حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍اکتوبر1922ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ صحابہ رضی اﷲ عنھم تجارت بھی کرتے تھے اور زراعت بھی کرتے تھے لیکن دین ان کو مقدم تھا اور دین کے کام میں کبھی سوال نہیں کرتے تھے اور دنیا ان کو دین کے کام سے روک نہیں سکتی تھی۔یہ نہیں تھا کہ ان کو تجارت یا کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا چنانچہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ نے ایک دفعہ کئی ہزار اونٹ خریدے جب وہ ہزاروں اونٹوں کا ایک وقت میں سودا کرسکتے تھے تو اس سے پتہ لگتاہے کہ ان کے پاس لاکھوں ہی روپے ہوں گے چنانچہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے گھر میں کئی کروڑ روپیہ تھا۔وہ اونٹ انہوں نے تجارت کے لیے خریدے تھے اور فوراً ہی بک گئے اور سودا اسی طرح ہوا کہ جس قیمت پر انہوں نے خریدے تھے اسی پر بیچ دیئے۔مگر عقال (اونٹ باندھنے کی رسی) کے بغیر۔کسی نے کہاآپ کو کیا نفع رہا ہے؟ انہوں نے کہا اتنے ہزار عقال جتنے ہزار اونٹ ہیں نفع میں آئے کیونکہ میں نے سودا مع عقال کیا تھا اور بیچے بغیر عقال کے ہیں اور اسی طرح ان کو کھڑے کھڑے نفع ہو گیا۔یہ سودا کئی لاکھ کا تھااور آج کل بھی اتنا بڑا سودا بہت بڑا سودا سمجھا جاتاہے۔غرض یہ ان کی تجارت کا حال تھا۔باوجود اس کے وہ دین میں تجارت نہ کرتے تھے بلکہ جو کام کرتے تھے خدا کے لیے کرتے تھے۔وہ دنیاوی امور میں بھی انصاف اور عدل کو نہ چھوڑتے تھے۔دو صحابیوں کا حال میں نے تو کسی کتاب میں پڑھا نہیں حضرت صاحب علیہ السلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان میں اس بات پر جھگڑاہو رہاتھاکہ ایک اپنا گھوڑا مثلاً تین ہزار درہم پر بیچتے تھے اور جوخریدنا چاہتے تھے کہتے تھے نہیں یہ گھوڑا پانچ ہزار کا ہے۔وہ اس قدر قیمت دینے پر مُصر تھے۔لیکن آج کل تو لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر دیکھیں خریدار اتنی زیادہ رقم دیتاہے تو وہ فوراً کہہ دیں گے کہ لو سودا پختہ ہو گیا۔اصل میں بیچنے والا واقف نہ تھا اور خریدار واقف تھااس لیے وہ اس کی کم قیمت نہ دینا چاہتاتھا اور بیچنے والا اس کی زیادہ قیمت لینا دھوکہ خیال کرتا تھا وہ سمجھتاتھا کہ یہ مجھ پر احسان کرنا چاہتاہے۔‘‘
جواب دیں