تاجر کو باخبر ہونا چاہیے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ26؍اپریل1922ء کو ایک خطبۂ نکاح میں فرمایا:
’’قاعدہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کی اہمیت سے ناواقف ہے وہ اس کے فوائد کو حاصل بھی نہیں کر سکتا مثلاً یہی چائے جو ہندوستان میں پیدا ہوتی ہے لوگ اس سے ناواقف تھے انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ کی اس کا پودا پیدا ہوتا تھااور جنگل میں ہی سوکھ جاتا تھا۔انگریزوں نے چینیوں کے ساتھ تجارت میں اس کے فوائد اور اس کی اہمیت کو سمجھا اور فوراً ان علاقہ جات کو سستے داموں خرید لیا جہاں چائے پیدا ہوتی ہے۔
اب تمام ہندوستان میں چائے کے باغات انگریزوں کے ہیں ۔انہوں نے زبردستی نہیں لیے قیمت سے لیے ہیں ۔ہاں اپنے علم سے فائدہ اُٹھایا ہے ۔اب اسی چائے سے بیس کروڑ روپیہ سالانہ انگریز ہندوستان میں کماتے ہیں ۔
انگریز ہندوستان سے روپیہ لیتے ہیں مگر حکومت کے ذریعہ نہیں ایسے ہی ذرائع سے ۔پھر ہندوستان میں بانس ہوتا تھا ۔ہندوستانی صرف بانس کی غرض یہ سمجھتے تھے کہ کاٹا اور ڈنڈا بنا لیا اس لیے بانس کے جنگلات ان کے لیے بے سود تھے مگر انگریزوں نے اس کے فوائد کو سمجھا اور اس کے لاکھوں کروڑوں روپیہ کے کاغذ بنا ڈالے ۔……
میں جن دنوں بمبئی گیا تھا وہاں ایک واقعہ پیش آیا۔ایک سوداگر کی جیب سے جواہرات کی پڑیا گر گئی۔ایک بچہ کو ملی اس نے معمولی شیشہ خیال کر کے پیسہ کے چار چار بیچ ڈالے۔لڑکے آپس میں گولیاں کھیلتے ہیں۔ایک شخص نے اپنے بچہ کے پاس دیکھا تو پہچانا۔کسی دکاندار کے پاس لے گیا ۔اس نے بڑی قیمت بتائی۔جس کے جواہرات تھے اس نے پولیس میں اطلاع کردی۔اس شخص سے جس کے بچہ کے قبضہ میں ہیرا تھا پوچھا گیا ۔اس نے سب حال بتایا۔آخر سراغ لگاکہ لڑکوں کو پڑیا ملی تھی۔اب دیکھو کہ ان بچوں کو صرف یہ معلوم تھا کہ یہ شیشے ہیں ان سے کھیلنا چاہیے۔اگر ان کو اس کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ پیسہ کے چار چار نہ بیچتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد3صفحہ151)