بیوی کے انتخاب میں دینی پہلو کو مقدم کرو

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنَکَحُ الْمَرْأَۃُ لَاِرَبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفرْ بِذَاتِ الدیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری)

ترجمہ:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بیوی کے انتخاب میں عموماً چار باتیں مدنظر رکھی جاتی ہیں ۔ بعض لوگ تو کسی عورت کے مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے خاندان اور حسب و نسب کی وجہ سے شادی کے خواہاں ہوتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے حسن و جمال پر اپنے انتخاب کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اور بعض لوگ عورت کے دین اور اخلاق کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کرتے ہیں سواے مرد مسلم ! تو دین دار اور بااخلاق رفیقہ ٔ حیات چن کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے۔
تشریح : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتانے کے بعد کہ دنیا میں عام طور پر بیوی کا انتخاب کن اصولوں پر کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے انتخاب میں دین اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھا کریں آپ فرماتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی اہلی زندگی کامیاب اور بابرکت رہے گی۔ ورنہ خواہ وہ وسطی اور عارضی خوشی حاصل کرلیں انہیں کبھی بھی حقیقی اور دائمی راحت نصیب نہیں ہوسکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد نہایت گہری حکمت پر مبنی ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مسلمانوں کی اھلی زندگی کو بہترین بنیاد پر قائم کرنے کا رستہ کھولا گیا ہے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی حفاظت اور ترقی کا سامان بھی مہیا کیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ دوسری اقوام توالگ رہیں خود مسلمانوں میں بھی آج کل کثیر حصہ ان لوگوں کا ہے جو بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے یا تو دین اور اخلاق کے پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں اور یا دین اور اخلاق کی نسبت دوسری باتوں کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں کوئی شخص تو عورت کے حسن پر فریفتہ ہوکر باقی باتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کوئی اس کے حسب و نسب کا دلدادہ بن کر دوسری باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ اور کوئی اس کی دولت کے لالچ میں آکر اس کے ہاتھ پر بک جانا چاہتا ہے حالانکہ اصل چیز جو اہلی زندگی کی دائمی خوشی کی بنیاد بن سکتی ہے ۔ وہ عورت کا دین اور اس کے اخلاق ہیں دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ایک شخص نے کسی عورت کو محض اس کی شکل و صورت کی بناء پر انتخاب کیا ۔ لیکن کچھ عرصہ گذرنے پر جب اس کے حسن و جمال میں تنزل کے آثار پیدا ہوگئے کیونکہ جسمانی حسن ایک فانی چیز ہے یا اس کی نسبت کسی زیادہ حسین عورت کو دیکھنے کی وجہ سے بے اصول خاوند کی توجہ اس کی طرف سے ہٹ گئی ۔ یا بیوی کے ساتھ شب و روز کا واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں اس کے عادات کے بعض ناگوار پہلو خاوندکی آنکھوں کے سامنے آگئے تو ایسی صورت میں زندگی کی خوشی تو درکنار خاوند کے لئے اس کا گھر حقیقۃ ایک دوزخ بن جاتا ہے اور یہی حال حسب و نسب اور دولت کا ہے کیونکہ حسب و نسب کی وجہ سے تو بسا اوقات بیوی کے دل میں خاوند کے مقابلہ میں بڑائی اور تفاخر کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جو خانگی خوشی کے لئے مہلک ہے اور دولت ایک آنی جانی چیز ہے جو آج ہے اور کل کو ختم ہوسکتی ہے اور پھر بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بیوی کی دولت خاوند کے لئے مصیبت ہو جاتی ہے اور راحت کا سامان نہیں بنتی۔ پس جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے گھریلو اتحاد اور گھریلو خوشی کی حقیقی بنیاد عورت کے دین اور اس کے اخلاق پر قائم ہوتی ہے۔ اور بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو ٹھوس اور صاف کو چھوڑ کر وقتی کھلونوں یا طمع سازی کی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔
پھر ایک نیک اورخوش اخلاق بیوی کا جو گہرا اثر اولاد پر پڑتا ہے وہ تو ایک ایسی دائمی نعمت ہے جس کی طرف سے کوئی دانا شخص جسے اپنی ذاتی راحت کے علاوہ نسلی ترقی کا بھی احساس ہو آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ بچپن میںاولاد کی اصل تربیت ماں کے سپرد ہوتی ہے کیونکہ ایک تو بپچن میں بچہ کو طبعاً ماں کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے اور وہ اسی سے زیادہ بے تکلف ہوتا ہے اور اس کے پاس اپنا زیادہ وقت گزارتا ہے اور دوسرے باپ اپنے دیگر فرائض کی وجہ سے اولاد کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دے سکتا ۔ پس اولاد کی ابتدائی تربیت کی بڑی ذمہ داری بہرحال ماں پر پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر ماں نیک اور با اخلاق ہو تو وہ اپنے بچوں کے اخلاق کو شروع سے ہی اچھی بنیاد پر قائم کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے مقابل پر ایک ایسی عورت جو دین اور اخلاق کے ذیور سے عاری ہے وہ کبھی بھی بچوں میں نیک اخلاق اور نیک عادات پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی عورت بسا اوقات دین کی اہمیت اور نیک اخلاق کی ضرورت کو سمجھتی ہی نہیں ۔ پس نہ صرف خانگی خوشی کے لحاظ سے بلکہ آئندہ نسل کی حفاظت اور ترقی کے لحاظ سے بھی نیک اور با اخلاق بیوی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔ خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ ’’ یعنی نیک بیوی دنیا کی بہترین نعمت ہے‘‘
مگر حدیث زیر نظر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بیوی کے انتخاب میں دوسری تمام باتوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دینا چاہئے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نیکی اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھنا چاہئے۔ ورنہ بعض دوسرے موقعوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دوسری باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ وہ بھی ایک حد تک انسانی فطرت کے تقاضے ہیں ۔ مثلاً پردہ کے احکام کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے کہ شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ لیا کرو تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں شکل و صورت کی وجہ سے تمہارے دل میں انقباض پیدا ہو اور ایک دوسرے موقعہ پر جب ایک عورت اپنی شادی کے متعلق آپ سے مشورہ لینے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تو آپ نے فرمایا میں تمہیں فلاں شخص سے شادی کا مشورہ نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ مفلس اور تنگ دست ہے اور تمہارے اخراجات برداشت نہیں کرسکے گا۔ اور نہ میں فلاں شخص کے متعلق مشورہ دے سکتا ہوں۔ کیونکہ اس کے ہاتھ کا ڈنڈا ہر وقت ہی اٹھا رہتا ہے۔ ہاں فلاں شخص کے ساتھ شادی کرلو وہ تمہارے مناسب حال ہے اور ایک تیسرے موقعہ پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ قبیلہ قریش کی عورتیں خاوند کی وفاداری اور اولادپر شفقت کے حق میں اچھی ہوتی ہیں اور ایک چوتھے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ حتیٰ الوسع زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں کے ساتھ شادی کرو تاکہ میں قیامت کے دن اپنی امّت کی کثرت پر فخر کرسکوں۔ الغرض آپ نے اپنے اپنے موقعہ پر اور اپنی اپنی حدود کے اندر بعض دوسری باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ لیکن جس بات پر آپ نے خاص زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ ترجیح بہرحال دین اور اخلاق کے پہلو کو ہونی چاہئے ۔ورنہ تم اپنے ہاتھوں کو خاک آلود کرنے کے خود ذمہ دار ہوگے۔ یہ وہ زریں تعلیم ہے جس پر عمل کرکے مسلمانوں کے گھر برکت و راحت کا گہوارہ بن سکتے ہیں ۔ کاش وہ اسے سمجھیں!۔

چالیس جواہر پارے صفحہ 73