حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ20؍دسمبر1935ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’تحریک جدیدکی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بے کار نہ رہیں۔میں نہیں کہہ سکتا میری اس تحریک پر جماعت نے کس حد تک عمل کیا؟لیکن اپنے طور پر میں یہ کہہ سکتاہوں کہ جماعت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو میرے پاس اس کی رپورٹ نہیں پہنچی۔یادرکھو!جس قوم میں بیکاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے۔بیکاری ایک وبا کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک طاعون کا مریض سارے گاؤں والوں کو طاعون میں مبتلا کر دیتاہے۔جس طرح ایک ہیضہ کا مریض سارے گاؤں والوں کو ہیضہ میں مبتلا کر دیتاہے اسی طرح تم ایک بے کا رکو کسی گاؤں میں چھوڑ دو وہ سارے نوجوانوں کو بے کار بنانا شروع کر دے گا۔
جو شخص بے کار رہتاہے وہ کئی گندی عادتیں سیکھ جاتاہے۔مثلاً تم دیکھو گے کہ بے کار آدمی ضرور اس قسم کی کھیلیں کھیلے گا جیسے تاش یا شطرنج وغیرہ ہیں اور جب وہ یہ کھیلیں کھیلنے بیٹھے گا تو چونکہ وہ اکیلاکھیل نہیں سکتا اس لیے وہ لازماً دو چار لڑکوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہے گا اور پھر اپنے حلقہ کو اور وسیع کرتاجائے گا۔
اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہمارے ایک اُستاد تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص تھا بعد میں وہ اسی نقص کی وجہ سے مدعیِ مأموریت اور نبوت بھی ہو گئے۔انہیں بھی کسی زمانہ میں تاش کھیلنے کا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ وہ ہمارے استاد تھے اور ان کا کام یہ تھاکہ ہماری تربیت کریں پھر بھی وہ پکڑ کر ہمیں بٹھا لیتے اور کہتے آؤ تاش کھیلیں۔اس وقت ہم کو بھی اس کھیل میں مزہ آتا کیونکہ بچپن میں جس کام پر بھی لگا دیا جائے اس میں بچے کو لذت آتی ہے لیکن آج یہ بے ہودہ کھیل معلوم ہوتی ہے ۔مجھے یاد ہے بعض اور بچے بھی ان کے ساتھ تاش کھیلتے جب نماز کا وقت آتا تو ہم نماز پر جانے کے لیے گھبراہٹ کا اظہار کرتے لیکن جب انہیں ہماری گھبراہٹ محسوس ہوتی تو کہتے ایک بار اور کھیل لو۔وہ کھیلتے تو تھوڑی دیر کے بعد کہتے ایک بار اور کھیل لو،ہمارے کان میں چونکہ ہر وقت یہ باتیں پڑتی رہتی تھیں کہ دین کی کیا قیمت ہے اس لیے جب ہم دیکھتے کہ نماز کو دیر ہو رہی ہے تو اٹھ کر نماز کے لیے بھاگ جاتے مگر جن کے کانوں میں یہ آوازنہ پڑے کہ دین کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے ان کے ساتھ اگر ایسی کھیلوں میں دوست مل جائیں یا کوئی استاد ہی مل جائے تو ان کی زندگی کے تباہ ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ جس وقت فٹ بال کی کھیل میں مقابلہ ہوتاہے یا کرکٹ میں مقابلہ ہوتاہے یا تاش میں مقابلہ ہوتاہے تو بچے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان کو ترقی دینے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ مقابلہ میں دلچسپی لیتی اور لذت محسوس کرتی ہے۔اگر کبھی چوری کے مقابلہ کی عادت ڈال دو تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ چوریاں زیادہ ہونے لگی ہیں اور لوگوں نے چوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔یہی مقابلہ کی روح ہے جو تاش وغیرہ کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی زندگی برباد کر دیتی ہے ۔غرض تم کسی شہر میں ایک آوارہ کو چھوڑ دو وہ چونکہ بے کار ہوگا اس لیے اپنی بے کاری کو دور کرنے کے لیے کوئی کام نکالے گا کیونکہ انسان اگر فارغ بیٹھے تو تھوڑے ہی دنوں میں پاگل ہو جائے لیکن چونکہ وہ محنت سے جی چراتاہے اس لیے بجائے کوئی مفید کام کرنے کے ایسے کام کرتا ہے جن میں اس کا دن بھی گزر جاتاہے اور جی بھی لگا رہتاہے ۔کہیں تاش شروع ہو جائیں گے،کہیں شطرنج کھیلی جائے گی،کہیں گانا شروع ہوجائے گا،کہیں بانسریاں بجنی شروع ہو جائیں گی،کہیں سارنگیاں اور پھر طبلے بجنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اسے ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی اور ان سے پیچھے ہٹانااس کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ وہ بظاہر ایک آوارہ ہو گامگر درحقیقت وہ مریض ہو گا طاعون کا ،وہ مریض ہو گا ہیضے کا جو نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ ہزاروں اور قیمتی جانوں کو بھی ہلاک کرے گا۔پھر اس سے متاثر ہونے والے متعدی امراض کی طرح اور لوگوں کو متاثر کریں گے اور وہ اَور کو۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ملک کا کثیر حصہ اس لعنت میں گرفتار ہوجائے گا۔
پس بے کاری ایسا مرض ہے کہ جس علاقے میں یہ ہو اس کی تباہی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔پہلا بے کار اس لیے بناتھا کہ اس کے والدین نے اس کے لیے کام مہیا نہ کیا۔لیکن دوسرے بے کار اس لیے بنیں گے کہ وہ ایک بے کار سے متاثر ہو کر اس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور اس کی بد عادات کو اپنے اندر پید اکر کے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھیں گے کہ کہیں بیٹھے تو گالیا اور کہیں سر مار لیا، کہیں تاش کھیل لی،کہیں شطرنج کھیل لیا،کہیں جؤا کھیلنے لگ گئے۔غرض بے کاروں کی تمام تر کوشش ایسے ہی کاموں کے لیے ہو گی جو نہ ان کے لیے مفید نہ سلسلے کے لیے اور نہ مذہب کے لیے۔
بے کاری اقتصادی لحاظ سے لعنت ہے
پھر اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاری ایک لعنت ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دور کرنا چاہیے۔ہمارے ملک کی آمد پہلے ہی 6پائی فی کس ہے اور یہ ہر شخص کی آمد نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی آمد ڈال کر اوسط نکالی گئی ہے اور ان لوگوں کی آمد ڈال کر نکالی گئی ہے جن کی دو تین لاکھ روپیہ ماہوار آمد ہے۔ورنہ اگر ان کو نکال دیا جائے تو ہمارے ملک کی آمد فی کس 3پائی رہ جاتی ہے۔جس ملک کی آمدنی کا یہ حال ہو اس میں سمجھ لو کتنے بے کار ہوں گے اگر ملک کے تمام افراد کام پر لگے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ لیکن اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی دو آنے کماتاہے تو اس پر اتنے بے کاروں کا بوجھ ہوتاہے کہ اپنے لیے اس کی آمد دمڑی رہ جاتی ہے اور جو زیادہ کماتاہے اس کی آمد پر بھی اثر پڑتاہے ۔تو بے کاروں کی وجہ سے ایک تو دوسرے لوگ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ بے کار ان کے لیے بوجھ بنتے ہیں ۔ دوسرے جب ملک میں ایک طبقہ ایسا ہو جو آگے نہ بڑھنے والا ہو تو دوسرے لوگوں کا قدم بھی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتاکیونکہ بیکار مزدوری کو بہت کم کر دیتے ہیں۔ بے کار شخص ہمیشہ عارضی کام کرنے کا عادی ہوتاہے اور جب کسی کی بے کاری حد سے بڑھتی اور وہ بھوکوں مرنے لگتاہے تومزدوری کے لیے نکل کھڑا ہوتاہے لیکن چونکہ اسے سخت احتیاج ہوتی ہے اس لیے اگر ایک جگہ مزدور کو چار آنے مل رہے ہوں تو یہ دو آنے لے کر بھی وہ کام کر دے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارے مزدروں کی اجرت دو آنے ہوجائے گی اور لوگ کہیں گے کہ جب ہمیں دو دو آنے پر مزدو رمل جاتے ہیں تو ہم چار آنے مزدوری کیوں دیں۔پس وہ ایک بے کار ساری دنیا کے مزدوروں کی اجرت کو نقصان پہنچاتا اور سب کو دو آنے لینے پر مجبور کر دیتاہے ،یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں بے کاری زیادہ ہو ان میں مزدوری نہایت سستی ہوتی ہے کیونکہ بے کار مجبور ی کی وجہ سے کام کرتا اور باقی مزدوروں کی اجرتوں کو نقصان پہنچا دیتاہے۔لیکن جن قوموں میں بے کاری کم ہو ان میں مزدوری مہنگی ہوتی ہے۔ تو بے کار اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔بے کار شخص ہمیشہ مانگنے کاعادی ہو گا۔ دوسروں پر بوجھ بنے گا اور اگر کبھی مزدوری کرے گا مزدوروں کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔ پس اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاروں کا وجود سخت خطرناک ہے۔
بے کاروں کا وجود قومی لحاظ سے بھی خطرناک ہے
پھرنہ صرف اقتصادی لحاظ سے بے کاروں کا وجود خطرناک ہے بلکہ قومی لحاظ سے بھی ان کاوجود خطرناک ہے اگر کسی قوم میں دس ہزار میں سے ایک ہزار بے کار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے پاس سو میں سے صرف نوے شخص موجود ہیں اور ان پر بھی دس فیصدی کا بوجھ ہے۔ایسی قوم دنیا کی اور قوموں کے مقابلہ میں جن کا ہر فرد خود کمانے کا عادی ہو کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے ۔نیلامی میں اس قسم کا نظارہ دیکھنے کا موقع مل سکتاہے۔ایک شخص کے پاس ایک سو روپیہ ہوتاہے اور دوسرے کے پاس ایک سو ایک لیکن یہ سو روپیہ پاس رکھنے والا شخص وہ چیز نہیں لے سکتا جو صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے والا اس کا مخالف لے جاتاہے ۔اگر صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے سے نیلامیوں میں مخالف کامیاب ہو جاتا ہے تو جہاں سو کے مقابلہ میں کسی کے پاس نوے روپے ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتاہے ایسے شخص کا شکست کھا جانا یقینی ہے ۔
ہندوؤں کو دیکھ لو ان میں چونکہ بے کار کم ہیں اس لیے وہ ہر مرحلہ پر مسلمانوں کو شکست دے دیتے ہیں ۔ان کی قوم دولت کمانے کی عادی ہے اور گو وہ دنیا کی خاطر دولت کماتی ہے جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے۔ مگر اقتصادی اور قومی طور پر اُس کا نتیجہ ان کے لیے نہایت ہی خوش کن نکلتاہے۔
پس میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جولوگ بے کار ہیں وہ معمولی سے معمولی مزدوری کر لیں مگر بے کار نہ رہیں۔لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کیا گیااور اگر کیا گیا تو بہت کم حالانکہ اگر کوئی شخص بی۔اے ہے یا ایم۔اے اور اسے ملازمت نہیں ملتی اور وہ کوئی ایسا کام شروع کر دیتاہے جس کے نتیجہ میں وہ دو یا پانچ روپے ماہوار کماتاہے تو اس کا اسے بھی فائدہ ہو گا اور جب وہ کام میں مشغول رہے گا تو دوسروں کو بھی فائدہ ہوگااور اس سے عام لوگوں کو نقصان نہیں پہنچے گاجو بے کار شخص سے پہنچتاہے ۔بلکہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے اخلاق درست ہوں گے۔ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا روپیہ جو اس پر صرف کرتے تھے ضائع نہیں ہو گااور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس سے قوم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔غرضیکہ وہ اپنی اخلاقی حالت کو بھی درست کرے گا اور اقتصادی حالت کو بھی۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں جو لوگ اپنے بے کار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہے ہمارے گھر سے روٹی کھا تاہے کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے یا میرا بچہ ہیضہ سے بیمارہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔جس طرح طاعون کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرور ت ہے بلکہ سارے شہر کو حق حاصل ہے کہ اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرے اور اس بیماری کو روکے۔ جس طرح ہیضہ کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سار ا شہر اس بات کا حق رکھتاہے کہ اس کے متعلق گھبراہٹ ظاہر کرے اور اس بیماری کو روکے اسی طرح جو شخص بے کار ہے اس کے متعلق تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے ہم خود روٹی کھلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔بلکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بے کاری کے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ وہ طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں کی طرح دوسرے بچوں کا خون چوستا اور انہیں بد عادات میں مبتلا کرتاہے۔تم ہیضہ کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،تم طاعون کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو،مگر تم ہیضہ اور طاعون کے کیڑوں کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ پھیلیں گے اور دوسروں کو مرض میں مبتلا کریں گے اسی طرح تم یہ کہہ کر کہ ہم اپنے بچہ کو کھلاتے اور پلاتے ہیں اس ذمہ واری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے جو تم پر عائد ہوتی ہے بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے اس بیماری کو دور کر و ورنہ قوم اور ملک اس کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔پس یہ معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے ۔اگر ایک کروڑ پتی کا بچہ بھی بے کار ہے تووہ اپنے گھر کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی تباہ کر تاہے۔
دنیا کا سب سے خطرناک جرم آوارگی بے کاری کانتیجہ ہے
یاد رکھو!تمام آوارگیاں بے کاری سے پیدا ہوتی ہیں اور آوارگی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی جرم نہیں۔میرے نزدیک چور ایک آوارہ سے بہتر ہے بشرطیکہ ان دونوں جرائم کو الگ الگ کیا جا سکے اور اگر چور ی اور آوارگی کو الگ الگ کر کے میرے سامنے رکھا جائے تو یقینا میں یہی کہوں گا کہ چور ہونا اچھا ہے مگر آوارہ ہو نا بُرا۔قتل نہایت ناجائز اور ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اگر میری طرح کسی نے اخلاق کا مطالعہ کیا ہو اور ان دونوں جرائم کو الگ الگ رکھ کر اس سے دریافت کیا جائے کہ ان میں سے کون سا فعل زیادہ برا ہے؟تو یقینا یہی کہے گا کہ قتل کرنا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بُرا کیونکہ ممکن ہے قاتل پر ساری عمر میں صرف ایک گھنٹہ ایساآیاہو جبکہ اس نے جوش میں آکر کسی شخص کو قتل کر دیا ہو لیکن آوارہ آدمی ساری عمر ذہنی طور پر قاتل بنا رہتاہے اور اپنی عمر کے ہر گھنٹہ میں اپنی روح کو ہلاک کرتا ہے۔ تم ایک قاتل کو نیک دیکھ سکتے ہو لیکن تم کسی آوارہ کو نیک نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہو سکتاہے ایک شخص نیک ہو لیکن اس کی عمر میں ایک گھنٹہ ایسا آجائے جبکہ وہ جوش میں آکر کسی کو قتل کر دے اور قتل کے بعد اپنے کیے پر پشیمان ہو اور دوسرے گھنٹہ میں ہی وہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے اور کہے اے میرے رب مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف فرما۔پس ہو سکتاہے وہ معاف کر دیا جائے لیکن آوارہ شخص خداتعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کیونکہ وہ مردہ ہوتاہے اس میں کوئی روحانی حس باقی نہیں ہوتی۔میرے نزدیک دنیا کا ہر خطرناک سے خطرناک جرم آوارگی سے کم ہے اور آوارگی مجموعہ جرائم ہے کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی تمام جرائم کا مجموعہ۔ایک بادشاہ کے ہاتھ کی قیمت بادشاہ کی قیمت سے کم ہے،ایک جرنیل کے ہاتھ کی قیمت جرنیل سے کم ہے۔ اسی طرح ہر جرم کی پاداش آوارگی سے کم ہے کیونکہ جرم ایک جز و ہے اور آوارگی اس کاکُل ہے۔ تم دنیا سے آوارگی مٹا ڈالو تمام جرائم خود بخود مٹ جائیں گے۔
تمام جرائم کی ابتدا بچپن کی عمر سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ آوارگی میں مبتلا ہوتاہے ۔تم بچے کو کھلا چھوڑ دیتے ہو اور کہتے ہو کہ بچہ ہے اس پرکیا پابندیاں عائد کریں؟اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خطرناک جرائم کا عادی بن جاتاہے۔اگر دنیا اپنے تمدن کو ایسا تبدیل کر دے کہ بچے فارغ نہ رہ سکیں تو یقینا دنیا میں جرائم کی تعداد معقول حد تک کم ہو جائے۔لوگ اصلاحِ اخلاق کے لیے کئی کئی تجویزیں سوچتے اور قسم قسم کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ سب ناکام رہتی ہیں اس کے مقابلہ میں اگر بچوں کو کام پر لگا دیا جائے اور بچپن کی عمر فارغ عمر نہ قرار دیا جائے تو نہ چوری باقی رہے،نہ جھوٹ،نہ دغا،نہ فریب اور نہ کوئی اور فعل بد۔بالعموم لوگ بچپن کی عمر کو بیکاری کا جائز زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بے کاری بھی ویسی ہی ناجائز ہے جیسے بڑی عمر میں کسی کا بے کار رہنا۔
بچہ کے کان میں اذان دینے میں ایک لطیف حکمت
چنانچہ ہماری شریعت نے اس کو خصوصیت سے مدنظر رکھا ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے متعلق امت محمدیہ کو ہدایت دی ہے،پاگل اور دیوانے کہتے ہیں کہ یہ بے معنی حکم ہے حالانکہ یہ بہترین تعلیم ہے جو بچوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔ آپ ؐ فرماتے ہیں :جب بچہ پیدا ہوتواس کے دائیں کان میں اذان کہو اور بائیں میں اقامت۔وہ بچہ جو ابھی بات کو سمجھتا ہی نہیں ،وہ بچہ جو آج ہی پیدا ہو ا ہے ،رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج ہی اس سے کام لو اور پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو۔کیا تم سمجھتے ہو کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمہیں اس کے کان میں اذان دینی چاہیے لیکن دوسرے اور تیسرے دن نہیں؟کیا پہلے دن بچہ اذان کو سمجھ سکتاتھا مگر مہینہ کے بعد کم فہم ہو جاتاہے کہ تم اس حکم کو نظر انداز کر دیتے ہو؟یا سمجھتے ہو کہ پہلے دن تو وہ اس قابل تھا کہ اس سے کام لیا جاتا لیکن سا ل دو سال گزرنے کے بعد وہ ناقابل ہو گیا ہے؟جو شخص ہمیں یہ نصیحت کرتاہے کہ تم بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو یقینا وہ اس تعلیم کے ذریعہ ہمیں اس نکتہ سے آگاہ کرتاہے کہ بچہ کا ہر دن تعلیم کا دن ہے اور ہر روز اس کی تربیت کا تمہیں فکر کر نا چاہیے۔مگر امت محمدیہ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا؟ہمیں خداتعالیٰ نے ایسا معلم دیا تھا جس کا ہر ہر لفظ اس قابل تھا کہ دنیا کے خزانے اس پر نچھاور کر دیے جائیں۔ اس نے ہمیں معرفت کے موتی دیے،علوم کے خزانے بخشے،اور ایسی کامل تعلیم دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔مگر افسوس!لو گوں نے اس کی قدر نہ کی۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو پیدا ہوا مگر اس کے کان میں اذان نہ کہی گئی پھر کیوں تم نے اب تک یہ نکتہ نہیں سمجھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیکاری کو سب سے بڑی لعنت قرار دیاہے؟اور تمہار ا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس لعنت سے بچاؤ۔تم دنیا میں دیکھتے ہو کہ جب کارخانہ والوں کے سپرد کوئی مزدور کیا جاتاہے تو وہ اس کانام رجسٹر میں درج کر لیتے ہیں اور اس سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کارخانہ والوں نے کسی مزدو ر کا نام رجسٹر میں درج کر لینے کے بعد اسے دو چار سال کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہو؟اگر نہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمہارے منہ سے کسی بزرگ کے ذریعہ تمہارے بچوں کے کانوں میں اذان دلا کر کہا کہ اب اس کا نام میری امت کے رجسٹر میں درج ہو گیا تم نے اس بچے کا نام رجسٹر میں درج تو کرا لیا مگر پھر اسے کارخانہ سے چھٹی دے دی۔پس اس غفلت اور کوتاہی کا تم پر الزام عائد ہوتاہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نہیں۔ہر نبی اپنی امت کا ذمہ دار ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہو تو اس کے بعد قیامت کے دن اگر محمدصلی اﷲ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ پوچھے کہ اے محمدؐ یہ تیری امت کے بیکار جو چور، قاتل، جھوٹے، دغاباز، فریبی اور مکّار بن گئے اور خون چوسنے والی جونکوں کی طرح انہوں نے ظلم سے دوسروں کی اولادوں کو بھی تباہ کیا ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کہہ دیں گے اے خدا!اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میں نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اسی دن اس کے کان مین اذان دو جس کایہ مطلب تھا کہ اسی دن بچوں کو کام پر لگا دو اور ان کی نگرانی کرو۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو یہ جواب دے کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے دیں گے مگر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہو جائے گی جن کے گھروں میں بے کار بچے رہے اور انہوں نے ان کی بیکاری کو دور کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا۔
پس یہ غلطی ہے کہ ہمارے ملک میں بچپن کے زمانہ کو بے کاری کا زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بچپن کا زمانہ بے کاری کا زمانہ ہے تو پھر چوری چوری نہیں اور فریب فریب نہیں،تمام بدکاریاں اور تمام قسم کے فسق و فجور بچپن میں ہی سیکھے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر کے لیے لعنت کا طوق بن کر گلے میں پڑ جاتے ہیں۔
پس بے کاری کا ایک دن بھی موت کا دن ہے۔جب تک ہماری جماعت ا س نکتہ کو نہیں سمجھتی حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو سمجھانے والے دیے ہیں ،اس وقت تک وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔دیکھو! رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات کہی مگر لوگوں نے نہ سمجھی۔اب میں نے بتائی ہے اور یہ میں آج ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میں مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں کئی دفعہ اس بات کو دہرا چکا ہوں ۔مجھے اﷲ تعالیٰ نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ میں اسلام کے کسی حکم کو بھی لوں اسے ہر دفعہ نئے رنگ میں بیان کر سکتااور نئے پیرایہ میں لوگوں کے ذہن نشین کر سکتاہوں۔مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ تم مختلف رنگوں میں ایک بات سنو مزے لو اور عمل نہ کرو اس کے نتیجہ میں تمہار ا جرم اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمہیں ایک ایسا شخص ملا جس نے ایک ہی بات مختلف دلکش اور مؤثر پیرایوں میں تمہارے سامنے رکھی مگر پھر بھی تم نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔پس تحریک جدید میں مَیں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ بے کاری کو دور کیا جائے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔‘‘
جواب دیں