حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ13؍مارچ1931ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ جماعت میں کوئی نکما نہ رہے اور کوئی آدمی ایسا نہ ہوجو کمائی نہ کرتاہو۔بظاہر تو یہ معلوم ہوتاہے کہ جو شخص کچھ کماتانہیں وہ کھاتا کہاں سے ہے لیکن اگر غورکیاجائے تو معلوم ہو گا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو قطعاًکوئی کمائی نہیں کر رہے اس لیے میں امور عامہ کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ ایک ایسی مردم شماری کرے جس میں ہر آدمی کا نام ہو، اس کی قابلیت کہ وہ کیا کام جانتاہے اور کیا کام کرتاہے یا بیکار ہے۔ تو تمام تفصیلات درج ہوں۔خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت سب کے متعلق یہ معلومات بہم پہنچائی جائیں۔خاوند والی عورت کے اخراجات کا کفیل تو اس کا خاوند ہوتاہے مگر بیوہ کے گزارہ کی صورت معلوم کرنی ضروری ہے پس ہر بالغ مرد بیوہ عورت یا بن بیاہی جوان لڑکی کے متعلق یہ معلومات امور عامہ حاصل کرے۔ناکارہ لوگ قوم کی گردن میں پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں اور قوم کی ترقی میں ایک روک ہوتے ہیں۔اگر انسان تھوڑا بہت بھی کام کرے تو وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتاہے اور قوم کی ترقی میں بھی کسی حد تک ممد ہو سکتاہے۔ اس طرح کی مردم شماری سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ہاں کتنے پیشے جاننے والے لوگ ہیں۔بعض موزوں آدمیوں کو تعاون سے مدد دی جاسکتی ہے ۔اگر کسی تاجر کی تجارت کسی وجہ سے تباہ ہو گئی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو اسے نقد روپیہ دینے سے اس کی عادت کے خراب ہونے کا احتمال ہوتاہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر نقصان ہو گیا تو پھر بھی روپیہ مل سکتاہے لیکن اگر اسے تعاون کے ذریعہ مدد دی جائے تو وہ سنبھل جاتاہے ۔
بوہروں کی ترقی کا راز
بمبئی کے بوہرے اسی طرح کرتے ہیں اگر ان میں سے کسی کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے تو سارے مل کر ایک چیز کی تجارت اس کے حوالے کر دیتے ہیں مثلاً وہ فیصلہ کر دیں گے کہ دیا سلائی کی ڈبیہ سوائے فلاں کے کوئی نہ بیچے اور جب کوئی گاہک ان کے پاس آئے تو اس کی دکان پر بھیج دیتے ہیں اور اس طرح ایک مہینہ کے اندر اندر وہ کافی سرمایہ جمع کر کے پھر ترقی کر سکتاہے۔اسی طرح اگر ہماری جماعت کے کسی تاجر کا نقصان ہو جائے تو بجائے اس کے کہ سلسلہ کے روپیہ سے اُسے مدد دی جائے ایسا انتظام کر دیا جائے کہ وہ خود بخود اپنے آپ کو سنبھال سکے۔اسے کہہ دیا جائے جو کچھ تمہارے پاس ہے اس سے فلاں چیز کا کاروبار شروع کر دو۔یا اگر کچھ بھی نہیں تو تمہیں اُدھار سودا لے دیتے ہیں اور تم مثلاً آٹا فروخت کیا کرو ادھر سب سے کہہ دیا جائے کہ پندرہ روز تک آٹا اسی سے خریدیں اور کوئی دکاندار آٹا فروخت نہ کرے۔اسی طرح دوسرے دکانداروں کو اگرچہ گاہکوں سے چھٹی مل جائے گی مگر ان کا آٹا پھر بھی فروخت ہوتا رہے گا کیونکہ بیچنے والا انہیں سے لے کر بیچے گااور آٹا اگر انیس سیر کا بکتاہے تو وہ پندرہ دن تک ساڑھے اٹھارہ سیر بیچے اور اس طرح ہر روپیہ،آدھ سیر کی بچت سے پندرہ روز میں اسے کافی سرمایہ مل جائے گااور یہ عملی قدم اٹھا کر کمزوروں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتاہے اور پھر جو کام نہیں جانتے انہیں کوئی مفید پیشہ سکھایا جا سکتاہے اور جن کے پاس کوئی کام نہیں ان کے لیے کام کا بندوبست کیا جا سکتاہے ۔……
جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے
میرا منشا ہے کہ اب جو صرف سلسلہ کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے آئندہ اس کا سلسلہ بند کر دیا جائے اور یہ شرط کر دی جائے کہ جو کوئی جتنی امداد طلب کرے اتنا خود بھی کمائے۔مثلاً ایک مستحق شخص اگر پانچ روپے طلب کرتاہے تو ہم اسے کہیں ہم پانچ روپے تو دیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اتنی ہی کمائی تم خودبھی کرو ۔اس طرح تمہارے پاس دس روپے ہو جائیں گے اور تم خود آرام پاؤ گے ۔غرض یہ کہ کوشش کی جائے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو اور اپنے لیے اپنے خاندان کے لیے بلکہ دنیا کے لیے مفید ثابت ہو۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم میں کام کرنا کوئی عیب نہ تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی تھے مکہ کے رؤ سا میں سے تھے اور معزز ترین خاندان کے فرد تھے۔مگر باوجود اس کے جب آپ پہلے پہل مدینہ میں گئے تو دیگر صحابہ رضی اﷲ عنھم کے ساتھ گھاس کاٹ کر بیچا کرتے تھے۔مگر کیا آج کوئی معمولی زمیندار بھی ہے جو ایسا کرنے کے لیے تیار ہو ۔ وہ بھوکا مرنا پسند کرے گا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی مکہ کے رئیس اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے یہ کام کیااور اصل اسلامی روح یہی ہے کہ کوئی شخص نکما نہ ہو۔چاہے علمی کام کرے جیسے مدرس، مبلغ وغیرہ اور چاہے ہاتھ سے کام کرے جیسے لوہار،ترکھان ،جولاہا وغیرہ پیشے ہیں۔
کوئی پیشہ ذلیل نہیں
دراصل کوئی پیشہ ذلیل نہیں۔ ہندوستانیوں نے اپنی بیوقوفی سے بعض پیشوں کو ذلیل قرار دے دیا اور پھر خود ذلیل ہوگئے۔انگریز آج کس وجہ سے ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو فن بافندگی ہی ان کی اس عظمت اور شوکت کا موجب ہے۔مگر ہم یہ کہہ کر کہ جو لاہے کا کام ذلیل ہے خود محکوم اور ذلیل ہو گئے۔پس ہاتھ سے کام کرنا ذلیل فعل نہیں ذلیل کام صرف وہ ہیں جو کمینہ ہیں۔مثلاً کنچنی کا پیشہ یا گانے والی رنڈیاں،ایکٹر،میراثی یا ڈوم وغیرہ۔باقی اگر کوئی نائی ہے اور محنت کرتاہے تو وہ ذلیل کیوں ہو گیا۔وہ اس سے زیادہ شریف ہے جو کسی اعلیٰ قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود محنت نہیں کرتا اور نکما ہے۔اگر کوئی جولاہا ہے تو وہ دوسروں کے ننگ ڈھانکتاہے وہ خود کس طرح ذلیل ہو سکتاہے۔ اسی طرح لوہار، ترکھان کے پیشے بھی ذلیل نہیں یہ کیسے ہو سکتاہے کہ اگر کوئی ہل کو پکڑ کر جانوروں کے پیچھے ٹخ ٹخ کرتا پھرے تو معزز ہو لیکن اگر ہتھوڑا چلائے تو ذلیل ہو جائے یا اگر کوئی دفتر میں کام کرے تو معزز ہو لیکن اگر کپڑا بُنے تو ذلیل ہو جائے۔یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے۔جب وہی دماغ وہی جسم ہے تو پیشہ اختیار کر لینے سے ذلیل کیوں ہو گیا۔ ایک شخص اگر نکما بیٹھا رہے لوگوں کا صدقہ کھائے اور مانگتا رہے تو وہ معزز ہو لیکن اگر کوئی کھڈی پر کپڑا بُنے تو وہ ذلیل ہو جائے۔یہ عجیب قسم کی ذلت اور عزت ہے جسے کوئی بیوقوف ہی سمجھے گاہماری عقل میں تو یہ آتی نہیں۔پس ہماری جماعت میں احساس ہونا چاہیے کہ محنت کرنا بُرا نہیں اپنے لیے،اپنے خاندان کے لیے،اپنی قوم کے لیے،دین کے لیے اور خدا کے لیے کوئی کام کرنا ذلّت کا موجب نہیں بلکہ اسی میں عزت ہے۔اس لیے جو لوگ کوئی نہ کوئی کام کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اور ہر حال میں مفید بننے کی کوشش کریں۔میری غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد دین اور دنیا کے لیے مفید بنیں۔‘‘
جواب دیں