اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

تجارت کی ترقی باہمی تعاون سے مشروط ہے

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ28؍دسمبر1930ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’دنیوی ترقی کے لیے بہترین چیز تعاون ہے۔یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی۔لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے۔جب سارا یورپ اکٹھا ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے۔اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو۔ اس کاجو نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہے۔پس تعاون سے جو نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے۔اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لیے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتاہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے۔ اس لیے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے اس کے لیے سرِدست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں۔اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتاہے ۔مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان،آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتاہے اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتاہے۔سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں۔اس لیے اس سال کے لیے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحبِ رسوخ ہوں ، سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں،کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں،کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں۔وہ یہ مدنظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے۔میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنا لیں۔جس کے صرف وہی حصہ دارہوں جو یہ کاروبار کرتے ہیں تاکہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے۔اس وقت مَیں صرف یہ تحریک کرتا ہوں۔ جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کرلیں گے،اس وقت اخبار میں مَیں اعلان کر دوں گا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے۔اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتاہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہو گی۔

تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز

اس طرح ایک کمپنی تعاون کرنے والی قائم کرنی چاہیے جس میں تاجر،زمیندار اوردوسرے لوگ بھی شامل ہوں۔میں نے اس کے لیے کچھ قواعد تجویز کیے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفراﷲ خان صاحب نے پسند کیا تھا۔ اب ان کو شائع کر دیا جائے گا۔یہ اس قسم کی کمپنی ہو گی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لیے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے۔اس طرح جو روپیہ جمع ہو گا اُس سے رہن با قبضہ جائیداد خریدی جائے گی۔اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لیے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن باقبضہ جائیداد خرید لی جائے گی۔جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتاہے ۔اس طرح جو نفع حاصل ہو گا اس کا نصف یا ثُلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا۔جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہو گی۔میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتاہوں۔پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی۔دوست اس کے لیے تیاری کررکھیں۔‘‘

(فضائل ِقرآن(۳)۔انوار العلوم جلد 11صفحہ559تا561)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے