حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ30؍نومبر1934ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے مطالبات میں فرمایا:
’’پندرھواں مطالبہ جو جماعت سے بلکہ نوجوانانِ جماعت سے یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت سے نوجوان بے کار ہیں میں ایک مثال دے چکاہوں کہ ایک نوجوان اسی قسم کی تحریک پر ولایت چلے گئے اور وہاں سے کام سیکھ کر آگئے۔اب وہ انگلش وئیر ہاؤس لاہور میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہیں۔وہ جب گئے تو جہازپر کوئلہ ڈالنے والوں میں بھرتی ہوگئے۔ولایت جا کر انہوں نے کٹر کا کام سیکھا اور اب اچھی ملازمت کر رہے ہیں۔وہ نوجوان جو گھروں میں بے کار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں۔جہاں تک دوسرے ممالک کا تعلق ہے اگر وہ اپنے لیے صحیح انتخاب کر لیں تو 99فیصدی کامیابی کی امید ہے۔کوئی امریکہ چلاجائے،کوئی جرمنی چلا جائے،کوئی فرانس چلا جائے،کوئی انگلستان چلا جائے ،کوئی اٹلی چلا جائے، کوئی افریقہ چلا جائے غرض کہیں نہ کہیں چلا جائے اور جا کر قسمت آزمائی کرے۔وہ کیوں گھروں میں بیکار پڑے ہیں؟باہر نکلیں اور کمائیں پھر خود بھی فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے ۔جو جانا چاہیں وہ اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں۔مدراس کے بمبئی کے علاقہ میں چلے جائیں،بمبئی کے بہار میں،پنجاب کے بنگال میں،غرض کسی نہ کسی دوسرے علاقہ میں چلے جائیں۔رنگون، کلکتہ ،بمبئی وغیرہ شہروں میں پھیری سے ہی وہ کچھ نہ کچھ کما سکتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض ہونے سے بچا سکتے ہیں لیکن اگر کسی کو ناکامی ہو تو کیا ناکامی اپنے وطن میں رہنے والوں کو نہیں ہوتی۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ باہر نکل کر جدوجہد نہ کریں اور سلسلہ کے لیے مفید وجود نہ بنیں اور بیکار گھروں میں پڑے رہیں۔
ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں
سولہواں مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔حالانکہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے ۔ذلت کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کام ذلت کا موجب ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا حق ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کہیں کہ وہ فلاں کام کرے جسے ہم کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا چاہیے۔امراء تو اپنے گھروں میں کوئی چیز ادھر سے اٹھا کر اُدھر رکھنا بھی عار سمجھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کانمونہ
حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میں نے بیسیوں دفعہ برتن مانجتے اور دھوتے دیکھا ہے اور میں نے خود بیسیوں دفعہ برتن مانجے اوردھوئے ہیں اور کئی دفعہ رومال وغیرہ کی قسم کے کپڑے بھی دھوئے ہیں۔ایک دفعہ میں نے ایک ملازم کو پاؤ ں دبانے کے لیے بلایا وہ مجھے دبا رہا تھا کہ کھانے کا وقت ہو گیا لڑکا کھانے کا پوچھنے آیاتو میں نے کہا کہ دو آدمیوں کا کھانا لے آؤ۔کھانا آنے پر میں نے اس ملازم کو ساتھ بٹھا لیا۔لڑکا یہ دیکھ کر دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور جا کر قہقہہ مار کر کہنے لگا حضرت صاحب فلاں ملازم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔اسلامی طریق یہی ہے اور میں سفر میں یہی طریق رکھتاہوں کہ ساتھ والے آدمیوں کو اپنے ساتھ کھانے پربٹھا لیتاہوں۔
حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاول رضی اﷲ عنہ کانمونہ
میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاول رضی اﷲ عنہ میں بعض خوبیا ں نہا یت نما یا ں تھیں۔ حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ اسی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے میں چھوٹا ساتھا، سات آٹھ سال کی عمر ہو گی ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلا نے مینہ آگیا ہے اوپلے بھیگ جائیں گے جلدی آؤ اور ان کو اندر ڈالو ۔حضر ت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ درس دے کر ادھر سے جا رہے تھے انہوں نے اس آدمی سے کہا کیا شور مچا رہے ہو؟اس نے کہا کوئی آ دمی نہیں ملتا جو اوپلے اندر ڈالے آپؓ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی او ر اس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے۔آپؓ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے اندر ڈال دیے گئے۔اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بنوایا تھا۔ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھامگر اس پر بہت عرصہ گزر گیا ہے ۔
ترقی سے محرومی کی ایک وجہ
میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لیے کئی بار کہاہے مگر توجہ نہیں کرتے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ احساس مٹا دیں کہ فلاں آقا ہے اور فلاں مزدور اگر ہم اس لیے آقا بنتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو یہ بھی ظاہر کرنا چاہیے کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم آقا بنیں اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے آقا بننے کا حق ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔کئی لوگ ترقی کرنے سے اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کام کیا اور نہ کر سکے تو لوگ کیا کہیں گے۔بعض مبلغ خود چوہدری بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسروں کو مباحثہ میں آگے کر دیتے ہیں تاکہ وہ ہار نہ جائیں۔مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے کہا ہمارے پاس اب صرف دو مبلغ مناظرے کرنے والے ہیں۔مگر اس کی ذمہ داری ناظر صاحب پر ہی عائد ہوتی ہے ۔انہیں دو مبلغ ہوشیار نظر آئے انہی کو انہوں نے مناظرے کے لیے رکھ لیا۔حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ سب سے یہ کام لیتے اور اس طرح زیادہ مبلغ مباحثات کرنے والے پیدا ہو جاتے۔چونکہ کام کرنے سے کام کی قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔بعض لوگ دراصل کام کرنے سے جی چراتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہاہوں اس کے لیے پہلے قادیان والوں کو لیتاہوں۔یہاں کے احمدی محلوں میں جو اونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں ،گلیاں صاف نہیں،نالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ نالیاں موجود ہی نہیں ان کا انتظام کریں،وہ جو اووَرسئیر ہیں وہ سروے کریں اور جہاں جہاں گندا پانی جمع رہتاہے اور جو ارد گرد بسنے والے دس بیس کو بیمار کرنے کا موجب بنتاہے اُسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کر کے سب مل کر محلوں کو درست کرلیں۔اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو مثلاً لنگر خانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلو ب ہو تو بجائے مزدور لگانے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے ثواب حاصل کریں۔ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو حروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتاہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کے لیے پھیرتا جاتاہوں۔
پس جتنے عضو بھی ثواب کے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہو گی۔اب اگر کسی کو ہاتھ سے کام کرنے کے لیے کہو او ر وہ کام کرنا شروع بھی کر دے تو کھسیانا ہو کر مسکراتا جائے گالیکن اگر سب کو اسی طرح کام کرنے کی عادت ہو تو پھر کوئی عار نہ سمجھے گا۔یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتاہوں اور باہر گاؤں کی احمدیہ جماعتوں کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے۔شغل کے طورپر لوہار،نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں۔
حضرت رسول کریم صلی اﷲ وعلیہ وسلم کانمونہ
رسول کریم صلی اﷲ وعلیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپؐ نے پتھر توڑے اور مٹی ڈھوئی۔صحابہ رضی اﷲ عنھم کے متعلق آتاہے کہ اس وقت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو پسینہ آیا بعض نے برکت کے لیے اسے پونچھ لیا۔یہ تربیت،ثواب اور رُعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیزہے۔جو لو گ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے ان پر خاص اثر ہوگا۔بدر کے موقع پر جب کفار نے ایک شخص کو مسلمانوں کی جمیعت دیکھنے کے لیے بھیجا تو اس نے آ کر کہا،آدمی تو تھوڑے سے ہی ہیں لیکن موت نظر آتے ہیں وہ یا تو خود مر جائیں گے یا ہمیں مار ڈالیں گے۔اسی وجہ سے انہوں نے لڑائی سے باہر رہنے کی کوشش کی جس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں۔ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی مخالفین جب یہ دیکھیں گے کہ ہر کام کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی کام کے کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو سمجھیں گے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔
چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی ملے وہ کر لیں
سترھواں مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ بے کار ہیں وہ بے کار نہ رہیں۔اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں۔اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں،ریزروفنڈ کے لیے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کر دیں۔غرض کوئی شخص بے کار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو کیونکہ دو بہرحال صفر سے زیادہ ہیں۔بعض بی اے کہتے ہیں ہم بے کار ہیں ہمیں کوئی کام نہیں ملتا۔میں انہیں کہتاہوں دو روپے بھی اگر وہ کما سکیں تو کمائیں۔میں نے جس قدر حساب پڑھا ہے اس سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دو روپے صفر سے زیادہ ہوتے ہی۔ غرض کوئی احمدی نکما نہ رہے اسے ضرور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔‘‘
جواب دیں