اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

تجارت کے ہر شعبہ کو اختیار کرنا چاہیے

حضور انور رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
’’تجارت کے متعلق میں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اس امر سے مسلمانوں نے سب دوسرے امور کی نسبت زیادہ تغافل برتاہے۔تجارت بالکل مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں ہے اس کا ہر ایک شعبہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان اقتصادی طورپر ہندوؤں کے غلام ہیں اور ان کی گردنیں ایسی بُری طرح ان کے پھندے میں ہیں کہ وہ بغیر ایک جان توڑ جد وجہد کے اس سے آزاد نہیں ہو سکتے۔آڑھت،صرافی،تجارت درآمد و برآمد،ایجنسی،انشورنس،بنکنگ،ہر ایک شعبہ جو تجارت کے علم سے تعلق رکھتا ہے اس میں وہ نہ صرف پیچھے ہیں بلکہ اس کے مبادی سے بھی واقف نہیں اور اس کے دروازے تک بھی نہیں پہنچے۔صرف چند چیزیں خرید کر دکان میں بیٹھ جانے کا نام وہ تجارت سمجھتے ہیں اور ان چیزوں کے بیچنے اور خریدنے کا بھی ڈھنگ ان کو نہیں آتا۔وہ اس کوچہ سے نابلد ہونے کے سبب اس دیانتِ تجارت اور خُلقِ تاجرانہ سے جس کے بغیر تجارت باوجود علم کے بھی نہیں چل سکتی ناواقف ہیں۔پس ضروری ہے کہ ایک کمیشن کے ذریعہ تجارت کی تمام اقسام کی ایک لسٹ بنائی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کس قسم کی تجارت میں مسلمان کمزور ہیں اور کس کس قسم کی تجارت سے مسلمان بالکل غافل ہیں اور پھر ان نقائص کا ازالہ شریعت کے احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔‘‘

مسلم چیمبر آف کامرس

یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مسلم چیمبر آف کامرس بنائی جائے تاکہ مسلمان تاجروں میں اپنی قومی کمزوری کا احساس ہواور وہ ایک دوسرے سے تعاون کا معاملہ کرنے کے عادی ہوں۔اسی چیمبر سے نظامِ مرکزی بھی نہایت قیمتی مدد اپنے اغراض کے پورا کرنے میں لے سکتاہے۔

صنعت و حرفت

صنعت وحرفت کا میدان میرے نزدیک تجارت سے بھی اہم ہے کیونکہ(۱)اس میں نفع کا زیادہ موقع ہے اور(۲)اس میں دوسرے ملکوں کی دولت کھینچی جا سکتی ہے۔اور(۳)ملک کے لاکھوں آدمیوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے(۴)تجارت کا دارومداراس پر ہے۔جو قوم اس پر اچھی طرح قابو پالے وہ تجارت کو اپنے ہاتھ میں آسانی سے لے سکتی ہے ۔اس کے ذریعہ سے ملک اقتصادی اور سیاسی غلامی سے محفوظ ہو جاتاہے۔
مسلمانوں کے لیے اس میدان میں بہت موقع ہے۔اوّل تو اس وجہ سے کہ جو ملکی قدیم صنعت و حرفت ہے اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ۔گو وہ آج کل مردہ ہے لیکن اگر اس کو اُبھارا جائے تو مسلمانوں کے پاس ایک بیج موجود ہے۔دوسرے اس وجہ سے وسیع پیمانے پر صنعت وحرفت کا تجربہ ابھی ہمارے ملک میں شروع نہیں ہوا۔یہ صیغہ ابھی ابتدائی تجارت کی حالت میں ہے اور بہت ہی قریب زمانہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔پس مسلمانوں کے لیے اس میدان کا دروازہ بند نہیں اور وہ آسانی سے اپنا حصہ بلکہ اپنے حصہ سے بڑھ کر اس شعبۂ عمل میں حاصل کر سکتے ہیں۔پس میرے نزدیک اس امر کی طرف فوری توجہ ہونی چاہیے اور اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ(۱)ایک بورڈ آف انڈسٹریز مقرر کیاجائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ ان صنعتوں کی ایک فہرست بنائے جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہو رہی ہیں اور ان کی جو آسانی سے رائج ہو سکتی ہیں اوران کی جن کی ملک کی اقتصادی آزادی کے لیے ضرورت ہے۔جو رائج ہیں ان کو تو ایک نظام میں لا کر ترقی دینے کی کو شش کی جائے اور جو ملک میں رائج ہیں مگر مسلمان ان سے غافل ہیں ان کی طرف مسلمان سرمایہ داروں کو توجہ دلا کر ان کو جاری کروایا جائے اور جو ملک میں رائج ہی نہیں مگر ان کی ضرورت ہے ان کے لیے تجربہ کار آدمیوں کا ایک وفد بیرونی ممالک میں بھیجا جائے جو ان کے متعلق تمام ضروری معلومات بہم پہنچائے اور جن جن صنعتوں کا اجرا وہ ممکن قرار دے ان کے لیے ہوشیار طالب علموں کو وظیفہ دے کر بیرونی ممالک میں تعلیم دلوائی جائے اور ان کی واپسی پر مسلم سرمایہ داران کے ذریعہ سے ان صنعتوں کے کارخانے جاری کیے جاویں۔‘‘

(آل پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر۔انوار العلوم جلد 9صفحہ122تا124)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے