صنعت و حرفت کے کام

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 12؍اپریل1936ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا:
’’پہلی بات یہ ہے کہ میں نے کل دوستوں کو بتایا تھا کہ جماعت کے لوگوں میں سے بیکاری کو دور کر کے جماعت کی مالی حالت مضبوط کرنے کے لیے نئے کچھ کام یہاں جاری کیے گئے ہیں ۔ان کاموں کے جاری کرنے میں یہ بات مد نظر ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچ جائیں کہ اپنی سار ی ضرورتیں خود پوری کر سکیں اور دوسری اقوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی حصہ لے سکیں۔اس وقت غیر ہندوستانی طاقتیں ہندوستان میں اتنی قوت پکڑ چکی ہیں کہ تجارتی طور پر ہمارا ملک ان کے مقابلہ میں عاجز آرہا ہے اور یہ بات انسانی طاقت سے با لا معلوم ہوتی ہے کہ کوئی جماعت اس کی اصلاح کی کوشش کرے کہ ہندوستانی تجارت و صنعت دوسری قوموں کی تجارت اور صنعت کے مقا بلہ میں ٹھہر سکے لیکن ہماری جماعت کو اﷲ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے دوسری اقوام پر ایک فضیلت حاصل ہے اور وہ یہ کہ یہ منظم جما عت ہے ۔ایک ہاتھ پر اس نے بیعت کی ہوئی ہے ۔ہماری جماعت میں بہت سے مخلص ہیں لیکن سب کے سب نے یہ اقرار کیا ہوا ہے کہ ہر قسم کے احکام کی فرمانبرداری کریں گے مگر سب سے زیادہ مشکلات بھی ہماری جماعت کے لیے ہی ہیں اور جتنی روکیں ہمارے رستے میں حائل ہیں کسی اور کے رستہ میں اتنی نہیں ۔کہتے ہیں

’’نزلہ بر عضو ضعیف مے ریزد‘‘

ہم چونکہ کمزور ہیں اس لیے دوسری طاقتیں ہمارے خلاف جتھہ کر کے ہمارے خلاف کھڑی ہیں اور ہمیں تجارت میں، ملازمت میں، صنعت و حرفت میں سخت دقتیں پیش آرہی ہیں۔اہل ہند میں سے مسلمان گرے ہوئے ہیں اور ہم مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دوسری قوموں نے مسلمانوں سے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور دوسروں سے مار کھائے ہوئے مسلمان ہم پر حملہ کر رہے ہیں ۔ایسی صورت میں ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کریں ۔ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے لوہے اور لکڑی اور چمڑے اور شیشے کے کام شروع کیے گئے ہیں اور آئندہ کپڑا بُننے کا کام اور دوا سازی کا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔……

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کے دل کی ایک حسرت

میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہو ں میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کی کاش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہواور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں ۔میں پچھلے دنوں کراچی گیا تو اپنے دوستوں سے کہا کاش کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا کاش کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتدا چھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے۔
یہ ہیں میرے ارادے اور یہ ہیں میری تمنائیں ۔ان کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں۔مگر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کے لیے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے۔دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے اس لیے احمدی جو اشیا اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے۔
ایک دفعہ دیال باغ آگرہ والے لاہور اپنی اشیاء کی نمائش کرنے کے لیے آئے تو انہو ں نے مجھے بھی دعوت دی۔ گورنرپنجاب کو انہوں نے ٹی پارٹی دینے کا انتظام کیا ہوا تھا اور اس موقع پر چیزیں بھی فروخت کرتے تھے اس وقت ان کی چیزیں نسبتاً مہنگی ہیں مگر ان کے خریدنے سے غرباء کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ لوگ ان کامال شوق سے خریدتے تھے اور خود میں نے بھی ایک اٹیچی کیس ان سے خریدا تھا۔ اگر دوسری قومیں اپنی جماعتوں کو بڑھانے کے لیے یہ قربانی کر سکتی ہیں تو کیوں احمدی ایسا نہیں کر سکتے جبکہ ان کی ضرورت دوسرے لوگوں سے بھی اہم ہے کیونکہ ہمارے کارخانوں کی اشیاء خریدنے سے نہ صرف غرباء کو امداد ملے گی بلکہ سب سے بڑے غریب اسلام کو بھی مدد ملے گی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

بے کسے شد دین احمدؐ ، ہیچ خویش دیار نیست
ہر کسے در کار خود با دین احمدؐ کار نیست

پس اس وقت اسلام سب سے زیادہ امداد کا محتاج ہے اور اس طرح مدد کرنے سے نہ صرف افراد کی مدد ہو گی بلکہ اس عظیم الشان صداقت کی بھی مدد ہوگی جو بے کس ہے۔پس یہ نہایت ثواب کا کام ہے دینوی لحاظ سے بھی اوردینی لحاظ سے بھی اور میں سمجھتا ہوں تھوڑے عرصہ میں ایسے ماہر پیدا ہو سکیں گے جو باہر نکل کر اچھے کام کر سکیں گے ۔ہم کارخانوں میں کام سیکھنے والوں کو ساتھ تعلیم بھی دیں گے اور اس طرح انہیں صرف مستری نہیں بلکہ انجینئر بنائیں گے۔
پس ایک بات تو میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ان کارخانوں کے حصے خریدے اور یہ مدنظر رکھ کر خریدے کہ کوئی چیز دنیا کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ایسی نہ ہو جو احمدیوں کی بنائی ہوئی نہ ہو۔ اس طرح خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب ہماری جماعت ترقی کرے گی تو ساتھ اسلام کی بھی ترقی ہوگی۔……

بیکاروں کو کام پر لگائیں

میں اخبار کی ایجنسیاں قائم کرنے کی تحریک اخبارات کی ترقی کے لیے ہی نہیں کرتا بلکہ بیکاروں کو کام پر لگانے کے لیے بھی کرتا ہوں۔ میں نے باربار توجہ دلائی ہے کہ اگرکوئی شخص مہینہ میں ایک روپیہ بھی کما سکتا ہے تو بھی وہ ضرور کام کرے ۔ جب تک ہم اس طرف توجہ نہ کریں گے ۔اس وقت تک بحیثیت جماعت نہ روحانیت مضبوط ہوگی اور نہ دنیوی حالت۔ یہ خیال کہ اتنی آمد ہو تب کام کروں گاورنہ نہیں بہت نقصان رساں ہے۔
میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے ہا ں جاکر بیکار لوگوں کو کام پر لگانے کی کوشش کریں،خواہ کسی کام سے کتنی ہی کم آمدنی ہو ۔کتابوں اور اخبارات کی ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اپنی اپنی جماعت کے متعلق اس قسم کے نقشے بھجوائے جائیں کہ کتنے لوگ بیکار ہیں اور کتنے لوگوں کوکسی نہ کسی کام پر لگایا گیا ہے ۔بیکار خواہ کتنے ہی معمولی کام پر اپنے آپ کو لگا دیں اس سے انہیں آگے چل کر بہت فائدہ ہو گا ۔ان کے اندر کام کرنے کی اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ دوسراا س کا اندازہ نہیں کر سکے گا اور اس کے شاندار نتائج نکلیں گے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1936ء صفحہ128تا135)

ہوزری کی سکیم

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 16؍اپریل1933ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’پھر ایک اور بات کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجلس مشاورت میں ہی ایک سکیم ہوزری کی تجویز ہوئی تھی ۔اس وقت تک اس کے حصص فروخت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پانچ ہزار حصوں کے مہیا ہونے کی ضرورت ہے۔لیکن اس وقت تک 22سو حصے فروخت ہوئے ہیں۔ میں دوستوں کو نصیحت کرتاہوں کہ اپنی اپنی جگہ جا کر اس کام کو دینی کام سمجھ کر سرانجام دیں اور اس کو کامیاب بنانے میں حصہ لیں۔بعض کہتے ہیں مذہبی جماعت کو بزنس سے کیا تعلق؟ وہ بزنس مین نہ سہی زمیندار یا ملازمت پیشہ ہی سہی۔مگر جماعت کی اقتصادی اور مالی حالت کو درست اور مضبوط کرنا ان کا فرض ہے یا نہیں؟ہر ایک احمدی کا یہ فرض ہے۔ پس دوست جا کر اپنی اپنی جماعت میں اس کے حصے فروخت کریں۔دس روپے کا ایک حصہ ہے جومعمولی بات ہے۔اگر کام کو کام سمجھ کر کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں کامیابی نہ ہو۔ایک لاکھ حصہ کا فروخت ہو جا نا بھی کوئی مشکل بات نہیں ہے۔بشرطیکہ اسے دینی کام سمجھ کر کیا جائے اور جماعت کی مالی و اقتصادی ترقی کی بنیاد قرار دیا جائے۔
پس اسے مذہبی ،تمدنی اور سیاسی فرض سمجھ کر ہر شخص جو حصہ لے سکتا ہے لے اور اپنی طاقت کے مطابق لے۔میں نے حال ہی میں مکان بنوایا ہے ۔اگرچہ کمیٹی میں میرا حصہ نکل آیامگر اس حصہ کی قسط اداکرتاہوں۔مگر باوجود اس کے جب کہ خرچ خوراک میں بھی کمی کرنی پڑی ہے۔پانچ سو روپیہ میں نے اس فنڈ میں دیا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا ہے کہ اگر خدانخواستہ فیکٹری ٹوٹ بھی جائے تو کیا ہے۔جماعت کی بہتری کے لیے کوشش کی گئی ہے۔
پس احباب کو اس اقتصادی حالت کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ہماری جماعت میں تاجر بہت کم ہیں۔حالانکہ تجارت اقتصادی ترقی کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے ۔ہوزری کے کام کوضرور کامیاب بنانا چاہیے۔جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر ۵۵ہزار حصے پورے کر دیں تاکہ کام شروع کر دیا جائے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1933ء صفحہ 135،136)

زمیندار وں کو ترقی کرنے کے لیے ایک نصیحت

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 3؍اپریل1931ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ میں نے اندازہ لگایا ہے موجودہ حالات میں زمیندار لوگ زمینوں کی آمدنی پر گزارا نہیں کر سکتے۔عام طور پر ایک زمیندار کے پاس تین چار پانچ گھماؤں زمین ہوتی ہے ۔بڑے زمینداروں کے پاس سو، دو سو، تین سو، چار سو گھماؤں ہو سکتی ہے مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں اور اوسط زیادہ سے زیادہ دس گھماؤں کی ہے۔اس میں سارا سال محنت کر کے اگر ہر سال گیہوں ہی بوئی جائے اور فرض کر لیا جائے کہ فی گھماؤں دس من اوسط ہے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے تو سو من غلہ حاصل ہو گااور آجکل کے ریٹ کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دو سو روپیہ ہو گی۔اس میں زمیندار کے کمین بھی شامل ہوں گے، گورنمنٹ کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا، بیلوں کا خرچ بھی برداشت کرنا ہو گا۔یہ سب اخراجات لگاکر زیادہ سے زیادہ سو روپیہ بچے گا۔گویا آٹھ سوا آٹھ روپے ماہوار آمدنی ہو گی۔اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ جس ملک کے لوگوں کی آمدنی کی یہ اوسط ہو وہ کس طرح ترقی کر سکتاہے۔ایک زمیندار جو سارا سال خود محنت کر تاہے۔ اس کی بیوی بچے اس کی محنت میں مدد کرتے ہیں اور پھر اسے سوا آٹھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک معمولی مزدور جس کی بیوی بچے آرام سے گھر میں رہتے ہیں جو کوئی سرمایہ خرچ نہیں کرتا ۔وہ کم از کم بیس روپے ماہوار کماتاہے۔مگر ایک زمیندارجو اپنی بڑی شان سمجھتاہے 22،23سو روپیہ کا سرمایہ زمین اور اس کے متعلقات کی شکل میں خرچ کرتاہے، بیوی بچوں کو اپنی محنت مشقت میں شریک رکھتاہے جو دن رات کام کرتاہے سوا آٹھ روپے ماہوار کماتا ہے۔
پس زمیندارہ کرنے والے لوگ قطعاً ترقی نہیں کر سکتے اور جب تک مسلمان اسے چھوڑ کر دوسرے کاموں کو اختیار نہ کریں گے ترقی نہیں کر سکیں گے ۔پھر آج جس کے پاس آٹھ دس گھماؤں زمین ہے اس کی اولاد میں تقسیم ہو کر وہ اور بھی تھوڑی حصہ میں آتی ہے اس طرح کہاں ترقی ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی اِسی حالت میں رہے تو جماعت ترقی نہیں کر سکے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے گزارا چل سکے۔زمین اپنے میں سے کسی ایک کے سپرد کر دی جائے اور باقی کے حصہ دار دوسرے کاموں کی طرف توجہ کریں۔……

مختلف پیشے سیکھے جائیں

ہر جگہ کے لوگوں کو اندازہ لگانا چاہیے کہ ان کے پاس گزارہ کے لیے کافی زمین ہے یا نہیں ۔اگر کافی نہ ہو تو اپنی اولاد میں سے کسی ایک دو کے سپردزمین کر کے باقیوں کو مختلف کام سکھلائیں کسی کو لوہار،کسی کو جولاہا،کسی کو صنّاع،کسی کو تاجر بنائیں۔اس طرح ترقی کر سکیں گے۔

کوئی پیشہ ذلیل نہیں

سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہندوستان میں پیشوں کو ذلیل سمجھا جاتاہے اور زمیندارہ کو معزز پیشہ قرار دیاجاتاہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک لوہار،ایک ترکھان،ایک جولاہا جو کام کرتاہے اس میں ذلت کیا ہے۔ ان کاموں کو ذلیل قرار دینے والے کبھی غور نہیں کرتے کہ انگریزوں کی ساری ترقی کی بنیاد یہی پیشے ہیں اور وہ انہی کے ذریعہ ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اہل ہند اس لیے ذلیل ہو گئے کہ انہوں نے پیشوں کو ذلیل سمجھااور وہ لوگ معززبن گئے جنہوں نے موچی کا کام کیا ،جولاہے کا کام کیا،لوہار کا کام کیا،پس اس خیال میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے کہ کوئی پیشہ ذلیل ہے اور مختلف پیشوں اور تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

کم سرمایہ سے تجارت شروع کرنی چاہیے

تجارت کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے اور سرمایہ ہمارے پاس نہیں اس لیے ہم تجارت نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ایک ہندو نے بتایا تجارت ڈیڑھ پیسہ سے شروع کرنی چاہیے۔ فرماتے ایک شخص کو دیکھا کہ جو لکھ پتی تھا مگراس کا بیٹا پکوڑوں کی دوکان کرتاتھا۔پوچھایہ کیا توکہنے لگا اگر ابھی اسے سرمایہ دے دیا جائے تو ضائع کر دے گا۔اب اتنے کام سے ہی اسے تجربہ حاصل کرنا چاہیے یہ اسی سے اپنی روٹی چلاتاہے۔

غیر ممالک میں جانامالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے

پھر غیر ممالک میں جانا بھی ترقی کاایک ذریعہ ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ عام طور پر اپنے ملک میں ہی پڑے رہنے کے عادی ہیں اس وجہ سے ترقی سے بھی محروم ہیں ۔امریکہ ،یورپ، آسٹریلیا وغیرہ کے لوگ دور دراز ملکوں میں جاتے ہیں اور قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ امریکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ کہتے یہ ہیں کہ اپنے ملک سے باہر نہ جائیں خواہ بھوکے ہی مریں۔قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ دنیا میں پھرو۔ پس جنہیں اپنے ملک میں ترقی کی صورت نہ نظر آئے انہیں دیگر ممالک میں جانا چاہیے۔اس طرح بہت سے لوگ ترقی کر سکتے ہیں۔ہمارے ایک جالندھر کے دوست آسٹریلیا میں پھیری کے لیے جاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کم از کم پندرہ روپیہ روزانہ کی آمد ہوتی ہے۔ وہ وہاں سے کماکر آجاتے اور پھر گھر میں رہتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو باہر بھی نکلنا چاہیے۔یہ مالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے۔

باہمی تعاون

پھر ایک نہایت ضروری بات باہمی تعاون ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کانگرس والوں نے باہمی تعاون سے کس طرح گورنمنٹ کو نقصان پہنچایا ۔اسی طرح فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتاہے مگر ہماری جماعت نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی۔ہمارے سامنے کئی سکیمیں آتی ہیں، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں مگر کوئی کام نہیں ہوتا۔میرے سامنے ایک سکیم ہے جس کا میں نے سالانہ جلسہ پر بھی ذکر کیا تھا اور وہ تاجروں اور صناعوں کے متعلق ہے۔یعنی یہ کہ جو چیز ہماری جماعت کے لوگ بنائیں ا س کے متعلق ان احمدی تاجروں کو جو وہ چیز فروخت کرتے ہوں لکھا جائے کہ ان سے خریدو اور اس طرح باہمی تعاون کرو۔اس وقت میرے سامنے ایک عزیز بیٹھا ہے اس کے والد صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا۔
چوہدری نصراﷲ خان صاحب مرحوم یہاں ایک دفعہ آئے اور حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں اُنہوں نے یہاں کپڑے بنوائے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ یہاں کیوں کپڑے بنواتے ہیں؟ کہنے لگے میں ایک سال کے لیے کپڑے یہاں سے ہی بنوایا کرتاہوں۔تاکہ یہاں کے کپڑا فروخت کرنے والوں اور درزیوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ جائے۔یہ ان کے دل میں آپ ہی آپ تحریک ہوئی اور میرے نزدیک ہر احمدی میں یہی روح ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچائے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ اس روح کے ماتحت کام کریں تو ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اس قدر مضبوط ہو سکتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی طرف کھینچ سکیں۔اگر جماعت کے ایسے لوگوں کی فہرستیں بن جائیں جن سے معلوم ہو کہ کون سی چیز کہاں کے احمدی مہیا کر سکتے ہیں توپھر جسے اس کی ضرو رت ہو ان سے منگا سکتے ہیں اور اس طرح بہت فائدہ ہو سکتاہے اور بہت سے لوگوں کے لیے کام نکل سکتاہے اور ان کا گزارہ بہت اچھا چل سکتاہے۔

مشترکہ کام جاری کیے جائیں

ایک صورت اقتصادی ترقی کی یہ ہے کہ جماعت کی طرف سے اشتراکی کام جاری کیے جائیں۔ ہم نے اسی غرض سے ایک سٹور جاری کیا تھا مگر اس سے ایسا دھکا لگاکہ پھر ہوش نہ آئی۔حالانکہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نئے سرے سے اور کام نہ کرتے اور نقصان سے بے دل ہو کر بیٹھ رہتے۔انگلستان والوں نے جب ہندوستان میں تجارت شروع کی تو کئی سال تک بڑا نقصان اُٹھاتے رہے مگر انہوں نے کام نہ چھوڑا اور آخر ہندوستان لے ہی لیا۔پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک دفعہ نقصان ہونے کی وجہ سے ہم کوشش جاری نہ رکھیں۔سٹور کے متعلق یہ غلطی ہوئی کہ بہت سا سرمایہ جمع کر لیا گیا جو استعمال نہ کیا جا سکا یہاں ایسی دوکان چل سکتی ہے جس کا سرمایہ سال میں دو تین دفعہ چکر کھا لے۔سٹور میں 80 ہزار کا سرمایہ لگایا گیا جس کے لیے ضروری تھا کہ کم از کم اڑھائی لاکھ کی سالانہ بِکری ہوتی مگر یہ ہونہیں سکتی تھی ۔اس غلطی کی وجہ سے ناکامی ہوئی۔دوسرا نقص یہ ہوا کہ جنہوں نے روپیہ دیا انہوں نے اپنا سارے کا سار ا روپیہ دے دیا۔بعض لوگوں کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا۔انہوں نے اپنا سارا جمع کردہ روپیہ لگادیااورپھر انہیں روپیہ ملنا مشکل ہو گیااور اس طرح ان کی نہایت نازک حالت ہو گئی۔اگر کام ایسی طرز پر شروع کیا جائے کہ تھوڑا سرمایہ ہو جو ساری جماعت پر پھیلا کر جمع کیا جائے ۔مثلاً دس دس روپیہ کا حصہ رکھا جائے اور کوئی جس قدر حصے چاہے خرید لے۔مگر یہ بات مدنظر رکھے کہ اگرنقصان ہو تو برداشت کر لیا جائے گا۔تو وہ حالت پیدا نہ ہو گی جو سٹور کے فیل ہونے سے ہوئی۔اول تو امید ہے کہ اب ہم انشاء اﷲ نقصان نہ اُٹھائیں گے اور اگر اُٹھائیں گے تو پہلے نقصان سے جو سبق حاصل ہوا ہے اُسے یاد رکھ سکیں گے۔

جُرابوں کا کارخانہ

اس قسم کے کام کے لیے پچھلے مہینہ ایک تجویز پر غور کیا گیا اور مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ کو اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے لاہور اور لدہانہ بھیجااور وہ کام یہ ہے کہ جُرابوں وغیرہ کا کارخانہ جاری کیا جائے ۔درد صاحب نے بتایا کہ ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے بتایا یہ کامیاب کام ہے۔اس سے25 فیصدی نفع حاصل ہواہے۔ہمارا ارادہ ہے کہ اس کے لیے جو سرمایہ جمع کیا جائے اسے اس طرز پر جماعت میں پھیلائیں کہ کوئی شخص اتنے حصے نہ لے کہ اگر خدانخواستہ گھاٹا ہو تو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے۔یہ سکیم امورعامہ والے پیش کریں گے۔اسے اس طرح پیچھے نہ ڈالا جائے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ سات ہزار کے سرمایہ سے یہ کارخانہ چل سکتاہے اور آئندہ اور زیادہ وسیع کیا جا سکتاہے۔صحیح اعداد ناظر صاحب امور عامہ پیش کریں گے۔

بااثر لوگ بطور شغل کوئی پیشہ اختیار کریں

ایک صورت اور بھی ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ

ہر اچھی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے۔جہاں اسے پائے لے لے۔اس کے مطابق ایک سبق ہم گاندھی جی سے بھی لے سکتے ہیں۔ان کی غرض تو کھدر بنانے سے یہ ہے کہ انگریزوں کو نقصان پہنچائیں۔لیکن ہم اس قسم کی تحریک اس لیے جاری کر سکتے ہیں کہ جماعت میں پیشوں سے جو نفرت ہے وہ دور ہو جائے۔ اگر ایسی تحریک ہو کہ جماعت کے بااثر لوگ شغل کے طورپر ان پیشوں میں سے کوئی شروع کر دیں جنہیں ذلیل سمجھا جا تا ہے تو اس طرح لوگوں کے دلوں میں ان کی نفرت دور ہو جائے گی۔مثلاً اگر میں ہتھوڑا لے کر کام کروں ،یا کھڈی پر کپڑا بُنوں تو جو لوگ میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کے دلوں سے ان پیشوں کی تذلیل کا خیال جاتارہے گا۔یورپ میں معزز لوگ اس قسم کا کوئی نہ کوئی شغل اختیار کر لیتے ہیں۔اس سے ورزش بھی ہوتی ہے اور پیشوں سے نفرت بھی دور ہوتی جاتی ہے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1931ء صفحہ17تا22)

محکمہ تجارت تجارتی معلومات بہم پہنچائے

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 15؍اپریل1927ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’پھر نظارت تجارت کی تجاویز ہیں۔

  1. یہ کہ احمدیوں کو بغیر سود قرضہ دینے کے لیے انجمن قائم کی جائے
  2. احمدی تاجروں اور اہل حرفہ کے باہمی تعارف کا انتظام کیا جائے۔
  3. بے کاروں کے لیے کوئی کام جاری کیا جائے۔

یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کے نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کو بہت دقت پیش آرہی ہے۔ان باتوں پر بھی جلد غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ نتیجہ ہو گا کہ جماعت کے مال کا بڑا حصہ ان بے کاروں کو سنبھالنے کے لیے خرچ کرنا پڑے گا۔……
اس کے بعد میں ناظر تجارت (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اﷲ عنہ) کے متعلق کچھ کہنا چاہتاہوں انہوں نے باوجود پہلے سال رپورٹ پیش کرنے کے اس رنگ میں پیش کی ہے جو دلچسپی رکھتی ہے اور معلوم ہوتاہے کہ روپیہ کس کام میں لگا ہوا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ روپیہ کی کس قدر دقت ہے مثلاً ولایت کی تجارت پر روپیہ کم ہونے کی وجہ سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لنڈن میں خرچ زیادہ ہوتاہے اگر روپیہ زیادہ ہوتا تو فائدہ اٹھایا جا سکتاتھا۔غرض انہوں نے بہت دلچسپ بیان کیا ہے مگر ان سے ایک غلطی ہوئی ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایسی سکیم پیش کر دی ہے جو منظور شدہ نہیں ہے بلکہ صدر انجمن کی رائے کے خلاف ہے اور میری رائے کے بھی خلاف ہے جب انہیں یہ معلوم تھا تو رپورٹ میں اسے نہیں پیش کرنا چاہیے تھا۔وہ سکیم یہ ہے کہ جماعت کا روپیہ لے کر اوروں کو تجارت پر دیا جائے۔ سٹور کے متعلق میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ سٹور میں کام کرنے والے میرے نزدیک دیانتدار ہیں۔مگر صرف یہ لکھنے پر ابھی تک میرے نام سٹور میں روپیہ داخل کرنے والوں کی چٹھیاں آرہی ہیں کہ تم ہمارے روپیہ کے ذمہ وار ہو۔میں اب بھی زید اور بکر کو دیانتدا رہی سمجھتاہوں مگر اس وجہ سے دنیا کے کسی قانون کے رُو سے روپیہ کی ذمہ واری مجھ پر عائد نہیں ہو سکتی۔
ہو سکتاہے زید دیانت دار ہو مگر اسے کام کا تجربہ نہ ہو اور اس وجہ سے فائدہ نہ ہو اور اگر تجربہ بھی ہوتو ایسی مشکلات پیش آجائیں کہ کام نہ کر سکے مگر باوجود اس کے سارا الزام مجھ پر عائد کیا گیااور اس وجہ سے بعض لوگ مرتد ہو گئے ہیں جن لوگوں کی تربیت کا یہ حال ہو ان سے روپیہ لے کر کسی تجارتی کام پر لگانا کس قدر خطرناک نتائج پیدا کر سکتاہے۔ یہ کہنا کہ جن لوگوں کو روپیہ دیا جائے گا وہ ہمارے مقرر کردہ رجسٹر پر حساب رکھیں گے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ٹیکس کے لیے رجسٹر مقرر ہیں۔مگر خیانت کرنے والے خیانت کر ہی لیتے ہیں پھر دیانتداری ہر جگہ کامیاب نہیں ہوا کرتی۔نقصان بھی اُٹھانا پڑتاہے۔ پس ہمارا دوسروں سے روپیہ لے کر تجارت کے لیے دینے کا یہ مطلب ہو گا کہ اگر نقصان ہوا تو اعتراض کرنے والوں میں اضافہ ہو جائے گا اس وجہ سے ہم اس کام کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔
اس کی بجائے اگر وہ یہ کرتے کہ بجائے روپیہ لے کر تجارت کے لیے دوسروں کو دیں اور بعض خرابیوں کا ہتھیار بن جائیں۔وہ یہ کریں جو مہذب گورنمنٹیں کر رہی ہیں کہ تجارت کے متعلق اطلاعات بہم پہنچائیں۔مثلاً یہ کہ کون کون سی تجارت کو فروغ ہو رہا ہے اور کس کو تنزل۔یہ باتیں مختلف ذرائع سے معلوم ہو سکتی ہیں۔ اگر ہمارا محکمہ تجارت اس طرح کرے یعنی تجارتی معلومات بہم پہنچائے اور پھر لوگوں سے کہے اطلاعات ہم بہم پہنچاتے ہیں تم تحقیقات کر کے روپیہ لگاؤ جس کے ذمہ وار تم خود ہو گے۔تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتاہے مثلاً بنگال میں بٹن اور سیاہی ،دیا سلائی اور صابن کی تجارت بہت ترقی کر رہی ہے اور باہر کی ان چیزوں کی تجارت ٹوٹ رہی ہے۔ یہاں سیاہی ایسی بنتی ہے کہ باہر سے کم آتی ہے۔ اسی طرح بٹن اتنے سستے بنتے ہیں کہ بیرونجات کی یہ تجارت ٹوٹ رہی ہے۔ صابن کی 60فیصدی تجارت بیرونی چھین لی گئی ہے۔ دیا سلائی کی بیرونی تجارت بھی ٹوٹ رہی ہے۔ اب ان کے متعلق معلومات بہم پہنچائے جائیں۔ پھر یہ بتانا چاہیے کہ کوئی کام ناواقفیت کی حالت میں نہیں کرنا چاہیے۔ فلاں فلاں کا رخانے سے یہ کام سیکھے جا سکتے ہیں ان سے کام سیکھ کر کیا جائے یا خود لوگوں کو بھیج کر کام سکھلائیں۔یہ ایسا کام ہے کہ اس طرح تھوڑے عرصہ میں جماعت میں تجارتی روح پیدا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تجارتی تعلیم اور تجارتی اصول سے جماعت کو واقف کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح جو تجارتیں فروغ حاصل کر رہی ہیں ان کے کارخانوں میں کام کرنے سے بہت فائدہ حاصل ہو سکتاہے۔جماعت کے اکثر لوگ چونکہ تجارت سے نا واقف ہیں اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ تجارت کس طرح کرنی چاہیے۔وہ کہتے ہیں جو دیانتدار ہے ضرورہے کہ نفع بھی حاصل کرے مگر ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ فلاں دیانتدار ہے آگے ممکن ہے ہمارے اندازہ میں بھی 60فیصدی درست ہو اور40فیصدی غلط۔
میرے نزدیک محکمہ تجارت کو ان امور کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔تاکہ عزت بھی محفوظ رہے اور جماعت میں تجارت کی طرف توجہ اور ہیجان زیادہ پیدا ہو۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1927ء صفحہ10،131تا133)

صنعت و حرفت کی ایک خاص سکیم

حضور انور رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مؤرخہ12؍اپریل1925ء کومجلس مشاورت میں فرمایا:
’’اسی طرح ہماری جماعت کے لوگوں کو صنعت وحرفت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ ایک خاص سکیم بے کاروں کے انتظام کے متعلق تیار کی جائے۔ اگر جماعت اس طرف توجہ کرے تو بہت کچھ کام ہو سکتاہے اور بے کاروں کے نوکر ہو جانے یا کاروبار کرنے کی صورت میں سلسلہ کی کئی ہزارکی آمدنی ہو سکتی ہے۔
میں اس کے لیے بھی سکیم تیار کر رہا ہوں کہ کس طرح سلسلہ کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے لیے جمع کر سکتے ہیں۔مگر فی الحال اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو اپنی جماعت سے بہت سے مردوں اور عورتوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتاہوں کہ اگر ہندو اور مسلمان سوراج کے لیے کھدر پہن سکتے ہیں تو ہماری جماعت کو تیار رہنا چاہیے کہ اگر ہمیں اسلام کے لیے کھدر پہننا پڑے تو عورتیں اُسے تیار کریں اور مرد پہنیں اور خالی روٹی یا معمولی روٹی کھا کر اس وقت تک اس طرح گذارا کریں جب تک کہ کافی جماعت نہ ہو جائے۔

(رپورٹ مجلس مشاورت1925ء صفحہ77)

سودسے پاک قرضہ سکیم

مجلس مشاورت مؤرخہ22؍مارچ 1924ء میں مکرم ناظر صاحب امور عامہ نے درج ذیل سکیمیں پیش کیں۔قرضہ سکیم، کواپریٹو سوسائٹی، اجتماعی اراضی، پول سسٹم۔
اس پرتبصرہ کرتے ہوئے حضورانور رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
’’بات یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لیے بعض مشکلات ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ بعض ایسی باتیں ہیں جن سے دُنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی ہمت کریں تو فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔اس لیے میں نے امور عامہ کو کہا تھا کہ سکیم تیار کریں۔……
ہماری جماعت کے لوگوں کو جب قرض لینا پڑتاہے تو سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔حالانکہ سود سے خدا نے سخت منع کیا ہے۔مگر جو مشکلات میں ہوتے اور سود پہلے سے لے چکے ہوتے ہیں ان کے لیے مشکل ہوتاہے۔ بعض جائیدادیں بیچ کر سود سے بچ جاتے ہیں مگر بعض کے پاس اتنی جائیدادنہیں ہوتی کہ قرض ادا کر سکیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ سود نہیں دیتے مگر ان کو کوئی قرض دیتا ہی نہیں۔ان مشکلات کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ قرضہ کا طریق جاری ہو جو مختلف سوسائٹیوں کے لیے الگ ہو۔زمینداروں،تاجروں،ملازموں کے لیے علیحدہ علیحدہ قسم کی سوسائٹیاں ہوں۔
تاجر یوں کر سکتے ہیں کہ مثلاً سو تاجر مل جائیں،10روپیہ مہینہ ہر ایک دیتا رہے ،ایک ہزار ماہوار جمع ہو،یعنی12ہزار سالانہ۔اس میں سے چھ ہزار سے ایسی کمیٹیوں کے حصے خرید لیں جس سے وقتی ضروریات یا نقصان کو پورا کر سکیں اور بقیہ رقم کو اس لیے رکھیں کہ جس کو ضرورت ہو اپنے ممبروں میں سے اس کو قرض دیا جائے۔آہستہ آہستہ یہ کام بہت وسیع ہو جائے گا۔اسی طرح زمیندار ہیں ،وہ حصہ مقرر کر لیں کہ اتنے روپیہ چندہ دینے والے کو اتنا قرض دیا جا سکتاہے جس قدرروپیہ جمع ہونصف کو قرضہ کے لیے رکھیں اور باقی سے زمین خریدلیں۔ان کی آمد سے نقصان وغیرہ پورا کیا جا ئے۔
اس طرح قرض اُترنا شروع ہو جائے گا۔اس قسم کی سوسائٹیاں بن جائیں تو ان سے ان کو قرضہ ملے گا جس کو ضرورت پڑے۔ اگر ایسانہ ہو گا تو سب آدمی سود سے نہیں بچ سکتے۔مگر یہ طریق نہیں چل سکتا جب تک سارے اس کے لیے متفق نہ ہوں اور ان میں یہ کام کرنے کی روح نہ پیدا ہو۔
یہ سکیم ہے اس کے لیے کہتے ہیں کمیٹی مقرر کی گئی ہے مگر وہ ایک ہے تین ہونی چاہئیں۔

  1. تاجروں کی
  2. ملازموں کی
  3. زمینداروں کی۔

اقتصادی طور پر جماعت گِرتی جا رہی ہے کیونکہ احمدی ایک طرف چندہ زیادہ دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ قرض چونکہ سودی ملتاہے وہ اس طرح کام نہیں چلا سکتے جس طرح اور چلا سکتے ہیں۔ اس کا اثر دینی کاموں پر بھی پڑتاہے اس لیے قرضہ کے لیے ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ سود بھی نہ دینا پڑے اور ضرورت کے وقت قرضہ بھی مل جائے۔
اسی طرح ایک اور طریق ہے اور وہ یہ ہے ساؤتھ امریکہ میں گاؤں والے ایک جگہ زمین جمع کر لیتے ہیں اگر ہمارے مربعوں والے ایسا کریں کہ اپنی زمین اکٹھی کر لیں تو بہت اچھا کام ہو سکتاہے امریکہ میں گاؤں والے مل کر سوسائیٹیاں بنا لیتے ہیں۔ سارے مل کر ٹھیکہ پر اس کمیٹی کو زمین دے دیتے ہیں اور خود اس کے ممبر ہوتے ہیں اور سوسائٹی میں وہی کام کرتے اور مزدوری لیتے ہیں۔اگر ہم نے دنیا میں حکومت کرنی ہے تو ضروری ہے کہ ہر قسم کے بہترین انتظام کر لیں ہمیں چاہیے کہ سوچیں اور سکیم پر غور کریں اور جب بھی فرصت ہو اس پر عمل شروع ہو جائے جب ایک دو گاؤں اس کے لیے تیار ہوجائیں تو اس پر عمل شروع ہو جائے۔اگر ضرورت ہو تو مرکز بھی مدد دے سکتاہے۔ اگر اس طرح سکیموں پر غور ہوتا رہے تو ہماری جماعت دینی ہی نہیں اقتصادی برتری بھی حاصل کرسکتی ہے جو کمیٹی اس کام کے لیے بنی ہے وہ اس امر کو مدنظر رکھ کر غور کرے اور اس قسم کی اور تجاویز پر اور سکیموں پر غور کرے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1924ء صفحہ50تا53)