حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ31؍اگست1934ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
پھر ایک اور بات جس کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کے بعض تاجر دیانت سے کام نہیں لیتے اس لیے ہر محلہ کے دوستوں کو اپنے اپنے محلہ کی دُکانوں کے متعلق خیال رکھنا چاہیے کہ ان سے سوداصحیح طور پر ملے۔ چیز خراب نہ ہواور وزن کم نہ ہو۔ ایک دن مجھے عرقِ گلاب کی ضرورت تھی جومیں نے ایک دُکان سے منگوایا ۔میں نے دیکھا دُکاندار نے پانی میں یوکلپٹس آئل ملایا ہوا تھا جسے وہ عرق گلاب کے طور پر بیچتا تھا اور یہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اسلامی حکومت ہو تو اس کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔دوائیوں میں بے احتیاطی بسا اوقات مُہلک ثابت ہوتی ہے۔ آجکل بہت سے ولائتی ایسنس نکلے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ ہر چیز کا عرق بنایا جاسکتا ہے۔مگر وہ گلاب وغیرہ کا عرق نہیں ہو گا اگرچہ اس کی خوشبو ویسی ہی ہو بعض لوگ انہی سے عروق تیار کر لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ زہریلے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ دواؤں سے نہیں بنتے بلکہ ایسنسوں سے بنتے ہیں۔ پھر میر ا تجربہ ہے کہ جو آٹا فروخت کیا جاتا ہے اس میں سے نوے فیصدی ایسا ہو تا ہے جس میں کِرَک ہوتی ہے۔ اور کِرَک ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس سے درد گردہ ، پتھری اور مثانہ وغیرہ کی بیماریاں پیداہوتی ہیں لوگ عام طور پر جلدی جلدی روٹی کھانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس نقص کو محسوس نہیں کرتے اگر اسلام کے حکم کے مطابق آہستہ آہستہ اور چبا چبا کر روٹی کھائیں تو انہیں باآسانی معلوم ہو سکتاہے کہ عام طور پر جو آٹا فروخت ہوتا ہے اس میں کرک ہوتی ہے مگر لوگ وقار کے ساتھ روٹی نہیں کھاتے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے اگر ہماری جماعت کے لوگ کھانے کے متعلق اس ہدایت کی پابندی کرتے تو انہیں اس نقص کا احساس بڑی آسانی سے ہو سکتا تھا۔ کرک ایک سخت تکلیف دہ چیز ہے۔ گردہ اور مثانہ کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں مگر دکاندار جو آٹا فرخت کرتے ہیں اس میں سے نو ے فیصدی بلکہ میں کہوں گا ننانوے فیصدی کرک ہوتی ہے اور دکاندار بھاؤ کرتے وقت یہ خیال نہیں رکھتے کہ ایسا آٹا خریدیں جس میں کرک وغیرہ نہ ہو بلکہ صاف ہو وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ چار آنہ سستی بوری مل جائے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بیوپاری کو اجازت دیتے ہیں کہ اس قدر وہ مٹی ملا سکتا ہے اور یہ بھی ویسی ہی بددیانتی ہے جیسا خود مٹی ڈال کر بیچنا ۔ پس دوست تاجروں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں اور جب انہیں شُبہ ہو کہ کوئی دوائی یا کوئی اور چیز اچھی نہیں تو فوراًمقامی انجمن کے پاس رپورٹ کریں اور اس کا فرض ہے کہ تحقیقات کر ے کہ شکایت صحیح ہے یا نہیں۔ اگر صحیح ہوتو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے۔
ایک دفعہ ہمارے گھر میں ایک بوری آئی اور اسے دیکھ کر میں نے کہا کہ اس میں کِرَک ہے۔ چنانچہ جب آدمی واپس کرنے کے لیے گیا تو دکاندار نے وہ رکھ لی اور یہ کہہ کر کہ ہمیں علم نہ تھا حضرت صاحب کے گھر جانی ہے اچھے آٹے کی دوسری بوری دے دی جس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں اعتراض کا خیال ہو وہاں وہ ایسا نہیں کرتے ورنہ کر لیتے ہیں اور انہیں علم ہوتا ہے پس آئندہ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ کوئی دکاندار ایسا آٹا فروخت نہ کرے جس میں کرک یا مٹی کی ملونی ہو اسی طرح دوسری اشیاء بھی خراب اور میلی کُچیلی نہ ہو ں اس سے جسمانی صحت بھی درست ہو گی اور ایمانوں میں بھی چُستی پیدا ہو گی۔ جب قیمت ادا کرنی ہے تو کیوں ناقص چیز لی جائے۔یہ خیال کرنا کہ چلو تھوڑی سی خرابی ہے اسے جانے دو نہایت ہی معیوب بات ہے اور ایسا کہہ کر بات کو ٹال دینے والااپنی بددیانتی کا ثبوت دیتا ہے اُس کے اِس قول کے معنے یہ ہیں کہ جب اسے موقع ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ بددیانتی کرے گا۔غرض یہ چیزیں اخلاق کو برباد کر دینے والی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ
یعنی کم تولنے والوں پر خداتعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔دراصل چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بڑی باتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں اس لیے انہیں کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ایک دفعہ میں مغرب کی نماز پڑھا رہا تھا اور ایک خاص وجہ سے میں اس میں ایک ہی سورۃ پڑھا کرتا ہوں مگر اس دن ایسا معلوم ہوا کہ باقی سب قرآن مجھے بھول چکا ہے اور صرف
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ
والی سورۃ یاد ہے۔ میں نے اسے کسی الٰہی حکمت پر محمول کیا اور سمجھا کہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ نماز کے بعد میں نے حکم دیا کہ سب دکانداروں کے بٹے تولے جائیں۔ چنانچہ بٹے تولنے پر معلوم ہوا کہ کئی ایک کے وزن کم تھے۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس خرابی کو دور کریں۔ دکانداروں کی ہر چیز کو دیکھیں اور خیال رکھیں کہ بھاؤ ٹھیک ہو ں ۔وزن پورے ہوں اور چیز صاف سُتھری ہو۔ ہر چیز ملونی سے پاک ہو ۔ دوائیں درست اور صحیح ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ شدید طاعون پڑی تو لوگ کہتے تھے کہ دکاندار ایک ہی بوتل سے سب عرق دے دیتے ہیں۔ اسی سے گلاب اسی سے گاؤزبان اور اسی سے کیوڑہ وغیرہ حالانکہ دوائی میں ادنیٰ سی غلطی سے بھی بعض اوقات جان ضائع ہو جاتی ہے۔ میں امیدکرتا ہوں کہ دوست اس امر کی طرف توجہ کریں گے اور تاجر ہر قسم کی بددیانتی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘
جواب دیں