اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

زمیندار وں کو ترقی کرنے کے لیے ایک نصیحت

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 3؍اپریل1931ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا۔
’’ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ میں نے اندازہ لگایا ہے موجودہ حالات میں زمیندار لوگ زمینوں کی آمدنی پر گزارا نہیں کر سکتے۔عام طور پر ایک زمیندار کے پاس تین چار پانچ گھماؤں زمین ہوتی ہے ۔بڑے زمینداروں کے پاس سو، دو سو، تین سو، چار سو گھماؤں ہو سکتی ہے مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں اور اوسط زیادہ سے زیادہ دس گھماؤں کی ہے۔اس میں سارا سال محنت کر کے اگر ہر سال گیہوں ہی بوئی جائے اور فرض کر لیا جائے کہ فی گھماؤں دس من اوسط ہے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے تو سو من غلہ حاصل ہو گااور آجکل کے ریٹ کے مطابق اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دو سو روپیہ ہو گی۔اس میں زمیندار کے کمین بھی شامل ہوں گے، گورنمنٹ کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا، بیلوں کا خرچ بھی برداشت کرنا ہو گا۔یہ سب اخراجات لگاکر زیادہ سے زیادہ سو روپیہ بچے گا۔گویا آٹھ سوا آٹھ روپے ماہوار آمدنی ہو گی۔اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ جس ملک کے لوگوں کی آمدنی کی یہ اوسط ہو وہ کس طرح ترقی کر سکتاہے۔ایک زمیندار جو سارا سال خود محنت کر تاہے۔ اس کی بیوی بچے اس کی محنت میں مدد کرتے ہیں اور پھر اسے سوا آٹھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک معمولی مزدور جس کی بیوی بچے آرام سے گھر میں رہتے ہیں جو کوئی سرمایہ خرچ نہیں کرتا ۔وہ کم از کم بیس روپے ماہوار کماتاہے۔مگر ایک زمیندارجو اپنی بڑی شان سمجھتاہے 22،23سو روپیہ کا سرمایہ زمین اور اس کے متعلقات کی شکل میں خرچ کرتاہے، بیوی بچوں کو اپنی محنت مشقت میں شریک رکھتاہے جو دن رات کام کرتاہے سوا آٹھ روپے ماہوار کماتا ہے۔
پس زمیندارہ کرنے والے لوگ قطعاً ترقی نہیں کر سکتے اور جب تک مسلمان اسے چھوڑ کر دوسرے کاموں کو اختیار نہ کریں گے ترقی نہیں کر سکیں گے ۔پھر آج جس کے پاس آٹھ دس گھماؤں زمین ہے اس کی اولاد میں تقسیم ہو کر وہ اور بھی تھوڑی حصہ میں آتی ہے اس طرح کہاں ترقی ہو سکتی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ بھی اِسی حالت میں رہے تو جماعت ترقی نہیں کر سکے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے گزارا چل سکے۔زمین اپنے میں سے کسی ایک کے سپرد کر دی جائے اور باقی کے حصہ دار دوسرے کاموں کی طرف توجہ کریں۔……

مختلف پیشے سیکھے جائیں

ہر جگہ کے لوگوں کو اندازہ لگانا چاہیے کہ ان کے پاس گزارہ کے لیے کافی زمین ہے یا نہیں ۔اگر کافی نہ ہو تو اپنی اولاد میں سے کسی ایک دو کے سپردزمین کر کے باقیوں کو مختلف کام سکھلائیں کسی کو لوہار،کسی کو جولاہا،کسی کو صنّاع،کسی کو تاجر بنائیں۔اس طرح ترقی کر سکیں گے۔

کوئی پیشہ ذلیل نہیں

سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہندوستان میں پیشوں کو ذلیل سمجھا جاتاہے اور زمیندارہ کو معزز پیشہ قرار دیاجاتاہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک لوہار،ایک ترکھان،ایک جولاہا جو کام کرتاہے اس میں ذلت کیا ہے۔ ان کاموں کو ذلیل قرار دینے والے کبھی غور نہیں کرتے کہ انگریزوں کی ساری ترقی کی بنیاد یہی پیشے ہیں اور وہ انہی کے ذریعہ ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اہل ہند اس لیے ذلیل ہو گئے کہ انہوں نے پیشوں کو ذلیل سمجھااور وہ لوگ معززبن گئے جنہوں نے موچی کا کام کیا ،جولاہے کا کام کیا،لوہار کا کام کیا،پس اس خیال میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے کہ کوئی پیشہ ذلیل ہے اور مختلف پیشوں اور تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

کم سرمایہ سے تجارت شروع کرنی چاہیے

تجارت کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے اور سرمایہ ہمارے پاس نہیں اس لیے ہم تجارت نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ایک ہندو نے بتایا تجارت ڈیڑھ پیسہ سے شروع کرنی چاہیے۔ فرماتے ایک شخص کو دیکھا کہ جو لکھ پتی تھا مگراس کا بیٹا پکوڑوں کی دوکان کرتاتھا۔پوچھایہ کیا توکہنے لگا اگر ابھی اسے سرمایہ دے دیا جائے تو ضائع کر دے گا۔اب اتنے کام سے ہی اسے تجربہ حاصل کرنا چاہیے یہ اسی سے اپنی روٹی چلاتاہے۔

غیر ممالک میں جانامالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے

پھر غیر ممالک میں جانا بھی ترقی کاایک ذریعہ ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ عام طور پر اپنے ملک میں ہی پڑے رہنے کے عادی ہیں اس وجہ سے ترقی سے بھی محروم ہیں ۔امریکہ ،یورپ، آسٹریلیا وغیرہ کے لوگ دور دراز ملکوں میں جاتے ہیں اور قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ امریکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ کہتے یہ ہیں کہ اپنے ملک سے باہر نہ جائیں خواہ بھوکے ہی مریں۔قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ دنیا میں پھرو۔ پس جنہیں اپنے ملک میں ترقی کی صورت نہ نظر آئے انہیں دیگر ممالک میں جانا چاہیے۔اس طرح بہت سے لوگ ترقی کر سکتے ہیں۔ہمارے ایک جالندھر کے دوست آسٹریلیا میں پھیری کے لیے جاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کم از کم پندرہ روپیہ روزانہ کی آمد ہوتی ہے۔ وہ وہاں سے کماکر آجاتے اور پھر گھر میں رہتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو باہر بھی نکلنا چاہیے۔یہ مالی اور دماغی ترقی کا ذریعہ ہے۔

باہمی تعاون

پھر ایک نہایت ضروری بات باہمی تعاون ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کانگرس والوں نے باہمی تعاون سے کس طرح گورنمنٹ کو نقصان پہنچایا ۔اسی طرح فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتاہے مگر ہماری جماعت نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی۔ہمارے سامنے کئی سکیمیں آتی ہیں، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں مگر کوئی کام نہیں ہوتا۔میرے سامنے ایک سکیم ہے جس کا میں نے سالانہ جلسہ پر بھی ذکر کیا تھا اور وہ تاجروں اور صناعوں کے متعلق ہے۔یعنی یہ کہ جو چیز ہماری جماعت کے لوگ بنائیں ا س کے متعلق ان احمدی تاجروں کو جو وہ چیز فروخت کرتے ہوں لکھا جائے کہ ان سے خریدو اور اس طرح باہمی تعاون کرو۔اس وقت میرے سامنے ایک عزیز بیٹھا ہے اس کے والد صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا۔
چوہدری نصراﷲ خان صاحب مرحوم یہاں ایک دفعہ آئے اور حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں اُنہوں نے یہاں کپڑے بنوائے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ یہاں کیوں کپڑے بنواتے ہیں؟ کہنے لگے میں ایک سال کے لیے کپڑے یہاں سے ہی بنوایا کرتاہوں۔تاکہ یہاں کے کپڑا فروخت کرنے والوں اور درزیوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ جائے۔یہ ان کے دل میں آپ ہی آپ تحریک ہوئی اور میرے نزدیک ہر احمدی میں یہی روح ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچائے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ اس روح کے ماتحت کام کریں تو ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اس قدر مضبوط ہو سکتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنی طرف کھینچ سکیں۔اگر جماعت کے ایسے لوگوں کی فہرستیں بن جائیں جن سے معلوم ہو کہ کون سی چیز کہاں کے احمدی مہیا کر سکتے ہیں توپھر جسے اس کی ضرو رت ہو ان سے منگا سکتے ہیں اور اس طرح بہت فائدہ ہو سکتاہے اور بہت سے لوگوں کے لیے کام نکل سکتاہے اور ان کا گزارہ بہت اچھا چل سکتاہے۔

مشترکہ کام جاری کیے جائیں

ایک صورت اقتصادی ترقی کی یہ ہے کہ جماعت کی طرف سے اشتراکی کام جاری کیے جائیں۔ ہم نے اسی غرض سے ایک سٹور جاری کیا تھا مگر اس سے ایسا دھکا لگاکہ پھر ہوش نہ آئی۔حالانکہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نئے سرے سے اور کام نہ کرتے اور نقصان سے بے دل ہو کر بیٹھ رہتے۔انگلستان والوں نے جب ہندوستان میں تجارت شروع کی تو کئی سال تک بڑا نقصان اُٹھاتے رہے مگر انہوں نے کام نہ چھوڑا اور آخر ہندوستان لے ہی لیا۔پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک دفعہ نقصان ہونے کی وجہ سے ہم کوشش جاری نہ رکھیں۔سٹور کے متعلق یہ غلطی ہوئی کہ بہت سا سرمایہ جمع کر لیا گیا جو استعمال نہ کیا جا سکا یہاں ایسی دوکان چل سکتی ہے جس کا سرمایہ سال میں دو تین دفعہ چکر کھا لے۔سٹور میں 80 ہزار کا سرمایہ لگایا گیا جس کے لیے ضروری تھا کہ کم از کم اڑھائی لاکھ کی سالانہ بِکری ہوتی مگر یہ ہونہیں سکتی تھی ۔اس غلطی کی وجہ سے ناکامی ہوئی۔دوسرا نقص یہ ہوا کہ جنہوں نے روپیہ دیا انہوں نے اپنا سارے کا سار ا روپیہ دے دیا۔بعض لوگوں کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا۔انہوں نے اپنا سارا جمع کردہ روپیہ لگادیااورپھر انہیں روپیہ ملنا مشکل ہو گیااور اس طرح ان کی نہایت نازک حالت ہو گئی۔اگر کام ایسی طرز پر شروع کیا جائے کہ تھوڑا سرمایہ ہو جو ساری جماعت پر پھیلا کر جمع کیا جائے ۔مثلاً دس دس روپیہ کا حصہ رکھا جائے اور کوئی جس قدر حصے چاہے خرید لے۔مگر یہ بات مدنظر رکھے کہ اگرنقصان ہو تو برداشت کر لیا جائے گا۔تو وہ حالت پیدا نہ ہو گی جو سٹور کے فیل ہونے سے ہوئی۔اول تو امید ہے کہ اب ہم انشاء اﷲ نقصان نہ اُٹھائیں گے اور اگر اُٹھائیں گے تو پہلے نقصان سے جو سبق حاصل ہوا ہے اُسے یاد رکھ سکیں گے۔

جُرابوں کا کارخانہ

اس قسم کے کام کے لیے پچھلے مہینہ ایک تجویز پر غور کیا گیا اور مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ کو اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے لاہور اور لدہانہ بھیجااور وہ کام یہ ہے کہ جُرابوں وغیرہ کا کارخانہ جاری کیا جائے ۔درد صاحب نے بتایا کہ ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے بتایا یہ کامیاب کام ہے۔اس سے25 فیصدی نفع حاصل ہواہے۔ہمارا ارادہ ہے کہ اس کے لیے جو سرمایہ جمع کیا جائے اسے اس طرز پر جماعت میں پھیلائیں کہ کوئی شخص اتنے حصے نہ لے کہ اگر خدانخواستہ گھاٹا ہو تو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے۔یہ سکیم امورعامہ والے پیش کریں گے۔اسے اس طرح پیچھے نہ ڈالا جائے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ سات ہزار کے سرمایہ سے یہ کارخانہ چل سکتاہے اور آئندہ اور زیادہ وسیع کیا جا سکتاہے۔صحیح اعداد ناظر صاحب امور عامہ پیش کریں گے۔

بااثر لوگ بطور شغل کوئی پیشہ اختیار کریں

ایک صورت اور بھی ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ

ہر اچھی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے۔جہاں اسے پائے لے لے۔اس کے مطابق ایک سبق ہم گاندھی جی سے بھی لے سکتے ہیں۔ان کی غرض تو کھدر بنانے سے یہ ہے کہ انگریزوں کو نقصان پہنچائیں۔لیکن ہم اس قسم کی تحریک اس لیے جاری کر سکتے ہیں کہ جماعت میں پیشوں سے جو نفرت ہے وہ دور ہو جائے۔ اگر ایسی تحریک ہو کہ جماعت کے بااثر لوگ شغل کے طورپر ان پیشوں میں سے کوئی شروع کر دیں جنہیں ذلیل سمجھا جا تا ہے تو اس طرح لوگوں کے دلوں میں ان کی نفرت دور ہو جائے گی۔مثلاً اگر میں ہتھوڑا لے کر کام کروں ،یا کھڈی پر کپڑا بُنوں تو جو لوگ میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کے دلوں سے ان پیشوں کی تذلیل کا خیال جاتارہے گا۔یورپ میں معزز لوگ اس قسم کا کوئی نہ کوئی شغل اختیار کر لیتے ہیں۔اس سے ورزش بھی ہوتی ہے اور پیشوں سے نفرت بھی دور ہوتی جاتی ہے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1931ء صفحہ17تا22)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے