حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ29؍نومبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ پیشہ ور لوگ بھی مفید ہو سکتے ہیں اچھے لوہار دنیا کے ہر علاقہ میں خصوصاً آزاد ملکوں میں جہاں ہتھیار وغیرہ بنتے ہوں بہت کامیاب ہو سکتے ہیں چین اور افریقہ کے کئی علاقوں میں ان کی بہت قدر ہوسکتی ہے عرب میں نہیں کیونکہ وہاں کے لوگ تلوار بنانے میں ماہر ہیں۔اسی طرح ڈرائیوری جاننے والوں کے لیے بھی کافی گنجائش ہو سکتی ہے۔کسی ملک میں پہنچ کر کوئی سیکنڈ ہینڈ لاری یا موٹر لے کر فوراً کام شروع کیا جا سکتاہے۔بی اے مولوی فاضل اور میٹرک پاس بھی کام دے سکتے ہیں۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وہ ہاتھ سے کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔پھیری کے ذریعہ پہلے دن ہی روزی کمائی جا سکتی ہے۔ہم تو کچھ مدد بھی دیتے ہیں لیکن ہمت کرنے والے نوجوان تو بغیر مدد کے بھی کام چلا سکتے ہیں……
بیکار لوگوں کو مدد دینے کے ساتھ ان کو کام پر بھی لگایا جائے
میرا ارادہ ہے کہ اس سال کی تحریک میں بے کاری کو دور کرنا بھی شامل کر لیا جائے۔اس وقت غریب اور بے کارلوگوں کو مدد دی جاتی ہے ۔میں چاہتاہوں کہ آئندہ ان کو کام پر لگایا جائے۔ہماری آمد کا بہت سا حصہ تو تبلیغ پر صرف ہوتا ہے،کچھ تعلیم پر،کچھ مرکز کے کارکنوں پر اور اسی طرح لنگر خانہ پر بھی۔سالانہ جلسہ کے اخراجات کو ملا کر پچیس چھبیس ہزار روپیہ خرچ ہوتاہے اس کے بعدغرباء کی امداد کے لیے کم رقم بچتی ہے۔مگر پھر بھی تعلیمی و ظائف وغیرہ ملا کر تیس پینتیس ہزار روپیہ کی رقم صرف ہوتی ہے مگر اتنی بڑی جماعت کے لحاظ سے یہ پھر بھی کم رہتی ہے اور کمی کی وجہ سے کئی لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ کئی شکوے بھی کرتے ہیں ۔حالانکہ مومن کو شکوہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔اُسے چاہیے کہ بجائے دو روپے نہ مل سکنے کا شکوہ کرنے کے ایک جو ملا ہے اس کا شکر کرے۔بہرحال غربا ء کو پوری امداد نہیں دی جاتی اور نہ دی جا سکتی ہے اور اس کی وجہ قلت سرمایہ ہے۔
پس اس تکلیف کا اصل علاج یہی ہے کہ بے کاری کو دور کیا جائے۔میں نے اس کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر اس نے اپنا کام صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ درخواستوں پر امداد دیے جانے کی سفارش کردے۔حالانکہ یہ کام تو میں خود بھی آسانی کے ساتھ کر سکتاتھا بلکہ غرباء چونکہ مجھ سے زیادہ ملتے اور اپنے حالات بیان کرتے رہتے ہیں اس لیے ان سے بہتر طور پر کر سکتاتھا۔پس امدادی رقم کی تقسیم کے لیے کسی امداد کی تو مجھے ضرورت نہیں۔میر ی غرض تو یہ تھی کہ بے کاروں کے لیے کام مہیا کیا جائے……
امداد بے کار ان کے متعلق میرا ارادہ یہ ہے کہ رأ س المال کو خرچ نہ کیا جائے بلکہ بعض نفع مند کاموں پر روپیہ لگاکرجو نفع حاصل ہو وہ اس مد میں خرچ کیا جائے اور بے کاروں کے لیے لوہار، ترکھان،چمڑے کا کام۔مثلاً اٹیچی کیس اور بوٹ وغیرہ بنانا سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے۔ہم سالانہ قادیان کے غرباء پر پندرہ ہزار روپیہ کے قریب صرف کرتے ہیں،پانچ ہزار تو زکوٰۃ کا ہوتاہے پھر کئی ایک کو لنگر خانہ سے روٹی دی جاتی ہے پھر دارالشیوخ کے طلباء ہیں جن کے لیے جمعہ کے روز آٹا جمع کیا جاتاہے ،عیدین کے موقع پر بھی کچھ روپیہ خرچ ہوتاہے اور میں کچھ روپیہ اپنے پاس سے بھی خرچ کرتاہوں اور یہ سب ملا کر قریباً پندرہ ہزار ہو جاتا ہے ،اس کی بجائے اگر ہم فی الحال پانچ ہزار بھی تجارتی کاموں پر لگا دیں تو اس سے بہت زیادہ فوائد ہوں گے۔
بے کاروں کے اندر کام سیکھنے کے بعد قربانی کی روح اور خود اعتمادی پیدا ہوگی اور مانگنے کی وجہ سے جو خِسّت پیدا ہوجاتی ہے وہ دور ہو گی اور پانچ ہزار روپیہ سے ہم سو دو سو آدمی پال سکتے ہیں اور ایسے کام نکالے جائیں گے جن میں عورتیں اور نابینا اشخاص بھی حصہ لے سکیں۔مثلاً ٹوکریاں بنانا،چِکیں بنانا،اِزاربند بنانا وغیرہ یہ ایسے کام ہیں جنہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔اگر شرو ع میں ہمیں نقصان بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔مثلاً ہم نے دس ہزار خرچ کیا اور آٹھ ہزار کی آمد ہوئی تو پھر بھی ہم نفع میں رہے۔کیونکہ ان لوگوں کی اگر ہم روپیہ سے امداد کرتے تو غالباً پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوتی۔اگر اﷲ تعالیٰ اس سلسلہ میں برکت دے تو موجودہ بے کاروں کو کام پر لگانے کے بعد باہر سے بھی بے کاروں کو بلایا جا سکتاہے اور اس طرح یہ کام قادیان کی ترقی کا موجب بھی ہو سکتاہے……
چلنے کی بجائے بھاگیں
میں نے لنڈن کی گلیوں میں کسی آدمی کو چلتے نہیں دیکھا سب بھاگے پھرتے ہیں۔جب میں وہاں تھا تو ایک دن مجھ سے حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہاں کسی آدمی کوچلتے بھی دیکھا ہے ؟میں نے کہا کہ نہیں یوں معلوم ہوتاہے کہ گویا کسی قریبی کے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے اور اسے بجھانے جارہے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے وہ لوگ چلتے ہیں۔پس مجھے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو خود پاگل ہوں اور دوسروں کو پاگل کر دیں۔اتنے بڑے ثواب کا کام ہے کہ ایسے شخص کا نام صدیوں تک زندہ رہ سکتاہے اور اگر روپیہ آجائے تو ایسے لوگوں کی خدمت کرنے سے بھی سلسلہ کو دریغ نہیں ہو سکتا۔مثلاً اگر پندرہ ہزار منافع ہو جائے تو اس میں سے کام کرنے والے کو چار پانچ سو یا ہزار دینے میں بھی کیا عذر ہو سکتاہے؟
معذورں کے سوا کوئی بیکار نہ رہے
گویا اس کام میں دنیوی طورپر بھی فائدہ ہونے کا امکان ہے۔جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ یہ بھی مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کیے جائیں؟میرے ذہن میں تو لکڑی کا کام مثلاً میز کرسیاں بنانا، لوہے کاکام جیسے تالے،کیل ،کانٹے اور اسی قسم کی دوسری چیز یں جو دساور کے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں،چمڑے کا کام یعنی بوٹ،اٹیچی کیس،وغیرہ چیزیں تیار کرانا ہے۔ہماری جماعت میں ہی ان کی کافی کھپت ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ ازار بند،پراندے اور اسی قسم کی کئی دوسری چیزیں ہیں ۔گوٹہ کے استعمال سے میں نے روک دیا ہے لیکن اگر باہر اس کی کھپت ہو سکے تو بھی تیار کرایا جا سکتاہے۔میں نے جہاں تک عقل کا کام تھا یہ سکیم تیار کی ہے باقی تجربہ سے جوحصہ تعلق رکھتاہے اس کے بارہ میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد تجربہ کار دوست اطلاع دیں۔میری تجویز یہ ہے کہ عورت،مرد،بچہ،بوڑھا ہر ایک کو کسی کام پر لگا دیا جائے اور سوائے معذوروں کے کوئی بے کار نہ رہے اس طرح ہجرت کا سامان بھی پیدا ہو سکتاہے اب تو ہم ہجرت سے روکتے ہیں مگر اس صورت میں باہر سے لوگوں کو بلا سکیں گے۔
میں چاہتاہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کما کر کھانے کا عادی ہو۔میرا ارادہ ہے کہ تحریک جدید کے طلبا کو بھی ایسے کام سکھائے جائیں تا ان میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح پیدا ہو۔غریب امیر کا امتیاز مٹ جائے اور نوکری نہ ملے تو کوئی پیشہ ان کے ہاتھ میں ہو۔پڑھے لکھے لوگ آج کل دس دس روپیہ کی چپڑاسی کی نوکری کے لیے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں حالانکہ اس طرح کے کاموں سے وہ سو پچاس روپیہ ماہوار کما سکتے ہیں۔‘‘
جواب دیں