حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’او ایمان والو!ہر ایک معاملہ کو لکھ لیا کرو جس کے لیے کوئی میعادی معاہدہ ہوا اور ہر ایک کو نہ چاہیے کہ معاہدوں کو لکھا کرے بلکہ چاہیے کہ معاہدہ کو وہ شخص لکھے جو ایسے معاہدوں کا لکھنے والا ہو اور معاہدہ کو اس انصاف کے ساتھ لکھے جس میں ضرورت کے وقت تمسک میں نقص نہ نکلے اور تمسک نویس کو تمسک کے لکھنے میں کبھی انکار نہ ہوا کرے کیونکہ کاتب کو اﷲ تعالیٰ نے فضل سے ایساکام سکھایا۔پس چاہیے کہ تمسکات کو لکھے اور لکھاوے۔وہ جس نے دینا ہو اور ضرور ہے کہ لکھاتے ہوئے لکھانے والا اﷲ سے ڈرتا رہے اور ذرہ بھی اس میں کمی و نقص نہ کرے اور اگر لکھانے والا کم عقل اور بچہ اور لکھانے کے قابل نہیں تو اس کا سربراہ انصاف و عدل کے ساتھ لکھاوے اور اپنے معاملات پر دو مرد گواہ بنا لیا کرو۔اگر دو مرد گواہ نہ مل سکیں تو ایک مرداور دو عورتیں۔دو کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک ان میں سے کچھ بھول گئی تو دوسری اُسے یاددلائے گی اور گواہ بلانے پر انکارنہ کریں اور ایسے سُست نہ بنیو کہ تھوڑا یا بہتا میعادی معاملہ لکھنے میں چھوڑ دو۔اﷲ تعالیٰ کے یہاں پر انصاف کی باتیں ہیں اور جہاں گواہی کی ضرورت پڑے گی وہاں یہ باتیں بڑی مفید پڑیں گی اور ایسی تدبیروں سے باہمی بد گمانیاں جاتی رہیں گی۔ہاں دستی لین دین اور نقدی کی تجارت میں تحریر نہ ہونے سے گناہ بھی نہیں ۔مگر ہر ایک سودے میں گواہوں کا پاس ہونا تو ضرور چاہیے(اگر اس پر عمل ہوتا تو چوری کی چیزیں لینے میں پولیس کی گرفتاری سے بہت کچھ امن ہو جاتا)اور یاد رہے کہ کاتب اور گواہ کو ان کا ہرجانہ دو اگر نہ دو گے تو بدکار بنو گے۔ خدا کا ڈر رکھو۔اﷲ تعالیٰ تمہیں آرام کی باتیں سکھاتاہے اور اﷲ تعالیٰ ہر شے کو جانتا ہے۔‘‘
(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ266تا268)
’’یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِذَاتَدَایَنْتُمْ(البقرۃ:283)
جہاد میں ضرورت ہے روپیہ کی اور روپیہ کاحصول بعض کے نزدیک سود پر منحصر ہے۔فرمایا کہ جو سود لیتا ہے وہ اﷲ سے جنگ کرتاہے۔ہاں لین دین کے معاملے میں کافی احتیاط ضروری ہے۔
کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ
یعنی کاتب کی تحریر عدالت سے وابستہ ہو اور قانون سلطنت کے ٹھیک مطابق ہو۔ ہم نے ایک دفعہ پانچ سو روپیہ دیا اور جائیداد کی رجسٹری نہ کرائی۔چانچہ وہ روپیہ بھی واپس نہ ملا۔حضرت صاحبؑ نے فرمایا نورالدین نے دو گناہ کیے۔ایک تو یہ کہ اﷲ کے حکم کے مطابق وہ رجسٹری داخل خارج نہ کرائی۔ دوم اپنے تساہل سے دوسرے کو گناہ کرنے کا موقع دیا۔انہیں شاید500روپیہ کی فکر ہے اور مجھے اس بات کی کہ یہی500روپیہ گناہ کا کفارہ ہو جائے۔ کسی اور شامت میں مبتلا نہ ہوں۔
کئی لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ وہ لکھوانے میں اور قانون سلطنت کے مطابق رجسٹری وغیرہ کرانے میں تساہل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اجی یہ ہمارے اپنے ہیں یا بڑے بزرگ ہیں ان کی نسبت کیا خطرہ ہے ۔مگر آخر اس حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُٹھاتے ہیں۔
عَلَّمَہُ اللّٰہُ
صحیح فرمایا۔ کیونکہ اﷲ ہی نے دماغ دیا اسی نے فہم دیا۔اسی نے آنکھیں دیں۔کوئی کاتب کتابت نہیں کر سکتا مگر اﷲ کے فضل سے ۔اس لیے اپنی طرف منسوب فرمایا۔
اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰ ھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی
لاہور میں ایک شخص نے میری تقریر سن کر مجھ سے کہا کیا یہ باتیں آپ کی مجھے لفظ بلفظ یاد رہیں گی۔میں نے سادگی سے کہا۔ نہیں۔ اس پر وہ بولا۔تب یہ حدیثیں وغیرہ سب نامعتبر ہیں کیونکہ جب دس منٹ کے بعد کوئی کلام لفظ بلفظ یاد نہیں رہ سکتا تو پھر دو سو سال کے بعد وہ باتیں کیسے یاد رہ سکتی ہیں۔حدیثیں تو تمام دو سو سال کے بعد مرتب ہوئی ہیں۔میں نے اسے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک بھول جائے تو دوسرا یاد کرائے۔اس اصول کے مطابق ہم حدیثوں کے قدر مشترک کو لے لیتے ہیں۔
فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْھَا
تم پر گناہ نہیں جو نہ لکھوا سکو۔اس سے معلوم ہوا کہ لکھنا بہر حال بہتر ہے۔یہ اس کلمہ سے خوب ملتاہے
فَلَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا(البقرہ: 159)
اس میں طواف واجب ہے۔
وَاَشْھِدُوْااِذَاتَبَایَعْتُمْشافعی
دکاندار معمولی سودوں میں بھی آس پاس کے دکانوں کے لوگوں کو گواہ کر لیتے ہیں یا کم از کم علیٰ مذہب ابی حنیفہ کہہ کر اعلان کر دیتے ہیں۔
لا یضارکاتب کو حق کتابت ضرور دینا چاہیے۔گواہوں کو بھی حرجانہ حسب حیثیت ان کو دینا چاہیے۔
وَاتَّقُوااللّٰہَ
اﷲ کو سِپر بناؤ۔اس کا تقویٰ اختیار کرو۔اﷲ علم دے گا۔یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ تقویٰ کا نتیجہ سچے علوم کا ملنا ہے۔‘‘