قرض کے لین دین کے متعلق ہدایات

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ19؍نومبر1920ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’جو لوگ قرض لیتے ہیں اور دینے میں حیل و حجت کرتے یا مکر جاتے ہیں وہ اپنے دشمن ہوتے ہیں۔ نہ صرف اپنے ملک اپنی قوم کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ جب ان کو ضرورت پڑتی ہے تو گڑگڑاتے ہیں مگر جب قرض خواہ مطالبہ کرتا ہے تو اس کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بد معاملگی سے ڈر کروہ لوگ جن کی سچی ضرورت ہوتی ہے قرض لینے سے محروم رہتے ہیں۔کیونکہ جس شخص کے پاس وہ قرض لینے جاتے ہیں وہ ان کی بات کا اعتبار نہیں کر سکتاجبکہ پہلے وہ دیکھ چکا ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس سے قرض لے کر کیا سلوک کیاایسے لوگ دو طرح مضر ہوتے ہیں اور وہ دو قسم کے لوگوں کے لیے مضر ہوتے ہیں ۔
(۱)وہ لوگ جو سچی ضرورت رکھتے ہیں ان کو قرض نہیں مل سکتا۔(۲)وہ لوگ جن سے قرض لیتے ہیں آئندہ ان کو نیکی کرنے سے محروم کر دیتے ہیں اور نیز ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بدمعاملگی کی تعلیم کرتے ہیں۔
خو ب یاد رکھو جس طرح شریعت یہ کہتی ہے کہ دوسروں سے نیکی کرو اس طرح یہ بھی کہتی ہے کہ محسن کے احسان کی قدر کرو اور احسان فراموش نہ بنو۔جو شخص تم کو ضرورت کے وقت قرض دیتا ہے وہ تمہارا محسن ہے تم اس کے ساتھ شریفانہ برتاؤ کرواور جن آنکھوں سے لیا ہے انہی سے دو۔بعض لوگ جب قرض لے جاتے ہیں تو بہت الحاح سے کام لیتے ہیں ۔مگر جب وہ مانگنے آتاہے تو اس کو کہتے ہیں۔ لاٹ صاحب بن گیا ۔ہر وقت سر پر چڑھا رہتاہے ۔حالانکہ لینے والے کا حق تھا کہ وہ سختی کرے مگر یہاں الٹا معاملہ ہے کہ جب مطالبہ کیا جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے لگاہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی غیر مسلم شخص نے کچھ لینا تھا وہ آیا اور سختی کرنے لگا۔بعض صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم کوبُرا معلوم ہوا۔آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کا مقروض ہوں اس کو حق ہے کہ سختی کرے۔
تو ضرورت کے وقت جاتے ہیں اور لیتے ہیں لیکن جب ادائیگی کا وقت آتاہے تو کبھی سامنے نہیں ہوتے اور ہمیشہ آنکھ بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر قرض خواہ لوگوں کے پاس کہے کہ آپ ہی لے دیں تو کہتے ہیں کہ ہم اب نہیں دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں بدنام کیاہے گویا وہ اس کے باپ کی جائیداد میں سے کچھ اس سے مانگتا تھا۔اس کا حق تھا وہ کیوں نہ طلب کرتا جو شخص ایسے کمینہ کو گالی دیتا ہے وہ حق ہے۔اگرچہ اخلاق گالی کی اجازت نہیں دیتا،کانے کو کانا کہنا حق ہے مگر اخلاق سے بعید ہے چور کو چور کہنا جائز ہے لیکن مجسٹریٹ کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا۔شریعت نے منع کیا ہے کہ کانے کو کانا کہا جائے اس لیے کہ جو کانا کہتاہے وہ اُس کو چڑانا چاہتاہے مگر اس میں شک نہیں کانے کو کانا کہنا درست ہے ۔اس طرح جو شخص کسی کا مال مارتاہے حق ہے کہ وہ اس کو چور یا ڈاکو کہے۔کیونکہ یہ اس عیب کا مرتکب ہوتاہے۔بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتاہے کہ قرض لیتے ہیں اور اس سے اپنی جائیداد بناتے ہیں۔قرض دینے والا اس خیال سے کہ ان کوضرورت ہے ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم کر کے دے دیتاہے لیکن جب وہ مطالبہ کرتاہے تو کہتے ہیں کہ دس دن کو آنا۔پھر جب جائے تو پھر دس دن توقف کرنے کو کہتے ہیں۔اس طرح کئی دفعہ ہو چکنے کے بعد انکار کر بیٹھتے ہیں یا بعض عدم گنجائش کا بہانہ کر بیٹھتے ہیں۔حالانکہ یہ کہنا ان کو جُرم سے نہیں بچاتا۔کیونکہ جب قرض لینے لگے تھے ضروری تھا کہ اس وقت حیثیت کو سوچتے ۔نہ یہ کہ جب دینے کا وقت آیااس وقت گنجائش کا سوال اٹھایا۔پس جب قرض لینے لگے تھے اس وقت سوچنا تھا کہ ہم ادا بھی کر سکیں گے یانہیں۔
مجھے قرآن کریم کی اس آیت پر ہمیشہ تعجب ہوا کرتا تھا کہ

یٰایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاْ اِِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ (البقرہ:283)

اس میں مدت کی شرط لگائی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے سمجھایا کہ اس میں دو فائدے ہیں۔
اول۔دینے والے کے لیے۔دوم۔لینے والے کے لیے۔
اول لینے والے کے لیے یہ فائدہ ہے کہ مثلاً مہینہ کا وعدہ ہے تو مہینہ کے بعد جا کر طلب کرے گا۔یہ نہیں ہو گا کہ اس کو روز روز پوچھنا پڑے گا اور نیز یہ بھی فائدہ ہو گا کہ جب مہینہ کا وعدہ ہو گا تو یہ حق نہیں ہو گا کہ دوسرے دن ہی مطالبہ شروع کر دے۔دوسرا فائدہ ہو گا کہ جب لینے والا لینے لگے گا تو پہلے سوچے گا کہ میں جتنے عرصہ میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔اتنے عرصہ میں ادا بھی کر سکوں گا کہ نہیں۔اگر کوئی شخص اپنی آمدنی پندرہ بیس روپیہ ماہوار رکھتاہے اور ایک مہینہ کے وعدہ پر سو روپیہ قرض لیتاہے تو سوال ہو گا کہ وہ کہاں سے ادا کرے گا۔
اس لیے قرض دینے والا اس سے متنبہ ہو سکتاہے ۔ہاں اگر ایک زمیندار قرض لیتاہے اور اس کی فصل اس کے قرض سے زیادہ یا برابر ہے تو وہ لے سکتاہے۔ پس اس آیت میں یہ فوائد بتائے ہیں اور اب ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ وہ جو قرض لیتاہے وہ اس کو ادا کر سکے گا یا نہیں۔اگر نہیں ادا کر سکے گااور وہ قرض لیتا ہے تو یہ ٹھگی ہے۔بعض وہ لوگ جو کہتے ہیں ،گنجائش نہیں۔ ان کو ثابت کرنا چاہیے کہ جب وہ لینے لگے تھے اس وقت ان کو امید تھی کہ وہ قرض اُتار سکیں گے۔مگر ناگہانی اسباب نے ان ذرائع کو منقطع کر دیا۔اس لیے قرض اُتارنا ممکن نہ رہا۔ورنہ گنجائش کا سوال بعد از وقت ہے۔
اگر کوئی شخص قرض لے کر نفع اُٹھاتا اور تجارت کر تا ہے اور قرض خواہ کو قرض نہیں دیتا تو ضروری ہے کہ اس سے روپیہ لے کر اس کو دیا جائے۔اگر وہ کہے کہ میری تجارت تباہ ہو گئی تو اس کا روپیہ تھا ہی نہیں کہ یہ تجارت کر سکتا۔اس نے جو نفع اُٹھایا اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔جو لوگ اس طرح قرض لیتے ہیں اور آپ نفع اُٹھاتے ہیں اور قرض خواہ کو نہیں دیتے وہ نفع نہیں اُٹھاتے وہ آگ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔پس جو معاملہ کرو دیانت سے کرو اور صفائی اس میں رکھو۔قرض دینے والے کو چاہیے کہ لکھ لے اور مدت مقرر کر لے اس میں دونوں کے لیے فائدہ ہے۔بعض لوگ کام کچھ نہیں کرتے اور قرض لے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں توکل پر گزارہ کرتے ہیں ۔حالانکہ توکل انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں، اور اس کے معنے ہیں کہ وہ شخص بادشاہ ہو گیا۔کیونکہ جس طرح بادشاہ جب چاہتے ہیں ٹیکس لگا کر رقم وصول کرتے ہیں۔اسی طرح وہ لوگ جو متوکل ہوتے ہیں۔ان کی ضرورت خدا پوری کرتاہے۔مگر یہ عجیب متوکل ہیں کہ لوگوں سے قرض لیتے ہیں او ر دیتے نہیں۔
ہاں جو لوگ اپاہج ہوں یا معذور ہوں ان کی مدد حکومت پر فرض ہے اگر حکومت غیر مذہب کی ہو اور اس کا ایسا انتظام نہ ہو تو پھر وہ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس جماعت کے امام کا اور بیت المال کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کو پوراکرے۔لیکن جس طرح بعض لوگ قرض لینے میں بدمعاملگی کرتے ہیں اسی طرح بعض دکاندار بھی بدمعاملگی کرتے ہیں وہ بچوں یا عورتوں کو یا ایسے لوگوں کو جن کی آمد کی کوئی سبیل نہیں وہ محتاج یا اپاہج ہیں اور ان کا بار بیت المال پر ہے قرض دیتے ہیں اور بچوں کے باپ کو اور عورت کے خاوند اور اپاہجوں کے قرض کے لیے انجمن کو مجبور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شور ڈالنے سے مل ہی جائے گا۔حالانکہ ان کا فرض ہے کہ یہ قرض اس کو دیں جس پر ان کو ذاتی اعتماد ہو اور وہ شخص ذاتی آمدنی رکھتاہو۔اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ بھی ٹھگی کرتاہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے معاملات کی خرابی سے جماعت کو بدنام کرتے ہیں اس لیے بہتر ہو کہ ایسے لوگ اپنے رویہ کی اصلاح کریں۔ورنہ ان کو جماعت سے الگ کر دیا جائے گا۔مذہب سے الگ کرنا تو اختلاف عقائد سے ہوتاہے مگر جس شخص کا رویہ جماعت کے لیے مضر ہو اس کو جماعت سے الگ کیا جا سکتاہے۔
میں اُن اصحا ب کو بھی نصیحت کرتا ہوں جو سُستی سے کام لیتے ہیں کہ وہ سُستی کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھو کہ یہ معاملات کی اچھائی یا بُرائی ہے جس کی بنا پر غیرشخص تمہارے متعلق رائے قائم کرتے ہیں۔اگر معاملات اچھے ہیں تو لوگ تمہاری بات سن سکتے ہیں ۔اگر نہیں تو ساری جماعت چند آدمیوں کی خاطر ٹھگ کہلائے گی اور مثال میں دو چار نام لے دینا ہی کافی خیال کیا جائے گا۔
پس جو قرض دیتاہے وہ محسن ہے سچی ضرورت کے وقت لو اور میعادمعینہ میں ادا کرو۔اگر کسی معقول وجہ سے نہیں اُتار سکتے تو نرمی اور خندہ پیشانی سے اس کو یقین دلاؤ کہ میں ان وجوہ سے اب ادا نہیں کر سکا۔پھر آئندہ کر دوں گااور جب روپیہ آئے تو پہلے قرض خواہ کے روپے ادا کرو۔حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں مَیں نے عورتوں کو زیادہ دیکھا ۔بوجہ ان کے ناشکرگزار ہونے کے۔ تو ناشکروں کی سزا جہنم ہے۔لوگ معاملات سے حالات کا اندازہ کرتے ہیں۔نمازوں سے نہیں۔اگر اس طرح تبلیغ کے رستہ کو بند کر دیا تو پھر کوئی عمدہ رستہ نہیں۔پس اپنے معاملات کی درُستی پر بہت زور دو۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔آمین‘‘

(خطبات محمود جلد 6صفحہ550تا553)