اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

تجارت کے سنہری اصول

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ23؍جون1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’آج میں اپنی جماعت کے ایک خاص حصے کے متعلق بعض باتیں بیان کرنا چاہتاہوں ۔مگر اس میں ساری جماعت کے لیے بھی فائدہ ہے۔اس لیے کہ وہ حصہ ایسا نہیں کہ وہ کسی خاص قوم سے تعلق رکھے۔بلکہ ہر ایک کے لیے ممکن ہے کہ اس میں شامل ہوجائے اور ممکن ہے کہ اس طرح پر نصائح سب لوگوں کے لیے مفید ہوں وہ حصہ تاجروں کا حصہ ہے۔آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں طبعاً اس بات کا خواہش مندہوں اورہر ایک وہ شخص جو احمدیت سے تعلق رکھتاہے اس بات کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ یہ جماعت ترقی کرے۔دین میں بھی اور دنیا میں بھی اور اس کی ترقی کے لیے جس قدر بھی جائز اخلاق کے اندر ذرائع ہوں وہ استعمال کیے جائیں۔کوئی مذہب اس خواہش سے نہیں روکتا۔ یہ خواہش مجھ میں بھی ہے اور ہر ایک احمدی کے دل میں ہوگی۔

صحیح ذرائع کے استعمال سے کامیابی ملتی ہے

لیکن ہر ایک کام کے لیے کچھ ذرائع ہوتے ہیں میں نے اس طرف بارہا توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے لیے خدا نے جو راستہ اور ذرائع رکھے ہیں انہی پر چلنے اور ان کو استعمال کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے اور ان کو ترک کرنے سے ناکامی ہوتی ہے۔صحیح ذرائع سے کام نہ لینے کی غلطی مختلف مذاہب کے لوگوں کو مذہب کے بارے میں لگی ہے۔وہ محض خالی کوشش کو کامیابی کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں اگر ایک شخص سارا دن خدا کے لیے کام کرتا اور رات بھر اس کے لیے جاگتاہے تو وہ محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نہ ماننے کی وجہ سے کیوں جہنم میں جائے۔وہ کہتے ہیں اصل چیز تو محبت الٰہی ہے۔اگر ایک شخص کو جہالت سے اصل نماز کا پتہ نہیں لگتااور وہ اپنے رنگ میں عبادت کرتاہے اگر وہ رمضان کے روزوں کی بجائے یونہی فاقہ کشی کرتاہے یا حج بیت اﷲ کرنے کی بجائے یونہی خدا کے لیے گھر بار چھوڑ کر جنگل میں چلا جاتاہے یا مقررہ طریق پر زکوٰۃ دینے کی بجائے اپنے مال کا چالیسواں حصہ نہیں بلکہ بہت زیادہ دیتاہے تو وہ کیوں خدا کو نہیں پا سکتا۔ہم کہتے ہیں ہر ایک چیز کے ملنے کے لیے مقررہ ذرائع ہوتے ہیں اور جب تک ان کو نہ استعمال کیا جائے وہ چیز نہیں مل سکتی مثلاً پانچ روپیہ اگر منی آرڈر کرنے ہوں تو ان پر چار آنہ محصول مقرر ہے۔ اگرکوئی شخص فارم پُر کر کے سوا پانچ روپیہ ڈاکخانہ میں دے گا تو اس کا منی آرڈر منزل پر پہنچ جائے گا۔لیکن اگر کوئی شخص فارم پُر کرنے اور ڈاک خانہ میں دینے کی بجائے تھانے میں جائے اور پانچ روپیہ کے ساتھ چارآنہ محصول کی جگہ دو روپیہ وہاں دے آئے تو اس کے روپے نہیں پہنچ سکیں گے۔تھانہ والے اس کا روپیہ واپس کر دیں گے اور اگر کوئی خراب نیت کے لوگ ہوئے تو سات کے سات خود کھا جائیں گے۔اسی طرح زمین بونے کے لیے اس میں ہل چلایا جاتا اور ایک حد تک گہرا چلایا جاتا ہے مگر ایک شخص زمین میں ہل چلانے کے بجائے لمبے لمبے اور گہرے کنویں کھود کر ان میں بیج ڈال دے تو کیا اس کا کھیت تیار ہو جائے گا گو اس نے محنت کی اور ہل چلانے والے سے بہت زیادہ کی مگر چونکہ اس طریق کو چھوڑ دیا جو کھیت بونے کے لیے مقرر تھا اس لیے اس کا بیج زمین میں ضائع ہو جائے گا۔چہ جائیکہ اس کا کھیت تیارہو۔اسی طرح ایک شخص سخت گرمی میں آتاہے اور کنویں سے ڈول نکال کر پانی پی لیتاہے مگر دوسرا پیاسا آتاہے جو دو من کی بوری اُٹھا کر ایک میل تک چلا جاتاہے اور پھر شکایت کرتاہے کہ میں نے پہلے سے زیادہ کام کیا اور محنت اُٹھائی مگر میں پیاسا ہی رہا۔تو اس کا یہ کہنا غلط ہو گا کیونکہ پیاس کے لیے پانی کنویں سے نکال کر پینا ایک ذریعہ ہے ۔لیکن یہ کوئی ذریعہ نہیں کہ پیاسا بوریاں اُٹھا کر بھاگتا پھرے۔ پس جو طریق کسی کام کے کرنے کا ہے اسی طریق پر کیا جائے گا تو ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔
اسی طرح مذاہب کا حال ہے۔بعض مذاہب میں اسلام کی نسبت بہت مشقتیں اور محنتیں ہیں مگر ان کا نتیجہ کچھ نہیں۔مثلاً ہندو مذہب ہے اس میں لوگ اُلٹے لٹکتے ہیں اور اُلٹے لٹکے ہوئے ہی آٹا گوندھتے اور اسی حالت میں روٹی پکاتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس سے خدا کی رضا اور جنت کے اعلیٰ مقام پالیں گے؟نہیں۔کیونکہ غلط طریق سے جو کام کیا جاتاہے اس میں کامیابی نہیں ہوتی۔پس اگر کوئی غلط طریق پر خدا تعالیٰ کے حضور جانا چاہے گا تو ردکیا جائے گا۔

نفع کی بھی ایک حد ہونی چاہیے

ہماری جماعت میں خواہش ترقی ہے خواہ دینی ترقی ہو یا دنیاوی۔مگر اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحیح طریق پر عمل ہو۔ بعض حالات کی وجہ سے یہاں سودے سلف پر بعض روکیں عائد کی گئی ہیں۔کیونکہ ان حالات نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم ایسا کریں۔اگر وہ حالات دور ہو جائیں تو یہ روکیں نہیں رہ سکتیں۔گویا یہ روکیں عارضی ہیں ۔ان کی وجہ سے اگر کوئی فائدہ آتاہے تو وہ حقیقی فائدہ نہیں۔اصل میں فائدہ وہ ہے جو اپنی لیاقت اور قابلیت سے حاصل کیا جائے۔مگر لوگ اس اصل کو نہیں سمجھتے ۔وہ اپنی اس بات کو خلاف دیانت نہیں سمجھتے کہ بازار میں ایک چیز جو سستی بکتی ہو اس سے ایک شخص اس دلیل کی بنا پر مہنگا بیچے کہ یہ میری چیز ہے میں جس قیمت پر چاہوں بیچوں اور اس طرح زیادہ قیمت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔مگر ان کا یہ کہنا اس وقت تک غلط ہے جب تک کہ خریداروں پر روکیں لگائی گئی ہیں اور اگر کوئی ایسا کہتاہے تو یہ اس کی بددیانتی ہے۔اگر زید کو مجبورکیا گیا ہے کہ وہ بکر سے سودانہ لے بلکہ خالد سے لے اور خالد، بکر کی نسبت مال کی قیمت بڑھاتاہے اور زید اس سے لینے پر مجبور ہے تو اس کی مجبوری سے اس کو ناجائز فائدہ اُٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ میری چیز ہے جس طرح چاہوں بیچوں۔اس کا ایسا کہنا غلط ہے۔اس کو منڈی کے نرخ کا خیال رکھنا چاہیے۔
دیکھو اگر کسی شخص کے پاس کچھ روٹیاں ہوں اور ایک سائل اس سے مانگنے آئے تو یہ اس کا حق نہیں کہ وہ اس کو کہے کہ میں نہیں دیتا تو جب فقیر جو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا اس کو روٹی نہ دینا غلطی اور ظلم ہے۔تو جو شخص قیمتاً ایک چیزلیتاہے اور دکاندار اس کو منڈی کے نرخ پر نہیں دیتا وہ بھی ظالم ہے۔
اگر کوئی شخص منڈی کے نرخ سے گراں نرخ رکھتاہے تو یہ بددیانتی کرتاہے اور لوگوں کی مجبوری اور ناواقفی سے فائدہ اُٹھاتاہے ہاں اگر کوئی دکاندار ایسا اعلان کر دے اور بورڈ پر لکھ کر لگا دے کہ میں دو پیسہ میں امرتسر سے چیز خریدتا ہوں اور یہاں ایک آنے میں بازارمیں بکتی ہے مگر میں دو آنے میں بیچتاہوں اور پھر گاہک اس کی دکان پر جائیں اور اس سے خریدیں تو اس کا حق ہو سکتاہے لیکن لوگ عام طور پر چونکہ بھاؤ سے واقف نہیں ہوتے اس لیے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ان سے زیادہ قیمت لی جاتی ہے اور یہ بددیانتی ہے اور یہ بددیانتی اپنی غلطی اور ناواقفی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اپنی غلطی کا اثر دوسروں پر ڈالا جاتاہے کہ ہم نے مہنگی خریدی ہے ۔اس لیے مہنگی بیچتے ہیں۔حالانکہ اس کا خمیازہ ان کو خود بھگتنا چاہیے۔
جو لوگ یہ طریق جاری رکھتے ہیں نہ ان کی تجارت کامیاب ہوتی ہے نہ ان کو تجارت کا علم آتاہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی دکان اچھی حالت میں نہیں ہے۔لوگ محنت نہیں کرتے اور تجارت کا علم حاصل نہیں کرتے اور ناجائز وسائل سے اپنی دکان چلانا چاہتے ہیں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ روک جو سودے سلف کے متعلق ہے قائم رہے اور جو چیز ایک لاتاہے وہ دوسرا نہ لاوے۔مگر خود محنت نہیں کرتے ۔یہ ناجائز یا وقتی حفاظت کے طریق ہیں۔اگر صحیح ذرائع پر عمل کریں تو ان ذرائع کو اختیار کرنے کی ان کو ضرورت نہ رہے اور ان کی یہ خواہش نہ ہو کہ یہ روک قائم رہے۔کیونکہ یہ بھی عارضی ہے۔اگر آج حالات بدل جائیں تو وہ روک قائم نہیں رہ سکتی۔ہوشیار آدمی ہوشیاری سے کام کرتا اور کامیاب ہوتاہے۔لیکن اگر ہوشیاری کے ساتھ دیانت بھی شامل ہو جائے تو پھر یہ بہت اعلیٰ درجہ کی بات ہوتی ہے۔اگر ہوشیاری نہ ہو بلکہ سستی ہو تو پھر کامیابی مشکل ہے اور پھر فائدہ اُٹھانے کی خواہش ایک مخفی بددیانتی ہے۔
ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ہر ایک بات میں بڑھ کر رہیں۔مومن غیرت مند ہوتاہے اور وہ کسی بات میں کسی سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔
حضرت شاہ اسماعیل(شہید دہلوی)کا ایک واقعہ ہے ان کو معلوم ہوا کہ ایک سکھ ہے جو تیرنے میں بہت مشّاق ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔یہ سن کر آپ تیر نے کی مشق کرنے لگے اور اس میں ایسا کمال حاصل کیا کہ کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکتاتھا۔یہ انہوں نے اس لیے کیا کہ کوئی غیر مسلم مسلمانوں سے کسی کام میں کیوں بڑھ جائے تو مومن چھوٹی چھوٹی باتوں میں غیرت رکھتا ہے اور ہر ایک بات میں خواہ وہ دین کی ہو یا دنیا کی دوسروں سے بڑھنے کی کوشش کرتاہے۔
ہمیں شبہ نہیں کہ دنیا الگ ہے اور دین الگ۔مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیاوی باتوں کا اثر دین پر پڑتاہے جو شخص دنیا میں سست ہو وہ دین میں بھی سست ہوتاہے جو دنیاوی کام کرنے میں سست ہے وہ تہجد کے لیے کب اُٹھے گااور وہ آہستہ آہستہ سنتوں کا بھی تارک ہو جائے گااور فرائض کو بھی جواب دے دے گا۔کیونکہ سستی ایک ہی چیز ہے اور وہ دونوں جگہ کرے گا۔دنیا میں بھی اور دین میں بھی۔

ولایت میں نفع کی حد بندی

ولایت میں نفع کی حد بندی کی گئی ہے مثلاً اس حد تک نفع جائز ہے اور اس کے آگے ناجائز اور وہاں نفع مقرر کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ چیز عام مقابلہ میں آجائے اس وقت جو قیمت ٹھہر جائے وہ اصل قیمت ہواور اس میں یہ بات بھی مدنظر رکھی جاتی ہے کہ بیچنے والے آپس میں سمجھوتہ نہ کرلیں۔یعنی یہ نہ ہو کہ دس پندرہ دکاندار آپس میں فیصلہ کر لیں کہ اس قیمت پر فروخت کریں گے۔اگر یہ ہو تو یہ ناجائز ہے اور سمجھوتہ کر کے جو نفع حاصل کیا جائے وہ بھی ایک قسم کی ٹھگی ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص زائد نفع اپنی لیاقت سے حاصل کرتاہے تو وہ جائز ہے۔مثلاً لوگ عموماً امرتسر سے چیزیں لاتے ہیں اور ایک نرخ پر یہاں بیچتے ہیں دوسرا شخص اگر دلی سے اس سے سستی لا کر اس نرخ پر بیچتاہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ نفع کماتاہے تو اس پر الزام نہیں یا کراچی میں ایک چیز بہت سستی ملتی ہے اور ایک شخص وہاں سے لاتاہے جو یہاں بہت سستی پڑتی ہے پھر اگر وہ بازار کے عام نرخ پر بیچ کر تمام بازار والوں سے زیادہ نفع لیتاہے تو اس پر الزام نہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر دکاندار وں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں ان میں بعض غلط بھی ہوتی ہیں مگر بعض درست بھی۔بعض دکانداروں کایہ کہنا کہ ہمارا حق ہے کہ ہمارے بھائی ہم سے چیزیں خریدیں۔یہ سچ ہے کہ ان کاحق ہے کہ ان کے بھائی ان سے چیزیں خریدیں۔مگر بھائیوں کا بھی تو حق ہے کہ تم ان سے ناجائز فائدہ نہ اُٹھاؤ۔اس سے بری بات کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنا حق یاد رکھے مگر دوسرے کا حق بھول جائے۔حالانکہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنا حق بھلا دیتاہے اور دوسروں کا حق جو اس پر ہو یاد رکھتاہے ۔……صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم دوسرے کے حق کو خوب یاد رکھتے تھے۔روایات میں آتاہے کہ ایک گھوڑا ایک صحابیؓ بیچنے لگے اور اس کی قیمت انہوں نے مثلاً دو ہزار مقرر کی۔دوسری طرف جو صحابیؓ خریدار تھے وہ چار ہزار بتاتے تھے اور ان میں اسی بات پر جھگڑا تھا کہ مالک کم قیمت بتاتا اور خریدار زیادہ دیتا۔تو مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حقوق کا بہت خیال رکھتاہے جب دوسرے کے حقوق کا خیال لازمی ہے اور بددیانتی منع ہے تو مومن کے لیے کس قدر لازمی ہے کہ وہ ہوشیاری اور چستی سے کا م لے۔
دکانداروں کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہماری چیز ہے ہم اس کی جو قیمت چاہتے ہیں مقرر کرتے ہیں۔نہ یہ اصولاً درست ہے نہ اخلاقاً درست ہے عام طور پر دکاندار یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی ناواقفیت سے جتنے کی چیز ملتی ہے لے آتے اور سَستی اور عمدہ تلاش نہیں کرتے اور پھر اس کا اثر خرید ار پر ڈالتے ہیں۔اگر انہیں اپنی سستی کا خمیازہ بھگتنا پڑے اور عام بھاؤ پر بیچ کر نقصان ہوتو آئندہ کے لیے ہوشیا ر ہو جائیں۔ مگر ابھی تک لوگ اس گُر کو نہیں سمجھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ خود اچھی طرح دکان چلاسکتے ہیں اور نہ ان کے خریدار ان سے خوش ہوتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دکان بند ہوجاتی ہے۔
میں تو یہ خیا ل نہیں کر سکتاکہ کوئی احمدی کہلانے والا جان بوجھ کر دھوکہ دیتاہے۔کیونکہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی احمدی ہو اور پھر جان بوجھ کر دھوکہ دے۔میرا دل ہی اس قسم کا نہیں بنایا گیا کہ میں کسی کے متعلق ایسا خیال کروں ۔ہاں میں یہ کہتاہوں کہ غفلت یا ناواقفی سے ان لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں۔لیکن غفلت سے بھی جو جرم ہو وہ جرم ہی ہوتاہے اور اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔دیکھو اگر کوئی شخص کسی کو گولی مارتاہے اور بعد میں کہتاہے کہ میں نے جانور سمجھا تھا۔اگر یہ درست ثابت ہو جائے تو گو اسے پھانسی کی سزا نہ ملے مگر سزا ضرور ملے گی۔اسی طرح اور باتوں میں ہوتاہے۔پس تم غفلت کو دور کرو تا دنیا کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کر سکو۔……‘‘

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمُدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ

پڑھتے ہوئے فرمایا:
’’ یہ کامیابی کا گُر بتایا گیا ہے۔اﷲ کی تعریف ہو جس نے ہمیں صحیح رستہ دکھایا۔پھر خدا سے گناہوں کی معافی مانگے اور دعا مانگے کہ غفلت سے بچایا جائے۔پھر وہ طریق اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے کسی کام کے لیے مقرر فرمائے ہیں اور

وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ

اور یہ یقین رکھے کہ اﷲ تعالیٰ ضرور کامیاب کرے گا۔کیونکہ جو اس پر توکل کرتاہے وہ ناکام نہیں رہتا۔ اگر خدا نہیں ہے تو پھر سب فریب ہے اور اگر ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے ذلیل نہیں ہو سکتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد نمبر7صفحہ 306تا311)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے