حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ30؍جنوری1922ء کو ایک خطبۂ نکاح میں فرمایا:
’’یورپ والے قریباً دہریہ ہیں مگر ان کا تجارت کے معاملہ میں صداقت اور سداد پر عمل ہے ۔ان سے لاکھوں کی چیز منگواؤ تو کوئی فریب کا اندیشہ نہیں اس لیے ان کی تجارت کو فروغ ہے۔اگر ناقص چیز ہو تووہ لکھ دیں گے کہ یہ چیز ناقص ہے اس لیے ہم نے قیمت کم کر دی ہے۔اگر پسند نہ ہو تو واپس بھیج دیں۔ خرچ ہمارا۔اس بارے میں وہ نقصان کا بھی خیال نہیں کرتے مگر اور لوگ تجارت میں اس اصول کے پابند نہیں اس لیے ان کی تجارت تباہ ہو رہی ہے ۔یورپ کے اس اصول میں گو خدا کی رضا مد نظر نہیں۔اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًاo یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الاحزاب:71،72)
مسلمانو!یہ تو تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں کہ سچ بولو اس لیے کہ تم اس پر عمل کرتے ہواور ہر شریف سچ بولنے کو پسند کرتا ہے کیونکہ اس کے طبعی نتائج ظاہرہیں لیکن ہم ایک زائدبات بتاتے ہیں کہ تقوی اﷲ کو مد نظر رکھو کیونکہ سدید کہتے ہیں ہر پیچ سے مبرّا ،صاف سیدھی،راستی کی بات۔ ممکن ہے کہ ایک بات سچی ہو مگر اس میں پیچ رکھا گیا ہو کہ موقع پر اس سے نکل جائیں۔مگر سدید بات میں اس کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔اس میں ہر مخفی دھوکہ سے اجتناب ہوتا ہے۔اس لیے فرمایاکہ تم قولِ سدید پر عمل کرو اور زائد بات یہ ہے کہ خدا کے تقویٰ سے کام لو کہ خدا کی رضا حاصل ہو۔
یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ
اعمال کو درست کر دے گا۔یہ سداد پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔لیکن اگر سداد کے ساتھ تقویٰ ہو گا تو اس کا نتیجہ اس سے زائد ہو گا وہ یہ کہ
یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ
تمہارے کئی قسم کے گناہ اور کمزوریاں دور ہو جائیں گی اور خدا کی صفات تم پر جلوہ گر ہوں گی۔اگر قولِ سدید پر عمل کرتے ہوئے تقوی اﷲ بھی مدنظر ہو تو نقصان کچھ بھی نہیں ۔طبعی نتائج ضرور ملتے ہیں اس لیے فرمایا
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا
اگر قولِ سدید پر عمل کرتے ہوئے تقوی اﷲ بھی مدنظر ہو گا تو جو کامیابی ہو گی وہ محض قولِ سدید پر عمل کرنے والے لوگوں سے بہت زیادہ ہو گی جن کو سچائی کے طبعی نتائج پر یقین ہے۔گویا سداد پر عمل کرنے کا ایک تو طبعی نتیجہ ہوگا اور ایک تقویٰ پر عمل کرنے سے شرعی ثواب بھی مل جائے گا۔‘‘