائے
  2. احمدی تاجروں اور اہل حرفہ کے باہمی تعارف کا انتظام کیا جائے۔
  3. بے کاروں کے لیے کوئی کام جاری کیا جائے۔

یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کے نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کو بہت دقت پیش آرہی ہے۔ان باتوں پر بھی جلد غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ نتیجہ ہو گا کہ جماعت کے مال کا بڑا حصہ ان بے کاروں کو سنبھالنے کے لیے خرچ کرنا پڑے گا۔……
اس کے بعد میں ناظر تجارت (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اﷲ عنہ) کے متعلق کچھ کہنا چاہتاہوں انہوں نے باوجود پہلے سال رپورٹ پیش کرنے کے اس رنگ میں پیش کی ہے جو دلچسپی رکھتی ہے اور معلوم ہوتاہے کہ روپیہ کس کام میں لگا ہوا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ روپیہ کی کس قدر دقت ہے مثلاً ولایت کی تجارت پر روپیہ کم ہونے کی وجہ سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لنڈن میں خرچ زیادہ ہوتاہے اگر روپیہ زیادہ ہوتا تو فائدہ اٹھایا جا سکتاتھا۔غرض انہوں نے بہت دلچسپ بیان کیا ہے مگر ان سے ایک غلطی ہوئی ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایسی سکیم پیش کر دی ہے جو منظور شدہ نہیں ہے بلکہ صدر انجمن کی رائے کے خلاف ہے اور میری رائے کے بھی خلاف ہے جب انہیں یہ معلوم تھا تو رپورٹ میں اسے نہیں پیش کرنا چاہیے تھا۔وہ سکیم یہ ہے کہ جماعت کا روپیہ لے کر اوروں کو تجارت پر دیا جائے۔ سٹور کے متعلق میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ سٹور میں کام کرنے والے میرے نزدیک دیانتدار ہیں۔مگر صرف یہ لکھنے پر ابھی تک میرے نام سٹور میں روپیہ داخل کرنے والوں کی چٹھیاں آرہی ہیں کہ تم ہمارے روپیہ کے ذمہ وار ہو۔میں اب بھی زید اور بکر کو دیانتدا رہی سمجھتاہوں مگر اس وجہ سے دنیا کے کسی قانون کے رُو سے روپیہ کی ذمہ واری مجھ پر عائد نہیں ہو سکتی۔
ہو سکتاہے زید دیانت دار ہو مگر اسے کام کا تجربہ نہ ہو اور اس وجہ سے فائدہ نہ ہو اور اگر تجربہ بھی ہوتو ایسی مشکلات پیش آجائیں کہ کام نہ کر سکے مگر باوجود اس کے سارا الزام مجھ پر عائد کیا گیااور اس وجہ سے بعض لوگ مرتد ہو گئے ہیں جن لوگوں کی تربیت کا یہ حال ہو ان سے روپیہ لے کر کسی تجارتی کام پر لگانا کس قدر خطرناک نتائج پیدا کر سکتاہے۔ یہ کہنا کہ جن لوگوں کو روپیہ دیا جائے گا وہ ہمارے مقرر کردہ رجسٹر پر حساب رکھیں گے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ٹیکس کے لیے رجسٹر مقرر ہیں۔مگر خیانت کرنے والے خیانت کر ہی لیتے ہیں پھر دیانتداری ہر جگہ کامیاب نہیں ہوا کرتی۔نقصان بھی اُٹھانا پڑتاہے۔ پس ہمارا دوسروں سے روپیہ لے کر تجارت کے لیے دینے کا یہ مطلب ہو گا کہ اگر نقصان ہوا تو اعتراض کرنے والوں میں اضافہ ہو جائے گا اس وجہ سے ہم اس کام کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔
اس کی بجائے اگر وہ یہ کرتے کہ بجائے روپیہ لے کر تجارت کے لیے دوسروں کو دیں اور بعض خرابیوں کا ہتھیار بن جائیں۔وہ یہ کریں جو مہذب گورنمنٹیں کر رہی ہیں کہ تجارت کے متعلق اطلاعات بہم پہنچائیں۔مثلاً یہ کہ کون کون سی تجارت کو فروغ ہو رہا ہے اور کس کو تنزل۔یہ باتیں مختلف ذرائع سے معلوم ہو سکتی ہیں۔ اگر ہمارا محکمہ تجارت اس طرح کرے یعنی تجارتی معلومات بہم پہنچائے اور پھر لوگوں سے کہے اطلاعات ہم بہم پہنچاتے ہیں تم تحقیقات کر کے روپیہ لگاؤ جس کے ذمہ وار تم خود ہو گے۔تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتاہے مثلاً بنگال میں بٹن اور سیاہی ،دیا سلائی اور صابن کی تجارت بہت ترقی کر رہی ہے اور باہر کی ان چیزوں کی تجارت ٹوٹ رہی ہے۔ یہاں سیاہی ایسی بنتی ہے کہ باہر سے کم آتی ہے۔ اسی طرح بٹن اتنے سستے بنتے ہیں کہ بیرونجات کی یہ تجارت ٹوٹ رہی ہے۔ صابن کی 60فیصدی تجارت بیرونی چھین لی گئی ہے۔ دیا سلائی کی بیرونی تجارت بھی ٹوٹ رہی ہے۔ اب ان کے متعلق معلومات بہم پہنچائے جائیں۔ پھر یہ بتانا چاہیے کہ کوئی کام ناواقفیت کی حالت میں نہیں کرنا چاہیے۔ فلاں فلاں کا رخانے سے یہ کام سیکھے جا سکتے ہیں ان سے کام سیکھ کر کیا جائے یا خود لوگوں کو بھیج کر کام سکھلائیں۔یہ ایسا کام ہے کہ اس طرح تھوڑے عرصہ میں جماعت میں تجارتی روح پیدا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تجارتی تعلیم اور تجارتی اصول سے جماعت کو واقف کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح جو تجارتیں فروغ حاصل کر رہی ہیں ان کے کارخانوں میں کام کرنے سے بہت فائدہ حاصل ہو سکتاہے۔جماعت کے اکثر لوگ چونکہ تجارت سے نا واقف ہیں اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ تجارت کس طرح کرنی چاہیے۔وہ کہتے ہیں جو دیانتدار ہے ضرورہے کہ نفع بھی حاصل کرے مگر ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ فلاں دیانتدار ہے آگے ممکن ہے ہمارے اندازہ میں بھی 60فیصدی درست ہو اور40فیصدی غلط۔
میرے نزدیک محکمہ تجارت کو ان امور کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔تاکہ عزت بھی محفوظ رہے اور جماعت میں تجارت کی طرف توجہ اور ہیجان زیادہ پیدا ہو۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1927ء صفحہ10،131تا133)

احمدی تاجروں اور صنّاعوں سے چیزیں خریدیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ28؍دسمبر1925ء کوجلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’ضروری ہے کہ جماعت کی مالی اصلاح اور ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ایک تو یہ ضروری ہے کہ جماعت کے لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں مختلف مقامات پر ٹرنک سازی، سیاہی سازی،لُنگیاں بنانا،ازار بند بنانا،کلاہ وغیرہ مختلف قسم کی صنعتیں جاری ہیں۔اگر مختلف جگہ کے احمدی تاجر احمدی صنّاعوں سے اشیاء خریدیں تو ان کی بِکری وسیع ہو سکتی ہے اور ان کی آمدزیادہ ہونے کی وجہ سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے۔پس احمدی تاجر احمدی صنّاعوں سے مال خریدیں اور احمدی گاہک احمدی دکانداروں سے خریدیں تو اس طرح بھی بہت فائدہ ہو سکتاہے ۔ہمارے مبلغوں کو بھی اس کام میں مدد دینی چاہیے۔جہاں جائیں دیکھیں کہ کون سی صنعت کوئی احمدی کرتاہے اور جب دوسری جگہ جائیں تو وہاں کے لوگوں کو بتائیں کہ فلاں مال فلاں احمدی بناتاہے اس سے خریدا جائے۔

صنعتی نمائش کے انعقاد کی تلقین

میرے نزدیک اس پہلو میں ترقی دینے کا ایک آسان طریق یہ بھی ہے کہ مجلس مشاورت کے وقت ایک نمائش بھی ہو جایا کرے جس میں احمدی صنّاع اپنی بنائی ہوئی چیزیں لا کر رکھیں تاکہ دوست واقف ہو جائیں کہ فلاں چیز فلاں جگہ سے مل سکتی ہے اور پھر ضرورت کے وقت وہاں سے منگالیں۔پھر احمدیوں کو چاہیے کہ بے کار احمدیوں کو ملازم کرانے کی کوشش کریں۔بعض دوستوں نے اس بارے میں بڑی ہمت دکھائی ہے مگر اکثر سستی کرتے ہیں۔ اسی طرح جماعت کے لوگوں کو چاہیے تجارتی شہروں میں جا کر تجارت اور صنعت سیکھیں۔‘‘

(منہاج الطالبین۔انوار العلوم جلد 9صفحہ170،171)

تجارت کے ہر شعبہ کو اختیار کرنا چاہیے

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’تجارت کے متعلق میں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اس امر سے مسلمانوں نے سب دوسرے امور کی نسبت زیادہ تغافل برتاہے۔تجارت بالکل مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں ہے اس کا ہر ایک شعبہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان اقتصادی طورپر ہندوؤں کے غلام ہیں اور ان کی گردنیں ایسی بُری طرح ان کے پھندے میں ہیں کہ وہ بغیر ایک جان توڑ جد وجہد کے اس سے آزاد نہیں ہو سکتے۔آڑھت،صرافی،تجارت درآمد و برآمد،ایجنسی،انشورنس،بنکنگ،ہر ایک شعبہ جو تجارت کے علم سے تعلق رکھتا ہے اس میں وہ نہ صرف پیچھے ہیں بلکہ اس کے مبادی سے بھی واقف نہیں اور اس کے دروازے تک بھی نہیں پہنچے۔صرف چند چیزیں خرید کر دکان میں بیٹھ جانے کا نام وہ تجارت سمجھتے ہیں اور ان چیزوں کے بیچنے اور خریدنے کا بھی ڈھنگ ان کو نہیں آتا۔وہ اس کوچہ سے نابلد ہونے کے سبب اس دیانتِ تجارت اور خُلقِ تاجرانہ سے جس کے بغیر تجارت باوجود علم کے بھی نہیں چل سکتی ناواقف ہیں۔پس ضروری ہے کہ ایک کمیشن کے ذریعہ تجارت کی تمام اقسام کی ایک لسٹ بنائی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کس قسم کی تجارت میں مسلمان کمزور ہیں اور کس کس قسم کی تجارت سے مسلمان بالکل غافل ہیں اور پھر ان نقائص کا ازالہ شریعت کے احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔‘‘

مسلم چیمبر آف کامرس

یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مسلم چیمبر آف کامرس بنائی جائے تاکہ مسلمان تاجروں میں اپنی قومی کمزوری کا احساس ہواور وہ ایک دوسرے سے تعاون کا معاملہ کرنے کے عادی ہوں۔اسی چیمبر سے نظامِ مرکزی بھی نہایت قیمتی مدد اپنے اغراض کے پورا کرنے میں لے سکتاہے۔

صنعت و حرفت

صنعت وحرفت کا میدان میرے نزدیک تجارت سے بھی اہم ہے کیونکہ(۱)اس میں نفع کا زیادہ موقع ہے اور(۲)اس میں دوسرے ملکوں کی دولت کھینچی جا سکتی ہے۔اور(۳)ملک کے لاکھوں آدمیوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے(۴)تجارت کا دارومداراس پر ہے۔جو قوم اس پر اچھی طرح قابو پالے وہ تجارت کو اپنے ہاتھ میں آسانی سے لے سکتی ہے ۔اس کے ذریعہ سے ملک اقتصادی اور سیاسی غلامی سے محفوظ ہو جاتاہے۔
مسلمانوں کے لیے اس میدان میں بہت موقع ہے۔اوّل تو اس وجہ سے کہ جو ملکی قدیم صنعت و حرفت ہے اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ۔گو وہ آج کل مردہ ہے لیکن اگر اس کو اُبھارا جائے تو مسلمانوں کے پاس ایک بیج موجود ہے۔دوسرے اس وجہ سے وسیع پیمانے پر صنعت وحرفت کا تجربہ ابھی ہمارے ملک میں شروع نہیں ہوا۔یہ صیغہ ابھی ابتدائی تجارت کی حالت میں ہے اور بہت ہی قریب زمانہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔پس مسلمانوں کے لیے اس میدان کا دروازہ بند نہیں اور وہ آسانی سے اپنا حصہ بلکہ اپنے حصہ سے بڑھ کر اس شعبۂ عمل میں حاصل کر سکتے ہیں۔پس میرے نزدیک اس امر کی طرف فوری توجہ ہونی چاہیے اور اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ(۱)ایک بورڈ آف انڈسٹریز مقرر کیاجائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ ان صنعتوں کی ایک فہرست بنائے جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہو رہی ہیں اور ان کی جو آسانی سے رائج ہو سکتی ہیں اوران کی جن کی ملک کی اقتصادی آزادی کے لیے ضرورت ہے۔جو رائج ہیں ان کو تو ایک نظام میں لا کر ترقی دینے کی کو شش کی جائے اور جو ملک میں رائج ہیں مگر مسلمان ان سے غافل ہیں ان کی طرف مسلمان سرمایہ داروں کو توجہ دلا کر ان کو جاری کروایا جائے اور جو ملک میں رائج ہی نہیں مگر ان کی ضرورت ہے ان کے لیے تجربہ کار آدمیوں کا ایک وفد بیرونی ممالک میں بھیجا جائے جو ان کے متعلق تمام ضروری معلومات بہم پہنچائے اور جن جن صنعتوں کا اجرا وہ ممکن قرار دے ان کے لیے ہوشیار طالب علموں کو وظیفہ دے کر بیرونی ممالک میں تعلیم دلوائی جائے اور ان کی واپسی پر مسلم سرمایہ داران کے ذریعہ سے ان صنعتوں کے کارخانے جاری کیے جاویں۔‘‘

(آل پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر۔انوار العلوم جلد 9صفحہ122تا124)

صنعت و حرفت کی ایک خاص سکیم

حضور انور رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مؤرخہ12؍اپریل1925ء کومجلس مشاورت میں فرمایا:
’’اسی طرح ہماری جماعت کے لوگوں کو صنعت وحرفت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ ایک خاص سکیم بے کاروں کے انتظام کے متعلق تیار کی جائے۔ اگر جماعت اس طرف توجہ کرے تو بہت کچھ کام ہو سکتاہے اور بے کاروں کے نوکر ہو جانے یا کاروبار کرنے کی صورت میں سلسلہ کی کئی ہزارکی آمدنی ہو سکتی ہے۔
میں اس کے لیے بھی سکیم تیار کر رہا ہوں کہ کس طرح سلسلہ کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے لیے جمع کر سکتے ہیں۔مگر فی الحال اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو اپنی جماعت سے بہت سے مردوں اور عورتوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتاہوں کہ اگر ہندو اور مسلمان سوراج کے لیے کھدر پہن سکتے ہیں تو ہماری جماعت کو تیار رہنا چاہیے کہ اگر ہمیں اسلام کے لیے کھدر پہننا پڑے تو عورتیں اُسے تیار کریں اور مرد پہنیں اور خالی روٹی یا معمولی روٹی کھا کر اس وقت تک اس طرح گذارا کریں جب تک کہ کافی جماعت نہ ہو جائے۔

(رپورٹ مجلس مشاورت1925ء صفحہ77)

ہر احمدی محنت کرے

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایک مسلمان شہری کے جو کام اسلام نے مقرر کیے ہیں اب میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں۔ایک حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ ہر ایک آدمی محنت کرکے کھائے اور سست نہ بیٹھے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!بہترین رزق وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے مہیا کرے اور فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ کی محنت سے اپنا رزق پیدا کرتے تھے۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۔انوار العلوم جلد8صفحہ280)

سود اور منافع کی زیادتی کے نقصانات

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’اگر غور کیا جائے تو اس نقص کے باعث کہ بعض ملکوں میں چند گھرانوں میں تمام ترقیات محدود ہو گئی ہیں ،تین ہیں۔

  1. جائیداد کا تقسیم نہ ہونا بلکہ صرف بڑے لڑکے کے قبضہ میں رہنا اور مال کے متعلق باپ کو اختیار ہونا کہ جس قدر چاہے جس کو چاہے دے دے۔
  2. سود کی اجازت جس کی وجہ سے ایک ہی شخص یا چند افراد بغیر محنت کے جس قدر چاہیں اپنے کام کو وسعت دے سکتے ہیں۔
  3. منافع کی زیادتی۔

ان تین نقائص کی وجہ سے بہت سے ممالک میں لوگوں کے لیے ترقیات کے راستے بالکل محدود ہو گئے ہیں۔جائیدادیں چند لوگوں کے قبضہ میں ہیں اور اس وجہ سے غرباء کو جائیدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں۔سود کی وجہ سے جو لوگ پہلے ہی اپنی ساکھ بٹھا چکے ہیں وہ جس قدر چاہیں روپیہ لے سکتے ہیں۔چھوٹے سرمایہ دار کو ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ منافع کی زیادتی کی وجہ سے دولت ایک آبشار کی طرح چند لوگوں کے گھروں میں جمع ہو رہی ہے……
دوسری روک غرباء کے راستہ میں سود ہے، سود کے ذریعہ سے وہ تاجر جو پہلے سے ساکھ بٹھا چکے ہیں جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے سکتے ہیں۔اگر ان کو اس طرح روپیہ نہ مل سکتا تو وہ یا تو دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے یااپنی تجارت کو اس پیمانہ پر نہ بڑھا سکتے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے روک بن سکیں اور ٹرسٹس اور ایسوسی ایشنز قائم کر کے دوسرے لوگوں کے لیے ترقی کا دروازہ بالکل روک دیں۔نتیجہ یہ ہوتا کہ مال ملک میں مناسب تناسب سے تقسیم رہتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ مال جمع نہ ہو سکتا۔جو ملک کی اخلاقی ترقی کے لیے مہلک اور غرباء اور درمیانی طبقہ کے لوگوں کے لیے تباہی کا موجب ہوتاہے۔
تیسری صورت جو نفع کی زیادتی کی تھی اس کا اسلام نے ایک تو اس ٹیکس کے ذریعہ سے انتظام کیا ہے جو غرباء کی خاطر امراء سے لیا جاتاہے۔اس ٹیکس کے ذریعہ سے اتنی رقم امراء سے لے لی جاتی ہے کہ ان کے پاس اس قدر روپیہ اکٹھا ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے زور سے ملک کا سارا روپیہ جمع کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ جس قدر روپیہ ان کے پاس ہو گا اس میں سے ہر سال ان کو غریبوں کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔دوسرے شریعت نے یہ انتظام کیا ہے کہ غرباء میں سے ہوشیار اور ترقی کرنے والے لوگوں کو اس ٹیکس میں سے اس قدر سرمایہ دیا جائے کہ وہ اپنا کام چلا سکیں۔ اس ذریعہ سے نئے نئے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں رہے گا۔
تیسرے اسلام نے ان ترکیبوں سے منع کر دیا ہے جن کے ذریعہ سے لوگ ناجائز طور پر زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں۔چنانچہ اسلام اس امر کو گناہ قرار دیتاہے کہ کوئی شخص تجارتی مال کو اس لیے روک رکھے کہ تااس کی قیمت بڑھ جائے اور وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہو۔پس اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرسٹس کی قسم کے تمام ذرائع جن سے نفع کو زیادہ کیا جاتاہے اسلامی تعلیم کے مطابق ناجائز ہوں گے اور حکومت ان کی اجازت نہ دے گی۔
اب ایک سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر سود بند کیا جائے گا تو تمام تجارتیں تباہ ہو جائیں گی مگر یہ امر درست نہیں۔ممانعتِ سود سے کبھی تجارتیں تباہ نہ ہو ں گی۔اب بھی سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ اس وجہ سے سود کا تعلق تجارت سے ہے کہ مغربی ممالک نے اس طریق کو نشوونما دیا ہے۔ اگروہ اپنی تجارتوں کی بنیاد شروع سے سود پر نہ رکھتے تو نہ آج یہ بے امنی کی صورت نظر آتی اور نہ تجارتوں سے سود کا کوئی تعلق ہوتا۔آج سے چند سو سال پہلے مسلمانوں نے ساری دنیا سے تجارت کی ہے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے کامیاب تجارت کی ہے مگر وہ سود بالکل نہیں لیتے تھے۔وہ بوجہ سود نہ لینے کے ادنیٰ ادنیٰ غرباء سے روپیہ شراکت کے طور پر لیتے تھے اور ملک کے اکثر حصہ کو ان تجارتوں سے فائدہ پہنچتاتھا۔
پس سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ سود پر چونکہ ان کی بنیاد رکھی گئی ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سود پر چل رہی ہیں۔بے شک شروع میں دقتیں ہو ں گی لیکن جس طرح سود پر بنیاد رکھی گئی ہے اسی طرح اس عمارت کو آہستگی سے ہٹایا بھی جا سکتاہے۔
سود اس زمانہ کی وہ جونک ہے جو انسانیت کاخون چوس رہی ہے۔ غرباء اور درمیانی درجہ کے لوگ بلکہ امراء بھی اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں مگر بہت سے لوگ اس چیتے کی طرح جس کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ اپنی زبان پتھر پر رگڑ رگڑ کر کھا گیا تھا ایک جھوٹی لذت محسوس کر رہے ہیں۔جس کے سبب سے وہ اس کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور اگر چھوڑنا چاہتے ہیں تو سوسائٹی کا بہاؤ ان کو الگ ہونے نہیں دیتا۔
اس کے دو خطرناک اثر ملکوں کے امن کے خلاف پڑ رہے ہیں۔ایک اس کے ذریعہ سے دولت محدود ہاتھوں میں جمع ہو رہی ہے ۔دوسرے اس کی وجہ سے جنگیں آسان ہو گئی ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کا کوئی انسان بھی اس جنگ عظیم کی جو پچھلے دنوں ہوئی ہے جرأت کر سکتاتھا اگر سود کا دروازہ اس کے لیے کھلا نہ ہوتا؟جس قدر روپیہ اس جنگ پر خرچ ہوا ہے مختلف ممالک اس روپے کے خرچ کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوتے اگر اس کا بوجھ براہ راست ملک کی آبادی پر پڑجاتا۔اس قدر عرصہ تک جنگ محض سود کی وجہ سے جاری رہی ورنہ بہت سی سلطنتیں تھیں جو اس عرصہ سے بہت پیشتر جس میں پچھلی جنگ جاری رہی جنگ کو چھوڑ بیٹھتیں کیونکہ ان کے خزانے ختم ہوجاتے اور ان کے ملک میں بغاوت کی ایک عام لہر پیدا ہو جاتی۔یہ سود ہی تھا جس کی وجہ سے اس وقت تک لوگوں کو بوجھ محسوس نہیں ہوالیکن اب کمریں اس کے بوجھ کے نیچے جھکی جا رہی ہیں اور غالباً کئی نسلیں اس قرضہ کے اتارنے میں مشغول چلی جائیں گی۔اگر سود نہ لیا جاتا تو جنگ کا نتیجہ وہی ہوتا جو اب ہوا ہے یعنی وہی اقوام جیت جاتیں جو اب جیتی ہیں۔مگر فرانس اس قدر تباہ نہ ہوتا،جرمنی اس طرح برباد نہ ہوتا،آسٹریا اس طرح ہلاک نہ ہوتا،انگلستان پر یہ بارنہ پڑتا،اول تو جنگ چھیڑنے ہی کی حکومتوں کو جرأت نہ ہوتی اور اگر جنگ چھڑ بھی جاتی تو ایک سال کے اندر جوش مدھم ہو کر کبھی کی صلح ہو چکی ہوتی اور آج دنیا شاہراہِ ترقی پر چل رہی ہوتی۔ حکومتیں آج کل آلاتِ جنگ کے کم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر آلات تو ارادے کے ساتھ فوراً ہی بن جاتے ہیں۔جس چیز کے توڑنے کی ضرورت ہے وہ سود ہے۔ قرآن کریم کہتاہے کہ سود جنگ کے پیداکرنے کا موجب ہے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔انوار العلوم جلد8صفحہ307تا310)

سودسے پاک قرضہ سکیم

مجلس مشاورت مؤرخہ22؍مارچ 1924ء میں مکرم ناظر صاحب امور عامہ نے درج ذیل سکیمیں پیش کیں۔قرضہ سکیم، کواپریٹو سوسائٹی، اجتماعی اراضی، پول سسٹم۔
اس پرتبصرہ کرتے ہوئے حضورانور رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
’’بات یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لیے بعض مشکلات ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ بعض ایسی باتیں ہیں جن سے دُنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی ہمت کریں تو فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔اس لیے میں نے امور عامہ کو کہا تھا کہ سکیم تیار کریں۔……
ہماری جماعت کے لوگوں کو جب قرض لینا پڑتاہے تو سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔حالانکہ سود سے خدا نے سخت منع کیا ہے۔مگر جو مشکلات میں ہوتے اور سود پہلے سے لے چکے ہوتے ہیں ان کے لیے مشکل ہوتاہے۔ بعض جائیدادیں بیچ کر سود سے بچ جاتے ہیں مگر بعض کے پاس اتنی جائیدادنہیں ہوتی کہ قرض ادا کر سکیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ سود نہیں دیتے مگر ان کو کوئی قرض دیتا ہی نہیں۔ان مشکلات کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ قرضہ کا طریق جاری ہو جو مختلف سوسائٹیوں کے لیے الگ ہو۔زمینداروں،تاجروں،ملازموں کے لیے علیحدہ علیحدہ قسم کی سوسائٹیاں ہوں۔
تاجر یوں کر سکتے ہیں کہ مثلاً سو تاجر مل جائیں،10روپیہ مہینہ ہر ایک دیتا رہے ،ایک ہزار ماہوار جمع ہو،یعنی12ہزار سالانہ۔اس میں سے چھ ہزار سے ایسی کمیٹیوں کے حصے خرید لیں جس سے وقتی ضروریات یا نقصان کو پورا کر سکیں اور بقیہ رقم کو اس لیے رکھیں کہ جس کو ضرورت ہو اپنے ممبروں میں سے اس کو قرض دیا جائے۔آہستہ آہستہ یہ کام بہت وسیع ہو جائے گا۔اسی طرح زمیندار ہیں ،وہ حصہ مقرر کر لیں کہ اتنے روپیہ چندہ دینے والے کو اتنا قرض دیا جا سکتاہے جس قدرروپیہ جمع ہونصف کو قرضہ کے لیے رکھیں اور باقی سے زمین خریدلیں۔ان کی آمد سے نقصان وغیرہ پورا کیا جا ئے۔
اس طرح قرض اُترنا شروع ہو جائے گا۔اس قسم کی سوسائٹیاں بن جائیں تو ان سے ان کو قرضہ ملے گا جس کو ضرورت پڑے۔ اگر ایسانہ ہو گا تو سب آدمی سود سے نہیں بچ سکتے۔مگر یہ طریق نہیں چل سکتا جب تک سارے اس کے لیے متفق نہ ہوں اور ان میں یہ کام کرنے کی روح نہ پیدا ہو۔
یہ سکیم ہے اس کے لیے کہتے ہیں کمیٹی مقرر کی گئی ہے مگر وہ ایک ہے تین ہونی چاہئیں۔

  1. تاجروں کی
  2. ملازموں کی
  3. زمینداروں کی۔

اقتصادی طور پر جماعت گِرتی جا رہی ہے کیونکہ احمدی ایک طرف چندہ زیادہ دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ قرض چونکہ سودی ملتاہے وہ اس طرح کام نہیں چلا سکتے جس طرح اور چلا سکتے ہیں۔ اس کا اثر دینی کاموں پر بھی پڑتاہے اس لیے قرضہ کے لیے ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ سود بھی نہ دینا پڑے اور ضرورت کے وقت قرضہ بھی مل جائے۔
اسی طرح ایک اور طریق ہے اور وہ یہ ہے ساؤتھ امریکہ میں گاؤں والے ایک جگہ زمین جمع کر لیتے ہیں اگر ہمارے مربعوں والے ایسا کریں کہ اپنی زمین اکٹھی کر لیں تو بہت اچھا کام ہو سکتاہے امریکہ میں گاؤں والے مل کر سوسائیٹیاں بنا لیتے ہیں۔ سارے مل کر ٹھیکہ پر اس کمیٹی کو زمین دے دیتے ہیں اور خود اس کے ممبر ہوتے ہیں اور سوسائٹی میں وہی کام کرتے اور مزدوری لیتے ہیں۔اگر ہم نے دنیا میں حکومت کرنی ہے تو ضروری ہے کہ ہر قسم کے بہترین انتظام کر لیں ہمیں چاہیے کہ سوچیں اور سکیم پر غور کریں اور جب بھی فرصت ہو اس پر عمل شروع ہو جائے جب ایک دو گاؤں اس کے لیے تیار ہوجائیں تو اس پر عمل شروع ہو جائے۔اگر ضرورت ہو تو مرکز بھی مدد دے سکتاہے۔ اگر اس طرح سکیموں پر غور ہوتا رہے تو ہماری جماعت دینی ہی نہیں اقتصادی برتری بھی حاصل کرسکتی ہے جو کمیٹی اس کام کے لیے بنی ہے وہ اس امر کو مدنظر رکھ کر غور کرے اور اس قسم کی اور تجاویز پر اور سکیموں پر غور کرے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1924ء صفحہ50تا53)

عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کا طریق

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ14؍نومبر1923ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’مسلمان صنعت و حرفت کی طرف توجہ کریں۔ڈاکٹری اور وکالت وغیرہ کے پیشوں میں مسلمانوں کی کافی تعداد ہو۔ اسی طرح بنکوں میں مسلمان پیچھے ہیں ان میں ترقی کرنی چاہیے۔میں سودی لین دین کے خلاف ہوں کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مگر میں نے غور کیا ہے کہ اگر قوم تیار ہو تو سود کے بغیربینک چل سکتاہے ۔اسی طرح ہندوستان کی تجارت ایکسپورٹ اور امپورٹ جو کُلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اس شعبہ کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔علاوہ ازیں کمیشن ایجنسیوں میں بھی مسلمان پیچھے ہیں بلکہ صفر کے برابر ہیں۔ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔پس اگر مسلمان گھٹنوں کے بل گِر کر معافی مانگنا اور ذلیل ہوکر زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں تو او ربات ہے ورنہ اگر چاہتے ہیں کہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کریں تو ان کمیوں کو پورا کریں۔‘‘

(پیغام صلح۔انوار العلوم جلد7صفحہ315)

ایک تاجر صحابی رضی اﷲ عنہ کی ذہانت کا واقعہ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍اکتوبر1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ صحابہ رضی اﷲ عنھم تجارت بھی کرتے تھے اور زراعت بھی کرتے تھے لیکن دین ان کو مقدم تھا اور دین کے کام میں کبھی سوال نہیں کرتے تھے اور دنیا ان کو دین کے کام سے روک نہیں سکتی تھی۔یہ نہیں تھا کہ ان کو تجارت یا کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا چنانچہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ نے ایک دفعہ کئی ہزار اونٹ خریدے جب وہ ہزاروں اونٹوں کا ایک وقت میں سودا کرسکتے تھے تو اس سے پتہ لگتاہے کہ ان کے پاس لاکھوں ہی روپے ہوں گے چنانچہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے گھر میں کئی کروڑ روپیہ تھا۔وہ اونٹ انہوں نے تجارت کے لیے خریدے تھے اور فوراً ہی بک گئے اور سودا اسی طرح ہوا کہ جس قیمت پر انہوں نے خریدے تھے اسی پر بیچ دیئے۔مگر عقال (اونٹ باندھنے کی رسی) کے بغیر۔کسی نے کہاآپ کو کیا نفع رہا ہے؟ انہوں نے کہا اتنے ہزار عقال جتنے ہزار اونٹ ہیں نفع میں آئے کیونکہ میں نے سودا مع عقال کیا تھا اور بیچے بغیر عقال کے ہیں اور اسی طرح ان کو کھڑے کھڑے نفع ہو گیا۔یہ سودا کئی لاکھ کا تھااور آج کل بھی اتنا بڑا سودا بہت بڑا سودا سمجھا جاتاہے۔غرض یہ ان کی تجارت کا حال تھا۔باوجود اس کے وہ دین میں تجارت نہ کرتے تھے بلکہ جو کام کرتے تھے خدا کے لیے کرتے تھے۔وہ دنیاوی امور میں بھی انصاف اور عدل کو نہ چھوڑتے تھے۔دو صحابیوں کا حال میں نے تو کسی کتاب میں پڑھا نہیں حضرت صاحب علیہ السلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان میں اس بات پر جھگڑاہو رہاتھاکہ ایک اپنا گھوڑا مثلاً تین ہزار درہم پر بیچتے تھے اور جوخریدنا چاہتے تھے کہتے تھے نہیں یہ گھوڑا پانچ ہزار کا ہے۔وہ اس قدر قیمت دینے پر مُصر تھے۔لیکن آج کل تو لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر دیکھیں خریدار اتنی زیادہ رقم دیتاہے تو وہ فوراً کہہ دیں گے کہ لو سودا پختہ ہو گیا۔اصل میں بیچنے والا واقف نہ تھا اور خریدار واقف تھااس لیے وہ اس کی کم قیمت نہ دینا چاہتاتھا اور بیچنے والا اس کی زیادہ قیمت لینا دھوکہ خیال کرتا تھا وہ سمجھتاتھا کہ یہ مجھ پر احسان کرنا چاہتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد7صفحہ396)

تجارت کے سنہری اصول

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ23؍جون1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’آج میں اپنی جماعت کے ایک خاص حصے کے متعلق بعض باتیں بیان کرنا چاہتاہوں ۔مگر اس میں ساری جماعت کے لیے بھی فائدہ ہے۔اس لیے کہ وہ حصہ ایسا نہیں کہ وہ کسی خاص قوم سے تعلق رکھے۔بلکہ ہر ایک کے لیے ممکن ہے کہ اس میں شامل ہوجائے اور ممکن ہے کہ اس طرح پر نصائح سب لوگوں کے لیے مفید ہوں وہ حصہ تاجروں کا حصہ ہے۔آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں طبعاً اس بات کا خواہش مندہوں اورہر ایک وہ شخص جو احمدیت سے تعلق رکھتاہے اس بات کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ یہ جماعت ترقی کرے۔دین میں بھی اور دنیا میں بھی اور اس کی ترقی کے لیے جس قدر بھی جائز اخلاق کے اندر ذرائع ہوں وہ استعمال کیے جائیں۔کوئی مذہب اس خواہش سے نہیں روکتا۔ یہ خواہش مجھ میں بھی ہے اور ہر ایک احمدی کے دل میں ہوگی۔

صحیح ذرائع کے استعمال سے کامیابی ملتی ہے

لیکن ہر ایک کام کے لیے کچھ ذرائع ہوتے ہیں میں نے اس طرف بارہا توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے لیے خدا نے جو راستہ اور ذرائع رکھے ہیں انہی پر چلنے اور ان کو استعمال کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے اور ان کو ترک کرنے سے ناکامی ہوتی ہے۔صحیح ذرائع سے کام نہ لینے کی غلطی مختلف مذاہب کے لوگوں کو مذہب کے بارے میں لگی ہے۔وہ محض خالی کوشش کو کامیابی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں اگر ایک شخص سارا دن خدا کے لیے کام کرتا اور رات بھر اس کے لیے جاگتاہے تو وہ محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نہ ماننے کی وجہ سے کیوں جہنم میں جائے۔وہ کہتے ہیں اصل چیز تو محبت الٰہی ہے۔اگر ایک شخص کو جہالت سے اصل نماز کا پتہ نہیں لگتااور وہ اپنے رنگ میں عبادت کرتاہے اگر وہ رمضان کے روزوں کی بجائے یونہی فاقہ کشی کرتاہے یا حج بیت اﷲ کرنے کی بجائے یونہی خدا کے لیے گھر بار چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتاہے یا مقررہ طریق پر زکوٰۃ دینے کی بجائے اپنے مال کا چالیسواں حصہ نہیں بلکہ بہت زیادہ دیتاہے تو وہ کیوں خدا کو نہیں پا سکتا۔ہم کہتے ہیں ہر ایک چیز کے ملنے کے لیے مقررہ ذرائع ہوتے ہیں اور جب تک ان کو نہ استعمال کیا جائے وہ چیز نہیں مل سکتی مثلاً پانچ روپیہ اگر منی آرڈر کرنے ہوں تو ان پر چار آنہ محصول مقرر ہے۔ اگرکوئی شخص فارم پُر کر کے سوا پانچ روپیہ ڈاکخانہ میں دے گا تو اس کا منی آرڈر منزل پر پہنچ جائے گا۔لیکن اگر کوئی شخص فارم پُر کرنے اور ڈاک خانہ میں دینے کی بجائے تھانے میں جائے اور پانچ روپیہ کے ساتھ چارآنہ محصول کی جگہ دو روپیہ وہاں دے آئے تو اس کے روپے نہیں پہنچ سکیں گے۔تھانہ والے اس کا روپیہ واپس کر دیں گے اور اگر کوئی خراب نیت کے لوگ ہوئے تو سات کے سات خود کھا جائیں گے۔اسی طرح زمین بونے کے لیے اس میں ہل چلایا جاتا اور ایک حد تک گہرا چلایا جاتا ہے مگر ایک شخص زمین میں ہل چلانے کے بجائے لمبے لمبے اور گہرے کنویں کھود کر ان میں بیج ڈال دے تو کیا اس کا کھیت تیار ہو جائے گا گو اس نے محنت کی اور ہل چلانے والے سے بہت زیادہ کی مگر چونکہ اس طریق کو چھوڑ دیا جو کھیت بونے کے لیے مقرر تھا اس لیے اس کا بیج زمین میں ضائع ہو جائے گا۔چہ جائیکہ اس کا کھیت تیارہو۔اسی طرح ایک شخص سخت گرمی میں آتاہے اور کنویں سے ڈول نکال کر پانی پی لیتاہے مگر دوسرا پیاسا آتاہے جو دو من کی بوری اُٹھا کر ایک میل تک چلا جاتاہے اور پھر شکایت کرتاہے کہ میں نے پہلے سے زیادہ کام کیا اور محنت اُٹھائی مگر میں پیاسا ہی رہا۔تو اس کا یہ کہنا غلط ہو گا کیونکہ پیاس کے لیے پانی کنویں سے نکال کر پینا ایک ذریعہ ہے ۔لیکن یہ کوئی ذریعہ نہیں کہ پیاسا بوریاں اُٹھا کر بھاگتا پھرے۔ پس جو طریق کسی کام کے کرنے کا ہے اسی طریق پر کیا جائے گا تو ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔
اسی طرح مذاہب کا حال ہے۔بعض مذاہب میں اسلام کی نسبت بہت مشقتیں اور محنتیں ہیں مگر ان کا نتیجہ کچھ نہیں۔مثلاً ہندو مذہب ہے اس میں لوگ اُلٹے لٹکتے ہیں اور اُلٹے لٹکے ہوئے ہی آٹا گوندھتے اور اسی حالت میں روٹی پکاتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس سے خدا کی رضا اور جنت کے اعلیٰ مقام پالیں گے؟نہیں۔کیونکہ غلط طریق سے جو کام کیا جاتاہے اس میں کامیابی نہیں ہوتی۔پس اگر کوئی غلط طریق پر خدا تعالیٰ کے حضور جانا چاہے گا تو ردکیا جائے گا۔

نفع کی بھی ایک حد ہونی چاہیے

ہماری جماعت میں خواہش ترقی ہے خواہ دینی ترقی ہو یا دنیاوی۔مگر اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحیح طریق پر عمل ہو۔ بعض حالات کی وجہ سے یہاں سودے سلف پر بعض روکیں عائد کی گئی ہیں۔کیونکہ ان حالات نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم ایسا کریں۔اگر وہ حالات دور ہو جائیں تو یہ روکیں نہیں رہ سکتیں۔گویا یہ روکیں عارضی ہیں ۔ان کی وجہ سے اگر کوئی فائدہ آتاہے تو وہ حقیقی فائدہ نہیں۔اصل میں فائدہ وہ ہے جو اپنی لیاقت اور قابلیت سے حاصل کیا جائے۔مگر لوگ اس اصل کو نہیں سمجھتے ۔وہ اپنی اس بات کو خلاف دیانت نہیں سمجھتے کہ بازار میں ایک چیز جو سستی بکتی ہو اس سے ایک شخص اس دلیل کی بنا پر مہنگا بیچے کہ یہ میری چیز ہے میں جس قیمت پر چاہوں بیچوں اور اس طرح زیادہ قیمت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔مگر ان کا یہ کہنا اس وقت تک غلط ہے جب تک کہ خریداروں پر روکیں لگائی گئی ہیں اور اگر کوئی ایسا کہتاہے تو یہ اس کی بددیانتی ہے۔اگر زید کو مجبورکیا گیا ہے کہ وہ بکر سے سودانہ لے بلکہ خالد سے لے اور خالد، بکر کی نسبت مال کی قیمت بڑھاتاہے اور زید اس سے لینے پر مجبور ہے تو اس کی مجبوری سے اس کو ناجائز فائدہ اُٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ میری چیز ہے جس طرح چاہوں بیچوں۔اس کا ایسا کہنا غلط ہے۔اس کو منڈی کے نرخ کا خیال رکھنا چاہیے۔
دیکھو اگر کسی شخص کے پاس کچھ روٹیاں ہوں اور ایک سائل اس سے مانگنے آئے تو یہ اس کا حق نہیں کہ وہ اس کو کہے کہ میں نہیں دیتا تو جب فقیر جو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا اس کو روٹی نہ دینا غلطی اور ظلم ہے۔تو جو شخص قیمتاً ایک چیزلیتاہے اور دکاندار اس کو منڈی کے نرخ پر نہیں دیتا وہ بھی ظالم ہے۔
اگر کوئی شخص منڈی کے نرخ سے گراں نرخ رکھتاہے تو یہ بددیانتی کرتاہے اور لوگوں کی مجبوری اور ناواقفی سے فائدہ اُٹھاتاہے ہاں اگر کوئی دکاندار ایسا اعلان کر دے اور بورڈ پر لکھ کر لگا دے کہ میں دو پیسہ میں امرتسر سے چیز خریدتا ہوں اور یہاں ایک آنے میں بازارمیں بکتی ہے مگر میں دو آنے میں بیچتاہوں اور پھر گاہک اس کی دکان پر جائیں اور اس سے خریدیں تو اس کا حق ہو سکتاہے لیکن لوگ عام طور پر چونکہ بھاؤ سے واقف نہیں ہوتے اس لیے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ان سے زیادہ قیمت لی جاتی ہے اور یہ بددیانتی ہے اور یہ بددیانتی اپنی غلطی اور ناواقفی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اپنی غلطی کا اثر دوسروں پر ڈالا جاتاہے کہ ہم نے مہنگی خریدی ہے ۔اس لیے مہنگی بیچتے ہیں۔حالانکہ اس کا خمیازہ ان کو خود بھگتنا چاہیے۔
جو لوگ یہ طریق جاری رکھتے ہیں نہ ان کی تجارت کامیاب ہوتی ہے نہ ان کو تجارت کا علم آتاہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی دکان اچھی حالت میں نہیں ہے۔لوگ محنت نہیں کرتے اور تجارت کا علم حاصل نہیں کرتے اور ناجائز وسائل سے اپنی دکان چلانا چاہتے ہیں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ روک جو سودے سلف کے متعلق ہے قائم رہے اور جو چیز ایک لاتاہے وہ دوسرا نہ لاوے۔مگر خود محنت نہیں کرتے ۔یہ ناجائز یا وقتی حفاظت کے طریق ہیں۔اگر صحیح ذرائع پر عمل کریں تو ان ذرائع کو اختیار کرنے کی ان کو ضرورت نہ رہے اور ان کی یہ خواہش نہ ہو کہ یہ روک قائم رہے۔کیونکہ یہ بھی عارضی ہے۔اگر آج حالات بدل جائیں تو وہ روک قائم نہیں رہ سکتی۔ہوشیار آدمی ہوشیاری سے کام کرتا اور کامیاب ہوتاہے۔لیکن اگر ہوشیاری کے ساتھ دیانت بھی شامل ہو جائے تو پھر یہ بہت اعلیٰ درجہ کی بات ہوتی ہے۔اگر ہوشیاری نہ ہو بلکہ سستی ہو تو پھر کامیابی مشکل ہے اور پھر فائدہ اُٹھانے کی خواہش ایک مخفی بددیانتی ہے۔
ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ہر ایک بات میں بڑھ کر رہیں۔مومن غیرت مند ہوتاہے اور وہ کسی بات میں کسی سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔
حضرت شاہ اسماعیل(شہید دہلوی)کا ایک واقعہ ہے ان کو معلوم ہوا کہ ایک سکھ ہے جو تیرنے میں بہت مشّاق ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔یہ سن کر آپ تیر نے کی مشق کرنے لگے اور اس میں ایسا کمال حاصل کیا کہ کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکتاتھا۔یہ انہوں نے اس لیے کیا کہ کوئی غیر مسلم مسلمانوں سے کسی کام میں کیوں بڑھ جائے تو مومن چھوٹی چھوٹی باتوں میں غیرت رکھتا ہے اور ہر ایک بات میں خواہ وہ دین کی ہو یا دنیا کی دوسروں سے بڑھنے کی کوشش کرتاہے۔
ہمیں شبہ نہیں کہ دنیا الگ ہے اور دین الگ۔مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیاوی باتوں کا اثر دین پر پڑتاہے جو شخص دنیا میں سست ہو وہ دین میں بھی سست ہوتاہے جو دنیاوی کام کرنے میں سست ہے وہ تہجد کے لیے کب اُٹھے گااور وہ آہستہ آہستہ سنتوں کا بھی تارک ہو جائے گااور فرائض کو بھی جواب دے دے گا۔کیونکہ سستی ایک ہی چیز ہے اور وہ دونوں جگہ کرے گا۔دنیا میں بھی اور دین میں بھی۔

ولایت میں نفع کی حد بندی

ولایت میں نفع کی حد بندی کی گئی ہے مثلاً اس حد تک نفع جائز ہے اور اس کے آگے ناجائز اور وہاں نفع مقرر کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ چیز عام مقابلہ میں آجائے اس وقت جو قیمت ٹھہر جائے وہ اصل قیمت ہواور اس میں یہ بات بھی مدنظر رکھی جاتی ہے کہ بیچنے والے آپس میں سمجھوتہ نہ کرلیں۔یعنی یہ نہ ہو کہ دس پندرہ دکاندار آپس میں فیصلہ کر لیں کہ اس قیمت پر فروخت کریں گے۔اگر یہ ہو تو یہ ناجائز ہے اور سمجھوتہ کر کے جو نفع حاصل کیا جائے وہ بھی ایک قسم کی ٹھگی ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص زائد نفع اپنی لیاقت سے حاصل کرتاہے تو وہ جائز ہے۔مثلاً لوگ عموماً امرتسر سے چیزیں لاتے ہیں اور ایک نرخ پر یہاں بیچتے ہیں دوسرا شخص اگر دلی سے اس سے سستی لا کر اس نرخ پر بیچتاہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ نفع کماتاہے تو اس پر الزام نہیں یا کراچی میں ایک چیز بہت سستی ملتی ہے اور ایک شخص وہاں سے لاتاہے جو یہاں بہت سستی پڑتی ہے پھر اگر وہ بازار کے عام نرخ پر بیچ کر تمام بازار والوں سے زیادہ نفع لیتاہے تو اس پر الزام نہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر دکاندار وں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں ان میں بعض غلط بھی ہوتی ہیں مگر بعض درست بھی۔بعض دکانداروں کایہ کہنا کہ ہمارا حق ہے کہ ہمارے بھائی ہم سے چیزیں خریدیں۔یہ سچ ہے کہ ان کاحق ہے کہ ان کے بھائی ان سے چیزیں خریدیں۔مگر بھائیوں کا بھی تو حق ہے کہ تم ان سے ناجائز فائدہ نہ اُٹھاؤ۔اس سے بری بات کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنا حق یاد رکھے مگر دوسرے کا حق بھول جائے۔حالانکہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنا حق بھلا دیتاہے اور دوسروں کا حق جو اس پر ہو یاد رکھتاہے ۔……صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم دوسرے کے حق کو خوب یاد رکھتے تھے۔روایات میں آتاہے کہ ایک گھوڑا ایک صحابیؓ بیچنے لگے اور اس کی قیمت انہوں نے مثلاً دو ہزار مقرر کی۔دوسری طرف جو صحابیؓ خریدار تھے وہ چار ہزار بتاتے تھے اور ان میں اسی بات پر جھگڑا تھا کہ مالک کم قیمت بتاتا اور خریدار زیادہ دیتا۔تو مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حقوق کا بہت خیال رکھتاہے جب دوسرے کے حقوق کا خیال لازمی ہے اور بددیانتی منع ہے تو مومن کے لیے کس قدر لازمی ہے کہ وہ ہوشیاری اور چستی سے کا م لے۔
دکانداروں کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہماری چیز ہے ہم اس کی جو قیمت چاہتے ہیں مقرر کرتے ہیں۔نہ یہ اصولاً درست ہے نہ اخلاقاً درست ہے عام طور پر دکاندار یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی ناواقفیت سے جتنے کی چیز ملتی ہے لے آتے اور سَستی اور عمدہ تلاش نہیں کرتے اور پھر اس کا اثر خرید ار پر ڈالتے ہیں۔اگر انہیں اپنی سستی کا خمیازہ بھگتنا پڑے اور عام بھاؤ پر بیچ کر نقصان ہوتو آئندہ کے لیے ہوشیا ر ہو جائیں۔ مگر ابھی تک لوگ اس گُر کو نہیں سمجھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ خود اچھی طرح دکان چلاسکتے ہیں اور نہ ان کے خریدار ان سے خوش ہوتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دکان بند ہوجاتی ہے۔
میں تو یہ خیا ل نہیں کر سکتاکہ کوئی احمدی کہلانے والا جان بوجھ کر دھوکہ دیتاہے۔کیونکہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی احمدی ہو اور پھر جان بوجھ کر دھوکہ دے۔میرا دل ہی اس قسم کا نہیں بنایا گیا کہ میں کسی کے متعلق ایسا خیال کروں ۔ہاں میں یہ کہتاہوں کہ غفلت یا ناواقفی سے ان لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں۔لیکن غفلت سے بھی جو جرم ہو وہ جرم ہی ہوتاہے اور اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔دیکھو اگر کوئی شخص کسی کو گولی مارتاہے اور بعد میں کہتاہے کہ میں نے جانور سمجھا تھا۔اگر یہ درست ثابت ہو جائے تو گو اسے پھانسی کی سزا نہ ملے مگر سزا ضرور ملے گی۔اسی طرح اور باتوں میں ہوتاہے۔پس تم غفلت کو دور کرو تا دنیا کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کر سکو۔……‘‘

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمُدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ

پڑھتے ہوئے فرمایا:
’’ یہ کامیابی کا گُر بتایا گیا ہے۔اﷲ کی تعریف ہو جس نے ہمیں صحیح رستہ دکھایا۔پھر خدا سے گناہوں کی معافی مانگے اور دعا مانگے کہ غفلت سے بچایا جائے۔پھر وہ طریق اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے کسی کام کے لیے مقرر فرمائے ہیں اور

وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ

اور یہ یقین رکھے کہ اﷲ تعالیٰ ضرور کامیاب کرے گا۔کیونکہ جو اس پر توکل کرتاہے وہ ناکام نہیں رہتا۔ اگر خدا نہیں ہے تو پھر سب فریب ہے اور اگر ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے ذلیل نہیں ہو سکتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد نمبر7صفحہ 306تا311)

تاجر کو باخبر ہونا چاہیے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍اپریل1922ء کو ایک خطبۂ نکاح میں فرمایا:
’’قاعدہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کی اہمیت سے ناواقف ہے وہ اس کے فوائد کو حاصل بھی نہیں کر سکتا مثلاً یہی چائے جو ہندوستان میں پیدا ہوتی ہے لوگ اس سے ناواقف تھے انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ کی اس کا پودا پیدا ہوتا تھااور جنگل میں ہی سوکھ جاتا تھا۔انگریزوں نے چینیوں کے ساتھ تجارت میں اس کے فوائد اور اس کی اہمیت کو سمجھا اور فوراً ان علاقہ جات کو سستے داموں خرید لیا جہاں چائے پیدا ہوتی ہے۔
اب تمام ہندوستان میں چائے کے باغات انگریزوں کے ہیں ۔انہوں نے زبردستی نہیں لیے قیمت سے لیے ہیں ۔ہاں اپنے علم سے فائدہ اُٹھایا ہے ۔اب اسی چائے سے بیس کروڑ روپیہ سالانہ انگریز ہندوستان میں کماتے ہیں ۔
انگریز ہندوستان سے روپیہ لیتے ہیں مگر حکومت کے ذریعہ نہیں ایسے ہی ذرائع سے ۔پھر ہندوستان میں بانس ہوتا تھا ۔ہندوستانی صرف بانس کی غرض یہ سمجھتے تھے کہ کاٹا اور ڈنڈا بنا لیا اس لیے بانس کے جنگلات ان کے لیے بے سود تھے مگر انگریزوں نے اس کے فوائد کو سمجھا اور اس کے لاکھوں کروڑوں روپیہ کے کاغذ بنا ڈالے ۔……
میں جن دنوں بمبئی گیا تھا وہاں ایک واقعہ پیش آیا۔ایک سوداگر کی جیب سے جواہرات کی پڑیا گر گئی۔ایک بچہ کو ملی اس نے معمولی شیشہ خیال کر کے پیسہ کے چار چار بیچ ڈالے۔لڑکے آپس میں گولیاں کھیلتے ہیں۔ایک شخص نے اپنے بچہ کے پاس دیکھا تو پہچانا۔کسی دکاندار کے پاس لے گیا ۔اس نے بڑی قیمت بتائی۔جس کے جواہرات تھے اس نے پولیس میں اطلاع کردی۔اس شخص سے جس کے بچہ کے قبضہ میں ہیرا تھا پوچھا گیا ۔اس نے سب حال بتایا۔آخر سراغ لگاکہ لڑکوں کو پڑیا ملی تھی۔اب دیکھو کہ ان بچوں کو صرف یہ معلوم تھا کہ یہ شیشے ہیں ان سے کھیلنا چاہیے۔اگر ان کو اس کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ پیسہ کے چار چار نہ بیچتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد3صفحہ151)

قول ِسدید کے فوائد

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ30؍جنوری1922ء کو ایک خطبۂ نکاح میں فرمایا:
’’یورپ والے قریباً دہریہ ہیں مگر ان کا تجارت کے معاملہ میں صداقت اور سداد پر عمل ہے ۔ان سے لاکھوں کی چیز منگواؤ تو کوئی فریب کا اندیشہ نہیں اس لیے ان کی تجارت کو فروغ ہے۔اگر ناقص چیز ہو تووہ لکھ دیں گے کہ یہ چیز ناقص ہے اس لیے ہم نے قیمت کم کر دی ہے۔اگر پسند نہ ہو تو واپس بھیج دیں۔ خرچ ہمارا۔اس بارے میں وہ نقصان کا بھی خیال نہیں کرتے مگر اور لوگ تجارت میں اس اصول کے پابند نہیں اس لیے ان کی تجارت تباہ ہو رہی ہے ۔یورپ کے اس اصول میں گو خدا کی رضا مد نظر نہیں۔اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے

یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًاo یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الاحزاب:71،72)

مسلمانو!یہ تو تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں کہ سچ بولو اس لیے کہ تم اس پر عمل کرتے ہواور ہر شریف سچ بولنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس کے طبعی نتائج ظاہرہیں لیکن ہم ایک زائدبات بتاتے ہیں کہ تقوی اﷲ کو مد نظر رکھو کیونکہ سدید کہتے ہیں ہر پیچ سے مبرّا ،صاف سیدھی،راستی کی بات۔ ممکن ہے کہ ایک بات سچی ہو مگر اس میں پیچ رکھا گیا ہو کہ موقع پر اس سے نکل جائیں۔مگر سدید بات میں اس کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔اس میں ہر مخفی دھوکہ سے اجتناب ہوتا ہے۔اس لیے فرمایاکہ تم قولِ سدید پر عمل کرو اور زائد بات یہ ہے کہ خدا کے تقویٰ سے کام لو کہ خدا کی رضا حاصل ہو۔

یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ

اعمال کو درست کر دے گا۔یہ سداد پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔لیکن اگر سداد کے ساتھ تقویٰ ہو گا تو اس کا نتیجہ اس سے زائد ہو گا وہ یہ کہ

یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ

تمہارے کئی قسم کے گناہ اور کمزوریاں دور ہو جائیں گی اور خدا کی صفات تم پر جلوہ گر ہوں گی۔اگر قولِ سدید پر عمل کرتے ہوئے تقوی اﷲ بھی مدنظر ہو تو نقصان کچھ بھی نہیں ۔طبعی نتائج ضرور ملتے ہیں اس لیے فرمایا

فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا

اگر قولِ سدید پر عمل کرتے ہوئے تقوی اﷲ بھی مدنظر ہو گا تو جو کامیابی ہو گی وہ محض قولِ سدید پر عمل کرنے والے لوگوں سے بہت زیادہ ہو گی جن کو سچائی کے طبعی نتائج پر یقین ہے۔گویا سداد پر عمل کرنے کا ایک تو طبعی نتیجہ ہوگا اور ایک تقویٰ پر عمل کرنے سے شرعی ثواب بھی مل جائے گا۔‘‘

(خطبات محمود جلد3صفحہ127،128)

قرض کے لین دین کے متعلق ہدایات

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ19؍نومبر1920ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’جو لوگ قرض لیتے ہیں اور دینے میں حیل و حجت کرتے یا مکر جاتے ہیں وہ اپنے دشمن ہوتے ہیں۔ نہ صرف اپنے ملک اپنی قوم کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ جب ان کو ضرورت پڑتی ہے تو گڑگڑاتے ہیں مگر جب قرض خواہ مطالبہ کرتا ہے تو اس کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بد معاملگی سے ڈر کروہ لوگ جن کی سچی ضرورت ہوتی ہے قرض لینے سے محروم رہتے ہیں۔کیونکہ جس شخص کے پاس وہ قرض لینے جاتے ہیں وہ ان کی بات کا اعتبار نہیں کر سکتاجبکہ پہلے وہ دیکھ چکا ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس سے قرض لے کر کیا سلوک کیاایسے لوگ دو طرح مضر ہوتے ہیں اور وہ دو قسم کے لوگوں کے لیے مضر ہوتے ہیں ۔
(۱)وہ لوگ جو سچی ضرورت رکھتے ہیں ان کو قرض نہیں مل سکتا۔(۲)وہ لوگ جن سے قرض لیتے ہیں آئندہ ان کو نیکی کرنے سے محروم کر دیتے ہیں اور نیز ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بدمعاملگی کی تعلیم کرتے ہیں۔
خو ب یاد رکھو جس طرح شریعت یہ کہتی ہے کہ دوسروں سے نیکی کرو اس طرح یہ بھی کہتی ہے کہ محسن کے احسان کی قدر کرو اور احسان فراموش نہ بنو۔جو شخص تم کو ضرورت کے وقت قرض دیتا ہے وہ تمہارا محسن ہے تم اس کے ساتھ شریفانہ برتاؤ کرواور جن آنکھوں سے لیا ہے انہی سے دو۔بعض لوگ جب قرض لے جاتے ہیں تو بہت الحاح سے کام لیتے ہیں ۔مگر جب وہ مانگنے آتاہے تو اس کو کہتے ہیں۔ لاٹ صاحب بن گیا ۔ہر وقت سر پر چڑھا رہتاہے ۔حالانکہ لینے والے کا حق تھا کہ وہ سختی کرے مگر یہاں الٹا معاملہ ہے کہ جب مطالبہ کیا جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے لگاہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی غیر مسلم شخص نے کچھ لینا تھا وہ آیا اور سختی کرنے لگا۔بعض صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم کوبُرا معلوم ہوا۔آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کا مقروض ہوں اس کو حق ہے کہ سختی کرے۔
تو ضرورت کے وقت جاتے ہیں اور لیتے ہیں لیکن جب ادائیگی کا وقت آتاہے تو کبھی سامنے نہیں ہوتے اور ہمیشہ آنکھ بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر قرض خواہ لوگوں کے پاس کہے کہ آپ ہی لے دیں تو کہتے ہیں کہ ہم اب نہیں دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں بدنام کیاہے گویا وہ اس کے باپ کی جائیداد میں سے کچھ اس سے مانگتا تھا۔اس کا حق تھا وہ کیوں نہ طلب کرتا جو شخص ایسے کمینہ کو گالی دیتا ہے وہ حق ہے۔اگرچہ اخلاق گالی کی اجازت نہیں دیتا،کانے کو کانا کہنا حق ہے مگر اخلاق سے بعید ہے چور کو چور کہنا جائز ہے لیکن مجسٹریٹ کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا۔شریعت نے منع کیا ہے کہ کانے کو کانا کہا جائے اس لیے کہ جو کانا کہتاہے وہ اُس کو چڑانا چاہتاہے مگر اس میں شک نہیں کانے کو کانا کہنا درست ہے ۔اس طرح جو شخص کسی کا مال مارتاہے حق ہے کہ وہ اس کو چور یا ڈاکو کہے۔کیونکہ یہ اس عیب کا مرتکب ہوتاہے۔بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتاہے کہ قرض لیتے ہیں اور اس سے اپنی جائیداد بناتے ہیں۔قرض دینے والا اس خیال سے کہ ان کوضرورت ہے ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم کر کے دے دیتاہے لیکن جب وہ مطالبہ کرتاہے تو کہتے ہیں کہ دس دن کو آنا۔پھر جب جائے تو پھر دس دن توقف کرنے کو کہتے ہیں۔اس طرح کئی دفعہ ہو چکنے کے بعد انکار کر بیٹھتے ہیں یا بعض عدم گنجائش کا بہانہ کر بیٹھتے ہیں۔حالانکہ یہ کہنا ان کو جُرم سے نہیں بچاتا۔کیونکہ جب قرض لینے لگے تھے ضروری تھا کہ اس وقت حیثیت کو سوچتے ۔نہ یہ کہ جب دینے کا وقت آیااس وقت گنجائش کا سوال اٹھایا۔پس جب قرض لینے لگے تھے اس وقت سوچنا تھا کہ ہم ادا بھی کر سکیں گے یانہیں۔
مجھے قرآن کریم کی اس آیت پر ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ

یٰایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاْ اِِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ (البقرہ:283)

اس میں مدت کی شرط لگائی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے سمجھایا کہ اس میں دو فائدے ہیں۔
اول۔دینے والے کے لیے۔دوم۔لینے والے کے لیے۔
اول لینے والے کے لیے یہ فائدہ ہے کہ مثلاً مہینہ کا وعدہ ہے تو مہینہ کے بعد جا کر طلب کرے گا۔یہ نہیں ہو گا کہ اس کو روز روز پوچھنا پڑے گا اور نیز یہ بھی فائدہ ہو گا کہ جب مہینہ کا وعدہ ہو گا تو یہ حق نہیں ہو گا کہ دوسرے دن ہی مطالبہ شروع کر دے۔دوسرا فائدہ ہو گا کہ جب لینے والا لینے لگے گا تو پہلے سوچے گا کہ میں جتنے عرصہ میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔اتنے عرصہ میں ادا بھی کر سکوں گا کہ نہیں۔اگر کوئی شخص اپنی آمدنی پندرہ بیس روپیہ ماہوار رکھتاہے اور ایک مہینہ کے وعدہ پر سو روپیہ قرض لیتاہے تو سوال ہو گا کہ وہ کہاں سے ادا کرے گا۔
اس لیے قرض دینے والا اس سے متنبہ ہو سکتاہے ۔ہاں اگر ایک زمیندار قرض لیتاہے اور اس کی فصل اس کے قرض سے زیادہ یا برابر ہے تو وہ لے سکتاہے۔ پس اس آیت میں یہ فوائد بتائے ہیں اور اب ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو قرض لیتاہے وہ اس کو ادا کر سکے گا یا نہیں۔اگر نہیں ادا کر سکے گااور وہ قرض لیتا ہے تو یہ ٹھگی ہے۔بعض وہ لوگ جو کہتے ہیں ،گنجائش نہیں۔ ان کو ثابت کرنا چاہیے کہ جب وہ لینے لگے تھے اس وقت ان کو امید تھی کہ وہ قرض اُتار سکیں گے۔مگر ناگہانی اسباب نے ان ذرائع کو منقطع کر دیا۔اس لیے قرض اُتارنا ممکن نہ رہا۔ورنہ گنجائش کا سوال بعد از وقت ہے۔
اگر کوئی شخص قرض لے کر نفع اُٹھاتا اور تجارت کر تا ہے اور قرض خواہ کو قرض نہیں دیتا تو ضروری ہے کہ اس سے روپیہ لے کر اس کو دیا جائے۔اگر وہ کہے کہ میری تجارت تباہ ہو گئی تو اس کا روپیہ تھا ہی نہیں کہ یہ تجارت کر سکتا۔اس نے جو نفع اُٹھایا اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔جو لوگ اس طرح قرض لیتے ہیں اور آپ نفع اُٹھاتے ہیں اور قرض خواہ کو نہیں دیتے وہ نفع نہیں اُٹھاتے وہ آگ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔پس جو معاملہ کرو دیانت سے کرو اور صفائی اس میں رکھو۔قرض دینے والے کو چاہیے کہ لکھ لے اور مدت مقرر کر لے اس میں دونوں کے لیے فائدہ ہے۔بعض لوگ کام کچھ نہیں کرتے اور قرض لے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں توکل پر گزارہ کرتے ہیں ۔حالانکہ توکل انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں، اور اس کے معنے ہیں کہ وہ شخص بادشاہ ہو گیا۔کیونکہ جس طرح بادشاہ جب چاہتے ہیں ٹیکس لگا کر رقم وصول کرتے ہیں۔اسی طرح وہ لوگ جو متوکل ہوتے ہیں۔ان کی ضرورت خدا پوری کرتاہے۔مگر یہ عجیب متوکل ہیں کہ لوگوں سے قرض لیتے ہیں او ر دیتے نہیں۔
ہاں جو لوگ اپاہج ہوں یا معذور ہوں ان کی مدد حکومت پر فرض ہے اگر حکومت غیر مذہب کی ہو اور اس کا ایسا انتظام نہ ہو تو پھر وہ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس جماعت کے امام کا اور بیت المال کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کو پوراکرے۔لیکن جس طرح بعض لوگ قرض لینے میں بدمعاملگی کرتے ہیں اسی طرح بعض دکاندار بھی بدمعاملگی کرتے ہیں وہ بچوں یا عورتوں کو یا ایسے لوگوں کو جن کی آمد کی کوئی سبیل نہیں وہ محتاج یا اپاہج ہیں اور ان کا بار بیت المال پر ہے قرض دیتے ہیں اور بچوں کے باپ کو اور عورت کے خاوند اور اپاہجوں کے قرض کے لیے انجمن کو مجبور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شور ڈالنے سے مل ہی جائے گا۔حالانکہ ان کا فرض ہے کہ یہ قرض اس کو دیں جس پر ان کو ذاتی اعتماد ہو اور وہ شخص ذاتی آمدنی رکھتاہو۔اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ بھی ٹھگی کرتاہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے معاملات کی خرابی سے جماعت کو بدنام کرتے ہیں اس لیے بہتر ہو کہ ایسے لوگ اپنے رویہ کی اصلاح کریں۔ورنہ ان کو جماعت سے الگ کر دیا جائے گا۔مذہب سے الگ کرنا تو اختلاف عقائد سے ہوتاہے مگر جس شخص کا رویہ جماعت کے لیے مضر ہو اس کو جماعت سے الگ کیا جا سکتاہے۔
میں اُن اصحا ب کو بھی نصیحت کرتا ہوں جو سُستی سے کام لیتے ہیں کہ وہ سُستی کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھو کہ یہ معاملات کی اچھائی یا بُرائی ہے جس کی بنا پر غیرشخص تمہارے متعلق رائے قائم کرتے ہیں۔اگر معاملات اچھے ہیں تو لوگ تمہاری بات سن سکتے ہیں ۔اگر نہیں تو ساری جماعت چند آدمیوں کی خاطر ٹھگ کہلائے گی اور مثال میں دو چار نام لے دینا ہی کافی خیال کیا جائے گا۔
پس جو قرض دیتاہے وہ محسن ہے سچی ضرورت کے وقت لو اور میعادمعینہ میں ادا کرو۔اگر کسی معقول وجہ سے نہیں اُتار سکتے تو نرمی اور خندہ پیشانی سے اس کو یقین دلاؤ کہ میں ان وجوہ سے اب ادا نہیں کر سکا۔پھر آئندہ کر دوں گااور جب روپیہ آئے تو پہلے قرض خواہ کے روپے ادا کرو۔حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں مَیں نے عورتوں کو زیادہ دیکھا ۔بوجہ ان کے ناشکرگزار ہونے کے۔ تو ناشکروں کی سزا جہنم ہے۔لوگ معاملات سے حالات کا اندازہ کرتے ہیں۔نمازوں سے نہیں۔اگر اس طرح تبلیغ کے رستہ کو بند کر دیا تو پھر کوئی عمدہ رستہ نہیں۔پس اپنے معاملات کی درُستی پر بہت زور دو۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔آمین‘‘

(خطبات محمود جلد 6صفحہ550تا553)

دست درکار دل بایار

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍اگست1919ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس غرباء آئے اور کہا حضور! ہمارے بھائی امیر نیکیوں میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔نماز ہم پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں، روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں ،ہم جہاد کے لیے جاتے ہیں وہ بھی جاتے ہیں ،وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ہم اس سے محروم ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتاہوں کہ اگر تم وہ کروگے توامراء سے تم نیکیوں میں بڑھ جاؤ گے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد 33دفعہ تحمید33دفعہ تقدیس اور 34دفعہ تکبیر کہا کرو اﷲ تعالیٰ تمہیں ان سے بڑھا دے گا۔چند دن کے بعد غرباء پھر آئے کہ حضور! امیر تو یہ کام بھی کرنے لگ گئے ہم کیاکریں آپؐ نے فرمایا کہ خدا جس کو فضیلت دیتا ہے میں کس طرح اُس کو روک سکتاہوں۔وہ دولت مند مسلمان ایسے مسلمان نہ تھے کہ فرائض کو بھی ترک کر دیں۔وہ تو نوافل میں اس قدر جدو جہد کرتے تھے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔پھر ان کی دولت مندی برائے نام نہ تھی بلکہ کافی دولت رکھتے تھے۔ایک صحابی رضی اﷲ عنہ جن کے متعلق صحابہ رضی اﷲ عنھمکا خیال تھا کہ غریب ہیں جب فوت ہوئے تو ان کے پاس اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد ثابت ہوئی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں صحابہ رضوان اﷲ علیھم کو تجارت کا بھی خاص ملکہ تھا۔چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ اس فن میں کامل تھے۔انہوں نے ایک دفعہ دس ہزار اونٹ خریدے اور اصل قیمت پر ہی فروخت کر دیئے۔ایک دوست نے کہا کہ اس میں آپ کو کیا نفع ہوا۔انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسی وقت کھڑے کھڑے اڑھائی ہزار روپے کا نفع ان اونٹوں کی خریدو فروخت میں حاصل ہوا ہے اور وہ اس طرح کہ میں نے جب اونٹ خریدے تھے تو نکیل سمیت خریدے تھے اور فروخت بغیر نکیل کے کیے ہیں اس سودے میں دس ہزار نکیل مجھے نفع میں ملی اور اگر میں اس وقت فروخت نہ کرتا تو خدا جانے کب گاہک پیدا ہوتااور اتنے عرصہ میں کتنا کھا جاتے لیکن اس وقت بغیر کسی خرچ کے اڑھائی ہزار روپے کا نفع ہوا۔چونکہ ان کو تجارت کا فن خوب آتا تھا اور اپنے کام میں بہت چست تھے اس لیے وہ مال میں بڑھ گئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 6صفحہ294،295)

عہدیداران کے فرائض

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ17؍مارچ1919ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’اس محکمہ کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ احمدی جماعت کی دنیاوی ترقیات کے متعلق خیال رکھے۔ مثلاً جو لوگ بے کار ہیں انہیں کام پر لگانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایک حصہ بے کار ہو تو اس کا ساری جماعت پر اثر پڑتاہے اور ان کے کام پر لگنے سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتاہے۔مثلاً پچاس آدمی ایسے ہوں جو ملازمت کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔لیکن ناواقف ہونے کی وجہ سے کسی جگہ ملازم نہ ہو سکیں تو ان کا بار جماعت کے افراد پر ہی پڑے گا اور اگر وہ ملازم ہو جائیں تو نہ صرف دوسروں پر بوجھ نہیں رہیں گے بلکہ خود بھی جماعت کے کاموں میں چندہ دے سکیں گے۔پس اس صیغہ کا یہ بھی کام ہوگا کہ ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کرے جو ملازمت تو کر سکتے ہیں۔لیکن ناواقفیت کی وجہ سے ملازم نہیں ہوسکتے اور ان کے متعلق ایسے لوگوں کو لکھا جائے جو ملازمتیں تلاش کر سکتے ہیں کہ وہ انہیں نوکر کرائیں۔اسی طرح تعلیم کے مختلف شعبوں کے متعلق خیال رکھنا اس صیغہ کا کام ہو گا۔لوگوں میں عام طورپربھیڑ چال ہوتی ہے ۔مثلاً اگر وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے فائدہ اٹھایا ہے تو وہ اسی کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔لیکن کوئی قوم اور خصوصاً وہ قوم جو ابھی ابتدائی حالت میں ہواس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ سب قسم کے تعلیم یافتہ لوگ ا س میں نہ پائے جاتے ہوں۔میرے خیال میں آجکل مسلمانوں کو ا س بات سے بہت نقصان اٹھانا پڑ اہے کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگوں نے انجینئری کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے اور عام طور پر یہ صیغہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے۔اگر مسلمان اس طرف خاص توجہ کرتے تو اپنی قوم کے لوگوں کو جائز طورپر بہت فائدہ پہنچا سکتے تھے۔کیونکہ اس محکمہ کے آفیسروں کے اختیار میں کئی قسم کے ٹھیکے وغیرہ دینے کا کام ہوتاہے جو آج کل عام طورپر ہندوؤں ہی کو ملتے ہیں اور اگر کسی مسلمان کو مل بھی جائے تو اس کام میں نقص نکال کر اس کے اپنے سرمایہ کوبھی تباہ کر دیا جاتاہے ۔اسی سٹیج پر ایک صاحب بیٹھے ہیں ان کے ایک بزرگ کو ٹھیکہ کے معاملہ میں ہی انجینئر نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ ان کی اپنی جائیداد جو کروڑوں کی تھی تباہ و برباد ہو گئی۔ پس ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نئے تعلیم پانے والوں کی خبر لیتے رہیں اور ان کے لیے ان کے مذاق اور قابلیت کے مطابق تعلیم کا انتظام کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ ان مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں تقسیم ہو جاویں جو آئندہ ان کی ذات کے لیے بھی اور جماعت کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ17مارچ1919ء۔انوار العلوم جلد4صفحہ340،341)

تجارت کا ایک سنہری اصول

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍فروری1917ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ہر ایک تاجر کی ایک الگ سیا ست ہے اور ہر ایک پیشہ ور کی الگ۔تاجر کی سیاست تو یہ ہے کہ وہ باہر سے مال نہ اس بے احتیاطی اور کثرت سے خریدے کہ اس کی دکان میں ہی پڑا خراب ہوتا رہے اور نہ اتنا کم لائے کہ لوگوں کی ضروریات بھی پوری نہ ہوں بلکہ وہ ضروریات کو دیکھتا ہوا کسی چیز کی خریداری پر ہاتھ ڈالے تاکہ نہ اس کو ایک لمبے عرصہ تک خریداروں کا انتظار کرنا پڑے اور نہ یہ ہو کہ اس کے ہاں سے مال ہی نہ ملے۔اسی طرح پیشہ ور کی سیاست یہ ہے کہ نہ تو اشیاء کے تیار کرنے میں اتنی دیر لگائے جس سے مانگ کا وقت گزر جائے اور نہ اتنا پہلے کہ ابھی مانگ کا موقع ہی نہ آئے اور وہ اشیاء کے تیار کرنے میں مصروف رہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ381)

دکانداری کے ساتھ مہمان نوازی بھی مد نظر رکھیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ22؍دسمبر1916ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میں یہاں(قادیان)کے دکانداروں کو دکانداری سے روکنا پسند نہیں کرتا ۔خدا تعالیٰ نے حج کے موقع پر بھی تجارت کو جائز رکھا ہے ۔قادیان کے دکانداروں کے لیے بھی یہ تجارت کرنے کا موقع ہے۔ مگر جہاں خدا تعالی ایسے موقع پر تجارت کرنے سے منع نہیں کرتا وہاں یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ بالکل اسی میں لگ جائیں ۔پس دکاندار خوب کمائیں اور خوب تجارت کریں مگر کچھ وقت مہمانداری میں بھی صرف کریں۔‘‘

(خطبات محمود جلد5صفحہ358)