حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ16؍اگست1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’تجارت کتنی اعلیٰ چیز ہے اور قوموں کی ترقی کے لیے کس قدر ضروری سمجھی گئی ہے مگر اس میں بھی راز رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ راز بتا دیے جائیں تو تجارت کامیاب نہیں ہو سکتی۔تاجر کبھی نہیں بتائے گا کہ وہ سستا سودا کہاں سے خریدتاہے کیونکہ اگر وہ یہ بتا دے تو اس کا ہمسایہ سودا گر بھی وہاں سے سودا خرید لائے اور اس طرح اس کا مقابلہ کرنے لگے۔اسی طرح تاجر کبھی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی چیز کہاں سے خریدتاہے کیونکہ اگر وہ بتا دے تو دوسرا تاجربھی وہاں سے اعلیٰ چیزیں خرید لائے گااور اس کی تجارت کو نقصان پہنچ جائے گا۔مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ لاہور گیا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا زمانہ تھا وہاں ہمارے ایک دوست تاجر ہیں جو بائیسکلوں کی تجارت کرتے ہیں ۔میں کسی کام کے لیے ان کے پاس بیٹھا تھا کہ باتیں کرتے ہوئے ان کے پاس ایک تار پہنچا انہوں نے جونہی اسے کھولا اور پڑھا معاً کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے آپ اجازت دیں تو میں دس منٹ کے لیے باہر جانا چاہتاہوں یہ کہتے ہی وہ بائیسکل پر سوار ہوئے اور دیوانہ وار اسے دوڑاتے ہوئے چلے گئے۔میں حیران ہوا کہ یہ کیسا تار آیا ہے جس نے انہیں اس قدر بے تاب کر دیا ہے۔آخر بیس پچیس منٹ کے بعد وہ آئے اور کہنے لگے میں ایک منٹ لیٹ پہنچا ورنہ آج مجھے سینکڑوں کا نفع ہو جاتا۔میں نے پوچھا بات کیا ہوئی؟ انہوں نے کہا مجھے تار پہنچا تھا کہ ڈن لوپ کے بائیسکلوں کے ٹائروں کا بھاؤ مہنگا ہو گیا ہے مال روڈ پر ٹائروں کی ایک دکان تھی میں وہاں پہنچا اور اگرمیں اُس سے ٹائروں کا سودا کر لیتا تو آج کئی سوکا مجھے نفع ہو جاتا کیونکہ میں نے یہ اندازہ کیا تھا کہ اس کے پاس تار میرے بعد پہنچے گا اور چونکہ تار والے نے راستے میں اور تار دینے تھے اس لیے میں اس خیال میں رہا کہ اس کے پاس تار پہنچتے وقت تک میں اس سے سودا کر چکوں گااور جب بعد میں اسے تار پہنچ گیا تو میں کہوں گا کہ میرے سودے پر اس بھاؤ کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔لیکن جب میں وہاں پہنچا اور ٹائروں کے متعلق میں نے سودا کیا تو اسی وقت تار بھی پہنچ گیا اور اس طرح میرا سودا رہ گیا یہ کتنا جائز مقابلہ ہے مگر اس میں بھی راز سے پہلے واقف ہو جانے کی وجہ سے ایک شخص فائدہ اُٹھا سکتاہے اور دوسرا نقصان اُٹھا سکتاہے ۔‘‘
جواب دیں