اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

قادیان میں تجارت کا رنگ کس طرح بدلا

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ6؍دسمبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’قادیان کی تجارت کا وہ رنگ جو آج سے بیس سال پہلے تھا آج نہیں۔ آج سے بیس سال پہلے صرف دو تین احمدی تاجر تھے اور وہ بھی ہمیشہ شکوہ کرتے رہتے تھے کہ ان کا کام نہیں چلتا اور یہ کہ وہ مقروض رہتے ہیں۔اٹھارہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارا ایک موروثی مر گیا۔ قانوناً اس کی زمین ہمیں ملتی تھی ہم نے اُس پر قبضہ کرنا چاہا مگر بعض لوگ جو متوفی کے رشتہ دار نہ تھے جبراً اُس کی زمین پر قبضہ کرنے پر آمادہ ہوئے اور انہوں نے ہمارے آدمیوں کا مقابلہ کیا اور ان پر حملہ آور ہوئے اور پھر انہوں نے اسے ہندو مسلم سوال بنا دیااور یوں شکل دے دی کہ گویا احمدی ہندوؤں اور سکھوں پر ظلم کرتے ہیں حالانکہ مرنے والا ہمارا موروثی تھا اور لاولد تھااور اس کی زمین ہمیں ہی ملتی تھی۔ چنانچہ جب عدالت میں یہ معاملہ گیاتو ہمار ا حق تسلیم کیا گیا اور اب تک ہم اس پر قابض ہیں لیکن اس زمین کے جھگڑے کو قومی سوال بنا دیا گیا۔اسی سلسلہ میں ایک مصنوعی فساد کھڑا کر کے یہ مشہور کر دیا گیا کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں۔میں اس قصہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کئی دفعہ میں اس واقعہ کو بیان کر چکاہوں۔بہر حال اُس وقت ایسے سامان پیدا کر دیے گئے تھے کہ اگر مجھے وقت پر معلوم نہ ہو جاتا تو اُس دن بیسیوں خون ہو جاتے۔مگرمیں اُس وقت اتفاقاً گلی کے اوپر کے کمرہ میں کھڑکی کے پاس کھڑاتھااور جب میں نے لوگوں کے دوڑنے کا شور سنا تو انہیں روک دیا انہی ایام میں ہمارے طالب علم ایک دفعہ بڑے بازار سے گزر رہے تھے تو ایک ہندو مٹھائی کے تاجر نے اپنی چھابڑیاں زمین پر پھینک دیں اور یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ احمدیوں نے اس کی دکان لوٹ لی ہے یہ حالات ایسے تھے کہ میں نے سمجھ لیا خداتعالیٰ ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ اس طرح بلا قصور اور خطا جماعت کو بدنام کیا جاتا اور فساد میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی اس خیال پر میں نے اسی مسجد میں تمام دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو اگر تم فساد ات سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ آئندہ ان لوگوں سے تعلق نہ رکھوکہ جو اس طرح تم کو بدنام کرتے ہیں ۔آج اگر انہوں نے مٹھائی کی چھابڑیاں خود زمین پر گِرا کر یہ مشہور کر دیا ہے کہ احمدیوں نے انہیں لیا۔ تو کیا پتہ ہے کہ کل کو کوئی اور تاجر کپڑوں کے تھان گلی میں پھینک کر کہہ دے کہ یہ تھان احمدی لُوٹے لیے جا رہے ہیں۔یا اپنی صندوقچی کے متعلق کہہ دیں کہ یہ احمدیوں نے توڑ ڈالی۔ پس چونکہ ایسے حالات رونما ہو گئے ہیں جن سے فتنوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے اس لیے جماعت کی عزت اور اس کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ خاص احتیاط سے کام لیا جائے۔ پس یا تو آپ لوگ جماعتی ذمہ واری سے سلسلہ کو آزاد کردیں اور جو چاہیں کریں اور یا پھر اپنے پر یہ پابندی کر لیں کہ صرف انہی لوگوں سے لین دین کیا جائے جو ہم سے تعاون اورصلح رکھنے کے لیے تیار ہوں۔میں نے کہا میں آپ لوگوں کو کسی خاص طریق پر مجبور نہیں کرتا ہاں چونکہ آپ لوگوں نے خود میرے پاس بیان کیا ہے کہ بعض ہندوؤں نے اپنی چھابڑیاں زمین پر پھینک دیں اور مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں لوٹ لیا حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی۔اسی طرح آپ لوگ ہی یہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے فتنہ پردازی کے لیے یہ خبر مشہور کر دی کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں اور اس طرح احمدیوں کو اشتعال دلوا کر لڑوانا چاہا۔پس اگر آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو میں اُس جگہ جانے کی اجازت نہیں دے سکتا جہاں اس قسم کے فتنہ کے سامان پیدا کیے جا رہے ہیں۔آپ لوگوں میں سے کوئی شخص اپنی ذمہ واری پر اُدھر جائے تو میں اُسے روکنا نہیں چاہتا۔لیکن وہ اپنا آپ ذمہ وار ہو گا۔جماعت اس کے متعلق کسی قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ جماعت بحیثیت جماعت ایسے فتنوں کے وقت میں آپ کی مناسب امداد کرے تو پھر آپ اقرار کریں کہ آپ ان لوگوں سے سودا نہیں خریدیں گے کہ جو اس قسم کے فساد کھڑا کرتے ہیں صرف ان لوگوں سے سودا خریدیں گے جو آپ کے ساتھ شریفانہ طور پر تعاون کرنا چاہیں گے۔چنانچہ اُسی وقت ایک رجسٹر کھولا گیا اور میں نے کہا جو لوگ یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اپنا سودا صرف احمدی دکانداروں سے یا دوسری اقوام کے ان دکانداروں سے خریدیں گے جو ہم سے تعاون کا اقرار کریں وہ اس میں اپنا نام لکھا دیں اور جو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کے آپ ذمہ دار بن سکتے ہیں یا سب ہندوؤں سے وہ سودا خریدنا چاہتے ہیں اور ہندوؤں اور سکھوں میں انہیں رسوخ حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں کوئی خطرہ نہیں وہ اپنا نام الگ لکھا دیں۔اس پر صرف سات احمدیوں نے کہا کہ ہم ہندوؤں سے سودا خریدیں گے لیکن باقی سب نے کہا کہ خطرہ حقیقی ہے اور ہم ان ہندوؤں سے سودا نہیں خریدیں گے جو ہمارے ساتھ معاہد ہ میں شامل نہ ہوں۔ اس معاہدہ کے مطابق صرف ایک ہندو دکاندار معاہدہ میں شامل ہوا۔باقی نے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین مہینو ں میں ہی احمدیوں کی کئی دکانیں کھل گئیں۔اس وقت سے ترقی کرتے کرتے آج یہ حالت ہے کہ قادیان کی تجارت کا اسی فیصدی حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں ہے اور گو ہماری ظاہر ی تجارت بھی دوسروں سے نمایاں ہے لیکن بعض اندرونی تجارتیں ہیں جیسے بعض عورتیں تجارت کرتی ہیں پھر بعض عارضی طور پر تجارت کر لیتے اور بعد ازاں چھوڑ دیتے ہیں ان تمام تجارتوں کو اگر ملا لیا جائے تو 80 فیصد تجارت احمدیوں کی بنتی ہے ۔حالانکہ اُس وقت ایک فیصدی تجارت بھی احمدیوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔اس میں شبہ نہیں کہ ابتدا میں اس کام کے شروع کرتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بار بار لوگوں کو ہدایتیں دینی پڑتیں اور پھر ان لوگوں کے لیے جرمانے مقرر تھے جو معاہدہ میں شامل نہ ہونے والوں سے سودا خریدتے اور اپنے عہد کو توڑ دیتے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ جماعت کو اس بات کی عادت ہو گئی اب بھی بعض لوگ اس معاہدے کو کبھی کبھی توڑ دیتے ہیں مگر بہت کم اور جو پابندی کرتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ شروع میں بے شک ہمیں نقصان بھی ہوا چنانچہ جماعت کے لوگوں کو مہنگا سودا خریدنا پڑتا بعض دفعہ بٹالہ اور بعض دفعہ امرتسر سے چیزیں منگوانی پڑتیں لیکن آخر نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کا اکثر حصہ احمدیوں کے ہاتھ میں آ گیا اور قادیان کی ترقی جتنی سُرعت سے اس کے بعد ہوئی اتنی سُرعت سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔بلکہ اس معاہد ہ کے نتیجہ میں سینکڑوں آدمیوں کو قادیان میں بسنے کا موقع مل گیا۔کسی کو معماروں کی صورت میں کسی کو نجاروں کی صورت میں کسی کو لوہارو ں کی صورت میں اور کسی کو دکانداروں کی صورت میں اور میں سمجھتاہوں اس تحریک کے نتیجہ میں کم از کم تین ہزار آدمی قادیان میں بڑھے ہیں اور اس سے جو مرکزِ سلسلہ کو تقویت پہنچی اور جماعت کی مالی حالت کی درستی پر اس کا اثر پڑا وہ مزید برآں ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے دوست اب بھی ہمت کریں تو ارد گرد کے دیہات کی تجارت کو بھی اپنے قبضہ میں لا سکتے ہیں۔ پس استقلال سے کام لینے کی ایک مثال قادیان کی موجود ہے اور اُس وقت باربار لوگ کہتے تھے کہ ہندوؤں سے قرض مل جاتاہے احمدی سرمایہ دار نہیں اور احمدی زمیندار کہتے ہیں کہ ان کی گردنیں ساہوکاروں کے قبضہ میں ہیں۔اگر پہلے طریق کو ترک کر دیا گیا تو وہ نوٹس دے کر ہمیں پکڑوا سکتے ہیں۔ یہ سب مشکلات موجود تھیں صرف ملازمت کا سوال نہیں تھا۔لیکن باقی دو باتیں موجود تھیں یعنی ایسی قوم سے مقابلہ تھا جس کے ہاتھ میں سینکڑوں سال سے تجارت چلی آرہی ہے پھر مقابلہ تھا اُن ساہوکاروں سے جن کے قبضہ میں زمینداروں کی گردنیں تھیں۔مگر استقلال اور ہمت سے کام لیتے ہی حالت بدل گئی اور اب یہ حال ہے کہ گو یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ہم غیروں پر ظلم کرتے ہیں مگر مخالفوں کو بھی ہماری طاقت اتنی زیادہ نظر آتی ہے کہ انہوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔اگر ہماری طاقت میں نمایاں فرق نہ ہوتا تو وہ یہ الزام ہم پر کس طرح لگا سکتے تھے۔ان کا یہ الزام لگانا بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اب احمدیوں کی قادیان میں اتنی طاقت بڑھ چکی ہے کہ اگر ہم ان پر یہ الزام لگائیں کہ یہ غیروں پر ظلم کرتے ہیں تو لوگ اسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
غرض مسلمان اگر استقلال سے کام لیں تو اب بھی حقوق حاصل کر سکتے ہیں اور کوئی جھگڑے کی بات نہیں رہتی۔ ہم نے قادیان میں ہندوؤں سے نہ فساد کیا نہ جھگڑابلکہ انہیں یقین دلایا کہ اگر کوئی ہندو دکاندار ہمیں تسلی دلا دے کہ وہ ان جھگڑوں میں شامل نہیں ہو گا تو ہم اس سے بھی معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں چنانچہ جیسا کہ بتا چکا ہوں ایک ہندو دکاندار نے معاہدہ کیا اور ہم اس وقت سے برابر ان سے سودا خریدتے چلے آرہے ہیں وہ صرافے کا کام کرتے ہیں۔ اب تو تحریک جدید کے تحت ہم نے زیور بنوانے ترک کر دیئے ہیں لیکن جب تک زیور بنوائے جاتے تھے تو جماعت کے لوگ عموماً انہی سے بنواتے تھے اور چونکہ زیورات کو بیچنا اب بھی منع نہیں اس لیے اگر زیور بیچے جاتے ہیں تو اکثر انہیں کے پاس ۔میرے پاس جو چندے میں زیورات آتے ہیں یا تحریک جدید میں حصہ لینے کے لیے بعض عورتیں اپنے زیور بھیج دیتی ہیں یا صدقہ و خیرات کی مد میں بعض دفعہ زیور آجاتاہے وہ ہمارا دفتر اکثر انہی کے پاس بھجواتاہے۔پس ہم نے بائیکاٹ نہیں کیااور نہ ہم بائیکاٹ کو جائز سمجھتے ہیں ۔ہم نے صرف فتنہ سے بچنے کے لیے ایک صورت نکالی تھی جو بالآخر کامیاب ہوئی اسی طرح مسلمان بھی کام کر سکتے تھے اور بغیر آپس کے تعلقات کو خراب کرنے کے کام کر سکتے تھے۔مگر کس چیزنے انہیں کام نہیں کرنے دیا صرف عدم استقلال نے ۔ورنہ مسلمان آج بھی وہ قربانیاں کر سکتے ہیں جو یورپ کے لوگ بھی نہیں کر سکتے جس وقت ایک مسلمان کے دل میں غیر ت پیدا ہوتی ہے حیر ت آتی ہے کہ وہ کس طرح انجام سے لاپرواہ ہو کر کام کر جاتاہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 16صفحہ768تا771)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے