سودسے پاک قرضہ سکیم

مجلس مشاورت مؤرخہ22؍مارچ 1924ء میں مکرم ناظر صاحب امور عامہ نے درج ذیل سکیمیں پیش کیں۔قرضہ سکیم، کواپریٹو سوسائٹی، اجتماعی اراضی، پول سسٹم۔
اس پرتبصرہ کرتے ہوئے حضورانور رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
’’بات یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لیے بعض مشکلات ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ بعض ایسی باتیں ہیں جن سے دُنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی ہمت کریں تو فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔اس لیے میں نے امور عامہ کو کہا تھا کہ سکیم تیار کریں۔……
ہماری جماعت کے لوگوں کو جب قرض لینا پڑتاہے تو سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔حالانکہ سود سے خدا نے سخت منع کیا ہے۔مگر جو مشکلات میں ہوتے اور سود پہلے سے لے چکے ہوتے ہیں ان کے لیے مشکل ہوتاہے۔ بعض جائیدادیں بیچ کر سود سے بچ جاتے ہیں مگر بعض کے پاس اتنی جائیدادنہیں ہوتی کہ قرض ادا کر سکیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ سود نہیں دیتے مگر ان کو کوئی قرض دیتا ہی نہیں۔ان مشکلات کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ قرضہ کا طریق جاری ہو جو مختلف سوسائٹیوں کے لیے الگ ہو۔زمینداروں،تاجروں،ملازموں کے لیے علیحدہ علیحدہ قسم کی سوسائٹیاں ہوں۔
تاجر یوں کر سکتے ہیں کہ مثلاً سو تاجر مل جائیں،10روپیہ مہینہ ہر ایک دیتا رہے ،ایک ہزار ماہوار جمع ہو،یعنی12ہزار سالانہ۔اس میں سے چھ ہزار سے ایسی کمیٹیوں کے حصے خرید لیں جس سے وقتی ضروریات یا نقصان کو پورا کر سکیں اور بقیہ رقم کو اس لیے رکھیں کہ جس کو ضرورت ہو اپنے ممبروں میں سے اس کو قرض دیا جائے۔آہستہ آہستہ یہ کام بہت وسیع ہو جائے گا۔اسی طرح زمیندار ہیں ،وہ حصہ مقرر کر لیں کہ اتنے روپیہ چندہ دینے والے کو اتنا قرض دیا جا سکتاہے جس قدرروپیہ جمع ہونصف کو قرضہ کے لیے رکھیں اور باقی سے زمین خریدلیں۔ان کی آمد سے نقصان وغیرہ پورا کیا جا ئے۔
اس طرح قرض اُترنا شروع ہو جائے گا۔اس قسم کی سوسائٹیاں بن جائیں تو ان سے ان کو قرضہ ملے گا جس کو ضرورت پڑے۔ اگر ایسانہ ہو گا تو سب آدمی سود سے نہیں بچ سکتے۔مگر یہ طریق نہیں چل سکتا جب تک سارے اس کے لیے متفق نہ ہوں اور ان میں یہ کام کرنے کی روح نہ پیدا ہو۔
یہ سکیم ہے اس کے لیے کہتے ہیں کمیٹی مقرر کی گئی ہے مگر وہ ایک ہے تین ہونی چاہئیں۔

  1. تاجروں کی
  2. ملازموں کی
  3. زمینداروں کی۔

اقتصادی طور پر جماعت گِرتی جا رہی ہے کیونکہ احمدی ایک طرف چندہ زیادہ دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ قرض چونکہ سودی ملتاہے وہ اس طرح کام نہیں چلا سکتے جس طرح اور چلا سکتے ہیں۔ اس کا اثر دینی کاموں پر بھی پڑتاہے اس لیے قرضہ کے لیے ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ سود بھی نہ دینا پڑے اور ضرورت کے وقت قرضہ بھی مل جائے۔
اسی طرح ایک اور طریق ہے اور وہ یہ ہے ساؤتھ امریکہ میں گاؤں والے ایک جگہ زمین جمع کر لیتے ہیں اگر ہمارے مربعوں والے ایسا کریں کہ اپنی زمین اکٹھی کر لیں تو بہت اچھا کام ہو سکتاہے امریکہ میں گاؤں والے مل کر سوسائیٹیاں بنا لیتے ہیں۔ سارے مل کر ٹھیکہ پر اس کمیٹی کو زمین دے دیتے ہیں اور خود اس کے ممبر ہوتے ہیں اور سوسائٹی میں وہی کام کرتے اور مزدوری لیتے ہیں۔اگر ہم نے دنیا میں حکومت کرنی ہے تو ضروری ہے کہ ہر قسم کے بہترین انتظام کر لیں ہمیں چاہیے کہ سوچیں اور سکیم پر غور کریں اور جب بھی فرصت ہو اس پر عمل شروع ہو جائے جب ایک دو گاؤں اس کے لیے تیار ہوجائیں تو اس پر عمل شروع ہو جائے۔اگر ضرورت ہو تو مرکز بھی مدد دے سکتاہے۔ اگر اس طرح سکیموں پر غور ہوتا رہے تو ہماری جماعت دینی ہی نہیں اقتصادی برتری بھی حاصل کرسکتی ہے جو کمیٹی اس کام کے لیے بنی ہے وہ اس امر کو مدنظر رکھ کر غور کرے اور اس قسم کی اور تجاویز پر اور سکیموں پر غور کرے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1924ء صفحہ50تا53)