حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍دسمبر1932ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ مسلمان تجارت کرنا نہیں جانتے۔ وہ بڑا سرمایہ چاہتے ہیں نہ انہیں وہ مل سکتا ہے اور نہ کام کر سکتے ہیں لیکن ہندو تھوڑے سے تھوڑے سرمایہ سے تجارت شروع کر دیتے ہیں اور پھر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے اس طریق عمل کی اصلاح کرنی چاہیے اپنا رویہ بدلنا چاہیے اور ہر حال میں بیکاری سے بچنا چاہیے۔ میرے نزدیک بیکار رہنا خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ ایک سال بھی جو بیکار رہااسے اگر کوئی عمدہ ملازمت مل جائے تو بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکے گا کیونکہ بیکاری کی زندگی انسان کو بالکل نکما کر دیتی ہے اور کوئی کام کرنے کی ہمت باقی نہیں چھوڑتی ۔اس حالت سے بچنے کے لیے چاہیے کہ خواہ کوئی بی اے ہو یا ایم اے ، ایل ایل بی ہو یا بیرسٹر ہو یا ولایت کی کوئی اور ڈگری رکھتا ہو اگر اسے کوئی ملازمت نہیں ملتی یا حسب منشا کام نہیں ملتا تو وہ معمولی سے معمولی کام حتیٰ کہ ایک جگہ سے مٹی اُٹھا کر دوسری جگہ پھینکنا ہی شروع کر دے لیکن بیکار اور نکما ہر گز نہ رہے۔اگر وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھے گا خواہ وہ کام کتنا ہی معمولی ہو تو اس سے اُمید کی جا سکے گی کہ مفید کام کر سکے گا۔
کسی کو بیکار نہ رہنے دیں
پس میں دوستوں کو نصیحت کر تا ہوں کہ اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کے متعلق تحقیقات کریں کہ ان میں سے کتنے بیکار ہیں اور پھر انہیں مجبو رکریں کہ وہ کوئی نہ کوئی کام کیا کریں۔لیکن اگر وہ کوئی کام نہ کر سکیں تو انہیں قادیان بھیج دیا جائے تاکہ یہاں آکر وہ آنریری کام کریں جب تک یہ حالت نہ ہو کہ ہماری جماعت کا کوئی انسان بیکار نہ ہو اس وقت تک جماعت کی اقتصادی حالت درست نہ ہو گی۔
مسلمانوں کے بزرگوں کا طریق عمل
کسی شخص کو کوئی کام کرنے میں کسی قسم کی عار نہیں ہونی چاہیے ۔مسلمانوں میں یہ کتنی خوبی کی بات تھی کہ ان کے بڑے بڑے بزرگوں کے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ رسی بٹنے والایا ٹوکریاں بنانے والا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علماء اور امام عملاً کام کرتے تھے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔میں نے ایک دفعہ تجویز کی تھی کہ ایک کلب بنائی جائے جس کا کوئی ممبر راج کا ،کوئی معمار کا، کوئی لوہار کا کام کرے تاکہ اس قسم کے کام کرنے میں جو عار سمجھی جاتی ہے وہ لوگوں کے دلوں سے نکل جائے اب بھی میراخیال ہے کہ اس قسم کی تجویز کی جائے ۔
دوسروں کی امداد کرو
پھر جہاں میں یہ کہتا ہو ں کہ ہماری جماعت کاہر ایک فر د کام کرے جو بیکار ہے وہ اپنے لیے کام تلاش کرے اگر کوئی اعلیٰ درجے کا کام نہیں ملتا تو ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے میں بھی عار نہ سمجھے۔اگر دوست ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ جماعت میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جائے گی کہ کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔وہاں دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے جولوگ ملازم ہیں انہیں چاہیے کہ دوسروں کو ملازم کرائیں،جو تاجر ہیں انہیں چاہیے دوسروں کو تجارت کرنا سکھائیں، جو پیشہ ور ہیں انہیں چاہیے دوسروں کو اپنے پیشہ کاکام سکھائیں۔یہ صرف دنیوی طور پر عمدہ اور مفید کام نہ ہو گابلکہ دینی خدمت بھی ہو گی اور بہت بڑے ثواب کا موجب ہو گا۔
نقصان سے بچانے کا ایک طریق
ایک طریق کام چلانے کا وہ بھی ہے جو بوہروں میں رائج ہے ۔ان میں سے اگر کوئی بیکار ہو جائے۔ تجارت نہ چلتی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو تو بوہرے اس طرح کرتے ہیں کہ پنچائت کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں فلاں چیز فلاں کے سوا اور کوئی نہ بیچے۔دوسرے دکاندار وہ مال اسے دے دیں گے۔مثلاً دیا سلائی کی ڈبیاں ہیں ۔جب یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ فلاں کے سوا اور کوئی دیا سلائی کی ڈبیاں نہ بیچے تو جتنے بوہروں کے پاس یہ مال ہو گاوہ سب اس کو دے دیں گے۔اس طرح اس کا کام چل جاتاہے۔مگر اس کے لیے بڑی جماعت کی ضرورت ہے ۔جہاں چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہوں وہ اس طرح کر سکتی ہیں کہ ایک دوکان کھلوا دی جائے اور یہ عہد کر لیا جائے کہ تکلیف اٹھا کر بھی سب کے سب اسی سے سودا خریدیں گے۔مسلمانو ں میں تجارت کبھی ترقی نہ کر سکے گی جب تک وہ اس قسم کی پابندی اپنے اوپر عائد نہ کریں گے۔ہماری جماعت اگر اس طریق کو چلائے تو بیسیوں لوگ تاجر بن سکتے ہیں۔
اشیائے ضرورت اپنوں سے خریدیں
پھر قومی نقطۂ نگاہ سے بھی اپنی اقتصادی حالت کا اندازہ کرنا چاہیے اس کے متعلق پہلی نصیحت میں نے یہ کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے مسلمان اپنی ضروریات کی چیزیں مسلمان دکانداروں سے خریدیں اور کھانے پینے کی چیزیں جو ہندو کسی مسلمان سے نہیں خریدتے وہ تو قطعاً مسلمانوں کو ہندوؤں سے نہ خریدنی چاہییں۔یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ وہ چیزیں جو مسلمان کا ہاتھ لگ جانے کی وجہ سے ہندوؤں کے نزدیک ناپاک ہو جاتی ہیں،وہ مسلمان ہندوؤں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی خرید کر استعمال کریں۔کئی دوست اس تحریک پر عمل کرتے ہیں مگر کئی نہیں بھی کرتے اور دوسرے مسلمان تو بالکل بھی نہیں کرتے۔ہماری جماعت کے جو دوست اس پر عمل نہیں کرتے وہ خود عمل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو عمل کرنے کی تحریک کریں اور جہاں جہاں مسلمانوں کی دکانیں نہیں ہیں،وہاں احمدیوں کی دکانیں کھلوادیں اور ان کی مدد اس طرح کریں کہ ضروریات کی چیزیں انہی سے خریدیں۔
مشترکہ سرمایہ سے تجارت
دوسرا طریق یہ ہے کہ مشترک سرمایہ سے کام کیا جائے وہ کام جو افراد نہیں کر سکتے،قوم کر سکتی ہے۔اس سلسلہ میں میں نے مجلس شوریٰ میں یہ تجویز منظور کی تھی کہ جرابیں وغیرہ بُننے کے لیے کمپنی بنائی جائے۔ اس کے کچھ حصے قادیان اور باہر کے لوگوں نے خریدے ہیں۔لیکن کام شروع کرنے کے لیے کم از کم بائیس ہزار روپیہ ضروری ہے۔افسوس کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ حالانکہ مجلس مشاورت میں شریک ہونے والے دوست یہ عہد کر کے گئے تھے کہ ہم اس کمپنی کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں گے اور میں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اس کمپنی کی جرابیں پورے سائز کی نہ ہو ں گی تو خواہ وہ کتنی ہی خراب ہوں ہم وہی پہنیں گے اور ان پر اعلیٰ درجہ کی جرابوں کو ترجیح نہ دیں گے۔ تمام جماعتوں کو چاہیے کہ اس ہوزری فیکٹری کے حصے خریدیں۔ اس رنگ میں عمدگی سے تجارتی کام چلایا جا سکتاہے ۔ہوزری کے کام کو اس لیے چُنا گیا ہے کہ یہ تھوڑے سرمایہ سے چلایا جا سکتاہے۔ جب یہ تجویز کی گئی تھی اس وقت بارہ ہزار سرمایہ کی ضرورت تھی لیکن اب بائیس ہزار کی ہے اور اگر اب بھی کام نہ چلایا گیا تو ممکن ہے پھرپچاس ہزار کی ضرورت پیش آئے۔اگر سرمایہ زیادہ ہو جائے تو اس کام کو اور زیادہ بڑھا یا جا سکتاہے یعنی بُنیانیں اور کپڑا بُننے کا کا م شروع کیا جاسکتاہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کا مسلمانوں کے لیے درد
اس وقت مسلمانوں میں بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اوروہ اُبھرنا چاہتے ہیں مگر ہندوؤں نے تجارت کا ایک ایسا حلقہ قائم کر رکھا ہے کہ مسلمان اُبھر نہیں سکتے۔ہماری جماعت کو خدا نے موقع دیا ہے کہ ہم اپنی تنظیم کے ذریعہ ابھر سکتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو سہارا دے کر کھڑا کر سکتے ہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو اقتصادی طور پر جو کُچلا جا رہا ہے اس کا انسداد ہو جائے، مسلمان محفوظ ہو جائیں اور ارتداد کے گڑھے میں نہ گریں۔ اس کے علاوہ کئی ادنیٰ اقوام مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ کام دو۔ ہم کام کہاں سے دیں جب تک قومی طورپر کام شروع نہ کیے جائیں۔……
نقصان سے مایوس نہیں ہونا چاہیے
ہمارا فرض ہے کہ جماعت کی چاردیواری کو ہر طرف سے مضبوط کریں۔اس کی ایک طرف کی دیوار اقتصادی حالت ہے اسے اگر مضبوط نہ کیا جائے تو سخت نقصان ہو گا۔فی الحال جو چھوٹا سا کام شروع کرنے کی تجویز ہے اس میں احباب کو شرکت اختیار کرنی چاہیے۔جب ہم اس کام میں روپیہ اس نیت سے لگا رہے ہیں کہ جماعت کی طاقت اور قوت بڑھے،جو بے کار لوگ ہیں وہ کام پر لگ جائیں،مسلمانوں کی اقتصادی حالت درست ہو سکے،اچھوت اقوام میں تبلیغ کر سکیں تو انشاء اﷲ اس کمپنی کو کسی صورت میں بھی نقصان نہیں ہوگااور اگر خدا نخواستہ مالی لحاظ سے نقصان ہو تو خدا تعالیٰ دوسری طرح اسے پورا کر دے گا۔بعض لوگ سٹور کے فیل ہونے سے ڈرے ہوئے ہیں۔مگر وہ منافع کے لیے کام شروع کیا گیا تھا اوراب جو کام شروع کیا جانے والا ہے اس کی غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترقی حاصل ہو اور اقتصادی پہلو سے ان کی حفاظت کر سکیں۔پھر ترقی کرنے والی قوم کو اس طرح کی باتوں سے ڈرنا نہیں چاہیے کہ فلاں کام میں نقصان ہو گیا تھا اس قسم کا ڈر ترقی کے رستہ میں بہت بڑی روک ہے۔انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی توپہلے اس میں گھاٹا پڑتا رہا مگر انہوں نے استقلال کے ساتھ کام جاری رکھا آخر ہندوستان کی بادشاہت انہیں مل گئی۔غرض قومی طور پر جو کام شروع کیا جائے وہ گو ابتدا میں معمولی نظر آئے،اس میں مشکلات ہوں،اس میں نقصان اٹھانا پڑے لیکن اگر قوم ہمت اور استقلال سے اسے جاری رکھے تو آخر کار عظیم الشان نتائج رونما ہوتے ہیں۔ ہماری جماعت کو ایسی ہی ہمت دکھانی چاہیے۔……
اپنے مال کاذراسا نقص بھی بتاناچاہیے
مال میں خواہ ذرا سا بھی نقص ہو،تاجر کو چاہیے کہ خریدار کو بتا دے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔ اس طرح نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی رہتاہے۔جب انسان دھوکہ کی چیز بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تو مال خریدتے وقت خود بھی احتیاط نہیں کرتا لیکن اگر ناقص چیز گاہک اس سے نہ خریدے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی پڑے گی ۔پھر معاملہ کی صفائی سے ایک قومی کریکٹر بنتاہے جو ساری قوم کے لیے نہایت مفید ہوتاہے۔‘‘
جواب دیں