اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

دست درکار دل بایار

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍اگست1919ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس غرباء آئے اور کہا حضور! ہمارے بھائی امیر نیکیوں میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ۔نماز ہم پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں، روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں ،ہم جہاد کے لیے جاتے ہیں وہ بھی جاتے ہیں ،وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ہم اس سے محروم ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتاہوں کہ اگر تم وہ کروگے توامراء سے تم نیکیوں میں بڑھ جاؤ گے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد 33دفعہ تحمید33دفعہ تقدیس اور 34دفعہ تکبیر کہا کرو اﷲ تعالیٰ تمہیں ان سے بڑھا دے گا۔چند دن کے بعد غرباء پھر آئے کہ حضور! امیر تو یہ کام بھی کرنے لگ گئے ہم کیاکریں آپؐ نے فرمایا کہ خدا جس کو فضیلت دیتا ہے میں کس طرح اُس کو روک سکتاہوں۔وہ دولت مند مسلمان ایسے مسلمان نہ تھے کہ فرائض کو بھی ترک کر دیں۔وہ تو نوافل میں اس قدر جدو جہد کرتے تھے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔پھر ان کی دولت مندی برائے نام نہ تھی بلکہ کافی دولت رکھتے تھے۔ایک صحابی رضی اﷲ عنہ جن کے متعلق صحابہ رضی اﷲ عنھمکا خیال تھا کہ غریب ہیں جب فوت ہوئے تو ان کے پاس اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد ثابت ہوئی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں صحابہ رضوان اﷲ علیھم کو تجارت کا بھی خاص ملکہ تھا۔چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ اس فن میں کامل تھے۔انہوں نے ایک دفعہ دس ہزار اونٹ خریدے اور اصل قیمت پر ہی فروخت کر دیئے۔ایک دوست نے کہا کہ اس میں آپ کو کیا نفع ہوا۔انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسی وقت کھڑے کھڑے اڑھائی ہزار روپے کا نفع ان اونٹوں کی خریدو فروخت میں حاصل ہوا ہے اور وہ اس طرح کہ میں نے جب اونٹ خریدے تھے تو نکیل سمیت خریدے تھے اور فروخت بغیر نکیل کے کیے ہیں اس سودے میں دس ہزار نکیل مجھے نفع میں ملی اور اگر میں اس وقت فروخت نہ کرتا تو خدا جانے کب گاہک پیدا ہوتااور اتنے عرصہ میں کتنا کھا جاتے لیکن اس وقت بغیر کسی خرچ کے اڑھائی ہزار روپے کا نفع ہوا۔چونکہ ان کو تجارت کا فن خوب آتا تھا اور اپنے کام میں بہت چست تھے اس لیے وہ مال میں بڑھ گئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 6صفحہ294،295)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے