اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

عہدیداران کے فرائض

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ17؍مارچ1919ء کو ایک خطاب میں فرمایا:
’’اس محکمہ کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ احمدی جماعت کی دنیاوی ترقیات کے متعلق خیال رکھے۔ مثلاً جو لوگ بے کار ہیں انہیں کام پر لگانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایک حصہ بے کار ہو تو اس کا ساری جماعت پر اثر پڑتاہے اور ان کے کام پر لگنے سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتاہے۔مثلاً پچاس آدمی ایسے ہوں جو ملازمت کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔لیکن ناواقف ہونے کی وجہ سے کسی جگہ ملازم نہ ہو سکیں تو ان کا بار جماعت کے افراد پر ہی پڑے گا اور اگر وہ ملازم ہو جائیں تو نہ صرف دوسروں پر بوجھ نہیں رہیں گے بلکہ خود بھی جماعت کے کاموں میں چندہ دے سکیں گے۔پس اس صیغہ کا یہ بھی کام ہوگا کہ ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کرے جو ملازمت تو کر سکتے ہیں۔لیکن ناواقفیت کی وجہ سے ملازم نہیں ہوسکتے اور ان کے متعلق ایسے لوگوں کو لکھا جائے جو ملازمتیں تلاش کر سکتے ہیں کہ وہ انہیں نوکر کرائیں۔اسی طرح تعلیم کے مختلف شعبوں کے متعلق خیال رکھنا اس صیغہ کا کام ہو گا۔لوگوں میں عام طورپربھیڑ چال ہوتی ہے ۔مثلاً اگر وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے فائدہ اٹھایا ہے تو وہ اسی کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔لیکن کوئی قوم اور خصوصاً وہ قوم جو ابھی ابتدائی حالت میں ہواس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ سب قسم کے تعلیم یافتہ لوگ ا س میں نہ پائے جاتے ہوں۔میرے خیال میں آجکل مسلمانوں کو ا س بات سے بہت نقصان اٹھانا پڑ اہے کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگوں نے انجینئری کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے اور عام طور پر یہ صیغہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے۔اگر مسلمان اس طرف خاص توجہ کرتے تو اپنی قوم کے لوگوں کو جائز طورپر بہت فائدہ پہنچا سکتے تھے۔کیونکہ اس محکمہ کے آفیسروں کے اختیار میں کئی قسم کے ٹھیکے وغیرہ دینے کا کام ہوتاہے جو آج کل عام طورپر ہندوؤں ہی کو ملتے ہیں اور اگر کسی مسلمان کو مل بھی جائے تو اس کام میں نقص نکال کر اس کے اپنے سرمایہ کوبھی تباہ کر دیا جاتاہے ۔اسی سٹیج پر ایک صاحب بیٹھے ہیں ان کے ایک بزرگ کو ٹھیکہ کے معاملہ میں ہی انجینئر نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ ان کی اپنی جائیداد جو کروڑوں کی تھی تباہ و برباد ہو گئی۔ پس ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نئے تعلیم پانے والوں کی خبر لیتے رہیں اور ان کے لیے ان کے مذاق اور قابلیت کے مطابق تعلیم کا انتظام کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ ان مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں تقسیم ہو جاویں جو آئندہ ان کی ذات کے لیے بھی اور جماعت کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ17مارچ1919ء۔انوار العلوم جلد4صفحہ340،341)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے