حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ9؍فروری1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’اسلام نے تمدنی معاملات کے متعلق ایک ایسی تعلیم دی ہے جو اپنی ذات میں گو نہایت ہی مکمل ہے لیکن جب تک اسے اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ مدنظر نہ رکھا جائے اور اس پر کامل طور پر عمل نہ کیا جائے وہ مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔مثلاً اسلام نے سود سے روکا ہے۔سود دنیا میں دو قسم کا ہوتاہے ایک وہ سود جو مالدار آدمی اپنے مال کو اوربڑھانے کے لیے دوسرے مالداروں سے رقم لے کر اُن کو اداکرتاہے جیسے تاجر پیشہ لوگ یا بینک والے کرتے ہیں اور ایک وہ سود ہے جو غریب آدمی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی صاحب استطاعت سے قرض لے کر اُسے اداکرتاہے۔اسلام نے ان دونوں سودوں سے منع کیا ہے۔اس سود سے بھی روکا ہے جو تجارت یا جائیداد کو فروغ دینے کے لیے مالداروں سے روپیہ لے کر انہیں ادا کیا جاتاہے اور اُس سود سے بھی منع کیا ہے جو غریب آدمی اپنی غربت سے تنگ آکر کسی صاحب استطاعت سے قرض لینے کے بعد اسے ادا کرتاہے اور نہ صرف ایسا سود دینے سے روکا بلکہ لینے سے بھی منع کیا ہے اور نہ صرف سود لینے دینے سے منع کیا بلکہ گواہی دینے والوں اور تحریر کرنے والوں ،غرض سب کو مجرم قرار دیا ہے۔
سود کی بجائے رہن یا قرض سے ضروریات پوری کریں
تاجر پیشہ لوگوں کے سود کے متعلق تو جب کوئی شخص سوال کرے کہ مثلاًاس کے پاس دس ہزار روپیہ ہے اور وہ اس سے دس لاکھ روپیہ کما سکتا ہے۔اگر وہ بنکوں یا دوسرے افرادسے روپیہ لے کر اسے ترقی نہ دے تو کیا کرے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ صبر کرے۔دس ہزار روپیہ اس کے لیے کافی ہے،اسی پر وہ گزارہ کرتارہے ۔مگر جس وقت یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایک غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے، کھیتی اس کی نہیں ہوئی،اناج اس کے گھر میں نہیں آیا،بارشیں وقت پر نہیں برسیں،ایسی صورت میں اگر وہ اپنی زمین کے لیے روپیہ مانگتا ہے تو بغیر سود کے لوگ اُسے دیتے نہیں اب وہ کیا کرے؟اگر وہ بیل نہ خریدے گا تو کھیتی کس طرح کرے گا۔یا عمدہ بیج نہیں لے گاتو وہ اور اس کے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے۔ اس کے لیے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ وہ روپیہ قرض لے مگر جب لوگ اسے بغیر سود کے قرض نہ دیں تو وہ کیا کرے۔جب یہ سوال پیش کیا جاتاہے تو اس کا جواب دینا ذرا مشکل ہو جاتاہے اور درحقیقت یہی وہ سود ہے جس کے حالات اور کوائف سننے کے بعد انسان حیرت میں پڑجاتاہے کہ وہ کیا جواب دے ۔مالدار آدمی کو تو جھٹ ہم یہ جواب دے سکتے ہیں کہ سود پر روپیہ مت دو اگر دس ہزار روپیہ ہے تو اسی پر کفایت کرو سود کے ذریعہ زیادہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے مگر ایک غریب آدمی کو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اسی حالت پر کفایت کرو۔اس کو تو ایک ہی جواب دیا جا سکتاہے کہ بھوکے رہو اور مرجاؤ۔مگر یہ کوئی ایسا معقول جواب نہیں جس سے ہمارے نفس کو تسلی ہو یا سائل کے دل کو اطمینان حاصل ہو۔ پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام نے اس کا کیا حل رکھا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیم پر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے اس سوال کا یہ جواب دیاہے کہ غریب آدمی تو ایسا ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ نہیں مگر جائیداد ہوتی ہے اس کے لیے تو یہ صورت ہے کہ جائیداد رہن رکھے اور روپیہ لے لے۔مگر ایک ایسا غریب ہوتاہے جس کے پاس جائیداد بھی نہیں ہوتی جسے رہن رکھ سکے یا اگر جائیداد ہوتی ہے تو وہ اس قسم کی ہوتی ہے کہ اگر وہ اسے رہن رکھ دے تو اس کا کاروبار بند ہو جاتاہے مثلاً زمیندار ہے اگر وہ زمین رہن رکھ دیتاہے تو وہ کھیتی باڑی کہاں کرے گا۔اپنے مکان کی چھت یا صحن میں تو وہ کھیتی نہیں کر سکتا۔ان حالات میں اسلام نے یہ رکھا ہے کہ ایک طرف تو امراء پر ٹیکس لگا دیا جس سے غرباء کی امداد کی جا سکتی ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جب ٹیکس سے بھی کسی غریب کی ضرورت پوری نہ ہو تو جو اس کے دوست واقف کار یا محلے والے ہوں،وہ اسے قرضِ حسنہ دیں۔
یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اگر اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ایک صورت کبھی کام نہیں دے سکتی۔مگر ہمارے لیے اس میں بھی کئی رکاوٹیں ہیں کیونکہ اسلام نے امراء پر جو کئی قسم کے ٹیکس لگائے ہیں،وہ ہم وصول نہیں کرسکتے کیونکہ گورنمنٹ وصول کر لیتی ہے۔زکوٰۃ اگرچہ آتی ہے مگر وہ بہت ہی کم ہوتی ہے۔
قرض داروں کا ناروا رویہ اور اس کے نقصانات
پس جبکہ امراء کے ٹیکسوں سے ہم اپنی جماعت کے غرباء کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو ہمارے لیے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی جماعت سے کہیں کہ امیر آدمی غرباء کو ضرورت کے وقت قرض حسنہ دیا کریں اور کبھی کبھار میں جماعت کو کہتابھی رہتاہوں مگرجس حد تک کہنے سے احساس پیدا ہو سکتاہے وہ میں نہیں کہتا اور نہیں کہہ سکتا اور آج اسی کے متعلق میں بیان کرنا چاہتاہوں کہ میں کیوں جماعت کو زیادہ زور کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ امیر غرباء کو قرض حسنہ دیا کریں۔ میرے نہ کہہ سکنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس جس قدر مالی جھگڑے آتے ہیں،ان میں سے ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن میں مجھے نظر آرہا ہوتاہے کہ مقروض قرض واپس کرنے سے گریز کر رہا ہوتاہے اور ایک فیصدی جھگڑا میرے سامنے ایسا آتاہے جس میں مجھے یہ معلوم ہوتاہے کہ قرضہ دینے والا مطالبہ میں سختی کر رہا ہے مگر ننانوے فیصدی وہ لوگ ہوتے ہیں جو قرضہ لیتے ہیں اور پھر واپس نہیں کرتے بلکہ گریز کرتے اور قرض دینے والے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جو شخص قرض لے کر واپس نہیں کر سکتا اُس کے متعلق تو ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ
فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ(البقرۃ:281)
کشائش تک اُسے مہلت دینی چاہیے اور ایسا انسان جو واقعہ میں تنگی میں ہو اور مالی مشکلات کی وجہ سے روپیہ ادا نہ کر سکتا ہو، میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی معقول پسندانسان یہ کہے کہ مجھے اس سے روپیہ دلوادیجیے۔ہم یہی پوچھیں گے کہ ہم کہاں سے دلوائیں۔وہ تو خود کئی قسم کی مشکلات میں مبتلا ہے۔لیکن جو میری نظر میں کیس آتے ہیں وہ ننانوے فیصدی ایسے ہوتے ہیں کہ قرض لینے والے کا حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ قرض لینے والے کا حق نہیں ہوتا کہ قرض لے تو اس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ شخص قرض لیتاہے جسے کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید ہی نہیں ہوتی۔میرے نزدیک جو شخص اس حالت میں قرض لیتاہے جبکہ اُسے کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید نہیں ہوتی اور وہ دوسرے پر اپنی غربت کا اثر ڈال کر اُس سے روپیہ کھینچ لیتاہے وہ دھوکے باز اور فریبی ہے۔جب اُسے معلوم ہے کہ مجھے روپیہ کہیں سے نہیں آنا تو وہ قرض لیتاہی کیوں ہے اور جب اس نے بعد میں تقاضوں پر دوسرے کو یہ جواب دینا ہے کہ میں کیا کروں تو وہ پہلے سے کیوں اس مصیبت کو دورکرنے کی فکر نہیں کرتا۔
ایسا شخص جب دوسرے سے قرض لے رہا ہوتاہے تو منہ سے تو قرض دینے والے کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں جلدی ادا کردوں گا مگر دل میں اس کے یہ ہوتاہے کہ روپیہ میرے قابو میں آجائے ۔پھر کون واپس لے سکتاہے ۔میں ایسے شخص کو یقینی طور پر ویسا ہی مجرم سمجھتاہوں جیسا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں سیندھ لگانے والا بلکہ اس سے زیادہ بُرا۔کیونکہ جو شخص سیندھ لگاتاہے وہ تو اپنے آپ کو چور کہتاہے۔مگر یہ ایک طرف تو اپنی دیانت داری کا سکہ بٹھاتا ہے،دوسری طرف جماعت کی ہمدردی اور اخوت یاد دلاتاہے،تیسری طرف قرآن مجید کے احکام سناتا اور کہتاجاتاہے میری ضرور مدد کرو۔ احمدیت آخر کس چیزکا نام ہے؟ایک مہینہ یا دو مہینہ تک روپیہ ادا کردوں گا۔اس دھوکے اور فریب کے ذریعہ وہ دوسرے کا مال اُڑالیتاہے۔ وہ خیال کرتاہے کہ شاید میں دیانتدارہی مشہور رہوں گا مگر آخر وہ دھوکہ باز مشہور ہو جاتاہے اور ہر شخص سمجھ لیتاہے کہ یہ فریبی ہے۔ بہانوں سے روپیہ وصول کر لیتاہے مگر دینے کا نام نہیں لیتا۔پھر اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک شخص سے لیا ہوا روپیہ ہمیشہ تو کام نہیں آسکتا۔کچھ عرصہ کے بعد ضرور ختم ہو جائے گا۔پھر وہ کیا کرے گا۔شاید اس کا خیال ہو وہ کسی دوسرے سے لے لے گا اور ممکن ہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے مگر پھر کیا کرے گا۔اس کے بعد اگر وہ تیسرے شخص کو بھی دھوکہ دے لے توپھر کیا ہو گا۔آخر چھ مہینے ،سال،دوسال،چار سال کے بعدلوگ شور مچائیں گے اور اُسے قرض دینا بند کر دیں گے ۔پھر وہ جماعت کے پاس آئے گااور کہے گا اب میں کیا کروں میرے لیے کوئی انتظام کرومگر یہی بات اُس نے پہلے کیوں نہ کی اور قرض لینے سے پہلے ہی وہ کیوں نہیں فکر کرتا کہ اب میں کیا کروں۔دھوکہ بازیاں کرنے کے بعد اُس نے جو کچھ کہنا ہے وہ پہلے کیوں نہیں کہہ دیتا۔ہاں بعض دفعہ یقین ہوتاہے کہ کہیں سے روپیہ آنے والا ہے مثلاً کسی نے اس کا سو دو سو روپیہ دینا ہو اور سال بھر کا وعدہ ہو اس دوران میں اُسے خود روپیہ لینے کی ضرورت پیش آجائے اور وہ کسی کے پاس جا کر کہے کہ مجھے فلاں سے روپیہ لینا ہے کیا مجھے آپ اس روپیہ کے ملنے تک جس کی مجھے غالب اُمید ہے کچھ روپیہ قرض دے سکتے ہیں اگر دے دیں تو کام چل سکتاہے ۔یا زمیندار اگر کہہ دے کہ فصل پکنے پر روپیہ ادا کر دوں گا تو یہ اور بات ہے لیکن اگر اسے کہیں سے روپیہ کی وصولی کی اُمید ہی نہ ہو اور پھر بھی وہ روپیہ قرض لیے جاتاہے تو وہ یقینا دھوکاباز ہے۔ایسا شخص سمجھ رہا ہوتاہے کہ چونکہ میں قرض لے رہاہوں اس لیے یہ جائز کام ہے حالانکہ قرض وہ ہوتاہے جس کے ادا کرنے کی ہمت ہو، جب ہمت ہی نہ ہو تو پھر قرض کے نام سے روپیہ لینا قرض نہیں بلکہ ٹھگی ہے۔مثلاً ایک شخص جس کی پچاس روپیہ بھی آمد نہ ہو،اگر وہ دو لاکھ روپیہ قرض لے لے تو کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ اس نے قرض لیا ہے۔ ہر شخص کہے گا یہ قرض نہیں بلکہ دھوکہ اور فریب ہے۔دو لاکھ چھوڑ اس کی تو دو ہزار کی بھی حیثیت نہیں۔یہی مثال پچاس ،بیس یا دس روپیہ قرض لینے پر بھی عائد ہو سکتی ہے ۔جب ایک شخص میں دس روپیہ قرض ادا کرنے کی بھی ہمت نہیں تو اگر وہ دس روپیہ بھی لیتاہے تو دھوکہ بازی کرتاہے۔چونکہ ہماری جماعت کا قرض لینے والا حصہ خواہ وہ دس،بیس،پچاس،سو یا دوسو روپیہ قرض لیتاہے بسا اوقات ایسی صورت میں قرض لیتاہے جبکہ وہ اُسے ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا اس لیے میری تشریح کے مطابق ننانوے فیصدی یقینی طور پر دھوکہ باز ہیں اور جبکہ اس قسم کے لوگ ہماری جماعت میں موجود ہوں میں کس طرح ترغیب دے سکتاہوں کہ غریبوں کو قرض دو میرا اپنا تجربہ یہی ہے ۔خلافت کے ابتدائی چار پانچ سالوں میں میرے پاس لوگوں کی بہت سی امانتیں رہتی تھیں بعض دفعہ بیس بیس،تیس تیس ہزار روپیہ امانتوں کا ہو جاتا تھا اور چونکہ میرے پاس یہ روپیہ موجود ہوتاتھا اس لیے جب مجھ سے کوئی شخص قرض مانگتا تو میں اُسے دے دیتا۔مگر میں دیکھتاکہ قرض لینے والوں کا بیشتر حصہ ایسا ہوتا ہے جو قرض لے کر بھول جاتااور چونکہ میرے لیے یہ ایک نہایت ہی مشکل تھی اس لیے میں نے امانتیں لینی چھوڑ دیں۔اب بھی بعض امانتیں اگرچہ لوگ میرے پاس رکھواتے ہیں مگر میں انہیں اپنے پاس نہیں رکھتا بلکہ بنک میں جمع کرا دیتاہوں اس لیے اب اگرمجھ سے کوئی شخص قرض مانگے تو سچائی سے میرے پاس یہ عُذر ہوتا ہے کہ اپنا کیا دوسروں کا بھی میرے پاس روپیہ نہیں کیونکہ میرے لیے یہ مشکل ہوتی ہے کہ کوئی مصیبت زدہ میرے پاس آئے اور میں اُس کی امداد سے قاصر رہوں۔انہی مشکلات کی وجہ سے میں اب لوگوں کو جرأت نہیں دلاتا کہ میرے پاس امانتیں رکھوادیا کرو۔ورنہ حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ تعالیٰ ہر ہفتہ درس وغیرہ میں فرما دیا کرتے تھے کہ روپیہ اپنے گھروں میں نہ رکھو بلکہ میرے پاس رکھا دیا کرو تا وہ محفوظ رہے۔ابتدائے خلافت میں مَیں بھی کہہ دیا کرتا تھا اور اس طرح کافی رقم جمع ہو جایا کرتی تھی مگر اب میں اول تو امانتیں لیتاہی نہیں اور اگر لوں بھی تو انہیں بنک میں جمع کر ا دیتاہوں مگر چونکہ دوسروں کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہے اور ہماری جماعت کا کثیر حصہ بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو ننانوے فیصدی حصہ ایسا ہے کہ اسے حق ہی نہیں ہوتا کہ قرض لے یا اگر حق ہوتاہے تو جب روپیہ اسے ملتاہے تو وہ اور جگہ خرچ کر دیتاہے ۔اس لیے مجھے یہ نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔
روپیہ آنے کی یقینی امید پر قرض لینا جائز ہے
میں عام طور پر دیکھتاہوں کہ اول تو قرض ایسی حالت میں لیا جاتاہے جب قرض ادا کرنے کی اپنے اندرہمت نہیں ہوتی اور اگر کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید میں قرض لیا جاتاہے تو جب روپیہ آجاتاہے تو اور جگہوں پر خرچ کر دیا جاتاہے اور دل میں خیال کر لیا جاتاہے کہ جب قرض خواہ مانگنے آئے گاتو ہم کہیں گے کہ ہم کیا کریں ہمارے پاس روپیہ نہیں ہے اور اگر زیادہ اصرار کرے گا تو کہہ دیں گے ہمارا مکان ہے بیس ہزار اس کی لاگت ہے یہ خرید لو اور اس میں اپنا قرض وضع کر لو۔چاہے وہ اُس وقت پانچ ہزار روپیہ کا ہی ہو۔اب کون بیوقوف ہو گا جو دو ہزارروپیہ قرض وصول کرنے کے لیے اٹھارہ ہزار اور خرچ کرے۔یا بعض دفعہ مکان بناتے وقت زیادہ خرچ ہوتاہے مگر بعد میں قیمتیں گِر جاتی ہیں اس صورت میں مکان خریدنے والے کو گھاٹا بھی ہو سکتاہے مگر مقروض سمجھتا ہے میں نے مکان پیش کر دیا ہے اسی جھگڑے میں ایک دو سال اور گزر جائیں گے حالانکہ یہ قرض دینے والے کا کام نہیں کہ وہ مکان خریدے یا بیچے بلکہ قرض لینے والے کا کام ہے کہ وہ جس طرح ہو قرض ادا کرے ۔مکان بیچنا ہے تو خود بیچے اور جس قیمت پر بکتاہے فروخت کر کے قرض ادا کرے ۔غرض عدمِ ادائیگی کا نقص ایسا ہو گیا ہے کہ اس کی وجہ سے اب مجھے جرأت ہی نہیں ہوتی کہ غریبوں کی مدد کے لیے قرض حسنہ کی تحریک کی جائے میں جانتاہوں کہ اگر میں تحریک کروں تو کئی مخلص ایسے کھڑے ہوجائیں گے جو قرض دینے کے لیے تیار ہوں گے ۔مگرآخر ساری ذمہ داری مجھ پر آجائے گی وہ کہیں گے آپ نے وعظ کیا تھا اور ہم نے روپیہ دے دیا۔اب روپیہ لینے والے دیتے نہیں اب آپ ہی دلوایئے۔کیونکہ قرض لینے والے ننانوے فیصدی میری تشریح کے مطابق ٹھگ ہوں گے اور گو وہ یہ بھی کہیں کہ ہماری نیت تھی کہ ہم روپیہ ادا کردیں پھر بھی وہ الزام سے بری نہیں ہو سکتے۔کیا اگر کوئی شخص عمارت بنانا چاہے اور اُسے بیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہو مگر اس کے پاس صرف دس ہزار ہو باقی دس ہزار کے متعلق ایک شخص اسے کہے کہ آپ عمارت شروع کریں میں دس ہزار روپیہ دے دوں گا لیکن جب عمارت نا مکمل صورت میں کھڑی ہو جائے اور وہ آکر کہے کہ روپیہ دیجیے بارش کا خطرہ ہے،عمارت گِر جائے گی تو وہ کہہ دے کہ میری نیت تو ہے کہ آپ کو دس ہزار روپیہ دوں مگر پاس نہیں ۔تو کیا تم کہو گے کہ وہ بڑا مخلص ہے کیونکہ اس کی نیت تو ہے کہ وہ دس ہزار روپیہ دے ۔ہر شخص کہے گا کہ وہ دھوکہ باز ہے اُس نے دھوکہ دے کر اُس کا روپیہ بھی برباد کرایا اور آپ پیچھے ہٹ گیا ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر بعض لوگ آپؐ کے پاس آتے اور کہتے کہ یا رسول اﷲ !فلاں دشمن کے مقابلہ میں لشکر کشی فرمائیں ۔دس ہزار آدمی ہمارا آجائے گا اور جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تیار ہو کر باہر نکلتے تو دو چار آدمی بھیج دیتے اور کہتے ہماری نیت تو دس ہزار بھیجنے کی تھی مگر ملے نہیں۔کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ دس ہزار کا انہوں نے وعدہ کیا اس لیے بڑے مخلص سمجھے جاتے ۔نہیں بلکہ جتنی زیادہ انہوں نے اس رنگ میں نیت کی اتنا وہ منافق اور دھوکہ باز ثابت ہوئے۔نیت وہ ہوتی ہے جس کے پورا کرنے کا یقین ہو۔مگر قرض لینے والوں میں سے ننانوے فیصدی جانتے ہیں کہ ہم قرض ادا نہیں کرسکتے پھر بھی وہ قرض لیتے ہیں یا نیت ادا کرنے کی کرتے ہیں مگر ایسی جو کبھی پوری نہ ہو ۔پس درحقیقت ان کی نیت بھی شیطانی ہوتی ہے۔
اسی طرح تجارت پیشہ لوگ ہیں۔بیسیوں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پاس روپیہ ہے کہیں تجارت پر لگوا دیجیے۔ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ہی میں نے تقریر کی کہ اس قسم کے لوگ میرے پاس آتے رہتے ہیں ۔پندرہ بیس ہزار روپیہ سالانہ جمع ہو جانا کوئی مشکل بات نہیں۔جلسہ کے بعد میرے پاس تین آدمیوں کی دستخطی چٹھی پہنچی کہ بس روپیہ کا ہی سوال تھا،ہمیں روپیہ دیجیے تاکہ ہم تجارت شروع کریں اور وہ تینوں ایسے تھے کہ اگر میں بھی اُنہیں قرض دوں تو وہ ایک دمڑی تک اس میں سے واپس نہ کریں۔ایک تو ان میں سے پچھلے دنوں بددیانتی کی وجہ سے قید بھی ہو گیا ہے۔یہ ایک ایسا نقص ہے جس نے سلسلہ کا نظام بہت حد تک تہہ و بالا کر رکھا ہے۔اگر قرض ادا کرنے کی ہمت ہی نہیں تو کسی سے قرض لینے سے پیشتر ایسے شخص کا فرض ہے کہ لوگوں سے کہہ دے کہ میں کنگال ہوں،میری مدد کرو مگر جب وہ بغیر اپنے حالات پر غور کیے قرض لے لیتاہے تو وہ فریبی ہے ۔مانگنا علیحدہ چیز ہے اگر کوئی شخص سوال کرتا ہے تو اگر اس نے بغیر کسی اور ذریعہ سے کام لینے کے جلدی سے سوال کر دیا تو ہم کہیں گے یہ کم ہمت ہے اور اس میں اخلاق کی کمی ہے ۔مصائب آئے مگر وہ جلدی ان سے گھبرا گیا لیکن قرض لینے والے کو جبکہ وہ ادا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ہم یہ نہیں کہیں گے کہ کم ہمت ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ دھوکہ باز ہے۔ایسے لوگ مجلس میں بڑے فخر سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم سلسلہ سے تو نہیں مانگتے ہم تو لوگوں سے قرض لیتے ہیں حالانکہ جو سلسلہ سے مانگنے آتا ہے وہ اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتاہے جو ادا کرنے کے ذرائع مفقود ہوتے ہوئے قرض لیتاہے کیونکہ مانگنے والا دھوکہ نہیں دیتا مگر وہ دھوکہ دیتاہے۔پس میں نصیحت کر تاہوں کہ آئندہ سے اس طریق کو بند کرنا چاہیے۔قادیان میں بھی اور باہر بھی کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو قرض لیتے اور پھر واپس نہیں کرتے۔مگر کثرت سے بھی وہ مراد نہیں جو مخالف بعض دفعہ میرے اس قسم کے الفاظ سے لے لیتے ہیں کہ کم از کم جماعت کے 51فیصدی لوگ ایسے ہیں ۔میرا اس قسم کے فقروں سے یہ مطلب ہوتاہے کہ جماعت میں بیسیوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں یہی بات میں اس وقت کہہ رہا ہوں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا شغل ہی یہ ہے کہ وہ قرض لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کا نام نہیں لیتے۔اس طریق پر وہ خود بھی بدنام ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی بدنام کرتے ہیں جو جائز طور پر قرض لیتے اور پھر مجبوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتے۔اگر مجبوریاں نہ ہوں تو وہ فوراً اداکردیں۔میں جماعت کونصیحت کرتاہوں اور خصوصاً اُن لوگوں کو جنہوں نے میری جلسہ سالانہ کی تقریر کے مطابق سالکین میں نام لکھوائے ہیں۔میں اس فکر میں ہوں کہ سالکین کے لیے ایسے قواعد وضع کیے جائیں کہ نہ تو یہ کام ایسا بوجھل ہو جائے کہ اپنی ذات میں ایک محکمہ بن جائے اور نہ ایسا ہو کہ صرف نام کے ہی سالکین رہیں اور کام کوئی نہ کریں۔
روپیہ آنے کی یقینی امید نہ ہو تو قرض نہ دیاکریں
میں ایسے قواعد سوچ رہا ہوں کہ بغیر کسی محکمہ پر خاص طور پر بوجھ ڈالنے کے دوست اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کی بھی اور اُمید کرتاہوں کہ چند دن تک ان کو شائع کر سکوں گا۔لیکن میں ان لوگوں کے جنہوں نے اپنے نام پیش کیے ہیں پہلا کام یہ سپرد کرتا ہوں کہ وہ جماعت کی نگرانی کریں اور عام طور پر یہ نصیحت کریں کہ جسے یقینی طور پر روپیہ کی آمد کی اُمید نہ ہو وہ کسی سے قرض نہ لے ۔دوسرے یہ بھی نصیحت کریں کہ جس شخص کو یقینی طور پر آمدنی کی کہیں سے اُمید نہ ہو اسے لوگ قرض دیا بھی نہ کریں۔یہ بھی ایک نیکی ہے جس کا انہیں ثواب ملے گا۔اب تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص کا مکان دو روپیہ ماہوار آمد کا ہوتاہے مگر وہ بہت سا روپیہ قرض لے کر بیس روپیہ ماہوار کرایہ میں اسے رہن رکھ دیتا ہے۔روپیہ دینے والا خوش ہوتاہے کہ اسے بہت سا روپیہ مل جائے گا حالانکہ وہ بیس روپے صرف نام کے ہوتے ہیں،ادا ایک بھی نہیں ہوتا۔ابھی پچھلے دنوں ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میرے پاس پانچ چھ ہزار روپیہ ہے اسے میں ایسی جگہ لگانا چاہتاہوں جہاں سے پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار آمد ہوجائے حالانکہ جائیدا د پر اس سے آدھا منافع بھی نہیں مل سکتا مگر انہوں نے لکھا مجھے ایسے لوگ ملتے تو ہیں مگر میں چاہتاہوں آپ کی معرفت کام کروں۔مگر بات یہ ہے کہ انہیں ایسے لوگ مل رہے تھے جو پچاس ساٹھ کہنے کو تو کہتے تھے مگر ادا ایک بھی نہ کرتے اور نہ صرف انہیں منافع حاصل نہ ہوتا بلکہ اصل روپیہ بھی کھو بیٹھتے کیونکہ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ آخر مقدمہ قضا میں آنا ہے اور قضا والے جھٹ کہہ دیں گے کہ یہ سود ہے اور اگر مکان پر قبضہ دلایا جائے تب بھی پانچ چھ ہزار میں۔اگر آٹھ سو روپیہ کا مکان کسی شخص کو دینا پڑے تو اسے تو فائدہ ہی رہا۔ پس ایسے لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کو قرض نہ دیا کریں پھر تیسری بات یہ ہے کہ جب کسی شخص کے متعلق کوئی ایسا معاملہ دیکھیں اور محسوس کریں کہ وہ دھوکہ بازی کر رہا ہے تو جماعت میں اس کی دھوکہ بازی اور فریب کاری کو ظاہر کریں۔پس یہ تین کام ہیں ۔اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی اُمید نہ ہو وہ قرض نہ لیا کریں۔دوسرے روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں اور تیسری بات یہ ہے کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں تا لوگ اس سے بچ کر رہیں۔پھر ہمیشہ مظلوم کی تائید کرنی چاہیے۔مگر غلطی سے لوگ مظلوم غریب کو قرار دیتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ امیر ہی ظالم ہے حالانکہ اگر ایک کروڑ پتی کا ایک روپیہ بھی کسی غریب نے دینا ہے اور وہ دینے کی طاقت رکھتا ہوا نہیں دیتا تو کروڑ پتی مظلوم ہے اور غریب ظالم۔اگر یہ تین کام ہماری جماعت کے لوگ کرنا شروع کردیں تومیں اُمید کرتاہوں کہ چھ مہینہ ،سال تک اس حد تک اصلاح ہو جائے گی کہ میں دلیری سے لوگوں کو یہ کہہ سکوں گا کہ غریبوں اورحاجت مندوں کو قرض دیا کرو۔
پس وہ لوگ جنہوں نے میرے پاس اپنے نام بھجوائے ہیں ان کے سپرد فی الحال میں یہ کام کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ وہ مہینہ دو مہینہ کے بعد مجھے اپنی رپورٹ بھیجا کریں گے کہ ہم نے اس اس طرح اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ میرے دل میں بھی ان کے لیے دعا کی تحریک ہو اور یہ بھی مجھے معلوم ہوتا رہے کہ وہ سچ مچ کام کر رہے ہیں صرف نام لکھوا کر ہی نہیں بیٹھ گئے۔میں سمجھتاہوں اگر اس طریق پر کام کیا گیا تو غرباء کی مصیبت ایک دن دور ہو سکے گی اور جماعت بھی دلیری سے ان کی مدد پر تیار رہے گی اور اس طرح سود کی لعنت سے بھی جماعت کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہو جائے گا۔‘‘
جواب دیں