بچوں کو بے کار رکھنا موت کے مترادف

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ23؍اکتوبر1936ء کومجلس مشاورت میں فرمایا:
’’میں نے جماعت سے دین کی خدمت کے لیے روپے مانگے اور وہ اس نے دے دیے لیکن جب میں نے کہا کہ میں تمہارے بچوں کو زندگی دیتا ہوں تو اسے قبول نہ کیا گیا اور جہاں دو متضاد چیزیں جمع ہو جائیں وہاں ترقی کس طرح ہو سکتی ہے؟ہماری جماعت کے لوگوں نے پہلے سے زیادہ مالی قربانی کر کے گویا اپنے آپ کو ایک رنگ میں مار دیا اور اپنے بچوں کو بیکار رکھ کر موت لے لی اور اس طرح دو موتیں جمع ہو گئیں۔حالانکہ میں نے ان کو ایک حیات دی تھی اور وہ یہ کہ اپنے بچوں کو بیکار نہ رکھو ،اسے انہوں نے چھوڑ دیا اور جو موت دی تھی وہ لے لی اور پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لیے کوئی کام نہیں ملتا۔ قادیان میں ہی ایک محکمہ بے کاری کو دور کرنے کے لیے ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا۔

کام سیکھنے والے کو مزدوری کم کیوں دی جاتی ہے

ہم نے یہاں کئی کارخانے جاری کیے ہیں مگر یہی سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور مزدوری تھوڑی ملتی ہے ۔حالانکہ آوارگی اور بیکاری سے تو تھوڑی مزدوری بھی اچھی ہے ۔یہ قدرتی بات ہے کہ کام سیکھنے والے سے کام خراب بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح کام سکھانے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔اس وجہ سے کام سیکھنے والوں کو کم مزدوری دی جاتی ہے ۔کل ہی کام سکھانے والے آئے تھے جو کہتے تھے کہ کام سیکھنے والے لڑکوں نے کام خراب کر دیا ہے۔
طریق تو یہ ہے کہ کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر ہم تو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں مگر پھر بھی کام نہیں سیکھتے،حالانکہ اس وقت تک ہمارے پاس کئی ہندوؤں کی چٹھیاں آچکی ہیں کہ ہمارے بچوں کو اپنے کارخانوں میں داخل کر کے کام سکھائیے۔ولایت میں بھی کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر یہاں کہتے ہیں کہ مزدوری کم ملتی ہے اور اس وجہ سے بچوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں جبکہ میرا بتایا ہوا یہ گُر استعمال نہیں کیا گیا تو آگے کیا امید ہو سکتی ہے کہ جو بات بتائی جائے گی اس پر عمل کیا جائے گا مگرمیرا کام یہ ہے کہ راہنمائی کرتا جاؤں جب تک جماعت یہ بات محسوس نہیں کرتی کہ نوجوانوں کا بیکار رہنا خطرناک ظلم ہے اتنا خطر ناک کہ اس سے بڑھ کر اولاد پر اور پھر قوم پر ظلم نہیں ہو سکتا۔
میں نے کہا تھا کہ چاہے ایک پیسہ کی مزدوری ملے تو بھی کرو خواہ کوئی گریجو ایٹ ہو جب تک اسے کوئی اورکام نہیں ملتا ۔اب اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پیسہ بھی نہ ملے تو بھی محنت مزدوری کروکیونکہ بیکار رہنے کی نسبت یہ بھی تمہارے لیے ،تمہارے خاندان کے لیے اورتمہاری قوم کے لیے بابرکت ہوگا۔
یاد رکھو! جب تک تم اپنی زندگی کے لمحات مفید بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس وقت تک غالب حیثیت سے رہنے کے بھی قابل نہیں بن سکتے۔غلبہ حاصل کرنے کے لیے کام کرنے بلکہ کام میں لذت محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کسی کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ گھر سے نکل جائے اور وہ سڑکوں پر جھاڑو ہی دیتا پھرے مگر بیکار نہ رہے۔‘‘

(تحریک جدید -ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ368،369)

کارخانے لگانے کا مقصد

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ10؍اپریل1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’دوسری سکیم یہ ہے کہ یہاں کارخانے جاری کیے جائیں ۔جراب سازی کا کارخانہ تو اپنے طور پر قائم ہو چکاہے اور وہ اس سکیم کے ماتحت نہیں گو میری تحریک سے ہی جاری ہواہے ۔اس سکیم کے ما تحت جو کارخانے جاری کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔(۱)لوہے کا کام کرنے کا کارخانہ(۲)لکڑی کا کام کرنے کا کارخانہ،اب چمڑے کے کام کا بھی اضافہ کیا جا رہاہے،(اس دوران میں یہ کارخانہ بھی جاری ہو چکاہے)(۳)دوا سازی کاکام بھی شروع کیا جائے گا جس کی ایک شاخ دہلی میں کھولی جائے گی(۴)گلاس فیکٹری کا کام ہے۔ایک مخلص دوست نے اپنی جائیداد بیچ کر جاری کیا ہے۔چونکہ وہ اکیلے اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے اس میں بھی تحریک جدید کا حصہ رکھ دیا گیا ہے۔بیرونی ممالک میں جو مبلغ گئے ہیں ان کے ذریعہ وہاں کئی قسم کا ہندوستان کاسامان فروخت ہو سکتاہے اس لیے ایک قسم کی دکان جاری کرنے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ اور کارخانے بھی مدنظر ہیں۔اصل بات بیکاروں کو کام پر لگانا ہے اور یہ بھی کہ جماعت کی مالی حالت بھی اچھی ہو اور تحریک جدید کی مالی تحریک جب بند کر دی جائے تو اس کاکام ان کارخانوں کی آمدنی سے چلے ۔
ان کارخانوں کے متعلق احباب ان طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں۔

  1. جن احباب کو ان کاموں میں سے کسی کا تجربہ ہو وہ مفید تجاویز بتائیں اور سود مند مشورے دیں۔
  2. ماہر فن احباب کارخانوں میں آکر کام ہوتا دیکھیں اور مشورے دیں کہ کس طرح کام کرنا چاہیے۔

اس طرح بھی اس بارے میں مدد کی جا سکتی ہے کہ جماعت کے لوگ ان کارخانوں کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں۔ہوزری سے خریدنے کے لیے میں نے کہا تھا۔گو مجھے افسوس ہے کہ اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی مگر مجھے ہوزری سے بھی شکایت ہے کہ اس نے کام اس طرح سے شروع نہیں کیا جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا۔اسی طرح لکڑی کا سامان ہے جو دوست یہ سامان اور جگہوں سے خریدتے ہیں وہ یہاں سے خریدا کریں۔
ان کارخانوں میں کام سکھانے کے متعلق ہم یتیم لڑکوں کو مقدم رکھیں گے اور جن لڑکوں کو ہم لیتے ہیں ان کا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں ساتھ ہی دینی اور دنیوی تعلیم بھی دلاتے ہیں تاکہ گو وہ کہنے کو تو مستری ہوں لیکن اصل میں انجینئر ہوں اور اعلیٰ پیشہ ور ہوں۔ یہ بھی ارادہ ہے کہ سرکاری ورکشاپوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں کن کاموں اور پیشوں کے جاننے والوں کی ضرورت ہوتی ہے پھر ان کے مطابق کام سکھایا جائے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ362،363)

اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ15؍مئی1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ مگر اس تحریک میں مجھے کئی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا کہ جو اس وجہ سے اولاد سے کام نہیں کراتے کہ گرمی زیادہ ہے بھوکے مریں گے مگر جب کہا جائے کہ جو کارخانے کھولے جا رہے ہیں ان میں اولاد کو داخل کر دو تو کہیں گے کہ وہاں گرمی میں کام کرنا پڑتاہے۔ہم تو گرم ملک کے رہنے والے ہیں مگر سرد ملک کے رہنے والے انگریز گرمی میں کام کرنے سے نہیں گھبراتے۔انگلستان میں چھ ماہ تو برف پڑی رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ آدمی ٹھٹھر نے لگتاہے ۔جب میں وہاں گیا تھا تو سخت گرمی کا موسم تھا۔حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے گرم پاجامہ پہنا اور کہنے لگے کہ میں نے ہندوستان میں سخت سردیوں کے موسم میں بھی اسے کبھی نہ پہناتھا مگر ایسے سرد ملک کے رہنے والے لوگ انجنوں پر کام کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انگریزوں نے نوکریاں سنبھال لی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ سنبھالیں وہ نہیں سنبھالیں گے تو کیا وہ نکمے لوگ سنبھالیں گے جو گرمی گرمی پکارتے ہیں اور اولادوں کو گھروں میں بے کار بٹھائے رکھتے ہیں ۔

نکما آدمی نجاست کھانے والی بھیڑوں سے بھی بد تر ہے

میں نے الفضل والوں کو کہا تھا کہ وہ شہروں میں ایجنسیاں قائم کر دیں مگر وہ شکایت کرتے ہیں کہ نوجوان یہ کام نہیں کرتے اور کوئی کرتاہے تو روپیہ نہیں دیتا۔جس قوم کے نوجوان چند پیسے بھی لے کر ادا نہ کریں اور بے کار پھریں ،کام کے لیے تیار نہ ہوں وہ کب امید کر سکتی ہے کہ زندہ رہے گی؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس سے مخالف مراد ہیں مگر جماعت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے اور اس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے،ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے ۔ گویا اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔میں دیکھتاہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لیے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی

’’قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ(الفرقان:78)‘‘

یعنی میراخدا تمہاری کیاپرواہ کرتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور کہا تم چیز کیا ہو؟گوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نکمے لوگ مٹا دیے جاتے ہیں۔ بھیڑیں تو پھر بھی گوں کھا کر نجاست کو دور کرتی ہیں لیکن نکما آدمی تو اس سے بھی بد تر ہے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ273تا274)

بے کاری ایک مہلک وبائی مرض ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ20؍دسمبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’تحریک جدیدکی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بے کار نہ رہیں۔میں نہیں کہہ سکتا میری اس تحریک پر جماعت نے کس حد تک عمل کیا؟لیکن اپنے طور پر میں یہ کہہ سکتاہوں کہ جماعت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو میرے پاس اس کی رپورٹ نہیں پہنچی۔یادرکھو!جس قوم میں بیکاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے۔بیکاری ایک وبا کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک طاعون کا مریض سارے گاؤں والوں کو طاعون میں مبتلا کر دیتاہے۔جس طرح ایک ہیضہ کا مریض سارے گاؤں والوں کو ہیضہ میں مبتلا کر دیتاہے اسی طرح تم ایک بے کا رکو کسی گاؤں میں چھوڑ دو وہ سارے نوجوانوں کو بے کار بنانا شروع کر دے گا۔
جو شخص بے کار رہتاہے وہ کئی گندی عادتیں سیکھ جاتاہے۔مثلاً تم دیکھو گے کہ بے کار آدمی ضرور اس قسم کی کھیلیں کھیلے گا جیسے تاش یا شطرنج وغیرہ ہیں اور جب وہ یہ کھیلیں کھیلنے بیٹھے گا تو چونکہ وہ اکیلاکھیل نہیں سکتا اس لیے وہ لازماً دو چار لڑکوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہے گا اور پھر اپنے حلقہ کو اور وسیع کرتاجائے گا۔
اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہمارے ایک اُستاد تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص تھا بعد میں وہ اسی نقص کی وجہ سے مدعیِ مأموریت اور نبوت بھی ہو گئے۔انہیں بھی کسی زمانہ میں تاش کھیلنے کا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ وہ ہمارے استاد تھے اور ان کا کام یہ تھاکہ ہماری تربیت کریں پھر بھی وہ پکڑ کر ہمیں بٹھا لیتے اور کہتے آؤ تاش کھیلیں۔اس وقت ہم کو بھی اس کھیل میں مزہ آتا کیونکہ بچپن میں جس کام پر بھی لگا دیا جائے اس میں بچے کو لذت آتی ہے لیکن آج یہ بے ہودہ کھیل معلوم ہوتی ہے ۔مجھے یاد ہے بعض اور بچے بھی ان کے ساتھ تاش کھیلتے جب نماز کا وقت آتا تو ہم نماز پر جانے کے لیے گھبراہٹ کا اظہار کرتے لیکن جب انہیں ہماری گھبراہٹ محسوس ہوتی تو کہتے ایک بار اور کھیل لو۔وہ کھیلتے تو تھوڑی دیر کے بعد کہتے ایک بار اور کھیل لو،ہمارے کان میں چونکہ ہر وقت یہ باتیں پڑتی رہتی تھیں کہ دین کی کیا قیمت ہے اس لیے جب ہم دیکھتے کہ نماز کو دیر ہو رہی ہے تو اٹھ کر نماز کے لیے بھاگ جاتے مگر جن کے کانوں میں یہ آوازنہ پڑے کہ دین کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے ان کے ساتھ اگر ایسی کھیلوں میں دوست مل جائیں یا کوئی استاد ہی مل جائے تو ان کی زندگی کے تباہ ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ جس وقت فٹ بال کی کھیل میں مقابلہ ہوتاہے یا کرکٹ میں مقابلہ ہوتاہے یا تاش میں مقابلہ ہوتاہے تو بچے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان کو ترقی دینے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ مقابلہ میں دلچسپی لیتی اور لذت محسوس کرتی ہے۔اگر کبھی چوری کے مقابلہ کی عادت ڈال دو تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ چوریاں زیادہ ہونے لگی ہیں اور لوگوں نے چوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔یہی مقابلہ کی روح ہے جو تاش وغیرہ کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی زندگی برباد کر دیتی ہے ۔غرض تم کسی شہر میں ایک آوارہ کو چھوڑ دو وہ چونکہ بے کار ہوگا اس لیے اپنی بے کاری کو دور کرنے کے لیے کوئی کام نکالے گا کیونکہ انسان اگر فارغ بیٹھے تو تھوڑے ہی دنوں میں پاگل ہو جائے لیکن چونکہ وہ محنت سے جی چراتاہے اس لیے بجائے کوئی مفید کام کرنے کے ایسے کام کرتا ہے جن میں اس کا دن بھی گزر جاتاہے اور جی بھی لگا رہتاہے ۔کہیں تاش شروع ہو جائیں گے،کہیں شطرنج کھیلی جائے گی،کہیں گانا شروع ہوجائے گا،کہیں بانسریاں بجنی شروع ہو جائیں گی،کہیں سارنگیاں اور پھر طبلے بجنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اسے ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی اور ان سے پیچھے ہٹانااس کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ وہ بظاہر ایک آوارہ ہو گامگر درحقیقت وہ مریض ہو گا طاعون کا ،وہ مریض ہو گا ہیضے کا جو نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ ہزاروں اور قیمتی جانوں کو بھی ہلاک کرے گا۔پھر اس سے متاثر ہونے والے متعدی امراض کی طرح اور لوگوں کو متاثر کریں گے اور وہ اَور کو۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ملک کا کثیر حصہ اس لعنت میں گرفتار ہوجائے گا۔
پس بے کاری ایسا مرض ہے کہ جس علاقے میں یہ ہو اس کی تباہی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔پہلا بے کار اس لیے بناتھا کہ اس کے والدین نے اس کے لیے کام مہیا نہ کیا۔لیکن دوسرے بے کار اس لیے بنیں گے کہ وہ ایک بے کار سے متاثر ہو کر اس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور اس کی بد عادات کو اپنے اندر پید اکر کے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھیں گے کہ کہیں بیٹھے تو گالیا اور کہیں سر مار لیا، کہیں تاش کھیل لی،کہیں شطرنج کھیل لیا،کہیں جؤا کھیلنے لگ گئے۔غرض بے کاروں کی تمام تر کوشش ایسے ہی کاموں کے لیے ہو گی جو نہ ان کے لیے مفید نہ سلسلے کے لیے اور نہ مذہب کے لیے۔

بے کاری اقتصادی لحاظ سے لعنت ہے

پھر اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاری ایک لعنت ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دور کرنا چاہیے۔ہمارے ملک کی آمد پہلے ہی 6پائی فی کس ہے اور یہ ہر شخص کی آمد نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی آمد ڈال کر اوسط نکالی گئی ہے اور ان لوگوں کی آمد ڈال کر نکالی گئی ہے جن کی دو تین لاکھ روپیہ ماہوار آمد ہے۔ورنہ اگر ان کو نکال دیا جائے تو ہمارے ملک کی آمد فی کس 3پائی رہ جاتی ہے۔جس ملک کی آمدنی کا یہ حال ہو اس میں سمجھ لو کتنے بے کار ہوں گے اگر ملک کے تمام افراد کام پر لگے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ لیکن اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی دو آنے کماتاہے تو اس پر اتنے بے کاروں کا بوجھ ہوتاہے کہ اپنے لیے اس کی آمد دمڑی رہ جاتی ہے اور جو زیادہ کماتاہے اس کی آمد پر بھی اثر پڑتاہے ۔تو بے کاروں کی وجہ سے ایک تو دوسرے لوگ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ بے کار ان کے لیے بوجھ بنتے ہیں ۔ دوسرے جب ملک میں ایک طبقہ ایسا ہو جو آگے نہ بڑھنے والا ہو تو دوسرے لوگوں کا قدم بھی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتاکیونکہ بیکار مزدوری کو بہت کم کر دیتے ہیں۔ بے کار شخص ہمیشہ عارضی کام کرنے کا عادی ہوتاہے اور جب کسی کی بے کاری حد سے بڑھتی اور وہ بھوکوں مرنے لگتاہے تومزدوری کے لیے نکل کھڑا ہوتاہے لیکن چونکہ اسے سخت احتیاج ہوتی ہے اس لیے اگر ایک جگہ مزدور کو چار آنے مل رہے ہوں تو یہ دو آنے لے کر بھی وہ کام کر دے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارے مزدروں کی اجرت دو آنے ہوجائے گی اور لوگ کہیں گے کہ جب ہمیں دو دو آنے پر مزدو رمل جاتے ہیں تو ہم چار آنے مزدوری کیوں دیں۔پس وہ ایک بے کار ساری دنیا کے مزدوروں کی اجرت کو نقصان پہنچاتا اور سب کو دو آنے لینے پر مجبور کر دیتاہے ،یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں بے کاری زیادہ ہو ان میں مزدوری نہایت سستی ہوتی ہے کیونکہ بے کار مجبور ی کی وجہ سے کام کرتا اور باقی مزدوروں کی اجرتوں کو نقصان پہنچا دیتاہے۔لیکن جن قوموں میں بے کاری کم ہو ان میں مزدوری مہنگی ہوتی ہے۔ تو بے کار اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔بے کار شخص ہمیشہ مانگنے کاعادی ہو گا۔ دوسروں پر بوجھ بنے گا اور اگر کبھی مزدوری کرے گا مزدوروں کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔ پس اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاروں کا وجود سخت خطرناک ہے۔

بے کاروں کا وجود قومی لحاظ سے بھی خطرناک ہے

پھرنہ صرف اقتصادی لحاظ سے بے کاروں کا وجود خطرناک ہے بلکہ قومی لحاظ سے بھی ان کاوجود خطرناک ہے اگر کسی قوم میں دس ہزار میں سے ایک ہزار بے کار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے پاس سو میں سے صرف نوے شخص موجود ہیں اور ان پر بھی دس فیصدی کا بوجھ ہے۔ایسی قوم دنیا کی اور قوموں کے مقابلہ میں جن کا ہر فرد خود کمانے کا عادی ہو کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے ۔نیلامی میں اس قسم کا نظارہ دیکھنے کا موقع مل سکتاہے۔ایک شخص کے پاس ایک سو روپیہ ہوتاہے اور دوسرے کے پاس ایک سو ایک لیکن یہ سو روپیہ پاس رکھنے والا شخص وہ چیز نہیں لے سکتا جو صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے والا اس کا مخالف لے جاتاہے ۔اگر صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے سے نیلامیوں میں مخالف کامیاب ہو جاتا ہے تو جہاں سو کے مقابلہ میں کسی کے پاس نوے روپے ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتاہے ایسے شخص کا شکست کھا جانا یقینی ہے ۔
ہندوؤں کو دیکھ لو ان میں چونکہ بے کار کم ہیں اس لیے وہ ہر مرحلہ پر مسلمانوں کو شکست دے دیتے ہیں ۔ان کی قوم دولت کمانے کی عادی ہے اور گو وہ دنیا کی خاطر دولت کماتی ہے جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے۔ مگر اقتصادی اور قومی طور پر اُس کا نتیجہ ان کے لیے نہایت ہی خوش کن نکلتاہے۔
پس میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جولوگ بے کار ہیں وہ معمولی سے معمولی مزدوری کر لیں مگر بے کار نہ رہیں۔لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کیا گیااور اگر کیا گیا تو بہت کم حالانکہ اگر کوئی شخص بی۔اے ہے یا ایم۔اے اور اسے ملازمت نہیں ملتی اور وہ کوئی ایسا کام شروع کر دیتاہے جس کے نتیجہ میں وہ دو یا پانچ روپے ماہوار کماتاہے تو اس کا اسے بھی فائدہ ہو گا اور جب وہ کام میں مشغول رہے گا تو دوسروں کو بھی فائدہ ہوگااور اس سے عام لوگوں کو نقصان نہیں پہنچے گاجو بے کار شخص سے پہنچتاہے ۔بلکہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے اخلاق درست ہوں گے۔ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا روپیہ جو اس پر صرف کرتے تھے ضائع نہیں ہو گااور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس سے قوم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔غرضیکہ وہ اپنی اخلاقی حالت کو بھی درست کرے گا اور اقتصادی حالت کو بھی۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں جو لوگ اپنے بے کار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہمارے گھر سے روٹی کھا تاہے کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے یا میرا بچہ ہیضہ سے بیمارہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔جس طرح طاعون کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرور ت ہے بلکہ سارے شہر کو حق حاصل ہے کہ اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرے اور اس بیماری کو روکے۔ جس طرح ہیضہ کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سار ا شہر اس بات کا حق رکھتاہے کہ اس کے متعلق گھبراہٹ ظاہر کرے اور اس بیماری کو روکے اسی طرح جو شخص بے کار ہے اس کے متعلق تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے ہم خود روٹی کھلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔بلکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بے کاری کے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ وہ طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں کی طرح دوسرے بچوں کا خون چوستا اور انہیں بد عادات میں مبتلا کرتاہے۔تم ہیضہ کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،تم طاعون کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،مگر تم ہیضہ اور طاعون کے کیڑوں کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ پھیلیں گے اور دوسروں کو مرض میں مبتلا کریں گے اسی طرح تم یہ کہہ کر کہ ہم اپنے بچہ کو کھلاتے اور پلاتے ہیں اس ذمہ واری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے جو تم پر عائد ہوتی ہے بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے اس بیماری کو دور کر و ورنہ قوم اور ملک اس کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔پس یہ معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے ۔اگر ایک کروڑ پتی کا بچہ بھی بے کار ہے تووہ اپنے گھر کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی تباہ کر تاہے۔

دنیا کا سب سے خطرناک جرم آوارگی بے کاری کانتیجہ ہے

یاد رکھو!تمام آوارگیاں بے کاری سے پیدا ہوتی ہیں اور آوارگی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی جرم نہیں۔میرے نزدیک چور ایک آوارہ سے بہتر ہے بشرطیکہ ان دونوں جرائم کو الگ الگ کیا جا سکے اور اگر چور ی اور آوارگی کو الگ الگ کر کے میرے سامنے رکھا جائے تو یقینا میں یہی کہوں گا کہ چور ہونا اچھا ہے مگر آوارہ ہو نا بُرا۔قتل نہایت ناجائز اور ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اگر میری طرح کسی نے اخلاق کا مطالعہ کیا ہو اور ان دونوں جرائم کو الگ الگ رکھ کر اس سے دریافت کیا جائے کہ ان میں سے کون سا فعل زیادہ برا ہے؟تو یقینا یہی کہے گا کہ قتل کرنا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا کیونکہ ممکن ہے قاتل پر ساری عمر میں صرف ایک گھنٹہ ایساآیاہو جبکہ اس نے جوش میں آکر کسی شخص کو قتل کر دیا ہو لیکن آوارہ آدمی ساری عمر ذہنی طور پر قاتل بنا رہتاہے اور اپنی عمر کے ہر گھنٹہ میں اپنی روح کو ہلاک کرتا ہے۔ تم ایک قاتل کو نیک دیکھ سکتے ہو لیکن تم کسی آوارہ کو نیک نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہو سکتاہے ایک شخص نیک ہو لیکن اس کی عمر میں ایک گھنٹہ ایسا آجائے جبکہ وہ جوش میں آکر کسی کو قتل کر دے اور قتل کے بعد اپنے کیے پر پشیمان ہو اور دوسرے گھنٹہ میں ہی وہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے اور کہے اے میرے رب مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف فرما۔پس ہو سکتاہے وہ معاف کر دیا جائے لیکن آوارہ شخص خداتعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کیونکہ وہ مردہ ہوتاہے اس میں کوئی روحانی حس باقی نہیں ہوتی۔میرے نزدیک دنیا کا ہر خطرناک سے خطرناک جرم آوارگی سے کم ہے اور آوارگی مجموعہ جرائم ہے کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی تمام جرائم کا مجموعہ۔ایک بادشاہ کے ہاتھ کی قیمت بادشاہ کی قیمت سے کم ہے،ایک جرنیل کے ہاتھ کی قیمت جرنیل سے کم ہے۔ اسی طرح ہر جرم کی پاداش آوارگی سے کم ہے کیونکہ جرم ایک جز و ہے اور آوارگی اس کاکُل ہے۔ تم دنیا سے آوارگی مٹا ڈالو تمام جرائم خود بخود مٹ جائیں گے۔
تمام جرائم کی ابتدا بچپن کی عمر سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ آوارگی میں مبتلا ہوتاہے ۔تم بچے کو کھلا چھوڑ دیتے ہو اور کہتے ہو کہ بچہ ہے اس پرکیا پابندیاں عائد کریں؟اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خطرناک جرائم کا عادی بن جاتاہے۔اگر دنیا اپنے تمدن کو ایسا تبدیل کر دے کہ بچے فارغ نہ رہ سکیں تو یقینا دنیا میں جرائم کی تعداد معقول حد تک کم ہو جائے۔لوگ اصلاحِ اخلاق کے لیے کئی کئی تجویزیں سوچتے اور قسم قسم کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ سب ناکام رہتی ہیں اس کے مقابلہ میں اگر بچوں کو کام پر لگا دیا جائے اور بچپن کی عمر فارغ عمر نہ قرار دیا جائے تو نہ چوری باقی رہے،نہ جھوٹ،نہ دغا،نہ فریب اور نہ کوئی اور فعل بد۔بالعموم لوگ بچپن کی عمر کو بیکاری کا جائز زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بے کاری بھی ویسی ہی ناجائز ہے جیسے بڑی عمر میں کسی کا بے کار رہنا۔

بچہ کے کان میں اذان دینے میں ایک لطیف حکمت

چنانچہ ہماری شریعت نے اس کو خصوصیت سے مدنظر رکھا ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے متعلق امت محمدیہ کو ہدایت دی ہے،پاگل اور دیوانے کہتے ہیں کہ یہ بے معنی حکم ہے حالانکہ یہ بہترین تعلیم ہے جو بچوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔ آپ ؐ فرماتے ہیں :جب بچہ پیدا ہوتواس کے دائیں کان میں اذان کہو اور بائیں میں اقامت۔وہ بچہ جو ابھی بات کو سمجھتا ہی نہیں ،وہ بچہ جو آج ہی پیدا ہو ا ہے ،رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج ہی اس سے کام لو اور پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو۔کیا تم سمجھتے ہو کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمہیں اس کے کان میں اذان دینی چاہیے لیکن دوسرے اور تیسرے دن نہیں؟کیا پہلے دن بچہ اذان کو سمجھ سکتاتھا مگر مہینہ کے بعد کم فہم ہو جاتاہے کہ تم اس حکم کو نظر انداز کر دیتے ہو؟یا سمجھتے ہو کہ پہلے دن تو وہ اس قابل تھا کہ اس سے کام لیا جاتا لیکن سا ل دو سال گزرنے کے بعد وہ ناقابل ہو گیا ہے؟جو شخص ہمیں یہ نصیحت کرتاہے کہ تم بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو یقینا وہ اس تعلیم کے ذریعہ ہمیں اس نکتہ سے آگاہ کرتاہے کہ بچہ کا ہر دن تعلیم کا دن ہے اور ہر روز اس کی تربیت کا تمہیں فکر کر نا چاہیے۔مگر امت محمدیہ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا؟ہمیں خداتعالیٰ نے ایسا معلم دیا تھا جس کا ہر ہر لفظ اس قابل تھا کہ دنیا کے خزانے اس پر نچھاور کر دیے جائیں۔ اس نے ہمیں معرفت کے موتی دیے،علوم کے خزانے بخشے،اور ایسی کامل تعلیم دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔مگر افسوس!لو گوں نے اس کی قدر نہ کی۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو پیدا ہوا مگر اس کے کان میں اذان نہ کہی گئی پھر کیوں تم نے اب تک یہ نکتہ نہیں سمجھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیکاری کو سب سے بڑی لعنت قرار دیاہے؟اور تمہار ا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس لعنت سے بچاؤ۔تم دنیا میں دیکھتے ہو کہ جب کارخانہ والوں کے سپرد کوئی مزدور کیا جاتاہے تو وہ اس کانام رجسٹر میں درج کر لیتے ہیں اور اس سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کارخانہ والوں نے کسی مزدو ر کا نام رجسٹر میں درج کر لینے کے بعد اسے دو چار سال کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہو؟اگر نہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمہارے منہ سے کسی بزرگ کے ذریعہ تمہارے بچوں کے کانوں میں اذان دلا کر کہا کہ اب اس کا نام میری امت کے رجسٹر میں درج ہو گیا تم نے اس بچے کا نام رجسٹر میں درج تو کرا لیا مگر پھر اسے کارخانہ سے چھٹی دے دی۔پس اس غفلت اور کوتاہی کا تم پر الزام عائد ہوتاہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نہیں۔ہر نبی اپنی امت کا ذمہ دار ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہو تو اس کے بعد قیامت کے دن اگر محمدصلی اﷲ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ پوچھے کہ اے محمدؐ یہ تیری امت کے بیکار جو چور، قاتل، جھوٹے، دغاباز، فریبی اور مکّار بن گئے اور خون چوسنے والی جونکوں کی طرح انہوں نے ظلم سے دوسروں کی اولادوں کو بھی تباہ کیا ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کہہ دیں گے اے خدا!اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میں نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اسی دن اس کے کان مین اذان دو جس کایہ مطلب تھا کہ اسی دن بچوں کو کام پر لگا دو اور ان کی نگرانی کرو۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو یہ جواب دے کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے دیں گے مگر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہو جائے گی جن کے گھروں میں بے کار بچے رہے اور انہوں نے ان کی بیکاری کو دور کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا۔
پس یہ غلطی ہے کہ ہمارے ملک میں بچپن کے زمانہ کو بے کاری کا زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بچپن کا زمانہ بے کاری کا زمانہ ہے تو پھر چوری چوری نہیں اور فریب فریب نہیں،تمام بدکاریاں اور تمام قسم کے فسق و فجور بچپن میں ہی سیکھے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر کے لیے لعنت کا طوق بن کر گلے میں پڑ جاتے ہیں۔
پس بے کاری کا ایک دن بھی موت کا دن ہے۔جب تک ہماری جماعت ا س نکتہ کو نہیں سمجھتی حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو سمجھانے والے دیے ہیں ،اس وقت تک وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔دیکھو! رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات کہی مگر لوگوں نے نہ سمجھی۔اب میں نے بتائی ہے اور یہ میں آج ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میں مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں کئی دفعہ اس بات کو دہرا چکا ہوں ۔مجھے اﷲ تعالیٰ نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ میں اسلام کے کسی حکم کو بھی لوں اسے ہر دفعہ نئے رنگ میں بیان کر سکتااور نئے پیرایہ میں لوگوں کے ذہن نشین کر سکتاہوں۔مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ تم مختلف رنگوں میں ایک بات سنو مزے لو اور عمل نہ کرو اس کے نتیجہ میں تمہار ا جرم اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمہیں ایک ایسا شخص ملا جس نے ایک ہی بات مختلف دلکش اور مؤثر پیرایوں میں تمہارے سامنے رکھی مگر پھر بھی تم نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔پس تحریک جدید میں مَیں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ بے کاری کو دور کیا جائے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ237تا244)

پیشہ ور لوگ دوسرے ممالک میں جائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍نومبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ پیشہ ور لوگ بھی مفید ہو سکتے ہیں اچھے لوہار دنیا کے ہر علاقہ میں خصوصاً آزاد ملکوں میں جہاں ہتھیار وغیرہ بنتے ہوں بہت کامیاب ہو سکتے ہیں چین اور افریقہ کے کئی علاقوں میں ان کی بہت قدر ہوسکتی ہے عرب میں نہیں کیونکہ وہاں کے لوگ تلوار بنانے میں ماہر ہیں۔اسی طرح ڈرائیوری جاننے والوں کے لیے بھی کافی گنجائش ہو سکتی ہے۔کسی ملک میں پہنچ کر کوئی سیکنڈ ہینڈ لاری یا موٹر لے کر فوراً کام شروع کیا جا سکتاہے۔بی اے مولوی فاضل اور میٹرک پاس بھی کام دے سکتے ہیں۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وہ ہاتھ سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔پھیری کے ذریعہ پہلے دن ہی روزی کمائی جا سکتی ہے۔ہم تو کچھ مدد بھی دیتے ہیں لیکن ہمت کرنے والے نوجوان تو بغیر مدد کے بھی کام چلا سکتے ہیں……

بیکار لوگوں کو مدد دینے کے ساتھ ان کو کام پر بھی لگایا جائے

میرا ارادہ ہے کہ اس سال کی تحریک میں بے کاری کو دور کرنا بھی شامل کر لیا جائے۔اس وقت غریب اور بے کارلوگوں کو مدد دی جاتی ہے ۔میں چاہتاہوں کہ آئندہ ان کو کام پر لگایا جائے۔ہماری آمد کا بہت سا حصہ تو تبلیغ پر صرف ہوتا ہے،کچھ تعلیم پر،کچھ مرکز کے کارکنوں پر اور اسی طرح لنگر خانہ پر بھی۔سالانہ جلسہ کے اخراجات کو ملا کر پچیس چھبیس ہزار روپیہ خرچ ہوتاہے اس کے بعدغرباء کی امداد کے لیے کم رقم بچتی ہے۔مگر پھر بھی تعلیمی و ظائف وغیرہ ملا کر تیس پینتیس ہزار روپیہ کی رقم صرف ہوتی ہے مگر اتنی بڑی جماعت کے لحاظ سے یہ پھر بھی کم رہتی ہے اور کمی کی وجہ سے کئی لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ کئی شکوے بھی کرتے ہیں ۔حالانکہ مومن کو شکوہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔اُسے چاہیے کہ بجائے دو روپے نہ مل سکنے کا شکوہ کرنے کے ایک جو ملا ہے اس کا شکر کرے۔بہرحال غربا ء کو پوری امداد نہیں دی جاتی اور نہ دی جا سکتی ہے اور اس کی وجہ قلت سرمایہ ہے۔
پس اس تکلیف کا اصل علاج یہی ہے کہ بے کاری کو دور کیا جائے۔میں نے اس کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر اس نے اپنا کام صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ درخواستوں پر امداد دیے جانے کی سفارش کردے۔حالانکہ یہ کام تو میں خود بھی آسانی کے ساتھ کر سکتاتھا بلکہ غرباء چونکہ مجھ سے زیادہ ملتے اور اپنے حالات بیان کرتے رہتے ہیں اس لیے ان سے بہتر طور پر کر سکتاتھا۔پس امدادی رقم کی تقسیم کے لیے کسی امداد کی تو مجھے ضرورت نہیں۔میر ی غرض تو یہ تھی کہ بے کاروں کے لیے کام مہیا کیا جائے……
امداد بے کار ان کے متعلق میرا ارادہ یہ ہے کہ رأ س المال کو خرچ نہ کیا جائے بلکہ بعض نفع مند کاموں پر روپیہ لگاکرجو نفع حاصل ہو وہ اس مد میں خرچ کیا جائے اور بے کاروں کے لیے لوہار، ترکھان،چمڑے کا کام۔مثلاً اٹیچی کیس اور بوٹ وغیرہ بنانا سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے۔ہم سالانہ قادیان کے غرباء پر پندرہ ہزار روپیہ کے قریب صرف کرتے ہیں،پانچ ہزار تو زکوٰۃ کا ہوتاہے پھر کئی ایک کو لنگر خانہ سے روٹی دی جاتی ہے پھر دارالشیوخ کے طلباء ہیں جن کے لیے جمعہ کے روز آٹا جمع کیا جاتاہے ،عیدین کے موقع پر بھی کچھ روپیہ خرچ ہوتاہے اور میں کچھ روپیہ اپنے پاس سے بھی خرچ کرتاہوں اور یہ سب ملا کر قریباً پندرہ ہزار ہو جاتا ہے ،اس کی بجائے اگر ہم فی الحال پانچ ہزار بھی تجارتی کاموں پر لگا دیں تو اس سے بہت زیادہ فوائد ہوں گے۔
بے کاروں کے اندر کام سیکھنے کے بعد قربانی کی روح اور خود اعتمادی پیدا ہوگی اور مانگنے کی وجہ سے جو خِسّت پیدا ہوجاتی ہے وہ دور ہو گی اور پانچ ہزار روپیہ سے ہم سو دو سو آدمی پال سکتے ہیں اور ایسے کام نکالے جائیں گے جن میں عورتیں اور نابینا اشخاص بھی حصہ لے سکیں۔مثلاً ٹوکریاں بنانا،چِکیں بنانا،اِزاربند بنانا وغیرہ یہ ایسے کام ہیں جنہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔اگر شرو ع میں ہمیں نقصان بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔مثلاً ہم نے دس ہزار خرچ کیا اور آٹھ ہزار کی آمد ہوئی تو پھر بھی ہم نفع میں رہے۔کیونکہ ان لوگوں کی اگر ہم روپیہ سے امداد کرتے تو غالباً پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوتی۔اگر اﷲ تعالیٰ اس سلسلہ میں برکت دے تو موجودہ بے کاروں کو کام پر لگانے کے بعد باہر سے بھی بے کاروں کو بلایا جا سکتاہے اور اس طرح یہ کام قادیان کی ترقی کا موجب بھی ہو سکتاہے……

چلنے کی بجائے بھاگیں

میں نے لنڈن کی گلیوں میں کسی آدمی کو چلتے نہیں دیکھا سب بھاگے پھرتے ہیں۔جب میں وہاں تھا تو ایک دن مجھ سے حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہاں کسی آدمی کوچلتے بھی دیکھا ہے ؟میں نے کہا کہ نہیں یوں معلوم ہوتاہے کہ گویا کسی قریبی کے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے اور اسے بجھانے جارہے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے وہ لوگ چلتے ہیں۔پس مجھے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو خود پاگل ہوں اور دوسروں کو پاگل کر دیں۔اتنے بڑے ثواب کا کام ہے کہ ایسے شخص کا نام صدیوں تک زندہ رہ سکتاہے اور اگر روپیہ آجائے تو ایسے لوگوں کی خدمت کرنے سے بھی سلسلہ کو دریغ نہیں ہو سکتا۔مثلاً اگر پندرہ ہزار منافع ہو جائے تو اس میں سے کام کرنے والے کو چار پانچ سو یا ہزار دینے میں بھی کیا عذر ہو سکتاہے؟

معذورں کے سوا کوئی بیکار نہ رہے

گویا اس کام میں دنیوی طورپر بھی فائدہ ہونے کا امکان ہے۔جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ یہ بھی مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کیے جائیں؟میرے ذہن میں تو لکڑی کا کام مثلاً میز کرسیاں بنانا، لوہے کاکام جیسے تالے،کیل ،کانٹے اور اسی قسم کی دوسری چیز یں جو دساور کے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں،چمڑے کا کام یعنی بوٹ،اٹیچی کیس،وغیرہ چیزیں تیار کرانا ہے۔ہماری جماعت میں ہی ان کی کافی کھپت ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ ازار بند،پراندے اور اسی قسم کی کئی دوسری چیزیں ہیں ۔گوٹہ کے استعمال سے میں نے روک دیا ہے لیکن اگر باہر اس کی کھپت ہو سکے تو بھی تیار کرایا جا سکتاہے۔میں نے جہاں تک عقل کا کام تھا یہ سکیم تیار کی ہے باقی تجربہ سے جوحصہ تعلق رکھتاہے اس کے بارہ میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد تجربہ کار دوست اطلاع دیں۔میری تجویز یہ ہے کہ عورت،مرد،بچہ،بوڑھا ہر ایک کو کسی کام پر لگا دیا جائے اور سوائے معذوروں کے کوئی بے کار نہ رہے اس طرح ہجرت کا سامان بھی پیدا ہو سکتاہے اب تو ہم ہجرت سے روکتے ہیں مگر اس صورت میں باہر سے لوگوں کو بلا سکیں گے۔
میں چاہتاہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کما کر کھانے کا عادی ہو۔میرا ارادہ ہے کہ تحریک جدید کے طلبا کو بھی ایسے کام سکھائے جائیں تا ان میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح پیدا ہو۔غریب امیر کا امتیاز مٹ جائے اور نوکری نہ ملے تو کوئی پیشہ ان کے ہاتھ میں ہو۔پڑھے لکھے لوگ آج کل دس دس روپیہ کی چپڑاسی کی نوکری کے لیے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں حالانکہ اس طرح کے کاموں سے وہ سو پچاس روپیہ ماہوار کما سکتے ہیں۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ219تا225)

بیکار لوگ گھروں سے باہر نکلیں اور کمائیں

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ30؍نومبر1934ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے مطالبات میں فرمایا:
’’پندرھواں مطالبہ جو جماعت سے بلکہ نوجوانانِ جماعت سے یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت سے نوجوان بے کار ہیں میں ایک مثال دے چکاہوں کہ ایک نوجوان اسی قسم کی تحریک پر ولایت چلے گئے اور وہاں سے کام سیکھ کر آگئے۔اب وہ انگلش وئیر ہاؤس لاہور میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہیں۔وہ جب گئے تو جہازپر کوئلہ ڈالنے والوں میں بھرتی ہوگئے۔ولایت جا کر انہوں نے کٹر کا کام سیکھا اور اب اچھی ملازمت کر رہے ہیں۔وہ نوجوان جو گھروں میں بے کار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں۔جہاں تک دوسرے ممالک کا تعلق ہے اگر وہ اپنے لیے صحیح انتخاب کر لیں تو 99فیصدی کامیابی کی امید ہے۔کوئی امریکہ چلاجائے،کوئی جرمنی چلا جائے،کوئی فرانس چلا جائے،کوئی انگلستان چلا جائے ،کوئی اٹلی چلا جائے، کوئی افریقہ چلا جائے غرض کہیں نہ کہیں چلا جائے اور جا کر قسمت آزمائی کرے۔وہ کیوں گھروں میں بیکار پڑے ہیں؟باہر نکلیں اور کمائیں پھر خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے ۔جو جانا چاہیں وہ اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں۔مدراس کے بمبئی کے علاقہ میں چلے جائیں،بمبئی کے بہار میں،پنجاب کے بنگال میں،غرض کسی نہ کسی دوسرے علاقہ میں چلے جائیں۔رنگون، کلکتہ ،بمبئی وغیرہ شہروں میں پھیری سے ہی وہ کچھ نہ کچھ کما سکتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض ہونے سے بچا سکتے ہیں لیکن اگر کسی کو ناکامی ہو تو کیا ناکامی اپنے وطن میں رہنے والوں کو نہیں ہوتی۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ باہر نکل کر جدوجہد نہ کریں اور سلسلہ کے لیے مفید وجود نہ بنیں اور بیکار گھروں میں پڑے رہیں۔

ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں

سولہواں مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔حالانکہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے ۔ذلت کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کام ذلت کا موجب ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا حق ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کہیں کہ وہ فلاں کام کرے جسے ہم کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا چاہیے۔امراء تو اپنے گھروں میں کوئی چیز ادھر سے اٹھا کر اُدھر رکھنا بھی عار سمجھتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کانمونہ

حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میں نے بیسیوں دفعہ برتن مانجتے اور دھوتے دیکھا ہے اور میں نے خود بیسیوں دفعہ برتن مانجے اوردھوئے ہیں اور کئی دفعہ رومال وغیرہ کی قسم کے کپڑے بھی دھوئے ہیں۔ایک دفعہ میں نے ایک ملازم کو پاؤ ں دبانے کے لیے بلایا وہ مجھے دبا رہا تھا کہ کھانے کا وقت ہو گیا لڑکا کھانے کا پوچھنے آیاتو میں نے کہا کہ دو آدمیوں کا کھانا لے آؤ۔کھانا آنے پر میں نے اس ملازم کو ساتھ بٹھا لیا۔لڑکا یہ دیکھ کر دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور جا کر قہقہہ مار کر کہنے لگا حضرت صاحب فلاں ملازم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔اسلامی طریق یہی ہے اور میں سفر میں یہی طریق رکھتاہوں کہ ساتھ والے آدمیوں کو اپنے ساتھ کھانے پربٹھا لیتاہوں۔

حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاول رضی اﷲ عنہ کانمونہ

میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاول رضی اﷲ عنہ میں بعض خوبیا ں نہا یت نما یا ں تھیں۔ حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ اسی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے میں چھوٹا ساتھا، سات آٹھ سال کی عمر ہو گی ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلا نے مینہ آگیا ہے اوپلے بھیگ جائیں گے جلدی آؤ اور ان کو اندر ڈالو ۔حضر ت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ درس دے کر ادھر سے جا رہے تھے انہوں نے اس آدمی سے کہا کیا شور مچا رہے ہو؟اس نے کہا کوئی آ دمی نہیں ملتا جو اوپلے اندر ڈالے آپؓ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی او ر اس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے۔آپؓ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے اندر ڈال دیے گئے۔اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بنوایا تھا۔ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھامگر اس پر بہت عرصہ گزر گیا ہے ۔

ترقی سے محرومی کی ایک وجہ

میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لیے کئی بار کہاہے مگر توجہ نہیں کرتے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ احساس مٹا دیں کہ فلاں آقا ہے اور فلاں مزدور اگر ہم اس لیے آقا بنتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو یہ بھی ظاہر کرنا چاہیے کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم آقا بنیں اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے آقا بننے کا حق ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔کئی لوگ ترقی کرنے سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کام کیا اور نہ کر سکے تو لوگ کیا کہیں گے۔بعض مبلغ خود چوہدری بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسروں کو مباحثہ میں آگے کر دیتے ہیں تاکہ وہ ہار نہ جائیں۔مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے کہا ہمارے پاس اب صرف دو مبلغ مناظرے کرنے والے ہیں۔مگر اس کی ذمہ داری ناظر صاحب پر ہی عائد ہوتی ہے ۔انہیں دو مبلغ ہوشیار نظر آئے انہی کو انہوں نے مناظرے کے لیے رکھ لیا۔حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ سب سے یہ کام لیتے اور اس طرح زیادہ مبلغ مباحثات کرنے والے پیدا ہو جاتے۔چونکہ کام کرنے سے کام کی قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔بعض لوگ دراصل کام کرنے سے جی چراتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہاہوں اس کے لیے پہلے قادیان والوں کو لیتاہوں۔یہاں کے احمدی محلوں میں جو اونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں ،گلیاں صاف نہیں،نالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ نالیاں موجود ہی نہیں ان کا انتظام کریں،وہ جو اووَرسئیر ہیں وہ سروے کریں اور جہاں جہاں گندا پانی جمع رہتاہے اور جو ارد گرد بسنے والے دس بیس کو بیمار کرنے کا موجب بنتاہے اُسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کر کے سب مل کر محلوں کو درست کرلیں۔اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو مثلاً لنگر خانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلو ب ہو تو بجائے مزدور لگانے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے ثواب حاصل کریں۔ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو حروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتاہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کے لیے پھیرتا جاتاہوں۔
پس جتنے عضو بھی ثواب کے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہو گی۔اب اگر کسی کو ہاتھ سے کام کرنے کے لیے کہو او ر وہ کام کرنا شروع بھی کر دے تو کھسیانا ہو کر مسکراتا جائے گالیکن اگر سب کو اسی طرح کام کرنے کی عادت ہو تو پھر کوئی عار نہ سمجھے گا۔یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتاہوں اور باہر گاؤں کی احمدیہ جماعتوں کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے۔شغل کے طورپر لوہار،نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں۔

حضرت رسول کریم صلی اﷲ وعلیہ وسلم کانمونہ

رسول کریم صلی اﷲ وعلیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپؐ نے پتھر توڑے اور مٹی ڈھوئی۔صحابہ رضی اﷲ عنھم کے متعلق آتاہے کہ اس وقت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو پسینہ آیا بعض نے برکت کے لیے اسے پونچھ لیا۔یہ تربیت،ثواب اور رُعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیزہے۔جو لو گ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے ان پر خاص اثر ہوگا۔بدر کے موقع پر جب کفار نے ایک شخص کو مسلمانوں کی جمیعت دیکھنے کے لیے بھیجا تو اس نے آ کر کہا،آدمی تو تھوڑے سے ہی ہیں لیکن موت نظر آتے ہیں وہ یا تو خود مر جائیں گے یا ہمیں مار ڈالیں گے۔اسی وجہ سے انہوں نے لڑائی سے باہر رہنے کی کوشش کی جس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں۔ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی مخالفین جب یہ دیکھیں گے کہ ہر کام کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی کام کے کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو سمجھیں گے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔

چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی ملے وہ کر لیں

سترھواں مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ بے کار ہیں وہ بے کار نہ رہیں۔اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں۔اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں،ریزروفنڈ کے لیے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کر دیں۔غرض کوئی شخص بے کار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو کیونکہ دو بہرحال صفر سے زیادہ ہیں۔بعض بی اے کہتے ہیں ہم بے کار ہیں ہمیں کوئی کام نہیں ملتا۔میں انہیں کہتاہوں دو روپے بھی اگر وہ کما سکیں تو کمائیں۔میں نے جس قدر حساب پڑھا ہے اس سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دو روپے صفر سے زیادہ ہوتے ہی۔ غرض کوئی احمدی نکما نہ رہے اسے ضرور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ70تا73)