حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 15؍اپریل1927ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’پھر نظارت تجارت کی تجاویز ہیں۔
- یہ کہ احمدیوں کو بغیر سود قرضہ دینے کے لیے انجمن قائم کی جائے
- احمدی تاجروں اور اہل حرفہ کے باہمی تعارف کا انتظام کیا جائے۔
- بے کاروں کے لیے کوئی کام جاری کیا جائے۔
یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کے نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کو بہت دقت پیش آرہی ہے۔ان باتوں پر بھی جلد غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ نتیجہ ہو گا کہ جماعت کے مال کا بڑا حصہ ان بے کاروں کو سنبھالنے کے لیے خرچ کرنا پڑے گا۔……
اس کے بعد میں ناظر تجارت (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اﷲ عنہ) کے متعلق کچھ کہنا چاہتاہوں انہوں نے باوجود پہلے سال رپورٹ پیش کرنے کے اس رنگ میں پیش کی ہے جو دلچسپی رکھتی ہے اور معلوم ہوتاہے کہ روپیہ کس کام میں لگا ہوا ہے اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ روپیہ کی کس قدر دقت ہے مثلاً ولایت کی تجارت پر روپیہ کم ہونے کی وجہ سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لنڈن میں خرچ زیادہ ہوتاہے اگر روپیہ زیادہ ہوتا تو فائدہ اٹھایا جا سکتاتھا۔غرض انہوں نے بہت دلچسپ بیان کیا ہے مگر ان سے ایک غلطی ہوئی ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایسی سکیم پیش کر دی ہے جو منظور شدہ نہیں ہے بلکہ صدر انجمن کی رائے کے خلاف ہے اور میری رائے کے بھی خلاف ہے جب انہیں یہ معلوم تھا تو رپورٹ میں اسے نہیں پیش کرنا چاہیے تھا۔وہ سکیم یہ ہے کہ جماعت کا روپیہ لے کر اوروں کو تجارت پر دیا جائے۔ سٹور کے متعلق میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ سٹور میں کام کرنے والے میرے نزدیک دیانتدار ہیں۔مگر صرف یہ لکھنے پر ابھی تک میرے نام سٹور میں روپیہ داخل کرنے والوں کی چٹھیاں آرہی ہیں کہ تم ہمارے روپیہ کے ذمہ وار ہو۔میں اب بھی زید اور بکر کو دیانتدا رہی سمجھتاہوں مگر اس وجہ سے دنیا کے کسی قانون کے رُو سے روپیہ کی ذمہ واری مجھ پر عائد نہیں ہو سکتی۔
ہو سکتاہے زید دیانت دار ہو مگر اسے کام کا تجربہ نہ ہو اور اس وجہ سے فائدہ نہ ہو اور اگر تجربہ بھی ہوتو ایسی مشکلات پیش آجائیں کہ کام نہ کر سکے مگر باوجود اس کے سارا الزام مجھ پر عائد کیا گیااور اس وجہ سے بعض لوگ مرتد ہو گئے ہیں جن لوگوں کی تربیت کا یہ حال ہو ان سے روپیہ لے کر کسی تجارتی کام پر لگانا کس قدر خطرناک نتائج پیدا کر سکتاہے۔ یہ کہنا کہ جن لوگوں کو روپیہ دیا جائے گا وہ ہمارے مقرر کردہ رجسٹر پر حساب رکھیں گے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ٹیکس کے لیے رجسٹر مقرر ہیں۔مگر خیانت کرنے والے خیانت کر ہی لیتے ہیں پھر دیانتداری ہر جگہ کامیاب نہیں ہوا کرتی۔نقصان بھی اُٹھانا پڑتاہے۔ پس ہمارا دوسروں سے روپیہ لے کر تجارت کے لیے دینے کا یہ مطلب ہو گا کہ اگر نقصان ہوا تو اعتراض کرنے والوں میں اضافہ ہو جائے گا اس وجہ سے ہم اس کام کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔
اس کی بجائے اگر وہ یہ کرتے کہ بجائے روپیہ لے کر تجارت کے لیے دوسروں کو دیں اور بعض خرابیوں کا ہتھیار بن جائیں۔وہ یہ کریں جو مہذب گورنمنٹیں کر رہی ہیں کہ تجارت کے متعلق اطلاعات بہم پہنچائیں۔مثلاً یہ کہ کون کون سی تجارت کو فروغ ہو رہا ہے اور کس کو تنزل۔یہ باتیں مختلف ذرائع سے معلوم ہو سکتی ہیں۔ اگر ہمارا محکمہ تجارت اس طرح کرے یعنی تجارتی معلومات بہم پہنچائے اور پھر لوگوں سے کہے اطلاعات ہم بہم پہنچاتے ہیں تم تحقیقات کر کے روپیہ لگاؤ جس کے ذمہ وار تم خود ہو گے۔تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتاہے مثلاً بنگال میں بٹن اور سیاہی ،دیا سلائی اور صابن کی تجارت بہت ترقی کر رہی ہے اور باہر کی ان چیزوں کی تجارت ٹوٹ رہی ہے۔ یہاں سیاہی ایسی بنتی ہے کہ باہر سے کم آتی ہے۔ اسی طرح بٹن اتنے سستے بنتے ہیں کہ بیرونجات کی یہ تجارت ٹوٹ رہی ہے۔ صابن کی 60فیصدی تجارت بیرونی چھین لی گئی ہے۔ دیا سلائی کی بیرونی تجارت بھی ٹوٹ رہی ہے۔ اب ان کے متعلق معلومات بہم پہنچائے جائیں۔ پھر یہ بتانا چاہیے کہ کوئی کام ناواقفیت کی حالت میں نہیں کرنا چاہیے۔ فلاں فلاں کا رخانے سے یہ کام سیکھے جا سکتے ہیں ان سے کام سیکھ کر کیا جائے یا خود لوگوں کو بھیج کر کام سکھلائیں۔یہ ایسا کام ہے کہ اس طرح تھوڑے عرصہ میں جماعت میں تجارتی روح پیدا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح تجارتی تعلیم اور تجارتی اصول سے جماعت کو واقف کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح جو تجارتیں فروغ حاصل کر رہی ہیں ان کے کارخانوں میں کام کرنے سے بہت فائدہ حاصل ہو سکتاہے۔جماعت کے اکثر لوگ چونکہ تجارت سے نا واقف ہیں اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ تجارت کس طرح کرنی چاہیے۔وہ کہتے ہیں جو دیانتدار ہے ضرورہے کہ نفع بھی حاصل کرے مگر ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ فلاں دیانتدار ہے آگے ممکن ہے ہمارے اندازہ میں بھی 60فیصدی درست ہو اور40فیصدی غلط۔
میرے نزدیک محکمہ تجارت کو ان امور کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔تاکہ عزت بھی محفوظ رہے اور جماعت میں تجارت کی طرف توجہ اور ہیجان زیادہ پیدا ہو۔‘‘
جواب دیں