حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1927ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’جماعت میں سے سستی اور کاہلی کو دور کیا جائے۔سستی سے قوموں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ اسلامی طریق یہ ہے کہ کسی کو بے کار نہیں رہنے دینا چاہیے۔سیکرٹری صاحبان اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی احمدی بے کار نہ رہے جن کو کوئی کام نہ ملے انہیں مختلف پیشے سکھلا دیے جائیں۔اگر کوئی شخص مہینہ میں دو روپیہ ہی کما سکتاہے تو وہ اتنا ہی کمائے کیونکہ بالکل خالی رہنے سے کچھ نہ کچھ کما لینا ہی اچھا ہے۔دیکھو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کس شان کے انسان تھے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گھاس کاٹ کر لاتے اور اسے فروخت کرتے تھے۔تو کوئی کام جس سے کسب حلال ہو کر نے میں عار نہیں ہونی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی احمدی بیکار اور سست نہ ہو……
اقتصادی ترقی کی جان
اس سال جو تحریکیں کی گئیں ان میں سے ایک کے متعلق آئندہ کے لیے بھی خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ تحریک چھوت چھات کی ہے۔اس کے متعلق میں نے عورتوں میں بھی بہت زور دیا ہے اور اب آپ لوگوں کے سامنے بھی اس کا ذکر کرتاہوں۔یہ تحریک مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کی جان ہے۔علاوہ ازیں مذہبی طور پر بھی یہ بڑااثر رکھتی ہے۔ ملکانوں میں ایک بہت بڑا ظلم ہندو پرچارکوں نے یہ بھی کیا کہ وہ انہیں بتاتے تھے کہ دیکھو مسلمان ہم سے ادنیٰ ہیں اور ہم ان سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ہم ان کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی چیز نہیں کھاتے مگر وہ ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھالیتے ہیں ۔اس پر ہزاروں ملکانے اس لیے مرتد ہوگئے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر اعلیٰ ہو جائیں گے۔مسلمانوں نے سات سو سال تک ہندوؤں کا لحاظ کیا ۔مسلمان جب بادشاہ تھے اُس وقت بھی انہوں نے درگزر کیا اور کہا ہندو اگران کے ہاتھ کا نہیں کھاتے تو نہ کھائیں مگر اب مسلمان ہندوؤں کے اس طرز عمل کی وجہ سے قلاش ہو گئے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسلام کی خدمت کے لیے پچیس لاکھ روپیہ بھی جمع نہیں ہو سکتا۔کیوں؟اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس روپیہ ہے نہیں۔مسلمانوں میں کئی لوگ لاکھوں ہزاروں کی جائیدادیں رکھنے والے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کے مقروض ہیں پس جب کہ مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہندو چھوت چھات کی وجہ سے اپنی برتری جتلا کر ناواقف اور جاہل مسلمانوں کو مرتد کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ مسلمان اس طرف متوجہ ہوں۔پس میں دوستوں سے امید کرتاہوں کہ وہ اس تحریک کو خصوصیت سے جاری رکھیں گے اور ہر جگہ ہر مسلمان کے کان میں یہ بات ڈال دیں گے کہ اس تحریک پر عمل کرنے سے تمہار اہی فائدہ ہے۔ہماری جماعت میں تو تاجر پیشہ لوگ بہت کم ہیں زمیندار اور ملازمت پیشہ زیادہ ہیں اس وجہ سے چھوت چھات کی تحریک کے کامیاب ہونے پر دوسرے مسلمانوں کو ہی فائدہ ہو گا۔ کم از کم تین چار کروڑ روپیہ سالانہ مسلمانوں کا اس تحریک پر عمل کرنے سے بچ سکتاہے اور مسلمانوں جیسی کنگال قوم کے لیے اتنا روپیہ بچنا بہت بڑی بات ہے۔میں نے عورتوں کو بتایا تھا کہ یہاں قادیان میں مسلمان مٹھائی والا کوئی نہ تھا اس لیے ہم نے مٹھائی خریدنا بند کر دیااور سات سال تک یہ بندش رہی۔ یہ بتا کر میں نے ان کو یقین دلایا کہ اتنا عرصہ میں کوئی ایک آدمی بھی مٹھائی نہ خریدنے کی وجہ سے نہ مرا۔نہ ہمارے بچوں کی صحت کو اور نہ ہماری صحت کوکوئی نقصان پہنچا۔بلکہ فائدہ ہی ہوا کہ پیسے بچ گئے۔میں سمجھ نہیں سکتا کھانے پینے کی چیزیں غیر مسلموں سے نہ خریدنے میں کون سی مصیبت آجاتی ہے۔پوری کچوری نہ کھائی روٹی کھالی۔ کیا ہندوؤں کی بنائی ہوئی کچوری میں اتنا مزا ہے کہ بے شک دین جائے غیرت جائے مگر پوری کچور ی نہ جائے۔میں اپنی جماعت کے لوگوں کو خصوصیت سے یہ تحریک کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی چھوئی ہوئی چیزیں اس وقت تک نہ کھانی چاہییں جب تک ہندو بھی علی الاعلان عام مجلسوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے لے کر وہ چیزیں نہ کھائیں۔ہم ضدی نہیں، ہم کسی کے دشمن نہیں،ہم بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنا مال بچانا چاہتے ہیں اپنی قوم کو بچانا چاہتے ہیں۔چاہیے تو یہ کہ جس طرح ہندو مسلمانوں سے سات سو سال تک کھانے پینے کی چیزیں نہیں لیتے رہے اس طرح مسلمان بھی سات سو سال تک ان سے نہ لیں اور ہندو مسلمانوں سے لیتے رہیں تب مساوات ہو گی مگر ہم یہ کہتے ہیں جس طرح ہندو مسلمانوں سے نہیں خریدتے اسی طرح مسلمان بھی نہ خریدیں ۔اس طرح ایک لاکھ مسلمانوں کے لیے کاروبار نکل آئے گا اور اتنے خاندان چل سکیں گے۔
ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس تحریک پر عمل کرنا چاہیے اور دوسرے لوگوں سے کرانا چاہیے۔ یہ ہمارے فائدہ کی بات نہیں اگر وہ عمل کریں گے تو ہم پر احسان نہیں کریں گے انہی کو فائدہ پہنچے گا۔
مسلمانوں کے آپس میں تعاون کی ضرورت ہے
ایک اور بات جو اس سال کے پروگرام میں رکھنی چاہیے وہ مسلمانوں کا آپس میں تعاون ہے یعنی جہاں مسلمان سودا بیچنے والے ہوں وہاں ان سے خرید ا جائے۔ میں نے دیکھا ہے اس سال کی تحریک کے ماتحت سینکڑوں نہیں ہزاروں دکانیں نکلیں۔ ایک دوست نے بتایا ایک جگہ مسلمانوں کے دکانیں کھولنے کی وجہ سے 35ہندودکانوں کا دیوالیہ نکل گیا او ر ایک کارخانہ فیل ہو گیا جو ایک مسلمان نے خرید لیا۔ایک جگہ کے دوست سے معلوم ہوا کہ ایک شہر میں ایک دکاندار کو جب معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہے تو اس نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ کی جماعت کی مہربانی ہے کہ ہماری دکانیں بھی اب چلنے لگی ہیں پہلے کچھ بِکری نہ ہوتی تھی مگر اب خوب ہوتی ہے ۔پس مسلمان دکانداروں کی طرف مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہیے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کا بائیکاٹ کیا جائے بائیکاٹ کرنا ناجائز ہے اور بائیکاٹ کے یہ معنی ہیں کہ کسی صورت میں بھی ان سے کچھ نہیں خریدنا۔مگر جہاں مسلمان دکاندار نہ ہوں وہاں ہندوؤں سے ضرورت کی اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔یا جو چیزیں مسلمانوں کے پاس نہ ہوں وہ ہندوؤں سے لی جا سکتی ہیں مگر تعجب ہے مسلمانوں کو بائیکاٹ کا لفظ ایسا پسند آیا ہوا ہے کہ بائیکاٹ کرتے تو نہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔
میں جب اس سال شملہ گیا تو گورنر صاحب پنجاب سے میرا ملنے کا ارادہ نہ تھا مگر چیف سیکرٹری صاحب گورنر پنجاب کی چٹھی آئی کہ واپس جانے سے پہلے گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں۔میں جب ان سے ملنے کے لیے گیا تو انہوں نے چھوٹتے ہی تحریک چھوت چھات کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہاکہ آپ کی جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک شروع کر رکھی ہے میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے نہ ہم نے بائیکاٹ کرنے کے لیے کہااور نہ ہماری جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک کی۔ہم نے جو کچھ کہا وہ صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تاکہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے۔آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد گورنر صاحب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ بائیکاٹ نہیں ہے اور اس تحریک میں کوئی حرج نہیں۔پس یاد رکھو بائیکاٹ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔یہ نہ شرعاًجائز ہے نہ قانوناً نہ عدلاً اور جب کہ مسلمان بائیکاٹ کر ہی نہیں رہے تو اس لفظ کو کیوں استعمال کرتے ہیں۔جو کچھ کرنا چاہیے وہ اپنے بھائیوں کا تعاون اور امداد ہے اوراس سے کوئی گورنمنٹ روک نہیں سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں نے کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں نکالیں وہاں ہندوؤں نے شور مچا دیا کہ مسلمان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدتے اور گورنمنٹ کو لکھا کہ اس قسم کی تحریک جاری کرکے منافرت پیدا کی جا رہی ہے۔میرے سامنے یہاں کے لوگوں نے یہ بات پیش کی میں نے انہیں کہا تم بھی کیوں اس قسم کی درخواستیں گورنمنٹ کو نہیں بھیجتے کہ ہندو ہماری دکانوں سے کچھ نہیں خریدتے۔آخر تمہیں گورنمنٹ اس کا کوئی جواب دے گی اگر وہ یہ جواب دے کہ ہندو چونکہ مسلمان کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لیے نہیں خریدتے تو تم بھی یہی جواب دے سکتے ہو کہ ہم بھی ہندوؤں کے ہاتھ کی اشیاء نہیں کھاتے اس لیے نہیں خریدتے تو جہاں مسلمانوں کی دکانیں نکلیں وہ اس قسم کی درخواستیں حکام کو ضرور بھیجیں۔اس طرح ہندوؤں کی درخواستوں کا جواب خود بخود ہوجائے گا۔
تجارت میں ترقی کا ایک طریق
تجارت میں ترقی کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت فیصلہ کرے کہ فلاں چیز اپنی جماعت کے لوگوں کی ساختہ ہی لیں گے ۔مثلاً جرابیں اپنی جماعت کی بنائی ہوئی یا ان لوگوں کی بنائی ہوئی جو اس تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اور ہمارے ساتھ تعاون کریں گے ان سے لیں گے۔تین سال تک اگر یہی طریق جاری رکھا جائے تو اس چیز کے فروخت کرنے والے تاجر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اورپھر بغیر خاص مدد کے دوسروں کو زِک دے سکتے ہیں۔‘‘
جواب دیں