حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایک مسلمان شہری کے جو کام اسلام نے مقرر کیے ہیں اب میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں۔ایک حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ ہر ایک آدمی محنت کرکے کھائے اور سست نہ بیٹھے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!بہترین رزق وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے مہیا کرے اور فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ کی محنت سے اپنا رزق پیدا کرتے تھے۔‘‘
(احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۔انوار العلوم جلد8صفحہ280)
سود اور منافع کی زیادتی کے نقصانات
حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’اگر غور کیا جائے تو اس نقص کے باعث کہ بعض ملکوں میں چند گھرانوں میں تمام ترقیات محدود ہو گئی ہیں ،تین ہیں۔
- جائیداد کا تقسیم نہ ہونا بلکہ صرف بڑے لڑکے کے قبضہ میں رہنا اور مال کے متعلق باپ کو اختیار ہونا کہ جس قدر چاہے جس کو چاہے دے دے۔
- سود کی اجازت جس کی وجہ سے ایک ہی شخص یا چند افراد بغیر محنت کے جس قدر چاہیں اپنے کام کو وسعت دے سکتے ہیں۔
- منافع کی زیادتی۔
ان تین نقائص کی وجہ سے بہت سے ممالک میں لوگوں کے لیے ترقیات کے راستے بالکل محدود ہو گئے ہیں۔جائیدادیں چند لوگوں کے قبضہ میں ہیں اور اس وجہ سے غرباء کو جائیدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں۔سود کی وجہ سے جو لوگ پہلے ہی اپنی ساکھ بٹھا چکے ہیں وہ جس قدر چاہیں روپیہ لے سکتے ہیں۔چھوٹے سرمایہ دار کو ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ منافع کی زیادتی کی وجہ سے دولت ایک آبشار کی طرح چند لوگوں کے گھروں میں جمع ہو رہی ہے……
دوسری روک غرباء کے راستہ میں سود ہے، سود کے ذریعہ سے وہ تاجر جو پہلے سے ساکھ بٹھا چکے ہیں جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے سکتے ہیں۔اگر ان کو اس طرح روپیہ نہ مل سکتا تو وہ یا تو دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے یااپنی تجارت کو اس پیمانہ پر نہ بڑھا سکتے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے روک بن سکیں اور ٹرسٹس اور ایسوسی ایشنز قائم کر کے دوسرے لوگوں کے لیے ترقی کا دروازہ بالکل روک دیں۔نتیجہ یہ ہوتا کہ مال ملک میں مناسب تناسب سے تقسیم رہتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ مال جمع نہ ہو سکتا۔جو ملک کی اخلاقی ترقی کے لیے مہلک اور غرباء اور درمیانی طبقہ کے لوگوں کے لیے تباہی کا موجب ہوتاہے۔
تیسری صورت جو نفع کی زیادتی کی تھی اس کا اسلام نے ایک تو اس ٹیکس کے ذریعہ سے انتظام کیا ہے جو غرباء کی خاطر امراء سے لیا جاتاہے۔اس ٹیکس کے ذریعہ سے اتنی رقم امراء سے لے لی جاتی ہے کہ ان کے پاس اس قدر روپیہ اکٹھا ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے زور سے ملک کا سارا روپیہ جمع کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ جس قدر روپیہ ان کے پاس ہو گا اس میں سے ہر سال ان کو غریبوں کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔دوسرے شریعت نے یہ انتظام کیا ہے کہ غرباء میں سے ہوشیار اور ترقی کرنے والے لوگوں کو اس ٹیکس میں سے اس قدر سرمایہ دیا جائے کہ وہ اپنا کام چلا سکیں۔ اس ذریعہ سے نئے نئے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں رہے گا۔
تیسرے اسلام نے ان ترکیبوں سے منع کر دیا ہے جن کے ذریعہ سے لوگ ناجائز طور پر زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں۔چنانچہ اسلام اس امر کو گناہ قرار دیتاہے کہ کوئی شخص تجارتی مال کو اس لیے روک رکھے کہ تااس کی قیمت بڑھ جائے اور وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہو۔پس اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرسٹس کی قسم کے تمام ذرائع جن سے نفع کو زیادہ کیا جاتاہے اسلامی تعلیم کے مطابق ناجائز ہوں گے اور حکومت ان کی اجازت نہ دے گی۔
اب ایک سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر سود بند کیا جائے گا تو تمام تجارتیں تباہ ہو جائیں گی مگر یہ امر درست نہیں۔ممانعتِ سود سے کبھی تجارتیں تباہ نہ ہو ں گی۔اب بھی سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ اس وجہ سے سود کا تعلق تجارت سے ہے کہ مغربی ممالک نے اس طریق کو نشوونما دیا ہے۔ اگروہ اپنی تجارتوں کی بنیاد شروع سے سود پر نہ رکھتے تو نہ آج یہ بے امنی کی صورت نظر آتی اور نہ تجارتوں سے سود کا کوئی تعلق ہوتا۔آج سے چند سو سال پہلے مسلمانوں نے ساری دنیا سے تجارت کی ہے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے کامیاب تجارت کی ہے مگر وہ سود بالکل نہیں لیتے تھے۔وہ بوجہ سود نہ لینے کے ادنیٰ ادنیٰ غرباء سے روپیہ شراکت کے طور پر لیتے تھے اور ملک کے اکثر حصہ کو ان تجارتوں سے فائدہ پہنچتاتھا۔
پس سود کی وجہ سے تجارتیں نہیں چل رہیں بلکہ سود پر چونکہ ان کی بنیاد رکھی گئی ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سود پر چل رہی ہیں۔بے شک شروع میں دقتیں ہو ں گی لیکن جس طرح سود پر بنیاد رکھی گئی ہے اسی طرح اس عمارت کو آہستگی سے ہٹایا بھی جا سکتاہے۔
سود اس زمانہ کی وہ جونک ہے جو انسانیت کاخون چوس رہی ہے۔ غرباء اور درمیانی درجہ کے لوگ بلکہ امراء بھی اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں مگر بہت سے لوگ اس چیتے کی طرح جس کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ اپنی زبان پتھر پر رگڑ رگڑ کر کھا گیا تھا ایک جھوٹی لذت محسوس کر رہے ہیں۔جس کے سبب سے وہ اس کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور اگر چھوڑنا چاہتے ہیں تو سوسائٹی کا بہاؤ ان کو الگ ہونے نہیں دیتا۔
اس کے دو خطرناک اثر ملکوں کے امن کے خلاف پڑ رہے ہیں۔ایک اس کے ذریعہ سے دولت محدود ہاتھوں میں جمع ہو رہی ہے ۔دوسرے اس کی وجہ سے جنگیں آسان ہو گئی ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کا کوئی انسان بھی اس جنگ عظیم کی جو پچھلے دنوں ہوئی ہے جرأت کر سکتاتھا اگر سود کا دروازہ اس کے لیے کھلا نہ ہوتا؟جس قدر روپیہ اس جنگ پر خرچ ہوا ہے مختلف ممالک اس روپے کے خرچ کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوتے اگر اس کا بوجھ براہ راست ملک کی آبادی پر پڑجاتا۔اس قدر عرصہ تک جنگ محض سود کی وجہ سے جاری رہی ورنہ بہت سی سلطنتیں تھیں جو اس عرصہ سے بہت پیشتر جس میں پچھلی جنگ جاری رہی جنگ کو چھوڑ بیٹھتیں کیونکہ ان کے خزانے ختم ہوجاتے اور ان کے ملک میں بغاوت کی ایک عام لہر پیدا ہو جاتی۔یہ سود ہی تھا جس کی وجہ سے اس وقت تک لوگوں کو بوجھ محسوس نہیں ہوالیکن اب کمریں اس کے بوجھ کے نیچے جھکی جا رہی ہیں اور غالباً کئی نسلیں اس قرضہ کے اتارنے میں مشغول چلی جائیں گی۔اگر سود نہ لیا جاتا تو جنگ کا نتیجہ وہی ہوتا جو اب ہوا ہے یعنی وہی اقوام جیت جاتیں جو اب جیتی ہیں۔مگر فرانس اس قدر تباہ نہ ہوتا،جرمنی اس طرح برباد نہ ہوتا،آسٹریا اس طرح ہلاک نہ ہوتا،انگلستان پر یہ بارنہ پڑتا،اول تو جنگ چھیڑنے ہی کی حکومتوں کو جرأت نہ ہوتی اور اگر جنگ چھڑ بھی جاتی تو ایک سال کے اندر جوش مدھم ہو کر کبھی کی صلح ہو چکی ہوتی اور آج دنیا شاہراہِ ترقی پر چل رہی ہوتی۔ حکومتیں آج کل آلاتِ جنگ کے کم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر آلات تو ارادے کے ساتھ فوراً ہی بن جاتے ہیں۔جس چیز کے توڑنے کی ضرورت ہے وہ سود ہے۔ قرآن کریم کہتاہے کہ سود جنگ کے پیداکرنے کا موجب ہے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں۔‘‘